• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ملحد ایاز نظامی اور مرزا احمد وسیم کا تحریری مناظرہ

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ملحد ایاز نظامی اور مرزا احمد وسیم کا تحریری مناظرہ


اس تحریری مکالمہ کی مکمل صورت حال فیس بک پر اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں

Ayaz Nizami
November 2 at 12:23am
میرے اور مولانا احمد وسیم بیگ صاحب کے درمیان گفتگو کا موضوع ”کیا قرآن انسانی کلام ہے؟‘ طے ہوا ہے، اس مکالمے میں ہم دونوں اپنے انے موقف کے دلائل پیش کریں گے۔ ایک عالم دین سے مباحثے کا مقصد قران و حدیث کے مطالعے کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ آیا قرآن و حدیث کی تعلمیات کی روشنی میں قرآن اللہ کا کلام ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔
میرا موقف ہے کہ قرآن انسانی کلام ہے، یہ کلام الٰہی نہیں ہے، خود قرآن نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 82 میں کہا ہے کہ:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾
ترجمہ : کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔
ہمیں خود قرآن کا یہ قائم کردہ معیار قبول ہے، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن اپنے قائم کردہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا، قرآن میں داخلی تضادات بھی موجود ہیں اور خارجی تضادات بھی، داخلی تضادات سے مراد قرآن کی آیات کا باہمی تضاد اور خارجی تضاد سے مراد قران کا سائنسی مسلمات، تاریخ اور دیگر علوم سے تضاد مراد ہے۔ ابتدائی طور پر قرآن کی آیات کے باہمی تضادات سے آغاز کرتا ہوں، میرے نزدیک قرآن کا سب سے بڑا داخلی تضاد سورۃ فصلت کی آیات 9 تا 12 اور سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 کے مابین واقع ہے۔ یہاں ان آیات کو درج کرتا ہوں:

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾
ترجمہ: کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھیراتے ہو وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے (9) اور اس نے زمین میں اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت دی اور چار دن میں اس کی غذاؤں کا اندازہ کیا (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے (10) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھؤاں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں (11) پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور حفاظت کے لیے بھی یہ زبردست ہر چیز کے جاننے والے کا اندازہ ہے (12)

اور ان آیات کا سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 سے موازنہ دیکھئے :

أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾

کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے (27) ا سکی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا (28) اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا (29) اور اس کے بعد زمین کو بچھا دیا (30)

یہ ایک واضح تضاد ہے کہ سورۃ فصلت کی آیات میں پہلے زمین کی تخلیق کا ذکر ہے، اور بعد میں آسمان کی تخلیق کا ذکر، جبکہ سورۃ لنازعات کی آیات میں پہلے آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے اور آسمان کی تخلیق کے بعد زمین کی تخلیق کا ذکر ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
Mirza Ahmed Wasim Beg
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه ومن والاه! أما بعد
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾

ترجمہ : کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔
ہمیں خود قرآن کا یہ قائم کردہ معیار قبول ہے، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن اپنے قائم کردہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا، قرآن میں داخلی تضادات بھی موجود ہیں اور خارجی تضادات بھی، داخلی تضادات سے مراد قرآن کی آیات کا باہمی تضاد اور خارجی تضاد سے مراد قران کا سائنسی مسلمات، تاریخ اور دیگر علوم سے تضاد مراد ہے۔//
------------------
پہلی بات تو یہ جان لیں کہ قرآن کریم کی اس آیت میں قرآن کے اندر تضاد دکھانے کی بات کی گئی ہے نہ کہ قرآن کا کسی اور چیز سے تضاد، سلف وخلف کے تمام معتبر مفسرین نے اس کی یہی تفسیر کی ہے! اگر نادرا اس دور میں کسی نے دوسری تفسیر کی بھی ہو تو ہمیں تسلیم نہیں، کیونکہ:
اولا: قرآن کریم کی آیت اس کی متحمل نہیں!
ثانیا: جن چیزوں کی آپ بات کر رہے ہیں ان کی حیثیت تو خود مشکوک ہے، جسے آپ تاریخ کہتے ہیں وہ ہمارے نزدیک چوں چوں کا مربہ ہے اور جہاں تک بات ہے سائنس کی تو وہ بھی کوئی حتمی چیز نہیں! ان چیزوں کے بارے میں جب آپ حتمیت کا دعوی کرنے کے لائق ہوجائیں اور حقیقت کاملہ کو دریافت کرچکیں، اور کہہ سکیں کہ اب ہمارے علم کو کوئی ارتقاء لاحق نہیں ہوگا... تب یہ اعتراض لے کر آئیں..
اور اگرچہ کہ یہ چیز قطعی جھوٹ ہے کہ قرآن مجید کسی بھی معلوم "حقیقت" سے متصادم ہے، لیکن سائنس اور تاریخ نہ آپ کا موضوع ہیں اور نہ میرا، لہذا اس مزعومہ ومفروضہ خانہ ساز "خارجی تضاد" کو تو رہنے ہی دیں..
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
Ayaz Nizami

