• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے قادیانیوں کا طریقہ واردات

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
دوست کے روپ میں دشمن قادیانیوں نے کیسے ایک شخص کی ماں کو قادیانی بنایا واقعہ پڑھیں

واقعہ پڑھتےہوئے اگر آنسو گر جائیں تو معذرت
تحریر: محمدابوبکرصدیق
بچپن:
میری پیاری ماں ! میری سوچیں مجھے میرے ماضی کی طرف کھنچے لیے جارہی ہیں ۔ اور میرے ذہن میں موجود ماضی کی ویڈیو کیسٹ نے چلنا شروع کر دیا ہے ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میں ایک چھوٹاساپچہ ہوں ، جو گھر کے صحن اور کمروں میں شرارتیں کرتا بھاگتا پھر رہا ہے۔ بھاگتے بھاگتے جب کبھی مجھے ٹھوکر لگتی ہے تو میں گرجاتا ہوں اور میرے رونے کی آواز آپ کے سینے میں اک تیر سا لگتا ہے اور آپ باز کی سی پُھرتی سے مجھے جھپٹتی ہیں۔ اور مجھے اٹھا کر سینے سے لگالیتی ہیں ۔ اور مجھے اتنا جی بھر کر پیار کرتی ہیں کہ میرے رخساروں پر آپ کے ہونٹوں کے نشانات ثبت ہو جاتے ہیں اور میں آپ کی گود میں اٹکھیلیاں کر رہا ہوں ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ سیب کی قاشیں کر کے مجھے کھلا رہی ہیں ۔ سیب میں کھا رہا ہوں لیکن سرخی آپ کے چہرے پر آرہی ہے۔ میں ملاحظہ کر رہا ہوں کہ آپ مجھے نہلا رہی ہیں ، خوبصورت کپڑے پہنا رہی ہی ، بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں ، چہرے پر پوڈر لگارہی ہیں اور پھر مجھے محبت سے دیکھ کر فرط جذبات سے سینے سے چمٹارہی ہیں ۔ جب میں بولنے کے قابل ہوا تو آپ نے سب سے پہلے مجھے کلمہ طیبہ سکھایا اور پھر بسم اللہ یاد کرائی ۔ جب میں اپنی توتلی زبان سے آپ کو کلمہ طیبہ پڑھ کر سناتا تو آپ خوشی سے پھولے نہ سماتیں ۔ جب میں سکول جانے کے قابل ہواتو آپ نے مجھے اپنے علاقے کے بہترین سکول میں داخل کرایا۔ جب میں گلے میں بستہ ڈالے سکول کو روانہ ہوتا تو آپ مجھ پر درود شریف کا دم کرتیں ۔ میں سکول چلاجاتا تو میرے بغیر گھر میں آپ کا جی نہ لگتا۔ اگر میں کبھی سکول سے لیٹ ہو جاتا تو آپ کی آنکھیں میرے راستے میں کھڑی ہوتیں اور جونہی میں آپ کے سامنے آتا تو آپ کی آنکھوں میں خوشی سے تارے جھلملانے لگتے۔ آپ مجھے کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں ۔ گلی محلے میں کھیلنے کے لیے کبھی نہ جانے دیتیں ۔ میں جب کبھی بیمار ہو جاتا تو آپ شدید پریشان ہو جاتیں۔ گھر کا سارا نظام تلپٹ ہوجاتا۔ آپ میرے سرہانے ساری ساری رات جاگتیں اور آیات قرآنی پڑھ پڑھ کر مجھ پر دم کرتیں ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
دس سال کی عمر اور والد کی جدائی:
