• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(مرزا کی وحی قرآن کے برابر)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا کی وحی قرآن کے برابر)
جناب والا! یہ ایک بہت ہی بڑا دعویٰ ہے جو کہ اس (مرزاغلام احمد) نے اس دور میں کیا۔ وہ کہتا ہے کہ اﷲ کی طرف سے جو وحی اس کو آتی ہے وہ مرتبے اور تقدس میں پیغمبر اسلام ﷺ کی وحی کے برابر ہے۔ جیسی وحی اس پر آئی وہ پیغمبر اسلام کی وحی کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کچھ مرزاغلام احمد نے کہا وہ (نعوذ باﷲ) قرآن کریم کے برابر ہے۔ یہ اس کا دعویٰ ہے۔ وہ پیغمبر اسلام ﷺ کے ساتھ برابری کا دعویٰ کرتا ہے اور اس زمانے میں اس نے مشہور زمانہ فارسی کے مشہور شعر کہے۔ جن میں کہتا ہے کہ:
’’انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بہ عرفان نہ کم ترم زکسے‘‘
(اگرچہ بے شمار نبی آئے ہیں۔ مگر میں کسی سے کم تر نہیں ہوں)
آنچہ داد است ہر نبی را جام
داد آن جام دا مرا بہ تمام
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
(اس (خدا) نے ہر نبی کو جام دیا ہے۔ مگر وہی جام مجھے لبالب بھر کر دیا ہے)
یہاں وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے کہ وہ تمام نبیوں سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ لیکن اس زمانے تک اس نے حضرت محمد ﷺ پر برتری کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور صرف یہ دعویٰ تھا کہ اس کی (مرزاغلام احمد کی) وحی اور جو وحی محمد ﷺ پر آتی تھی دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ دونوں ہی مقدس ہیں۔
میں نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے مرزاناصر احمد کو (وحی کی برابری کے دعویٰ کی) نشاندہی کی اور اس نے انکار نہیں کیا۔ کمیٹی کو یاد ہوگا جب مرزاناصر احمد نے جواب دیا تھا کہ چونکہ دونوں وحیوں کا ماخذ ایک ہے۔ اس لئے دونوں کا مرتبہ برابر ہے۔ ماخذ اﷲ ہے۔ وہ دونوں کو برابر مانتے ہیں۔ جناب والا! اس تمام عرصے میں جس کا ذکر میں کر چکا ہوں مرزاغلام احمد کہتا ہے کہ ’’میں ایک امتی نبی ہوں۔ غیر شرعی نبی۔‘‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے حضرت محمد ﷺ کی برابری حاصل کر لی ہے۔ ماسوائے اس بات کہ وہ امتی ہے۔ اس طرح اس نے ایک ذیلی حیثیت حاصل کر لی۔ کیونکہ اس کے پاس نئی شریعت نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ اس کی اپنی کوئی شریعت نہیں۔ لیکن اپنا مرتبہ مزید بلند بھی کرتا ہے اور کہتا ہے۔ میں ایک بار پھر ’’روحانی خزائن‘‘ جلد۱۷، ص۴۳۵،۴۳۶ کا حوالہ دیتا ہوں: ’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
یہاں وہ یہ کہتا ہے کہ اس کی وحی میں بھی احکام موجود ہیں۔ ’’یہ کرو یہ نا کرو۔‘‘ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قانون میں تھا۔ جناب والا! یہ تین دور ہیں۔ جن کا میں نے مختصر ذکر کیا ہے۔ چونکہ میں نے ابھی اور بہت سی باتوں کا ذکر کرنا ہے۔ اس لئے مزید تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ تاہم اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اب یہ کمیٹی فیصلہ کرے کہ کیا مرزاغلام احمد نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور کسی قسم کے نبی ہونے کا۔