(1)
جواب کمنٹ نمبر 4
غیر ضروری طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے میں پہلے تین کمنٹس کے جواب صرف نظر کرکے براہ راست چوتھے کمنٹ کے جواب سے آغاز کرتا ہوں۔
1- رتق و فتق کے متعلق خود مفسرین کا ہی کہنا ہے کہ اس سے مراد آسمان سے بارش کا نا برسنا اور زمین کا بنجر ہونا مراد ہے، یعنی دونوں اپنی فعالیت سے رکے ہوئے تھے کہ اللہ نے انہیں فعال کر دیا، اس لئے آیت کے ابتداء میں ا و لم یر الذین کفروا (کیا کافروں نے یہ نہیں دیکھا) بھی کہا گیا ہے، اگر یہ تخلیق زمین آسمان کا ہی کوئی مرحلہ ہوتا تو ابتدائے آیت میں اولم یر الذین کا کیا مطلب ؟ خیر یہ نقطہ اصل موضوع بھی نہیں ہے، اس لئے اس کا جواب بھی درکار نہیں۔ اصل مقصد آپ کی توجہ اولم یر الذین کے الفاظ کی طرف دلانا ہے۔
2- تخلیق ایک مکمل عمل ہے جو تدریجا ہوتا ہے، جیسے عمارت کی تعمیر کو ہی دیکھ لیں، بنیادیں کھودنا، ڈھانچہ کھڑا کرنا، دیواریں بنانا، پلستر کرنا، الیکٹرک وائرنگ وغیرہ وغیرہ، ان سب مراحل کے الگ الگ نام ضرور ہیں لیکن ہیں یہ سب تخلیق کا ہی حصہ۔ بھلے ہی ان مراحل کو دحو اور تسویہ کا نام دے دیجئے لیکن یہ تخلیق کا ہی حصہ ہیں، اس بات کی تائید کیلئے سورۃ لنازعات کی آیت 27 کی تفسیر میں تفسیر جلالین کی عبارت نقل کرتا ہوں:
«أشد خلقا أم السماء» أشد خلقا «بناها» بيان لكيفية خلقها.
یعنی صاحب جلالین نے بناھا کو تخلیق کی ہی کیفیت قرار دیا گیا ہے۔ لہذا یہ مقدمہ مسترد ہے کہ تسویہ، دحو تزئین بالنجوم وغیرہ تخلیق سے کوئی الگ فعل ہیں، بلکہ یہ تخلیق کا ہی حصہ ہیں۔
آیت کی روشنی میں تخلیق کی ترتیب کے بیان میں آپ نے فرمایا:
// (رتق اور فتق کے بعد) خلق أرض - تسویہ سماء (جبکہ وہ پیش کردہ آیات کی روشنی میں دخان کی شکل میں پہلے سے تھا) - دحو ارض وإخراج ماء ومرعی...پس دو دن زمین کے بننے میں، پھر دو دن تسویہ سماء کے - پھر دو دن دحو ارض کے.//
قرآن کی کسی آیت میں یہ نہیں کہا گیا ک یہ ترتیب رتق اور فتق کے بعد کی ہے، یہ آپ کا اپنا بیان ہے۔ کیونکہ رتق و فتق کا مفہوم معین ہی نہیں ہے اور واولم یر الذین کفروا کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ یہ کوئی قابل مشاہدہ عمل تھا۔ اس لئے استمہام انکاری ہے کہ کیا کافروں نے دیکھا نہیں ؟ اگر نا دیکھا ہوتا تو پھر رتق و فتق کی عدم رؤیت کافروں پر بھلا کیسے حجت ہو سکتی ہے ؟
میں نے بھلا کب دعویٰ کیا کہ واؤ مطلقا ترتیب کیلئے آتا ہے ؟ نا ہی حرف واو سے میں نے کہیں ترتیب اخذ کرنے کا کہں کوئی اشارہ دیا ہے، ترتیب تو سورۃ حم سجدہ کی آیت میں تخلیق ارض، دحو اور لوازمات ارض سے فراغت کے بعد ثم اسویٰ الی السماء (پھر اس نے آسمان کی طرف رخ کیا) کے الفاظ سے واضح ہے۔ اور سورۃ النازعات میں و تسویہ سماء (رفع سمکھا فسواھا) کے بعد و الارض بعد ذلک دحاھا کے الفاظ سے ہے۔ اب ثمّ کا حرف تو تراخی کیلئے ہی وضع کیا گیا ہے نا ؟ جیسا کہ الله يبدأ الخلق ثم يعيده اور بعد تاخیر کو ہی بیان کرتا ہے نا ؟ آپ فرمائیں گے عتل بعد ذالک زنیم تو جواب ہے کہ عتل بعد ذالک زنیم کی صورت میں کوئی تدریجی بیان ذکر ہی نہیں ہو رہا اس لئے تقدیم تاخیر اور ترتیب کا کوئی فائدہ ہی نہیں، چاہئے زنیم بعد ذالک عتل کر دیں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا، لیکن و الارض بعد ذلک دحاھا میں ہمارے پاس سوائے اس کے کہ قرآن کی ایک غلطی پر پردہ ڈالا جائے اس کے علاوہ اور کوئی ”قرینہ“ موجود نہیں۔ سارا کام ہی صرف ”بعد ذالک دحاھا“ کے الفاظ نے خراب کیا، اگر صرف یہ الفاظ نہ ہوتے تو کم از کم اس ترتیب والے اعتراض کو بنیاد ہی نہ ملتی۔
اب سورۃ حم سجدہ کے مطابق ترتیب یوں ہوئی:
1- تخلیق ارض 2- متعلقات ارض ( جس میں دحو، ارساء، برکت اور تقدیر اقوات سب کو شامل کرلیجئے) 3- تسویہ سماء
اور سورۃ النازعات کے مطابق ترتیب یوں ہے:
1- تسویہ سماء ( رفع سمکھا فسواھا ) پھر اس کے بعد 2- تخلیق ارض (جسے قرآن نے دحو کہا ہے) اور پھر اس کے بعد 3- اخراج لماء من الارض اور ارساء الجبال
اور ان دونوں ترتیبوں میں فرق بالکل نمایاں ہے۔ اس لئے میرے نزدیک اپ کی اس قدر محنت کے باوجود تضاد جوں کا توں اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
(2)
کمنٹ نمبر 5 کا جواب
چلیں تاکہ آپ بھی یہ نا سمجھیں کہ میں نے ”ہوم ورک“ کے بغیر ہی اعتراض کر دیا ہے آپ کی خدمت میں مستدرک ابن حاکم کی یہ روایت پیش خدمت ہے جس سے ترتیب تخلیق خوب واضح ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں تخلیق کو باقاعدہ دنوں پر تقسیم کرکے بیان کیا گیا ہے، جس کی وضاحت کے بعد آپ کی بیان کردہ ترتیب تو بالکل ہی غلط ثابت ہو جاتی ہے، اور اب یہ کام آپ کا ہوگا کہ ترجمان القرآن حبر الامۃ کا قول زیادہ قابل قبول ہے کہ رسول اللہ کا قول:
[ ص: 409 ] 1543 - بيان خلق السماوات والأرض وآدم
4050 -
أخبرنا أبو سعيد أحمد بن محمد بن عمرو الأخمسي بالكوفة ، ثنا الحسين بن الربيع ، ثنا حماد بن السري ، ثنا أبو بكر بن عياش ، عن أبي سعيد ، عن عكرمة ، عن ابن عباس - رضي الله عنهما - أن اليهود أتت النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - فسألته عن خلق السماوات والأرض ، فقال : " خلق الله الأرض يوم الأحد والاثنين ، وخلق الله الجبال يوم الثلاثاء وما فيهن من منافع ، وخلق يوم الأربعاء الشجر والماء والمدائن والعمران والخراب فهذه أربعة ، فقال عز وجل : ( أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين وتجعلون له أندادا ذلك رب العالمين وجعل فيها رواسي من فوقها وبارك فيها وقدر فيها أقواتها في أربعة أيام سواء للسائلين ) ، وخلق يوم الخميس السماء ، وخلق يوم الجمعة النجوم والشمس والقمر والملائكة الخ
هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه .

ترجمہ: حضرت ابن عباس سے ہی مروی ہے کہ یہودی، رسول اللہ کے پاس آئے اور اور ان سے تخلیق آسمان و زمین سے متعلق سوال کیا۔ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ نے پیر اور منگل کے دن زمین کو تخلیق کیا، اور پہاڑوں اور ان میں موجود منافع کو منگل کے دن، اور بدھ کے دن درخت، پانی، شہر، آبادی و بربادی، تو یہ چار دن ہوئے، جیسے کہ قرآن میں اللہ نے کہا کہ ( أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين وتجعلون له أندادا ذلك رب العالمين وجعل فيها رواسي من فوقها وبارك فيها وقدر فيها أقواتها في أربعة أيام سواء للسائلين ) اور جمعرات کے دن آسمان کو پیدا کیا، اور جمعہ کے دن ستارے، سورج، چاند اور فرشتے پیدا کئے۔
لیجئے جناب آپ کا قائم کردہ تمام تر مقدمہ اس حدیث نے ڈھیر کر دیا۔
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
(3)
کمنٹ نمبر 6 کا جواب
آپ نے فرمایا:
// خلاصہ یہ ہے کہ آپ کا یہ اعتراض پوری طرح آپ کے ذہن وفہم کا داخلی تضاد وخلط اور اندرونی انتشار واضطراب ثابت ہوچکا! رہیں قرآن مجید کی آیات تو ان میں کہیں سے کہیں تک، دور دور کا بھی کوئی تعارض سرے سے بن ہی نہیں سکتا! اور اس میں کوئی گنجائش کہیں سے بھی کسی اعتراض کی باقی نہیں بچی... امید کہ اگلا اعتراض ذرا دیکھ بھال کر اور غور کرکے پیش فرمائیں گے کہ آیا وہ واقعی تضاد ہے یا کہ کج فہمی!؟! //

