• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراضوں کا جواب

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراض کا جواب

صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کے سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَمْ یکْنِ الَّذِیْنَ کَفُروْا والی سورت پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیَفِیتَّہُ الْمُسْلِمَۃَ ولَا یَھُوَدِیَّۃَ اب اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الدین عند اللّٰہ الی الاخر کو قرآن مجید لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا والی سورت کی آیات قرار دیا ہے۔ ذرا کوئی مولوی لَمْ یَکُنَ الَّذِیْنَ والی سورت تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ نکال کر دکھا دیں۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۱ و ۴۶۲ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۸۷، ۸۸۸ طبعہ ۱۹۴۵ء)
الجواب:

قرآن پاک عربی مبین میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عربی نژاد ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو ان پر آیات پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی کیا وجہ! کیا وہ خود ان آیات کا لفظی ترجمہ نہیں جان سکتے تھے؟ یقینا پھر بات کیا ہے؟ قرآن پاک شاہد ہے کہ گروہ صحابہ میں سے ایک طائفہ تبلیغ و تفہیم قرآن کے لیے بالخصوص مخصوص تھا جن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بحکم خدا ان پر آیات کی تلاوت کرنا تعلیم الفاظ و کیفیت آداب و مواضع الوقوف کی تفہیم و مطالب قرآنیہ کی تشریح کے لیے تھا۔ لہٰذا صاف عیاں ہے کہ الفاظ وَاِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَیِنْفِیَّۃُ بطور تفسیر ہیں۔
خود حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر سورہ لَمْ یکن الذین پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا۔ صاف دال ہے کہ وہ خود بھی ان الفاظ کو قرآن نہیں بلکہ تفسیر سمجھتے تھے۔
مرزائی صاحب چونکہ دل سے جانتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے اس لیے بموجب ضرب المثل ''چور کی داڑھی میں تنکا'' آگے چل کر بطور خود جواب بھی دیتے ہیں کہ:
'' یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث مذکورہ بالا میں لفظ قَرَأَ فِیْھَا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورت کی تفسیر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ورنہ قال فِیْھَا کہنا چاہیے تھا۔( ایضاً ص۴۶۲)
گویا معترض ان الفاظ کو تفسیر ماننے کو تیار ہے اگر قَالَ فِیْھَا ہوتا۔ بہت خوب:
راہ پر آگیا ہے وہ خود باتوں میں!
اور کھل جائے گا دو چار ملاقاتوں میں

قَرَأَ کا لفظ قرآن کے لیے مخصوص نہیں۔ دیگر گفتگو پر بھی آتا ہے۔(صحیح بخاری ص۱۴، ج۱) بخاری کتاب العلم باب القراء ۃ والعرض علی المحدث کو غور سے پڑھیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مفہوم قرآن پر بھی قرأۃ کا لفظ اہل عرب (بالخصوص جملہ محدثین) کے نزدیک مستعمل ہے چنانچہ امام المحدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ الباری مفہوم اور معانی قرآن پر قرأت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ضمام بن ثعلبۃ انہ قال للنبی ﷺ اللّٰہُ اَمَرَکَ ان نصلی الصلوٰۃ قَالَ نَعَمَ قَالَ فَھٰذہ القراء ۃ علی النبی ﷺ (بخاری کتاب العلم باب مذکورہ) (ایضاً نوٹ: یہ قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ انہوں نے اپنے شیوخ سے اسے نقل کیا ہے امام بخاری کے الفاظ ہیں کہ واحتج بعضھم فی القراۃ علی العالم بحدیث ضمام بن ثعلبۃ ، صحیح بخاری ص۱۴، ج۱ اور قائل اس قول کے ابو سعید الحداد ہیں جیسا کہ امام بیہقی کے حوالے سے حافظ ابن حجر نے، فتح الباری ص۱۲۱، ج۱ میں اور محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص۳، ج۲ میں صراحت کی ہے۔ ابو صہیب) ضمام بن ثعلبہ کا واقعہ ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اللّٰہُ اَمَرَکَ کیا خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں فرمایا ہاں! امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قرأت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
فرمایا اللّٰہ اَمَرَکَ قرآن کے لفظ ہیں؟ نہیں۔ پھر دیکھئے اس پر امام المحدثین قرأۃ کا لفظ بولتے ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنیے قرآں پاک سے مثال دیتا ہوں قیامت کے دن جب دشمنان دین معاندین رسول، دست و پا بستہ دربارِ خداوندی میں حاضر کئے جائیں گے تو انہیں فرمان ہوگا۔ اِقَرَأْ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ (پ۱۵ بنی اسرائیل آیت : ۱۵ ) بدبخت آج تو خود ہی اپنے نامہ اعمال کو پڑھ لے۔
فریب خوردہ انسان ! کیا اس دن خدا پر بھی اعتراض کرے گا کہ قَرَأَ کا لفظ تو صرف قرآن پر مخصوص ہے۔ الٰہی تو میرے سیاہ نامے پر اسے کیوں استعمال کر رہا ہے؟ غالباً نہیں، یقینا جواب یہی ملے گا کہ :
تو آشنائے حقیقت نۂٖ خطا اینجاست

