• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی پسر موعود کی پیشگوئی

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا قادیانی کی پسر موعود کی پیشگوئی

مرزا کیلئے رحمت کا نشان جو مرزا کو بے نشان کر گیا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرزا غلام احمد قادیانی کی معروف پیشگوئیوں میں ایک پیشگوئی وہ ہے جسے خود اس نے رحمت کا نشان اور خدا کی قدرت کا عنوان قرار دیا تھا. اس پیشگوئی کے اعلان کے بعد موافقین اور مخالفین سب کے سب اس پیشگوئی کی تکمیل یا اسکی تردید کے انتظار میں لگے ہوئے تھے. بعض قادیانیوں نے مرزا غلام احمد کی اس پیشگوئی کو دور دور تک پہنچا دیا تھا اور اسکو مرزا غلام احمد کے صدق اور کذب کا عنوان بنا دیا تھا. یہ پیشگوئی مرزا غلام احمد نے اپنے گھر پیدا ہونے والے نئے بچے کے بارے میں کی تھی.

مرزا غلام احمد کی بیگم نصرت جہاں ان دنوں حمل سے تھی. مرزا غلام احمد نے 20 فروری 1886ء کو یہ اشتہار شائع کیا
”پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالی و اعلامہ عزو جل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا. ... سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے....سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا، ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا، وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا. خوبصورت پاک لڑکا تمھارا مہمان آتا ہے اس کا نام عمانوایل اور بشیر بھی ہے، اُس کو مقدس رُوح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے... . وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا. وہ کلمۃ اللہ ..... جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا.... زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی “ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 100-102)

مرزا غلام احمد سے پوچھا گیا کہ یہ رحمتوں اور نشان والا لڑکا کب پیدا ہو گا؟ مرزا صاحب نے 22 مارچ 1886ء کو ایک اشتہار واجب الاظہار کے نام سے لکھا، اس میں لکھا
”ہم جانتے ہیں کہایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا “ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 113)
مرزا غلام احمد کے مذکورہ جواب پر اسکے اپنے بھی حیران تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ آخر مرزا غلام احمد کو صاف صاف بات کرنے کی جرات کیوں نہیں ہو رہی ہے. مرزا صاحب کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو فوراً مراقب ہو گئے اور پھر انہوں نے اشتہار صداقت آثار کے نام سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا
”خاکسار کے 22 مارچ 1886ء پر بعض صاحبوں نے...یہ نکتہ چینی کہ ہے کہ نو برس کی حد پسر موعود کے لئے بیان کی گئی ہے، یہ بڑی گنجائش کی جگہ ہے. ایسی لمبی میعاد میں تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہو سکتا ہے..تو اس کے جواب میں یہ واضح ہو کہ...بعد اشتہار مندرجہ بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الہٰی میں توجہ کی گئی تو آج آٹھ8 اپریل 1886ء میں اللہ جلشانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کُھل گیا ہے، ایک لڑکا بہت قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا. اس سے ظاہر ہے کہ ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اسکے قریب حمل میں. لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ انھوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں“ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 117)
مرزا غلام احمد کے اس اشتہار سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب نے یہ پیشگوئی حاملہ بیوی سے ہونے والے بچے کے بارے میں کی تھی. مرزا غلام احمد کے ان الفاظ پر غور کریں

” ایک لڑکا بہت قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا “
کیا یہ الفاظ نہیں بتاتے کہ مرزا غلام احمد کی اس پیشگوئی سے کیا مراد ہے؟ جوں جوں دن نزدیک آ رہے تھے قادیانی عوام کی خوشی میں اضافہ ہو رہا تھا اور وہ اس خیال میں مگن تھے کہ اب پریشانیاں ختم ہونگی اور رحمتوں کے دن آئیں گے. مگر ہوا کیا؟ مئی 1886ء میں مرزا غلام احمد کی بیوی نے بچہ جنا. گھر سے مبارک مبارک کی آواز آنے لگی. مرزا غلام احمد کی باچھیں خوشی کے مارے کھل پڑیں. قریب تھا کہ وہ پسر موعود کے تولد کا اعلان کرتا کہ گھر سے آواز آئی کہلڑکی ہوئی ہے، بچی مبارک ہو. جونہی یہ آواز مرزا غلام احمد کے کان سے ٹکرائی ساری خوشی غم سے بدل گئی اور لینے کے دینے پڑ گئے. مرزا صاحب کا اس وقت کا حال کچھ اس سے مختلف نہیں تھا جو حال قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا بیان کیا ہے کہ انکا منہ سیاہ ہو جاتا تھا. اللہ تعالی کا فرمان ہے جب ان کے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے
وإذا بشر أحدهم بالأنثى ظل وجهه مسودّا وهو كظيمoيتوارى من القوم من سوء ما بشر به أيمسكه على هون أم يدسه في التراب ألا ساء ما يحكمون (النحل58-59)
ترجمہ: ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے.اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے. سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں.

