• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(قادیانیوں میں علیحدگی پسندی کا رجحان/ مسلمانوں سے قادیانیوں کا معاشرتی بائیکاٹ )

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں میں علیحدگی پسندی کا رجحان/ مسلمانوں سے قادیانیوں کا معاشرتی بائیکاٹ )
مزید یہ کہ میں نے مرزاناصر احمد سے علیحدگی پسندگی کا رجحان رکھنے کے متعلق باربار سوال کیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اسے پورا پورا موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ واضح کرے کہ احمدیوں یا قادیانیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ احمدیوں کے ہاں ایک متوازی نظام موجود ہے۔ بعینہ اسی طرح جیسا کہ عیسائیت اور اسلام میں ہے۔ احمدیت کا اسلام کے مقابلے میں متوازی نظام موجود ہے اور یہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مرزاصاحب اپنی ایک الگ امت بنارہے تھے۔ اس کی ایک اور مثال ہے۔ ۱۹۰۱ء میں مرزاصاحب نے اپنے پیروکاروں کو مردم شماری میں ایک الگ فرقہ کے طور پر رجسٹر کروانے کا حکم دیا جو کہ اپنے آپ کو ’’احمدی مسلم‘‘ کہتے تھے۔ جناب والا! مرزابشیرالدین محمود احمد نے کہا تھا اور یہ بات میں نے مرزاناصر احمد کو بطور حوالہ پیش کی تھی کہ: ’’ہمارا اﷲ! ہمارا نبی، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا حج، ہمارا روزہ، ہماری زکوٰۃ، غرض ہماری ہر چیز دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہے۔‘‘
میں نہیں سمجھتا اس کا مطلب کیا ہے۔ مرزاناصر احمد نے کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ان (اﷲ، نبی، قرآن، نماز، حج، روزہ، زکوٰۃ) کی خود تعبیر کرتے ہیں۔ اس نے (جماعت احمدیہ کی) علیحدگی پسندگی کے رجحانات کے متعلق بہت سی وضاحتیں کیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً سیاسی میدان میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر کی حمایت کرتے رہے ہیں اور یہ بات کمیٹی کے زیرغور آنا چاہئے۔ اس (مرزاناصر احمد) نے ایک طویل تاریخ بیان کی۔ سر ظفر اﷲ کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ اپنے والد مرزابشیرالدین محمود احمد کی کشمیر کمیٹی میں خدمات کا ذکر کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ ڈاکٹر اقبالؒ نے اس کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیونکہ قادیانی اس کمیٹی کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مرزاناصر احمد کا زور اس بات پر تھا کہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر کام کیا ہے اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مرزابشیرالدین محمود احمد نے ایک خطبہ میں جو کہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء کے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ کہا تھا کہ اگر برٹش گورنمنٹ نے مسلم لیگ کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اسے مسلم قوم کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور وہ (قادیانی) مسلم قوم کی حمایت کریں گے۔ یہ یقینا مسلمانوں کی حمایت کے مترادف ہے۔ مگر اخبار کے اسی شمارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ یہ کہتا ہے تو اسی وقت اپنا ایک ایلچی وائسرائے کے پاس بھجوا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جس طرح عیسائیوں اور پارسیوں کو نمائندگی دی گئی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’’ہمارے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے۔‘‘ اور برطانوی وائسرائے یا کوئی دوسرا اعلیٰ عہدیدار اس کو یا اس کے نمائندہ کو جواب دیتا ہے۔ ’’آپ ایک مسلم فرقہ ہیں جو کہ اقلیت میں ہے۔ مذہبی اقلیت۔‘‘ مرزابشیرالدین محمود احمد نے جواب دیا کہ احمدیوں کے مفادات کا بھی اسی طرح تحفظ کیا جائے۔ ’’اگر وہ ایک پارسی پیش کریں گے تو میں ہر ایک پارسی کے مقابلہ میں دو احمدی پیش کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ استدلال انہوں نے خود اختیار کیا ہے۔ جناب والا! اس نقطہ پر میں پھر ڈاکٹر محمد اقبال کا حوالہ دوں گا۔ وہ فرماتے ہیں: ’’قادیانیوں کی علیحدگی پسندی کے اس رجحان کے مدنظر جو کہ انہوں نے مذہبی اور سماجی معاملات میں تو اتر کے ساتھ اس وقت سے اختیار کر رکھا ہے۔ جب سے (مرزاغلام احمد) کی نبوت کو ایک نئی جماعت کے جنم کی بنیاد بنایا ہے اور اس رجحان کے خلاف مسلمانوں کے شدید ردعمل کے پیش نظر یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ازخود قادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین اس بنیادی اختلاف کا نوٹس لے اور مسلمان قوم کی جانب سے کسی رسمی احتجاج کا انتظار نہ کرے۔ مجھے اس بارے میں حکومت کے سکھ قوم کے بارے میں کی گئی کاروائی سے حوصلہ ملا ہے۔ ۱۹۱۹ء تک سکھ قوم کو ایک الگ سیاسی اکائی نہیں مانا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں سکھ قوم کی طرف سے کسی رسمی احتجاج کے بغیر ہی انہیں یہ درجہ دے دیا گیا تھا۔ باوجود اس امر کے کہ لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ سکھ، ہندو ہیں۔‘‘
جناب والا! علامہ محمد اقبال کی رائے میں قادیانی خود ہی اپنے کو ایک علیحدہ مذہبی جماعت قرار دئیے جانے پر اصرار کرتے رہے ہیں اور اس میں اس اعتراض کا بھی جواب ہے کہ ایوان کو انہیں علیحدہ مذہبی جماعت قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اس لئے کہ لاہور ہائی کورٹ اور پریوی کونسل نے فیصلہ دیا تھا کہ سکھ قوم ہندو قوم کا حصہ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے سکھوں کو الگ قوم قرار دے دیا تھا۔ پارلیمنٹ ایسا کرنے کی مجاز ہے۔ یہ بات بھی کمیٹی کے ذہن نشین رہنی چاہئے۔ جناب والا! قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبال مزید فرماتے ہیں: ’’ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام اﷲ کا بھیجا ہوا دین ہے۔ لیکن اسلام کا وجود بطور ایک قوم اور معاشرہ تمام تر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کا مرہون منت ہے۔ میرے خیال میں قادیانیوں کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ صاف صاف بہائیوں کا طریقہ اختیار کریں یا اسلام کے نبوت کے ختمیت کے نظریے کو ترک کر دیں اور اس سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا مقابلہ کریں۔ ان (قادیانیوں) کی طرف سے شاطرانہ تعبیریں محض اس خواہش کے باعث کی جارہی ہیں کہ وہ اسلام کی گود میں بیٹھ کر سیاسی فوائد حاصل کریں۔‘‘
جناب والا! علامہ محمد اقبالؒ آگے فرماتے ہیں: ’’دوسری بات جسے ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ قادیانیوں کی اپنی پالیسی اور عالم اسلام کے بارے میں ان کا رویہ ہے۔ تحریک احمدیہ کے بانی نے مسلمان قوم کو ’’سڑا ہوا دودھ‘‘ اور اپنے پیروکاروں کو ’’تازہ دودھ‘‘ کے نام سے پکارا اور موخرالذکر کو اوّل الذکر کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کیا۔ اس کے علاوہ ان کا بنیادی عقائد سے انکار۔ ان کا اپنے آپ کو نیا نام (احمدی) بطور جماعت دینا۔ ان کا عام مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شرکت نہ کرنا۔ مسلمانوں سے شادی بیاہ کے معاملات میں بائیکاٹ وغیرہ، وغیرہ! اور سب سے بڑھ کر ان کا اعلان کہ تمام عالم اسلام کافر ہے۔ یہ تمام باتیں بلاشبہ قادیانیوں کی (بطور قوم) اپنی علیحدگی کا اعلان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ وہ (قادیانی) اسلام سے کہیں زیادہ دور ہیں۔ بہ نسبت سکھوں کے ہندوؤں سے دوری کے۔ سکھ کم ازکم ہندوؤں سے شادی بیاہ تو کرتے ہیں۔ گو وہ ہندوؤں کے مندروں میں عبادت نہیں کرتے۔‘‘
جناب والا! تو علامہ اقبال کے یہ نظریات ہیں۔ میں یہ معروضات کر رہا ہوں کہ وہ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ میں نے پورے احترام کے ساتھ مرزاناصر احمد کو اس ریزولیوشن کی طرف نشاندہی کی تھی جو انگلینڈ میں ربوہ کے واقعہ کے بعد احمدیوں نے پاس کیا تھا۔ جس میں انہوں نے اپنے آپ کو ’’احمدی مسلمان‘‘ کہا اور ’’پاکستان کے غیراحمدی مسلمانوں‘‘ کی مذمت کی۔ انہوں نے ان کا ذکر بطور پاکستانی کے کیا تو یہ ہیں وہ حالات جس میں انہوں نے خود کو مقید کر رکھا ہے۔
 
Top