ملحد ایاز نظامی اور مرزا احمد وسیم کا تحریری مناظرہ
اس تحریری مکالمہ کی مکمل صورت حال فیس بک پر اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں
Ayaz Nizami
November 2 at 12:23am
میرے اور مولانا احمد وسیم بیگ صاحب کے درمیان گفتگو کا موضوع ”کیا قرآن انسانی کلام ہے؟‘ طے ہوا ہے، اس مکالمے میں ہم دونوں اپنے انے موقف کے دلائل پیش کریں گے۔ ایک عالم دین سے مباحثے کا مقصد قران و حدیث کے مطالعے کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ آیا قرآن و حدیث کی تعلمیات کی روشنی میں قرآن اللہ کا کلام ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔
میرا موقف ہے کہ قرآن انسانی کلام ہے، یہ کلام الٰہی نہیں ہے، خود قرآن نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 82 میں کہا ہے کہ:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾
ترجمہ : کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔
ہمیں خود قرآن کا یہ قائم کردہ معیار قبول ہے، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن اپنے قائم کردہ اس معیار پر پورا نہیں اترتا، قرآن میں داخلی تضادات بھی موجود ہیں اور خارجی تضادات بھی، داخلی تضادات سے مراد قرآن کی آیات کا باہمی تضاد اور خارجی تضاد سے مراد قران کا سائنسی مسلمات، تاریخ اور دیگر علوم سے تضاد مراد ہے۔ ابتدائی طور پر قرآن کی آیات کے باہمی تضادات سے آغاز کرتا ہوں، میرے نزدیک قرآن کا سب سے بڑا داخلی تضاد سورۃ فصلت کی آیات 9 تا 12 اور سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 کے مابین واقع ہے۔ یہاں ان آیات کو درج کرتا ہوں:
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾
ترجمہ: کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھیراتے ہو وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے (9) اور اس نے زمین میں اوپر سے پہاڑ رکھے اور اس میں برکت دی اور چار دن میں اس کی غذاؤں کا اندازہ کیا (یہ جواب) پوچھنے والوں کے لیے پورا ہے (10) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھؤاں تھا پس اس کو اور زمین کو فرمایا کہ خوشی سے آؤ یا جبر سے دونوں نے کہا ہم خوشی سے آئے ہیں (11) پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا اور ہم نے پہلے آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور حفاظت کے لیے بھی یہ زبردست ہر چیز کے جاننے والے کا اندازہ ہے (12)
اور ان آیات کا سورۃ النازعات کی آیات 27 تا 30 سے موازنہ دیکھئے :
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾
کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے (27) ا سکی چھت بلند کی پھر اس کو سنوارا (28) اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کے دن کو ظاہر کیا (29) اور اس کے بعد زمین کو بچھا دیا (30)
یہ ایک واضح تضاد ہے کہ سورۃ فصلت کی آیات میں پہلے زمین کی تخلیق کا ذکر ہے، اور بعد میں آسمان کی تخلیق کا ذکر، جبکہ سورۃ لنازعات کی آیات میں پہلے آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے اور آسمان کی تخلیق کے بعد زمین کی تخلیق کا ذکر ہے۔
مدیر کی آخری تدوین
: