• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف حضرت مولانا رشید احمد گنگوھیؒ کا فتوی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف حضرت مولانا رشید احمد گنگوھیؒ کا فتوی

مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف
حضرت مولانا رشید احمدکا فتویٰ کفر
ایک تاریخی حقیقت ․․․․․․․․ ایک تحقیقی جائزہ

۱۹۸۴ء کا واقعہ ہے کہ ایک غالی فرقہ کی طرف سے ”فتاویٰ قادریہ“ کے نام سے ایک کتاب منظر عام پر آئی جسے لاہور کے ایک نشریاتی ادارہ ”مکتبہ قادریہ“ نے شائع کیا اور اسے پورے ملک میں پھیلایا گیا‘ بعض احباب کی وساطت سے یہ کتاب ہم تک بھی پہنچی۔ یہ کتاب درحقیقت تحریک آزادئ ہند کے عظیم جرنیل‘ فخر المجاہدین حضرت مولانا عبد القادر لدھیانوی نور اللہ مرقدہ کے جلیل القدر صاحبزدگان: حضرت مولانا محمد لدھیانوی‘ حضرت مولانا عبد اللہ لدھیانوی‘ حضرت مولانا عبد العزیز لدھیانوی اور حضرت مولانا اسماعیل لدھیانوی رحمہم اللہ تعالیٰ کے مختلف فتاویٰ جات کا مجموعہ ہے‘ جو انہوں نے اپنے والد گرامی قدر کے اسم گرامی کی طرف منسوب کرکے شائع کیا ہے۔
ان علمائے لدھیانہ کو یہ شرف وسعادت حاصل ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف اولین فتویٰ کفر ان ہی کی طرف سے جاری ہوا‘ حالانکہ اس وقت اکثر وبیشتر علماء کرام مرزا قادیانی کے افکار ودعاوی سے ناواقفیت کی وجہ سے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ دینے میں متردد تھے اور اس کے نظریات کے بارہ میں ٹھوس معلومات اور ثبوت نہ ہونے کی بناء پر فتویٰ کفر جاری کرنے سے گریزاں تھے‘ ان ہی محتاط ومتردد علماء میں قطب الارشاد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ العزیز بھی شامل تھے۔
علماء لدھیانہ کا فتویٰ اور حضرت گنگوہیؒ کا ابتدائی مؤقف ۱۳۰۱ ہجری (۱۸۸۴ء) میں جب مرزا قادیانی کی پہلی کتاب ”براہین احمدیہ“ منظر عام پر آئی تو اس کی بعض غیر محتاط عبارات سے علماء کرام کا ایک گروہ چونک اٹھا اور ان کے دلوں میں مرزا قادیانی کے بارہ میں شکوک وشبہات سر اٹھانے لگے‘ اسی دوران مرزا قادیانی نے اپنے چند روزہ قیام لدھیانہ کے دوران کچھ عجیب قسم کے دعوے کردیئے‘ گویا وہ مامور من اللہ ہے‘ جس سے علماء کرام کا وہ گروہ مزید چوکنا ہوگیا اور اس نے مرزا قادیانی پر کفر وضلالت کا فتویٰ جاری کردیا۔ یہ فتویٰ جاری کرنے والے یہی علماء لدھیانہ تھے جو مرزا قادیانی کی کتاب اور اس کے زبانی دعوؤں سے نبوت ورسالت کی طرف اس کی غیر محسوس پیش قدمی بھانپ گئے۔
لدھیانہ کے بعض دیگر علماء مرزا قادیانی کے ان پوشیدہ مقاصد اور نبوت کی طرف اس کی خفیہ پیش رفت کا ادراک نہ کرسکے اور انہیں علماء لدھیانہ کا فتویٰ کفر ناگوار گزرا ‘چنانچہ وہ فتویٰ کفر دینے والے علماء کے خلاف شکایت لے کر قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے علم وفہم کے مطابق حضرت گنگوہیؒ کو دو طرفہ صورت حال بتائی ‘ حضرت گنگوہیؒ نے ان کا مؤقف سنا تو اس مؤقف کی روشنی میں فتویٰ دینے والے علماء لدھیانہ کی طرف ایک مکتوب جاری فرمایا‘ جس میں حضرت گنگوہیؒ فرماتے ہیں کہ:
”گو کتاب ”براہین احمدیہ“ کے بعض اقوال میں کچھ خلجان سا ہوتا ہے‘ مگر تھوڑی سی تاویل سے اس کی تصحیح ممکن ہے‘ لہذا آپ جیسے اہل علم سے تعجب ہے کہ ایسے امر متبادر المعانی کو دیکھ کر تکفیر وارتداد کا حکم فرمایا‘ اگر تاویل قلیل فرماکر اس کو اسلام سے خارج نہ کرتے تو کیا حرج تھا؟ تکفیر مسلم ایسا سہل امر نہیں کہ ذرا سی بات پر کسی کو جھٹ کافر کہہ دیا جائے․․․․
بہرحال تکفیرکسی وجہ اور شک پر جائز نہیں‘ اگر القائے شیطانی بھی ہو تو بھی ارتداد اور تکفیر کی کوئی وجہ پیدا نہیں ہوسکتی اور آپ کا یہ فرمانا کہ: اس کا دعویٰ انبیاء سے بڑھ کر ہے ‘ یہ بیان میری سمجھ سے باہر ہے‘ کسی مسلمان کی تکفیر کرکے اپنے ایمان کو داغ لگانا اور مواخذہ ٴ اخروی سر پر لینا سخت نادانی ہے‘ یہ بندہ جیسا اس بزرگ (مرزا قادیانی) کو کافر‘ فاسق نہیں مانتا‘ اس کو مجدد وولی بھی نہیں کہتا‘ صالح مسلمان سمجھتا ہوں اور اگر کوئی پوچھے تو ان کے ان کلمات کی تاویل مناسب سمجھتا ہوں اور خود اس سے اعراض وسکوت ہے“۔ (فتاویٰ قادریہ‘ مطبوعہ لاہور)
