• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

عیدالفطر 1436ھ ق کی مناسبت سے عالیقدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کا پیغام

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عیدالفطر 1436ھ ق کی مناسبت سے عالیقدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کا پیغام

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العلمین و الصلوة والسلام علی سیدالأنبیاء والمرسلین محمد وعلی آله وأصحابه أجمعین وبعدقال الله تعالی :
﴿ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴾ [الحج:۳۹].
پوری امت مسلمہ ، خصوصا افغانستان کے مسلمان اور مجاہد عوام !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نیک تمناوں اور دعاوں کے ساتھ عیدالفطر اور میدان جہاد کی عظیم فتوحات کی مبارکباد پیش کرتاہوں ۔ اللہ تعالی رمضان المبارک اور اس سے وابستہ تمام عبادات ، صدقات اور اعمال حسنہ قبول فرمائے ۔ آمین یارب العالمین۔
یہ فتوحات پہلے اللہ تعالی جل جلالہ کی نصرت اور پھر افغانستان کے مجاہد عوام کی بے انتہائی قربانیوں ، کوششوں اور تعاون کا نتیجہ ہے ۔ اللہ تعالی سب کو اس کا اجر عطافرمائے ۔
انتہائی شکر اور فخر کا مقام ہے کہ آج اسلام کے مبارک دین کی سعادتوں اور خوشیوں بھرے ایام کی مناسبت سے دل کی باتیں آپ سے شریک کررہاہوں ۔ یہ ایسے دن ہیں کہ جس میں مسلمان ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ، ایک دوسرے کو عافیت کی دعائیں دیتے ہیں اور دینی اخوت کی فضا میں ایک دوسرے سے اخلاص، بھائی چارے اور ہمدردی کا اظہار کرکے مہربانیوں اور شفقتوں کا سلوک کرتے ہیں ۔
فرصت کو موقع غنیمت سمجھ کر امارت اسلامی افغانستان کے رواں جہاد اور مزاحمت کے ماضی اور حال کی مناسبت سے کچھ وضاحتیں آپ سے شریک کرنا چاہوں گا:
1- امریکا کی قیادت میں جارحیت پسند اتحادیوں کی جانب سے افغانستان پر جارحیت امت مسلمہ کے ایک حصے پر تمام انسانی اقدار کے خلاف ایک صریح اور ظالمانہ تجاوز تھا ۔ جس کے خلاف شرعا مقدس جہاد فرض عین ہوگیا ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ… ﴾ [البقرة:۱۹۰].
ترجمہ : اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں ۔
انہیں دینی ہدایات کو دیکھتے ہوئے امریکی جارحیت کے حوالے سے ملک کے ڈیڑھ ہزار سے زائد علماء کرام نے امارت اسلامیہ کو جہاد کا فتوی دیا اور پوری دنیا کے علماء حق نے اس کی تائید کی ۔ اسی فتوی کی بنیاد پر جس طرح جارحیت کے آغاز میں ہم نے جہادی فریضہ پورا کیا آج بھی اسی طرح جہاد فرض عین ہے ۔ کیوں کہ ہمارے ملک پر جارحیت کی گئی ہے اور جارحیت زمین اور فضا پر مسلط ہے ۔ ماضی کی بنسبت صرف اتنا فرق آگیا ہے کہ بیرونی جارحیت پسندوں نے بھاری جانی ومالی نقصانات دیکھنے کے بعد اپنی تعداد کم کردی ہے اور خود کو محفوظ کرکے بڑے مراکز تک محدود کردیا ہے ۔ اور اس کی جگہ ہمارے معاشرے کے چند بے باک وآوارہ ، بیرونی ایجنسیوں کے تربیت یافتہ اجرتی قاتلوں اور ناسمجھ نوجوانوں کو افغان سیکیورٹی فورسز کے نام پر جنگ کے میدان میں اتاردیا ہے ۔ جس کی مالی اعانت ، تربیت اور دباو کے وقت باقاعدہ کمک پھر بھی جارح قوتیں ہی کرتی ہیں ۔ لہذا ہم اب بھی ماضی کی طرح ملک کی آزادی اور اسلامی نظام کی حاکمیت کے لیے مقدس جہاد کے مکلف ہیں ۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ملک کے بہت سے وسیع علاقے مجاہدین نے فتح کردیے ہیں مگر ہماری یہ جہادی مزاحمت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہماراملک مکمل طورپر کفری جارحیت سے پاک ہوگا اور یہاں اسلامی نظام کی مکمل حاکمیت ہوگی ۔