جب یہ خبر عام ہوئی کہ مرزا صاحب کے ہاں لڑکی ہوئی ہے، سب مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کے غلط ہونے کا اقرار کرتے اور کہتے کہ اس سے زیادہ جھوٹا اور کون ہو گا جو خدا کے نام پر اس قسم کی جھوٹی باتیں گھڑتا ہے. مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کے جھوٹے ہونے پر ایک آدمی کا کیا تاثر تھا اسے دیکھئے. ریلوے لاہور کے دفتر ایگزامیز کے ایک ملازم نے 13 جون 1886ء کو مرزا غلام احمد کو خط لکھا کہ
”تمہاری پیشگوئی جھوٹی نکلی اور دختر پیدا ہوئی اور تم حقیقت میں بڑے فریبی اور مکار اور دروغ گو آدمی ہو” (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 131)

مرزا غلام احمد نے اس کا جواب یکم ستمبر 1886ء کو دیا کہ
”بھلا اس بزرگ سے کوئی پوچھے کہ وہ فقرہ یا لفظ کہاں ہے جو کسی اشتہار میں اس عاجز کے قلم سے نکلا ہے جسکا مطلب ہے کہ لڑکا اسی حمل میں پیدا ہو گا اس سے ہرگز تخلف نہیں کرے گا“ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 131)

مرزا غلام احمد نے پیشگوئی کے الفاظ (ایک لڑکا بہت...الخ) کی یہ تاویل کی کہ یہ فقرہ ذو الوجود ہے اسلئے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ بات اسی حمل سے متعلق تھی. اب جو لوگ اس سے یہ معنی لیتے ہیں وہ بے ایمان اور بد دیانت ہیں. (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 125)

اب آپ ہی اندازہ کریں کہ مرزا غلام احمد کس طرح الفاظ سے کھیلتا تھا. اگر لڑکا پیدا ہو جاتا تو یہی الفاظ قطعی اور یقینی تھے اور ساری رحمت و برکت کا یہ نشان سمجھا جاتا، مگر چونکہ لڑکی پیدا ہوئی اسلئے اب جو لوگ اس فقرے سے یہ ہی پیدائش مراد لیتے وہ بے ایمان اور بد دیانت ہو گئے.
مرزا غلام احمد نے اپنے الہام کو تاویل کے پردے میں چھپایا اور قادیان کے نادان مرزا غلام احمد کی اس تاویل کو خدائی سمجھ کر چپ ہو گئے. اور مرزا غلام احمد کی بیوی کے پھر حاملہ ہونے کے منتظر ہوئے. مرزا صاحب کی بیوی پھر سے حاملہ ہوئی اور قادیان کے نادان پھر خوشی کے دن کا انتظار کرنے لگ گئے. 7 اگست 1887ء کو مرزا غلام احمد کے ہاں لڑکے کی پیدائش ہوئی. اور پھر ایک مرتبہ مبارک مبارک کی صدائیں گونجنے لگی. مرزا غلام احمد کی خوشی اپنی انتہا کو پہنچ گئی کہ اسکی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے. مرزا غلام احمد نے اسی وقت ایک اشتہار لکھا اور اسے شائع کرکے قادیان کے گھروں میں پہنچایا. مرزا غلام احمد نے اس اشتہار کا نام خوشخبری رکھا. اس نے لکھا
”اے ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولّد کے لئے میں نے اشتہار 8 اپریل 1886ء میں پیشگوئی کی تھی اور خدا تعالی سے اطلاع پا کر اپنے کُھلے کُھلے بیان میں لکھا تھا کہ اگر وہ حمل موجودہ میں پیدا نہ ہوا تو دوسرے حمل میں جو اس کے قریب ہے ضرور پیدا ہو جائے گا. آج 16 ذیقعدہ 1304ھ مطابق 7 اگست 1887 میں 12 بجے رات کے بعد ڈیڑھ بجے کے قریب وہ مولود مسعود پیدا ہو گیا. فالحمدللہ علیٰ ذلک“ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 141)