حضرت گنگوہیؒ کا مؤقف‘ لدھیانہ سے آنے والے ان علماء کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے جو اس وقت تک مرزا قادیانی کے بارہ میں حسن ظن رکھتے تھے اور فتویٰ دینے والے علماء لدھیانہ کی سخت گیری اور جلد بازی سے نالاں بھی تھے‘ ایسے حالات میں اصولِ فتویٰ کی حدود وقیود اور تکفیر مسلم کی حساسیت ونزاکت سے واقفیت رکھنے والے اصحاب علم وفہم اچھی طرح واقف وباخبر ہیں کہ فتویٰ میں کس قدر احتیاط لازم ہے‘ اس لئے اس وقت کے حالات وواقعات کے مطابق یہ حضرت گنگوہیؒ کا ایک انتہائی محتاط فتویٰ تھا‘ لیکن بعد میں جوں جوں مرزا قادیانی کے افکار ودعاوی کی اصل حقیقت حضرت گنگوہیؒ پر واضح وآشکارا ہوتی چلی گئی‘ ان کے مذکورہ مؤقف میں بھی نمایاں اور واضح تبدیلی آتی چلی گئی اور مرزا قادیانی سے متعلق ان کا فتویٰ رفتہ رفتہ سختی وشدت اختیار کرتا چلا گیا۔
تحقیق یا جہالت؟
بدقسمتی سے لاہور کے جس مکتبہ نے ”فتاویٰ قادریہ“ دوبارہ شائع کیا ہے‘ اس نے حقیقت پسندی کا ثبوت بالکل نہیں دیا‘ بلکہ بدترین مسلکی تعصب کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس نے جوش تعصب میں ”فتاویٰ قادریہ“ کے خول سے نکل کر حضرت گنگوہیؒ کا مؤقف سمجھنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی‘ اس نے مرزا قادیانی کے خلاف حضرت گنگوہیؒ کے دیگر تمام فتاویٰ کو (جن میں اس کے کفر وضلالت کا فتویٰ دیا گیا تھا) کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ”فتاویٰ قادریہ“ کے مذکورہ فتویٰ کو ہی بنیاد بناکر یہ تأثر قائم کرلیا ہے کہ حضرت گنگوہیؒ نے تادم آخر مرزا قادیانی کے خلاف کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ چنانچہ مذکورہ متعصب مکتبہ کی طرف سے جو ”فتاویٰ قادریہ“ شائع ہوا‘ اس کے آغاز میں ایک ورقی ابتدائیہ کا اضافہ کیا گیا ہے اور اس میں ان کے ایک متعصب اسکالرجناب عبد الحکیم شرف قادری صاحب فرماتے ہیں کہ:
”ابو القاسم رفیق دلاوری اپنی کتاب ”رئیس قادیان“ جلد دوم میں لکھتے ہیں کہ: آخر گنگوہیؒ صاحب نے بھی مرزا قادیانی کی تکفیر پر اتفاق کرلیاتھا جہاں تک ”فتاویٰ قادریہ“ کا تعلق ہے‘ اس سے اس اتفاق کا نشان تک نہیں ملتا‘ فتاویٰ رشیدیہ میں بھی ایسا کوئی عنوان نہیں ہے‘ اگر کوئی صاحب اس کی نشاندہی کریں تو تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس کے قبول کرنے سے کوئی باک نہ ہوگا“۔(ابتدائیہ‘ فتاویٰ قادریہ‘ مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور)
حیرت ہے کہ شرف قادری صاحب کو ۱۳۰۱ ہجری کا ایک فتویٰ تو مل گیا‘ جس پر انہوں نے بڑے طمطراق کے ساتھ اپنی ریسرچ کو فائنل اور حتمی قرار دے دیا اور اس کے بعد حضرت گنگوہیؒ کی وفات (۸‘ جمادی الثانی ۱۳۲۳ھ) تک تقریباً ۲۲/سال کے طویل عرصہ میں ان کی طرف سے مرزا قادیانی کے خلاف جو کفر وضلالت کے فتویٰ جاری ہوئے‘ وہ قادری صاحب کو کسی مارکیٹ یا لائبریری سے دستیاب نہ ہوسکے‘ ہماری عقل ودانش اس مفروضہ پر ایمان لانے کو قطعاً تیار نہیں کہ اپنے مکتب فکر کے ایک نامور محقق واسکالر (جسے اپنی تاریخ پر بھی بہت ناز ہے کہ جو تاریخ سازی میں بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے) نے مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف اس متفقہ ”فتویٰ کفر“ کا مشاہدہ ومطالعہ نہ کیا ہو جو ۱۸۹۲ء ۱۳۰۸ھ میں مولانا محمد حسین بٹا لوی مرحوم نے مرتب کیا تھا ‘اس میں مرزا قادیانی کے کفر پر حضرت گنگوہیؒ کے دستخط موجود ہیں اور پھر ہماری چھٹی حس یہ تسلیم کرنے پر بھی آمادہ نہیں کہ شرف قادری جیسے اسکالرنے اپنے اعلیٰ حضرت خان احمد رضا خان بریلوی کی دجل وتلبیس پر مبنی کتاب ”حسام الحرمین“ کے جواب میں فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نور اللہ مرقدہ کی معروف ومشہور کتاب ”المہند علی المفند“ کا مطالعہ نہ کیا ہو‘ جس میں مرزا قادیانی کے خلاف حضرت گنگوہیؒ کے مطبوعہ فتویٰ کفر کا تذکرہ بصراحت موجود ہے‘ بہرحال خدا غارت کرے اندھی‘ گونگی‘ بہری عصبیت کا جو اچھے بھلے محقق کو بھی صم‘ بکم‘ عمی بنا یتی ہے۔

