مرزا غلام احمد کی عمر کی پیشگوئی
جس کو سچ ثابت کرنے میں قادیانی ناکام رہے ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اﷲتعالیٰ اس کی عمر کا فیصلہ فرما دیتا ہے اور جب وقت مقرر آ جاتا ہے تو اسے اس دنیا سے واپس جانا پڑتا ہے. اس پہلو سے اگر کسی کی عمر بڑی ہو یا چھوٹی کوئی قابل تعجب بات نہیں ہوتی اور نہ اس پر کبھی اس نے مناظرہ و مباحثہ کے چیلنج دئیے ہیں اور نہ کسی نے اسے حق و باطل کا معیار بنایا ہے. کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں ہوتا. اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اسے خدا نے بتا دیا ہے کہ اسے عمر کے اتنے سال ملیں گے اور وہ لوگوں کو اس کی اطلاع کرے اور اسے اپنے سچ اور جھوٹ کا معیار بنائے تو لازماً ہر شخص کو جستجو ہوگی کہ اس کی عمر دیکھی جائے اور اسے اس کے اپنے دعویٰ پر پرکھا جائے کہ آیا وہ اپنی بات میں سچ کہہ رہا ہے یا یہ کذب محض ہے.
مرزا غلام احمد قادیانی اس اعتبار سے واقعی اپنی مثال آپ تھا کہ وہ اپنے دعویٰ کو منوانے کے لئے بے تکی سی پیشگوئیاں کر دیتا تھا. جب لوگ اس پیشگوئی کی تحقیق میں اترتے اور اسے جھوٹا قرار دیتے تو مرزا غلام احمد فوراً اپنی بات کو تاویل کر دیتا اور بحث پھر ایک دوسرا موضوع اختیار کر لیتی. سب دیکھتے کہ مرزا غلام احمد جھوٹ پر جھوٹ بول رہا ہے اور اس کی پیشگوئی غلط ہوئی ہے. مگر نہ اسے توبہ کی توفیق ہوتی اور نہ اسے سچ کا سامنا کرنے کی ہمت ہوتی.
مرزا غلام احمد جب اپنی پیشگوئیوں میں ناکام ہوتا گیا تو اب اسے ایک نئی پیشگوئی کی سوجھی. یہ پیشگوئی اس کی اپنی عمر کی پیشگوئی تھی. اﷲ تعالیٰ کے کسی نبی تو کجا خدا کے کسی مقربین نے بھی کبھی اس قسم کی کوئی پیشگوئی نہیں کی کہ میں اگر اتنی عمر پاکر مروں گا تو میں سچا ہوں گا ورنہ تم مجھے جھوٹا سمجھنا. لیکن قادیان کے مرزا غلام احمد قادیانی نے واقعی یہ پیشگوئی کر دی. مرزا قادیانی نے اعلان کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے یہ خبر دی ہے
” وتریٰ نسلا بعیدا ولنحیینک حیٰوۃً طیّبۃ. ثمانین حولًا او قریبًا من ذالک “ (روحانی خزائن جلد ۳- ازالہ اوھام: صفحہ 443)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے مرزا غلام احمد کو اسی یا اسکے قریب قریب عمر پانے کی خبر دی. یہ محض خبر نہیں تھی، خدا کی طرف سے بشارت بھی تھی. مرزا غلام احمد کہتا ہے
” فبشّرَنا ربّنا بثمانین سنۃ من العمر... و أکثر عددا “ (روحانی خزائن جلد ۱۹- مَوَاھب الرحمٰن: صفحہ 239)
ترجمہ: میرے رب نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیری عمر اسی برس یا اس سے زیادہ ہو گی.
مرزا غلام احمد نے یہی بات اپنی دوسری کتاب نشان آسمانی کے صفحہ 13 پر بھی لکھی ہے. مرزا غلام احمد کے بعض معتقدین کو جب اس بشارت کی خبر ملی تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید مرزا غلام احمد کو اس کا وہم ہوا ہو. مرزا صاحب ان کی بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ وہم نہیں ہے. خدا نے اسے یہ بات کھلے لفظوں میں بتائی ہے.
