• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دیباچہ طبع پنجم:

'' کتاب محمدیہ پاکٹ بک'' بنو فیقہ تعالیٰ اب پانچویں مرتبہ منصہ شہود پر جلوہ گر ہو رہی ہے۔ چوتھی طباعت تقریباً دو سال سے کم یاب بلکہ نایاب ہو رہی تھی جب کہ مانگ اور ضرورت اس کی بدستور ہے۔ اس موقع پر قدرتی طور پر ہمارے مرحوم دوست حاجی محمد اسحاق صاحب حنیف امرتسری بہت یاد آرہے ہیں کہ چوتھی طبع کے محرک اول وہی تھے حاجی صاحب موصوف ۷؍ ستمبر ۱۹۶۹ء کو (سرکاری رپورٹ کے مطابق) پراسرار طریقے سے شہید کردیے گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم و مغفور کو مرزائیت کے موضوع سے جو شغف تھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بدو شعور (تقریباً سترہ سال کی عمر) میں ۱۹۲۰''تحقیق المہدی والمسیح'' اور '' حالات مرزا'' کے ناموں سے دو رسالے خود لکھ کر شائع کئے تھے۔
اس اشاعت میں ''تاریخ مرزا'' اس لیے شامل نہیں کہ اسے الگ سے شائع کیا جا رہا ہے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کفر و ضلال کے فتنوں سے بچائے۔ اور اس کتاب سے ارواح سعیدہ کو نفع پہنچائے۔

واللہ ولی التوفیق وھو نعم المولٰی ونعم النصیر
خاکسار
محمد عطاء اللہ حنیف
ناظم المکتبۃ السلفیہ
(لاہور)
بشکریہ محدث فورم

محدث فورم کی جانب سے اجازت نامہ:
محمدیہ پاکٹ بُک کی اجازت.png
 
مدیر کی آخری تدوین :

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
اسلامی پریس کی رائے

چند ضروری اقتباسات
معارف

'' محمدیہ پاکٹ بک'' میں مرزا صاحب کی تصنیفات اور قادیانی لٹریچر سے بہ کثرت پیشین گوئیاں جمع کی گئی ہیں، اور انہیں واقعات، دلائل اور شواہد سے ناقابل رد طریق پر دکھایا ہے کہ وہ غلط اور خلافِ واقعہ نکلیں۔ اکثر موقعوں پر مرزا صاحب نے پیش گوئیوں کے غلط ٹھہرنے پر تاویلیں کی تھیں، فاضل مؤلف نے دلائل سے ان تاویلوں کا پردہ بھی چاک کیا ہے۔ پھر ختم نبوت، حیاتِ مسیح اور نزولِ مسیح وغیرہ متعلقہ مسائل پر دل چسپ بحثیں ہیں۔
یہ کتاب صحیح مناظرانہ اصولوں پر لکھی گئی ہے۔ طریق استدلال، پرزور طرزِ ادا دلچسپ اور لب ولہجہ متین اور سنجیدہ ہے۔ (رسالہ '' معارف'' اعظم گڑھ بابت ماہ جون ۱۹۳۵ء)
جامعہ
'' یہ کتاب مرزائیت کی تردید میں نہایت جامع اور مبسوط لکھی گئی ہے۔ جس میں اس کے تمام اصولی اور فروعی امور زیر بحث لائے گئے ہیں۔ اندازِ بیان اس قدر معقول اور مدلل ہے کہ سوائے تسلیم کے کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہتا ... اس کتاب میں مؤلف نے مرزا صاحب کی اکثر پیشن گوئیوں کو جو بڑے ادعا کے ساتھ کی گئی تھیں جھوٹا ثابت کردیا ہے، اور ان کے عدم وقوع کو خود مرزا اور مرزائیوں کی تحریروں سے دکھلایا ہے۔ ہندوستان کے اس مدعی نبوت کی حقیقت اگر کوئی دیکھنا چاہے تو اس کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ (رسالۂ '' جامعہ '' دہلی ۔ بابت ماہ اپریل ۱۹۳۵ء)
فاران
'' جزئیات سے لے کر اصول تک ہر بات کو اس مجموعے میں مفصل بیان کیا ہے اور قادیانیوں سے مباحثہ کرنے والوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا ہے۔ اصولاً جس قدر مباحث ہیں، سب پر مدلل اور محققانہ بحث ہے۔ اور اپنے فن میں سب سے عمدہ کتاب ہے۔''
(رسالہ فاران'' بجنور'' بابت ماہ مئی ۱۹۳۵ء)
النجم
'' کتاب اپنی معنوی خوبیوں اور ظاہری دلفریبیوں کے اعتبار سے ہر مسلمان کے لیے قابل مطالعہ ہے... کتاب کو تعلیم یافتہ طبقہ میں، زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے۔''
(اخبار '' النجم'' لکھنؤ مورخہ ۳؍ مئی ۱۹۳۵ء)
مسلمان
'' محمدیہ پاکٹ بک'' ہر حیثیت سے قابل قدر ہے۔ اور بلا مبالغہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزائیوں کو فنا کرنے کے لیے ہر قسم کا ضروری علمی، عقلی اور نقلی مواد اس میں موجود ہے۔''
(اخبار ''مسلمان '' سوہدرہ مؤرخہ ۱۵؍ جولائی ۱۹۳۵ء)
مسلم اہل حدیث گزٹ
'' تمام ضروری مباحث پر پوری تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ عام گفتگو اور مناظروں میں نہایت کام آنے والی کتاب ہے۔'' (''مسلم اہل حدیث گزٹ'' دہلی۔ بابت ماہ مئی ۱۹۳۵ء)
شیر ، رنگون
'' عقلی و نقلی دلائل اور قرآنی آیات سے اس مذہب کاذبہ کے ڈھول کا پول کھول دیا ہے... کتاب اس قابل ہے کہ ہر مسلمان پڑھے اور اپنے پاس رکھے۔''
(روزنامہ ''شیر'' رنگون، مورخہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۳۵ء)
احسان، لاہور
'' اس کتاب میں ان تمام اعتراضات کا جواب دے دیا گیا ہے جو مرزائی مسلمانوں پر کیا کرتے ہیں۔ ختم نبوت، حیات و و فاتِ مسیح، آخری فیصلہ، کذب و صدق مرزا پر نہایت مدلل بحث کی گئی ہے۔ اور ان مسائل کا کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑا۔ اندازِ بیان نہایت سلجھا ہوا اور متین ہے... ہمارے خیال میں اس موضوع پر اس سے زیادہ جامع و مانع کتاب شائع نہیں ہوئی۔''
(روزنامہ ''احسان'' لاہور مؤرخہ ۲۲؍ اپریل ۱۹۳۵ء)
یہ چند ضروری اقتباسات درج کردئیے گئے ہیں ورنہ اسلامی پریس کی آراء و تبصرے اگر اکٹھے کئے جاتے تو ایک مستقل دفتر جمع ہو جاتا ہے۔ ہندوستان بھر کے روزناموں، علمی اور تبلیغی رسالوں نے بڑے لمبے چوڑے ریویو لکھے۔ '' خلافت، بمبئی، دینہ بجنور، جمعیت دہلی اہل حدیث امرتسر'' اسی طرح کلکتہ صوبہ سرحد، صوبہ سندھ وغیرہ کے اخبارات نے شاندار الفاظ میں کتاب کی داد دی، اختصار کی غرض سے صرف چند اقتباسات پیش نظر ہیں۔ جو اندازہ لگانے کے لیے کفایت کرسکتے ہیں۔