فتویٰ امام ربانی برمرزا غلام احمد قادیانی

جناب شرف قادری صاحب کی طرح بعض غیر مقلدین نے بھی حضرت گنگوہیؒ کے بارہ میں یہی غالیانہ اور متعصبانہ مؤقف اختیار کیا تھا‘ جس کا جواب ہم نے ۱۹۸۴ء میں ”فتویٰ امام ربانی بر مرزا غلام احمد قادیانی “ کے نام سے شائع کردیا تھا‘ ہمارے ۸۰‘ صفحات کے اس رسالہ کو بے حد پذیرائی ملی ۔ شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نور اللہ مرقدہ اور سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی قدس سرہ العزیز نے اس رسالہ کو بہت پسند فرمایا ‘ بلکہ حضرت لدھیانویؒ نے تو انتہائی شفقت وحسرت بھرے انداز سے فرمایا کہ: اس رسالہ کے ذریعہ حضرت گنگوہیؒ کے مرزا قادیانی کے خلاف متعدد فتوے میرے مطالعہ میں پہلی بار آئے ہیں‘ پہلے وہ میری نظر سے نہیں گزرے۔
ختم نبوت کانفرنس لندن کے موقع پر حضرت گنگوہیؒ کے مرزا قادیانی سے متعلق مؤقف کے بارہ میں ہم سے سوال ہوتے رہے‘ ہم نے ”المہند علی المفند“ مولانا بٹالویؒ کے متفقہ فتویٰ کفر‘ مرزا غلام احمد قادیانی اور بعض دیگر قادیانیوں کی تحریرات سے تو ان کا جواب دیا‘ لیکن یہ رسالہ اگر ہمیں پہلے مل جاتا تو ہم اس بارہ میں مزید مدلل جواب دے سکتے بہرحال اس وقت چونکہ (اس وقت کے حالات وواقعات کی بنا پر) اس رسالہ میں معترضین کے لئے تنقید ی جوابات بھی شامل تحریر تھے‘ جن کی موجودہ حالات میں ہم ضرورت محسوس نہیں کرتے‘ اس لئے اب زیر نظر مضمون سے ہم نے وہ تمام تنقیدی بحثیں خارج کردی ہیں اور صرف حضرت گنگوہیؒ کے فتاویٰ جات پر بحث کرنے کی کوشش کی ہے‘ تاکہ مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کے بارہ میں حضرت گنگوہیؒ کا تحقیقی وفکری نکتہ نظر کھل کر سامنے آجائے۔
علماء لدھیانہ کا جوابی مکتوب
علماءِ لدھیانہ کے نام حضرت گنگوہیؒ کے مکتوب گرامی کے دو اقتباسات ہم گذشتہ سطور میں نقل کر چکے ہیں جس میں حضرت گنگوہیؒ نے مرزا قادیانی سے متعلق معلومات کی روشنی میں اس کے بارہ میں اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے‘ اس کے جواب میں علماء لدھیانہ نے حضرت گنگوہیؒ کے نام اپنے مکتوب کے اندر لکھا کہ:
”ہماری رائے میں علماء کا ایسے موقع پر توقف کرنا‘ عوام کو گمراہی میں ڈالنا ہے‘ کیونکہ عوام تاویل کا نام تک نہیں جانتے‘ اسی بناء پرعلمائے شریعت نے حسین بن منصورحلاج کو قتل کرادیا‘ حالانکہ اس سے کوئی ایسا کلمہ صادر نہ ہوا تھا جو قابل تاویل نہ ہو‘ آپ جیسے اہل فضل اور صاحب کمال سے تعجب ہوا کہ کلمات کفریہ کی تاویلات کے درپے ہوئے اور مرزا غلام احمد کے حالات سے کما حقہ اطلاع حاصل کئے بغیر اس کو صالح مسلمان قرار دے دیا اور نادانستہ عوام کو گمراہی میں ڈالا“۔ (فتاویٰ قادریہ)۔
حضرت گنگوہیؒ کا مکتوب اور علماء لدھیانہ کا جوابی مکتوب دونوں” فتاویٰ قادریہ“ کے علاوہ مؤرخ اسلام حضرت مولانا ابو القاسم محمد رفیق دلاوری رحمہ اللہ علیہ (تلمیذ رشید حضرت شیخ الہند) کی شہرہ آفاق کتاب ”رئیس قادیان“ میں بھی شائع ہوچکے ہیں جو پہلے دوحصوں میں الگ الگ شائع ہوتی رہی اور اب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے دونوں حصوں کو یکجا کرکے ایک ہی جلد میں شائع کردیا ہے‘ مذکورہ مکاتیب اس کے ص:۳۷۲تا ۳۷۹ میں منقول ہیں ۔ تفصیلی خطوط وہیں ملاحظہ کر لئے جائیں‘ ان دونوں مکتوبات کے اندر دو پہلو پوری طرح واضح ہیں۔