”خدا تعالیٰ نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسی80 برس کی ہو گی اور یا یہ کہ پانچ5 چھ6 سال زیادہ یا 5پانچ چھ6 سال کم. “ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 258)
مرزا غلام احمد کے مخالفین کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مرزا غلام احمد کی کھلی تردید کی اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ اس قسم کی باتوں سے منزہ اور پاک ہیں. یہ سب مرزا کی اپنی دماغی اختراع ہے. مرزا غلام احمد کو جب ان کی بات کی خبر پہنچی تو اس نے جواب میں لکھا کہ
”اس طرح ان لوگوں کے منصوبوں کے برخلاف خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ میں اسی۸۰ برس یا دو تین برس کم یا زیادہ تیری عمر کروں گا تا لوگ کمی عمر سے کاذب ہونے کا نتیجہ نہ نکال سکیں “ (روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 44)
قبل اس کے ہم مرزا صاحب کی عمر پر کچھ بحث کریں. قارئین اس پر غور کریں کہ کیا یہ بات خدا کی ہو سکتی ہے؟ ایک ایسی وحی جس کے بھیجنے والے کو بھی پتہ نہیں کہ وحی پانے والے شخص کی عمر آخر کتنی ہوگی؟ اسی برس، دوچار کم یا دوچار زیادہ. کیا خدا کو معلوم نہیں تھا کہ مرزا غلام احمد کس تاریخ کو کس دن کتنے بجے کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ پر مرے گا؟ اگر اسے معلوم تھا کہ مرزا غلام احمد 26 مئی 1908ء کو صبح ساڑھے دس بجے آنجہانی ہو گا تو اس نے تاریخ وفات کیوں نہ بتائی. یہ دو چار کم یا دو چار زیادہ کا بار بار مذاق کس لئے کیا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد کو یہ وحی اس نے بھیجی ہے جسے خود بھی معلوم نہیں کہ مرزا صاحب کے پاس موت کا فرشتہ کب آنے والا ہے. مگر افسوس کہ مرزا صاحب اپنی عمر کی بحث کو خواہ مخواہ سچ اور جھوٹ کا معیار بنانے لگ گئے اور یوں اپنے ہاتھوں اپنی رسوائی کا سامان تیار کر لیا. مرزا غلام احمد نے اسی برس یا اس سے کم زیادہ عمر پانے کی پیشگوئی کی تھی. اب اس کی تشریح بھی اسی سے سنئے. اس نے لکھا کہ
” جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر74اور چھیاسی86 کے اندر اندر عمر کی تعین کرتے ہیں. “ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 259)
یعنی اگر مرزا صاحب 74اور 86 سال کے اندر مر گئے تو بات قابل فہم ہوگی اور اس کی پیشگوئی پوری سمجھی جائے گی اور اگر اس سے پہلے وہ آنجہانی ہو جائیں تو یہ اس کے جھوٹا ہونے پر ایک اور مہر ثابت ہوگی. صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ کسی شخص کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کی تاریخ ولادت اور سال وفات دیکھ لینا چاہئے. اس کے لئے کسی لمبے چوڑے علم کی ضرورت نہیں ہے.
مسلمانوں اور قادیانیوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مرزا غلام احمد مورخہ 26 مئی 1908ء کو آنجہانی ہوئے ہیں. اب صرف یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ مرزا صاحب کس سال پید ہوئے تھے؟ بجائے اس کے کہ ہم کچھ کہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی تحریرات سے اس کا فیصلہ کر لیں. مرزا غلام احمد اپنے حالات میں لکھتا ہے
”میری پیدائش 1839ء یا 1840ءمیں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا. اور ابھی ریش و بردت کا آغاز نہیں تھا. “ (روحانی خزائن جلد ۱۳- کِتابُ البَریَّۃ: صفحہ 177)
یہ مرزا غلام احمد کی اپنی تحریر ہے. اس میں کہیں بھی کوئی پیچیدگی نہیں اور نہ تقریباً وغیرہ کے الفاظ ہیں نہ یہ لکھا ہے کہ یہ بات تخمینی ہے. صاف اور صریح لفظوں میں سال ولادت 1839ء یا 1840ء لکھا ہوا ہے.
مرزا غلام احمد نے اس بات کی تائید اس سے بھی کی ہے کہ جب اس کے والد مرزا غلام مرتضیٰ فوت ہوئے تو اس کی عمر 34، 35 برس کی تھی. اس نے کہا
”میری عمر قریباً چونتیس34 یا پینتیس35 برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا. “ (روحانی خزائن جلد ۱۳- کِتابُ البَریَّۃ: صفحہ 192)
مرزا غلام مرتضیٰ کا انتقال 1874ء میں ہوا. اس کا اقرار مرزا غلام احمد نے اپنی کتاب نزول المسیح صفحہ 116، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ494پر کیا ہے. اس سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی ولادت 1839ء یا 1840ء میں ہی ہوئی تھی. پھر مرزا غلام احمد نے ایک اور عنوان سے بھی اپنے سال ولادت کی خبر دی ہے. مرزا غلام احمد کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے.
” حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ جب سلطان احمد پیدا ہوا اس وقت ہماری عمر صرف سولہ سال کی تھی“ (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد 1 صفحہ 255 روایت نمبر 283)
یہ بات صرف مرزا بشیر احمد ہی نہیں کہتے بلکہ قادیانیوں کے سب سے محتاط شخص اور مرزا صاحب کے قریبی دوست مولوی شیر علی بھی کہتے ہیں. مرزا بشیر احمد کا بیان ہے کہ اس کا بھائی یعنی سلطان احمد 1856ء میں پیدا ہوا. (سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد 1 صفحہ 443 روایت نمبر 470*) اس حساب سے مرزا غلام احمد 1840ء میں پیدا ہوا تھا.