مرزا غلام احمد نے اس اشتہار میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ خدا تعالی نے اسے جس بچے کی بشارت دی تھی اور جس کو رحمت کا نشان اور قدرت کا عنوان کہا گیا تھا، جس کے صاحب عظمت اور صاحب شکوہ ہونے کے قصیدے پڑھے گئے تھے، جس کے بارے میں زمین کے کناروں تک شہرت پانے اور اس سے قوموں کے برکتیں حاصل کرنے کے گن گائے گئے تھے وہ یہی فرزند ارجمند تھا جو 7 اگست 1887ء کو پیدا ہوا. اس لحاظ سے مرزا صاحب اپنی پیشگوئی کے پورا ہونے کے مدعی تھے. مرزا صاحب کے مخالفین اور پڑھے لکھے حضرات تو پہلے حمل کا نتیجہ دیکھ کر ہی اصل حقیقت جان گئے تھے لیکن قادیان کی نادان عوام مرزا غلام احمد کو ابھی تک اپنی پیشگوئی میں سچا جان رہے تھے اور اسی فرزند ارجمند کی کامیابی اور شان و شوکت کے خواب ابھی سے دیکھ رہے تھے. لیکن.....ہاں..... مرزا غلام احمد کا یہی فرزند ارجمند مرزا صاحب کو بے نشان کر گیااور ایک ایسی مصیبت میں ڈال گیا کہ اسکے ازالہ کی اب کوئی صورت بھی باقی نہیں رہی. مرزا صاحب کا یہ بیٹا 4 نومبر 1888ء کو سولہ مہینے کی عمر پا کر فوت ہو گیا اور وہ ساری رحمتیں اور برکتیں جو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا واپس اپنے ساتھ لے گیا اور مرزا صاحب سب کے سامنے رسوا ہوئے. اس دن مرزا غلام احمد کی کیا کیفیت تھی اس دیکھئے.
اس نے اپنے معتمد خصوصی حکیم نور الدین کو لکھا

”میرا لڑکا بشیر احمد تئیس روز بیمار رہ کر آج بقضائے رب عزوجل انتقال کر گیا. انا للہ و انا الیہ راجعون. اس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہونگی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوں گے اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا” (مکتوبات احمدیہ جلد 2 صفحہ 71 مکتوب نمبر 48، سابقہ ایڈیشن جلد 5 حصہ 2 صفحہ 147-148 مکتوب نمبر 46)

اب آپ ہی بتائیں کیا مرزا غلام احمد کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی؟ اگر پہلے حمل میں لڑکے کی ولادت ہوتی تو پیشگوئی وہاں چسپاں کر دی جاتی. لڑکی کی پیدائش نے مرزا صاحب کا معاملہ بگاڑ دیا. 1887ء میں ہونے ولا بیٹا اگر زندہ رہتا اور عمر پاتا تو ساری پیشگوئی کا مصداق وہ بن جاتا مگر افسوس کہ وہ سولہ مہینے کے بعد فوت ہو گیا. جو قادیانی یہ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد کی پیشگوئی کا مصداق یہ لڑکا نہ تھا وہ جھوٹ کہتے ہیں. ہم بتا چکے ہیں کہ مرزا غلام احمد نے اسکی پیدائش پر خوشخبری کے نام سے ایک اشتہار شائع کیا اور اسے ہی اپنی پیشگوئی کا مصداق بتایا تھا. اور اسکے انتقال پر موافقین پر پڑنے والے اثرات بھی اسی سے متعلق کئے تھے. حکیم نور الدین نے مرزا غلام احمد کے اس خط کا جواب دیا اسے دیکھیں اس میں بھی ہماری بات کی تائید موجود ہے. مرزا بشیر الدین محمود کہتا ہے
”مولوی (حکیم نور الدین-مصنف) صاحب نے لکھا کہ اگر اس وقت میرا اپنا بیٹا مر جاتا تو میں کچھ پرواہ نہ کرتا مگر بشیر اول فوت نہ ہوتا اور لوگ اس ابتلاء سے بچ رہتے....میاں محمد خان نے لکھا کہ اگر میرا ہزار بیٹا ہو ہوتا اور وہ میرے سامنے قتل کر دیا جاتا تو مجھے اسکا افسوس نہ ہوتا ہاں بشیر کی وفات سے لوگوں کو ابتلاء نہ آتا“ (الفضل قادیان 30 اگست 1920ء، مکتوبات احمدیہ جلد 2 صفحہ 72,74)