2 – مسلح جہاد کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمی اور مصالحتی تدابیر سے اپنے مقدس اہداف تک رسائی ایک شرعی امر اور نبوی سیاست کا اہم حصہ ہے ۔ ہمارے مبارک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح بدر اور خیبر کے میدانوں میں کفار سے جنگیں لڑی ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مفادات کی خاطر معاہدے بھی کیے ، کفار کے نمائندوں سے مذاکرات کیے ، پیغامات اور سفیر بھیجے حتی کے مختلف مواقع پرحربی کفار کے ساتھ آمنے سامنے بات چیت کی سیاست بھی کی ۔ اگر ہم شرعی ہدایات کو پوری دقت نظر سے دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دشمن سے ملاقاتیں یا کچھ مواقع پر مصالحتی تعامل منع نہیں ہے ۔ بلکہ منع یہ ہے کہ اسلام کے بلند موقف سے تنزل کیا جائے اور شرعی اوامر پامال کردیے جائیں ۔ ہم سیاسی سرگرمیاں اور دنیا کے مختلف ممالک یا افغانوں سے رابطے اور ملاقاتیں اس لیے کررہے ہیں کہ جارحیت اختتام کو پہنچے اور ایک آزاد و خود مختار اسلامی نظام ملک پر حاکم ہوجائے اور یہ ہمارا شرعی حق ہے کہ ہم تمام شرعی طریقوں کا استعمال کریں ۔ کیوں کہ ہماری منظم اور ذمہ دار انتظامیہ کے پیچھے پوری قوم موجود ہے ۔ ہم انسانی معاشرے میں رہتے ہیں ، ایک دوسرے کا احتیاج رکھتے ہیں ۔ مجاہدین اور پوری قوم کو مطمئن رہنا چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے شرعی موقف کا ہر میدان میں پوری قوت سے دفاع کروں گا ۔ سیاسی سرگرمیوں کے لیے سیاسی دفتر بنادیا ہے ، ہر طرح کے سیاسی معاملات آگے بڑھانے کی ذمہ داری انہیں کے ذمہ ڈالدی گئی ہے ۔
3- ہم افغانستان میں جہادی صف کے ایک ہونے پر اصرار کرتے ہیں ، اس لیے کہ ایک تو یہ الہی حکم ہے اور دوسرا یہ کہ گروپوں کی کثرت کی وجہ سے سوویت جارحیت کے خلاف گذشتہ جیتی ہوئی جنگ کی کامیابی اپنے ہاتھ سے نکلتی ہوئی ہم دیکھ چکے ہیں ۔
اللہ تعالی نے جہادی صف کے اتحاد کے متعلق فرمایا :
( إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفّاً كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ (4) الصف.
ترجمہ : بے شک اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد اور منظم ہوکر لڑیں ۔ اور دوسری جگہ نص صریح سے مسلمانوں کو تنازع ، تفرقہ بازی اور آپس کے اختلاف سے منع کیا گیا ہے اور ان سے کہا گیا ہے : ( وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (46) الانفال .
ترجمہ : اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ آپ میں کمزوری پیدا ہوجائے گی ، طاقت اور قوت ختم ہوجائے گی ، صبر سے کام لو ، بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : {لاَ يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ} رواه البخاري.
ترجمہ : مومن ایک غار سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔
لہذا ہمارے ملک میں جہادی صف کو متحد رکھنا ایک شرعی فریضہ ہے ۔ اس لیے ہم نے تمام مجاہدین کو حکم دے دیا ہے کہ اپنا اتحاد مضبوط رکھیں اور جو لوگ اختلاف کرتے ہیں ، جہادی صف خراب کرتے ہیں یا مجاہدین کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا راستہ سختی سے روکیں ۔
4 – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا” وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، “بِحَسْبِ امْرِئٍ مِن الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ ) رواه مسلم و احمد .