مرزا غلام احمد کا سال ولادت 1839ء یا 1840ء تھا اور سال وفات 1908ء. اب آپ حساب کر لیں کہ مرزا غلام احمد نے کل کتنی عمر پائی تھی؟ اگر سال ولادت 1839ء تسلیم کیا جائے تو کل عمر 69سال بنتی ہے اور 1840ء مان لی جائے تو کل عمر 68سال کی ہوئی ہے.
اب مرزا غلام احمد پر ہوئی وحی اور بشارت نیز خدائی وعدہ کو پھر ایک مرتبہ پڑھ لیجئے.
’’تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا یہ کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم.‘‘
اگر چوہتر سال مانیں تو پانچ سال کم اور اسی سال مانیں تو پورے گیارہ سال کم اور چھیاسی سال مانیں تو پورے سترہ سال کم ہیں. اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ مرزا غلام احمد کی یہ الہامی پیشگوئی درست ہوئی یا یہ بھی دیگر پیشگوئیوں کی طرح جھوٹی ثابت ہوئی.26 مئی 1908ء کو مرزا غلام احمد کی وفات پر قادیانیوں کو توبہ کر کے مسلمانوں کی صف میں شامل ہو جانا چاہئے تھا کہ مرزا غلام احمد کا کذاب ہونا سب پر کھل چکا تھا. مگر افسوس کہ انہوں نے دجل و فریب کا راستہ اختیار کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کے سال ولادت میں تبدیلیاں کرنی شروع کر دیں. جہاں جہاں مرزا غلام احمد نے اپنا سال ولادت لکھا اس کی تاویل کی. جہاں سے صحیح بات معلوم ہوتی تھی اس میں دجل کی راہ چلائی. جو لوگ خود اپنے ہاتھوں مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اس کا سال ولادت 1839ء بتاتے رہے بعد میں وہی لوگ اپنی تحریر بدلتے رہے. انہیں یہ تبدیلی کی ضرورت محض اس لئے پیش آئی کہ کسی نہ کسی طرح مرزا غلام احمد کا سال ولادت وہ بتایا جائے جس سے مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہو جائے. کیا یہ کھلا دجل نہیں؟ اور کیا یہ قادیانی عوام سے سچی بات کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش نہیں؟
بعض قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نے اپنا سال ولادت اس وقت بتایا جب وہ مراحل نبوت طے کر رہا تھا. ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ بات پہلی زندگی کی ہو. جو ہمارے لئے حجت نہیں. ہاں 1901ء اور اس کے بعد کی کوئی تحریر ہو تو قابل غور ہو سکتی ہے؟
جواباً گزارش ہے کہ مرزا غلام احمد کی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ ۱۹۰۲ء کی تصنیف ہے. مرزا غلام احمد نے اپنی عمر کے بارے میں جو پیشگوئیاں کی تھیں. اس میں الہام وحی بشارت اور وعدہ کے الفاظ موجود ہیں. اگر قادیانیوں کو اس سے بھی تسلی نہ ہو تو ہم مرزا غلام احمد کا وہ بیان بھی پیش کئے دیتے ہیں جو اس نے 16 مئی 1901ء کو گورداسپور کی عدالت میں مرزا نظام الدین کے مقدمہ میں بطور گواہ کے دیا تھا. اس نے بھری عدالت میں کہا
’’اﷲ تعالیٰ حاضر ہے. میں سچ کہوں گا. میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہے.‘‘ (قادیانی اخبار الحکم جلد5 نمبر29، منظور الٰہی صفحہ241، مرتبہ منظور الٰہی قادیانی، منقول از قادیانی مذہب صفحہ 387)
مرزا غلام احمد کی وفات 1908ء ہے. اگر 1901ء میں مرزا قادیانی ساٹھ سال کے تھے تو 1908ء میں کتنے سال کے ہوئے. اتنی بات سے تو مرزا طاہر بے خبر نہ ہوں گے.
قادیانی علماء اور خلفاء نے مرزا غلام احمد کی اس پیشگوئی میں تحریف و تاویل کے بڑے عجیب کرتب دکھائے ہیں. جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کے سب اس پیشگوئی سے بہت پریشان ہیں اور یہ لوگ اسے جس قدر 80سال والی پیشگوئی کے قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں. یہ مسئلہ ان کے لئے اتنا ہی زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے اور ان سے بات بنائے نہیں بنتی.... اور مرزا غلام احمد کا کذاب ہونا اور روشن ہو جاتا ہے.