ناظم دفتر محمدیہ پاکٹ بک ، مبارک مسجد
برانڈرتھ روڈ۔ لاہور

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

نَحْمدہٗ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

عرض حال
آج ''محمدیہ پاکٹ بک'' کا دوسرا ایڈیشن ناظرین کرام کے سامنے ہے۔ یہ خدائے تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ '' محمدیہ پاکٹ بک'' کو ہندوستان اور بیرونِ ہند میں خاص مقبولیت حاصل ہوئی، اور اس کا پہلا ایڈیشن غیر متوقع طور پر ہاتھوں ہاتھ صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں بالکل ختم ہوگیا۔
وجہ تالیف:
انجمن اہل حدیث لاہور ایک مدت سے اس چیز کی خواہش مند تھی کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ایسا حربہ ہونا چاہیے جو ہر وقت ہر پڑھے لکھے مسلمان کو مرزائیوں کے بڑے سے بڑے مناظر کے ساتھ گفتگو کرنے میں کام دے سکے۔ چنانچہ اسی جذبہ کے ماتحت انجمن نے اس خدمت کو حافظ محمد حسن صاحب مرحوم امام مسجد مبارک لاہور جو اس تجویز کے محرک تھے کے سپرد کیا اور انہوں نے معتدبہ حصہ لکھا بھی لیکن موت کے زبردست ہاتھ نے مرہم کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ بعد ازاں پہلے ایڈیشن کی تکمیل کے لیے انجمن اہل حدیث لاہور نے منشی محمد عبداللہ صاحب معمار جنہیں انجمن اہل حدیث لاہور نے '' فاضلِ مرزائیات '' کی اعزازی ڈگری دی تھی، کی خدمات حاصل کیں۔
دوسرا ایڈیشن:
دوسرے ایڈیشن کے لیے انجمن نے ہندوستان کے بہت سے اہل علم حضرات کی امداد حاصل کی۔ چنانچہ موجودہ ایڈیشن پہلے ایڈیشن سے ضخامت میں دو سو صفحات کے قریب بڑھ گیا ہے۔ بہت سے مفید اور اہم مسائل کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ ختم نبوت اور کذب مرزا پر نئے نئے دلائل قارئین کے سامنے لائے گئے ہیں اور مرزائیوں کے نئے اعتراضوں کا مدلل و مسکت جواب بھی شامل کردیا گیا ہے، غرض یہ کہ موجودہ ایڈیشن ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ مکمل اور مدلل ہوگیا ہے۔ اب ''محمدیہ پاکٹ بک'' اس درجہ مفید اور جامع ہوچکی ہے کہ مرزائیت کے متعلق کسی مسئلے یا اعتراض کے لیے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں رہتی۔
'' محمدیہ پاکٹ بک''
تمام دیگر کتابوں سے بے نیاز کردیتی ہے...!
باقاعدہ رجسٹری:
''محمدیہ پاکٹ بک'' کو باقاعدہ طور پر گورنمنٹ آف انڈیا سے بحق انجمن اہل حدیث لاہور رجسٹری کرایا جا چکا ہے۔ تاکہ غیر ذمہ دار لوگوں کے تجارتی اغراض و مقاصد کی وجہ سے اس کے تبلیغی فوائد فوت نہ ہونے پائیں۔
مقبولیت و اثر:
'' محمدیہ پاکٹ بک'' کو خدائے بزرگ و برتر نے قبولیت کا وہ درجہ عطا فرمایا کہ اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہندوستان میں کسی دوسری کتاب کو آج تک یہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی تو بالکل بجا ہوگا ہندوستان و بیرون ہند سے اس قدر مانگ ہوئی کہ صرف تین ماہ کے قلیل عرصے میں ایک نسخہ بھی دفتر میں باقی نہ رہا اور لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم ہے کہ اب تک متواتر مطالبہ جاری ہے کہ ہر روز بیسیوں خطوط موصول ہوتے ہیں کہ کتاب بھیجو! ہندوستان کے ہر قریہ اور ہر شہر میں یہ کتاب پہنچی۔ ہندوستان کے باہر جہاں کہیں بھی کوئی اردو جاننے والا متنفس موجود ہے اس حلقے میں ایک آدھ نسخہ ضرور پہنچا۔ عوام اور خواص دونوں نے بڑی دل چسپی سے پڑھا۔ ذی علم اور تعلیم یافتہ حضرات نے اس کے مطالعہ کو فخر سمجھا، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر، بیرسٹر و ایڈوکیٹ، آئمہ مساجد و علماء سیاسی و مذہبی راہنما اور عوام غرض یہ کہ ہر طبقے اور ہر گروہ میں '' محمدیہ پاکٹ بک'' نے رسائی حاصل کی۔
ہندوستان کے بڑے بڑے ماہانہ علمی رسالوں ... مثلاً '' جامعہ'' دہلی اور '' معارف'' اعظم گڑھ... نے نہایت حوصلہ افزا اور شاندار ریویو لکھے۔ ہفتہ وار مذہبی، علمی اور تبلیغی اخباروں نے طویل تبصرے کئے۔ روزناموں نے '' محمدیہ پاکٹ بک'' کی تعریف میں کئی کئی کالم لکھے۔ جن کا نمونہ آپ کتاب کے شروع صفحات میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
'' محمدیہ پاکٹ بک'' کے اثر و افادیت کے لیے سینکڑوں مثالوں میں سے صرف ایک پرا اکتفا کرتا ہوں، ویسے تو بے شمار خطوط دفتر میں پڑے ہیں۔ اور متعدد حضرات نے کتاب کے مطالعہ کے بعد مرزائیت سے تائب ہو کر اپنے توبہ نامے اخباروں میں شائع کرائے ہیں۔ مگر اختصار کی خاطر یہاں صرف ایک اخباری حوالہ درج کیا جاتا ہے۔ جس کی تردید کی آج تک کسی مرزائی اخبار کو جرأت نہیں ہوسکی۔
'' اخبار احسان'' لاہور مؤرخہ ۲۔ اگست ۱۹۳۵ء یوں رقمطراز ہے:
'' نو شہرہ ککے زیاں۔ ۲۹؍ جولائی۔ بابو عبدالغنی ککے زئی اسٹیشن ماسٹر داؤد خیل۔ حال وارد نو شہرہ ککے زیاں تحصیل پسرور۔ ضلع سیالکوٹ جو چھ سال سے مرزائی تھے '' محمدیہ پاکٹ بک'' کے مطالعہ کے بعد آج پھر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے۔
آج اپ نے بزبانِ انگریزی ایک تو بہ نامہ بھی تحریر کردیا ہے تاکہ کسی مرزائی کے لیے شبہ کی گنجائش نہ ہے (دستخط گواھان) آقا عبدالغنی۔ منشی الٰہی بخش، شرف الدین گورنمنٹ پنشنر۔ عبدالعزیز ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر...!''
اس ایک مثال سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ '' محمدیہ پاکٹ بک'' کس درجہ مفید اور ضروری کتاب ہے۔ ہر تبلیغی ذوق رکھنے والے مسلمان کو چاہیے کہ '' محمدیہ پاکٹ بک'' ہر وقت اپنے پاس رکھے تاکہ مرزائیت کے دجل و تلبیس کا تارپود ہر آن بکھیرا جاسکے۔
مرزائیت تمام مسلمانوں کے لیے مشترکہ فتنہ عظیمہ ہے۔ اس لیے ہم ہر مسلمان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کتاب کی توسیع اشاعت میں ضرور حصہ لے اور صاحبِ ثروت حضرات اپنے جیب سے دام ادا کرکے اپنے گاؤں کے ائمہ مساجد کے لیے اس کے نسخے فراہم کرکے بہت بڑی خدمت انجام دیں۔
وہ تمام حضرات جنہوں نے اس کتاب کی ترمیم واضافہ میں مدد دی بالخصوص حضرت مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی، حضرت مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عبدالقیوم ایم اے، مولانا الحاج احمد یار خاں ہمارے شکریے کے مستحق ہیں۔ کیونکہ ان حضرات کے تعاون کے بغیر کتاب بالکل تشنۂ تکمیل رہ جاتی۔
بالآخر رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہماری ان ناچیز محنتوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔ اور ہماری کوششوں کو مشکور فرمائے۔ آمین والحمد للہ رب العالمین۔
سیکریٹری شعبہ تالیف و طبع
یکم جنوری ۱۹۳۶ء
بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کے چند ایک دعاوی

۱: وہ مسیح موعود جو آخری زمانہ کا مجدد ہے وہ میں ہی ہوں۔ (۱ )
۲: اے عزیزو! اس شخص (مرزا) مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لیے بہت سے پیغمبروں نے خواہش کی ۔ ص۱۴۔ اربعین ۴۔ (۲)
۳: خدا ، رسول، تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح موعود (مرزا) کو (مسیح ابن مریم) سے افضل قرار دیا ہے۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔ (۳)
۴: ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ... اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ (۴)
۵: اینک منم کہ حسب بشارات آمد م ...عیسیٰ کجاست تابنہد پا بمنبرم۔ (۵)
۶: سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔ (۶)
۷: ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔ (۷)
۸: آدمم نیز احمد مختار ... در برم جامۂ ہمہ ابرار
آنچہ داداست ہر نبی راجام ... داد آں جام رامر ابتمام (۸)
منم مسیح زماں و منم کلیم خدا ... منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد (۹)
۹: خدا تعالیٰ نے اور اس کے پاک رسول نے مسیح موعودہ کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام نبیوں نے اس (مرزا) کی تعریف کی ہے۔ (۱۰)
۱۰ : میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا تھا۔ (ص ۵۱ فتاویٰ احمدیہ جلد۱) (۱۱)
۱۱: پس اس (خدا تعالیٰ) نے مجھے پیدا کرکے ہر ایک گذشتہ نبی سے مجھے تشبیہ دی کہ میرا نام وہی رکھ دیا۔ چنانچہ آدم، ابراہیم، نوح، موسیٰ، داؤد، سلیمان، یوسف، یحییٰ ، عیسیٰ وغیرہ یہ تمام نام میرے رکھے گئے۔ اس صورت میں گویا تمام انبیاء اس امت میں دوبارہ پیدا ہوگئے۔ (۱۳)
۱۲: خدا کے نزدیک اس (مرزا) کا ظہور مصطفی کا ظہور مانا گیا ہے۔
۱۳: جو شخص مجھ میں اور نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں جانا اور نہیں پہچانا۔ (۱۴)
۱۴: اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا۔ اب کیا تو انکار کرے گا۔ (۱۵)
۱۵: غلبہ کاملہ (دین اسلام) کا آنحضرت کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا یہ غلبہ مسیح موعود (مرزا) کے وقت ظہور میں آئے گا۔ (۱۶)
۱۶: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ہزار معجزات(۱۷) (ص ۴۰ تحفہ گولڑھ) مگر مرزا کے دس لاکھ نشان۔(۱۸)
۱۷: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت دین کی حالت پہلی شب کے چاند کی طرح تھی مگر مرزا کے وقت چودہویں رات کے بدر کامل جیسی ہوگی۔ (۱۹)
۱۸: جو کوئی میری جماعت میں داخل ہوگیا وہ صحابہ میں داخل ہوگیا۔ (۲۰)
۱۹: صدہا نبیوں کی نسبت ہمارے معجزات اور پیش گوئیاں سبقت لے گئی ہیں۔ (۲۱)
۲۰: خدا نے اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر تقسیم کیے جائیں تو ان کی نبوت ثابت ہوسکتی ہے۔ (۲۲)
۲۱: اِعْلَمُوْا اَنَّ فَضْلَ اللّٰہِ مَعَی وَاَنَّ رُوْحَ اللّٰہِ یَنْطِقُ فِیْ نَفْسِی (جان لو کہ اللہ کا فضل میرے ساتھ ہے اور اللہ کی روح میرے نفس میں بولتی ہے)۔ (۲۳)