اب آپ اپنا ہی یہ کمنٹ دوبارہ پڑھئے اور کمنٹ نمبر 5 کے جواب میں میری طرف سے پیش کردہ حدیث کو بھی پڑھئے، اور ذرا غور کیجئے۔ جو اعتراض میں نے وارد کیا درحقیقت یہ حدیث بھی وہی اعتراض ہی وارد کر رہی ہے۔
قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ میرے کمنٹ میں کوئی بات قابل توضیح ہو تو مجھ سے میری ٹائم لائن پر کسی بھی پوسٹ پر کمنٹ کرکے یا پھر ان باکس میں رابطہ کر سکتے ہیں۔ شکریہ
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
جواب الجواب مرزا احمد وسیم بیگ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب نمبر 2
(7)
اب تك كی بحث كا نتیجہ واضح ہے كہ تضاد ثابت كرنے میں آپ ناكام رہے ہیں، اس لئے كہ تضاد صرف اسی صورت میں ثابت ہوسكتا تھا جب كہ آیات كا كوئی ایسا مطلب ثابت ہوتا جس كو لینے كے سوا كوئی چارہ نہ ہوتا، یہاں تو متعدد آپشنز ہیں آپ كے سامنے، (جن میں سے كسی كو بھی اختیار كرنے سے اصل مقصود آیات پر كوئی فرق نہیں پڑتا) اور جن میں سے كسی میں بھی كوئی ایسی صورت نہیں بنتی جس میں تعارض ہو!!ہاں زبردستی كی بات دوسری ہے!! جیسا كہ تفصیلی جواب سے سامنے آئے گا! البتہ آپ كی پوری جدوجہد اور سعی كا خلاصہ یہ ہے كہ اب قرآن كو ہم آپ سے پوچھ پوچھ كر سمجھیں!!