1907ء میں ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے ایک بحث میں کہا تھا کہ مرزا غلام احمد مورخہ 4اگست 1908ء کو مر جائے گا. اس کا اعتراف مرزا غلام احمد نے اپنی کتاب چشمہ معرفت میں کیا ہے. دیکھئے (روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 337)
مرزا صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ ایسا ہرگز نہ ہو گا بلکہ اس کی عمر بڑھے گی اور یہ بات اسے خدا نے کہی ہے. مرزا صاحب نے 5 نومبر 1907ء کو ایک اشتہار شائع کیا کہ اسے خدا نے بذریعہ وحی بتایا ہے کہ
”ا پنے دشمن سے کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا. اور پھر آخر میں اردو میں فرمایا کہ میں تیری عمر کو بڑھا دوں گا. یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی 1907ء میں چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں. ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھا دوں گا. تا معلوم ہو کہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے. “ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 591)
مرزا غلام احمد کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ اس کی عمر 95سال تک ہو جائے گی اور خدا کے ایک مقرب نے اس پر آمین تک کہہ دی ہے. اس نے بتایا کہ وہ ایک قبر پر ہے اور صاحب قبر اس کے سامنے بیٹھا ہے. مرزا صاحب کو خیال آیا کہ اس مقرب سے ضروری ضروری دعائیں کرا کر اس پر آمین کہلوا دی جائے تاکہ بات پکی ہو جائے. پھر اس نے دعائیں شروع کر دیں اور وہ آمین کہتا جاتا تھا. اب آگے پڑھئے
”اتنے میں خیال آیا کہ یہ دعا بھی مانگ لوں کہ میری عمر 95سال ہو جاوے. مَیں نے دعا کی اُس نے آمین نہ کہی. مَیں نے وجہ پوچھی وہ خاموش ہو رہا. پھر مَیں نے اُس سے سخت تکرار اور اصرار شروع کیا یہاں تک کہ اس سے ہاتھ پائی کرتا تھا. بہت عرصہ کے بعد اُس نے کہا اچھا دعا کرو مَیں آمین کہوں گا. چنانچہ مَیں نے دعا کی کہ الٰہی میری عمر 95 برس کی ہو جاوے. اس نے آمین کہی “ (البدر جلد 2 نمبر47 مورخہ 16 دسمبر 1903ء صفحہ374 ، تذکرہ 414)
افسوس کہ مرزا صاحب کی عمر 95سال نہ ہوئی ورنہ اس مقرب کے ساتھ ساتھ اس کے بھی وارے نیارے ہو جاتے. سو مرزا طاہر بتائیں کہ مرزا غلام احمد جولائی 1907ء سے چودہ مہینہ کے اندر مر گئے یا نہیں؟ اور اشتہار شائع کرنے کے سات ماہ بعد آنجہانی ہوئے یا نہیں؟ خدا نے اس کے دشمنوں کی بات پوری کی. اس کی عمر نہیں بڑھائی. اسے جھوٹا کیا. قادیانی عوام اگر ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر مرزا غلام احمد کا مذکورہ بیان دیکھیں تو انہیں مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹا ہونے میں ذرا بھی شک نہیں رہے گا. مرزا قادیانی نے اپنی اسی سال اور اس کے قریب والی پیشگوئی کو نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کن بات بھی لکھی ہے
”اب جس قدر میں نے بطور نمونہ کے پیشگوئیاں بیان کی ہیں درحقیقت میرے صدق یا کذب کے آزمانے کے لئے یہی کافی ہے “ (روحانی خزائن جلد ۳- ازالہ اوھام: صفحہ 443)
مرزا غلام احمد کی اس تصریح کی رو سے دیکھیں تو کسی شخص کو یہ فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوگی کہ مرزا غلام احمد کی یہ پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ اپنی ہی تحریر کی رو سے جھوٹا ثابت ہوا. اب بھی اگر کوئی اسے جھوٹا نہ مانے تو ہم کیا کرسکتے ہیں.
خلاصہ بحث یہ کہ الہامی دعویٰ اور خدائی وحی اور بشارتوں کی روشنی میں مرزا صاحب کی عمر کم از کم 74سال اور زیادہ سے زیادہ 86سال ہونی چاہئے تھی. مگر مرزا صاحب1908ء کو بعمر 68یا69سال آنجہانی ہو گئے. اس لئے وہ سب پیشگوئیاں جو مرزا صاحب نے اپنی عمر کے بارے خدا کے نام سے کی تھیں سب جھوٹی نکلیں اور مرزا صاحب کا کذاب ہونا کسی دلیل کا محتاج نہ رہا.
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------
*پرانے ایڈیشن میں یہ روایت جلد دوم صفحہ 150 روایت نمبر 467 ہے.