ایک اور طرز سے:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں، جنہیں عہد نبوی میں جمع قرآن کی خدمت سپرد ہوئی تھی عَنْ اَنَسٍ جَمَعَ الْقُرْاٰنَ عَلٰی عَھْدِ النَّبی ﷺ اَرَبَعَۃٌ کُلُّھْمَ مِنْ اَنْصَارٍ اُبَیٌّ وَ مُعَاذ بن جبل وابو زید وزید بن ثابتٍ (بخاری باب مناقب ابی بن کعب)(صحیح بخاری ص۵۳۷، ج۱ فی المناقب باب مناقب ابی بن کعب) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار بزرگوار انسان انصاری، جمع قرآن کی خدمت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے خذوا القران من اَرْبَعَۃٍ مِنَ عبداللّٰہ بْنِ مَسَعُوْدٍ وَسَالِمٍ مَوْلٰی اَبْی حُذَیْفَۃَ وَمُعَاذ بن جَبَلٍ وَابی بن کعب (حوالہ مذکورہ) قرآن چار شخصوں سے سیکھو جن میں ایک ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اندریں حالات اگر زیر بحث الفاظ قرآن کے ہوتے یا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انہیں قرآن میں شمار کرتے تو پھر کم از کم ان کے جمع کردہ قرآن میں تو ان الفاظ کو موجود و مرقوم ہونا چاہیے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں۔ اس لیے مہر نیم روز کی طرح روشن ہے کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو قرآن ظاہر کیا اور نہ ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں قرآن سمجھا۔ پس مرزائی اعتراض سراسر کور چشمی بلکہ سیاہ قلبی پر مبنی ہے۔
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ نمبر ۲:

بخاری (کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی نے کانے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے، ہر ایک نبی کا فرداً فرداً اپنی اپنی قوم کو جن کتابوں میں دجال سے ڈرانا لکھا ہے وہ کتابیں پیش کرو۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۴ طبعہ ۱۹۳۲ء و ۹۰۳ طبعہ ۱۹۴۵ء)
جواب:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوحی اللہ اور ہر نبی کا دجال سے ڈرانا فرمایا ہے۔ ہاں اگر کسی کتاب کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرماتے اور اس کتاب میں نہ ہوتا تو البتہ ایک بات تھی۔ مگر اب تو یہ اعتراض بعینہٖ یہ معنی رکھتا ہے۔
کم من عائب قولا صحیحا
واٰفتہ من الفھم السقیم
یعنی ع
گل است سعدی و درچشم دشمناں خاراست

(۲) بفرض محال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالہام کسی نبی کی کتاب کا نام بھی لیتے تو بھی اس وقت تک اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا جب تک کہ بسند معتبر اس نبی کی کتاب کو پیش کرکے اس میں اس کی عدم موجودگی نہ ثابت کی جائے پس اگر تم میں ہمت ہے تو انبیاء سابقہ کی اصلی کتابیں لاؤ ہم ان شاء اللہ ان سے دکھا دیں گے کہ ہر ایک نے دجال سے ڈرایا ہے، فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارۃٍ اُعِدَّتَ لِلْکٰفِرِیْنَ۔ (پ۱ البقرہ آیت : ۲۴)
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ نمبر 3

حدیث ابراہیمی پر اعتراض اور اس کا جواب:

قرآن پاک میں ہے کہ جناب ابراہیمp نے کفار کے بتوں کو توڑا فَجَعَلَھُمْ جُذَ اذًا اِلاَّ کَبیرًا لَھُمْ لَعَلَّھُمْ اَلَیَہِ یَرجِعُوْنَ۔ (پ۱۷ الانبیاء آیت : ۵۹) کردیا ان کو ٹکڑے ٹکڑے مگر بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع ہوں جب وہ بت خانے میں آئے اور اپنے معبودوں کی درگت دیکھی تو قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا۔ (ایضاً آیت : ۱۱۰) بولے ہمارے خداؤں کی یہ دروشاکس نے بنائی ہے کسی نے کہا ابراہیم علیہ السلام نے۔ تب حضور علیہ السلام کو بلا کر کہنے لگے ئَ اَنَْ فَعَلْتَ کیا یہ تو نے کیا ہے؟ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذا فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے۔(ایضاً آیت : ۶۳، ۶۴ نوٹ: قادیانیت کا معروف مفسر قرآن مرزائی صلاح الدین مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ: ایسے طرز کلام کو انگریزی میں (Irony) اور عربی میں تعریض کہتے ہیں اس میں معانی ظاہری الفاظ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں یہ حدیث درج ہے لم یکذب ابراھیم النبی قط الاثلاث کذبات کہ ابراہیم نے صرف تین دفعہ جھوٹ بولا ہے ان باتوں کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے کذب کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا نفس اور حضور کی تعلیم اس قدر پاک تھی کہ حضور نے توریہ کو بھی کذب کا نام دیا ہے۔ ترجمہ و تفسیر قرآن ص۱۵۵۱، ج۳ طبعہ اسلام آباد ۱۹۸۱ء مؤلفہ مرزائی صلاح الدین قادیانی)
ایسا ہی ایک واقعہ سورہ والصفت میں مرقوم ہے کہ کفار نے آپ کو اپنے ساتھ آنے کی درخواست کی چونکہ آپ تہیہ فرما چکے تھے کہ آج ان کے بتوں کو توڑ دوں گا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اِنی سَقِیْمٌ میں بیمار ہوں۔ اسی طرح ایک یہ واقعہ ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا۔
ان تین واقعات میں پہلے دو واقعات تو سراسر ہمدردی مخلوق پر مبنی ہیں یعنی گمراہ ہوئی قوم کے لیے بتوں کو توڑنا وہ بھی اس طرح کہ آپ پہلے سے کہہ چکے تھے وَ تَا للّٰہِ لَاَکِیْدَن اَصْنَا مَکُمْ بَعْدَ اَنُ تُوَلُّوْ مُدْبِرِیْنَ (پ۲۳ الصّٰفّٰ آیت : ۹۰) خدا کی قسم جب تم چلے جاؤ گے میں تمہارے بتوں سے ایک گہری تدبیر کروں گا۔ جب انہوں نے ساتھ چلنے کو کہا۔ تو فرمایا میں بیمار ہوں (یعنی تمہاری گمراہی میرے لیے روگ بن رہی ہے جب تک اسے دور نہ کرلوں تمہارا میرا ساتھ نہیں نبھ سکتا) پھر جب وہ چلے گئے تو بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کو رہنے دیا ۔ جب انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو فرمایا اس بڑے بت نے توڑا ہے فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔ اب بھلا بت کیا بولتے۔ مٹی مجسموں میں طاقت گویائی کہاں؟ اور یہی مطلب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا کہ وہ غور کریں جب یہ بول نہیں سکتے تو ہماری مدد کیا کریں گے۔ ہدایت و گمراہی کا انحصار تو سعادت اور شقاوت قلبی پر موقوف ہے۔ تاہم جناب ابراہیم علیہ السلام کی تدبیر کا فوری اثر ان پر یہ ہوا کہ وہ اپنی گمراہی پر مطلع ہوگئے ان کے ضمیر نے انہیں مجبور کردیا کہ اقرار کریں کہ ہماری یہ غلطی تھی۔ فَرَجَعُوْ اِلٰیٓ اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْا اِنَّکُمْ اَنْتُمْ الظّٰلِمُوْنَ۔ (پ۱۷ الانبیاء آیت: ۵۸) پس انہوں نے رجوع کیا ایک دوسرے کی طرف اور بولے کہ لا ریب ہم ظالم ہیں اور یہی مطلب اس تدبیر سے حضرت خلیل اللہ کا تھا۔
باقی رہا تیسرا واقعہ سو اس میں ایک کافر ظالم کے دست تظلم سے بچنے کی خاطر ایک ظاہر اور انسانی تدبیر تھی کہ یہ میری بہن ہے اور واقعی ہر انسان بحیثیت انسان ہونے کے اور ہر مومن بحیثیت اپنے ایمان کے ایک دوسرے کا بھائی ہے جیسا کہ خود اسی حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی مطلب بتایا ہے یہ تینوں باتیں تعریضی ہیں جیسا کہ امام نودی اور حافظ ابن حجر(شرح صحیح مسلم ص۲۶۶، ج۲ فی الفضائل باب من فضائل ابراھیم الخلیل و فتح الباری ص۳۰۲ ، ج۶ کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیل) نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ تینوں باتیں تعریضی ہیں جن کی حقیقت کذب کی نہیں ان سے توریہ مقصود ہے اس لیے حدیث میں صاف وارد ہوا کہ یہ سب خدا کے لیے تھیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف خدا کے واسطے ایسی تعریضی باتیں کہیں۔ آپ علیہ السلام نے ہرگز نہیں جھوٹ بولا ۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے موقع پر ایک باب خاص اسی مسئلہ تعریض کے متعلق باندھا ہے اَلْمَعَادِیْضُ ممدُوْحَۃٌ عَنِ الْکِذْبِ (بخاری ص۹۱۷، ج۲ کتاب الادب) (کتاب الادب) ۔ یعنی تعریضات حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ نیز مرزا صاحب اپنی کتاب وافع الوساوس میں واقعات ابراہیمی پر اعتراض کرنے والے کو خبیث، متکبر اور شیطان کہتے ہیں۔
اسلام میں ، ہاں خدا کے سچے مذہب اسلام میں کسی قسم کا دل چھل یا ہیر پھیر نہیں ہے اس لیے بانی اسلام علیہ السلام نے اس میں کوئی ہیر پھیر نہیں کیا اور ان واقعات کو کذب ہی قرار دیا ہے۔ بتلائیے اس میں کیا گناہ کیا۔ اب سنیے ہم اس بارے میں مرزا صاحب کے کلمات پیش کرتے ہیں وہ بھی ان واقعات کو '' بہ ظاہر دروغ گوئی میں داخل'' سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
یاد رہے کہ اکثر ایسے اسرار دقیقہ بصورت افعال یا اقوال انبیاء سے ظہور میں آتے رہے ہیں کہ جو نادانوں کی نظر میں سخت بیہودہ اور شرمناک کام تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوں کے برتن اور پارچات مانگ کر لے جانا اور پھر اپنے مصرف میں لانا اور حضرت مسیح علیہ السلام کا کسی فاحشہ کے گھر چلے جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو کسی حلال وجہ سے نہیں تھا استعمال کرنا اور اس کے لگانے سے روک نہ دینا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کرنا جو بظاہر دروغ گوئی میں داخل تھا پھر اگر کوئی تکبر اور خود ستائی کی راہ سے اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ کہے کہ نعوذ باللہ وہ مال حرام کھانے والے تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یہ زبان پر لاوے کہ وہ طوائف کے گندہ مال کو اپنے کام میں لایا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر بدگمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے۔(آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸ و روحانی ص۵۹۸، ج۵)
اس تحریر میں صاف اقرار ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کیا جو بہ ظاہر دروغ گوئی تھا آگے چل کر اس دروغ گوئی پر اعتراض کرنے والوں کو خبیث وغیرہ القاب دئیے۔
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ نمبر 4:
مرزا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا سو سال تک تمام بنی آدم علیہ السلام پر قیامت آجائے گی۔ اس کے متعلق مصنف مرزائی پاکٹ بک لکھتا ہے:
'' یہ حدیث متعدد کتب میں ہے اور ابو سعید (خدری رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ جب ہم جنگ تبوک سے واپس آئے تو ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کب قیامت ہوگی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال نہ گزرے گا مگر آج زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا۔'' (احمدیہ پاکٹ بک ص۲۶۸ طبعہ ۱۹۳۲ و ص۸۹۷ طبعہ ۱۹۴۵ء بحوالہ طبرانی صفیر ص۱۵)
اس روایت کے ترجمہ میں مصنف پاکٹ بک نے عجب ہوشیاری سے کام لیا ہے الفاظ روایت لَا یَاتِیْ عَلَی النَّاسِ مِائَۃُ سَنَۃٍ وَعَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوْسَۃٌ الْیَوْمَ کا ترجمہ یہ کیا ہے تمام بنی آدم علیہ السلام پر سو سال نہ گزرے گا۔ مگر آج زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا '' کیسا دجل آمیز ترجمہ ہے، آج'' اور '' زندہ نہ ہوگا'' یہ ترجمہ کیا ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے '' سو سال نہ گزرے گا مگر آج کے زندوں میں سے کوئی روئے زمین پر نہ ہوگا۔''(تجلیات رحمانیہ ص۸۶ مولفہ مرزائی اللّٰہ دتا جالندھری)
الجواب:
اب سنیے بفرضِ محال ہم مان لیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور بلا کمی بیشی الفاظ کے ایسی ہی تو بھی اس سے مرزائی کذب دھویا نہیں جاتا ہے وہ الفاظ جو مرزائی نے نقل کیے ہیں لَا یَاْتِیْ عَلی النَّاسِ مِائۃ سَنَۃِ وَعَلٰی ظَھْرِ الْاَرضِ نَفْسٌ مَنْفُوْسَۃُ الْیَوْمِ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آج کے دن جتنے لوگ زمین پر ہیں سو سال نہ گزرے گا کہ ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہے گا۔ معاملہ صاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجودہ لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ سو سال تک ان میں سے کوئی زمین پر نہ رہے گا۔ بتلائیے اس میں تمام بنی آدم پر قیامت کا ذکر کہاں ہے اس کی مزید وضاحت مسلم کی وہ حدیث کر رہی ہے جو مصنف نے مرزائی پاکٹ بک نے نقل کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی خود کیا ہے کہ:
'' سو سال نہیں گزرے گا کہ آج کے زندوں میں سے کوئی بھی زندہ جان باقی ہو۔'' (ص۱۲۰ جلد ۶ کنز العمال و مسلم کتاب الفتن ) (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۹ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۹۸ طبعہ ۱۹۴۵ء)
یہ حدیث تو پہلی سے بھی صاف ہے کہ قیامت ذکر نہیں صرف موجودہ لوگوں کے سو سال تک زندہ نہ رہنے کا تذکرہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ وضاحت وہ حدیث کر رہی ہے جسے مصنف نے دوسرے نمبر پر ترمذی کتاب الفتن سے نقل کیا ہے۔ مگر ایک تو اس کا ترجمہ غلط کیا ہے۔ دوم خیانت کی ہے۔ یعنی حدیث کا آدھا ٹکڑا نقل کیا ہے اور آدھا جو مرزائی استدلال کی جڑ کاٹ رہا تھا چھوڑ دیا ہے۔ بہرحال ہم پہلے اسی ٹکڑے کو زیر بحث لاتے ہیں جسے مرزائی نے نقل کیا ہے۔
فَقَالَ اَرَائتْکُمْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَأسِ مِائۃٍ سَنَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ ۔
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کی رات سے سو سال نہ گزرے گا کہ روئے زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا۔''
جن لوگوں کو زبان عربی سے ذرہ بھر بھی مس ہے وہ مرزائی دجالیت پر مطلع ہوگئے ہونگے دیکھئے کیسے واضح الفاظ ہیں کہ لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھو علی ظھر الارض۔ نہیں باقی رہے گا جو اس وقت زمین پر موجود سے مگر مرزائی خائن نے صحیح ترجمہ ہی نہ کیا اور لکھ دیا کہ '' سو سال نہ گزرے گا کہ زمین پر کوئی باقی نہ رہے گا'' اللہ اکبر چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر مثال نہ ہوگی ظالم کو خدا سے شرم نہ آئی کہ مرزا کے منہ سے سیاہی دھونے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر حملہ کردیا بھلا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوتا کہ سو سال تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی اور نہ آتی جیسا کہ نہیں آئی تو معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر صادق ہونے میں کیا شک رہ سکتا ہے۔ افسوس لَعَنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ الْمُفْتَرِیْنَ
اب سنیے دوسرا حصہ اس حدیث کا جو آئینہ کی طرح صاف ہے۔
قَالَ ابِنُ عُمَرَ ؓ فوھل الناس فی مقالۃ رسول اللّٰہ ﷺ تِلْکَ فِیْمَا یَتَحَدَّ ثُوْنَہٗ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ۔
لوگوں کو اس حدیث سے حیرانی ہوئی (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حیرانی کی کیا وجہ) انَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ بے شک و شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ لا تبقی ممن ھو الیوم علی ظھر الارض اَحَد آج جو لوگ زمین پر ہیں ان میں سے سو سال تک کوئی باقی نہیں رہے گا یُرِیْدُ بِذٰلِکَ اَنْ ینحزم ذٰلِکَ الْقَرْنُ یَقِیْنًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ اس حدیث میں یہی ہے کہ موجودہ قرن کے لوگ سو سال تک نہ بچیں گے۔ ھذا حدیث صحیح۔(صحیح مسلم ص۳۱۰، ج۲ فی الفضائل باب قولہ لاثانی مائۃ سنۃ علی الارض الخ و ابوداؤد ص۲۴۲، ج۲ فی الفتن باب قرب الساعۃ والترمذی ص۲۴۲، ج۳ مع تحفۃ فی الفتن وقال ھذا حدیث صحیح۔)
اسی ترمذی شریف کے اسی باب میں ایک اور حدیث میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ہے: عَنْ جابر قال قال رسول اللّٰہ ﷺ مَا علی الارض نفس منفوسہ یعنِی الیوم یاتی علیہا مائۃ سنۃً۔ (ترمذی مع تحفہ ص۲۴۲، ج۳ مصدر السابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے دن جو بھی جاندار زمین پر ہے سو سال تک نہ رہے گا۔ دیکھئے اس جگہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یعنی کا لفظ کہہ کر الیوم کی قید لگا دی۔ پس مرزائی فریب ھَبَائً منثوراً ہوگیا مختصر یہ کہ مرزا نے ازالہ اوہام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھا ہے کہ ''سو سال تک قیامت، آجائے گی۔''
مرزائیو! اپنے تمام علماء کو اکٹھے کرو اور یہ حدیث دکھاؤ اگر نہ دکھا سکو اور ہرگز نہ دکھا سکو گے تو پھر اللہ سے ڈر کر ، مفتری کذاب کو چھوڑ دو ورنہ یاد رکھو ہم قیامت کے دن بھی تمہارے گلوں میں رستہ ڈال لیں گے اور حضور باری اس کا جواب مانگیں گے۔ فاتقو اللہ
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ نمبر 3حدیث ابراہیمی پر اعتراض اور اس کا جواب:
قرآن پاک میں ہے کہ جناب ابراہیمp نے کفار کے بتوں کو توڑا فَجَعَلَھُمْ جُذَ اذًا اِلاَّ کَبیرًا لَھُمْ لَعَلَّھُمْ اَلَیَہِ یَرجِعُوْنَ۔(پ۱۷ الانبیاء آیت : ۵۹) کردیا ان کو ٹکڑے ٹکڑے مگر بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع ہوں جب وہ بت خانے میں آئے اور اپنے معبودوں کی درگت دیکھی تو قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا۔(ایضاً آیت : ۱۱۰) بولے ہمارے خداؤں کی یہ دروشاکس نے بنائی ہے کسی نے کہا ابراہیم علیہ السلام نے۔ تب حضور علیہ السلام کو بلا کر کہنے لگے ئَ اَنَْ فَعَلْتَ کیا یہ تو نے کیا ہے؟ قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذا فرمایا بلکہ ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے۔
بہت خوب @خادمِ اعلیٰ
اس پر ایک نوٹ جو کے میرے خیال میں سلیم فریادی صاحب نے لکھا ہوا ہے۔ میں اختصارا یہاں لکھ دیتا ہوں۔