//1- رتق و فتق کے متعلق خود مفسرین کا ہی کہنا ہے کہ اس سے مراد آسمان سے بارش کا نا برسنا اور زمین کا بنجر ہونا مراد ہے، یعنی دونوں اپنی فعالیت سے رکے ہوئے تھے کہ اللہ نے انہیں فعال کر دیا، اس لئے آیت کے ابتداء میں ا و لم یر الذین کفروا (کیا کافروں نے یہ نہیں دیکھا) بھی کہا گیا ہے، اگر یہ تخلیق زمین آسمان کا ہی کوئی مرحلہ ہوتا تو ابتدائے آیت میں اولم یر الذین کا کیا مطلب ؟ خیر یہ نقطہ اصل موضوع بھی نہیں ہے، اس لئے اس کا جواب بھی درکار نہیں۔ اصل مقصد آپ کی توجہ اولم یر الذین کے الفاظ کی طرف دلانا ہے۔ //
--------
جناب میں بھی اس میں زیادہ گہرائی میں نہیں جانا چاہتا لیکن مفسرین کے بارے میں ایک اہم بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ مفسرین اپنے اپنے دور کی علمیت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں، لہذا مفسرین پر اپنے استدلال کی بنیاد ہم نہیں رکھتے اور نہ مفسرین ہمارا موضوع ہیں... ہمارا موضوع قران كریم ہے!!
اور یہاں تو صحابہ سلف سے دونوں قول مروی ہیں، تو کیوں آپ اس معنی پر اصرار کررہے ہیں کہ لغت اور سیاق بھی تنہا جسے مراد لینے سے مانع ہیں، کیونکہ رتق عربی كی ہر لغت میں جڑے ہونے ، ملے ہونے کے معنی میں ہے، اور سیاق واضح طور پر کائنات کی تخلیق اور بدء خلق کا ہے...
اور علی کل حال دونوں تفسیروں میں ہمارے نزدیک کوئی تعارض بھی نہیں... جیسا کہ ابن کثیر نے دونوں معنی کو جمع کردیا ہے! تو ایك تفسیر سے دوسری كو رد كرنے كی آپ كی ساری سعی لا حاصل ہے!!جسے زبردستی كے سوا كوئی نام نہیں دیا جاسكتا!
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
(8)
//2- تخلیق ایک مکمل عمل ہے جو تدریجا ہوتا ہے، جیسے عمارت کی تعمیر کو ہی دیکھ لیں، بنیادیں کھودنا، ڈھانچہ کھڑا کرنا، دیواریں بنانا، پلستر کرنا، الیکٹرک وائرنگ وغیرہ وغیرہ، ان سب مراحل کے الگ الگ نام ضرور ہیں لیکن ہیں یہ سب تخلیق کا ہی حصہ۔ بھلے ہی ان مراحل کو دحو اور تسویہ کا نام دے دیجئے لیکن یہ تخلیق کا ہی حصہ ہیں، اس بات کی تائید کیلئے سورۃ لنازعات کی آیت 27 کی تفسیر میں تفسیر جلالین کی عبارت نقل کرتا ہوں:
«أشد خلقا أم السماء» أشد خلقا «بناها» بيان لكيفية خلقها.
یعنی صاحب جلالین نے بناھا کو تخلیق کی ہی کیفیت قرار دیا گیا ہے۔ لہذا یہ مقدمہ مسترد ہے کہ تسویہ، دحو تزئین بالنجوم وغیرہ تخلیق سے کوئی الگ فعل ہیں، بلکہ یہ تخلیق کا ہی حصہ ہیں۔//
--------
تخلیق جب مستقلا استعمال ہو تو یقینا یہ سارے مراحل اس میں شامل ہوسکتے ہیں... آپ کا یہ کہنا کہ لازما یہ سارے مراحل ہر ہر جگہ خلق میں شامل مانے جائیں، صرف زبردستی والی بات ہے! چنانچہ قرآن کی آیات: الذي خلقك فسواك فعدلك ..... الذي خلق فسوى ......... وإذ تخلق من الطين کھیئۃ الطیر فتنفخ فیہ........ وغیرہ اس کی دلیل ہیں.. معلوم ہوا کہ تخلیق صرف عدم سے وجود میں لانے کو بھی کہتے ہیں، صرف ڈھانچہ بنانے کو بھی کہتے ہیں... اور تسویہ وغیرہ اس کے بعد کا مستقل مرحلہ شمار ہوتے ہیں...
جہاں تک دحو کی بات ہے تو اس کی تشریح خود قرآن کی اگلی آیت کر رہی ہے، اخرج منھا ماءھا ومرعاھا... ظاہر ہے کہ یہ اصل تخلیق کے بعد ہی کا مرحلہ ہے...
بالفاظ دیگر جب یہ سارے مراحل خود آپ کے نزدیک "تخلیق کا حصہ" ہیں، تو تخلیق کا اطلاق ان میں سے کسی بھی مرحلے پر ہوسکتا ہے، اور اصل تخلیق یعنی عدم سے وجود میں لانے پر تو بدرجہ اولی ہوسکتا ہے... ہر ہر جگہ تخلیق سے یہ تمام مراحل مراد ہوں یہ ضروری نہیں...
اواس کی دلیل تو خود زیر بحث آیات میں بھی ہے، ثم استوی الی السماء وهی دخان... آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو دھواں سا تھا.....معلوم ہوا کہ آسمان تھا، پھر اس کے بعد فرمایا فقضاھن سبع سماوات... پھر انہیں سات آسمان بنایا..
اسی طرح وجعل فیہا رواسی ۔ ۔ ۔الخ میں ہے، كہ اس میں میخیں گاڑیں، اگر زمین پہلے سے "خلق" نہیں كی جاچكی تھی تو كس میں میخیں گاڑیں؟؟؟
تو جب تخلیق مراحل میں ہے جیسا کہ آپ کو تسلیم ہے تو تضاد کیسا؟آخر آپ كو كیا خلط ہو رہا ہے؟؟ تخلیق كا حصہ ہیں تو اس سے كیا ثابت ہوا؟ كہ یكبارگی سب مراحل طے ہوگئے؟؟ یعنی یہ كون سی منطق ہے؟؟ مختلف مراحل میں اس عظیم کائنات کی تخلیق ہوئی... اور الگ الگ جگہوں پر الگ مراحل کا ذکر ہے.... اور ان مراحل كو قران كے مختلف بیانات كے ذریعے تر تیب دیا جاسكتا ہے!!! تضاد كا یہاں كیا گزر؟؟
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
(9)
