• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ملعون قادیانی جمیل الرحمن کی توہین۔ خداوندی اور توہین۔ قرآن کا کا ناقابل۔ تردید ثبوت

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پاکستان کے روشن خیال دھریے اورمصلحت پسند شاعروں کا پسندیدہ دوست ؛ پاکستانی کی تباھی اور بربادی کی پیشین گوییاں کرنے والا ایک غدار۔ وطن ؛ اسلام سے بغاوت کر کے مرتد ھو جانے وا ایک پاگل بدبخت قادیانی پادری جمیل الرحمن بھی اپنے شاتم۔ اسلام شاتم۔ انبیاء شاتم۔ صحابہ شاتم۔ اھل۔ بیت دجالی فتنے مرزا قادیانی کی طرح توہین۔ اسلام ؛ توہین۔ قران۔ مجید اورحتی کہ اللہ تعالی کی ذات۔ با برکت کیلیے ”اللہ کی اصلیت” جیسے کافرانہ الفاظ اور توھین آمیز زبان بولنے پر اتر آیا ھے ؛ پاکستان سے بھگ کراسلام دشمن گوروں کی گود اورکفار کی سرزمین انگلینڈ میں بیٹھا پاگل بدبخت کھلم کھلا یہ شیطانی دعوی کر رھا ھے کہ نعوذ باللہ االہ کی نازل کردہ کتاب قرآن مجید میں تضاد موجود ھے ۔ اس شیطانی قادیانی کے الفاظ اور ان کے جواب میں اسلام کے ایک عظیم سکالر جناب آصف بھٹی صاحب کا مدلل جواب پیش کر رھا ھوں جو ان روشن خیال اور سیکولر مسلمانوں کی غیرت جگانے کیلیے کافی ھے جو سلمان رشدی سے بڑے اس لعنتی کرداراور اس کے اسلام دشمن قادیانی ساتھیوں کو ابھی تک اپنی شاعری ٹیگ کرتے اور اس کی شاعری کے قصیدے پڑھتے ہیں ۔ ذرا اس بد بخت انسان جمیل الرحمن کے کافرانہ عقاید دیکھیے اور پھرقرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کے مجاھد جناب آصف بھٹی صاحب کا مدلل جواب دیکھیے