۱:- یہ کہ دونوں فریق فتویٰ کے ایک ایک احتیاطی پہلو پر عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں‘ حضرت گنگوہیؒ اگر فتویٰ میں تکفیر مسلم (بلاثبوت وتحقیق) سے گریزکر کے احتیاطی پہلو پر عمل پیرا تھے تو علماء لدھیانہ عوام الناس کو مرزا قادیانی کے خود تراشیدہ دعوؤں کی گمراہی سے بچانے کے احتیاطی پہلو کو اختیار کئے ہوئے تھے اور اصحاب علم وفہم اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ فتویٰ کے اندر یہ دونوں پہلو بہت نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
۲: -یہ کہ علماء لدھیانہ مرزا قادیانی کی ”براہین احمدیہ“ کا مطالعہ کرچکے تھے‘ لدھیانہ کے اندر اس کے دعاوی سن چکے تھے اور اس کے طرز وطریق کافی حد تک جان چکے تھے‘ گویا وہ مرزا قادیانی کی شخصیت‘ اس کی تحریک‘ اس کے حالات وتعلیمات اور اس کے مقاصد سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے‘ اس کے برعکس حضرت گنگوہیؒ کی معلومات مرزا قادیانی کے بارہ میں صرف شنیدہ حد تک تھیں اور دیدہ وشنیدہ میں فرق ہرایک پر واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی کے بارہ میں مکمل معلومات حاصل ہونے کے بعد حضرت گنگوہیؒ نے علماء لدھیانہ کے فتویٰ کفر کو نہ صرف تسلیم کیا‘ بلکہ بھر پور طریقہ سے اس کی تائید وتصدیق بھی کی‘ یہاں تک کہ مرزا قادیانی کی مناظر انہ چیلنج بازیوں کا ناطقہ بند کردیا۔
علماء لدھیانہ کی دار العلوم دیوبند میں حاضری

حضرت گنگوہیؒ اور علماء لدھیانہ کے ما بین مذکورہ خط وکتابت کے بعد اسی سال دار العلوم دیوبند کا سالانہ جلسہ دستار بندی قریب آگیا‘ چنانچہ علماء لدھیانہ اس جلسہ میں شرکت کے لئے ۱۲ جمادی الاول ۱۳۰۱ ہجری کو دیوبند پہنچے‘ جلسہ کے موقع پر حضرت گنگوہیؒ بھی (گنگوہ شریف سے) دیوبند تشریف لائے تھے اس موقع پر ملک بھر (متحدہ ہندوستان) سے بڑے بڑے علماء کرام بھی تشریف لائے ہوئے تھے‘ علماء لدھیانہ نے ان اکابر علماء کی موجودگی میں حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کے سامنے مرزا غلام احمدقادیانی کا کچھ حال بیان کیا اور انہیں مرزا قادیانی کے دعاوی ومقاصد کے بارہ میں تفصیلی حالات سے آگاہ کیا اور اس کی بعض تحریرات بھی بطور ثبوت دکھلائیں۔
مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی وضاحت

حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ ‘ حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے فرزند ارجمند اور حضرت شاہ عبد الغنی مجددیؒ کے شاگرد رشید تھے‘ قیام دار العلوم دیوبند کے بعد دار العلوم کے پہلے صدرمد رس مقرر ہوئے اور اپنی وفات (۳/ربیع الاول ۱۳۰۲ھ) تک اس عظیم منصب پر فائز رہے‘ علماء لدھیانہ نے جب انہیں مرزا قادیانی کے بارہ میں تفصیلی حالات سے آگاہ کیا تو انہوں نے حالات سن کر فرمایا کہ:
”میں مرزا غلام احمد کو اپنی تحقیق میں ایک آزاد خیال‘لامذہب جانتا ہوں‘ چونکہ آپ (یعنی علماء لدھیانہ) قریب الوطن ہونے کی وجہ سے اس کے تمام حالات سے بخوبی واقف ہیں‘ اس لئے آپ کو اس کی تکفیر سے منع نہیں کرتا‘ اس کے علاوہ آپ نے اس شخص کی کتاب ”براہین احمدیہ“ پڑھی ہے اور میں نے اور مولوی رشید احمد صاحب (گنگوہی) نے اس کا مطالعہ نہیں کیا“۔ (رئیس قادیان ص:۳۷۹‘ ۳۸۰)
مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی مذکورہ وضاحت کا ایک ایک جملہ فتویٰ کی اصولی احتیاط ظاہر کررہا ہے اور وہ اصولِ فتویٰ کی روشنی میں برملااس چیز کا اعتراف فرمارہے ہیں کہ علماء لدھیانہ چونکہ مرزا قادیانی کے بارہ میں معلومات کاملہ کی بنیاد پر اس کے خلاف فتویٰ کفر دے رہے ہیں‘ اس لئے ہم ان کو منع نہیں کرتے۔ البتہ خود فی الوقت فتویٰ کفر اس لئے نہیں دیتے کہ ہم نے ابھی تک نہ تو ”براہین احمدیہ“ کا مطالعہ کیا‘ نہ مرزا قادیانی کے کلمات کفریہ خود سنے اور نہ ہی اس کے دعاوی باطلہ کی تحریرات ہماری نظر سے گزریں‘ البتہ علماء لدھیانہ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مولانا یعقوب نانوتویؒ نے مرزا قادیانی کے بارہ میں درج ذیل تحریری مؤقف ان کو ارسال کردیا:
”یہ شخص (مرزا قادیانی) میری دانست میں لامذہب معلوم ہوتا ہے‘ اس شخص نے اہل اللہ کی صحبت میں رہ کر فیض باطنی حاصل نہیں کیا‘ معلوم نہیں اس کو کسی روح کی اویسیت ہے مگر اس کے الہامات اولیاء اللہ کے الہامات سے کچھ مناسبت اور علاقہ نہیں رکھتے“۔ (رئیس قادیان ص:۳۸۰)۔
ہمارے خیال میں احتیاط کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے زیادہ واضح مؤقف تحریر میں لانا ممکن نہ تھا ‘ جو حضرت نانوتویؒ نے تحریر فرمادیا۔
حضرت گنگوہیؒ کی تائید
مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ سے مذکورہ تحریری وضاحت حاصل کرنے کے بعد علماء لدھیانہ حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت نانوتویؒ کا مؤقف ان کے سامنے پیش کردیا‘ اس پر حضرت گنگوہیؒ نے فرمایا کہ: ”مولانا محمد یعقوبؒ ہم سب کے بڑے ہیں‘ جو کچھ وہ فرمائیں گے مجھے بسرو چشم قبول ہوگا“۔ (ایضاً ص:۳۸۰) مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کے مذکورہ فرمان کہ مرزا قادیانی آزاد خیال اور لامذہب ہے‘ صحبت اہل اللہ اور ان کے فیض باطنی سے محروم ہے اور اس کے الہامات اولیاء اللہ کے الہامات سے کچھ مناسبت نہیں رکھتے‘ حضرت گنگوہیؒ کی طرف سے اس فرمان کی غیر مشروط تائید کے بعد ان کا سابقہ مؤقف کہ میں مرزا قادیانی کو صالح مسلمان جانتا ہوں‘ خود بخود منسوخ ہوجاتاہے‘ اس تائید کے بعد ان کے سابقہ مؤقف سے استدلال کرنا سراسر ظلم اور صریح ناانصافی ہے۔
شاہ عبد الرحیمؒ کا خواب اور مرزا قادیانی کی بے دینی

حضرت گنگوہیؒ اور مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ سے ملاقات کے بعد علماء لدھیانہ نے شیخ طریقت حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم سہارنپوریؒ سے ملاقات کی اور انہیں مرزا قادیانی کے افکار ونظریات سے آگاہ کیا‘ شاہ عبد الرحیم سہارنپوریؒ (رائے پوری) ظاہری وباطنی علوم کے جامع اور حضرت گنگوہیؒ کے خلیفہ مجاز تھے‘ انہوں نے مرزا قادیانی کے حالات اور اس پر علماء لدھیانہ کے فتویٰ کفر سے علماء کے اختلاف کا تذکرہ سنا تو فرمایا: میں اس کے لئے استخارہ کروں گا‘ تاکہ اس کے بارہ میں کوئی غیبی اشارہ مل جائے‘ چنانچہ انہوں نے استخارہ کیا اور فرمایا:
”میں نے دیکھا کہ یہ شخص (مرزا قادیانی) بھینسے پر اس طرح سوار ہے کہ منہ دم کی طرف ہے‘ جب غور سے دیکھا تو اس کے گلے میں زنار (غیر مسلموں کا علامتی نشان جو عیسائی ‘ یہودی‘ مجوسی کمر میں اور ہندو گلے میں دھاگے کی صورت میں ڈالتے ہیں) نظر آیا‘ جس سے اس شخص کا بے دین ہونا ظاہر ہے جو علماء اس کی تردید میں اب متردد ہیں‘ کچھ عرصہ بعد وہ بھی اسے خارج از اسلام قراردیں گے“۔ (ایضاً ص:۳۸۰)
شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف ثابت ہوئی‘ نہ صرف وہ علماء جو فتویٰ کفر دینے میں متردد تھے‘ بلکہ مرزا قادیانی کی تائید ونصرت کرنے والے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم جیسے علماء بھی اس کے خلاف فتویٰ کفر پر متفق ہوئے اور علمائے امت نے مرزا قادیانی کے خلاف متفقہ فتویٰ کفر شائع کیا۔
حضرت گنگوہیؒ کا مطبوعہ فتویٰ کفر

جب خان احمد رضا خان صاحب بریلوی نے (حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ‘ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانویؒ وغیرہ) اکابر علماء دیوبند کی بعض عبارات میں قطع برید کرکے اور ان کو خانہ ساز مفہوم کا جامہ پہنا کر علماء حرمین شریفین سے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ حاصل کرلیا‘ تو شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے علماء حرمین شریفین کو خان صاحب بریلوی کے مکر وفریب اور دجل وتلبیس سے آگاہ کیا اور ان کے سامنے اسلاف دیوبند کے عقائد ونظریات کی اصل وحقیقی تصویر رکھی‘ اس پر علماء حرمین شریفین نے اپنی تسلی کے لئے ۲۶/ سوالات مرتب کرکے علماء دیوبند کے پاس ارسال کئے۔ فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے علماء دیوبند کے نمائندہ کی حیثیت سے ان کے جوابات تحریر کئے جو ”المہند علی المفند“ کے نام سے عربی میں طبع ہوئے اور پھر حضرت سہارنپوریؒ نے ہی ان کا اردو ترجمہ کیا اور آج کل وہ عربی متن اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہورہے ہیں‘ اس وقت کے جید اکابر علماء دیوبندحضرت شیخ الہندؒ‘ حضرت تھانویؒ‘ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ وغیرہ نے ان کی تائید وتصدیق فرمائی‘ اس اعتبار سے وہ جماعت دیوبند کی ایک اجماعی دستاویز ہے‘ علماء حرمین شریفین نے جو سوالات ارسال کئے ان میں ایک سوال مرزا قادیانی سے متعلق بھی تھا‘ اس کے جواب میں حضرت مولانا سہارنپوریؒ فرماتے ہیں کہ:
”ہم اور ہمارے مشائخ سب کا مدعئ نبوت ومسیحیت مرزا قادیانی کے بارہ میں یہ قول ہے کہ شروع شروع میں جب تک اس کی بدعقیدگی ہم پر ظاہر نہ ہوئی‘ بلکہ یہ خبر پہنچی کہ وہ اسلام کی تائید کرتا ہے‘ اور تمام مذاہب کو بدلائل باطل کرتا ہے تو جیساکہ مسلمان کو مسلمان سے زیبا ہے‘ ہم اس کے ساتھ حسن ظن رکھتے اور اس کے بعض ناشائستہ اقوال کو تاویل کرکے محمل حسن پر حمل کرتے رہے اور اس کے بعد جب اس نے نبوت ومسیحیت کا دعویٰ کیا‘ اور عیسیٰ مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا منکر ہوا اور اس کا خبیث عقیدہ اور زندیق ہونا ہم پر ظاہر ہوا تو ہمارے مشائخ نے اس پر کافر ہونے کا فتویٰ دیا‘ قادیانی کے کافر ہونے کی بابت ہمارے حضرت گنگوہیؒ کا فتویٰ تو طبع ہوکر شائع بھی ہوچکا ہے اور بکثرت لوگوں کے پاس موجود ہے‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں“۔ (المہند علی المفند ص:۷۱‘۷۲)۔
اس سے واضح ہے کہ حضرت گنگوہیؒ کا مرزا قادیانی کے خلاف فتویٰ کفر باقاعدہ طور پر شائع ہوچکا ہے‘ ہمیں تو تلاش بسیار کے باجود وہ دستیاب نہیں ہوسکا‘ ممکن ہے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ریکارڈ میں وہ موجود ہو اور ”احتساب قادیانیت“ کی کسی جلد میں شائع ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد جلال پوری مدظلہ کے مرتبہ ”فتاویٰ ختم نبوت“ کی کسی جلد میں شائع ہوچکا ہو‘ کیونکہ ہمیں اس کی تیسری جلد کے علاوہ کسی جلد کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا‘ بہرحال اس فتویٰ کا جاری وشائع ہونا ایک مسلم حقیقت ہے۔
حضرت گنگوہیؒ کے مکاتیب‘ مفاوضات رشیدیہ

حضرت مولانا سید محمد اشرف علی سلطان پوریؒ کا شمار شیخ المحدثین حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری نور اللہ مرقدہ کے ارشد تلامذہ میں ہوتا ہے اور طریقت میں وہ حضرت گنگوہیؒ کے جلیل القدر خلفاء میں سے ہیں‘ اپنے شیخ ومرشد حضرت گنگوہیؒ سے اپنی فکری وباطنی اصلاح کے لئے انہوں نے مختلف عنوانات پر جو خط وکتابت کی اسے انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھا‘ اگست ۱۹۳۸ء میں ان کے صاحبزادہ حکیم سید نور الحسن منظور سلطان پوری مرحوم نے اپنے والد بزرگوار کے نام حضرت گنگوہیؒ کے وہ مکاتیب ”مفاوضات رشیدیہ“ کے نام سے شائع کردیئے۔ یہ رسالہ استاذ المکرم حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب گورمانی زید مجدہم کے کتب خانہ میں موجود ہے اور انہوں نے انتہائی شفقت فرماتے ہوئے ہمیں وہ پورا رسالہ فوٹو کاپی کراکے عنایت فرمایا ۔ خدا تعالیٰ ان کا سایہ صحت وسلامتی کے ساتھ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے‘ اور ہمیں ان کے علوم وفیوض کی برکات سے ہمیشہ مستفید ہونے کی توفیق بخشے آمین․
حضرت گنگوہیؒ کے ان مکاتیب میں سے بعض مرزا قادیانی سے بھی متعلق ہیں‘ ان مکاتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں مرزا قادیانی کی ماموریت‘ مجددیت اور مہدویت کے دعاوی سے نبوت ورسالت کی طرف پیش رفت جاری رہی توں توں حضرت گنگوہیؒ کے اس کے بارہ میں تأثرات وفتاویٰ میں بھی تبدیلی وشدت آتی چلی گئی جو بالآخر فتویٰ کفر تک پہنچی۔ آیئے ان مکاتیب کے مطالعہ اور حوالہ سے حضرت گنگوہیؒ کا نکتہ نظر سمجھنے کی کوشش کریں۔