والدہ محترمہ! جب میری عمر دس سال ہوئی تو ابا جان داغ مفارقت دے گئے ۔ ہماری خوشگوار زندگی پر بلائیں ٹوٹ پڑیں۔ رشتہ داروں نے آنکھیں پھیر لیں، اپنے بیگانے ہو گئے لیکن آپ نے مجھے کبھی بھی یتیمی کا احساس نہ ہونے دیا آپ سحاب کرم بن کر میرے سر پر چھائی رہیں۔ آپ نے مجھے ماں کی ممتا کے ساتھ ساتھ باپ کی شفقت بھی عنایت کی۔ جب رشتہ داروں نے آپ سے کہا کہ آپ مجھے سکول سے اٹالیں اور کسی کام پر ڈال دیں ، کیونکہ آپ کے پاس مجھے تعلیم دلانے کے لیے رقم نہ تھی لیکن آپ کا جرنیلی حوصلہ رشتہ داروں کے سامنے سنگلاخ چٹان ثابت ہوا اور آپ نے رشتہ داروں کو دوٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہ "میں لوگوں کے گھروں میں محنت مشقت کر لوں گی لیکن اپنے بچے کو زیور تعلیم سے ضرور آراستہ کروں گی"۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تعلیم:
یہ آپ کےعزم محکم کے باعث تھا کہ میں میٹرک ، ایف اے اور بی اے میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرتا رہا۔جب بھی میرا رزلٹ آتا تو آپ کے چہرے پر ایک فاتح کی مسکراہٹ ہوتی ۔ اور اس عظیم مسکراہٹ سے میرے اندر ایک نیا حوصلہ اور ولولہ پیدا ہو جاتا۔
باہر کے ملک کا صفر:
امی محترمہ! امتیازی حیثیت سے بی اے کرنے کے بعد جب مجھے ایم بی اے کرنے کے لیے امریکہ جانا پڑا تو یہ وقت آپ کے لیے بڑے امتحان کا وقت تھا۔ میں آپ کا اکلوتا بیٹا ، جو آپ کی آنکھوں کی بینائی تھا، جس کو دیکھے بغیر آپ ایک دن نہ گزارسکتی تھیں ۔ وہ ایک لمبی مدت کے لیے آپ سے ہزاروں میل دور جارہاتھا۔ آپ کے آہنی عزم کو سلام کہ آپ نے اپنی محبت پر میری تعلیم کو فوقیت دی۔ آپ نے اپنے زیورات اور گھر کی قیمتی اشیاء بیش کر میرے داخلہ اور سفر وغیرہ کے اخراجات کا بندوبست کیا۔
مادرشفیق! بیرون ملک میری تعلیم کا بندوبست ہونے کے بعد یہ مسئلہ درپیش تھا کہ میرے چلے جانے کے بعد آپ پاکستان میں کس کے پاس رہیں گی۔ کسی رشتہ دار کے پاس رہنا آپ کی غیور طبیعت کو گوارہ نہ تھا۔ اور میرے ساتھ امریکہ چلے جانا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ ہم دونوں اسی مسئلہ کے حل میں سرگرداں تھے کہ آپ نے ہی تجویز پیش کی تھی کہ میرا دوست مسعود احمد جو پہلی جماعت سے بی اے تک میرا کلاس فیلو اور جگری یار تھا ، اس کا اور اس کے گھروالوں کا بڑی دیر سے ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ والی گلی میں کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے۔ آپ نے ہی کہا تھا کہ ہمارے پاس تین کمرے ہیں ایک بڑاصحن ہے۔ میں اکیلی اتنے بڑے گھر کو کیا کروں گی ۔ تم سامنے والے دو کمرے اور مشترکہ صحن اپنے دوست کو کرائے پر دے دو ۔ کونے والے ایک کمرے میں میں رہائش رکھ لوں گی۔ مسعود احمد کی ماں میری بہن بنی ہوئی ہے اور اس کے بچے مجھے تیری طرح ہی ہیں۔ ان کے یہاں رہنے سے گھر میں رونق بھی رہے گی اور تمہاری جدائی کا غم بھی ہلکا رہے گا۔ ان سے جو کرایہ مکان ملے گا اس سے میری گزر بسر ہوتی رہے گی اور تم میرے اخراجات سے بے فکر ہو کر تعلیم حاصل کر سکو گے۔ میں نے آپ کی تجویز کو فورا مان لیا تھا اور اسی وقت بھاگم بھاگ مسعود کے گھر چلا گیا تھا۔ اور اس کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی۔ وہ سب آپ کی بات سے متفق تھے اور بہت زیادہ خوش بھی تھے۔ مسعود احمد اور اس کے گھر والے میری امریکہ روانگی سے قبل ہمارے ہاں منتقل ہو گئے تھے اور آپ کی طبیعت ان میں گھل مل گئی تھی اور میں ان صورت حال سے بہت خوش تھا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