مرزائی عموماً مرزا کے جھوٹوں سے جان چھڑوانے کے لیے ایک حدیث نقل کرتے ہیں۔
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لم يكذب إبراهيم إلا في ثلاثكذبات : ثنتين منهن في ذات الله قوله ( إني سقيم ) وقوله ( بل فعله كبيرهم هذا ) وقال : بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتىعلى جبار من الجبابرة فقيل له : إن ههنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليهفسأله عنها : من هذه ؟ قال : أختيفأتى سارة فقال لها : إنهذا الجبار إن يعلم أنك امرأتي يغلبني عليك فإن سألك فأخبريه أنك أختي فإنك أختي فيالإسلام ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك فأرسل إليها فأتي بها قام إبراهيم يصليفلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده . فأخذ - ويروى فغط - حتى ركض برجله فقال : ادعيالله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق فدعا بعض حجبته فقال : إنك لم تأتني بإنسانإنما أتيتني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيم ؟ قالت : ردالله كيد الكافر في نحره وأخدم هاجر " قال أبو هريرة : تلك أمكم يا بني ماء السماء
(حدیث نمبر 75 باب نمبر 42 کتاب النکاح بخاری)
اصل مغالطہ اس حدیث میں‌استعمال کئے جانے والے لفظ‌’کذب‘ سے پیدا ہوا ہے۔ اس لفظ کی لغوی تحقیق پیش خدمت ہے۔
1)کذب کے معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں:‌اس کے دل نے اسےترغیب دلائی۔2)کذب، وجوب کے معنی میں آتا ہے: قال الجوھری:‌کذب قد یکون بمعنی وجب وقالالفراء کذب علیک ای وجب علیک (نھایہ ابن اثیر: 12/4) .. [النھایۃ فی غریب الاثرلابن الاثیر 282/4ْْ۔جوہری اور فراء کہتے ہیں:‌کذب معنی وجب پر ہے۔3) کذب، لزم کے معنی میں آتا ہے۔ کذب علیکم الحج و العمرۃ۔ تم پر حج اور عمرہ لازم ہوگیا ہے۔ [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ[۔4) غلطی یا خطا کے معنی میں‌بھی یہی لفظ‌کذب استعمال ہوتا ہے۔ حدیث‌میں‌ہے:‌کذب ابومحمد [ابو داؤد: برقم 425] یعنی ابو محمد نے غلطی کی۔ ذو الرمہ شاعر نے کہا: ما فیسمعہ کذب۔ اس کے سماع میں غلطی نہیں۔ [النھایۃ: 282/4[۔