-------------------------------------------------------------------------------

مرزا کے چند ایک دعاوی کی تخریج
(۱) حقیقت الوحی ص۱۹۴ و روحانی خزائن ص۲۰۱،ج۲۲
(۲) اربعین ص۱۳ حصہ چہارم و روحانی خزائن ص۴۴۲،ج۱۷
(۳) ملخصًا حقیقت الوحی ص۱۵۵ و روحانی ص۱۵۹،ج۲۲
(۴) تتممہ حقیقت الوحی ص۴۹ و روحانی ص۴۸۳،ج۲۲
(۵) ازالہ اوہام ص۲۰ وروحانی ص۱۸۰،ج۳
(۶) دافع البلاء ص۱۱، و روحانی ص۲۳۱، ج۱۸
(۷) مرزائی اخبار بدر جلد ۷ شمارہ نمبر۹ مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ ص۲ والحکم جلد ۱۲ شمارہ نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷،ج۵ فرمودہ بلا تاریخ
(۸) نزول المسیح ص۹۹ و روحانی ص۴۷۷،ج۱۸
(۹) تریاق القلوب ص۳ و روحانی ص۱۳۵، ج۱۵
(۱۰) نزول المسیح ص۴۸ و روحانی ص۴۲۶،ج۱۸
(۱۱)
(۱۲) نزول المسیح ص۴ و روحانی ص۲۹۷،ج۱۸
(۱۳) مفہوم خطبہ الھامیہ ص۲۰۰ و روحانی ص۲۹۷، ج۱۶
(۱۴) ایضاً ص۱۷۱ و روحانی ص۲۵۹،ج۱۶
(۱۵) اعجاز احمدی ص۷۱ و روحانی ص۱۸۳،ج۱۹
(۱۶) ملخصًا الشھادتین ص۴۱ و روحانی ص۴۳،ج۲۰
(۱۷) تحفہ گولڈویہ ص۴۰ و روحانی ص۱۵۳،ج۱۷
(۱۸) تذکرۃ الشھادتین ص۴۱ و روحانی ص۴۳،ج۲۰
(۱۹) مفہوم خطبہ الھامیہ ص۱۷۸ و روحانی ص۲۶۷،۲۹۴، ج۱۶
(۲۰) ایضاٍ ص۱۷۱ وروحانی ص۲۵۸،ج۱۶
(۲۱)
(۲۲) چشمہ معرفت ص۳۱۷ و روحانی ص۳۳۲،ج۲۳
(۲۳) انجام آتھم ص۱۷۶ و روحانی ص۱۷۶،ج۱۱

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
خدائی کے دعوے
۱: خدا کی مانند۔ (۲۴)
۲: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی ہوں۔ (۲۵ )
۳: '' ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام '' (اس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا) یعنی انسانی مظہر (مرزا) کے ذریعہ اپنا جلال ظاہر کرے گا۔ (۲۶)
۴: '' اَنْتَ مِنی بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ '' (اے مرزا تو مجھ سے میری اولاد جیسا ہے)۔ (۲۷)
۵: خدا نکلنے کو ہے ''اَ نْتَ مِنیْ بِمَنْزِلَۃِ بُروْزی ''(تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہوگیا)۔ (۲۸)
۶: اُعْطِیْتُ صِفَّۃَ الْاِفْنَائِ وَالْاِحیائِ من رب الفعال (مجھے خدا کی طرف سے مارنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے)۔ (۲۹)
۷: اَنْتَ منی بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدی (تو مجھ سے میری توحید کی مانند ہے)۔ (۳۰)
۸: اِنَّمَآ اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتً شَیْئًا اَنْ تَقَول لہ کُنْ فَیکون (یعنی اے مرزا تیری یہ شان ہے کہ تو جس چیز کو کن کہہ دے وہ فوراً ہو جاتی ہے)۔ (۳۱)
۹: مرزا صاحب کہتے ہیں کہ خدا نے مجھے الہام کیا کہ تیرے گھر ایک لڑکا پیدا ہوگا ''کان اللہ نزل من السماء'' (گویا خدا آسمانوں سے اتر آیا)۔ (۳۲)
------------------------------------------------------------------------------------
(۲۴) اربعین ص۲۵ حصہ سوم و روحانی ص۴۱۳،ج۱۷
(۲۵) آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴ و روحانی خزائن جلد پنجم صفحہ ایضاً و کتاب البریہ ص۷۸ و روحانی ص۱۰۳،ج۱۳ وتذکرہ ص۱۹۳
(۲۶) حقیقت الوحی ص۱۵۴ و روحانی ص۱۵۸، ج۲۲
(۲۷) حاشیہ اربعین نمبر۴ ص۱۹ و روحانی ص۴۵۲،ج۱۷ ودافع البلاء ص۶ و روحانی ص۲۲۷،ج۱۸ وتذکرہ ص۳۹۹، ص۴۲۲
(۲۸) تجلیات الٰھیہ ص۱۲ و روحانی ص۴۰۴، ج۲۰ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ بحوالہ تذکرہ ص۶۰۴
(۲۹) خطبہ الھامیہ ص۲۳ و روحانی ص۱۵۶، ج۱۶
(۳۰) براھین احمدیہ ص۴۸۹،ج۴ حاشیہ در حاشیہ و روحانی ص۵۵۱،ج۱ و آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱ و روحانی صفحہ ایضاً جلد ۵ و تحفۃ بغداد ص۲۳ و روحانی ص۲۶،ج۷ و انجام آتھم ص۵۱ و اربعین نمبر ۲ ص۶ و روحانی ص۳۵۳،ج۱۷ وایضاً ص۲۳ نمبر ۳ وتذکرۃ الشھادتین ص۳ وروحانی ص۵،ج۲۰ والوصیت ص۱۶ و روحانی ص۳۱۷،ج۲۰ وتذکرہ ص۲۰۴، ص۴۵۲، ص۵۲۵
(۳۱) رجسٹر متغرق یادداشتیں مرزا قادیانی ص۲۶ بحوالہ تذکرہ ص۲۰۴ و کاپی الھامات مرزا ص۲۹ بحوالہ تذکرہ ص۵۱۷ و حقیقت الوحی ص۱۰۵ و روحانی ص۱۰۸ ج۲۲
(۳۲) اشتہار مرزا ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات حضرت مسیح موعود ص۱۰۱،ج۱ وازالہ اوہام ص۶۳۵ و روحانی ص۴۴۲،ج۳ وانجام آتھم ص۶۲ و اربعین نمبر ۳ ص۳۲ و روحانی ص۴۲۲،ج۱۷ و مرزائی اخبار ، بے نور،بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍ فروری ۱۹۰۷ء والحکم جلد ۱۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۷ء ص۱ بحوالہ تذکرہ ص۶۹۶

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کے چند ایک مضحکہ خیز اور گول مول الہامات

۱: بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی اور ناپاکی پر اطلاع پائے، تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ (حیض) بچہ ہوگیا جو بمنزلہ اطفال اللہ کے ہے۔ (۳۳)
۲: '' میرا نام ابن مریم رکھا گیا اور عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں حاملہ ٹھہرایا گیا آخر کئی مہینہ کے بعد جو (مدت حمل) دس مہینہ سے زیادہ نہیں، مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا، پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔'' (۳۴)
۳: مرزا صاحب کا ایک مرید قاضی یار محمد اپنے ٹریکٹ نمبر ۳۴ موسومہ ''اسلامی قربانی'' میں لکھتا ہے حضرت مسیح موعود (مرزا) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر طاری ہوئی۔ گویا کہ آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا۔ (۳۵)
۴: '' بستر عیش'' تاریخ الہام ۴ دسمبر ۱۹۰۳ء غالباً منکوحہ آسمانی کے وصال کی امید ہے۔ (۳۶)
۵: '' جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی ہے'' زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں تفسیر۔ عنقریب سنا جاوے گا کہ بہت سے مفسد جو مخالفان اسلام ہیں۔ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا۔ (۳۷) (بشری ص۹۰ جلد ۲ بحوالہ البدر جلد ۳ نمبر ۱۶، ۱۷) تعیین کوئی نہیں کی۔ مطلب یہ کہ جو مخالف مرے گا اُسے اس کی لپیٹ میں لیتے جاویں گے۔
۶: '' چوہدری رستم علی'' (۳۸) جلد ۲ (مطلب ندارد)
۷: زندگیوں کا خاتمہ (۳۹) (کن کی زندگیوں کا خاتمہ کب ہوگا۔ کیسے ہوگا؟ کوئی پتہ نہیں)
۸: لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے۔ شیر خدا نے ان کو پکڑا اور شیر خدا نے فتح پائی۔ (۴۰) امین الملک جے سنگھ بہادر (۴۱) (تشریح ندارد)
۹: لاہور میں ایک بے شرم ہے (۴۲)(تعیین کوئی نہیں)
۱۰: ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے بعض چھوڑے جائیں گے۔ (۴۳)
۱۱: گورنر جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔ (۴۲)
۱۲: بعد ۱۱ ۔ ان شاء اللہ (۴۵) '' تشریح تفہیم نہیں ہوئی کہ ۱۱ سے کیا مراد ہے گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا؟ یہی ہندسہ ۱۱ کا دکھایا گیا حوالہ بالا)
۱۳: آج سے یہ شرف دکھائیں گے ۔(۴۶)
۱۴: اُس کتے کا آخری دم '' فرمایا'' میں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی کتا بیمار ہے میں اُسے دوا دینے لگا ہوں تو میری زبان پر یہ جاری ہوا۔ (۴۷)
۱۵: '' افسوس صد افسوس''۔ (۴۸)
۱۶: '' فیرمین'' (Fair Man) ترجمہ معقول آدمی ۔(۴۹)
۱۷: '' فضل الرحمن نے دروازہ کھول دیا۔'' (البشریٰ جلد ۲ ص ۹۰ حصہ ابحوالہ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳)
۱۸: ہم نے وہ جہان چھوڑ دیا کوئی روح کہتی ہے۔ (۵۱)
۱۹: ایک ناپاک روح کی آواز آئی میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا۔ (۵۲)
۲۰: کیا عذاب کا معاملہ درست ہے اگر درست ہے تو کس حد تک؟ (۵۳)
۲۱: رؤیا۔ ایک عورت زمین پر بیٹھی ہے جو مخالفانہ رنگ میں ہے۔ میں اس کے برابر گذرا تو آواز آئی '' لَعْنَۃُ اللّٰہِ الْکَاذِبِیْنَ '' ساتھ ہی یہ الہام ہوا۔ '' اس پر آفت پڑی اس پر آفت پڑی۔'' (۵۴)
۲۲: آتش فشاں۔ مصالح العرب۔ بامراد۔ ردّبلا۔ (۵۵) ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا تھا: ایضاً
۲۳: ایک دانہ کس کس نے کھانا۔ (۵۶)
۲۴: شر الدین انعمت علیھم۔ (۵۷)
۲۵: نوٹ: میں امام زمان ہوں۔ (۵۸) اور '' امام الزمان کی الہامی پیشگوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کرلیتے، جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو۔ (۵۹)


