• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی / مرزائی جماعت کا ہر خلیفہ دردناک / بدترین موت کا شکار ہوتا ہے۔ ایک سابق قادیانی کا انکشاف

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
قادیانی جماعت کا ہر خلیفہ دردناک موت کا شکار ہوتا ہے۔ ایک سابق قادیانی کے انکشافات


میں پیدائشی قادیانی تھا۔جس کا مجھے دکھ ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ۵۵سال قادیانی ماحول میں گزارے جس کا مجھے پچھتاوا ہے، پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی گزری ہوئی زندگی ایک خوفناک اژدھے کی مانند دکھائی دیتی ہے جس نے زندگی کی تمام خوصورتیوں کو نگل لیا ہو۔
مجھے بچپن سے ہی جھوٹ سے شدید نفرت ہے اور قادیانیت کی چونکہ
بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اس لیے مجھے قدرتی طور پر قادیانیت سے نفرت تھی۔ میں نے کبھی بھی قادیانیت کی تبلیغ نہیں کی۔ نہ ہی کسی الزام لگنے پر قادیانیت کا دفاع کیا۔ کیونکہ بطور قادیانی جتنا اندر سے قادیانیت کو میں جانتا تھا کوئی مسلمان تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں جانتا۔ پھر بھی میں ’’روایتی قادیانی‘‘ کی سی زندگی گزار رہا تھا۔ یہ ’’روایتی قادیانی‘‘ کون ہیں؟ یہ دراصل عام قادیانی میں جو مرزا صاحب اور ان کے جانشینوں کی جعلی نبوتوں خلافتوں اور حماقتوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ خاموشی سے زندگی گزارے چلے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ میں ایسے مرزائیوں کی کثرت ہے۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی ان کے نام نہاد خلفاء اور قادیانیوں کی ام المؤمنین(معاذ اللہ) اور چھوٹی آپا اور بڑی آپا کو اپنی نجی محفلوں میں ننگی گالیاں دیتے ہیں لیکن جماعت کے عہدیداروں کے سامنے ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک دوہری زندگی گزار رہے ہیں جو کہ بجا طور پر منافقت کی زندگی ہے۔ ان کے اعصاب اس دوہری اداکاری سے ٹوٹ چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب خاتم الانبیاء محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مجھے قادیانی زندگی کے عذاب سے نکالاجس کے لیے میں اللہ عزو جل کا بے شمار شکر ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ باقی قادیانیوں کو بھی اس مصیبت سے نکالے۔ آمین یہ قادیانی بے چارے بے حد مجبور ہیں۔ ان کے آپس میں رشتے ہیں جنھوں نے انھیں مجبور کر رکھا ہے کہ خاموشی سے جماعت احمدیہ کے اندر ہی زندگی گزاریں۔ بعض نے تو مجبوری کی بنا پر جماعت احمدیہ کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ مثلاً میں نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار قادیانی کو ڈنمارک کے محمد اسلم علی پوری صاحب کا مضمون پڑھنے کے لییدیا تو اس نے کہاہم نے جماعت نہ چھوڑنے کا اور جماعت کے خلاف مضامین نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ سچ کا تو سامنا کرو۔ کہنے لگا کہ ہم سچے ہیں یا جھوٹے ہم بہرحال یہ جماعت نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا مرنا رشتہ داری سب کچھ جماعت کے اندر ہی ہے ہم کہاں جائیں؟ میں نے کہا کہ تمہیں خوف ہے کہ سچ پڑھ لو گے تو جھوٹ بھاگ جائے گا ضمیر ملامت کرتا رہے گا۔ میں یہ منافقانہ زندگی گزارتے تنگ آچکا تھا۔ آخر خدا تعالیٰ کو مجھ پر ترس آگیا اور اس نے مجھے جماعت احمدیہ سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔ جب میں نے جماعت احمدیہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کیا تو انھیں بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی قادیانیت چھوڑ کر اسلام کے دامن میں پناہ لے لیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بڑی جرات کا کام ہے ہمارے ماں باپ بہن بھائی بیویاں بیٹیاں داماد اور سب رشتہ دار دوست احمدی ہیں ہم ان سب کو چھوڑ کر احمدیت سے نکلنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا کہ تم منافقت کی زندگی گزار رہے ہو اسی سے تو یہ زیادہ آسان ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے جماعت احمدیہ کو خیر باد کہہ دو اور حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دو ۔ لیکن وہ یہ جرأت نہ کر سکے اور جب میں نے احمدیت یعنی قادیانیت چھوڑی تو وہ مجھ پر رشک کرتے تھے۔ کیونکہ وہ قادیانیت کے چنگل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں وہ جھوٹ کو سچ کہنے پر مجبور ہیں۔ وہ جماعت کو چندے ادا کرنے سے تنگ ہیں اس مہنگائی کے دور میں غریبوں سے زبردستی چندہ لینا کہاں کی شرافت ہے؟

شرافت کی جبیں پر ہے پسینہ !