//قرآن کی کسی آیت میں یہ نہیں کہا گیا ک یہ ترتیب رتق اور فتق کے بعد کی ہے، یہ آپ کا اپنا بیان ہے۔ کیونکہ رتق و فتق کا مفہوم معین ہی نہیں ہے اور واولم یر الذین کفروا کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ یہ کوئی قابل مشاہدہ عمل تھا۔ اس لئے استمہام انکاری ہے کہ کیا کافروں نے دیکھا نہیں ؟ اگر نا دیکھا ہوتا تو پھر رتق و فتق کی عدم رؤیت کافروں پر بھلا کیسے حجت ہو سکتی ہے ؟//
----
قرآن نے بے شک ترتیب كی صراحت نہیں كی، لیكن جو كچھ آپ كہہ رہے ہیں وہ بھی آپ كا اپنا بیان ہے! فرق یہ ہے كہ میں قرآن كی مختلف نصوص كو جمع كركے ایك ایسے نتیجے تك پہنچ رہا ہوں، جس كی آیات یقینا متحمل ہیں،كیونكہ القرآن یفسر بعضہ بعضا، قرآنی آیات ایك دوسرے كی تشریح كرتی ہیں!! اور آپ قرآن كی نصوص كے ساتھ زبردستی كركے ان كو آپس میں ٹكرانے كی ناكام كوشش كر رہے ہیں، جس كی آیات متحمل ہی نہیں ہیں!
آپ كا یہ فرمانا كہ اولم یر الذین كفروا كے الفاظ دلالت كررہے ہیں كہ یہ كوئی قابل مشاہدہ عمل تھا! لغت اور قرآن دونوں سے تجاہل عارفانہ ہے!!! رؤیۃ لغت میں ہرگز صرف سر كی آنكھوں سے دیكھنے كا نام نہیں!! قران كریم كی مندرجہ ذیل آیات پر غور فرمائیں:
ألم تروا كيف خلق الله سبع سماوات طباقا (اب كیا آپ كہیں گے كہ سات آسمانوں كی طبق در طبق تخلیق بھی قابل مشاہدہ عمل تھی؟؟)
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (اور واضح ہے كہ اصحاب فیل كاواقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی پیدائش سے پہلے كا ہے)
أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِعَادٍ (عاد كے ساتھ رب نے جو كیا، اس كا مشاہدہ بھی كسی نے نہیں كیا! ہاں، اس كے آثار وہ ضرور دیكھ سكتے تھے!! اسی طرح اللہ نے زمین وآسمان كو جدا كركے زندگی كے لائق بنایا، اس كا مشاہدہ بھی وہ كرسكتے تھے!!)
اور مثالیں اس كی بكثرت ہیں!! ((أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ ، وغیرہ ))
ایك اہم بات اور كہتا چلوں كہ الذین كفروا عام ہے، اور قیامت تك آنے والے كفار اس میں شامل ہیں!! اور یہاں كوئی معجزہ دكھا كر حجت نہیں قائم كی جارہی، بلكہ زمین وآسمان میں پھیلی اللہ كی عمومی نشانیوں پر غور كرنے كی دعوت دی جارہی ہے!! پس خالق كی حجت كامل ہے!!
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
(9)
//قرآن کی کسی آیت میں یہ نہیں کہا گیا ک یہ ترتیب رتق اور فتق کے بعد کی ہے، یہ آپ کا اپنا بیان ہے۔ کیونکہ رتق و فتق کا مفہوم معین ہی نہیں ہے اور واولم یر الذین کفروا کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ یہ کوئی قابل مشاہدہ عمل تھا۔ اس لئے استمہام انکاری ہے کہ کیا کافروں نے دیکھا نہیں ؟ اگر نا دیکھا ہوتا تو پھر رتق و فتق کی عدم رؤیت کافروں پر بھلا کیسے حجت ہو سکتی ہے ؟//
----
قرآن نے بے شک ترتیب كی صراحت نہیں كی، لیكن جو كچھ آپ كہہ رہے ہیں وہ بھی آپ كا اپنا بیان ہے! فرق یہ ہے كہ میں قرآن كی مختلف نصوص كو جمع كركے ایك ایسے نتیجے تك پہنچ رہا ہوں، جس كی آیات یقینا متحمل ہیں،كیونكہ القرآن یفسر بعضہ بعضا، قرآنی آیات ایك دوسرے كی تشریح كرتی ہیں!! اور آپ قرآن كی نصوص كے ساتھ زبردستی كركے ان كو آپس میں ٹكرانے كی ناكام كوشش كر رہے ہیں، جس كی آیات متحمل ہی نہیں ہیں!
آپ كا یہ فرمانا كہ اولم یر الذین كفروا كے الفاظ دلالت كررہے ہیں كہ یہ كوئی قابل مشاہدہ عمل تھا! لغت اور قرآن دونوں سے تجاہل عارفانہ ہے!!! رؤیۃ لغت میں ہرگز صرف سر كی آنكھوں سے دیكھنے كا نام نہیں!! قران كریم كی مندرجہ ذیل آیات پر غور فرمائیں:
ألم تروا كيف خلق الله سبع سماوات طباقا (اب كیا آپ كہیں گے كہ سات آسمانوں كی طبق در طبق تخلیق بھی قابل مشاہدہ عمل تھی؟؟)
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (اور واضح ہے كہ اصحاب فیل كاواقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی پیدائش سے پہلے كا ہے)
أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِعَادٍ (عاد كے ساتھ رب نے جو كیا، اس كا مشاہدہ بھی كسی نے نہیں كیا! ہاں، اس كے آثار وہ ضرور دیكھ سكتے تھے!! اسی طرح اللہ نے زمین وآسمان كو جدا كركے زندگی كے لائق بنایا، اس كا مشاہدہ بھی وہ كرسكتے تھے!!)
اور مثالیں اس كی بكثرت ہیں!! ((أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ ، وغیرہ ))
ایك اہم بات اور كہتا چلوں كہ الذین كفروا عام ہے، اور قیامت تك آنے والے كفار اس میں شامل ہیں!! اور یہاں كوئی معجزہ دكھا كر حجت نہیں قائم كی جارہی، بلكہ زمین وآسمان میں پھیلی اللہ كی عمومی نشانیوں پر غور كرنے كی دعوت دی جارہی ہے!! پس خالق كی حجت كامل ہے!!
 

