• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی کی موت پر تحقیق

محمد منیب الرحمٰن

رکن ختم نبوت فورم
بابائے قادیان
میرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۴۰ میں ضلع گورداس پور کے قصبہ قادیان میں سرکار انگریز کے وفادار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ خاندان مرزا کے صرف دو ہی مقصد تھے ایک سرکار انگریز کی خدمت ، دوسرا اسلام کو نقصان ۔ اپنے اس مقصد کو مرزا صاحب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

’’ سو میرا مذہب جسے میں بار بار ظاہر کرتا ہوں اسلام کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ خدا تعالی کی اطاعت کریں اور دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ۔۔۔سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے ۔۔۔ اگر ہم حکومت برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام ( مرزائیت ) خدا (( یلاش ، کالا ، کالو ) رسول ( مرزا قادیانی ) سے سرکشی کرتے ہیں ۔ روحانی خزائن جلد ۶ ص ۳۸۰

مرزا صاحب نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کچھ استادوں کو بطور نوکر رکھا ۔ رخ جلد ۱۳ ص ۱۸۰ جماعت احمدیہ کے مطابق مرزا صاحب کو پہلا الہام ۱۸۶۵ میں ہوا اور ۱۸۸۵ میں دعوی مجدیت کر ڈالا ۔ مرزا صاحب نے بتدریج دعوں کا سلسلہ جاری رکھا اور بالآخر خدائی دعوی تک پہنچ گئے لیکن جماعت احمدیہ قادیان انہیں کھینچ کر مہدی ، مسیح اور نبی تک لے آئی ۔
اور جماعت احمدیہ لاہور نے ان کو صرف مجدد تک محدود رکھا ۔ مرزا صاحب کا سب سے پسندیدہ مشغلہ مناظرہ کرنا نہیں بلکہ مناظرہ ہارنے کے بعد مخالف کو موت کی بدعا دینا تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مرزا صاحب جو بھی معیار اپنی سچائی کا مقرر کرتے وہی معیار ان کے لیے وبال جان بن جاتا ۔ خواہ وہ آتھم کی موت کی پیشن گوئی ہو یا لیکھرام کے قتل کی ۔ مسٹر ڈوئی کے مرنے کا مباہلہ ہو یا مولانا ثنا اللہ ؒ کے لیے موت کی بدعا ۔ مرزا صاحب ہمیشہ خودی کے معیار میں پھنس جاتے تھے ۔ مرزا صاحب نے مخالفین کے جھوٹے ہونے کا ایک اور معیار تجویز کیا جس کا لب لباب طاعون ، ہیضہ یا خدائی قہر سے موت تھی ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح مرزا صاحب اس معیار میں بھی پھنس گئے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ کو لاہور میں خدائی قہر وبائی ہیضہ کی موت مرے ۔
سورہ الانعام آیت ۹۳ میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
’’ اور اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر بہتان باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے حالانکہ اس پر وحی نہ اتری ہو اور جو کہے میں بھی ایسی چیز اتار سکتا ہوں جیسی کہ اللہ نے اتاری ہے، اور اگر تو دیکھے جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھانے والے ہوں گے کہ اپنی جانوں کو نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب ملے گا اس سبب سے کہ تم اللہ پر جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں کے ماننے سے تکبر کرتے تھے۔ ‘‘

اس موت کے متلعق مرزا صاحب لکھتے ہیں روزنامہ الفضل ۲ مارچ ۱۹۴۰ ص ۱ ’’ اور جو شخص کہے میں خدا کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ وہ نہ تو خدا کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بری موت مرتا ہے اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے ۔ ‘‘
مولانا ثنا اللہ ؒ کے بارے میں مرزا بدعا کرتے ہوئے کہتا ہے ۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ ص ۵۷۹ ’’ تو اے میرے مالک میں عاجزی سے تیری جانب دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثنا اللہ صاحب کی ذندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کردے آمین ۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا ، اگر مولوی ثنا اللہ ان تہمتوں میں سے جو مجھ پر لگاتا ہے حق پر نہیں تو میں اس عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری ذندگی میں ہی ان کو نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجر اس صورت کہ وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے ۔ آمین یارب العالمین ۔ ‘‘
مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ سچے کی ذندگی میں ہلاک ہوجاتا ہے ۔ ملفوظات جلد ۵ ص ۳۲۷
مرزائیوں سے سوال ہے کہ مرزا صاحب کی یہ دعا قبول ہوئی یا نہیں ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب مولانا ؒ کی ذندگی میں ہی وبائی ہیضہ سے ہلاک ہوگیا ۔
ہیضہ کیا ہے اس ضمن میں ہم علم طب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہیضہ اسہال اور قے کا مکسچر ہے جس کی وجہ سے مریض کی موت چوبیس گھنٹوں کے اندر واقع ہوجاتی ہے ۔ علم طب میں ہیضہ یعنی کالرا کی تعریف یوں ہے
’’ ہیضہ چھوٹی آنت کی ایک بیماری ہے جو کہ بکٹیریا وائبروکالرا سے پھیلتی ہے ۔ ہیضہ شدید دست کی بیماری ہے جو بہت تیزی سے پھیلتی ہے اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو مریض کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے ۔ اس کی علامات میں کثرت دست یعنی اسہال ، الٹیاں ، ٹانگوں میں درد اور کمزوری شامل ہیں ۔ مریض کی نبض کبھی محسوس ہی نہیں ہوتی یا بہت باریک محسوس ہوتی ہے
۔ مرزا صاحب چونکہ خود حکیم تھے انسان کی موت کے متلعق لکھتے ہیں ’’ انسان نو مہینے پیٹ میں رہ کر اپنے کمال وجود کو پہنچتا ہے اور مرنے کے لیے کچھ بھی دیر کی ضرورت نہیں مثلا انسان اپنے مرنے کے وقت ایک ہی ہیضہ کا دست یا تھوڑا سا پانی قہہ کے طور پر نکال کر راہی ملک بقا ہوجاتا ہے ۔ رخ جلد ۵ ص ۱۶۸
حکیم نوردین اپنی کتاب بیاض نوردین کے ص ۴۰۶ پہ ہیضہ کے چار درجے بیان کرتے ہیں ’’ یہ ایک معتدی مرض ہے جو وبا کے طور پر پھیلا کرتا ہے اس میں کثرت سے قے اور دست آکر مریض نڈھال ہوجاتا ہے ‘‘ ’’ نازک مزاج ، ضعیف ، کمزور ، ڈرپوک اشخاص اور جن کا ہاضمہ خراب ہو اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ‘‘ اکثر رات کو سوتے ہی اس مرض کا حملہ شروع ہوجاتا ہے ۔ مریض سے بولا نہیں جاتا ، نبض کمزور ا ور اٹک اٹک کر چلتی ہے اس کے بعد نبض درست چلنے لگتی ہے ۔ ‘
اب ہم مرزا صاحب کے لاہور میں آخری دنوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ مرزا صاحب کو ۱۹۰۷ میں الہام ہوا ’’ ہیضہ کی آمدن ہونے والی ہے ‘‘ تذکرہ چہارم ص ۶۱۴ ۔ مرزائیوں سے سوال ہے یہ الہام کب مکمل ہوا ؟
۔ مرزا صاحب ایک بار پھر اپنے خودساختہ میعار کی زد میں آگئے ۔
کہا جاتا ہے کہ مئی ۱۹۰۸ میں ہیضہ کی وبا نہیں تھی اس کے لیے قادیانی اخبار الحکم کے مندرجہ ذیل حوالے دیکھے جاسکتے ہیں 9 مئی 1908 لاہور، طاعون اور ہیضہ وغیرہ وباوں کا ذکر تھا۔الحکم جلد 12 نمبر 35 صفحہ 2 کالم نمبر 1 آئے روز طاعون ،ہیضہ زلازل وبائیں قحط اور ہر طرح کے امراض انسانوں پر حملہ کر رہے ہیں، 18 مئی 1908 لاہور۔الحکم جلد 12 نمبر 34 صفحہ 2 کالم نمبر