مرزا غلام احمد کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد ایم اے نے تسلیم کیا کہ اس واقعہ سے مرزا غلام احمد بہت بدنام ہوا اور کئی لوگ اسے چھوڑ گئے. اس نے لکھا کہ
”اس واقعہ پر ملک میں ایک سخت شور اُٹھا اور کئی خوش اعتقادوں کو ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر نہ سنبھل سکے...حضرت صاحب نے لوگوں کو سنبھالنے کے لئے اشتہاروں اور خطوط کی پھر مار کر دی اور لوگوں کو سمجھایا کہ میں نے کبھی یہ یقین ظاہر نہیں کیا تھا کہ یہی وہ لڑکا ہے...میرا یہ خیال تھا کہ شاید یہی وہ موعود لڑکا ہو“ (سیرت المہدی جلد 1 حصہ اول صفحہ 95 روایت نمبر 116)

مرزا غلام احمد کا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ اس نے یقینی طور پر یہ بات نہیں کہی تھی. اسکے اشتہارات پر ایک مرتبہ نظر ڈالئے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کا مصداق یہی لڑکا تھا. اب مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ میری مراد یہ نہیں تھا، مخص اسلئے تھا انکے مرید ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے تھے اور چندوں میں ڈھرا ڈھر کمی آ رہی تھی. مرزا صاحب نہیں چاہتے تھے کہ چندوں کا سلسلہ رک جائے. چنانچہ انہوں نے جھوٹ پر جھوٹ بولنے سے دریغ نہ کیا. حالانکہ خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ

” یہ تمام عبارتیں پسر متوفی کے حق میں ہیں “ (مکتوبات احمدیہ جلد 2 صفحہ75 مکتوب 49، روحانی خزائن جلد ۲- سبز اشتہار: صفحہ 467)

پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر مرزا صاحب کے نزدیک یہ لڑکا مراد نہ تھا تو پھر وہ سولہ مہینہ تک اسکا چرچا کیوں کرتے رہے؟ مرزا صاحب کو انکے خدا نے بھی نہیں بتایا کہ یہ لڑکا سولہ مہینہ میں فوت ہو جائے گا٭اسلئے یہ اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ہے. اگر مرزا صاحب کو خدا کا یہ پیغام مل جاتا تو انہیں ذلت کے یہ دن دیکھنے نہ پڑتے اور چندے کی آمدنی میں فرق نہ آتا.

لطیفہ

پسر موعود کی پیشگوئی کے سلسلے میں یہ لطیفہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مرزا صاحب نے اپنی پیشگوئی میں یہ بھی لکھا تھا کہ
”وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ“ (تذکرہ صفحہ 110 نیا ایڈیشن)

اس پیشگوئی کے تیرہ برس بعد 14 جون 1899ء کو مرزا صاحب کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا. مرزا غلام احمد نے اب اس بچے کو اپنی پیشگوئی کا مصداق قرار دے دیا. مرزا صاحب لکھتے ہیں
” میرا چوتھا لڑکا جس کا نام مبارک احمد ہے اس کی نسبت پیشگوئی اشتہار 20 فروری 1886ء میں کی گئی... سو خدا تعالیٰ نے میری تصدیق کے لئے اور تمام مخالفوں کی تکذیب کے لئے ... اِس پسر چہارم کی پیشگوئی کو 14 جون 1899ء میں جو مطابق 4 صفر 1417ھ تھی بروز چار شنبہ پورا کر دیا“ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 221)

قادیانی جماعت لاہور کے مناظر اختر حسین گیلانی بھی اسکی تصدیق کرتے ہیں
”آپ (مرزا صاحب-مصنف) کے نزدیک وہ بچہ جسے آپ 20 فروری 1886ء کے اشتہار کا مصداق سمجھتے تھے مبارک ہی تھا“ (مباحثہ راولپنڈی صفحہ13)
کیا یہ غلط بیانی اور جھوٹ کی انتہا نہیں.