---------------------------------------------------------------------------------

(۳۳) تتممہ حقیقت الوحی ص۱۴۳ ص۱۴۳و روحانی ص۵۸۱،ج۲۲
(۳۴) کشتی نوح ص۴۶ تا ۴۷ و روحانی ص۵۰، ج۱۹
(۳۵) اسلامی قربانی
(۳۶) البدر جلد ۳ نمبر ۱ مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء ص۶ والحکم جلد ۷ نمبر ۴۶،۴۷ مورخہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء ص۱۵ بحوالہ تذکرہ ص۴۹۹ والبشرٰی ص۸۸،ج۲
(۳۷) البشرٰی ص۹۰،ج۲ وتذکرہ ص۵۰۸، ۵۰۶ واللفظ لہ
(۳۸) الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۱۲ بحوالہ تذکرہ ص۵۳۲ والبشرٰی ص۹۴، ج۲
(۳۹) بدر جلد ۱ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر۴۰ مورخہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء ص۱ بحوالہ تذکرہ ص۵۷۷
(۴۰) اربعین نمبر ۳ ص۳۸ و روحانی ص۴۲۹،ج۱۷ وبدر جلد ۲ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۳؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد۱۰ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء بحوالہ تذکرہ ص۶۷۲
(۴۱) الحکم جلد ۱۰ ۳۲ مورخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۱ بحوالہ تذکرہ ص۶۷۲ والبشرٰی ص۱۱۸، ج۲
(۴۲) بدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء ص۳ والحکم جلد ۱۱ نمبر۹ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء ص۱ بحوالہ تذکرہ ص۷۰۴
(۴۳) ایضاً
(۴۴) الحکم جلد ۳، نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۸۹۹ء ص۶ بحوالہ تذکرہ ص۳۴۲ والبشرٰی ص۵۷
(۴۵) اربعین نمبر۴ حاشیہ صفحہ ۲۱ وتذکرہ ص۴۰۱ والبشرٰی ص۶۵،ج۲ وروحانی ص۴۵۷،ج۱۷
(۴۶) الحکم جلد ۵ نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۱ء ص۱۲ بحوالہ تذکرہ ص۴۰۷ والبشرٰی ص۶۸،ج۲
(۴۷) الحکم جلد ۱۴ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۸؍ مئی ۱۹۱۰ء ص۵ وتذکرہ ص۴۱۷ مکاشفات مرزا ص۲۲
(۴۸) الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۲ء ص۷ وتذکرہ ص۴۱۹ والبشرٰی ص۷۱،ج۲
(۴۹) البدر جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۰۳ء ص۳۶۶ وتذکرہ ص۴۸۴ والبشرٰی ص۸۴،ج۲
(۵۰) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء والبشرٰی ص۹۰،ج۲
(۵۱) البدر '' سلسلہ جدید '' جلد ۱ نمبر ۱ مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۳ والحکم جلد ۹ نمبر۱۳ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء ص۱۴ وتذکرہ ص۵۳۳ والبشرٰی ص۹۵ ج۲
(۵۲) اشتھار مرزا مورخہ ۸؍اپریل ۱۹۰۵ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات حضرت مسیح موعود ص۵۲۴،ج۳ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۳۵
(۵۳) بدر جلد ۱ نمبر۶ مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء ص۱والحکم جلد ۹ نمبر۱۷ مورخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۱ وتذکرہ ص۵۴۸ البشرٰی ص۹۷،ج۲
(۵۴) بدر جلد ۱ نمبر۱۰ مورخہ ۱۹۰۵ء ص۷ والحکم جلد ۹ نمبر۲۲ مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۵ء ص۲ وتذکرہ ص۵۵۵
(۵۵) بدر جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد۹، نمبر۳۲ مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء ص۳ وتذکرہ ص۵۶۴
(۵۶) بدر جلد ۲ نمبر۷ مورخہ ۱۶؍فروری۱۹۰۶ء ص۲ والحکم جلد ۱۰ نمبر۵ مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۶ء ص۱۱ وتذکرہ ص۵۹۵ والبشرٰی ص۱۰۷، ج۲
(۵۷) بدر جلد ۱نمبر ۸ مورخہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر۱۸ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۱ وتذکرہ ص۵۵۰
(۵۸) ضرورت الامام ص۲۴ و روحانی ص۴۹۵،ج۱۳
(۵۹) ایضاً ص۱۳ و ایضاً ص۴۸۳

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
باب اوّل
دلائل کذب مرزا

دلیل اوّل مرزا صاحب کی پیش گوئیاں
فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوْانتقامoط
'' ہرگز ہرگز گمان نہ کر کہ خدا اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدہ کا خلاف کرے گا۔ لاریب خدا غالب و منتقم ہے۔'' (۱)
کسی انسان کو ذاتی طور پر علم غیب حاصل نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی بشر کو کسی پوشیدہ بات پر مطلع کردے۔
پس جو شخص کسی آئندہ بات کی قبل از وقوع خبر دے۔ اس کے متعلق دو ہی خیال ہوسکتے ہیں۔ (۱) یہ کہ اس نے رفتارِ حالات کو ملحوظ رکھ کر نیچر کے استراری واقعات کی بنا پر قیاس آرائی کی ہے۔ (۲) یہ کہ اُسے براہِ راست یا بالواسطہ کسی مخبر صادق نے اطلاع دی ہے۔
یہ ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کی قیاس وغیرہ سے دی ہوئی خبر ٹھیک نکل آئے جیسا کہ بعض منجموں، راولوں کی پیش گوئیاں صحیح ثابت ہو جاتی ہیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ خدائے عالم الغیب کی بتلائی ہوئی بات غلط ہو جائے ہمارے مخاطبین یعنی مرزائیوں کے '' پیغمبر اعظم'' مرزا صؑاحب بھی مانتے ہیں کہ:
'' ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔'' (۲)
لہٰذا ہم بلکہ ہر دانا انسان یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ جس شخص ''مدعی الہام'' کی کوئی بھی پیشگوئی غلط ثابت ہو جائے وہ خدا کا ملہم اور مخاطب نہیں بلکہ مفتری علی اللہ ہے۔ کیونکہ
'' ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں۔'' (۳)
کشتی نوح مصنفہ مرزا۔
پس ہم سب سے پہلے مرزا صاحب کی پیش گوئیاں دیکھتے ہیں اگر ان میں بعض سچی ہیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ قیاس وغیرہ سے کی گئی ہوں۔ لیکن اگر ان میں ایک بھی جھوٹی ہے تو یقینا وہ مرزا صاحب کے مفتری علی اللہ ہونے کی قطعی و یقینی دلیل ہے۔ چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' کسی انسان خاص کر (مدعی الہام) کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے۔'' (۴)
قطع نظر منقولہ بالا معقول طریق کے الزامی طور پر بھی ہم اس دلیل کے قائم کرنے میں حق بجانب میں کیوں کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی انہی کا فرمان ہے کہ:
'' تورات اور قرآن نے بڑا ثبوت نبوت کا صرف پیشگوئیوں کو قرار دیا ہے۔'' (۵)
نبوت کے دعویٰ کو الگ کرکے دیکھا جائے تو یہ دلیل پھر بھی مکمل ہے کیونکہ مرزا صاحب کا عام اعلان ہے کہ:
'' ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک(کسوٹی) امتحان نہیں۔'' (۶)
حاصل یہ کہ مرزا صاحب کا کذب و صدق معلوم کرنے کے لیے پہلا اور '' سب سے بڑا معیار ان کی پیش گوئیاں ہیں۔''

------------------------------------------------------------------------------

باب اول ''دلائل کذب مرزا ''کی تخریج
(۱) پ۱۳ سورہ ابراھیم آیت ۴۸
(۲) چشمہ معرفت ص۸۳ و روحانی ص۹۱ ج۲۳
(۳) کشتی نوح ص۵ و روحانی ص۵،ج۱۹
(۴) تریاق القلوب ص۱۰۷ و روحانی ص۳۸۲ ج۱۵
(۵) استفتا ص۳ و روحانی ص۱۱۱،ج۱۲
(۶) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸، مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۵۹،ج۱ و آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸ و روحانی جلد پنجم صفحہ ایضاً

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزا صاحب کی غلط پیشگوئیاں

پیشگوئی اوّل

۱۸۸۶ء میں مرزا صاحب کی بیوی حاملہ تھی۔ (۸) اس وقت آپ نے یہ پیشگوئی گھڑی کہ:
'' خدائے رحیم و کریم نے جو ہر چیز پر قادر ہے مجھ کو اپنے الہام سے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ خدا نے کہا تاکہ دین اسلام کا شرف۔ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو تاکہ لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں تاکہ وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تاکہ انہیں جو خدا، خدا کے دین، اس کی کتاب، اس کے رسول کو انکار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے، ایک وجہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ وہ تیرے ہی تخم، تیری ہی ذریت سے ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آنا ہے، اس کا نام بشیر بھی ہے، مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے وہ بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس فقرہ کے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ، فرزند دلبند، گرامی ارجمند۔ '' مظھر الاول والاخر مظھرا لحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء '' وہ جلد جلد بڑھے گا۔ اسیروں کی رستگاری کا باعث ہوگا، قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ (۹)
اس اشتہار میں جس زور و شور کے ساتھ مذکورہ لڑکے کی پیش گوئی کرتے ہوئے اسے خدا، اسلام، رسول خدا، اور خود مرزا کے صاحب الہام ہونے بلکہ خدا تعالیٰ کے قادر و توانا ہونے کی زبردست دلیل گردانا گیا ہے۔ وہ محتاج تشریح نہیں ہے مگر افسوس کہ اس حمل سے مرزا صاحب کے گھر لڑکی پیدا ہوئی۔ (۱۰)
اس پر مزید افسوس یہ کہ اس کے بعد مرزا صاحب کے ہاں کوئی لڑکا ایسا نہیں ہوا جسے مرزا صاحب نے اس پیش گوئی کا مصداق ٹھہرایا ہو، اور وہ زندہ رہا ہو(۱۱)۔ خود مرزا صاحب نے اس کے مصلح موعود نہ ہونے کا عملاً یا قولاً اقرار نہ کیا ہو۔