اسی طرح امام راغب نے مفردات القرآن 288/2 میں فرمایا، اور دیگر کتب لغات میں بھی اسیقسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے: لسان العرب : 708/1،الفائق للزمخشری: 250/3،القاموس المحیط: 166،تاج العروس: 897/1۔یہ لغوی تحقیق یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ جس ایک لفظ کی بنیاد پر انبیاء،احادیث، ائمہحدیث اور راویان حدیث پر جو گند مچایا جا رہا ہے وہ انتہائی کمزور دلیل ہے۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ وضاحت کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفسالامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوںگی۔متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسریصورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اورارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میںرکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتاہے۔یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔

صدق اور کذب میں جس طرح واقعے کو دخل ہے، اسی طرح ارادے کو بھی دخل ہے۔
صدق اور کذب کا معنی سمجھ لینے کے بعد ایک تیسری چیز بھی ذہن میں آ جانی چاہئے۔ جب متکلم خبرواقع اور مخبر عنہ کے مطابق دے، لیکن اس واقع اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھناچاہے، تو اسے تعریض یا توریہ کہتے ہیں۔ یہ حقیقت میں سچ ہوتا ہے لیکن ایک لحاظ سےاسے جھوٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔"تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساءسے واضح ہے۔" [مفردات القرآن : 85/2[