میں نے اپنے قادیانی دوستوں کو جب مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی اور جھوٹی نبوت کے بارے میں لٹریچر بھیجا تو انھوں نے مجھے کہا ہمیں لٹریچر دے کر کیا آپ نے ہمارے وارنٹ نکلوانے ہیں؟ میں نے انھیں کہا کہ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا سمجھتے ہو؟ تو وہ مرزا صاحب اور ان کے متعلقین کو ننگی گالیاں دینے لگے۔ میں ان لوگوں کا نام نہیں لینا چاہتا وگرنہ ان کے لیے مشکلات کھڑی ہو جائیں گی ان کا ناطقہ بند کر دیں گے مجھے ان پر ترس آتا ہے وہ میری تحریریں پڑھ کر مسکراتے ہیں۔
الفاظ کے پردے میں ہم جن سے مخاطب ہیں وہ جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے۔جماعت احمدیہ کے بعض سادہ دل لوگ بڑوں کی بددعا اور لعنتوں سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ جماعت احمدیہ کے راہنماؤں کا وطیرہ ہے کہ وہ شروع سے ہی اپنے مخالفوں کو موت سے ڈراتے ہیں۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے زندہ رکھے جسے چاہے اپنے ہاں بلا لے۔ اس لیے وہ کسی ایسی موت کی دھمکی سے نہیں ڈرتے اور اسے ان کی دماغی بیماری سے تعبیر کرتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے بڑے جماعت چھوڑ کر چلے جانے والوں اور جماعت کے اندر رہ کر ان کی مخالفت کرنے والوں کے لیے بددعائیں کرتے ہیں لعنتیں بھیجتے ہیں اور دنیا میں ان کے ذلیل و خوار ہونے کی پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں اور کرتے چلے آئے ہیں۔ جب کہ ختم نبوت کی حفاظت کرنے والے ہمیشہ سرخرو ہوتے ہیں اور یہ ذلیل و خوار!
مرزا غلام احمد قادیانی نے امام مہدی ، مسیح موعود نبی رسول کرشن ہونے اور اس طرح دوسرے مختلفدعوے کیے۔ یہ بیمار ذہنیت کا آدمی تھا جو خود کو حاملہ ہو جانے اور حضرت عیسیٰ کی روح اپنے اندر نفخ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔(کشتی نوح مندرجہ روحانی خزائن جلد۱۹،صفحہ ۵۰از مرزا غلام احمد قادیانی)
مرزا قادیانی کا ایک صحبت یافتہ قاضی یار محمد لکھتا ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی (مردانہ) طاقت کا اظہار فرمایا تھا۔ سمجھنے کے لیے اشارہ کافی ہے۔‘‘ (اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر۱۳۴،ازقاضی یار محمد)

جب سے یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے۔ گھٹیا سے گھٹیا ذہنیت کے کسی شخص نے بھی خالق کائنات اللہ وحدہ لا شریک کی پاک ہستی پر ایسا گندا ،گھناؤنا، کفریہ اور شرمناک الزام نہیں لگایا۔ ہو سکتا ہے یہ شیطان ہو جس نے مرزا صاحب کے ساتھ یہ جنسی ڈرامہ کھیلا ہو ۔ مرزا کے گندے خیالوں اور گندی حرکتوں کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے خوفناک عذاب سے دیا اور دنیا ہی میں اپنی نجاست کے ڈھیر پر اس نے آخری سانس لیا۔ (سیرۃ المہدی،جلد۱صفحہ ۱۱،ازمرزا بشیر احمد ولد مرزا غلام احمد ،روایت نمبر۱۲)

کاش مرزائی مرزا صاحب کے خاتمہ کے حالات پڑھ کر ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیں اور قادیانیت کو خیر باد کہہ دیں! مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ہونے کے بعد ان کے پہلے گدی نشین حکیم نور الدین تھے جن کو قادیانی جماعت’’خلیفہ اول‘‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے بیٹے کی روایت کے مطابق حکیم نور الدین انتہائی گندے شخص تھے جو مدتوں نہیں نہاتے تھے۔ یہ ’’بدبودار قادیانی خلیفہ گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے گھوڑے کو حکم دیا کہ خلیفہ اوّل کا خاتمہ کر دو۔ وہ خلیفہ بحکم الٰہی اس گھوڑے کے بدکنے سے اس نیچے گرنے لگا تو اس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہا اور نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والی جماعت کے خلیفہ کی ہڈیاں چٹخاتا رہا۔ جب گھوڑا رکا تو قدرت اپنا حساب پورا کر چکی تھی زخموں نے گنگرین(ناسور) کی صورت اختیار کر لی اور خلیفہ اوّل نور الدین بسترِ مرگ پر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے عذابِ الٰہی دنیا میں جھیلتے ہوئے ملک عدم کو سدھار گئے۔ بعد میں خاندان پر بھی مصائب کا پہاڑ ٹوٹا۔ حکیم نور الدین کے درد ناک انجام کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر الدین محمود جسے قادیانی جماعت’’خلیفہ ثانی‘‘ کے نام سے جانتی ہے جانشین ہوا خلافت پر جھگڑا ہوا مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی مرزا قادیانی کی بیوی نے ریشہ دوانیوں سے اپنے نوجوان بیٹے کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ یہ عیاش اور لااُبالی جوان تھا جسے خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری احتجاجاً اس جماعت سے نکل گئے۔ اور اپنا لاہور ی مرزائیوں کا گروپ تشکیل دے دیا۔ بشیر الدین محمود نے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔ ان کی قصرِ خلافت نامی رہائشگاہ دراصل ’’قصرِخباثت‘‘ تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں اس مقدس عیاش نے اپنے شکار گرفت میں لانے کے لیے نہایت دلکش پھندے لگا رکھے تھے اسے معصوم لڑکیوں کو رام کرنے کا ایسا سلیقہ آتا تھا کہ قصرِ خلافت کے عشرت کدے میں جانے والی بہت سی عورتیں اپنی عزت لٹا کر واپس آئیں۔ خلیفہ ثانی مذہب کی آڑ میں عصمتوں پر ڈاکے ڈالتا رہا۔ چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں مختلف حیلوں بہانوں سے اس عیاش خلیفہ نے عصمتیں لوٹیں اور ظلم پہ ظلم کرتا رہا۔ اس خلیفہ کی رنگین داستانوں کے قادیانی جماعت کے اپنے ہی لوگوں کے تبصرے حلفی بیانات مباہلے اور قسمیں موجود ہیں۔ خدائے برتر ایسے ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتے چنانچہ احمدی جماعت کے اس خلیفہ’’ثانی‘‘ جسے قادیانی ’’فضل عمر‘‘ بھی کہتے ہیں کی زندگی کا خاتمہ بھی انتہائی دردناک حالات میں ہوا۔ اسے زندگی کے آخری بارہ سال میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتے مرتے دیکھ کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اس کو فالج ہو گیا تھا اس کی شکل و صورت جنونی پاگلوں کی سی بن گئی تھی۔ وہ سر ہلاتا رہتا منہ میں کچھ ممیاتا رہتا اس کے سرکے زیادہ تر بال اڑچکے تھے۔ پھر بھی انھیں کھینچتا رہتا،داڑھی نوچتا رہتا۔ وہ اپنی ہی نجاست ہاتھ منہ پر مل لیا کرتا تھا۔ بہت سے لوگ ان واقعات اور حالات کے عینی شاہد ہیں۔ اس ’’خلیفہ ثانی‘‘ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ جماعت احمدیہ میں اٹھانوے فیصد منافق ہیں جس کی بنا پر جماعت کو ان کے پاگل ہونے کی افواہ اڑانی پڑی۔ ایک لمبا عرصہ اذیت ناک زندگی بستر پر گزارنے کے بعد جب یہ شخصیت دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کا جسم بھی عبرت کا نمونہ تھا۔ ایک لمبا عرصہ تک ایک ہی حالت میں بستر پر لیٹے رہنے کی وجہ سے لاش اکڑ کر گویا کہ مرغ کا چرغہ بن چکی تھی۔ ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہری پر گھنٹوں ماہرین سے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ جسم کی کافی دیر تک صفائی کی گئی اور پھر عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیز روشنی میں لاش کو اس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر مصنوعی نور نظر آئے لیکن قادیانی تو ساری باتوں سے واقف تھے۔ خدا تعالیٰ ایسے حقیقی انجام اور مصنوعی نور سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے،آمین۔
قادیانی جماعت کے خلیفہ دوم کی تدفین کے بعد اس کے عزیز واقارب اور پوری جماعت احمدیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ پھر مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنے کے خاطر انھی کے بڑے بیٹے مرزا ناصر احمد گدی نشین ہوئے۔ یہ حضرت گھوڑوں کی ریس کے بڑے شوقین تھے۔ ان کے اس شہنشاہی شوق نے چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب شخص کی جان بھی لے لی۔ خلیفہ مرزا ناصر احمد نے ۷۸ سال کی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ایک ۲۷ سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ ’’آج دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا‘‘ اس ۷۸ سالہ بوڑھے دولہا نے اپنے ازکار رفتہ اعضاء میں جوانی بھرنے کے لیے کشتوں کا استعمال شروع کر دیا اور کشتوں کے راس نہ آنے پر خود ہی کشتہ ہو گیا۔ اس کا جسم پھول کر کپا ہو گیا اور آناً فاناً خدائے قہار کے قہر کی گرفت میں آکر کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر ملک عدم کو سدھار گیا۔
آنجہانی مرزا ناصر احمد کا چھوٹا بیٹا مرزا لقمان شادی شدہ تھا اس کا ایک بیٹا تھا۔ مرزا طاہر احمد نے اپنی گدی نشینی کا پروگرام ترتیب دیا تو اس سودے بازی میں اپنی بیٹی کا رشتہ بہت پہلے مرزا لقمان سے کر دیا اس کی پہلی بیوی کو طلاق دلوائی گئی اور اس سے اس کا بیٹا چھین لیا۔ جب مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو ان کے بڑے سوتیلے بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آگئے۔ ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیت سراپا احتجاج بن گئے اور سڑکوں پر آگئے۔ لیکن انھیں بزور قوت اپنے گھروں میں دھکیل دیا کر ’’خلافت‘‘ پر قبضہ کر لیا گیا۔ مرزاطاہر احمد جماعت کے چوتھے خلیفہ آمرانہ مزاج کے حامل تھے۔ ان کی شروع سے یہ عادت تھی کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتے تھے ان کی فرعونی عادات نے نہ صرف مرزا طاہر بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں ذلیل کیا۔ اپنی زبان درازی ہی کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر لندن اپنے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوئے۔ ان کے دور خلافت میں بھی کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں تھی وہ جب چاہتے اور جسے بھی چاہتے پل بھر میں ذلیل کر دیتے ۔ انھوں نے نظریں ملا کر بات نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ قادیانی لڑکیوں کو سدا سکھی رہنے کی دعا دینے والا یہ خلیفہ دس لاکھ کا حق مہر لکھوانے کے باوجود اپنی بیٹی کو طلاق سے نہ بچا سکا آخر مرزا لقمان کی پہلی بیوی نے طلاق لینے اور بچہ چھیننے پر بددعا دی ہو گی! مرزا طاہر احمد ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھا اور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔ مرزا طاہر احمد چاہتے تھے کہ عورتیں صرف ’’احمدی لڑکے‘‘ ہی پیدا کریں جن میں ذات پات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ قادیانیوں کو’’ نر نسل ‘‘پیدا کرنے کی گولیاں دیتے رہے جن میں مردانہ طاقت بند ہونے کا دعویٰ کیا جاتا۔ شاید قدرت ان کے ان ہتھکنڈوں پر ہنس رہی تھی دوسروں کو لڑکے دینے والا یہ ڈاکٹر (ہومیو پیتھک) اپنی بیوی کو لڑکا نہ دے سکا اور ان کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جن سے دنیا حقیقت جان گئی۔ خلیفہ طاہر احمد نے اپنی عمر کے آخری چند سالوں میں اس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولے کہ کراماً کاتبین بھی ان کے جھوٹ لکھتے ہوئے حیران ہوتے ہوں گے وہ جھوٹ کی انتہا پر پہنچتے ہوئے ایک روز بیس کروڑ احمدیوں کی جماعت کا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے۔ ان کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے۔ کبھی باوضو نماز پڑھاتے تو کبھی بے وضو ہی پڑھا دیتے۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع ۔ کبھی دوران نماز ہی یہ کہتے ہو ئے گھر کو چل دیتے کہ ٹھہرو! ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنے پیشرؤں کی طرح گرتے پڑتے اٹھتے بیٹھتے لیٹتے روتے مرزا طاہر احمد کی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی پھر پرستاروں کے دیدار کے لیے جب لاش رکھی گئی تو چہرہ سیا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاش سے اچانک تعفن اٹھا اور ان پرستاروں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اور لاش بند کر کے تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے یہ مناظر براہِ راست ٹی وی پر دیکھے۔ کافی لوگ اس کے گواہ ہیں۔
میں اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ نے تو اپنے روحانی سربراہوں کی حیات اور اموات کو دیکھا ہے پھر قادیانی چنگل سے کیوں نہیں نکل جاتے؟ مجھے آپ لوگوں سے ہمدردی ہے کیونکہ میرا اور آپ کا ۵۵سال کا ساتھ رہا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اس نے قادیانیت سے نکلنے میں میری غیبی مدد فرمائی ہے اس طرح باقی قادیانیوں کی بھی مدد فرمائے اور وہ منافقت کی زندگی چھوڑ کر حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دیں ۔ آمین یا رب العالمین
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جہنم سے پہلے جہنم ۔ قادیانی خلیفوں کا عبرت ناک انجام

مجھے یقین ہے کہ اگر قادیانی زندیق اپنے مرزا جی کے کافرانہ عقائد ، توہین انبیاء اکرام و اکابرین ملت میں لکھی اس کی گستاخانہ تحریریں کھلے ذہن کے ساتھ پڑھیں اور پھراس کے ہولناک انجام سےعبرت حاصل کریں تو کانوں کو ہاتھ لگا کر قادیانیت کو خیرباد کہہ دیں۔ مرزا غلام قادیانی کی بیت الخلا میں دردناک موت کے احوال کے بارے تو اکثر و بیشتر مسلمان اورخود قادیانی حضرات بھی خوب جانتے ہیں۔ لیکن یہاں میں مرزا جی کے دجالی خلیفوں کی عبرت انگیز اموات کا وہ ہولناک احوال بیان کر رہا ہوں جس سے سب مسلمان تو شاید آگاہ نہ ہوں لیکن ہاں ہر قادیانی زندیق ضرور واقف ہے۔ دعا گو ہوں کہ میرے یاد دلانے پران کے مقفل دلوں کے قفل کھلیں اور وہ کفرِ قادیانیت سے تائب ہو کر دائرہء اسلام میں لوٹ آئیں۔ naseerمرزا غلام قادیانی کے آنجہانی ہونے کے بعد اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین تھا۔ خود مرزا جی کی روایت کے مطابق ، وہ ایک ایسا غلیظ المزاج اور بدبودار شخص تھا کہ جو مدتوں تک نہ نہاتا تھا اور نہ ہی اپنے بال اور ناخن تراشتا تھا۔ مگر اس کے گھوڑے پر بیٹھنے کا انداز انتہائی تکبرانہ اور شاہانہ ضرور تھا۔ یاد رہے کہ حضرت علامہ اقبال رحمۃ علیہ ہر اس محفل میں شرکت کرنے سے صاف انکار کر دیتے تھے، جہاں یہ بدبخت شخص مدعو ہوتا تھا۔ ایک دن یہ بدبخت گھوڑے پر سوار ہو کے نکلا تو گھوڑے کے بدکنے پر نیچے گرتے ہوئے اپنا ایک پاؤں گھوڑے کی رکاب میں پھنسا بیٹھا۔ اور پھر وہ پاؤں رکاب میں پھنسا رہا اور گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا خلیفہ جی کو گھسیٹتا اوراس کی ہڈیاں چٹخاتا رہا۔ اس حادثے میں نامراد خلیفہ زندہ تو بچ گیا مگر قدرت کو اس منکر ختم نبوت کی عبرت ناک موت زمانے کو دکھانا منظور تھا۔ زخم ناسور کی شکل اختیار کر کے پہلے اذیت ناک اور مابعد جان لیوا ثابت ہوئے۔ سارے قادیانی حکیم اور قادیانیے کے سرپرست انگریز ڈاکٹرز تک اس بد بخت حکیم کا علاج کرنے میں ناکام رہے۔ اور یوں مرزا قادیانی کا جانشین ، ملعون خلیفہ اول بسترِ مرگ پر انتہائی درد ناک حالت میں ایڑیاں رگڑتے ، دنیا میں ہی جہنم اور عذاب الہی جھیلتے ہوئے اپنے کاذب نبی مرزا غلام قادیانی کے ابدی ٹھکانہ ہاویہ کو سدھار گیا۔