امریکہ روانگی سے واپسی ایئر پورٹ تک:
پھر وہ وقت آگیا جب آپ مجھے امریکہ جانے کے لیے ایئر پورٹ پر چھوڑنے آئی تھیں ۔ اور انتہائی حوصلہ اور ضبط کے باوجود آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی شبنم گررہی تھی اور آپ نے مجھے اپنی دعاؤں کی چھاؤں میں امریکہ روزانہ کیا تھا۔
امی جان! میں امریکہ پہنچ کر اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گیا لیکن ایک لمحہ بھی آپ کو نہ بھلا سکا ۔ ہر وقت آپ کی رخشندہ رخشندہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا۔ میں ہر پندرہ دن کے بعد آپ کو خط لکھتا رہتا اور جوابا آپ کے خط بھی آتے رہتے ۔ اور ہم ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہوتے رہتے۔ آپ کی طرف سے مجھے ہمیشہ آپ کی خوشی اور خیریت کی اطلاع ملتی ۔ تقریبا اڑھائی سال آپ کی اور میری خط و کتابت جاری رہی ۔ امریکہ سے ایم بی اے کرنے کے بعد جب میں نے آپ کو اپنی کامیابی کی نوید سناتے ہوئے خط لکھا تو آپ کا ڈھیروں مبارک بادوں اور دعاؤں سے بھرا جوابی خط ملا ۔ جسے پڑھ کر میں خوشی سے آبدیدہ ہو گیا۔ پھر میں نے آپ کو اپنی پاکستان واپسی کا خط لکھا اور بتایا کہ فلاں تاریخ کو پاکستان میں پہنچ رہا ہوں تو آپ نے مجھے جوابا انتہائی مسرت انگیز خط لکھا تھا کہ بیٹا! میں تمہارے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر موجود ہوں گی لیکن کل جب میں پاکستان آیا تو میری آنکھیں آپ کی تلاش میں تھیں ، لیکن وہاں کہیں آپ کا وجود مجھے نظر نہ آیا۔ میں نے دیکھا کہ میرا دوست مسعود احمد ایئر پورٹ پر ایک کونے میں کھڑا ہے اور وہ مجھے لینے آیاہواہے ۔ میں مسعود سے بڑے تپاک سے ملا اور اس سے فورا آپ کی بابت پوچھا کہ آپ تشریف کیوں نہیں لائیں ؟؟ لیکن وہ ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ کر مجھے اپنی باتوں میں لگاتا رہا۔ پھر جب میں نے زور دے کر آپ کے متعلق پوچھا تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ اس سوال کا جواب گھر جا کر دے گا۔ اس کا یہ جواب سن کر میرا پورا وجود تھرااُٹھا اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہ کیا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ خیریت نہیں ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
گھر پہنچنے کے بعد سے ماں کی قبرتک:
گھر پہنچا تو اس کے سارے گھروالے مجھے ملنے کے لیے گھر کے دروازے کے باہر کھڑے تھے لیکن امی جان ! وہاں آپ کا چہرہ نہیں تھا ۔ گھر میں بیٹھنے کے بعد میں نے فورا ان سے پوچھا کہ میری امی جان کہاں ہیں ؟ تو انہوں نے مجھے وہ بتایا کہ میرے پیروں تلے سے زمین نکال دی کہ آپ کو فوت ہوئے چھ ماہ گزر گئے ہیں ۔ آپ کی موت کی خبر سن کر میرے جسم پر رعشہ طاری ہو گیا۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں ایم بی اے کی اس ڈگری کو آگ لگا دوں جس نے میری ماں کا چہرہ بھی مجھے دیکھنے نہیں دیا۔ مسعود احمد اور اس کے گھروالے مجھے تسلیاں دیتے رہے لیکن میرے مجروح دل کو تسکین کہاں ملتی تھی۔ میں نے مسعود کے گھروالوں سے پوچھا کہ تم نے مجھے میری والدہ کے فوت ہونے کی اطلاع کیوں نہ دی ، جس کا جواب صرف خاموشی تھا۔ میں نے روتے ہوئے مسعود احمد سے کہا کہ مجھے میری امی جان کی قبر پر لے چلو۔ اس پر وہ سارے گھر والے خاموش ہو گئے۔ میں نے ان سے غصہ سے پوچھا کہ "بتاؤ کہاں دفن کیا ہے میری ماں کو" تو مسعود نے جواب میں کہا کہ "ربوہ (یعنی چناب نگر)" میں دفن ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
میری بے بسی اور مسعود کی تقریر:
میری ماں کا ربوہ سے کیا تعلق؟ ۔۔ میں نے پوچھا۔
"وہ اپنی خواہش کے مطابق وہاں پر دفن ہوئی ہیں" مسعود نے جواب دیا۔
"یہ کیسی خواہش؟"
"بس ان کی مرضی"۔
"ربوہ میں تو مرزائی دفن ہوتے ہیں" میں نے کہا۔
"انہوں نے بھی قادیانی مذہب قبول کر لیا تھا" مسعود نے جوابا کہا۔
"ایسا کبھی نہیں ہو سکتا" میں نے للکار کر کہا۔
"یہ دیکھئے پکا ثبوت" مسعود نے مجھے آپ کے قادیانی ہونے پر آپ کا بیعت فارم دکھاتے ہوئے کہا اور پھر اس نے ربوہ میں دفن ہونے کی آپ کی وصیت بھی دکھائی۔
"کس مردود کی تبلیغ سے میری ماں قادیانی ہوئی" میں نے غصہ میں کانپتے ہوئے کہا۔
"ہماری تبلیغ سے" مسعود نے فاتحانہ انداز میں آنکھوں میں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"کیا تم قادیانی ہو؟" میں نے غضب ناک ہو کر پوچھا۔
"ہاں ہم قادیانی ہیں" مسعود نے سینہ تان کر جواب دیا۔
" تم نے میرے ساتھ زندگی کے پندرہ سال گزارے لیکن تم نے آج تک مجھے یا کسی بھی دوست کو نہیں بتایا کہ تم قادیانی ہو"
"اگر ہم تمہیں بتادیں تو تم میں مل جل کر کیسے رہیں؟؟ تمہیں اپنے مذہب کی دعوت کیسے دیں؟؟ اور ایسی مُہِموں میں کامیاب کیسے ہوں؟؟" مسعود نے میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا۔ قریب تھا کہ مسعود اور مجھ میں ہاتھاپائی ہو جاتی کہ اس کا چھوٹابھائی محمود مجھے پکڑ کر باہر لے گیا۔ محمود ان میں سے کچھ کھرا اور صاف طبیعت کا مالک ہے اور ان دنوں اس کے اپنے گھروالوں سے کسی مسئلہ پر شدید اختلافات ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹے قادیانی مسعود کے بھائی کا بیان:
ماں جی! محمود نے مجھے بتایا۔
"تمہارے امریکہ چلے جانے کے بعد اس کے گھروالوں نے تمہاری والدہ کی خوب خدمت کی۔ انہیں کبھی علیحدہ کھانا نہ پکانے دیا۔ عین وقت پر انہیں چارپائی پر کھانا پہنچایا جاتا۔ میری بہنیں تمہاری والدہ کے کپڑے دھوتیں ، سر میں تیل ڈال کر مالش کرتیں ، رات کو روزانہ سونے سے پہلے پاؤں دباتیں ، اسی طرح کی خدمت کر کے ہمارے گھروالوں نے تمہاری والدہ کو اپنے اخلاق کے شیشے میں اتار لیا اور پھر آہستہ آہستہ انہیں قادیانیت کی تبلیغ شروع کر دی ۔ ان پڑھ ہونے کے ناطے وہ سمجھتی تھیں کہ قادیانی بھی مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ ہے ۔ جس طرح مختلف مسالک کے آپس میں چھوٹے موٹے اختلافات ہیں ، ایسے ہی اختلافات دوسرے مسالک اور قادیانیوں کے بھی ہیں۔ پھر انہیں یہ بتایا گیا کہ تمہارا بیٹا سلیم بھی قادیانی ہو چکا ہے اور ہمارے گھر والوں نے تمہاری والدہ کو تمہارا خط دکھایا جس میں تم نے لکھا تھا کہ تم قادیانی ہو چکے ہو اور تم نے اپنی والدہ کو کہا تھا کہ قادیانی ہی سب سے بہتر مسلمان ہیں ۔ اس خط میں تم نے اپنی والدہ کو تاکید کی تھی کہ یہ بھی فورا قادیانی ہو جائیں"