ترجمہ: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے ، نہ اس کی مدد سے پیچھے ہٹتا ہے ، نہ اسے ذلیل کرتا ہے نہ اس کی تحقیر کرتا ہے ، تقوی یہاں پر ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کیا ، مسلمان کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان کو ذلت کی نگاہ سے دیکھے ، ہر مسلمان کا خون ، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔
مذکورہ بالا ارشاد نبوی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسلامی معاشرے کے رکن کی حیثیت سے ہر مسلمان کو بھائی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اور اقلیتوں سمیت تمام افغانوں کے شرعی حقوق کو ایک دینی ذمہ داری کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ امارت اسلامی کی تشکیلات میں ملک کے تمام حصوں اور تمام لسانی طبقات سے صالح اور سمجھدار لوگ شریک ہیں ، جوگذشتہ 36 سالہ تجربات اور پھر آخری بیس سالوں کی ذمہ داریوں سے بہت کچھ حاصل کرچکے ہیں ۔ لہذا کوئی اس تشویش کا شکار نہ ہو کہ اگر امارت اسلامی کی حکومت آگئی تو کیا ہوگا ۔ میں آپ سب کو اطمینان دلاتاہوں کہ آنے والا انقلاب ایسا نہیں ہوگا جس طرح کمیونسٹ حکومت کے خاتمے سے سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا تھا ۔اس دور کی طرح آج کے جہادی صف میں اختلافات نہیں ہیں ۔ اس بار ملک کے ہر شعبے میں ہونے والی شرعی اور قانونی ترقی کو برقرار رکھا جائے گا ۔ قومی دولت اور عوام کی ذاتی جائیدادوں اور املاک کی حفاظت کی جائے گی اور سب کو اپنی جائیدادوں پر بحال رکھا جائے ۔ تمام اقوام اور شخصیات کی حیثیت کو احترام دیا جائے گا۔ افغانوں کی دینی اور دنیوی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جوابدہ ، شفاف ، پیشہ ورانہ مہارتوں سے لیس اور تمام افغانوں کی نمائندگی کو شامل حکومت قائم کی جائے گی ۔ ہماری کوشش ہے کہ تمام پڑوسی اور عالمی ممالک کے ساتھ اسلامی اصولوں اور قومی مفادات کی روشنی میں دوطرفہ تعلقات قائم کریں اور افغانستان کو غیروں کے شر اور داخلی اختلافات سے نجات دلادیں ۔
5- کچھ حلقے مجاہدین پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ پاکستان اور ایران کے لوگ ہیں ۔ ان کے یہ خیالات اور الزامات انتہائی ظالمانہ اور خلاف حقیقت ہیں ۔ کیوں کہ ہماری گذشتہ تاریخ اور رواں صورتحال ان دعووں کی تصدیق نہیں کرتی ، اور آئندہ کی تاریخ بھی اس تہمت کے خلاف گواہی دے گی ، ان شاء اللہ۔
ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ہمیشہ پاکستان ، ایران بلکہ تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہے ہیں ، پاکستانی اور ایرانی عوام کی طرح دیگر پڑوسی ممالک ، خطے اور عالمی اقوام کی ہمیشہ سے بھلا چاہی ہے اور اب بھی چاہتے ہیں ۔ یہ ہماری طے شدہ پالیسی ہے جو سب کے مفاد میں ہے ۔
اس حوالے سے اصحاب دانش سے میرا مطالبہ ہے کہ دشمن کے انٹیلی جنس اداروں کے اس نامعقول پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں ، اپنے عظیم قابل فخر کارنامے غیروں سے منسوب نہ کریں ۔ اتنی بڑی جنگ جس نے بدخشان سے قندہار، فاریاب سے پکتیا اور ہرات سے ننگرہار تک پورے ملک کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے یہ غیروں کی مدد سے لڑنا ممکن ہوتا یا بیرونی امداد کوئی اثر دکھاتی تو اس سے کابل انتظامیہ کے درد کو کوئی چارہ ضرور ملتا جس کے گرد پچاس ممالک کا حصار قائم ہے ۔ اسلحہ سے لے کر افرادی قوت تک سب کچھ انہیں باہر سے ملتا ہے ، یہاں تک کہ ان کے رہنماوں کی بھی پرورش اور تربیت وہیں ہوئی ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ان کے قدم نہ جماسکی ، اور آئے دن علاقے ان کے ہاتھوں سے نکلے جارہے ہیں ۔ ہمارے ساتھ اللہ تعالی کی مدد ، مومن عوام کا تعاون اور جہادی روحانیات اور جذبہ شامل حال نہ ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ یہ غیر متوازن جنگ دنیا کی بڑی عسکری قوتوں کے خلاف ایک یا دو ممالک کی خفیہ اورجزئی تعاون کی زور پر چودہ سال تک لڑی جاتی ؟ یقین کریں عقل سلیم اسے تسلیم نہیں کرتی ۔
