(لاہوری وقادیانی دونوں گروہ خود کافر ثابت ہوگئے)
ہمیں اسمبلی سیکرٹریٹ سے جو کاغذات ملے ہیں ان میں صفحہ ۱۱۰تا۱۱۷ پر جو سوالات اور جوابات درج ہیں اگر آپ ان کو غور سے پڑھیں تو صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بھی یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اقلیت قرار دیا جائے۔ جب ان کی یہ مرضی ہے تو کیوںنہ ہم ان کو اقلیت قرار دیں۔
اس کے علاوہ لاہوری پارٹی کے لئے اب میرا خیال ہے کچھ عرض کرنا بے کار ہے۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ بالکل اسی طرح مرزاغلام احمد کو مانتے ہیں۔ جس طرح دوسرے قادیانی لوگ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے لیڈر محمد علی کو جب ۱۹۱۴ء میں خلیفہ نہ بنایا گیا تو انہوں نے اپنی ایک علیحدہ جماعت بنالی، بالکل اسی طرح جس طرح 2988سیاسی لیڈر کو کسی پارٹی کی صدارت نہیں ملتی اور وہ اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی بنالیتا ہے۔ فرق اس میں بالکل نہیں ہے۔ وہ بھی مرزاغلام احمد کو مانتے ہیں۔ اگر ہم کسی شخض کو مسلمان ہی نہیں مانتے تو ظاہر ہے کہ جو شخص جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرے وہ مسلمان تو نہیں ہوسکتا۔ تو پھر ہم اسے مجدد، بزرگ، ولی یا دوسرا درجہ کہاں سے دے سکتے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ لاہوری پارٹی اور ربوہ قادیانی پارٹی میں کوئی خاص فرق نہیں؟ یہ سب اس شخص کے امتی ہیں جس کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں تیس کذاب پیدا ہوں گے۔ مرزاغلام احمد ان تیس کذابوں میں سے ایک ہے، اور کذاب کے امتی مسلمان نہیں ہوسکتے۔
اس طرح کی بہت سی چیزیں اس میں کچھ چیزیں میں چھوڑ دیتا ہوں۔ کیونکہ وقت کم ہے۔ میں کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔ قادیانی مع لاہوری پارٹی کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ آئین میں واضح تشریح کی جائے اور ان کی جائیداد اوقاف کی تحویل میں دی جائے۔ ربوہ شہر کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ ربوہ شہر کے آس پاس کی آبادی میں دس ہزار قبائلیوں کو آباد کیاجائے۔ ہمیں وہاں پر زمین دی جائے۔ ہم یہ مفت نہیں مانگتے اور نہ ہی ہم اس قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہیں۔ جیسے سرظفر اﷲ خان اور ایم۔ایم۔احمد کی وجہ سے پانچ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی گئی ہے۔ ہمیں آپ مناسب قیمت پر وہ زمین دیں۔
جناب چیئرمین: اس کے ساتھ پہلی تجویز کہ جہاد کی اجازت دی جائے بھی مان لی جائے۔
جناب نعمت اﷲ خان شنواری: غیرمسلم قراردیں تو جہاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم وہاں پر رہنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ قادیانی کوئی شرارت نہ کر سکیں۔ اس لئے ربوہ شہر کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔
جناب چیئرمین: مہر غلام حیدر بھروانہ!