بد بخت قادیانی پادری جمیل الرحمن کا بیان ۔



1- PROOF OF INSULT OF ISLAM & QURRAN

Jameelur Rahman

جناب آصف بھٹی۔۔مین آپ کی کج بحثی کا عینی گواہ ہوں۔یہ اور بات کہ جب تک ضروری نہ ہو میں مداخلت نہین کرتا۔آپ کو حضرت مرزا صاحب کی تحریروں میں تضادات دکھانے کا بہت شوق ہے۔کہئے ایسے کتنے تضادات آپ قرآن سے دیکھنا چاہین گے؟گن کر تعین کیجئے۔مین آپ کو دکھاؤں گا۔آپ کو مرزا صاحب کی تحریر لغو اس لئے لگتی ہے کہ آپ جاہل ہیں۔ورنہ آپ کے پہاڑوں جیسے عالم بھی مرزا ساحب سے پنجہ آزمائی کرا کر منہ کی ہی نہیں کھا چکے بلکہ علمی رسوائی بھی کرا چکے ہیں۔اگر وہ شخص خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو آپ جیسے بھیڑئیے تو اس تنہا وجود کو کچا ہی چبا جاتے۔یہ جو باسی کڑھی میں رہ رہ کر ابال اٹھتا ہے ۔یہ بھی اسی احساس شکست کا آئینہ دار ہے۔اب اتنی دلیلوں کے باوجود آپ کو یہ سمجھ نہین آ رہی کہ زبور شاعری کیسے ہے اور قرآن کے اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ ہم نے اسے شاعری کرنا نہیں سکھایا۔یعنی وہ نکتہ ہی آپ پر نہین کھل رہا جو ایک متقی اور پاک نفس انسان پر کھلنا چاہئے۔اسی لئے قرآن میں سورۃ البقرہ کی تیسری آیت ہی یہی ہے کہ اس میں متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔کیا یہ بیان آپ کو عجیب نہیں لگتا ؟جو پہلے ہی متقی ہے اسے ہدایت کی کیا ضرورت ہے؟اپنے کسی مولوی سے اس کا جواب پوچھ کر لکھئے گا۔خیر یہ تو ایک جملہ ء معترضہ تھا ۔اصل بات یہ ہے کہْ قرآن جسے شاعری کہتا ہے وہ نہ آنحضرتﷺ نے کی نہ مرزاصاحب علیہ السلام نے۔شجاعت،بہادری اور نیک خصائل کا عام فہم بیان شاعری نہین ہوتا۔اسلام کا پیغام منظوم حالت مین شاعری نہین کہلائے گا ۔عرب میں شاعری اٹکل پچو اور بلند و مزیّن تخیل کا نام تھا۔جیسے امرا ء القیس کہتا ہے کہ میری محبوبہ کی اندام نہانی اتنی بڑی ہے کہ اس میں سے سامان بردار اونٹوں کی ایک پوری قطار گزر سکتی ہے۔یہ تھی وہ شاعری جس کا قرآن انکار کر رہا ہے۔اب آپ نے عربی شاعری پڑھی ہو تو آپ کو پتہ ہو کہ عربوں کے نزدیک شاعری کا کیا مفہوم تھا۔آپ کو اپنے ایمان پر بڑا بھروسہ ہے مگر مین شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں ایک بھی اعتراض اسلام اور سیرت پر کر دون تو آپ کو بھاگنے کی بھی جگہ نہیں ملے گی۔اور ایمان کی ساری عمارت دھڑام سے زمین پر آ گرے گی۔آپ کو پتہ ہے ۔ہم میں اور آپ میں فرق کیا ہے ۔؟آپ لوگ شیخ چلی اور اندھے مقلد ہیں۔اسلام پر کئے گئے ایک وار کا جواب بھی نہیں دے سکتے ۔اگر مرزا صاحب نہ ہوتے تو آج آپ بھی شاید آصف بھٹی کے بجائے آصف مسیح ہوتے ۔ویسے بھی آپ کا نام یہودیوں کا پسندیدہ نام ہے۔ہم اندھے مقلد نہیں ۔ہمارا ہر بچہ بھی آپ جیسوں کو علمی سطح پر شکست دے سکتا ہے ۔آپ کی علمی قابلیت اورمذہبی فہم کا حال میں فیس بک پر دیکھ چکا ہوں ۔لہذا آپ ہمارے ان احمدی نو نہالوں سے بحث کیجئے ۔مجھ سے بحث آپ کو بہت مہنگی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