1،2 لاہور میں قیام کے دوران جب ہیضہ چوتھے درجہ پر تھا ۔ رات گیارہ بجے کے قریب مرزا صاحب نے اپنی بیوی کو جگایا وہ اٹھی اور مرزا صاحب کے پاوں دبانا شروع ہوگئی اس کے بعد مرزا صاحب کی حالت ضعف کی وجہ سے نازک ہوگئی ۔ مرزا صاحب نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ سے کہا ’’ مجھے سخت اسہال ہوگیا ہے آپ کوئی دوا تجویز کرو ‘‘ صبح کے وقت مرزا بشیر احمد نے جب مرزا صاحب کی طرف دیکھا تو یقین ہوگیا کہ یہ مرض الموت ہے اس وقت حضور بہت کمزور ہوچکے تھے ۔ ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو محسوس نہ ہوئی سب سمجھے کہ وفات پاچکے مگر کچھ دیر بعد نبض میں پھر حرکت پیدا ہوئی ۔ اسی کمزوری کی وجہ سے مرزا صاحب بول نہ سکتے تھے ۔ تاریخ احمدیت جلد دوم ص ۵۴۰ ۔ سیرت مہدی جلد دوم ص ۴۱۵ ۔ عبدالرحمن قادیانی مرزا بشیر احمد سیرت مہدی روایت ۱۲ میں لکھتا ہے ۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپایی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپایی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگر گوں ہوگئی ۔ ناظرین جیسا کہ آپ نے دیکھا مرزا صاحب میں ہیضہ کی تمام علامات حرف بہ حرف موجود ہیں جو ان کی موت کا باعث بنی ۔ چونکہ مرزا صاحب خود حکیم تھے اس لیے ان کی زبان سے بھی سن لیں کہ انہیں کیا مرض الموت لاحق ہوا ۔ مرزا صاحب اپنے خسر میرناصر صاحب کو بتاتے ہیں ’’ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے ‘‘ اور اس کے بعد صبح دس بجے کے قریب ہیضہ سے اچانک موت کی علامت بھی پوری کر دیتے ہیں ۔
اب باری آتی ہے نعش کو لاہور سے قادیان لے کر جایا جائے اس کے لیے دجال کی سواری ریل گاڑی کا انتخاب کیا جاتا ہے اور سرکار بہادر کو مدد کی آواز لگائی جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ اگر مرزا صاحب کو ہیضہ ہوتا تو ڈاکٹر رپورٹ میں ہیضہ لکھتے اور اس وجہ سے سٹیشن ماسٹر نعش کو لےجانے کی اجازت نہ دیتا پہلی بات تو میں مرزائیوں سے اس رپورٹ کو دکھانے کی درخواست کروں گا ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان ڈاکٹروں میں خود مرزا کے پیروکار مرزا یعقوب بیگ شامل تھے اور جس نے دجال کے گدھے کی کلیرنس کروائی وہ بھی مرزائی ٹیلیگراف ماسٹر بابو شیخ غلام قادر تھا ۔ ناصر احمد اپنی کتاب ( حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا لاہور میں آخر قیام ص ۷ پر لکھتا ہے ) بابو شیخ غلام قادر صاحب ریلوے میں ٹیلیگراف ماسٹر تھے اور جس ٹرین میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی میت لے جائی گئی اس کی کلیرنس انہوں نے ہی دی تھی ۔
ور باقی کی کثر سرکار بہادر نے پوری کردی چنانچہ خلیفہ اول کی گواہی پیش خدمت ہے کہتا ہے ۔
’’ بہرحال حضرت مرزا صاحب کی وفات پر ہمیں جن مشکلات کا خیال ہو سکتا تھاکہ ہمارے سامنے ہوں گے اور اس کے علاوہ لاہور کی عوام کا وہ شور و غل تھا جس کا ہمیں وہم و گمان نہ تھا قریب تھا کہیں لوگ ہمیں گاڑی تک بھی پہنچے نہ دیتے کہ مگر اللہ تعالی نے ابر رحمت کی طرح پولیس ہمارے لیے بھیج دی اور گورنمنٹ کا دل سے شکریہ کرتے ہوئے ہم آرام سے پلیٹ فارم پر سوار ہوگئے۔اگر مرزا صاحب اپنے امن اور سامان اشاعت اور ہر طرح کے سکھوں کے باعث اس گورنمنٹ کے شکر گزار تھےاور قوم کو اطاعت کی تاکید کرتے گئےان کی وفات نے ازسر نو اس قوم کو امن پسند گورنمنٹ کا شکر گزار بنادیا ۔خطبات نور ص 262 ‘‘
ان تمام دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے واضع ہوجاتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے معیار کے مطابق ذلت کی موت ہیضہ کی وجہ سے مولانا ثنا اللہ امرتسری ؒ کی ذندگی میں مرا اور اپنے جھوٹا ہونے پہ تاقیامت مہرلگا گیا ۔ اللہ پاک تمام مرزائیوں کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین
 
Top