پہلا مکتوب: قادیانی کا عقیدہ ناحق ہے‘ البتہ تکفیر مناسب نہیں
مولانا محمد اشرف علی سلطان پوریؒ نے مرزا قادیانی کے اس وقت کے مطبوعہ بعض افکار ودعاوی کے شرعی حکم کے بارہ میں حضرت گنگوہیؒ سے ان کا مؤقف دریافت فرمایا‘ تو حضرت گنگوہیؒ نے درج ذیل جواب تحریر فرمایا:
”مولوی اشرف علی ‘ بعد سلام مسنون مطالعہ فرائیں۔عقیدہ جمہور خلف وسلف علمائے معتبرین کا یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر سے نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے جو ایک شخص خاص زندہ مدعی الوہیت کا خروج کرے گا اور اس باب میں جس قدر احادیث صحاح ہیں کہ خروج دجال ونزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اثبات ان احادیث سے ہوتا ہے وہ سب اپنے حقیقی معانی اور ظاہر پر ہیں نہ اس بات میں تاویل ہے نہ معنی مجاز واستعارہ کے اشارہ غیر مفہوم ‘ غیر متبادر معنی کی طرف ہے‘ پس صاحب فتح الاسلام مرزا غلام احمد نے جو اس کے خلاف تحقیق کیا ہے کہ احادیث کے ظاہر معنی مراد نہیں اور استعارات ہونا اس کا ثابت کیا ہے اورنزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اور خروج دجال موعود معین کا انکار کیا ہے اور اس کو اپنا عقیدہ اور حق الامر قرار دیا ہے‘ یہ تحقیق ان کی اور یہ عقیدہ ان کا اور یہ مراد لینا ان کا ان اخبار سے خطا فاش اور انحراف جادہٴ صواب ہے‘ اس میں چند وجوہ ہیں:
اولاً: باتفاق تمام اہل لغت وعلمائے دین کے نصوص کو معانی حقیقی پر حمل کرنا واجب ہے‘ جب تک یہ فرقہ بندی محقق نہ ہو ۔ ثانیاً: عقائد کے باب میں ایسے استعارات واشارات سے ارشاد کرنا شارع علیہ السلام کا اس عقیدہ کو کہ سوائے ایک دو مفہم محدث طبقہ تیرہویں صدی کے کوئی اس کی مراد کو نہ پہنچے منصب نبوت کے خلاف ہے‘ کیونکہ ایسے احکام کو واضح طور پر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے نہ کہ بطور معما کے۔
ثالثاً: اس تحقیق سے تمام علمائے سلف وخلف کو نہ فہم کرنے والے مراد ان احادیث کے قرار دینا کہ کوئی بھی آج تک ان احادیث کے مقصد کو نہ سمجھا یہ سخت آفت ہے ۔
رابعاً: تمام امت کو عقیدہ ناحق وناصواب پر معتقد قرار دینا کہ وہ سب مقبول ایسے امر پر مدت العمر متفق ومدعی رہے‘ یہ بھی نہایت نازیبا رائے ہے۔
خامساً: حدیث لاتجتمع امتی علی الضلالة کو رد کردینا ہے کہ ہر طبقہ کے علماء اس عقیدہ ناصواب کے سبب مجتمع علی الضلالة ہوجاتے ہیں‘ لہذا واضح رہے کہ یہ عقیدہ محدثہ مخترعہ ناصواب وناحق ہے ․․․․․ مگر مع ہذا اس صاحب عقیدہ کی تکفیر مناسب نہیں اور انتظار جلد ثالث کا کرنا چاہئے کہ وہ خود توقف کرنا علماء کا تا مطالعہ جلد ثالث تحریر وتقریر سے لکھتے ہیں: بندہ انتظار جلد ثالث کا کرتا تھا‘ اب آپ کے تقاضے سے اپنی رائے سے آپ کو مطلع کرتا ہوں اور تخالف اس عقیدہ سے ظاہر کرتا ہوں فقط والسلام۔ مرزا صاحب سے ملنے میں مضائقہ نہیں“ ۔
تبصرہ
حضرت گنگوہیؒ کے مذکورہ بالا مکتوب پر تاریخ درج نہیں‘ لیکن اس سے پچھلے مکتوب (محررہ ۱۰ جمادی الاول ۱۳۰۸ھ) اور اس کے بعد والے مکتوب (محررہ‘ ۲۴‘ جمادی الثانی ۱۳۰۸ھ) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکتوب ان دونوں مکاتیب کے درمیانی عرصہ کا ہے اور یہ وہ دور ہے جب مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے ”فتح الاسم اور توضیح مرام“ دونوں کتب شائع ہوچکی تھیں‘ یہ دونوں کتب ۱۸۹۰ء کے آخر میں تحریر کی گئیں اور ۱۸۹۱ء کے آغاز میں شائع ہوئیں‘ ان دونوں کتب میں عقیدہ حیات ونزول مسیح علیہ السلام سے انکار کیا گیا تھااور انہی کے تیسرے حصہ ”ازالہ اوہام“ کا اعلان کیا گیا تھا کہ وہ عنقریب طبع ہوگی اور حضرت گنگوہیؒ اسی کی اشاعت کا انتظار کررہے تھے تاکہ اس کے بعداپنی فائنل وحتمی رائے کا اظہار کیا جائے۔ یہ ازالہ اوہام ۱۸۹۱ء کے آخر میں طبع ہوئی لیکن اس کی اشاعت سے قبل مولانا اشرف علی سلطان پوریؒ نے جب ان دونوں مطبوعہ کتب ”فتح اسلام اور توضیح مرام“ میں حیات مسیح وغیرہ اجماعی مسائل سے انکار کیا گیا تھا‘ اس لئے حضرت گنگوہیؒ نے مرزا قادیانی کے ان نظریات فاسدہ کو من گھڑت‘ خود تراشیدہ بے بنیاد اور ناحق قرار دیا‘ البتہ فتویٰ کفر جاری کرنے سے از راہ احتیاط گریز کیا‘ مرزا قادیانی کے اس باطل خود عقیدہ کو بے بنیاد اور ناحق ثابت کرنے کے لئے حضرت گنگوہیؒ نے درج ذیل پانچ بنیادیں قائم کیں۔