2- PROOF OF INSULT OF ALMIGHTY ALLAH , QURRAN & ISLAM

Jameelur Rahman آصف بیٹے۔۔تمہاری شکست کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ کوئی دلیل دینے کے بجائے تم نے پھر شیخ چلی کی سی بات کی ہے اور سلطان راہی کی طرح بڑھکیں ماری ہیں۔کافی تکلیف میں لگتے ہو۔تمہین تضادات میں دکھاؤں گا ۔ذرا دیکھوں تو سہی ۔کتنا دم خم ہے تم میں؟ میرے تین سوالوں کے جواب دو۔۱۔قرآن کا پہلا تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ سب کو ہدایت دینے کی بات کرتا ہے کہ اس میں سب کے لئے شفا ہے اور دوسری طرف پہلے پارے کی دوسری سورت کی تیسری آیت میں کہتا ہے کہ اس میں صرف متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔تم مجھے یہ بتاؤ جو پہلے ہی ہدایت یافتہ اور متقی ہو اسے قرآن کی کیا ضرورت ہے اور اور وہ شفاالناس والا دعویٰ کہاں گیا؟؟۲۔ہر رسول پہلے سے موجود بگڑی ہوئی قوم کی طرف بھیجا جا تا ہے۔یہاں حضرت آدم پہلے انسان کی حیثیت سے کس بگڑی ہوئی قوم کی طرف آئے تھے؟پھر ہر نبی معصوم ہوتا ہے۔مگر بقول قرآن حضرت آدم نیحوا کے ساتھ مل کر گناہ کیا تو وہ معصومیت کے دعوے کا کیا ہوا؟۳۔پھر تمہیں یہ بات عجیب نہین لگتی کہ ایک طرف تو خدا یہ کہتا ہے کہ جس بات کا میں علم نہ دوں وہ کسی کو معلوم نہین ہو سکتی۔دوسری طرف پہلے ہی پارے میں دو تضاد آ جاتے ہیں۔۔۔۔۱۔فرشتوں کو یہ علم کہاں سے ہو گیا جب کہ خدا نے بتایا ہی نہین کہ انسان خون بہائے گا یا نہیں بہائے گا ۔۔ ۔فرشتے تصور نہیں کرتے صرف اطاعت کرتے ہین ۔یہان تو سوال و جواب ہو رہے ہیں۔۲۔پھر خدا بغیر علم دئے فرشتون سے اشیا کے نام پوچھ رہا ہے ۔ارے بھائی یہ کیا تماشا ہے ۔ایک طرف تو انہیں علم نہین دیا دوسری طرف سے انہین سوال پوچھ رہے ہو ۔بڑا عجیب خدا ہے۔جسے یہ بھی یاد نہین کہ اس نے فرشتون کو تو اشیا کا علم دیاہی نہین دیا ۔پھر بھی پوچھے جا رہا ہے۔تو بیٹے ان تین سوالوں کے عقلی نقلی جواب لاؤ تو پتہ چلے کہ تم کتنے پانی میں ہو ۔بیٹے میں نے پہلے ہی تمہیں کہا تھا مجھ سے پنگا مت لینا۔تم تو مرزا صاحب کے پیچھے پڑے ہو ۔۔مین تمہیں تمہارے خود ساختہ اسلام کا وہ چہرہ دکھاؤں گا کہ تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ کس بھاؤ بکتی

ہے۔مذہب کی بنیاد خدا کے تصور پر ہے۔ابھی تو مجھے تمہارے خدا کی اصلیت بھی تمہین دکھانی ہے۔تیاری کر لو۔



3- PROOF OF INSULT OF QURRAN & ISLAM

Jameelur Rahman آصف بیٹے۔۔تین تضاد تو میں نے تمہین دکھا دئے ۔اسی طرح کے ہزارون تضاد ہیں۔اگر مرزا صاحب علیہ السلام نہ آتے تو اسلام کا کچھ بھی نہ بچتا۔تمہارے علما نے مرزا صاحب علیہ السلام کے علمی سرمائے کو نہ صرف چوری کیا بلکہ یہ ہمت بھی پائی کہ دیگر مذاہب کے با المقابل آ سکیں۔جس قرآن اور اس کے معانی کی تم بات کرتے ہو اس میں تو کچھ بچا ہی نہین ۔ہان قرآن کی عظمت رفتہ صرف مرزا صاحب علیہ السلام ہی واپس لائے ۔لہذاٰ پہلے تم اپنے اسلام اور قرآن کا دفاع کر کے دکھاؤ۔مرزا ساحب کے بارے میں بعد میں بات کریں گے۔





ایک مسلمان سکالر محترم جناب آصف بھٹی صاحب کا جواب ۔۔۔۔۔۔



باسمِ ربی۔



جناب جمیل الرحمٰن کیا اپنے باپ کو بھی بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے ھو۔ اگر یہی تربیت و اخلاق ھے تو تھیک ھے میں خود کو مثل تمہارا باپ تسلیم کر لیتا ھوں۔ جیسے ہی میں نے آپ کی یہ بات پڑھی کہ قرآن میں تضاد ھے تو سب سے پہلے جو آیات میرے دماغ میں چمکیں وہ سورہ الفصلت کی یہ آیات ِمبارکہ تھی



إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿٤١﴾ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿٤٢۔



ترجمہ۔۔۔ بے شک وہ لوگ جنہوں نے نصیحت سے انکار کیا جب کہ وہ ان کے پاس آئی اور تحقیق وہ البتہ عزت والی کتاب ہے (٤١) جس میں نہ آگے اور نہ پیچھے سے غلطی کا دخل ہے حکمت والے تعریف کیے ہوئے کی طرف سے نازل کی گئی ہے (٤٢)۔



جہاں تک اس بات کا تعلق ھے۔ کہ آپ نے قرآن میں تضاد کا بہتان کیوں باندھا۔ تو یہ آیاتِ مبارکہ احمدیت کے لیے ایک ایسا آئینہ ادراک ھے جو ان کے معیارِ مسلمانی کے فریب کو کھول کر رکھ دیتی ہیں۔



اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ھے حکمِ آذاں لا الہ ال اللہ



اقبال

اسی واسطے میں آذان دیتا ھوں اور دیتا رھونگا۔ یہ میرا شوق نہیں میری مجبوری ھے اور اللہ پاک کی طرف سے فرض۔

آپ نے یہ بھی لکھا کہ

؛؛؛آپ کے پہاڑوں جیسے عالم بھی مرزا ساحب سے پنجہ آزمائی کرا کر منہ کی ہی نہیں کھا چکے بلکہ علمی رسوائی بھی کرا چکے ہیں۔ ؛؛؛

یہ تو مرزا کاذب کی تحریروں سے واضع ھے۔ کیا کسی پایہ کے سکالر نے یہ تسلیم کیا کہ مرزا درست کہتا ھے؟ یا اس نے مرزا کو اپنا آقا تسلیم کیا؟

بڑا عجیب منطق ھے آپ کے پاس، جج بھی گھر کا، مجرم بھی گھر کا، الزام لگانے والا ناموجود اور فیصلہ بھی آپ لوگوں کا۔ اچھی کہی یہی سچ ھے آپ لوگوں کا۔ جس پر اِتراتے پھرتے ھو۔ آپ تو آئے تھے مرزا کاذب کی وکالت کرنے لیکن خود ہی جھوٹ کے سمندر میں غوطے لگاتے پھرتے ھو۔ انصاف سے تو بات کیجئیے۔

محترم اگر مرزا کاذب من جانب اللہ ھوتا تو اسکی کتب تضادات کا مجموعہ نہ ھوتی۔ اسکی گفتگو کسی جاہل اور کافر کی سی نہ ھوتی، اسکی گفتگو اسوہ حسنہ کے خلاف نہ ھوتی۔ اور اسکی موت اس قدر بھیانک اور سبق آموز نہ ھوتی کہ اسکی موت خصوصیت کے ساتھ اسکے کاذب و مفتری ھونے پر مصدق و شہادت بن گئی۔

اب میں آپ کے اصل سوال کی طرف آتا ھوں۔ جو آپ نے سورۃ البقرہ کی تیسری آیت مبارکہ پر اُٹھایا ھے۔



ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾۔ ترجمہ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے (٢)۔

چلیے دیکھتے ہیں کہ آپ کو اس آیت مبارکہ سے کیا شکایت ھے۔ بڑی واضع اور مکمل مفہوم کی آیت ھے۔ کوئی ایسی بات نہیں جس کو آپ عجیب تصور کر رھے ہیں۔ محترم بیان یہ ھے کہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں ھے کن کے لیے ؟ اُن کے لیے جو متقی ہیں۔ اب متقی کسے کہتے ہیں یہ ایک ایسا سوال ھے جس کو جانے بنا آپ کی الجھن سلجھ نہیں سکتی۔