اس لیے مسلمان بھائی چاہے وہ ہم سے دور ہوں یاقریب ، دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں ، دشمن انتہائی مکار اور چالاک ہےجو مسلمانوں اور اسلامی تحریک کے خلاف اپنا پروپیگنڈہ بہت مہارت سے عام لوگوں تک پہنچاتا ہے ۔ مگر مسلمانوں ہوشیار اور اپنی ایمانی فراست سے لیس رہیں ۔
کچھ لوگ انتہائی غلط طورپر اور بلا کسی قابل ذکر دلیل کے امارت اسلامیہ کو نئی ترقی ، عصری علوم اور وسائل کا مخالف سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ امارت اسلامی کے دور حکومت میں عصری سکولوں اور اعلی تعلیم کے حصول کے اداروں کی تعداد اور مصارف دینی مدارس سے زیادہ تھے ۔ ملک کا بیس فیصد بجٹ سالانہ تعلیم کے لیے مختص تھا۔ ہمارے دینی علماء عصری علوم کی سیکھنے کی سفارش اور حمایت اس لیے کرتے ہیں کہ اسلام نے اسے ضروری قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالی کا پاک ارشاد ہے :
( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ… ) الانفال ۶۰
ترجمہ : اور تیار کرو ان کے لیے اپنی بساط کے مطابق قوت ، اور گھوڑے ، جس سے تم ہیبت ڈالو اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر ۔
مذکورہ بالا ارشاد مبارکہ کے مطابق جس میں اللہ تعالی فرمارہے ہیں تیاری کرو ، تو موجودہ دور میں جہاد ایک اہم فریضہ ہے ۔ وہ اسباب جس سے دشمن کو اچھی طرح سے مارا جاتا ہے وہ عصری تعلیم اور نئے تجربات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور نہ اس کا استعمال اس کے بغیر ممکن ہے ۔ اسی طرح مجاہدین زخمیوں اورعام مسلمانوں کا علاج معالجہ اور عام زندگی کے مختلف فنی ، تیکنیکی ، صنعتی ، زراعتی اور دیگر شعبوں میں دشمن کے احتیاج سے خلاصی معاصر دور میں مسلمانوں کی صحیح خدمت ہے اور اسلامی معاشرے کوخود کفیل بنانا عصری علوم کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہماری فقہ کا تسلیم شدہ قاعدہ ہے کہ ” ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب، جس کے بغیر واجب کی تکمیل نہ ہو وہ واجب ہے “۔ لہذا امارت اسلامی شریعت مقدسہ کی روشنی میں عصری علوم اور وسائل کی اہمیت کی قائل ہے اور اس پر اصرار کرتی ہے ۔ اسی لیے مجاہدین وطن عزیز میں نئی نسل کی دینی اور عصری تعلیم کے لیے اپنے علاقوں میں ممکنہ وسائل مہیا کریں ۔
7- مجاہدین کو ایک بارپھر یہ بات بتادینا چاہتا ہوں کہ دو باتوں پر اگر عمل کروگے تو آخری فتح تمھاری ہوگی ، ایک یہ کہ اپنے تمام اعمال میں اللہ کی رضا مدنظر رکھو ، دین ، وطن ، امارت اور اپنی قیادت کے ساتھ مخلص اور وفادار رہو یہی دینی ہدایت ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ( يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُواْ اللَّهَ یَنصُرْکمْ وَ یُثَبِّتْ أَقْدَامَکمْ.) محمد ۷
ترجمہ: اے ایمان والو اگر تم اللہ )کے دین( کی مدد کروگے تو )اللہ( تمھاری مدد کرے گااور تمھارے قدم مضبوط کرے گا۔
دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
( لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَلم يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا )ترمذي.