جناب والا! جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دعوے کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ بے چینی اور اضطراب کیوں پیدا ہوا۔ اس دعوے کے خلاف اتنا شدید ردعمل کیوں ہوا۔ یہ سب حالات ہمیں ’’خاتم النّبیین‘‘ کے تصور کی طرف لے جاتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ تمام عالم اسلام میں پر شدید ردعمل کیوں؟ مسلمان احسان فراموش نہیں ہوتے۔ وہ اپنے لیڈروں اور علماء کی عزت کرتے ہیں۔ آخر وہ ایک شخص کے خلاف کیوں ہوگئے۔ جسے وہ اپنا ہیرو مانتے تھے۔ مرزاغلام احمد کا اپنا بیٹا کہتا ہے کہ: ’’کہ اس کی بھیڑیں بھیڑیے بن گئے۔‘‘
ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب دینے کے لئے اپنے محدود علم کے مطابق ایوان کی اجازت سے میں ’’ختم نبوت‘‘ کے تصور کا مطلب پیش کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں کہیں غلطی کروں تو ایوان کے اندر موجود میرے فاضل دوست اور علماء میری تصحیح فرمائیں گے۔
جناب والا! ’’خاتم النّبیین‘‘ کا لفظی معنی ’’مہر نبوت‘‘ ہے۔ گذشتہ چودہ سو سال میں عام طور پر مسلمانوں کے نزدیک مہر نبوت کا مطلب آخری نبی ﷺ ہیں۔ جن پر اﷲ کا پیغام (وحی) نازل ہوا۔ بدرجہ اتم مکمل ہوا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ وہی آخری نبی ہیں اور جیسے جیسے انسانیت نے ارتقاء کی منزلیں طے کیں یا ذہنی اور جسمانی طورپر طے کر رہی ہے۔ اﷲتعالیٰ اپنی حکمت کاملہ سے اپنا آخری پیغام انسانیت کے لئے اتارا جو تاقیامت نافذ العمل ہے۔ کیونکہ ہر دور میں بنیادی انسانی ضروریات، مسائل، دشواریاں اور تکالیف ایک جیسی ہوتی ہیں۔ البتہ حالات کے تحت ان کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ اﷲ کریم نے اپنا آخری پیغام اپنے آخری نبی ﷺ کے توسط سے نازل فرمایا اور حکم فرمایا کہ قیامت تک اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی اس میں کسی قسم کا ردوبدل کر سکتا ہے۔ یہی ’’خاتم النّبیین‘‘ یا ’’ختم نبوت‘‘ کا تصور ہے۔ عام الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’وحی‘‘ کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔
جناب والا! اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تصور کی حکمت کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جب مسلمان ’’خاتم النّبیین‘‘ کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی سب سے زیادہ محکم اور مستند تعبیر خود نبی کریم ﷺ نے فرمادی ہے۔ انہوں نے فرمایا ’’لا نبی بعدی‘‘ (میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا) اس کا ماننا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس حدیث کی سند کو مسلمانوں کے کسی فرقہ نے کبھی بھی متنازعہ نہیں سمجھا۔ جناب والا! جب آپ اس حدیث میں پوشیدہ حکمت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی آخری علالت کے دوران اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ جب تک وہ ان کے درمیان موجود ہیں وہ ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کریں جب وہ اس دنیا سے پردہ پوشی فرمالیں تو پھر وہ نبی کریم ﷺ کے الفاظ کے مطابق ’’قرآن کو مضبوطی سے پکڑیں اور جس چیز سے قرآن نے منع کیا ہے اس سے باز رہیں اور جس چیز کی قرآن نے اجازت دی ہے اس کو جائز سمجھیں۔