اس کا مادہ و ق ی ھے،،، وقی الشیء یقیہ وقیاوء وقایتہ،،، کسی چیز کی حفاظت کرنا۔ نگہبانی کرنا۔ اسے مضر اور تکلیف دہ چیز سے بچانا۔ چنانچہ گھوڑا چلتے وقت نعل نہ ھونےکی وجہ سے سنبھال سنبھال کر پاوں زمین پر رکھے، خواہ اپنے سم میں درد کی وجہ سے ھو، یا سم کے چھل کر زخمی ھونے اور زمین کے سخت ھونے کی وجہ سے، تو سے ،،، وقٰی الفرسُ من الحفا کہتے ہیں۔ اسی طرح ،،،وقایتہ،،، احتیاط یا محفوظ رکھنے کاذریعہ۔ ،،، سرج واق،،، ایسی زین جو گھوڑے کی پیٹھ پر بالکل ٹھیک بیٹھ جائے اور اسے زخمی نہ کرے۔ قرآنِ کریم میں واق بمعنی محفوظ رکھنے والا، بچانے والا آیا ھے۔ جیسے سورۃ الرعد میں فرمایا۔

وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ ﴿٣٧﴾۔

ترجمہ۔۔۔ اور اسی طرح ہم نے یہ کلام اتارا کتاب عربی زبان میں اور اگرتو ان کی خواہش کے مطابق چلے بعد اس علم کے جو تجھے پہنچ چکا ہے تیرا الله سے کوئی حمایتی اور بچانے والا نہ ہوگا (٣٧)۔

دوسرے مقام پر مادہ محتاط رھنے اور اپنی حفاظت کرنے کے معنی میں بھی آیا ھے۔ جیسے البقرہ فرمایا۔۔



فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ﴿٢٤﴾۔



ترجمہ۔۔۔ بھلا اگر ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافرو ں کے لیے تیار کی گئی ہے (٢٤)۔



فَاتَّقُوااللہ بار ہا قرآنِ کریم میں آیا ھے جس کے معنی ہیں قوانینِ الٰہیہ کی نگہداشت کرنا، احکامِ الٰہیہ کا اتباع کرنا، ان کے مطابق زندگی بسر کرنا، ان سے ہم آہنگ رھنا۔ چنانچہ قرآن کریم نے یہ مفہوم دیگر مقامات میں واضع کر دیا ھے۔ جیسے سورہ المائدہ میں تقویٰ کے مقابلے میں عدوان آیا ھے فرمایا۔



وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾۔



ترجمہ۔۔۔ آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو اورگناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے (٢)۔



عدوان کے معنی ہیں سر کشی اور تقویٰ کے معنی ہیں اطاعت، فرمانبرداری۔ اسی طرح سورۃآلِ عمران میں بات کو بالکل واضع کر دیا کہ فرمایا۔



يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾۔



ترجمہ۔۔۔ اے ایمان والو الله سے ڈرتے رہو جیسا اس سے ڈرنا چاہیئے اور نہ مرو مگر ایسے حال میں کہ تم مسلمان ہو (١٠٢)۔



یعی ساری عمر قوانین الٰہیہ کے سامنے جھکے رھو۔ بالفاظ دیگر ،،،وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا ﴿١٠٣﴾ ،،،ترجمہ۔۔۔ اور سب مل کر الله کی رسی مضبوط پکڑو۔ یعنی اللہ کے ضابطہ حیات کے ساتھ متمسک رھو۔ اسی لیے سورۃ الشعراء میں متقین کے مقابلے میں غاوین آیا ھے فرمایا کہ۔



وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٩٠﴾ وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ ﴿٩١﴾۔



ترجمہ۔۔۔ اور پرہیز گاروں کے لیے جنت قریب لائی جائے گی (٩٠) اور دوزخ سرکشوں کے لیے ظاہر کی جائے گی (٩١)۔



اسی طرح سوہ ص میں متقین کے مقابلہ میں فجار کا لفظ آیا ھے۔فرمایا۔



أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ ﴿٢٨﴾۔



ترجمہ۔۔۔ کیا ہم کردیں گے ان کو جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان کی طرح جو زمین میں فساد کرتے ہیں یا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں کی طرح کر دیں گے (٢٨)۔