(1) پہلے کہا کہ مدت قریب میں ہو گا، جو نہ ہوا، اسکے بجائے لڑکی ہوئی.
(2) پھر کہا کہ نو برس تک ضرور ہو گا. اب پورے تیرہ برس ہو رہے ہیں. مرزا صاحب کے نزدیک جس طرح پانچ اور پچاس میں کوئی فرق نہیں اسی طرح شاید نو اور تیرہ میں بھی کوئی فرق نہیں.
(3) پھر جب لڑکے کی ولادت ہوئی تو کہا کہ یہی مراد ہے مگر وہ بھی سولہ ماہ میں فوت ہو گیا. مگر پھر بھی جھوٹ سے باز نہیں آئے.
(4) پیشگوئی میں درج تھا کہ دو شنبہ مبارک. مگر یہ صاحبزادہ چہار شنبہ کو پیدا ہوا. پھر جب مرزا صاحب کو دو شنبہ کا لفظ یاد آیا تو انہوں نے اسکا عقیقہ دو شنبہ کے دن کر دیا اور کہا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی
”لڑکے کا عقیقہ پیر کے د ن ہوا. تا وہ پیشگوئی پوری ہو ... جس کے یہ لفظ تھے کہ دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ “ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 146)
اب یہ بات قادیانیوں کے سوچنے کی ہے کہ نو برس کے بجائے تیرہ برس اور دو شنبہ کے بجائے چہار شنبہ کے دن پیدا ہونے والا بچہ کس طرح پیشگوئی کا مصداق بن گیا؟
پھر ایک اور لطیفہ بھی ملاحظہ کریں. مرزا صاحب اپنے اس حیرت انگیز بچے کے بارے میں لکھتے ہیں
اس لڑکے نے”پیدائش سے پہلے یکم جنوری 1897ء میں بطور الہام یہ کلام مجھ سے کیا اور مخاطب بھائی تھے کہ مجھ میں اور تم میں ایک دن کی میعاد ہے...اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں ہی باتیں کیں مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں. اور پھر بعد اس کے 14 جون 1899ء کو وہ پیدا ہوا “ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 217)

قادیانیوں میں اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی موجود ہے تو وہ ہمیں صرف یہ بتائے کہ کیا مبارک احمد اپنی ولادت سے دو سال اور ساڑھے چار مہینے پہلی اپنی ماں کے پیٹ میں تھا؟ اگر وہ اس وقت اپنی ماں کے پیٹ میں نہیں تھا تو اس نے اتنا عرصہ قبل اپنی ماں کے پیٹ سے دو مرتبہ کیسے باتیں کر لیں؟ دو سال اور ساڑھے پانچ ماہ ماں کے پیٹ میں رہنا اور وہاں سے دو مرتبہ باتیں کرنا واقعی ایک لطیفہ سے کم نہیں ہے. یہ تو مانا کہ کہنے والا دیوانہ ہے مگر سننے والے اس قدر دیوانے کو خدا کا نبی مانیں گے یہ آپ خود دیکھ لیں. پھر اس پر مرزا غلام احمد کا یہ کہنا کہ جو شخص میری کتابوں کی تصدیق نہ کرے وہ حرامزادہ ہے، کیا کھلی گالی نہیں؟
مرزا غلام احمد کی یہ بات کسی درجے میں بھی قابل تسلیم ہوتی اگر یہ لڑکا (مبارک احمد) بھی صاحب جلال و صاحب شکوہ ہوتا اور قومیں اس سے برکت حاصل کرنے کیلئے دوڑی دوڑی آتیں. مرزا غلام احمد کا اسی یقین پر تھا کہ یہ لڑکا بڑی عمر پائے گا اسی یقین کا نتیجہ تھا مرزا صاحب نے مبارک احمد کا رشتہ بچپن میں ہی ڈاکٹر عبد الستار شاہ قادیانی کی بچی مریم کے ساتھ طے کر دیا تھا٭٭(قادیانی اخبار بدر صفحہ 4 جلد 6 نمبر 36-5 ستمبر 1907ء) افسوس کے مرزا صاحب کا یہ لڑکا بھی انکی رسوائی کا باعث بنا. رحمت کا نشان نہ بن سکا.