پہلی بات ذہئن میں رہے یہ واقعات قرآن میں موجود ہیں اور پھر اگر ہم حدیث کے الفاظ کی بحث میں دیکھیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پرلفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ جھوٹ کی۔اور یہی تعریض یا توریہ بہت سی جگہوں پر ثابت ہے۔ مثلاً سفر ہجرت میں حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں تو فرماتے: رجل یھدینیالسبیل ، کہ میرے رہبر ہیں۔ یہ مکمل صدق بھی نہیں کہ مخاطب اس سے دنیاوی رہبر سمجھتاتھا۔ اور مکمل جھوٹ بھی نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال دینی لحاظ سے تو رہبر ہی ہیں۔قرآن سے بھی اس کی مثال پیش ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے منافقین کے تذکرہ میں فرمایا: إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُاللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّالْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (المنافقون۱)جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ الله کے رسول ہیں اور الله جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسولہیں اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں. یہاں منافقین کی صحیح بات کی بھی تصدیق نہیں فرمائی ، اس لئے کہ یہ ان کے ضمیر کی آواز نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز اس کے خلاف ہے۔ اگرچہ ان کی بات درحقیقت سچ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کا ضمیر اس حقیقت کو قبول کرنےمیں مانع ہے، لہٰذا فقط غلط ارادے کی بنیاد پر ان کی مکمل بات ہی کی تغلیط کر دی۔لہٰذا ثابت ہوا کہ فقط حقیقت واقعہ کی اہمیت نہیں، بلکہ اس پر متکلم کا ارادہ بھی جھوٹ کا اطلاق کرنے کے لئے ازحد ضروری ہے۔

حضرت ابراہیم کا بت شکنی کا ایک مشہور واقعہ ہے۔اس کا قرآن میں بھی بیان کیا گیا طوالت کی وجہ سے صرف معترض عبارت کا جواب قرآنی آیت سے نقل کرتا ہوں ۔اُس نے جواب دیا "بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہیسے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں" [الانبیاء:63[کیا کوئی کہے گا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جھوٹ بولا؟ حقیقتاً یہاں نیت صرف سمجھانے کی تھی۔لہٰذا اسے خلاف واقعہ بات کہئے، تعریض کا نام دیجئے یا توریہ کہہ لیں۔ اگر آپ حدیثمیں لفظ کذب سے جھوٹ مراد لیتے ہیں تو پھر یہ جھوٹ تو خود قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذاحدیث لکھ کر نعوذباللہ اور استغفراللہ کی گردان کرنے والوں کو آیت 21:63 لکھ کر بھییہی گردان کرنی چاہئے۔ اور اگر آپ ہماری طرح یہاں توریہ یا تعریض مراد لیتے ہیں توفبہا، کیونکہ اس طرح قرآن و حدیث دونوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں بیمار ہوں، زیر بحث حدیث میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھی خود قرآن ہی سے ثابت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ کسی تہوار یا اجتماعی کام کے لیے جانا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے ہمراہ چلیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اپنے حلفی بیان کے مطابق بتوں کو توڑنے کا پروگرام موجود تھا۔ ستاروں پر نگاہ ڈال کر فرمایا: انی سقیم [الصافات: 89[میں بیمار ہوں۔ قوم چھوڑ کر چلی گئی تو اسی بیمار ابراہیم نے پورے بت خانہ کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اب یہاں سقیم کے اظہار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توریہ سے کام لیا۔ یہ ابہام اور تعریض تھی جو بالکل سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی، مگر قوم نے اسے واقعی اہم بیماری سمجھا۔ انہیں حق ہے کہ اس من وجہ صداقت کو کذب سے تعبیر کریں۔ اس لئے تعریض اور توریہ کو من وجہ کذب کہا جا ئے گا۔اب حدیث پر اعتراض کرنے والوں کو یہی اعتراض قرآن پر بھی کرنا چاہیے؟؟
تیسرا واقعہہے جو قرآن میں مذکور نہیں۔ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے متعلق فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔اس تیسرے توریہ کے متعلق حدیث‌اپنی وضاحت آپ کرتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے ظالم کے پاس تمہیں‌اپنی بہن کہا ہے، تم میری تکذیب نہ کرنا ، کیونکہ دین کے لحاظ‌سے تم میری بہن ہو اور اس سرزمین میں‌تمہارے سوا کسی سے میرا یہ دینی رشتہ نہیں ہے۔اس تعریض کی حقیقت، ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے خود ظاہر فرما دی کہ اس سے دینی اخوت مراد ہے ، گو کہ ظالم اس سے بظاہر نسبی اخوت سمجھے گا۔ اس تعریض‌سے یہی مغالطہ مقصود ہے۔ تاکہ عصمت بھی محفوظ رہے اور شر بھی نہ پہنچ سکے۔اس کے متعلق حافظ‌ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا: اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے سامنے حقیقت کھول دی، ظالم کو مغالطہ میں‌رکھا ۔ تعریض کا یہی مطلب ہے۔