لفظ فاجرکے معنی ہیں جو پھٹ کر الگ ھو جائے اسکے مقابل متقین کے معنی واضع ھو جاتے ہیں کہ جو اس ضابطہ حیات کے ساتھ متمسک ھو جائے، اسکے ساتھ چمٹا رھے، اس کے ساتھ ہم آہنگ رھَے۔ سورۃ الشمس میں ھے کہ اللہ رب العزت نے یہ دونوں صلاحیتیں انسانوں میں رکھ دی ہیں فرمایا۔



فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾۔ ترجمہ۔۔۔ پھر اس کو اس کی بدی اور نیکی سمجھائی (٨)۔



اس آیت سے یہ بات نہایت واضع ھے کہ انسان اگر چاھے تو ضابطہ الٰٰہیہ سے ہم آہنگ ھو کر اپنی ذات میں ارتکاز پیدا کر لے یا اس سے ھٹ کر اپنی ذات میں تشت و انتشار پیدا کر لے۔ اسی بات کی مزید وضاحت سورۃ محمد میں بیان کی گئ ھَے۔ کہ



إِنَّ اللَّـهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ﴿١٢﴾۔



ترجمہ۔۔۔ بے شک الله انہیں داخل کرے گا جو ایمان لائے اور نیک کام کیے بہشتوں میں جن کے نبیچے نہریں بہتی ہو ں گی اور جو کافر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چار پائے کھاتے ہیں اور دوزخ ان کا ٹھکانہ ہے (١٢)۔



لیکن دوسرا گروہ کو اسکا تقویٰ مل جاتا ھے۔ اسی سورہۃ میں فرمایا۔



وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ ﴿١٧﴾۔



ترجمہ۔۔۔ اور جو راستہ پر آگئے ہیں الله انہیں اور زیادہ ہدایت دیتا اور انہیں پرہیزگاری عطا کرتا ہے (١٧)۔

لہذا متقین وہ ہیں جو غلط روش زندگی کے تباہ کن نتائج سے بچنا چاھیں اور قوانین الٰہیہ کا اتباع کریں۔

تقویٰٰ قرآن کریم کی خاص اصطلاح ھے اور اس لفط کو اس نے اسقدر اہمیت دی ھے کہ یہ بجائے خویش گویا ایک مادہ بن گیا ھے جس سے قرآنِ کریم مختلف الفاظ لایا ھے۔ اسکے معنی پرہیز گاری نہیں۔ پرہیز گاری تو محض سلبی صفت ھے لیکن تقویٰ میں زندگی کی تباھیوں سے بچ