مبارک احمد جب آٹھ سال کی عمر کو پہنچا تو اسے سخت بخار ہوا، بچے کی بیماری دن بدن بڑھتی گئی. بچے کی اس حالت پر مرزا صاحب کو وحی آئی کہ فکر نہ کریں بچے کو صحت و شفاء مل جائے گی یہ خدا کا پیام ہے. مرزا غلام احمد نے اپنی اس وحی کو اخبار بدر قادیان کی 29 اگست 1907ء کی اشاعت میں شائع کیا. آپ بھی ملاحظہ کریں
”27اگست 1907ءصاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب جو سخت تپ سے بیمار ہیں اور بعض دفعہ بیہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ابھی تک بیمار ہیں ‘ اُن کی نسبت آج الہام ہوا ''قبول ہو گئی. نو دن کا بخار ٹوٹ گیا'' یعنی یہ دعا قبول ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب موصوف کو شفا دے . یہ پختہ طور پر یاد نہیں رہا کہ کِس دن بخار شروع ہوا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میاں(مبارک-مصنف) کی صحت کی بشارت دی “ (تذکرہ صفحہ 616 نیا ایڈیشن)

مرزا صاحب کے خدا نے مرزا صاحب کو بچے کی صحت کی بشارت دے دی تھی اور کیوں نہ دیتا، یہی بچہ تو مرزا صاحب کے بقول انکی پیشگوئی کا مصداق تھا اور اسی کے ہاتھوں مرزا صاحب کی 20 سال پہلے والی پیشگوئی پوری ہونی تھی. لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مبارک احمد صحت پانے کے بجائے موت کے قریب ہو رہا تھا. مرزا بشیر الدین محمود اپنے کم سن بھائی کے آخری لمحات کے بیان میں کہتا ہے
”جب مبارک احمد فوت ہوا تو دوائی وغیرہ میں ہی پلایا کرتا تھا، میں نے دیکھا کہ آخری وقت میں حضرت مولوی(حکیم نور الدین) صاحب جو بڑے حوصلہ اور قوی دل کے انسان تھے....وہ بھی گھبرا گئے. انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا تو چھوٹ چکی تھی. انہوں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا حضوری کستوری لائیے. حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) چابی لے کر قفل کھول ہی رہے تھے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا. یہ دیکھ کر حضرت مولوی صاحب یکدم گر گئے. میں نے دیکھا وہ سخت گھبراہٹ میں تھے“ (الفضل قادیان جلد 20 نمبر 47- 18 اکتوبر 1932ء)

مرزا غلام احمد نے جس کی صحت کی بشارت دی تھی وہ اب وفات پا چکا تھا اور انکی ہر ہر پیشگوئی غلط اور جھوٹی ثابت ہو رہی تھی. مگر پھر بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس قسم کی جھوٹی باتوں سے توبہ کر لے. مرزا صاحب کی پسر موعود کی پیشگوئی کی بار بار ناکامی کو خود جماعت کے اچھے خاصے طبقے نے محسوس کیا. قادیانیوں کی لاہوری جماعت کے آرگن نے مرزا صاحب کی اس پیشگوئی پر جو تبصرہ کیا ہے ہم اسے الفضل ما شھدت بہ اعدائھم کے طور پر نقل کرتے ہیں
”حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) نے مصلح موعود کی پیشگوئی کو پہلے بشیر اول پر لگایا مگر واقعات نے اس کو غلط ثابت کر دیا کیونکہ وہ بچہ فوت ہو گیا. پھر حضور نے اس پیشگوئی کو مبارک احمد پر لگایا اور بار بار مختلف کتابوں میں آپ نے اسکو صریح لفظوں میں لکھ کر شائع فرمایا مگر واقعات نے اسکو بھی غلط ثابت کر دیا کیونکہ وہ بھی فوت ہو گیا“ (اخبار پیغام صلح جلد 24 نمبر56 مورخہ 1936ء)