اس حدیث‌سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح‌ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی بھر کبھی توریہ یا تعریض تک نہیں کی ماسوائے ان تین مقامات کے کہ جہاں انہوں نے دعوت و تبلیغ کی خاطر یا عصمت کی حفاظت کی خاطر توریہ کیا۔ ڈیڑھ صد سال سے بھی زائد عرصہ کی زندگی میں‌فقط تین ناگزیر مقامات کے علاوہ کبھی بھی خلاف واقعہ بات کا نہ کہنا بجائے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت بڑی فضیلت اور ان کی سچائی کا ثبوت ہے۔
ایک سوال:انی قد کذبت ثلاث کذبات فذکر (ترمذی ، حسن صحیح: 297/4) حضرت ابراہیم اپنے تین کذبات کا ذکر فرما کر شفاعت سے انکار فرما دیں گے۔ اور مذکورہ حدیث میں اگرحضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ تین جھوٹ توریہ یا تعریض ہی کے قبیل سے تھے تو ان پر حدیث میں کذب کا اطلاق کیوں کیا گیا؟
جواب: اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ یہ تعریض ہے، جسے من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے ، تو متکلم کو اختیار ہے جس عنوان سے چاہے تعبیر کرے۔
نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ شفاعت سے گریز فرما رہے ہیں، انہیں وہی عنوان اختیار کرنا چاہئے جو اس مقصد کے لئے مفید ہو۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس قسم کی تعریض بھی عمر میں بس تین ہی دفعہ فرمائی، جو بذات خود من وجہ صدق ہے۔ حقیقت میں انہ کان صدیقا نبیا کی تائید ہے، تعارض ہے ہی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً فرمایا تو بھی سچ تھا اور تعریضاً فرمایا تو بھی سچ تھا۔ صدیقا کا معنی یہی ہے کہ:لم یکذب قط اولم یکذب الا قلیلا(لسان العرب، راغب، المحیط، قاموس وغیر ذالک من اسفار اللغۃ)اب حضرت ابراہیم علیہ اللسام کے اس فعل تعریض پر کذب کا اطلاق اس وجہ سے بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان اس سے بہت بلند و ارفع تھی کہ آپ مصلحتاً بھی ایسی بات کرتے جو اگرچہ درست تھی، مگر بظاہر خلاف واقع تھی۔ یہ بات اگرچہ بذات خود معمولی ہے، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت بہت بڑی ہے۔ لہٰذا اسے حسنات الابرار سیئات المقربین کے تحت کذب کہا گیا ہے۔

معروف مرزائی مفسر قرآن صلاح الدین (سورۃ الانبیاء ۶۳، ۶۴)کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ: ایسے طرز کلام کو انگریزی میں (Irony) اور عربی میں تعریض کہتے ہیں اس میں معانی ظاہری الفاظ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں یہ حدیث درج ہے لم یکذب ابراھیم النبی قط الاثلاث کذبات کہ ابراہیم نے صرف تین دفعہ جھوٹ بولا ہے ان باتوں کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے کذب کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا نفس اور حضور کی تعلیم اس قدر پاک تھی کہ حضور نے توریہ کو بھی کذب کا نام دیا ہے۔(۔ ترجمہ و تفسیر قرآن ص۱۵۵۱، ج۳ طبعہ اسلام آباد ۱۹۸۱ء مؤلفہ مرزائی صلاح الدین قادیانی)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراض کا جواب

صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کے سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لَمْ یکْنِ الَّذِیْنَ کَفُروْا والی سورت پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیَفِیتَّہُ الْمُسْلِمَۃَ ولَا یَھُوَدِیَّۃَ اب اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الدین عند اللّٰہ الی الاخر کو قرآن مجید لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا والی سورت کی آیات قرار دیا ہے۔ ذرا کوئی مولوی لَمْ یَکُنَ الَّذِیْنَ والی سورت تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ نکال کر دکھا دیں۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۱ و ۴۶۲ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۸۸۷، ۸۸۸ طبعہ ۱۹۴۵ء)
الجواب:

قرآن پاک عربی مبین میں ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عربی نژاد ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو ان پر آیات پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی کیا وجہ! کیا وہ خود ان آیات کا لفظی ترجمہ نہیں جان سکتے تھے؟ یقینا پھر بات کیا ہے؟ قرآن پاک شاہد ہے کہ گروہ صحابہ میں سے ایک طائفہ تبلیغ و تفہیم قرآن کے لیے بالخصوص مخصوص تھا جن میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بحکم خدا ان پر آیات کی تلاوت کرنا تعلیم الفاظ و کیفیت آداب و مواضع الوقوف کی تفہیم و مطالب قرآنیہ کی تشریح کے لیے تھا۔ لہٰذا صاف عیاں ہے کہ الفاظ وَاِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَیِنْفِیَّۃُ بطور تفسیر ہیں۔
خود حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر سورہ لَمْ یکن الذین پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا۔ صاف دال ہے کہ وہ خود بھی ان الفاظ کو قرآن نہیں بلکہ تفسیر سمجھتے تھے۔
مرزائی صاحب چونکہ دل سے جانتے ہیں کہ حقیقت یہی ہے اس لیے بموجب ضرب المثل ''چور کی داڑھی میں تنکا'' آگے چل کر بطور خود جواب بھی دیتے ہیں کہ:
'' یاد رکھنا چاہیے کہ حدیث مذکورہ بالا میں لفظ قَرَأَ فِیْھَا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورت کی تفسیر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ورنہ قال فِیْھَا کہنا چاہیے تھا۔( ایضاً ص۴۶۲)
گویا معترض ان الفاظ کو تفسیر ماننے کو تیار ہے اگر قَالَ فِیْھَا ہوتا۔ بہت خوب:
راہ پر آگیا ہے وہ خود باتوں میں!
اور کھل جائے گا دو چار ملاقاتوں میں