میاں عمران

رکن ختم نبوت فورم
مرزا احمد وس
(10)
//میں ںے بھلا کب دعویٰ کیا کہ واؤ مطلقا ترتیب کیلئے آتا ہے ؟ نا ہی حرف واو سے میں نے کہیں ترتیب اخذ کرنے کا کہں کوئی اشارہ دیا ہےترتیب تو سورۃ حم سجدہ کی آیت میں تخلیق ارض، دحو اور لوازمات ارض سے فراغت کے بعد ثم اسویٰ الی السماء (پھر اس نے آسمان کی طرف رخ کیا) کے الفاظ سے واضح ہے۔اور سورۃ النازعات میں و تسویہ سماء (رفع سمکھا فسواھا) کے بعد و الارض بعد ذلک دحاھا کے الفاظ سے ہے۔ اب ثمّ کا حرف تو تراخی کیلئے ہی وضع کیا گیا ہے نا ؟ جیسا کہ الله يبدأ الخلق ثم يعيده اور بعد تاخیر کو ہی بیان کرتا ہے نا ؟ آپ فرمائیں گے عتل بعد ذالک زنیم تو جواب ہے کہ عتل بعد ذالک زنیم کی صورت میں کوئی تدریجی بیان ذکر ہی نہیں ہو رہا اس لئے تقدیم تاخیر اور ترتیب کا کوئی فائدہ ہی نہیں، چاہئے زنیم بعد ذالک عتل کر دیں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا، لیکن و الارض بعد ذلک دحاھا میں ہمارے پاس سوائے اس کے کہ قرآن کی ایک غلطی پر پردہ ڈالا جائے اس کے علاوہ اور کوئی ”قرینہ“ موجود نہیں۔ سارا کام ہی صرف ”بعد ذالک دحاھا“ کے الفاظ نے خراب کیا، اگر صرف یہ الفاظ نہ ہوتے تو کم از کم اس ترتیب والے اعتراض کو بنیاد ہی نہ ملتی۔ //
----
ثم یقینا تراخی كے لئے آتا ہے، لیكن صرف ثم سے آپ كی كشیدكاری مكمل نہیں ہورہی، جب تك كہ آپ آیت "قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ " جس میں خلق كو مستقلا بیان كردیا گیا، اوراگلی آیت میں زمین كے متعلقات كو واو كے ذریعے جمع كیا گیا، "وجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ " كو آپس میں زبردستی نتھی نہ كریں! اور ان كے یقینا ایك وقت میں وقوع پذیر ہونے اور درمیان میں فصل نہ ہونے پر بلا دلیل اصرار نہ كرلیں! آپ كے اسی استدلال كے جواب میں میں نے عرض كیا كہ واو سے اگر آپ ایسا كوئی معنی كشید كر رہے ہیں، تو واو اس كا متحمل نہیں ہے!! اور ہم نے جو اسے مؤخر مانا تو نازعات كی اسی آیت كی دلیل سے جسے بڑے زور وشور سے آپ ہی پیش فرمارہے ہیں!! اور لغت ہرگز اس میں مانع نہیں ہے! اور وقوع میں مؤخر ہونے،جیسا كہ نازعات سے معلوم ہوتا ہے، كے باوجود اس كو یہاں خلق (كو مستقلا الگ سے ذكر دیے جانے كے بعد ، اس) كے ساتھ جمع كرنے كی معقول وجہ ہم نے بتائی! (اس كے لئے ہمارے كل كے كمنٹ نمبر چار كے آخری پیرا كی طرف رجوع كیا جائے) اور دنیا كی ہر زبان ميں ایسے جملہ ہائے معترضہ كی بھرپور گنجائش موجود ہے!! اس گنجائش پر قدغن زبردستی نہیں تو اور كیا ہے؟؟
ثم حرف عطف ہے، تو اس كا عطف كس پر ہے؟؟ ہم نے بوجوہ كہا كہ "خَلَقَ الارضَ ..." پر ہے!! اور زبان وبیان میں اس كی بھر پور گنجائش موجود ہے!!
رہا سادے مفہوم پر آپ كا اعتراض تو وہ بھی بے جا ہے! "کہ عتل بعد ذالک زنیم کی صورت میں کوئی تدریجی بیان ذکر ہی نہیں ہو رہا " تو جناب، ہم نے آپ سے عرض كیا كہ تخلیق كی ترتیب كا بیان یہاں مقصود ہی نہیں!، بلكہ مطلق اللہ كی عظمت كا بیان مقصود ہے، تو بس اللہ اپنی مخلوقات كا ذكر فرما رہا ہے، اسے تدریجی بیان ماننے پر كیوں اصرار كیا جائے؟؟ رہا قرینہ تو وہ بھی موجود ہے! معاملہ اشد خلق كا ہے، تو پہلے آسمان كا ذكر كیا گیا، "اس كے بعد" زمین كا ذكر!! یعنی كہا یہ جارہا ہے كہ "تمہارا پیدا كرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان كا جسے اللہ نے بنایا۔ ۔ ۔ پھر اس كے بعد زمین كو اللہ نے بچھایا؟؟" تو اس میں كس عقل مند كو ترتیب تخلیق نظر آرہی ہے؟؟ یہی حال وہاں بھی ہے! یعنی اگر سارے كام ایك ساتھ چل رہے ہوں، تب بھی كوئی عجیب بات نہیں!
غرض یوں سمجھ لیں یا یوں، تعارض وتضاد كہیں سے بھی نہیں بن رہا!!سوائے اس كے آپ یہاں بھی زبردستی كریں اور وہاں بھی!!