مرزا غلام احمد کو پھر بھی شرم نہ آئی ،اسکی بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ مرزا صاحب نے پھر اعلان کیا کہ اسے خدا نے پھر ایک بچہ کی بشارت دی ہے۔ مرزا صاحب 5 نومبر 1907ء کو اپنی یہ وحی شائع کی
”خدا کی قدرتوں پر قربان جاؤں کہ جب مبارک احمد فوت ہوا ساتھ ہی خدا تعالی نے یہ الہام کیا انا نبشرک بغلام حلیم ینزل منزل المبارک یعنی ایک حلیم لڑکے کی ہم تجھے خوشخبری دیتے ہیں جو بمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا اور اس کا قائم مقام اور اس کا شبیہ ہو گا۔ پس خدا نے نہ چاہا کہ دشمن خوش ہو اس لئے اس نے بہ مجرد وفات مبارک احمد کے ایک دوسرے لڑکے کی بشارت دے دی تاکہ سمجھا جائے کہ مبارک احمد فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے “ (مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 587)

مرزا صاحب پر وحی آئی جس کا حاصل یہ ہے کہ خدا تمہیں ایک لڑکا دے گا تاکہ تمہارے دشمن خوش نہ ہو سکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مرزا صاحب کے ہاں اسکے بعد کوئی لڑکا ہوا؟ نہیں۔ قادیانی جماعت لاہور کے مناظر اختر حسین گیلانی کا اعتراف ملاحظہ ہو۔
موصوف لکھتے ہیں
”یہ بیٹا حضرت کی وفات تک پیدا نہ ہو“ (مباحثہ راولپنڈی صفحہ 34)

لڑکا کی ہوتا خود مرزا صاحب ہی 26 مئی 1908 کو مر گئے اور اس طرح قادیانیوں کی پیشانی پر ایک اور ذلت کا داغ لگا۔

سو مرزا غلام احمد کے پسر موعود کی یہ پیشگوئی جس میں اس نے رحمت کا نشان پانے کا اعلان کیا تھا اسکی قسمت میں رحمت کے بجائے سامانِ لعنت بن گئی۔ مرزا صاحب نے اپنے اس ایک جھوٹ کو قائم رکھنے کیلئے اور کئی جھوٹ بولے جس کو انکے اپنے لوگوں نے بھی محسوس کیا اور اسکا ساتھ دینے سے معذرت کر لی۔ قادیانیوں کو چاہیئے کہ وہ مرزا غلام احمد کی ان پیشگوئیوں کو سامنے رکھیں تو مرزا غلام احمد کا جھوٹ ان پر کھل جائے گا۔ اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ وہ کس قدر جھوٹا تھا۔ یقین نہ آئے تو مرزا صاحب کو اپنے آئینے میں دیکھیں۔ خود اس نے یہ اعلان کیا ہے
” جو شخص تحدی کے طور پر ایسی پیشگوئی اپنے دعوے کی تائید میں شائع کرتا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو خدا کی غیرت کا ضرور یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ ابداً ایسی مرادوں سے اس کو محروم رکھے “ (روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 216)

مرزا غلام احمد جھوٹا تھا، خدا کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے مرزا صاحب کو اس کی ایک ایک بات میں جھوٹا کر دکھایا۔ کاش کہ قادیانی عوام اس سے عبرت حاصل کریں اور حق کی طرف لوٹ آئیں تو یہ اپنا ہی بھلا کریں گے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!


___________________________________


٭مرزا قادیانی کا یہ دعوی بھی پیش نظر رہے ” و إنّ اللہ لا یترکنی علی خطأ طرفۃ عین “ (روحانی خزائن جلد ۸- نور الحق: صفحہ 272)ترجمہ: وہ خدا مجھے ایک لمحے کیلئے بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا.
٭٭ نیز دیکھیں (سیرت المہدی جلد1 حصہ دوم صفحہ348 روایت نمبر 384)
 
Top