ملاحظہ فرمایئے!:
اولاً: یہ کہ علماء دین اور ائمہ لغت کے ہاں یہ اصول متفق علیہ ہے کہ منصوص ومعروف مسائل اور ظاہر کلام کے اندر الفاظ کو حقیقی وظاہری معانی پر محمول کرنا ضروری وواجب ہے جب تک کہ کسی قطعی ویقینی دلیل خارجی کے ساتھ کوئی دوسرا (اصطلاحی وعرفی وغیرہ) معنی ثابت ومتعین نہ ہوجائے‘ چونکہ نزول مسیح اور خروج دجال وغیرہ احادیث صحیحہ میں موجود الفاظ کے کسی قطعی ویقینی دلیل خارجی کے ساتھ وہ معانی ثابت نہیں ہوتے‘ اس لئے ان کو حقیقی وظاہری معانی پر ہی محمول کیا جائے گا اور مرزا صاحب کے اشارات واستعارات پر مبنی معانی باطل ومردود قرار پائیں گے۔
ثانیاً: یہ کہ شرعی وفطری طور پر صاحب شریعت (آنحضرت ا) پر یہ لازم وضروری ہے کہ وہ عقائد واحکامات اور دیگر اسلامی تعلیمات کے اندر ایسے الفاظ استعمال کرے جو عام فہم ہوں اور امت آسانی سے ان کے مفہوم اور مقصود تک رسائی حاصل کرسکے‘ شارع علیہ السلام کی طرف سے عقائد اور احکامات کی تعلیمات شرعیہ میں ایسے الفاظ کا استعمال کرنا جن کا معنیٰ ومفہوم امت کا کثیر طبقہ نہ سمجھ سکے صرف گنتی کے چند افراد ہی اس کے مفہوم ومقصودتک رسائی حاصل کرسکیں منصب نبوت ورسالت کے سراسر خلاف ہے‘ کیونکہ پیغمبر کا مقصد مسائل کو کھول کر بیان کرنا ہوتا ہے‘ نہ کہ مسائل کو معما بناکر۔
ثالثاً: یہ کہ اگر مرزا صاحب کے مفہوم ومؤقف کو بالفرض درست تسلیم کرلیا جائے تو اس سے العیاذ باللہ تعالیٰ !یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ مرزا صاحب سے پہلے کے تیرہ سو سالہ ائمہ سلف وخلف ان احادیث کے حقیقی مفہوم ومقصود سے محروم رہے اور یہ احادیث ان کے نزدیک فقط ایک معما رہیں اور یہ امت مسلمہ کے لئے ایک بہت بڑی آفت ہے یعنی امت کے لئے یہ آزمائش ہے کہ تیرہ سوسالہ اکابر اگر ان احادیث کے مفہوم ومقصود تک رسائی صل کرنے سے محروم رہے تو باقی دینی تعلیمات کے بارہ میں ان پر کسی حد تک اطمینان کیا جائے؟
رابعاً: یہ کہ اگر مرزا صاحب کا پیش کردہ معنی ومفہوم بالفرض صحیح اور حق تسلیم کرلیا جائے تو اس سے امت کے تیرہ سو سالہ اکابر واصاغر کے قبول کردہ معنی ومفہوم کا باطل ہونا لازم آتا ہے‘ گویا وہ اکابر مدت العمر تک صرف مکھی پر مکھی مارتے رہے اور اسی باطل وناحق عقیدہ کی اشاعت کرتے رہے‘ العیاذ باللہ تعالیٰ! گویا اس اعتبار سے ان کا ایک معنی ومفہوم پر اتفاق بھی باطل اور اس کی دعوت بھی باطل اور یہ ایک انتہائی غلط اور نازیبا حرکت ہے۔
خامساً:یہ کہ مرزا قادیانی کا یہ تصور جدید آنحضرت اکے فرمان:” ان اللہ لایجمع امتی علی الضلالة“ کے بھی خلاف ہے‘ کیونکہ اس فرمان نبوی کی روشنی میں تو ایک دور کے اہل حق کا کسی باطل وگمراہ کن نظریہ پر جمع ہونا ممکن نہیں‘ چہ جائیکہ تیرہ سوسال کے مختلف ادوار کے اہل حق سارے کے سارے کسی گمراہی پر جمع ہوجائیں ‘لہذا مرزا قادیانی کا یہ تصور ونظریہ سراسر باطل وبے بنیاد ہے۔
قطب الارشاد حضرت گنگوہی نور اللہ مرقدہ کی بیان کردہ مذکورہ پانچ بنیادیں فہم قرآن وحدیث کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں‘ ان بنیادوں کو اگر اچھی طرح ذہن نشین کرلیاجائے تو قرآن وسنت کے فہم میں انسان کبھی ٹھو کر نہیں کھا سکتا‘ ماضی وحال کے جس فتنہ نے بھی فکری ونظریاتی ٹھوکر کھائی ہے وہ صرف مذکورہ بنیادوں سے انحراف کی بنیاد پر کھائی ہے اور یہ خرابی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان انانیت وخود پسندی کا شکار ہوجائے اور اپنے بڑوں پر اعتماد باقی نہ رہے‘ علم وعقل میں خود کو ان سے بڑھ کر یا ان کے برابر سمجھنے لگے۔

بشکریہ
 
Top