جناب والا! ہم نے اس عالی شان سبق کی حکمت اور رعنائی کی قدر نہیں کی۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں۔ انسانیت کی تکمیل ہوچکی تھی۔ اﷲتعالیٰ کا پیغام مکمل ہو چکا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ اس وقت دنیا کے کیا حالات تھے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے کے معاشرہ کا خیال کریں جب راجے، مہاراجے، بادشاہوں اور قبائلی سرداروں کا زمانہ تھا۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ معاشرہ کسی اور قانون سے واقف ہی نہ تھا۔ دنیا میں پہلی بار نبی کریم ﷺ کی مندرجہ بالا سادہ سی حدیث مقدس میں قانون کی بالادستی کا تصور پیش کیاگیا۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ ان کے بعد تم پر کسی کی اطاعت واجب نہیں۔ صرف اﷲ اور اس کے پیغام (قرآن کریم) اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ قرآن پر سختی سے عمل پیرا رہو۔ جو وہ حکم دے، کرو۔ جس سے منع کرے رک جاؤ۔یہی اس حدیث مقدس کا حسن ہے کہ پہلی بار دنیا کو قانون کی بالادستی کا تصور دیاگیا۔ میری ناقص رائے میں پوری انسانیت کے لئے یہ اعلان آزادی تھا کہ آج کے بعد کوئی کسی بادشاہ، حاکم یا ڈکٹیٹر کا غلام نہیں۔ صرف قانون کی حکمرانی ہوگی اور وہ قانون (قرآن کریم) موجود ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جو نہی نبی کریم ﷺ کا وصال شریف ہوتا ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلا خطبہ کیا دیا۔ وہ کیا فرماتے ہیں۔ ان کا پیغام ہے: ’’جب تک میں اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو۔ اگر میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں۔‘‘
یہ ہے قانون کی بالادستی اور اس کا صحیح تصور۔ میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ مجھے الہام ہوتا ہے وحی آتی ہے۔ میں حکم دوں گا جس کا ماننا تم پر فرض ہوگا تو عالم اسلام میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ عالم اسلا م میں بے چینی کی سب سے بڑی یہی وجہ تھی۔
ایک اور پہلو جس کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ آزادی فکر کا پہلو ہے۔ تمام مسلمان قرآن میں تدبر کرنے اور معنی سمجھنے میں مکمل آزاد ہیں۔ کوئی کسی دوسرے پر اپنی تفسیر مسلط نہیں کر سکتا۔ علامہ اقبالؒ نے کہا ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ کے سوائے کسی دوسرے کی بات حرف آخر نہیں ہوسکتی۔‘‘ چنانچہ یہ ایک طرح کا اعلان آزادی ہے کہ آپ کی سوچ پر کوئی قدغن نہیں۔ جناب والا! اس میں شک نہیں کہ یہ آزادی فکر اسلام کے بنیادی اصولوں کے دائرہ تک محدود ہے۔ مثال کے طور پر توحید اور اﷲ کی وحدا نیت کا اصول۔ کوئی کسی قسم کی آزادی فکر اس اصول کو چیلنج نہیں کر سکتی۔
دوسرا بنیادی اصول حضرت محمد ﷺ کے خاتم النّبیین یا ختم نبوت کا ہے۔ اس اصول کو بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ دیگر امور میں ان بنیادی اصولوں کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے آپ اپنی تعبیر کر سکتے ہیں اور جو راستہ آپ صحیح سمجھتے ہیں اختیار کر سکتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس آزادی فکر کی وجہ سے ہم بہت سے فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ گو یہ فرقہ بندی اسلام کا ایک طرہ امتیاز ہے اور جمہوریت نوازی کا مظہر ہے۔ اب میں بڑے ادب کے ساتھ آپ کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ مختلف فرقوں اور ان کے آپس میں کفر کے فتوؤں کے متعلق علامہ اقبال کیا کہتے ہیں۔ یہ اقتباس اس مباحثہ سے ماخوذ ہے۔ جب پنڈت جواہر لعل نہرو نے احمدیوں کے بارے میں کچھ کہا تو علامہ اقبال بھی اس مباحثہ میں شامل ہوگئے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’ختمیت کے نظریہ سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ زندگی کے نوشتہ تقدیر کا انجام استدلال کے ہاتھوں جذباتیت کا مکمل انخلاء ہے۔ ایسا وقوع پذیر ہونا نہ تو ممکن ہی ہے اور نہ پسندیدہ ہے۔ کسی بھی نظریہ کی ذہنی قدر ومنزلت اس میں ہے کہ کہاں تک وہ نظریہ عارفانہ واردات کے لئے ایک خود مختارانہ اور ناقذانہ نوعیت کے تحقیقی نقطۂ نگاہ کو جنم دینے میں معاون ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر اس اعتقاد کی تخلیق بھی کرے کہ اگر کوئی مقتدر شخص ان واردات کی وجوہ پر اپنے اندر کوئی مافوق الفطرت بنیاد کا داعیہ پاتا ہے تو وہ سمجھ لے کہ اس نوعیت کا داعیہ تاریخ انسانی کے لئے اب ختم ہوچکا ہے۔ اس طرح ہر یہ اعتقاد ایک نفسیاتی طاقت بن جاتا ہے جو مقتدر شخص کے اختیاری دعویٰ کو نشوونما پانے سے روکتا ہے۔ ساتھ ہی اس تصور کا فعل یہ ہے کہ انسان کے لئے اس کے واردات قلبیہ کے میدان میں اس کے لئے علم کے نئے مناظر کھول دے۔‘‘
پھر مرزاغلام احمد کے حوالے سے علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’افتتاحیہ جملے سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ولی اور اولیاء حضرات نفسانی طریق پر دنیا میں ہمیشہ ظہور پذیر ہوتے رہیں گے۔ اب اس زمرہ میں مرزاصاحب شامل ہیں یا نہیں۔ یہ علیحدہ سوال ہے۔ مگر بات اصل یہی ہے کہ بنی نوع انسان میں جب تک روحانیت کی صلاحیت قائم ہے ایسے حضرات مثالی زندگی پیش کرکے لوگوں کی رہنمائی کے لئے تمام اقوام اور تمام ممالک میں پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر کوئی شخص اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے بشری وقوعات سے روگردانی کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آدمی کو فی زمانہ یہ حق ہے کہ ان حضرات کے واردات قلبیہ کا ناقدانہ طور پر تجزیہ کرے۔ ختمیت انبیاء کا مطلب یہ ہے جہاں اور بھی کئی باتیں ہیں کہ دینی زندگی میں جس کا انکار عذاب اخروی کا ابتلاء ہے۔ اس زندگی میں ذاتی نوعیت کا تحکم واقتدار اب معدوم ہوچکا ہے۔ اس لئے جناب والا! آئندہ کوئی فرد یہ کہنے نہیں آئے گا کہ مجھے وحی الٰہی ہوتی ہے اور یہ اﷲ کا پیغام ہے۔ جس کو ماننا تم پر لازم ہے۔ لازم صرف وہی ہے جو قرآن پاک میں پہلے سے آچکا ہے۔‘‘ آگے علامہ اقبال کہتے ہیں: ’’محمد رسول اﷲ ﷺ کا سیدھا سادھا ایمان دو اصولوں پر مبنی ہے کہ خدا ایک ہے اور دوئم کہ محمد ﷺ ان مقدسات حضرات کے سلسلہ کی آخری ہستی ہیں جو تمام ممالک میں وقتاً فوقتاً بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی کا صحیح طریقہ گزارنے کی راہ بتلانے آتے رہے ہیں۔ کسی عیسائی مصنف نے عقیدے کی یہ تعریف کی ہے کہ عقیدہ ایک مسئلہ ہے جو عقلیت سے ماوراء ہے اور جس کے مابعد الطبیعاتی مفہوم کو سمجھے پوچھے بغیر ماننا مذہبی یک جہتی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اگر یہ بات ہے تو اسلام کی ان دو سادہ سی تجاویز کو عقیدے کے نام نامی سے موسوم ہی نہیں کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ ان دونوں کی واقفیت کی دلیل واردات باطنیہ بشریہ پر مؤید ہے اور بوقت بحث معقولیت کی صلاحیت کا فی حد تک رکھتی ہے۔‘‘