ہائے میری پیار ماں! محمود نے مجھے بتایا۔

مرحومہ کی ساری جائیداد بھی قادیانی ہضم کر گئے:
"جب امریکہ سے تمہارا خط آتا تھا تو ہمارے گھر والے تمہاری والدہ کو اپنی مرضی کا فرضی خط سنا دیتے اور تمہاری والدہ کی خیریت کا خط تمہیں لکھ دیتے۔ تمہیں تمہاری والدہ کے جتنے بھی خطوط ملے وہ سب جعلی تھے۔ ایک سال کی تبلیغ کے بعد تمہاری والدہ قادیانی ہو گئی تھیں۔ ان کے قادیانی ہونے پر ہمارے گھروالوں نے انہیں پھر تمہارا جعلی خط سنایا، جس میں تم نے اپنی والدہ کو قادیانی ہونے پر ہزاروں مبارک بادیں دیں تھیں اور اسے اللہ کا بہت بڑا انعام لکھا تھا۔ جس کو پڑھ کر تمہاری والدہ از خود خوش ہوئی تھیں۔ پھر تمہاری والدہ اکثر قادیانی تقریبات میں جانیں لگیں تھیں۔ وہ کئی مرتبہ ربوہ بھی گئی تھیں ۔ اور پھر انہوں نے باقاعدہ بیعت بھی کر لی۔ اور بیعت فارم پر انگوٹھا لگا دیا تھا۔ پھر ہمارے گھروالوں نے دھوکہ دہی سے آپ کی والدہ سے اشٹام پیپرز پر انگوٹھے لگوا کر آپ کا مکان اپنے نام منتقل کروالیا۔ چھ ماہ قبل جب تمہاری والدہ کا انتقال ہوا تو ہمارے گھروالوں نے انتہائی رازداری سے رات کے وقت لاش کو ربوہ لے جا کر عام قبرستان میں دفن کر دیا"
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ربوہ میں ماں کی قبر اور دل پگھلادینے والے میرے الفاظ:
اماں جان ! محمود نے مجھے ربوہ میں قبرستان کا ایڈریس بتایا اور آپ کی قبر کی نشانی بتائی۔ میں اسی وقت وہاں سے بس میں سوار ہوا اور ربوہ پہنچ گیا اور اب میں آپ کی قبر پر آپ کے قدموں میں کھڑا ہوں ۔ میں آپ کی قبر کو غمناک اور نمناک آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔
ماں جی ! میں آپ کا بیٹا سلیم ہوں جس کے رونے کی آواز پر آپ دوڑ کر آیا کرتی تھیں۔ آج وہ سلیم آپ کی قبر پر کھڑا رورہا ہے۔ ماں جی! آج سلیم کو چُپ کرانے کے لیے قبر سے باہر آجائیے۔ ورنہ سلیم آپ سے روٹھ جائے گا۔
ماں جی! اٹھئے۔۔۔ میرے آنسو پونچھئے۔۔۔ مجھے سہارادیجئے۔۔۔ میں رورو کر نڈھال ہو گیا ہوں۔
ماں جی! مجھے بتایئے آپ کے ساتھ کیا بیتی؟ آپ کے ساتھ کیا ظلم ہوا؟ ماں جی ہم لٹ گئے۔ ہم برباد ہو گئے۔
ماں جی! ختم نبوت کے ڈاکوؤں نے آپ سے آپ کا ایمان چھین لیا۔ قادیانی سانپوں نے آپ کو ڈس کر آپ کا چراغ ایمان گل کر دیا۔۔۔ ہائے ماں جی! آپ کافرہ اور مرتدہ ہو گئیں۔ آپ نے مرزے کو نبی مان لیا۔ ہائے ماں جی! آپ سدا جہنمی ہو گئیں۔ ہائے اب آپ کو کبھی بھی جہنم سے رہائی نہیں مل سکے گی۔ ہائے آپ کی قبر دوزخ کا گڑھا نبی ہوئی ہو گی۔ ہائے آپ کی قبر بچھوؤں اور سانپوں کا مسکن بن چکی ہو گی۔ ماں جی! اگر میں اپنے سارے آنسو بھی آپ کی قبر پر بہادوں ۔۔۔۔۔ تو بھی آپ کی قبر ٹھنڈی نہیں ہوسکتی۔ اگر میں شبنم سے کہوں کہ وہ اپنے سارے موتی آپ کی قبر پر چھڑکادے ۔۔۔۔ تو بھی آپ کی قبر کی آگ نہ بجھ سکے گی۔۔۔۔ اگر میں بادلوں سے درخواست کروں کہ وہ اپنے دامن میں سمیٹی ہوئی ساری موسلادھار بارشیں آپ کی قبر پر برسادیں۔۔۔ تو بھی آپ کے مرقد کی تپش میں فرق نہیں پڑے گا۔ اگر میں دریاؤں سے التماس کروں کہ دنیا کے سارے دریا سمندر میں گرنے کی بجائے آپ کی قبر میں آگریں۔۔۔ تو بھی آپ کی آتش قبر پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اگر میں جنات سے التجاء کروں کہ وہ بحرمنجمد شمالی کی ساری برف لا کر آپ کی قبر پر پہاڑ لگا دیں تو بھی قبر کا یہ پہاڑ آپ کی قبر میں ذرہ بھر ٹھنڈک نہ پیدا کر سکے گا۔ کیونکہ یہ آگ اللہ تعالی کی لگائی ہوئی ہے اور اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں بجھا سکتا۔۔۔ اور کافروں کو اللہ کبھی بھی آگ سے رہائی نہیں دیں گے۔
ماں جی! میں آپ کا مجرم ہوں ۔۔۔۔ اس جہان میں بھی۔۔۔۔ اگلے جہان میں بھی۔۔۔ آپ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، میری وجہ سے ہوا۔۔۔ میری دوستی کی وجہ سے ہوا۔۔۔ ماں جی! یہ معاشرہ آپ کا مجرم ہے ۔۔۔۔ جو قادیانیوں سے نفرت نہیں کرتا۔۔۔۔ جو قادیانیوں کی خفیہ سرگرمیوں پر کڑی نظر نہیں رکھتا۔۔۔ جو قادیانی معلوم ہو جانے پر بھی قادیانی کو مسلم معاشرے سے باہر نہیں نکالتا۔۔۔ ماں جی! یہ حکومت آپ کی مجرم ہے ۔۔۔۔ جو اس ملک میں مرتدوں اور زندیقوں کو تہہ تیغ نہیں کرتی۔۔۔ ماں جی! آخر وہ علماء بھی آپ کے مجرم ہیں ۔۔۔۔ جو منبر پر بیٹھ کر مسلمانوں کو قادیانیوں کے عقائدوعزائم سے آگاہ نہیں کرتے۔ جو قادیانیت کے کفر کو ننگا نہیں کرتے۔۔۔ جو آستین کے ان سانپوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو طشت از بام نہیں کرتے۔ جو مسلمانوں کے ایمان پر پہرہ نہیں دیتے۔
ماں جی! کاش کوئی میری ایم بی اے کی ڈگری لے لے اور آپ کو جہنم کے شعلوں سے بچا لے۔
کاش! کوئی مجھ سے میری تعلیم لے لے اور آپ کو دوزخ سے رہائی دلا دے۔
کاش ! کوئی مفت میں مجھے اپنا غلام بنا لے اور آپ کو بچھوؤں اور سانپوں سے نجات دلا دے۔
ہائے کاش ! کوئی مجھ سے میری بھرپور جوانی کی زندگی بھی لے لے اور آپ کو عذاب قبر سے بچا لے۔
ہائے کاش! اے کاش ۔۔۔۔۔ مگر اب ایسا کوئی نہیں کرسکتا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مسلمانوں کے نام ایک اہم پیغام:
اے غفلت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے مسلمانو! یہ صرف ایک ماں بیٹے ہی کا واقعہ نہیں بلکہ ہزاروں ایسے غمناک واقعات اس بے وفا معاشرے میں جنم لے چکی ہیں۔ اے خواب و خیال کی دنیا میں مست رہنے والے مسلمانو! ذرا اپنی آنکھیں تو کھول کے دیکھو اپنے اردگرد کئی ایسی دردناک داستانوں کو پاؤ گے۔ کہیں قادیانیوں نے بیٹے کو ماں کی ممتا سے دور کر دیا اور کہیں بیٹے سے ماں کی شفقت و محبت چھین لی گئی۔ کہیں باپ سے اس کا اکلوتا وارث محروم کر دیا گیا تو کہیں کسی بد قماش قادیانی نے خود کو مسلمان ظاہر کر کے معصوم اور پاکدامن بچی سے شادی کر لی اور اس کی زندگی کو برباد کر کے اسے اس بے وفا دنیا میں غیروں کے درکا محتاج اور ذلیل و رسوا کر دیا۔ اور کہیں دوستوں سے ان کی دوستی چھین لی گئی ۔ غرض ایسے کئیں غمناک واقعات ہیں جو اس معاشرے میں جنم لے رہے ہیں۔