کر چلنے کے ساتھ ساتھ قوانینِ الٰہیہ کے مطابق زندگی بسر کرنا بھی ھے۔ یعنی اس میں سلبی صفت کے ساتھ ایجابی پہلو بھی ھے اور ایجابی پہلو غالب ھے۔ لفظ تقویٰ اسقدر جامع ھے کہ اسکا ترجمہ کسی ایک لفظ میں ممکن نہیں۔ جس چیز کو عام طور پر کیریکٹر یعنی سیرت و کردار کی بلندی کہا جاتا ھے۔ وہ اس کے اندر آ جاتی ھے۔ قرآنِ کریم دو طرح کی زندگی کو بیان کرتا ھے۔ ایک حیوانی سطح زندگی جسکے تقاضے وہی ہیں جو دوسرے حیوانات کے ہیں۔ تحفظِ خویش کا جذبہ اسقدر قوی اور شدید ھے کہ کوئی فرد اپنے مفاد کے مقابلے میں دوسرے کے مفاد کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی سے تمام کشمکش پیدا ھوتی ھے۔ دوسری سطح زندگی وہ ھے جسے انسانی زندگی کہا جاتا ھے۔اس زندگی میں مقصد انسانی ذات کی نشو و نما ھوتی ھے یہ نشو و نما ان بلند اور مستقل اقدار کے تحفظ سے ھوتی ھے جو وحی کے ذریعے ملتی ھے اور جو اب قرآن کریم کے اندر محفوظ ھے۔ قرآنِ کریم کہتا ھے کہ حیوانی زندگی کے تقاضوں کا پورا کرنا بھی ضروری ھے۔ لیکن اگر کبھی ایسا ھو کہ حیوانی زندگی کے تقاضے کا تصادم انسانی زندگی کے تقاضے سے ھو جائے تو حیوانی زندگی کے تقاضے کو بلند قدر کی خاطر قربان کر دینا پڑے۔ یہ تقویٰ ھَے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی وقت ایسا آ جائے کہ بلند قدر کی حفاظت کے لیے جان تک بھی دینی پڑ جائے تو دیدے اور انسانی قدر کو بچا لے۔ اسلیے کہ جان کا تحفظ حیوانی سطح کا تقاضہ ھے اور بلند قدر کی قیمت اس سے زیادہ ھے۔ قرآن کہتا ھے کہ جو لوگ حیوانی زندگی سمجھتے ہیں اور انسانی زندگی کی سطح انسانی ذات پر ایمان نہیں رکھتے وہ کافر ہیں سورۃ الفرقان میں فرمایا۔



وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٢٤﴾۔



ترجمہ۔۔۔ اور کہتے ہیں ہمارا یہی دنیا کا جینا ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے حالانکہ انہیں اس کی کچھ بھی حقیقت معلوم نہیں محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں (٢٤)۔ مزید دیکھئِے۔ سورۃ محمد 12 انسانی ذات پر ایمان رکھنا مومن کی خصوصیت ھے۔

قرآن کریم اسے بھی تسلیم کرتا ھے کہ اپنے نفح کا خیال رکھنا چاھئیے۔ جو اپنے نفع نقصان نہ پہچانے اسے پاگل کہتے ہیں۔ چونکہ مومن کے نزدیک انسانی ذات کا تحفظ، حیوانی زندگی کے تحفظ سے زیادہ قیمتی ھے اس لئے جب ان دونوں تقاضوں میں تصادم ھو جائے تو عقلِ انسانی کا تقاضہ ھے کہ وہ کم قیمتی شے کو زیادہ قیمتی شے پر قربان کر دے۔ لہذا صحیح عقل و فکر کے مالک مومن ہی ھوتے ہیں۔ سورۃ آلِ عمران میں فرمایا۔



وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٨٩﴾ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٠﴾۔



ترجمہ۔ بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں (١٩٠) وہ جو الله کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے یاد کرتے ہیں اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں فکر کرتے ہیں (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ بےفائدہ نہیں بنایا توسب عیبوں سے پاک ہے سو ہمیں دوزح کے عذاب سے بچا (١٩١)۔



اسی لیے اللہ پاک سورۃ اطلاق میں فرماتے ہیں کہ



أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ قَدْ أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ﴿١٠﴾۔



ترجمہ۔۔۔ اللہ نے تیار کیا ھے انکے لیے عذاب شدید لہذا تم ڈرو اللہ سے اے عقل والوں جو ایمان لائے ھو تحقیق نازل کیا ھے اللہ نے تمہاری طرف ذکر۔

یعنی بلند اقدار کی خاطر پست اقدار کو قربان کر دینا تقاضائے عقل و ایمان ھے۔قرآنِ کریم انسان میں کیریکٹر پیدا کرنے کے لیے علم و بصیرت سے اپیل کرتا ھے۔اور عق کو سمجھاتا ھے کہ ایسا کرنا کسقدر اسکے لیے مفید ھے۔ یہی وجہ ھے کہ وہ خدا کیطرف علی وجہ البصیرت دعوت دیتا ھے۔ سورۃ یوسف میں فرمایا۔



قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿١٠٨﴾۔



ترجمہ۔۔۔ کہہ دو میرا اور میرے تابعداروں کا بصیرت کے ساتھ یہ راستہ ہے کہ میں لوگوں کو الله کی طرف بلا رہا ہوں اور الله پا ک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں (١٠٨)۔

اور مومنوں کی خصوصیت سورۃ الفرقان میں یہ بیان کی کہ



وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣﴾۔



ترجمہ۔۔۔ اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (٧٣)۔



یہ ھے قرآنِ کریم کی رو سے تقویٰ۔ اور انہیں کہتے ہیں متقین۔ تصریحاتِ مذکورہ یقینناً آپکے ذھن کو ترا بخشے گا۔ آللہ تعالٰی آپ کو بغض و نفرت کی بجائے حسنِ کارانہ سے اس نوٹ کو پڑھنے اور تفکر کرنے کی ہمت و حوصلہ عطا فرمائے۔

باقی باتوں کے لیے میں موزوں نہیں یا ان باتوں کو قابلِ تصریف خیال ہی نہیں کرتا تو ان پر کچھ کہنا بھی ضروری نہیں۔ ایک بات کا جواب ضرور دینا چاھتا ھوں۔ کیا ھوتا اور کیا نہ ھوتا۔ میں کچھ بھی ھوتا یہ سب میرے اختیار کی بات نہ ھوتی۔ اوریہ میرے رب الکریم کی لاکھ لاکھ مہربانی ھے کہ میں الحمداللہ مسلمان ھوں اور اس میں کس مرزا کاکوئی ہاتھ نہیں۔ لیکن مرزائی یا قادیانی یا احمدی نہ ھوتا۔ اور اگر بد قسمتی سے پیدا ھو بھی جاتا تو اس دوزخی قلعہ کو برباد کرنے والا وہ بارود ھوتا جس کی خاک کاایک ایک زرہ چنگاری بن کر اس دجالی قلعہ کو نہ صرف نیست و نابود کرتی بلکہ صفحہ ہستی سے کسی غلطی کی طرح مٹا ڈالتی۔ میری زندگی کا مقصد ھے



تیرے دین پر مرنا چاھت ھے میرے

تیرے نام کی حفاظت راحت ھے



عروج



یاد رکھنا یہ کسی کا شعر نہیں میری دلی امنگ ھے۔ انشاءاللہ

محترم جہاں تک عام لوگوں کی بات ھے تو اس میں کوئی مظائقہ نہیں اگر عام لوگ اسکو پیغام رسانی کا زریعہ بنا لیں لیکن انبیاء و مرسلین سے متعلق آپ یا میں کوئی بات طے نہیں کر سکتے۔ یہ اللہ رب العزت کا کام ھے اور اس نے یہ فارمولا قرآنِ پاک میں سیٹ کیا ھے تو اس پر کسرت کیوں؟



آصف بھٹی



سلمان رشدی نما قادیانی پادری جمیل الرحمن اوربدبخت شاتمء اسلام رفیع رضا جیسے پاکستانی بھگوڑے غداروں قادیانیوں کا شیطانی ٹولہ چاھے مجھے قتل واغوا کی دھمکیاں دیں یا میری لاش کے ٹکرے کروا دے میں اسلام دشمن قادیانیوں اور پاکستان کے غداروں کا منحوس چہرہ بے نقاب کرتا رھوں گا اور جو معزز دوست میرے بارے یہ فتوی دیتے ہیں کہ میں ذاتی شہرت کیلیے ایسا کر رھا ھوں ان کو صرف اتنا جواب ھی کافی ھے کہ کویی مسلمان ذاتی شہرت کیلیے اپنی جان ھتھیلی پر رکھ کرکلمہء حق کا علم نہیں اٹھاتا بلکہ مطلوب و مقصود صرف اللہ کی رضا اور شفاعت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ھوتی ھے جو مسلمان کو شہادت۔ عظمی کا متمنی بنا کرموت کے خوف سے کوسوں دور لے جاتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top