عذرِ مرزا :
مرزا صاحب پر ان کی زندگی میں ہی اس پر اعتراض ہوا کہ بجائے لڑکے کے لڑکی پیدا ہوئی ہے تو آپ نے اس کا یہ جواب دیا۔
''کوئی اس معترض سے پوچھے کہ وہ فقرہ یا لفظ کہاں ہے جو کسی اشتہار میں اس عاجز کے قلم سے نکلا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا۔ (۱۲)

الجواب:
مرزا صاحب نے گو صاف صاف الفاظ میں تو اپنے اشتہار میں یہ انہیں لکھا تھا کہ لڑکا اسی حمل سے ہوگا۔ مگر بعد کے اشتہاروں میں اسے تسلیم کیا گیا ہے اور اپنے مریدوں کے روبرو تو انہی دنوں مشہور کر رکھا تھا کہ لڑکا اسی حمل سے ہوگا (۱۳)۔ منشی الٰہی بخش صاحب اکائونٹنٹ لاہوری (جو ایک عرصہ تک مرزا صاحب کے مریدان خاص میں رہے ہیں) اُن کی شہادت اور شہادت بھی وہ جسے خود مرزا صاحب نے ''تتمہ حقیقۃ الوحی'' ص ۱۳۵ پر درج کرکے اس سے انکار نہیں بلکہ اجتہادی غلطی کا عذر پیش کیا ہے، موجود ہے جس کے جواب میں لکھا ہے:
'' خدا کا کوئی الہام نہیں تھا کہ عمر پانے والا لڑکا پہلے حمل سے ہی پیدا ہوگا اور کوئی اجتہادی خیال اگر ہو تو اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جو نبی کے اجتہاد کو واجب الوقوع سمجھے ہیں۔ میری طرف سے کبھی کوئی پیش گوئی شائع نہیں ہوئی کہ لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا۔ رہا اجتہاد سو میں خود قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے کبھی اجتہادی غلطی نہیں کی۔ (۱۳)
اس تحریر میں صاف اعتراف ہے کہ الہاماً تو نہیں، ہاں اجتہاداً ضرور کہا گیا تھا کہ لڑکا اسی حمل سے ہوگا مگر یہ اجتہادی غلطی ہے کیا خوب :

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

اب رہا یہ عذر کہ الہام کی رو سے نہیں کہا گیا۔ سو اول ہمیں کسی الہام کی تلاش کی ضرورت نہیں کیوں کہ قاعدہ ''یوخذ المرء باقرارہٖ'' (آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے) کے علاوہ مرزا صاحب کا دعویٰ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الھو اِنْ ھوالاَّ وحی یوحٰی (۱۴) ہمارے مواخدے کو مضبوط و مستحکم کرنے کو کافی ہے۔ تو بھی ہم مرزا صاحب کے الہام سے ثابت کردیتے ہیں۔
الہام مرزا کہ لڑکا پہلے حمل سے ہوگا:
'' آج آٹھ اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو مدت ایک حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا۔''
اُس (الہام) سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں۔ (۱۵)
مذکورہ تحریر مرزا جسے ہم نے دو حصوں میں تقسیم کرکے نقل کیا ہے، اس کے پہلے حصہ میں ایک مدت حمل کے اندر ایک لڑکے کی ولادت الہام سے لکھی ہے اور دوسرے حصہ میں پھر اسے گول مول رکھنے کے لیے یہ لفظ لکھے ہیں:
'' ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا اس کے قریب حمل میں۔''
بہت خوب ! ہمیں اس وقت مرزا صاحب کی اس ہیرا پھیری سے سروکار نہیں ناظرین خود سمجھ لیں۔ ان ہر دو فقروں کی مزید تشریح اشتہار ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء میں مرزا صاحب نے یوں کی ہے:
'' اے ناظرین! میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لیے میں نے اشتہار ۸؍ اپریل ۸۶ء میں پیش گوئی کی تھی کہ اگر وہ موجودہ حمل سے پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے ضرور پیدا ہو جائے گا۔ (۱۶)
اس تحریر سے صاف واضح ہے کہ مرزا صاحب کے الہام '' ایک مدت حمل'' سے مراد موجودہ حمل تھا۔ اب صرف ایک بات باقی ہے کہ اگرچہ اشتہار مراد موجودہ حمل تو ثابت ہوگیا۔ مگر اسی اشتہار میں یہ بھی تو لکھا ہے '' ابھی پیدا ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں'' سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب کہ الہام میں صریح الفاظ موجود ہیں کہ '' مدت ایک حمل سے یعنی موجودہ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا'' تو یہ دوسرا فقرہ مرزا صاحب کی راست گوئی کا اظہار کر رہا ہے۔ اب رہا یہ امر کہ الہام '' ایک حمل'' یعنی '' موجودہ حمل'' کس لڑکے کے متعلق تھا، سو سنیے!
مرزا صاحب ایک اور اشتہار میں مانتے ہیں کہ الہام '' مدت ایک حمل'' مصلح موعود کے متعلق تھا۔ مگر مدت ایک حمل کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اڑھائی سال یا نو سال چنانچہ ملاحظہ فرمائیے۔ لکھا ہے:
'' مدت حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا ایک ذوالوجوہ فقرہ ہے جس کی ٹھیک ٹھیک وہی تشریح ہے جو میر عباس علی لدھانوی نے کی ہے، یعنی ۹ برس یا اڑھائی برس۔ (۱۷)
ہمارے ناظرین حیران ہوں گے کہ مرزا صاحب کیسے مسیح موعود اور صادق القول تھے کہ کبھی تو الہام '' مدت ایک حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا'' کو مصلح موعود کے متعلق مخصوص نہ کرتے ہوئے عام پیرایۂ میں لکھتے ہیں کہ ''غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا۔'' پھر اس پر مزید چالاکی یہ کہ '' مدت ایک حمل'' کے الفاظ سے بھی روگردانی کرکے وسعت پیدا کرنے کو لکھ گئے کہ '' یا بالضرور اس کے قریب حمل میں'' مگر آگے چل کر صاف تسلیم کر گئے کہ مدت ایک حمل سے مراد موجودہ حمل تھی اور اس کے بعد اس سے بھی صاف الفاظ میں مان گئے کہ یہ الہام مصلح موعود ہی کے متعلق ہے کسی عام لڑکے کے متعلق نہیں مگر اس جگہ بخلاف سابق مدت ایک حمل سے مراد اڑھائی سال یا نو سال لکھ دی ہے:

ہم بھی قائل تیری نیرنگی کے ہیں یاد رہے
او زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے

حاصل تحریراتِ بالا کا یہ ہے کہ مرزا صاحب نے موجودہ حمل سے لڑکے کی پیدائش نہ صرف اپنے اجتہاد سے بلکہ '' الہام'' سے بتائی تھی جو صریح غلط ثابت ہوئی کہ اس حمل سے لڑکی پیدا ہوئی، ملاحظہ اشتہار ۷؍ اگست ۸۷ء۔
مرزائی مناظرین کا ایک مغالطہ:
عام بحث و مناظروں میں مرزائی کہا کرتے ہیں کہ وہ مصلح موعود میاں محمود احمد ہیں۔ (۱۸)
جواب:
میاں محمود احمد مصلح موعود نہیں ہے۔ اس کا ثبوت تو یہ ہے کہ خود مرزا صاحب نے باوجود یہ کہ محمود احمد موجود تھا۔ اُس کی پیدائش (جو ۱۸۸۹ء میں ہوئی ہے (۱۹) ملاحظہ ہو اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ۱ ص ۱۴۸ کے دس سال بعد ۱۸۹۹ء میں پیدا ہونے والے لڑکے مبارک احمد کو مصلح موعود قرار دیا جیسا کہ تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ:
'' میرا چوتھا لڑکا جس کا نام مبارک احمد ہے اس کی نسبت، پیش گوئی اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی تھی سو خدا نے میری تصدیق کے لیے اور تمام مخالفوں کی تکذیب کے لیے اس پسر چہارم کی پیشگوئی کو ۱۴؍ جون ۱۸۹۹ء میں پورا کردیا۔ '' (۲۰)
عبارت ہذا شاہد ہے کہ میاں محمود احمد اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء والے موعود کا مصداق نہیں ہے۔ فَھٰذَا امُرَادُنَا فَلَہُ الْحَمْدُ
میاں محمود احمد کے مصلح موعود نہ ہونے پر اور بہت سے دلائل ہیں مگر بخوف طوالت مضمون ہم اسی پر بس کرتے ہیں:

صاف دل کو کثرتِ اقوال کی حاجت نہیں
اک سطر کافی ہے گر دل میں ہے خوفِ کردگار
اب ایک بات باقی ہے کہ مبارک احمد جسے مرزا صاحب نے مصلح موعود ٹھیرایا تھا اس کا کیا حشر ہوا۔ سو جواباً عرض ہے کہ وہ بیچارہ ۹ سال سے بھی کم عمر پا کر راہی ملک عدم ہوا اور مرزا صاحب اس کے غم میں سینہ کوبی کرتے رہ گئے۔ (۲۱)