ترجمہ:وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے ، یعنی وہ امت محمدیہ میں سے نہیں ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے برات کا اعلان کررہے ہیں ۔
اپنے عوام سے نرمی ، محبت اور خلوص سے پیش آو، بڑوں کووالدین اور چھوٹوں کو بھائیوں اور بچوں کی نگاہ سے دیکھو۔ عام لوگوں کے جان ومال کی حفاظت آپ کا اسلامی اور انسانی فریضہ ہے ۔ خصوصا اپنے عسکری منصوبوں میں عوامی نقصانات کی روک تھام پر توجہ دیں ۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جن لوگوں نے اللہ کے دین سے خیانت کی ، مومن مجاہد عوام کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا اور اسلامی اخلاق کو پامال کیا ہے ان کو یہاں کبھی قدم جمانے کا موقع نہیں مل سکا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ( أکمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً ) رواه ابوداود
ترجمہ: مسلمانوں میں کامل ایمان والا شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں ۔
اس لیے عوام کے دل اچھے اخلاق سے جیتو۔
8 ۔ مجاہدین بھائیو ! ابھی جب اللہ تعالی نے فتوحات کے دروازے تم پر کھول دیے ہیں تو کوشش کرو کہ مخالف صف کے لوگوں کودعوت کے ذریعے باطل راہ سے نجات دلاو۔ ان کو حفاظت اور باعزت زندگی کے راستے مہیا کرو۔ انہیں مارنے کی بجائے ان کی اصلاح سے خوش ہو ، کیوں کہ ان کے خاندانوں اور یتیموں سے ہمارے معاشرے میں دکھ اور بڑھے گا۔ ان کی کفالت بھی تمھارے ہی ذمہ ہوجائے گی ۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو غصہ کو برداشت اور عفو کرتے ہیں:
( وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ)‌ آل عمران (134)
ترجمہ: اور )اللہ سے ڈرنے والے لوگ( غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں ، اللہ تعالی ایسے نیک لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔
9 ۔ پوری دنیا خصوصا افغانستان کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ فتوحات کے اس شروع ہونے والے سلسلے میں جس طرح گذشتہ 14 سال تک جان ومال سے مجاہدین کی مدد کی ، اب پہلے سے بھی زیادہ ان کی مدد اور ان کا تعاون کریں ۔ اس بات پر تمھاری توجہ رہے کہ جہاد ہم میں سے ہر شخص پر فرض عین ہے ۔ اگر کوئی شخص خود جہادی محاذ پر نہیں جاسکتا وہ ایک مجاہد کی تیاری اور جہادی صفوں کے ساتھ مالی ، سیاسی اور ثقافتی وابلاغی طریقوں سے تعاون کرکے جہادی فریضہ ادا کرسکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مَنْ جَهَّزَ غَازِياً فِي سَبِيلِ الله فَقَدْ غَزَا، وَمَنْ خَلَفَ غَازِياً فِي سَبِيلِ الله بِخَيْرٍ فَقَدْ غَزَا ) متفق علیه
ترجمہ : جس نے اللہ کی راہ کے مجاہد کو وسائل تیار کرکے دیے اس نے جہاد کیا اور جس نے کسی مجاہد کے گھر کی اچھی کفالت کی بے شک اس نے جہاد کیا ۔
10۔ آخر میں اسلامی ممالک کےرہنماوں اور عام مسلمانوں سے امید رکھتا ہوں کہ آپس میں بھائی چارہ اور اتفاق پیدا کریں ۔ اپنے آپس کے اختلافات سے اپنی صف کمزور نہ کریں ۔ برداشت ، حوصلہ ، تدبر اور اسلامی شریعت کی پابندی کی سیاست اختیار کریں ۔ اور تمام صاحب ثروت مسلمانوں سے امید رکھتا ہوں کہ عید کی خوشیوں میں شہداء ، اسیروں ، معذوروں ، غریبوں اور محاذوں پر بر سرپیکار غازیوں کے خاندانوں سے ہمہ پہلو تعاون کریں ۔ عید کی خوشیوں میں انہیں اپنے ساتھ شریک کریں ۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ اور اس طرح دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کریں ۔ اپنی طرح غیروں کے بھی خیر خواہ رہو کیوں کہ یہی خیر اندیشی فلاح اور کامیابی کا راستہ ہے :
( وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) الحج – ۷۷
ترجمہ : اور نیک کام) اچھے اخلاق اور صلہ رحمی( کرو تاکہ فلاح پاو۔
ایک بارپھر تمام مسلمانوں کو عید مبارک ، اللہ تمہاری عبادتیں قبول فرمائے ۔

واالسلام
خادم اسلام امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد
۲۷ رمضان المبارک ۱۴۳۶ ه ق
2015/7/14 م
 
Top