حکیم نورالدین کے اسہولناک انجام کے بعد ممکنہ جانشین مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی۔ مرزا قادیانی کی بیوی نے اپنے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ یہ مردود ابن مردود اپنے ملعون باپ کی تقلید میں انبیائے اکرام، شان رسالت مآب، حرمتِ صحابہ و اہل بیت اور اسلامی نظریات کے بارے ہرزہ سرائی کرنے میں آج کے مغربی گستاخین سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ اکھنڈ بھارت کےخواب دیکھنے والا یہ شخص، ایک بدترین گستاخ قرآن و رسالت، جنسی تعلقات کا دلدادہ اورانتہائی عیاش جوان تھا، جسے خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری نے جماعت قادیان چھوڑ کراپنا لاہوری مرزائی فرقہ بنا لیا۔ مرزا بشیرنے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔ اس کی قصرخلافت نامی رہائش گاہ دراصل قصرِ جنسی جرائم تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں۔ ربوہ کے قصرمحمود میں اس عیاش خلیفہ نے صرف قادیانی نوجوان لڑکیوں کی عصمتیں ہی برباد نہیں کیں بلکہ یہ ملعون ایک ایسا پلید ترین جنسی بھیڑیا تھا جس کی جنسی ہوس سے اس کی اپنی چودہ سالہ سگی بیٹی امت الرشید تک بھی محفوظ نہ رہی۔ اس سیکس ڈان خلیفہ کے جنسی جرائم کے بارے قادیانی جماعت کے منحرف لوگوں کے تبصرے، حلفیہ بیانات، مباہلے اورقسمیں موجود ہیں۔ اللہ سبحان و تعالی ایسے ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتے چنانچہ اس خلیفہ ثانی کی زندگی کا خاتمہ بھی ایسے دردناک حالات میں ہوا کہ اس فالج زدہ ابلیس کو زندگی کے آخری بارہ سال بسترمرگ پر ایڑیاں رگڑتے اور مرتے دیکھ کرقادیانی بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اس ملعون کی شکل و صورت پاگلوں کی سی بن چکی تھی اور وہ سر ہلاتا منہ میں کچھ ممیاتا رہتا تھا۔ اکثر یہ مجنون اپنے بال اور داڑھی نوچتا رہتا اور اپنی ہی غلاظت و نجاست ہاتھ منہ پرمل لیا کرتا تھا۔ بہت سارے لوگ ان سب حالات و واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ ایک عرصہ ایسی اذیت ناک زندگی بسترمرگ پرگزارنے کے بعد جب یہ گستاخ ، جہنم کو سدھارا تواس کا جسم بھی عبرت کا اک عجب نمونہ تھا۔ ایک لمبےعرصہ تک بستر مرگ پر رہنے کی وجہ سے لاش مرغ کے چرغے کی طرح اس قدر اکڑ چکی تھی کی ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہرے پر پڑی لعنتیں چھپانے کیلئے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ اور پھرعوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیزروشنی میں لاش کواس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر لعنت زدہ سیاہی نظر نہ آئے۔ لیکن تمام قادیانی ساری اصل حقیقت سے بخوبی آشنا تھے

مرزا بشیرکی دردناک موت کے بعد مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا روایتی سلسلہ جاری رکھنے کی خاطر اسی کا بڑا بیٹا مرزا ناصراحمد گدی نشین ہوا۔ یہ ٹھرکی خلیفہ گھوڑوں کی ریس اور جوا بازی کا شوقین ہونے کے ساتھ ساتھ ، باپ کی طرح نوجوان مٹیاروں سے معاشققوں کا انتہائی دلدادہ تھا۔ جنسی ہوس اسے اپنے دادا مرزا غلام احمق اور زانی باپ سے وراثت میںnair ملی تھی۔ اس کے گھڑ سواری کے شوق نے ربوہ میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب کی جان بھی لی۔ قادیانی حضرات بھی گواہ ہیں کہ ان کے اس خلیفہ کی موت، ایک بوڑھے جنسی مریض کی داستان صد ہوس عبرت ہے۔ اس شہوت زدہ خیلفہ نے اڑسٹھ سال کی بوڑھی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ایک ستائیس سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ ’’ آج یہ مقدس دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا ‘‘۔ اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ خود قادیانی کلٹ کی قیادت کو بھی تھا۔ خود سے چوالیس برس چھوٹی بیوی سے ازدواجی تعلقات میں جسمانی طور پر کلی ناکام ٹھہرنے پر بوڑھے دولہا نے اپنے ناکارہ و ناقابل مرمت اعضاء میں نئی جوانی بھرنے کیلیے دیسی کشتوں کا بے دریغ استعمال کیا ۔ اور ان کشتوں کے راس نہ آنے پر آخر کار خود ہی بھنا ہوا کشتہ ہو گیا۔ مرنے سے پہلے اس تیسرے قادیانی خلیفہ کا جسم پھول کرکپا ہو گیا۔ سونے چاندی کے کشتوں کا زہریلا ناگ ایسا ڈسا کہ یہ زندیق ، مختصر سے عرصے ہی میں خدائے قہارکے قہر کی گرفت میں، کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر، محمدی بیگم کے ناکام افیونی عاشق، اپنے دادا مرزا غلام قادیانی کے پاس ملک عدم کو سدھارگیا ۔

مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو اس کا سوتیلا بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آ گیا۔ جب اسکی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیت سڑکوں پر آ گیا۔ لیکن ان باغیوں کو بزور قوت گھروں میں دھکیل دیا کر خلافت پر قبضہ کر لیا گیا۔ جماعت قادیان کا چوتھا خلیفی مرزا طاہراحمد انتہائی آمرانہ مزاج کا حامل تھا۔ اس کی فرعونی عادات نے نہ صرف اسے بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں tahirذلیل و خوار کیا۔ اپنی زبان درازی ہی کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر لندن میں اپنے گورے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوا۔ اس کے دور خلافت میں اس کے ہاتھوں غیر تو کیا کسی قادیانی کی بھی عزت محفوظ نہیں تھی ۔ اس نے نظریں ملا کر بات نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ مرزا طاہر ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھا اور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔ مرزا طاہرکی خواہش تھی کہ قادیانی عورتیں صرف لڑکے ہی پیدا کریں جن میں ذات پات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ مرا طاہر قادیانیوں کو’’ نر نسل ‘‘ پیدا کرنے کی گولیاں تو دیتا رہا مگر یہ ڈاکٹر اپنی بیوی کو لڑکا نہ دے سکا اور اس کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس خبطی کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتا، کبھی باوضو تو کبھی بے وضو ہی نماز پڑھا دیتا۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع اورکبھی دوران نمازہی یہ کہتے ہو ئے گھر کوچل دیتا کہ ٹھہرو، میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنے بدبخت پیشروؤں کی طرح مرزا طاہرکی جان بھی بھی بڑی مشکل سے نکلی۔ اس کے انجہانی ہونے پر لاش پرستاروں کے دیدار کیلیے رکھی گئی تو چہرہ سیاہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاش سے اچانک ایسا بدبودار تعفن اٹھا کہ سب پرستاروں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اورلاش بند کرکے تدفین کیلیے روانہ کر دی گئی۔ یاد رہے کہ لوگوں نے یہ عبرتناک مناظر براہِ راست قادیانی ٹی وی پربھی دیکھے۔ لندن سے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق موجودہ خلیفہ مرزا مسرور بھی ایک پراسرار بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے اور قادیانی کلٹ کی انگریز غلام قیادت نے اندرون خانہ اپنے اگلے بدبخت خلیفہ کی تلاش شروع کر دی ہے۔ مرزا مسرور کا ہولناک انجام بھی اپنے ملعون باپ دادا جیسا ہونا ایک یقینی امر ہے کہ مسلمہ بن کذاب اور مرزا قادیانی جیسے ختم نبوت کے ڈاکوؤں اور تمام گستاخین قرآن و رسالت کا عبرت ناک و عبرت انگیز انجام تو دراصل قدرت کی طرف سے طے شدہ ہے
 
Top