--------------------------------------------------------------------------------

(۸) تاریخ احمدیت ص۱۲۲، ج۲
(۹) اشتہار مرزا مورخہ ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود ص۱۰۱،ج۱ و تبلیغ رسالت ص۵۸،ج۱ و تذکرہ ص۱۳۹ و مشمولہ، آخر، آئینہ کمالات اسلام ص۳ و روحانی ص۶۴۷، ج۵
(۱۰) حیات طیبہ ص۸۸ و تاریخ احمدیت ص۱۲۲،ج۲
(۱۱) مرزا کے ہاں ۱۷؍ اگست ۱۸۸۷ء کو لڑکا پیدا ہوا، جیسے مرزا نے مذکورہ پیشگوئی کا مصداق قرار دیا تھا ، مجموعہ اشتہارات ص۱۴۱، ج۱ جو کہ ۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء کو وفات پاگیا، ایضاً ص۱۶۲، ج۱، اس کے بعد مرزا جی نے کسی لڑکے کو موعود قرار نہیں دیا تھا کہ خود واصل بحق ہوگیا۔ (ابوصہیب)
(۱۲) اشتہارا مرزا بعنوان محک اخیار واشرار، مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا دجال ص۱۳۱،ج۱ وآخر، سرمہ چشم ص۴ و روحانی ص۳۱۸،ج۲
(۱۳) تتممہ حقیقت الوحی ص۱۳۵ و روحانی ص۵۷۳، ج۲۲
(۱۴) اربعین نمبر ۲، ص۳۶ و روحانی ص۳۵۸،ج۱۷ وایضًا ص۳۶، نمبر۳ و روحانی ص۴۲۶، ج۱۷ و تذکرہ ص۳۹۴و۳۷۸
(۱۵) اشتہار مرزا مورخہ ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۱۷، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۷۴،ج۱ و حیات احمد ص۱۷۳،ج۲ نمبر ۳
(۱۶) ملخصًا ، اشتہار مرزا مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء مندرجہ مجموعہ مرزا دجال ص۱۴۱، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۱۲۱، ج۱
(۱۷) نمبر ۱۲ میں تفصیل گزر چکی ہے (ابو صہیب)
(۱۸) ص۴۵
(۱۹) تریاق القلوب ص۴۲ و روحانی ص۲۱۹، ج۱۵
(۲۰) ملخصًا ، ایضًا ص۴۳ و روحانی ص۲۲۱ ج۱۵
(۲۱) اشتہار مرزا مورخہ ۵؍نومبر ۱۹۰۷ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۵۸۶،ج۳ و تبلیغ رسالت ص۱۲۶، ج۱۰

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
دوسری غلط پیشگوئی

اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے حاشیہ پر ایک پیشگوئی مرزا صاحب نے یہ کی تھی:
'' خداوند کریم نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ خواتین مبارکہ سے جن میں تو بعض کو اس (اشتہار) کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی۔'' (۲۲)
ایسا ہی اشتہار محک اخیار و اشرار میں لکھا ہے:
'' اس عاجز نے ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اُس نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی۔'' (۲۳)
بخلاف اس کے ۱۸۸۶ء کے بعد مرزا صاحب کے نکاح میں '' خواتین'' چھوڑ کر ایک خاتون بھی نہ آئی۔

مرزائیوں کا اعتراض:
'' بعض خواتین'' سے مراد '' محمدی بیگم'' ہے اور وہ نکاح مشروط تھا۔ جب ان لوگوں نے توبہ اور رجوع کے خطوط وغیرہ لکھے تو نکاح ٹل گیا۔ (۲۴)
الجواب:
اس اشتہار میں بلکہ مرزا صاحب کی تمام تحریرات میں سے کسی ایک کے اندر یہ مطلب نہیں لکھا۔ یہ مرزائی حضرات کا دھوکہ اور فریب ہے۔ صاحبان علم و عقل خود فیصلہ کرلیں کہ یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ء کی ہے جس وقت مرزا صاحب کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ میں کبھی محمدی بیگم کے نکاح کی پیش گوئی کروں گا۔ محمدی بیگم والی پیش گوئی اس کے قریباً دو سال بعد کی گئی تھی۔ یعنی ۱۸۸۸ء (۲۵)میں پس اس کو محمدی بیگم والی پیشگوئی سے جوڑنا محض جہالت ہے۔

-------------------------------------------------------------------------------------
(۲۲) مجموعہ اشتہارات ص۱۰۲، ج۱ وتبلیغ رسالت ص۶۰، ج۱ وتذکرہ ص۱۴۰
(۲۳) مجموعہ اشتہارات ص۱۳۰، ج۱ و روحانی ص۳۱۸، ج۲
(۲۴) لم اجدہ ابو صہیب
(۲۵) حیات طیبہ ص۸۹ و سیرۃ المھدی ص۱۵۱، ج۲

بشکریہ: محدث فورم
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
تیسری غلط پیشگوئی

منکوحہ آسمانی

مرزا صاحب کے رشتہ داروں میں ایک صاحب مسمی احمد بیگ ہوشیار پوری تھے۔ انہیں ایک دفعہ ایک ضروری کام کے لیے مرزا صاحب کی خدمت میں مستدعی ہونا پڑا۔ چونکہ وہ کام احسان و ایثار اور قربانی پر مبنی تھا جو مرزا صاحب کے ہاں مفقود تھی۔ اس لیے مرزا صاحب نے اس وقت تو یہ کہہ کر ہماری عادت بغیر استخارہ اور بلا استمزاج الٰہی کوئی کام کرنے کی نہیں ہے انہیں ٹال دیا کچھ دن بعد بذریعہ خط اس '' سلوک و مروت'' کی قیمت یا معاوضہ اس کی دختر کلاں کا رشتہ اپنے لیے مانگا۔
آہ! اگر مرزا صاحب کو مکالمہ و مخاطبہ الٰہی تو درکنار شریف انسانوں کی غیور طبائع کا ہی احساس ہوتا تو وہ کبھی اور کسی حالت میں اس شرافت پاش تہذیب شکن مطالبہ کا زبان پر لانا تو بڑی بات ہے دل میں خیال تک بھی نہ لائے۔
کوئی شریف و غیرت مند انسان اس طرح کے کاروباری طریق اور تجارتی اصول کے طور پر اپنی لختِ جگر کی توہین و تضحیک برداشت نہیں کرسکتا خواہ اس کی گردن ہی کیوں نہ اڑا دی جائے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کے دل میں جو رہی سہی عزت مرزا تھی وہ بھی کافور ہوگئی اور انہوں نے نہ صرف بشدد مداس رشتہ سے انکار کیا بلکہ اپنی غیرت و شرافت اور مرزا صاحب کی سوء عقل و قابل نفرت تہذیب کا اظہار کرنے کو مرزا صاحب کا وہ خط مخالفین مرزا کے اخباروں میں شائع کرا دیا اور خدا کی قسم اگر وہ ایسا نہ کرتے اور یہ رشتہ منظور کرلیتے تو ہر شریف و مہذب انسان قیامت تک کے لیے انہیں ذلیل و حقیر جاننے پر مجبور ہوتا۔ آمدم برسرِ مطلب۔ مرزا صاحب نے جو خط انہیں لکھا، وہ چونکہ پیشگوئی پر مبنی تھا اس لیے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
'' خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دخترِ کلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی دور کردے گا اگر یہ رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لیے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہوگا۔ اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں کہ جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق یا کذب معلوم ہوسکتا ہے۔(۲۶)
اس خلاف تہذیب مطالبہ اور دھمکی آمیز خط کا جو اثر ہوا وہ ہم لکھ چکے ہیں کہ بجائے اس کے کہ احمد بیگ وغیرہ اس سے ڈرتے، انہوں نے اسے مشہور کردیا۔ حالانکہ مرزا صاحب کی خواہش تھی کہ اسے مخفی رکھا جائے۔

ان کی اس کارروائی سے مرزا صاحب کو اور بھی غصہ آیا اور آپ نے کھلے بندوں اشتہار دیا:
'' اخبار نور افشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء میں جو خط اس راقم کا چھاپا گیا ہے وہ ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا۔ ایک مدت سے قریبی رشتہ دار مکتوب الیہ کے نشان آسمانی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف رکھتے تھے (یہ محض افترا ہے البتہ وہ لوگ جو مرزا صاحب کے دعاوی کے ضرور منکر تھے۔ ناقل) یہ لوگ مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دروغ گو جانتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے۔ کئی دفعہ ان کے لیے دعا کی گئی۔ دعا قبول ہوکر خدا نے یہ تقریب پیدا کی کہ والد اس دختر کا ایک ضروری کام کے لیے ہماری طرف ملتجی ہوا قریب تھا کہ (ہم اس کی درخواست پر) دستخط کردیتے۔ لیکن خیال آیا کہ استخارہ کرلینا چاہیے سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا پھر استخارہ کیا گیا وہ استخارہ کیا تھا گویا نشانِ آسمانی کی درخواست کا وقت آپہنچا، اس قادر حکیم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کی دختر کلاں کے لیے سلسلہ جنبانی کرو اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت برا ہوگا جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ خدائے تعالیٰ اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا۔ خدائے تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ہر ایک مانع دور کرنے کے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں لائے گا۔ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے: ''کَذبُوْا بِاٰیتنا وَکَانوا بِھَا یستھزء ون فسیکفیکھم اللّٰہُ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہِ اِنَّ رَبُّکَ فَعَالٌ لِّمَا یُرِیْدُ'' ۔ یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے ہنسی کر رہے تھے۔ سو خدا تعالیٰ ان کے تدارک کے لیے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے، بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک (کسوٹی) امتحان نہیں۔'' (۲۷)
اس اشتہار میں جو کچھ ہے محتاج تشریح نہیں، صاف صاف اعلان ہے کہ اگر دوسری جگہ نکاح کیا گیا تو اس عورت کا خاوند اڑھائی سال میں اور اس کا والد تین سال میں فوت ہوگا یہ خدا کا مقرر کیا ہوا فیصلہ اور اٹل وعدہ ہے جسے کوئی بھی ٹال نہیں سکتا جو شخص اس میں رکاوٹ ہوگا وہ بھی ساتھ ہی پس جائے گا۔ آخر کار مرزا سے نکاح ہوگا۔ یہ دلیل ہے خدا کے قادر فعال لما یرید اور مرزا صاحب کے ملہم خدا ہونے کی وغیرہ۔