اے دنیا کے نشے میں مست مسلمانو! پوچھواس بیٹے سے جس کی ماں کو کافرہ، مرتدہ (قادیانی) بنا دیا گیا۔ پوچھو ان بوڑھے والدین سے جن کا دنیا و آخرت کی امیدوں کا اکیلا سہارا ان سے جدا کر دیا گیا ۔ پوچھو اس معصوم بچی سے جس کی عزت کو سہاگ کے نام پر تار تار کر دیا گیا۔
سوچ اگر ایسے حالات و واقعات تیرے ساتھ پیش آتے تو تیرے ان ایمان کے لٹیروں کےبارے میں کیا جذبات ہوتے؟ غور کر یہ بھی کسی کی ماں تھی ۔ یہ بھی تو کسی کی بہن تھی۔ یہ بھی تو کسی کا لخت جگر ہے ۔ اور ہااں تیرا بھی تو ان کے ساتھ اسلامی اخوت و محبت کا رشتہ ہے ۔ اے مسلمان! پوچھ اپنے ضمیر سے کہ اس وقت گنبد خضریٰ میں دل مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کیا حال ہوا ہو گا؟ جنہوں نے اپنے ہر ہر امتی کے لئے راتوں کو گڑگڑاکر دعا کی۔ جس ہادی برحق نے اس امت کی خاطر وادی طائف میں پتھر کھائے۔ جس نے میدان احد میں اس امت کی خاطر اپنے دندان مبارک شہید کروائے۔ اسی ہادی برحق کو صادق و امین کہنے والے ساحر و مجنون کہنے لگے، عزیز رشتے دار جان کےدشمن بن گئے ، اپنے محبوب وطن مکہ معظمہ سے نکالے گئے ۔ جن کی شان اقدس میں فحش بکواسات کی گئیں۔ جن کے گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا، حالت نماز میں جسم اطہر پر اونٹ کی غلیظ اوجھری رکھی گئی۔ جن کی پاکیزہ و مطہرہ محبوب بیٹیوں کو طلاق دی گئی، ہائےاس محبوب نبی کا اس وقت کیا حال ہوتا ہوگا جب ان کے مبارک دامن سے ان کے کسی امتی کا عشق و محبت کا تعلق کٹواکرمرزا قادیانی ملعون کے ساتھ جوڑاجاتاہوگا۔ جن کے تاج و تخت ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور مرزا قادیانی کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جگہ آخری نبی ، انس کے چیلوں کو "صحابہ" اس کی مرتدہ بیوی کو "ام المؤمنین" ، اس کی لڑکی کو "سیدۃُ النساء" اس کے گھر والوں کو "اہل بیت" ، اسکی باتوں کو "حدیث" اور من گھڑت وحی کو "قرآن" کہا جاتا ہے۔
اےمسلمان! دیکھ یہ امت بہت لُٹ چکی ہے، کتنے ہی گھرتباہ ہو چکے ہیں ، بس بہت سوچکا ہے اب توں بیدار ہو جا ، بہت کھوچکا ہے، اب توں ہوشیار ہو جا اور اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس و رسالت کے تحفظ کے لئے دشمنان رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے برسرپیکار ہوجا۔ اپنے اسلاف کی تابندہ روایات کو پھر زندہ کر، جہاد کا علم لہراکراٹھ، شہادت کا جذبہ لے کر آگے بڑھ اور امت کی ڈوبتی کشتی کو سہارادے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آخری گزارش:

قادیانی مصنوعات شیزان، اوسی ایس کورئیرسروس،ذائقہ گھی، ذائقہ کوکنگ آئل، شاہ تاج شوگرمل، شاہ نواز ٹیکسٹائل ملز اور اسی طرح اپنے علاقے کے دیگرقادیانی اداروں کا مکمل بائیکاٹ کر کے دینی حمیت اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ثبوت دیں۔
 
Top