(12)
//چلیں تاکہ آپ بھی یہ نا سمجھیں کہ میں نے ”ہوم ورک“ کے بغیر ہی اعتراض کر دیا ہے آپ کی خدمت میں مستدرک ابن حاکم کی یہ روایت پیش خدمت ہے جس سے ترتیب تخلیق خوب واضح ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں تخلیق کو باقاعدہ دنوں پر تقسیم کرکے بیان کیا گیا ہے، جس کی وضاحت کے بعد آپ کی بیان کردہ ترتیب تو بالکل ہی غلط ثابت ہو جاتی ہے، اور اب یہ کام آپ کا ہوگا کہ ترجمان القرآن حبر الامۃ کا قول زیادہ قابل قبول ہے کہ رسول اللہ کا قول:
[ ص: 409 ] 1543 - بيان خلق السماوات والأرض وآدم
4050 - أخبرنا أبو سعيد أحمد بن محمد بن عمرو الأخمسي بالكوفة ، ثنا الحسين بن الربيع ، ثنا حماد بن السري ، ثنا أبو بكر بن عياش ، عن أبي سعيد ، عن عكرمة ، عن ابن عباس - رضي الله عنهما - أن اليهود أتت النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - فسألته عن خلق السماوات والأرض ، فقال : " خلق الله الأرض يوم الأحد والاثنين ، وخلق الله الجبال يوم الثلاثاء وما فيهن من منافع ، وخلق يوم الأربعاء الشجر والماء والمدائن والعمران والخراب فهذه أربعة ، فقال عز وجل : ( أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين وتجعلون له أندادا ذلك رب العالمين وجعل فيها رواسي من فوقها وبارك فيها وقدر فيها أقواتها في أربعة أيام سواء للسائلين ) ، وخلق يوم الخميس السماء ، وخلق يوم الجمعة النجوم والشمس والقمر والملائكة الخ
هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه .
ترجمہ: حضرت ابن عباس سے ہی مروی ہے کہ یہودی، رسول اللہ کے پاس آئے اور اور ان سے تخلیق آسمان و زمین سے متعلق سوال کیا۔ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ نے پیر اور منگل کے دن زمین کو تخلیق کیا، اور پہاڑوں اور ان میں موجود منافع کو منگل کے دن، اور بدھ کے دن درخت، پانی، شہر، آبادی و بربادی، تو یہ چار دن ہوئے، جیسے کہ قرآن میں اللہ نے کہا کہ (أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين وتجعلون له أندادا ذلك رب العالمين وجعل فيها رواسي من فوقها وبارك فيها وقدر فيها أقواتها في أربعة أيام سواء للسائلين) اور جمعرات کے دن آسمان کو پیدا کیا، اور جمعہ کے دن ستارے، سورج، چاند اور فرشتے پیدا کئے۔
لیجئے جناب آپ کا قائم کردہ تمام تر مقدمہ اس حدیث نے ڈھیر کر دیا۔//
-----------
گزارش ہےكہ بحث كو اس كی حدود میں ركھیں، آپ كا مقدمہ قرآن كے اندر تضاد دكھانا ہے، نہ كہ قرآن اور احادیث میں تضاد دكھا نا!! لہذا روایات سے میرا مقدمہ ڈھیر كرنے كے چكر میں آپ اپنا ہی مقدمہ ڈھیر كر رہے ہیں!
رہی روایت تو مختصر جواب اس كا بھی سن لیجئے، كہ ضعیف ہے! ذہبی نے مستدرك حاكم پر اپنی تعلیق میں حاكم كے قول كو مسترد كرتے ہوئے كہا ہے: "أبو سعيد البقال قال ابن معين : لا يكتب حديثه ." تو جناب اس كی سند میں ایك راوی ابو سعید سعید بن المرزبان البقال ہے ، جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
لہذا آپ كا بلڈوزر خود آپ پر ہی آرہا! :)
ختم شد
 
Top