اس کی مزید تائید الفاظ ذیل میں یوں کی گئی ہے:
خدا تعالیٰ ہمارے کنبے اور قوم میں سے تمام لوگوں پر جو (اس) پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کرے گا اور ان سے لڑے گا اور ان کو انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کرے گا، ان میں سے ایک بھی ایسا نہ ہوگا جو اس عقوبت سے خالی رہے۔ ایک عرصہ سے یہ لوگ مجھے میرے الہامی دعاوی میں مکار اور دکاندار خیال کرتے ہیں پس خدا تعالیٰ نے انہیں کی بھلائی کے لیے انہی کی درخواست سے الہامی پیشگوئی کو ظاہر فرمایا۔ تا وہ سمجھیں کہ وہ (خدا) در حقیقت موجود ہے یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی محض بطور نشان کے ہے تاکہ خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو عجوبہ قدرت دکھا دے۔'' (۲۸)
اس تحریر میں بھی مثل سابق پیشگوئی کی عظمت و شوکت کا اظہار ہے اور اس کو خدا کے موجود، مرزا صاحب کے من جانب اللہ ہونے کی ایک زبردست دلیل اور عجوبہ قدرت قرار دیا گیا ہے:

اور سنیے مرزا صاحب رسالہ ''شہادۃ القرآن'' ص ۸۰ پر راقم ہیں:
'' بعض عظیم الشان نشان اس عاجز کی طرف سے معرض امتحان میں جیسا کہ عبداللہ آتھم امرتسری کی نسبت پیش گوئی اور پنڈت لیکھ رام کی پیش گوئی، پھر مرزا احمد بیگ ہوشیاپوری کے داماد کی نسبت پیش گوئی جس کی معیاد آج کی تاریخ سے جو ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۳ء ہے قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئے ہیں، یہ تمام امورِ جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لیے کافی ہیں پیشین گوئیاں کوئی معمولی بات نہیں جو انسان کے اختیار میں ہوں بلکہ محض اللہ جل شانہ کے اختیار میں ہیں سو اگر کوئی طالب حق ہے تو ان پیشگوئیوں کے وقتوں کا انتظار کرے یہ تینوں پیشگوئیاں پنجاب کی تین بڑی قوموں پر حاوی ہیں اور ان میں سے وہ پیشگوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے کیونکہ اس کے اجزا یہ ہیں:
(۱) مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی معیاد کے اندر فوت ہو (۲) داماد اس کا اڑھائی سال کے اندر فوت ہو (۳) احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو (۴) وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو (۵) یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورا ہونے تک فوت نہ ہو (۶) پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے۔ (۲۹)
یہ عبارت بھی اپنا مدعا بتانے میں بالکل واضح ہے احمد بیگ کا تین سال میں اور اس کے داماد کا اڑھائی سال میں فوت ہونا اور محمدی بیگم کا مرزا صاحب کے عقد میں آنا عظیم الشان پیشگوئی قرار دیا ہے۔
البتہ دو باتیں اس میں ایسی لکھی ہیں جو صریح جھوٹ اور افترا ہے، اول یہ کہ اصل پیشگوئی میں پہلا نمبر احمد بیگ کے داماد کی موت مذکور تھا اور اس کی مدت بھی اڑھائی سال بتائی تھی اور دوسرا نمبر خود احمد بیگ کی موت اور میعاد تین سال لکھی تھی۔ یہ ترتیب تحریر اور فرق میعاد مظہر ہے کہ پہلے وہ مرے گا جس کی میعاد اڑھائی سال ہے۔ اور پیش گوئی میں پہلے نمبر پر اس کا ذکر ہے اور بعد میں وہ مرے گا جو دوسرے نمبر پر مذکور ہے، اور اس کی میعاد تین سال ہے۔ بخلاف اس کے چونکہ اس تحریر کے وقت مرزا احمد بیگ بقضا الٰہی اپنی مقررہ عمر پوری کرکے فوت ہوچکا تھا۔ حالانکہ اسے اپنے داماد کے بعد مرنا تھا، اس لیے مرزا صاحب نے اس تحریر میں یہ چالاکی کی کہ احمد بیگ کی موت پہلے ذکر کی اور اس کے داماد کا ذکر دوسرے نمبر پر کیا۔
دوسری چالاکی اُس تحریر میں یہ کی ہے کہ اصل پیشگوئی کی رو سے یہ ضروری نہیں تھا کہ پہلے وہ عورت دوسری جگہ بیاہی جائے پھر بیوہ ہو کر مرزا کے نکاح میں آئے بلکہ دونوں صورتیں ملحوظ تھیں یعنی پیشگوئی یہ تھی کہ '' وہ عورت باکرہ یا بیوہ ہو کر میرے نکاح میں ضرور آئے گی'' مگر اس تحریر کے وقت اس عورت کا دوسری جگہ نکاح ہوچکا تھا۔ اس لیے مرزا صاحب نے پیش گوئی کے ایک حصہ ''باکرہ'' کو تو بالکل ہی ہضم کرلیا اور صرف '' بیوہ'' والا حصہ ظاہر کرنے کو لکھا کہ ہماری پیش گوئی یہ تھی کہ:
''وہ دختر بھی تا نکاح اور تا ایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔''
ناظرین کرام! یہ میں مرزا صاحب '' صادق بنی اللہ'' کی مقدس چالیں غور فرمائیے اگر پیش گوئی کی رو سے یہی ضروری تھا کہ وہ عورت پہلے دوسری جگہ بیاہی جائے گی اور بیوہ ہو کر مرزا صاحب کے نکاح میں آئے گی تو پھر مرزا صاحب نے کیوں خط پر خط بھیجے کہ ہمارے ساتھ نکاح کردو، دوسری جگہ نہ کرو، اگر کرو گے تو تم پر مصائب آئیں گے یہ ہوگا وہ ہوگا۔ یہاں تک کہ خود سلطان محمد کو خطوط لکھے کہ تم یہ نکاح منظور نہ کرو۔
حاصل یہ کہ مرزا صاحب کی یہ تحریر ان کی اصلیت کا اظہار کر رہی ہے کہ وہ کیا تھے، بہرحال مرزا صاحب کی ان تمام دھمکی آمیز پیشگوئیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فریق ثانی نے محمدی بیگم کو مؤرخہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزا سلطان محمد ساکن پٹی (ضلع لاہور) سے بیاہ دیا۔ (۳۰)
اس پر مزید ستم یہ کہ مرزا سلطان محمد خاوند محمدی بیگم بجائے اڑھائی سال میں مرنے کے آج تک دندناتا پھر رہا ہے (۳۱)۔ اور مرزا صاحب کبھی کے حسرت وصل دل میں لے کر گوشۂ قبر میں جا لیٹے ہیں۔ مرزائی مناظر اس پیشگوئی پر مندرجہ ذیل عذر کیا کرتے ہیں۔

مرزائیوں کا پہلا عذر:
نکاح کی حضرت صاحب نے دو ہی صورتیں بتائی تھیں (۱) باکرہ ہونے کی (۲) بیوہ ہو کر باکرہ والی صورت کو الہام الٰہی ''یُرُدُّھَا ٓ اِلَیْکَ'' اور ''کَذَّبُوْا بِایٰتِنَا '' نے باطل کردیا۔ (۳۲)
الجواب:
(۱) مرزا صاحب کا یہ دو رنگا الہام یعنی خواہ پہلے باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خدا بیوہ کرکے اس کو میری طرف لے آوے۔ (۳۳)
یہ الہام ہی مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر شاہد ہے خدا کے کلام میں اس طرح کی جہالت نہیں ہوسکتی۔
(۲) آپ نے جو الہام باکرہ سے نکاح منسوخ ہوجانے کے بارے میں پیش کیا ہے یہ تو پیشگوئی کا ابتدائی الہام ہے جو اشتہار ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے (۳۴)۔ کیا مرزا صاحب کے الہام کرنے والے نے یہ پیشگوئی کرتے ہوئے کہ اس عورت سے تیرا نکاح '' باکرہ یا بیوہ'' ہر دو صورتوں میں ہوگا ساتھ ہی ''باکرہ'' کی صورت کو منسوخ بھی کردیا تھا۔ العجب (۳۵)
معلوم ہوتا ہے کہ مرزائی مجیب کو خدا پر ایمان نہ ہونے کے ساتھ مرزا صاحب سے بھی دشمنی ہے کہ وہ اس طرح ان سے ٹھٹھا کر رہا ہے۔
اگر ایک ہی اشتہار میں یہ الہامی سہ رنگی پائی جاتی ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ ''اس شخص کی دختر کلاں کے لیے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک و مروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا۔ (کہ اپنی لڑکی کا بصورت باکرہ مجھ سے عقد کردو) یہ نکاح تمہارے لیے موجب برکت ہوگا'' اور دوسری طرف ''باکرہ یا بیوہ'' کی دو رنگی ہے اور تیسری طرف باکرہ والی صورت ہی منسوخ کردی گئی ہے تو اس کے بعد مرزا صاحب نے کیوں سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح دوسری جگہ نکاح نہ ہونے پائے اور میرے ساتھ ہی ہو جائے یہاں تک کہ اپنی بیوی کو دھمکی دی کہ '' اگر وہ تجویز جو اس لڑکی کے ناطہ اور (دوسری جگہ) نکاح کرنے کی کر رہے ہیں اس کو موقوف نہ کرایا تو طلاق دے دوں گا۔'' اور اسی غصہ میں دے بھی دی۔ بلکہ اپنے لڑکے سلطان احمد کو عاق اور ''محروم الارث'' قرار دیا اور دوسرے لڑکے کے نام فرمان جاری کیا کہ اپنی بیوی جو احمد بیگ کی بھانجی ہے اس کو طلاق نہ دو گے تو تم بھی عاق متصور ہوگے وغیرہ۔ (۳۶)