قَرَأَ کا لفظ قرآن کے لیے مخصوص نہیں۔ دیگر گفتگو پر بھی آتا ہے۔(صحیح بخاری ص۱۴، ج۱) بخاری کتاب العلم باب القراء ۃ والعرض علی المحدث کو غور سے پڑھیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مفہوم قرآن پر بھی قرأۃ کا لفظ اہل عرب (بالخصوص جملہ محدثین) کے نزدیک مستعمل ہے چنانچہ امام المحدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ الباری مفہوم اور معانی قرآن پر قرأت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ضمام بن ثعلبۃ انہ قال للنبی ﷺ اللّٰہُ اَمَرَکَ ان نصلی الصلوٰۃ قَالَ نَعَمَ قَالَ فَھٰذہ القراء ۃ علی النبی ﷺ (بخاری کتاب العلم باب مذکورہ) (ایضاً نوٹ: یہ قول امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں بلکہ انہوں نے اپنے شیوخ سے اسے نقل کیا ہے امام بخاری کے الفاظ ہیں کہ واحتج بعضھم فی القراۃ علی العالم بحدیث ضمام بن ثعلبۃ ، صحیح بخاری ص۱۴، ج۱ اور قائل اس قول کے ابو سعید الحداد ہیں جیسا کہ امام بیہقی کے حوالے سے حافظ ابن حجر نے، فتح الباری ص۱۲۱، ج۱ میں اور محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص۳، ج۲ میں صراحت کی ہے۔ ابو صہیب) ضمام بن ثعلبہ کا واقعہ ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اللّٰہُ اَمَرَکَ کیا خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں فرمایا ہاں! امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قرأت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
فرمایا اللّٰہ اَمَرَکَ قرآن کے لفظ ہیں؟ نہیں۔ پھر دیکھئے اس پر امام المحدثین قرأۃ کا لفظ بولتے ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنیے قرآں پاک سے مثال دیتا ہوں قیامت کے دن جب دشمنان دین معاندین رسول، دست و پا بستہ دربارِ خداوندی میں حاضر کئے جائیں گے تو انہیں فرمان ہوگا۔ اِقَرَأْ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ (پ۱۵ بنی اسرائیل آیت : ۱۵ ) بدبخت آج تو خود ہی اپنے نامہ اعمال کو پڑھ لے۔
فریب خوردہ انسان ! کیا اس دن خدا پر بھی اعتراض کرے گا کہ قَرَأَ کا لفظ تو صرف قرآن پر مخصوص ہے۔ الٰہی تو میرے سیاہ نامے پر اسے کیوں استعمال کر رہا ہے؟ غالباً نہیں، یقینا جواب یہی ملے گا کہ :
تو آشنائے حقیقت نۂٖ خطا اینجاست

ایک اور طرز سے:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں، جنہیں عہد نبوی میں جمع قرآن کی خدمت سپرد ہوئی تھی عَنْ اَنَسٍ جَمَعَ الْقُرْاٰنَ عَلٰی عَھْدِ النَّبی ﷺ اَرَبَعَۃٌ کُلُّھْمَ مِنْ اَنْصَارٍ اُبَیٌّ وَ مُعَاذ بن جبل وابو زید وزید بن ثابتٍ (بخاری باب مناقب ابی بن کعب)(صحیح بخاری ص۵۳۷، ج۱ فی المناقب باب مناقب ابی بن کعب) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار بزرگوار انسان انصاری، جمع قرآن کی خدمت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے خذوا القران من اَرْبَعَۃٍ مِنَ عبداللّٰہ بْنِ مَسَعُوْدٍ وَسَالِمٍ مَوْلٰی اَبْی حُذَیْفَۃَ وَمُعَاذ بن جَبَلٍ وَابی بن کعب (حوالہ مذکورہ) قرآن چار شخصوں سے سیکھو جن میں ایک ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اندریں حالات اگر زیر بحث الفاظ قرآن کے ہوتے یا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ انہیں قرآن میں شمار کرتے تو پھر کم از کم ان کے جمع کردہ قرآن میں تو ان الفاظ کو موجود و مرقوم ہونا چاہیے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں۔ اس لیے مہر نیم روز کی طرح روشن ہے کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو قرآن ظاہر کیا اور نہ ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں قرآن سمجھا۔ پس مرزائی اعتراض سراسر کور چشمی بلکہ سیاہ قلبی پر مبنی ہے۔
یہ الفاظ نبیﷺ نے سورہ البینہ کی وضاحت میں فرمائے تھے اس پر ایک اور دلیل المستدک الحاکم یہ حدیث بھی ہے۔ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ» فَقَرَأَ: {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ} وَمِنْ نَعْتِهَا لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ، فَأَعْطَيْتُهُ، سَأَلَ ثَانِيًا، وَإِنْ أَعْطَيْتُهُ ثَانِيًا، سَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ، وَإِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ غَيْرَ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ، وَمَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ۔
ایک اور بات عرض کر دو کہ یہ روایت سنن ترمذی اور مسند احمد بن حنبل میں موجود ہے اور تمام ہی روایات میں اللہ کی نبیﷺ نے سورہ البینہ کی آیت بل کل ویسے ہی پڑھی جیسے قرآن میں موجود ہے لیکن تفسیر کے الفاظ جو فرمائے گئے وہ تمام روایات میں کچھ مختلف مختلف بیان ہوئے کیونکہ کہ راویوں نے اپنے یاد کے مطابق وہ الفاظ سنائے اب راویوں کو قرآن تو یاد تھا انہوں نے خود سورہ البینہ کی آیات کو بلکل ایک جیسا نقل کیا لیکن تفسیر میں الفاظوں کا مختلف چناو کیا جس سے صاٖف ثابت ہوگیا کہ مختلف الفاظ تفسیر تھے اور سورہ البینہ کی تفسیر اور وضاحت میں تھے اور "ومن نعتھا" کے الفاظ واضح دلیل ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بقول مرزا کے جو یہ ابراھیم علیہ السلام پر جھوٹ کا الزام لگائے وہ شیطان ہے ۔
حضرت ابراھیم.jpg
 
Top