جناب والا! جیسے میں نے کفر کے بارے میں گزارشات کیں اور مختلف فرقوں کے ایک دوسرے پر کفر کی الزام تراشی کا ذکر کیا تو اس سلسلے میں محترم علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: ’’کفر کے مسئلہ پر فیصلہ صادر کرنا کہ فلاں مخترع شخص دائرہ کے اندر ہے یا باہر اور وہ بھی ایسے مذہبی معاشرے کے اندر جو اتنے سادہ مسائل پر مبنی ہو جب ہی ممکن ہے جب کہ منکران دونوں سے یا ان میں سے ایک سے انکار کر دے۔‘‘
محترم جناب علامہ اقبال کے نقطۂ نظر سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ان دو اہم اصولوں میں سے کسی ایک کو بھی مسترد کرتا ہے۔ یعنی توحید اور ختم نبوت اور کفر کی قسم کا یہ مظہر چونکہ اسلام کی حدود پر خصوصیت سے اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لئے اسلام کی تاریخ میں ایسا وقوعہ شاذونادر ہی ہوا ہے۔ یہ اس وجہ پر مسلمان کے جذبات قدرتی طور پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ اگر اس نوعیت کی بغاوت رونما ہو جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ایران کے اندر ’’بہائیوں‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے احساسات شدید ہوگئے اور یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات اتنے زیادہ شدید ہوئے۔
ہاں! تو میں اس بات کی وضاحت کر رہا تھا کہ کس وجہ سے مرزاصاحب کے دعویٰ کے خلاف شدید ردعمل ہوا۔ اب میں اس نکتہ پر محترم علامہ اقبالؒ کے ایک اور قول کے اقتباس کا حوالہ دوں گا اور اس کے بعد اپنی معروضات کو جاری رکھوں گا۔ کفر کے سوال پر ایک دوسرے کو کافر…)
(ایک ممبر: مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ہے)
(جناب یحییٰ بختیار: بس میں صرف یہی پڑھ لوں گا۔ محترم علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں: ’’یہ بات درست ہے کہ مسلمان فرقوں کے مابین معمولی اختلافی نکات کی وجہ سے ایک دوسرے پر کفر کی الزام تراشی خاصی کچھ عام سی رہی ہے۔ لفظ کفر کے اس قدر بے شعوری استعمال پر خواہ وہ کوئی چھوٹا موٹا دینیاتی اختلافی مسئلہ ہو یا کوئی حد درجہ کا کفریہ معاملہ جو اس شخص کو حدود اسلام سے خارج کر دے۔ بہرحال اس صورتحال پر ہمارے کچھ تعلیم یافتہ مسلمان جنہیں اسلامی فقہی اختلاف کی سرگذشت سے قطعاً کوئی واقفیت نہیں وہ اس مابین اختلاف میں امت مسلمہ کی سماجی اور سیاسی تار وپود کی ریخت کے آثار دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال سراسر غلط ہے۔ مسلم فقہ کی تاریخ شاید ہے کہ چھوٹے اختلافی نکات کی بناء پر کفر کا الزام دینا کسی انتشاری نہیں بلکہ اتحادی قوت کا سبب بنی ہے۔ دینی ادراک کو واقعتاً مرکب بنا کر زور رفتاری فراہم کر رہی ہے۔‘‘
پھر علامہ اقبال کسی یورپین پروفیسر ’’حرگراونجی‘‘ کا قول ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں کہ: ’’محمدی قانون کی ترقی ہے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر دوسرے فقہا انتہائی معمولی سی تحریک پر پرجوش ہوکر ایک دوسرے کو اتنا برا بھلا کہتے ہیں کہ کفر کے فتوے تک لگاتے ہیں۔ مگر دوسری طرف یہی لوگ اپنے مقاصد کے زیادہ سے زیادہ اتحاد کئے لئے اپنے پیشرؤں کے باہمی تنازعات میں ہم آہنگی کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔‘‘
