• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی پیشنگوئیاں حصہ اول

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر

مرزا غلام احمد قادیانی کے مخالفین میں عیسائیوں میں پادری آتھم ، مسلمانوں میں مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عورتوں میں مرحومہ محمدی بیگم ، اس کے اپنے ساتھیوں میں پٹیالہ کے ڈاکٹر عبدالحکیم ،اور ہندؤں میں پنڈت لیکھ رام خاص طور پر مرزا غلام احمد قادیانی کی پیشگویوں کا موضوع بنے ۔ مرزا غلام قادیانی لکھتا ہے :: در حقیقت میرا صدق یا کذب آزمانے کے لیے یہی کافی ہیں : ( ازالہ اوہام ج ۲ ص 31مرزا غلا م ۔۔قادیانی کی ایک پیشگوئی بھی جھوٹی نکلے تو یہ اس کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے ۔چناچہ مرزا غلام ۔۔ قادیانی خود لکھتا ہے :: اگر ثابت ہو کہ میری سو پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں ( اربعین حصہ ۴ ص 25 ۔ روحانی خزائن ج17 ص 461 )(۱ )

عبداللہ آتھم کی موت کی پیش گوئی

مرزا غلام۔۔قادیانی اور پادری عبداللہ آتھم کا تحریری مناظرہ امرتسر میں ۲۲ مئی 1893ء سے شروع ہو کر ۵جون 1893ء تک پندرہ دن رہا ۔اس میں حکیم نورالدین اور مولوی سید احسن ۔مرزا غلام ۔۔ قادیانی کے معاون تھے ۔ اس مناظرے کی روئداد جنگ مقدس کے نام سے شیخ نوراحمد ۔ مالک ریاض ہند پریس امرتسر نے شائع کی ۔ چناچہ مرزا غلام ۔۔قادیانی نے لکھا :آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جب مین نے بہت تضر ع ا ور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی ۔کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔ تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمدا جھو ٹ کو اختیار کر رہاہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لیکر یعنی پندرہ دن تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کوسخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹ نکلی ۔۔۔۔ تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں ۔ :۱ :مجھ کو ذلیل کیا جائے : ۲ : روسیاہ کیا جائے : ۳ : میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے اور : ۴ : مجھ کو پھانسی دی جاوے ۔ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ :۱: وہ ضرور ایسا ہی کرے گا :۲: ضرور ایسا ہی کرے گا :۳: ضرور ایسا ہی کرے گا، :۴ :زمین آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی ۔ ( جنگ مقدس ص211 ۔ روحانی خزائن ج ۶ ص ۲۹۲ )اس پیشگوئی کے مطابق آتھم کی موت کا آخری دن ۵ستمبر1894ء قرار دیا مگر دنیا گواہ ہے کہ وہ ۵ستمبر کو صیح سلامت موجود تھا ۔اب عبداللہ آتھم کاخط بھی پڑھیں جو اس وقت کے اخبارِ : وفادار : لاہور میں شائع ہوا ۔میں خدا کے فضل سے تندرست ہوں اور آپ کی توجہ مرزا صاحب کی کتاب نزول مسیح کی طرف دلاتا ہوں جو میری نسبت اور دیگر صاحبان کی موت کی پیشگوئی ہے ۔۔۔۔۔ اب مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے اپنے دل میں چونکہ اسلام قبول کر لیا ہے اس لیے نہیں مرا ۔ خیر ان کو اختیار ہے جو چاہیں سو تاویل کریں کون کسی کو روک سکتا ہے میں دل سے اور ظاہر ا پہلے بھی عیسائی تھا اور اب بھی عیسائی ہوں اور خدا کا شکر کرتا ہوں ۔یہ دل سے توبہ کرنے کا تصور بھی مرزا صاحب کی نئی شریعت ہے ۔ پھر اگرآتھم واقعی تائب ہو چکا تھا تو اللہ تعالی نے مرزا غلام ۔۔قادیانی کو۵ ستمبر سے پہلے اطلاع کیوں نہ دے دی۔شیخ یعقوب علی فانی اپنی جماعت کا حال ان لفظوں میں ذکر کرتا ہے ۔ آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پثرمردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں بعض لوگ نا واقفی کے باعث مخالفین سے موت کی شرطیں لگا چکے ہیں ہر طرف سے اداسی اور مایوسی کے آثار ظاہر ہیں لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں رسوا مت کریو غرض ایسا کہرام مچا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فق ہو رہے ہیں ۔ ( سیرت مسیح موعود ص ۷ )خود مرزا صاحب کا حال اس دن کیاتھا اسے مرزا غلام ۔۔قادیانی کے بیٹے بشیر احمد کے بیان میں دیکھیں ۔ آپ : یعنی مرزا غلام قادیانی : اس دن عملیات میں گھرے ہوئے تھے اور دانے پڑھوا رہے تھے ۔ وہ لکھتا ہے ۔ وظیفہ ختم کرنے کے بعد ہم وہ دانے حضرت کے پاس لے گئے کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر دانے میرے پاس لے آنا ۔اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر لے گئے اور فرمایا کہ یہ دانے کسی غیر آباد کنویں میں ڈالیں جائیں گے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنویں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہیے اور مڑ کر نہ دیکھنا چاہیے ( سیرت المہدی ج۱ ص159 ) یہ عملیات بتارہی ہیں کہ مرزاغلام ۔قادیانی آتھم کو اندر سے ملمان نہ سمجھتاتھا پھر معلوم نہیں خدا نے اسے مسلمان ہوا کیسے سمجھ لیا اور اس سے موت ٹال دی ۔مرزا بشیرالدین محمود کا بیان بھی لائق دید ہے جو الفضل 20 جولائی 1940ء میں چھپا ہے وہ کہتا ہے : :اس دن کتنے کرب و اضطراب سے دعائیں کی گئیں چیخیں سو سو گز تک سنی جاتی تھی اور ان سے ہر ایک زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اللہ آتھم مر جائے یا اللہ آتھم مرجائے ۔ مگر افسوس کہ اس کہرام اور آہ زاری کے نتیجے میں بھی آتھم نہ مرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قارئیں کرام : اب فیصلہ آپ خود کریں کہ مرزا غلام ۔ قادیانی خود اپنے اس فرمان کے مطابق ۔: اگر ثابت ہو کہ میری سو پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں ( اربعین حصہ ۴۔روحانی خزائن ج ۷ ) جھوٹا اور کذاب ثابت ہوتا ہے یا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا ۔۔۔۔ ( جاری ہے (
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
Top