مرزائیوں کا دوسرا عذر:
حضور (مرزا صاحب انجام آتھم ص۲۱۶ میں) فرماتے ہیں کہ اصل پیش گوئی نکاح کی نہیں بلکہ احمد بیگ و سلطان محمد کی موت کی تھی اور اس عورت کا نکاح میں آنا تو محض پیش گوئی کی عظمت بڑھانے کے لیے ہے۔ (۳۷)
الجواب:
اگر اصل مقصود ان کی ہلاکت تھی تو پھر وہ اڑھائی سال کی بتائی ہوئی میعاد میں کیوں نہ فوت ہوا؟ یہ عذر تو بجائے مفید ہونے کے تمہیں اور بھی مضر ہے۔
ماسوا اس کے یہ بھی جھوٹ ہے کہ اصل مقصود اور اصل پیشگوئی ان کی ہلاکت کی تھی۔ حالانکہ اصل پیش گوئی تو نکاح کی تھی۔ مرزا احمد بیگ سلطان محمد کی موت تو محض اس لیے اور اس شرط پر تھی کہ وہ اس نکاح میں مانع ہوں گے تو میعاد کے اندر فوت ہو جائیں گے۔ (۳۸ )
ناظرین کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ مرزا صاحب پہلے تو بڑے زور شور کے ساتھ پیش گوئی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ایک مانع دور کرنے کے بعد اس عاجز کے نکاح میں لاوے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ ''لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ'' میرا رب ایسا قادر ہے کہ جو چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ بلکہ یہاں تک دعویٰ ہے کہ '' مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا نکاح پڑھا دیا ہے میری باتوں کو کوئی نہیں بدلا سکتا۔ (۳۹)
مگر بعد میں جب دوسرا شخص اسے بیاہ لے جاتا ہے، اور ان الہاموں کو ذرا بھر دقعت نہیں دیتا۔ لطف یہ کہ مرزا صاحب اور ان کے الہام کنندہ کی بتائی ہوئی میعاد میں اس کی موت تو درکنار اسے سردرد تک نہیں ہوتا۔ تو مرزا صاحب تین چار سال بعد بقول مصنف ''احمدیہ پاکٹ'' بک پینترا بدل کر کہتے ہیں کہ اصل پیشگوئی نکاح کی نہیں تھی۔ آہ! کیا سچ ہے کہ:
'' انسان جب حیا کو چھوڑ دیتا ہے تو جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے۔'' (۴۰)

مرزائیوں کا تیسرا عذر:
جب احمد بیگ میعاد مقررہ میں ہلاک ہوگیا تو سلطان محمد پر خوف طاری ہوا۔ اس نے حضرت مسیح موعود کو دعا کے لیے خطوط لکھے اور تضرع و ابتہال سے جناب باری میں دعا کی۔ خدا تعالیٰ غفور و رحیم نے سلطان محمد کی زاری کو سنا عذاب ہٹا لیا۔ (۴۱)
الجواب:
(۱) احمد بیگ کا سلطان محمد سے قبل مرنا پیشگوئی کی تکذیب ہے۔ جیسا کہ ہم اس پر مفصل لکھ چکے ہیں، سلطان محمد کے متعلق یہ کہنا کہ اس نے اپنے خسر کی موت ملاحظہ کرکے مرزا صاحب کی خدمت میں خطوط بھیجے اور خدا سے تضرع و ابتہال کے ساتھ پناہ مانگی یہ اس قدر جھوٹ ہے کہ دنیا میں کوئی بدترین سے بدترین انسان بھی اس قدر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ہمارا چیلنج ہے کہ اگر تم لوگ مرزا احمد بیگ کی وفات کے بعد اور سلطان محمد کی میعادی تاریخ کے اندر اندر اس کا کوئی خط مرزا صاحب کے نام بھیجا ہوا دکھا دو تو ہم سے منہ مانگا انعام لو۔ ورنہ یاد رکھو کہ قیامت کے دن کذابوں اور دجالوں کے ساتھ تمہارا حشر ہوگا۔
(۲) مرزا احمد بیگ ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو فوت ہوا (۴۲)۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد سلطان محمد نے خط بھیجے وغیرہ (بہت خوب) مگر سوال یہ ہے کہ کیا۔ ان '' خطوط اور توبہ'' وغیرہ کے باعث اس سے عذاب موت جو میعادی اڑھائی سالہ تھا ٹل گیا؟ مرزا جی کہتے ہیں کہ ''نہیں'' چنانچہ احمد بیگ کی وفات کے قریباً ایک سال بعد مرزا صاحب اپنی کتاب شہادۃ القرآن میں سلطان محمد کی میعادی موت کو بحال رکھتے ہوئے راقم ہیں:
'' مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو ٹپی ضلع لاہور کا باشندہ جس کی میعاد آج کی تاریخ سے جو ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۳ء ہے قریباً گیارہ مہینے باقی رہ گئی ہے یہ تمام امور جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالاتر ہیں، ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لیے کافی ہیں۔ '' الخ (۴۳)
اس عبارت نے معاملہ بالکل صاف کردیا کہ اگر سلطان محمد نے کوئی خط وغیرہ بھیجا اور توبہ بھی کی ہے تو اس کا اس پیشگوئی پر کوئی اثر نہیں وہ یقینا اپنی میعاد میں مرے گا اور مرزا صاحب اس کی موت کو اپنے صدق و کذب کا نشان قرار دے رہے ہیں ۔ فلہ الحمد
اور بات بھی سچ ہے کہ پیشگوئی میں سلطان احمد کی تویہ شرط نہ تھی، بلکہ یہ تھا کہ '' جس دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ اڑھائی سال میں فوت ہو جائے گا۔ یعنی سلطان محمد کا قصور صرف نکاح تھا جو اُس نے کر لیا۔ اسی کی تائید مرزا صاحب کی تحریر ذیل سے ہوتی ہے:
'' احمد بیگ کے داماد کا یہ قصور تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پروا نہ کی۔ خط پر خط بھیجے گئے ان سے کچھ نہ ڈرا۔ پیغام بھیج کر سمجھایا گیا۔ کسی نے التفات نہ کی سو یہی قصور تھا کہ پیشگوئی کو سن کر ناطہ کرنے پر راضی ہوئے۔'' (۴۴)


---------------------------------------------------------------------------------------
(۲۶) عیسائی اخبار، نور افشاں، مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ء ص۲و۳ بحوالہ آئینہ کمالات اسلام ص۲۷۹، ملخصًا
(۲۷) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۵۷ تا ۱۵۹، ج۱ وآئینہ کمالات اسلام ص۲۸۱ تا ۲۸۸ وتذکرہ ص۱۵۹ ملخصًا واللفظ لہ
(۲۸) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۶۰، ج۱ وتبلیغ رسالت ص۱۱۹، ج۱ وتذکرہ ص۱۶۱
(۲۹) شہادت القران ص۷۹ تا ۸۰ و روحانی ص۳۷۶، ج۶ ملخصًا
(۳۰) آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۹ نوٹ: آئینہ میں محض دوسری جگہ شادی کا زکر ہے، البتہ مرزائی دوست محمد شاہد نے تاریخ احمدیت ص۱۷۰، ج۲ میں عبدالقادر سوداگر مل نے، حیات طیبہ ص۸۹ میں مرزا سلطان محمد صاحب مرحوم سے شادی کا اقرار کیا ہے۔ ابو صہیب
(۳۱) مرزا سلطان محمد صاحب مرحوم نے بحالت ایمان ۱۹۴۹ میں وفات پائی تھی، ارشد
(۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۸ طبع ۱۹۳۳
(۳۳) اشتہار مرزا مورخہ ۲؍ مئی ۱۸۹۱ء میں مندرجہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود ص۲۱۹، ج۱ وتبلیغ رسالت ص۹ج۲
(۳۴) دیکھئے، مجموعہ اشتہارات ص۱۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۵۹
(۳۵) مرزا دجال کے الہام یردھا الیک کے منسوخ نہ ہونے پر ایک مزید یہ بھی دلیل ہے کہ محمدی بیگم مرحومہ کے نکاح کے چار سال بعد ۱۸۹۶ء میں انجام آتھم کے صفحہ ۶۰ میں اسے دوبارہ شائع کیا اور نکاح کے آٹھ سال بعد۱۹۰۰ء میںمرزا جی نے اربعین نمبر۲ ص۳۴ پر درج کرتے ہوئے حسب ذیل حاشیہ آرائی کی ہے، یردھا الیک سے صاف ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ اس عورت کا جانا اور پھر واپس آنا شرط ہے اور اس کے بعد زوجنک ہے اور یہی معنی رد کے ہیں، روحانی خزائن ص۳۸۲، ج۱۷ مولاناعبداللہ معمار مرحوم کی اس زبردست گرفت کی وجہ سے مؤلف، مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت کے صفحہ ۷۷۴ طبعہ ۱۹۴۵ء میںیہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یردھا الیک کا معنیٰ یہ ہے کہ محمدی بیگم کی دوسری جگہ شادی ہوگی۔ ابو صہیب
(۳۶) اشتہار مرزا مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۲۱، ج۱
(۳۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۷۳ طبعہ ۱۹۴۵ء و ص۴۳۳ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۳۸) اشتہار مرزا مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۱۵۸، ج۱ وتذکرہ ص۱۵۸
(۳۹) آسمانی فیصلہ ص۴۰ و روحانی ص۳۵۰، ج۴ و مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۳۰۱، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۸۵، ج۲ وتذکرہ ص۱۶۱
(۴۰) اعجاز احمدی ص۳ و روحانی ص۱۰۹ج ۱۹
(۴۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۳ طبعہ ۱۹۳۲ء ملخصًا
(۴۲) آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵ و روحانی ص۳۲۵، ج۵
(۴۳) شہادت القران ص۷۹ و روحانی ص۳۷۵، ج۶
(۴۴) اشتہار مرزا مورخہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۹۴ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا دجال ص۹۵، ج۲

بشکریہ: محدث فورم
 
Top