اس سے آگے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ’’فقہ کا طالبعلم جانتا ہے کہ آئمہ فقہ اس قسم کے کفر کو فنی اصطلاح میں کفر کمتراز کفر سے موسوم کرتے ہیں۔ کبھی اس طرح کا کفر مجرم کو دائرہ (اسلام) سے خارج نہیں کرتا۔‘‘
جناب والا! اگر میں کمیٹی کو زیادہ زیربار نہیں کر رہا تو اس مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے میں علامہ محمد اقبالؒ کا ایک اور حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیونکہ مرزاناصر احمد نے کہا تھا کہ اگر آپ احمدیوں یا قادیانیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو پھر اس کے بعد بیشتر حضرات، آغاخانیوں اور دیگر فرقے کے لوگوں کے خلاف بھی کاروائی کرنا پڑے گی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھی ایسا ہی سوال اٹھایا تھا۔ا س نے کہا تھا: ’’اگر آپ قادیانیوں کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں تو پھر آپ کو ایسی ہی مذمت آغاخانیوں کی کرنا ہوگی۔‘‘
محترم ڈاکٹر علامہ اقبال کا حوالہ دینے کے علاوہ اس سوال کا میرے پاس بہتر جواب نہیں ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں جو کچھ ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا وہ پڑھتا ہوں: ’’ہر ہائی نس آغا خان کے متعلق ایک آدھ لفظ میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے آغا خان پر جو حملہ کیا ہے اس کو سمجھنا میرے لئے مشکل ہے۔ شاید ان کا خیال ہے کہ قادیانی اور اسماعیلی دونوں ایک ہی زمرہ میں آتے ہیں۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ اسماعیلی دینی مسائل کی خواہ کچھ بھی تعبیر کریں اسلام کے بنیادی اصولوں پر انکا ایمان ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ عقیدہ ’’حاضر امام‘‘ کے ماننے والے ہیں۔ لیکن ان کے امام پر وحی کا نزول نہیں ہوتا۔ وہ صرف اسلامی قانون کی شرح کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ صرف چند دنوں کی بات ہے۔ (حوالہ الہ آباد سے شائع ہونے والا ’’سٹار‘‘ مورخہ ۱۲؍مارچ ۱۹۳۹ئ) کہ ہزہائی نس آغا خان نے اپنے پیروکاروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’گواہ رہو کہ اﷲ ایک ہے۔ محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔ قرآن اﷲ کی کتاب ہے۔ کعبہ تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ آپ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہیں۔ مسلمانوں کو السلام علیکم کہہ کر خوش آمدید کہیں۔ اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھیں۔ مسلمانوں کے ساتھ مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کریں۔ روزے باقاعدگی سے رکھیں۔ اپنی شادی نکاح اسلامی قانون کے مطابق کریں۔ تمام مسلمانوںکو اپنا بھائی سمجھیں۔‘‘
پھر علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’اب یہ پنڈت نہرو فیصلہ کریں کہ آغا خان اسلامی یک جہتی کی نمائندگی کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘
جناب والا! اب اس قصہ بحث کو ختم کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ (مغرب کی نماز) پڑھنا چاہتے ہیں)
(محترمہ قائمقام چیئرمین: جی ہاں! اب مغرب کی نماز کا وقت ہے)
(جناب یحییٰ بختیار: میں مغرب کی نماز کے بعد دوبارہ شروع کروں گا)
(محترمہ قائمقام چیئرمین: اجلاس سواسات بجے شام ہوگا۔ ہاؤس کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
(کمیٹی کا اجلاس سواسات بجے شام تک ملتوی ہوا)
----------
(کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے بعد شروع ہوا)
----------
(جناب چیئرمین: صرف دو منٹ! اراکین کو آلینے دیں۔ اگر اٹارنی جنرل صاحب کی بحث اور دیگرکوئی ممبر جو خطاب کرنا چاہے آج ختم ہو جائے تو پھر آج رات کو ہم کارروائی مکمل کر لیں گے۔ ورنہ کل صبح اجلاس ہوگا۔ اگر آج رات کوئی کام باقی رہ گیا تب ہم بطور خصوصی کمیٹی اڑھائی بجے دن اجلاس کریں گے اور ساڑھے چار بجے بعد دوپہر بطور نیشنل اسمبلی اجلاس کریں گے۔ اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ کل فیصلہ کریں گے۔ بس صرف چوبیس گھنٹے انتظار کرلیں۔ کل ساڑھے چار بجے بعد دوپہر ہم بطور نیشنل اسمبلی اجلاس کریں گے۔
حالات کے مدنظر ایم۔این۔اے حضرات کے خاندان کے افراد ہی کو صرف پاس جاری کئے جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ممبران کو ناگوار نہ ہوگا اور اسمبلی کے اندر داخلہ کے بارے میں قواعد پر سختی سے عمل ہو گا نہ صرف اسمبلی کے اندر بلکہ کیفے ٹیریا میں اور دوسری جگہوں پر بھی (ایسا ہی ہوگا) کل ساڑھے چار بجے بعد دوپہر گیٹ نمبر۳ اور ۴ سے کسی شخص کو جب تک کہ اس کے ساتھ پاس نہ ہو داخلہ کی قطعاً اجازت نہیں ہوگی) (وقفہ)
(جناب چیئرمین: مجھے افسوس ہے کسی شخص کو بھی ممبران کے داخلے کے بارے میں قدغن لگانے کا اختیار نہیں۔ ممبران کو اجازت ہوگی یہ بات میرے نوٹس میں لائی گئی ہے۔ مجھے افسوس ہے (کہ میں نے پہلے کچھ اور کہا) ممبران کو اجازت ہوگی۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر ہمیں کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب ہمیں اب کاروائی شروع کرنا چاہئے)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! )
(جناب چیئرمین: مجھے افسوس ہے۔ مجھے وہاں جانا پڑا۔ میں تو آپ کے دلائل سننا چاہتا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اپنا چیمبر بھی بند کرنا پڑا)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! میں مسلمانوں کے ’’ختم نبوت‘‘یا ’’خاتم النّبیین‘‘ کے تصور کے بارے میں معروضات پیش کر رہا تھا۔ مرزاغلام احمد نے پہلے امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا پھر اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایسا نبی ہے جس کا اپنا قانون (شریعت) ہے۔ ایک وحی کا ذکر کرتے ہوئے اس نے کہا اس کے پاس خدائی احکامات ہیں۔ جن میں امرونہی شامل ہیں۔ یہ بات صرف مرزاغلام احمد نے ہی نہیں کہی۔ بلکہ اس کا بیٹا بشیرالدین محمود احمد اپنی کتاب ’’احمدیت یا سچا اسلام‘‘ میں لکھتا ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے ماننے والوں کے لئے ضابطہ حیات کا مکمل ذخیرہ چھوڑا ہے۔ کتاب کے ص۵۶ سے اقتباس میں پڑھتاہوں: ’’میں ابھی ابھی بتاؤں گا کہ اس (مرزاغلام احمد) نے ہمارے لئے اخلاقیات اور ضابطہ حیات کا مکمل ذخیرہ چھوڑا ہے۔ تمام ذی عقل انسانوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان پر عمل کرنے سے ہی مسیح موعود کی آمد کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے۔‘‘
تو جناب والا! بات یہ تھی۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ صرف قرآن ہی مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مگر ایک اور نبی آجاتا ہے۔ جو کہ بغیر شریعت امتی نبی ہونے کا دعویدار ہے اور اپنے پیروکاروں کے لئے مکمل ضابطہ حیات چھوڑ جاتا ہے۔
 
Top