• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

موت

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
موت کے حوالے سے امام جعفر صادق ؓ کی چند باتیں جو نظر سے گزریں شئیر کرنا چاہوں گا ۔

موت ؟ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ احمق لوگوں کی نظر میں ایک قاعدہ جو مصلحت کے بغیر ادھورا بلکہ مضر ہے وہ موت ہے اور احمق لوگ انسان کی موت کو ایک بڑا ظلم خیال کرتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف سے انسان پر کیا جاتا ہے ۔ لیکن انسان کی موت میں ایک مصلحت ہے اگر یہ موت نہ ہوتی تو بنی نوع انسان ختم ہو گیا ہوتا اور قدیم زمانے کے سائند دان جنہوں نے موت کو ختم کرنے کی کوشش کی وہ سنگین غلطی پر تھے اور میں آئندہ آنے والے سائنس دان کو وصیت کرتا ہوں کہ موت کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ اگر موت ختم ہو گئی تو نسل انسانی تباہ ہو جائے گی ۔ اے ابو شاکر چند لمحوں کیلئے غور کرو کہ اگر موت نہ ہو اور آدمی یہ جان ے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہے گا ‘ جونہی یہ پتہ چلا کہ آدمی نہیں مرے گا تو ظالم لوگ دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ لا محدود زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دولت کے مالک بنے رہیں اور چونکہ کمزور لوگ اپنے اموال کے بچاؤ کی خاطر ظالموں کے خلاف متحد ہونگے اور مقابلہ کریں گے ۔ تو توانا غاصب دوسروں کو ختم کر دیں گے کیونکہ فطری موت تو نہیں لیکن قتل کے ذریعے موت موجود ہے لہذا طاقتور غاصب کمزور لوگوں کو قتل کر دیں گے آج جب کہ ہر طاقتور غاصب آدمی کو علم ہے کہ وہ ایک دن مر جائے گا اور اس کی موت زیادہ دور نہیں ہے پھر بھی اس کے باوجود وہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص کرتا ہے اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے تو ان کی حرص آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی پھر طاقتور لوگوں کی آپس میں بھی جنگ و جدل ہوتی اور آخری کار سب سے طاقتور شخص باقی رہ جاتا جس کا مطلہ یہ ہوا کہ نسل انسانی ختم ہو جاتی ۔ اگر موت نہ ہو تو زندگی میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جس طرح کام نہ کرنا ہو تو آرام میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جو چزی لوگوں کی زندگی میں کش کا باعث ہے وہ موت کا خوف ہے اے ابو شاکر آج اگر والدین اپنے بیٹے پر مہربان ہیں تو اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ وہ مر جائیں گے اور ان کا بیٹا زندہ رہے گا اور ان کے بعد ان کا بیٹا اس دنیا میں ان کی یادگار ہو گا ۔ اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے نام کو بھی اس دنیا میں روشن کرے گا ۔ اے ابو شاکر اگر موت نہ ہوتی تو خدا پرست لوگ خدا سے نہ ڈرتے ۔ آج جبکہ ہر موحد خدا سے ڈرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے تو اس لئے اسے معلوم ہے اگر خدا کی اطاعت نہیں کرے گا اور اس کے احکام بجا نہیں لائے گا تو موت کے بعد قیامت کے دن سز ا کا مستوجب ہو گا ۔ لیکن اگر موت نہ ہوتی تو چونکہ کوئی نہ مرتا ۔ تو لا محالہ قیامت کا دن بھی نہ ہوتا ‘ کیونکہ قیامت کے دن کیلئے ضروری ہے کہ انسان مرنے کے بعد زندہ ہو اور خداوند تعالی اس دنیا میں کیے گئے اعمال کی اسے جزا یا سزا دے ۔ موت سے خوف توحید پرست لوگوں کو خدا کے احکامات کی بجا آوری کی طرف مائل کرتا اور ظلم سے روکتا ہے‘ ہم یہ نہیں کہتے کہ ظَم وجود میں نہیں آتا کیونکہ موت سے خوف کے باوجود ظلم ختم نہیں ہوا اور وہ لوگ جو خدا کے معتقد نہیں ہیں دوسروں پر ظلم و ستم کرتے ہیں ۔ چونکہ وہ شخص جس کا خدا پر ایمان ہو اور اس کے احکامات کی پیروی کرتی ہو وہ دوسروں پر ستم نہیں کرتا اگر موت موجود نہ ہوتی اور فرض کریں بنی نوع انسان باقی رہتی تو زندگی کی جو حالت ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ بد تر ہوتی ۔ ایسی صورت میں کوئی بھی اپنے آپ کو گرم صحراؤں یا ٹھنڈے علاقوں میں زندگی بسر کرنے کی زحمت نہ دیتا ۔ اور جو علاقے آب و ہوا کے لحاظ سے معتدل ہیں وہ وہاں چلا جاتا اور وہاں کے ساکنوں کو قتل کرکے ان کی اراضی پر قبضہ کرنے کے بعد آرام سے وہاں زندگی گزارنے لگتا اور انسان صرف ایسی صورت میں نقل مکانی کرتا جب وہ مقامی آبادی کو ختم کرکے ان کی جائیداد پر قبضہ نہ جما سکتا ۔ اگر فرض کریں ‘ موت نہ ہونے کی صورت میں بنی نوع انسان ختم نہ ہوتا تو چند صدیوں کے دوران ہی انسانی آبادی اس قدر بڑھ جاتی کہ انسان نہ صرف تمام جانوروں بلکہ بھوک مٹنے کیلئے اپنے ہم جنسوں کو بھی کھا جاتا کیونکہ آ۶ادی اس قدر بڑھ جاتی کہ زمین پر کھیتی باڑی کیلئیجگہ نہ ملتی کہ لوگ اس میں ہل چلا کر بیج بوئیں ۔ کھیتی باڑی ختم ہو اجتی اور انسان آہستہ آہستہ پہلے جانوروں کو کھانا شروع کرتے اور جب تمام جانور ختم ہو جاتے تو بھوک مٹانے کیلئے ان کے پاس انسانوں کو کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ اور یہ موت ہے جس کی وجہ سے انسانی آبادی اس قدر نہیں بڑھتی کہ زمین میں کھیتی باڑی کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ موت ہے جو انسان کو خداوند تعالی کے احکامات کی پیروی پر لگاتی ہے یہ موت ہیجو انسان کے دل میں اپنوں اور غیروں کیلئے رحم کا مادہ پیدا کرتی ہے یہ موت ہے جو غاصبوں کو دوسروں کا مال ظلم سے ہڑپ کر جانے کے راستے میں حائل ہوتی ہے یہ موت ہی ہے جو زندگی انسانوں کیلئے شیرین بناتی ہے خداوند تعالی نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں اگرچہ وہ ہماری نظر میں بے سود یا مضر ہی کیوں نہ ہوں ۔ اے ابو شاکر ‘ تم پتھروں سے بھرے ہوئے پہاڑوں کو بے فائدہ خیال کرتے ہو اور اپنے آپ سے پوچھتے ہو کہ پہاڑ کس لئے پیدا ہوئے ہیں ؟ جبکہ خداوند تعالی نے مصلحت کے تحت پہاڑوں کو پیدا کیا ہے ‘ جہاں جہاں پہاڑ ہے ‘ جاری پانی بھی موجود ہے کیونکہ پہاڑ کی بلدیوں پر بارش اور برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے چشمے وجود میں آتے اور نہروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور پہاڑ سے جاری ہونے ولی نہر زرعی زمین کو سیراب کرتی ہے اس لئے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہائش اختیار کرتے ہیں تاکہ زراعت کریں کیونکہ پانی میسر ہوتا ہے وہاں گرمیوں میں آب و ہوا ٹھنڈی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گرم علاقوں میں رہتے ہیں گرمیوں میں اکی کوشش ہوتی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں جائیں تاکہ گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔ پہاڑ کے دامن میں واقع شہر ‘ قصبے اور دیہات ‘ پہاڑ کی پیٹھ کی طرف سے آنے والے طوفانوں کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ پہاڑ اس طوفان کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔ سر سبز پہاڑ ‘ جانوروں کے چرانے کیلئے مفید ہوتے ہیں اور گرمیوں میں جب دوسری جگہوں پر گھاس نہیں ہوتی تو گڈریئے اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ کی طرف لے آتے ہیں اور جاڑے کے آنے تک وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ پر چرا سکتے ہیں ۔ ان سر سبزی پہاڑوں میں ایسے چرند و پرند ملتے ہیں جو حلال گوشت ہیں اور وہ دامن کوہ میں سکونت پذیر افراد کیلئے غذا کا سامان بھی ہیں حتی کہ جن پہاڑوں پر سبزہ اور پانی نہیں ‘ وہ بھی مکمل طور پر بے سود نہیں ہیں اور اگر ان میں معدنیات تلاش کی جائیں تو ممکن ہے وہاں معدنیات ملیں جو انسانی زندگی کیلئے مفید ہوں ۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جب جعفر صادق (علیہ السلام ) کی گفتگو ختم ہوئی تو ابو شاکر سوچ میں پڑ گیا یہ نظر آ رہا تھا کہ آپ کی باتوں کا اس پر گہرا اثر ہوا ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اس سے پوچھا کیا تو اس بات کا قائل ہو اہے کہ ان دیکھا خدا موجود ہے اور کیا اس بات کا قائل ہوا ہے کہ جس چیز کی تم اپنے بت میں پوجا کرتے ہو وہ بت نہیں بلکہ نہ دکھائی دینے والا خدا ہے ۔ ابو شاکر نے جواب دیا ‘ ابھی تک میں قائل نہیں ہوا لیکن شک میں ضرور پڑ گیا ہوں ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا بت پرستی کے بارے میں شک ان دیکھے اور واحد خدا کی پرستش کا آغاز ہے ابو شاکر نے کہا ‘ خصوصا موت کے بارے میں آپ کی گفتگو نے مجھ حیران کر دیا ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے پوچھا ‘ اس کی کونسی چیز تمہاری حیرانی کا باعث بنی ہے ؟ ابو شاکر بولا ‘ آپ کی گفتگو سے میں یہ سمجھا ہوں کہ ہم انسانوں کو جتنا ہو سکے اپنے آپ کو قتل کر دینا چاہیے ‘ کیونکہ آپ کے بقول خدا کی مصلحت اسی میں ہے کہ آدمی مرے ‘ اور چونکہ خدا کی مصلحت اس طرح ہے لہذا جتنا جلدی ہم مر جائیں ‘ بہتر ہے جعفر صادق (علیہ السلام ) نے کہا اے ابو شاکر جو کوئی اپنے آپ کو قتل کرے وہ خداوند تعالی کے قانون سے منہ موڑتا ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کے بندوں کو اپنی جان کی حفاظت کرنا چاہیے اور جان کی حفاظت کا ایک راستہ یہ ہے کہ کھانے پینے میں افراط سے کام نہ لیں ۔ کیونکہ کھانے پینے میں افراط سے آدمی طبعی موت سے پہلے ہی مر جاتا ہے ۔ جان کی حفاظت کیلئے میرے جد نے فرمایا ہے کہ اپنے پیٹ کو جاروں کا قبرستان نہ بناؤ ۔ ابو شاکر بولا اس بات کے کیا معنی ہیں ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا یعنی گوشت زیادہ کھانے سے پرہیز کریں ۔ ابو شاکر بولا لیکن میں تو گوشت گھانے میں مذت محسوس کرتا ہوں اور گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کر سکتا ۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا زیادہ گوشت کھانے سے پرہیز کرو ۔ ابو شاکر نے پوچھا کیوں پرہیز کروں ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا کیونکہ زیادہ گوشت کھانے سے بعض لوگوں پر بیماری کا اچانک حملہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسانی نا گہانی موت کا شکار ہو کر چل بستا ہے ابو شاکر بولا ‘ میں تو پہلی مرتبہ سن رہا ہوں کہ زیادہ گوشت کھانے سے انسان نا گہانی موت سے دو چار ہو جاتا ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے اظہار خیال فرمایا ‘ میں نے یہ نہیں کہا کہ گوشت کھانا نا گہانی موت کا سبب بنتا ہے بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے سے بعض لوگ اچانک بیمار پڑ جاتے ہیں اور زیادہ گوشت کھانا ‘ اچانک بیماری کا سبب بنتا ہے وہ بھی سب لوگوں میں نہیں بلکہ بعض لوگ ایسے ہیں جو گوشت کھاتے ہیں لیکن نا گہانی موت کا شکار نہیں ہوتے ۔ ابو شاکر نے پوچھا ‘ ناگہانی موت کیا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا یہ غیر متوقع موت ہے اس میں انسان بظاہر تندرت و توانا نظر آتا ہے لیکن اندر سے بیمار ہوتا ہے اور اچانک بے ہوش ہو کر مر جاتا ہے ۔ ابو شاکر نے پوچھا کیا باطنی بیماری بھی ہوتی ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا ‘ ہاں اے ابو شاکر بعض لوگ اندرونی طور پر بیمار ہوتے ہیں لیکن انہیں اس بیماری کا احساس نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو گوشت اور دوسری مرغن غذائیں کھانے میں اسراف سے کام لیتے ہیں ممکن ہے کہ باطن میں بیمار ہوں اور ان کی بھوک میں کوئیکمی نہ آيے اور وہ درد کا احساس کئے بغیر بے خوابی کا شکار ہو جائیں ۔ ابو شاکر نے کہا ‘ میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ آدمی بیمار ہوئے بغیر مر سکتا ہے ۔ آدمی کسی جنگ یا جھگڑے میں تو مر سکتا ہے لیکن بیمار ہوئے بغیر نہیں مر سکتا جعفر صادق (علیہ السلام )نے فرمایا تم ایسے انسان ہو کہ جب تک کسی چیز کو دیکھ نہ لو اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور چونکہ تم نے آج تک کسی کو نا گہانی موت مرتے نہیں دیکھا لہذا تم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ آدمی ممکن ہے بیماری کے بغیر اچانک اس دنیا سے کوچ کر رجائے ۔ لیکن جان لو کہ نا گہانی اموات کی اقسام ہیں ایک دماغ کو دوسری دل کو اور تیسری خون کو لاحق ہوتی ہے ۔ ابو شاکر بولا ‘ دماغ ‘ دل اور خون ہمیں کیسے اچانک ہلاک کر دیتے ہیں ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ہر قسم کی نا گہانی بیماری کا آخری مرحلہ خون کی خرابی ہے اور کون کی خرابی بھی زیادہ گوشت اور تمام مرغن غذاؤں کو افراط سے کھانے سے لاحق ہوتی ہے اور جب خون میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اچانک حملہ کرنے والی بیماری دل ‘ دماغ یا خون پر حملہ کرکے انسان کو ہلاک کر دیتی ہے ۔ عرب قبائل جو صحرانشین ہیں ان میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کوئی نگ گہانی موت سے مرا ہو ۔ کیونکہ عرب قبائل کے صحرا نشین لوگ گوشت اور تمام مرغن غذائیں کم مقدار میں کھاتے ہیں لیکن سال میں ایک مرتبہ دو گوشت کھانے کیلئے مکہ جاتے ہیں تاکہ حج کے دوران جو جانور وہاں ذبح ہوتے ہیں ان کا گوشت کھائیں ‘ یہ لوگ جب تک کچھ دنوں کیلئے مکہ میں ہوتے ہیں کثرت سے گوشت کھاتے ہیں لیکن چونکہ سال میں صرف وہی چند دن گوشت کھاتے ہیں اور جب گھروں کو واپس لوٹتے ہیں تو ان کی غذا ‘ پہلے کی مانند دودھ ہوتی ہے اور اگر ان کے پاس کھجوریں ہوں تو وہ بھی ہوتی ہیں لیکن اس سے ان کا خون خراب نہیں ہوتا جس سے وہ نا گہانی بیماری کے حملے کا شکار ہوں اور دوسرا یہ بھی کہ عرب صحرا نشینوں کی زندگی مشکل ہے اور وہ کھانے پینے میں افراط نہیں برتتے لہذا وہ کافی لمبی عمریں پاتے ہیں ۔ اے ابو شاکر ‘ تو مدینے میں چند ایسے اشخاص کو پہچانتا ہے جن کی عمر سو سال ہو ؟ ابو شاکر بولا ‘ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو سو سالہ ہو ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ اس شہر میں جب لوگ گوشت اور دوسری مرغن غذائیں کھانے میں افراط سے کام نہیں لیتے تھے سو سال کی مرد اور عورتیں پائی جاتی تھیں اور جس چیز نے اس شہر کے مکینوں کی عمر گھٹا دی ہے وہ مرغن غذاؤں کے کھانے میں افراط ہے لیکن جب کہ اب مدینے میں سو سال کی عورت یا مرد نہیں ہیں اب بھی اگر تم مدینے کی نواحی بستیوں کے صحراؤں کی طرف جاؤ جہاں قبائل سکونت پزیر ہیں تو تم مشاہدہ کرو گے کہ ان کے درمیان سو سال کے مرد اور عورتیں پائی جاتی ہیں اور اس کے باوجود کہ صحرا میں زندگی دشوار ہے ان میں سے بعض بوڑھے افراد اپنے کچھ دانتوں کو سو سال کی عمر تک محفوظ رکھتے ہیں چونکہ زیادہ گوشت اور دوسری مرغن غذاؤں کے کھانے سے ان کے خون میں خرابی بھی پیدا ہوی کہ وہ قبل ازوقت بوڑھے ہو جائیں اور خون کی خرابی جو بعض اشخاص میں نا گہانی بیماری کا باعث بنتی ہے اور پھر اسی کے زیر اثر اکثر اشخاص جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اس سے پہلے کہان کی طبعی عمر پوری ہو وہ مر جاتے ہیں
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ابو شاکر نے کہا ‘ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ موت کیا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا موت بدن کے افعال کا رک جانا ہے ۔ خصوصا دل کی دھڑکنوں اور سانس کا رک جانا ابو شاکر نے پوچھا ‘ انسان کیوں مر جاتا ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے جواب دیا ‘ انسان دو چیزوں سے مرتا ہے ایک بیماری سے اور جیسا کہ میں نے کہا بعض لوگ نا گہانی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہصحتمند ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ بیمار ہوتے ہیں یہ لوگ بھی بیماری سے مرتے ہیں ۔ موت کا دوسرا سبب انسان کا بڑھاپا ہے اور آدمی اگر صحت مند ہی کیوں نہ ہو آخر اکر بڑھاپے کی وجہ سے مر جائیگا ‘ اور قدیم یونان کے ایک حکیم بقراط نے کہا تھا کہ بڑھاپا بھی بیماری کی ایک قسم ہے اور جن دن اس بیماری کا علاج تلاش کر لیا جائیگا انسان نہیں مرے گا۔ ابو شاکر نے اظہار ‘ خیال کرتے ہوئیکہا لیکن ہمارے ڈاکٹر تو اس بیماری کا علاج نہیں کر سکتے جعفر صادق (علیہ السلام ) بولے ‘ ابو شاکر ‘ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ہر گز اس بیماری کا علاج نہیں کر سکیں گے ۔ ابو شاکر بولا ‘ آپ کو کیسے علم ہے کہ ہمارے ڈاکٹر اس بڑھاپے کی بیماری کا علاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تاکہ انسان کو موت سے بچا سکیں ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا اس لئے کہ موت مشیت الہی ہے اور چونکہ خدا کی قدرت اور مصلحت موت کو وجود میں لاتی ہے ڈاکٹر بڑھاپے کی بیماری کا علاج نہیں کر سکتے (اگر بقول بقراط بڑھاپا بیماری ہو ) کیونکہ جو کچھ خداوند تعالی نے مقرر کر دی اہے نا قابل تغیر ہے مخلوقات میں تبدیلی کا نام ہییہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی ہے اور کوئی چیز ایک حالت پر باقی نہیں رہتی ۔ حتی کہ اگر خداوند تعالی انسان کیلئے موت مقرر نہ کرتا تو بھی جیسا کہ میں نے کہا اور تم نے سنا کہ بنی نوع انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ موت موجود ہو ۔ بنی نوعی انسان کی زندگی کے جریان کیلئے موت اس قدر ضروری ہے کہ اگر موت نہ ہوتی اور انسان باقی رہنا چاہتا تو اسے موت کو وجود میں لانا پڑتا تاکہ انسان مریں اور موت کے نتیجے میں انسان نسل باقی رہے اور برباد نہ ہو ۔ ابو شاکر بولا ‘ بس یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض گذشتہ پیغمبر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے اور آج بھی زندہ ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) بولے ‘ اس پر یقین نہ کرو کیونکہ ابھی تک اس دنیا میں کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو مرا نہ ہو ‘ یا اگر اب زندہ ہے تو نہیں مرے گا ۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض گزشتہ انبیاء زندہ جاوید ہو گئے اور نہیں مرے اور ہر گز نہیں مریں گے ‘ افسانے سے زیادہ کچھ نہیں پیغمبروں میں سب سے افضل پیغمبر ہمارے ہیں اور وہ خاتم النبین ہیں جن پر تو ایمان نہیں لایا ‘ وہ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔ ابو شاکر بولا ‘ میرا خیال ہے جب میں ان دیکھے خدا پر ایمان لے آؤں گا تو تمہارے پیغمبر کی نبوت کو بھی تسلیم کر لوں گا لیکن اسکے باوجود کہ میں تمہاری پیغمبر پر ایمان نہیں لایا میں نے قرآن کے کچھ حصے سنے ہیں جنہیں میں بیان کرنا چاہتا ہوں جو کچھ آپ نے گو شت اور مرغن غذائیں کھانے اور خون میں خرابی کے بار ے میں کہا ہے وہ قرآن کے سر ا سر خلاف ہے ‘ اور ظاہر ہے جب آپ مسلمان ہیں تو آپ قران کو مانتے ہیں ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا قرآن پر عقیدہ ہے کہ وہ کلام خدا ہے ابو شاکر بولا ‘ جب آپ کا عقیدہ ہے کہ قرآن آپ کے خدا کا کلام ہے تو پھر آپ نے اسکے خلاف بات کیوں کی ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وہ کونسی بات ہے جو میں نے خدا کے کلام کے خلاف کہی ہے ؟ ابو شاکر نے کہا میں نے سنا ہے خدا نے فرمایا ہے ہر شخص اپنے مقررہ وقت پر مرے گا اس کی موت نہ ایک گھنٹہ اس وقت سے پہلے واقع ہو گی اور نہ ایک گھنٹہ بعد ‘ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہاں یہ کلام خدا ہے اور قرآن میں ہے ۔ ابو شاکر نے اظہار خیال کیا ‘ کیا آپ نے نہیں کہا کہ جو شخص زیادہ گوشت اور مرغن غذائیں کھائے گا وہ قبل از وقت نا گہانی بیماری کے نتیجے میں مر جائیگا ؟ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ ہاں یہ بات میں نے کہی ہے ابو شاکر بولا ‘ آپ کے خدا کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی موت کا وقت معین ہے اور وہ اس سے نہ ایک گھنٹہ پہلے اور نہ ایک گھنٹہ بعد میں مرے گا لیکن آپ کہتے ہیں کہ جو کوئی گوشت کھائے ‘ جلدی مر جائیگا اور اسطرح آپ نے کلام خدا کی نفی کی ہے ۔ جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا پہلی بات یہ کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ جو کوئی گوشت اور مرغن غذائیں کھائے ناگہانی بیماری کا شکار ہو جائے گا ‘ بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ ممکن ہے بعض لوگ گوشت اور مرغن غذائیں کھانے کے نتیجے میں نا گہانی بیماری کا شکار ہو جائیں ۔ دوسری بات یہ کہ طبعی عمر اور وہ عمر جسے انسان خود کم کرتا ہے ‘ دونوں میں فرق ہے طبعی عمر وہ ہے جو ایک عام انسان گزارتا ہے اور اس عمر کی ایک مدت معین ہے جیسا کہ خداوند تعالی نے فرمایا ہے جس وقت وہ مدت پوری ہو جاتی ہے آدمی مر جاتا ہے اس وقت میں نہ ایک گھنٹہ کی کمی ہوتی ہے اور نہ بیشی ۔ لیکن موت کی دوسری قسم وہ ہے جسے انسان خود اپنے ہاتھوں سے وجود میں لاتا ہے یہ موت طبعی موت سے مختلف ہے اس کا نام خود کشی ہونا چاہیے جو کوئی شخص خنجر سے اپنی گردن اور شاہ رگ کو کاٹتا اور اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے وہ خدا کے مقررہ وقت پر نہیں مرتا ۔ خداوند تعالی نے اس کے شاید اسی یا نوے یا سو سال کی عمر کا تعین کیاہو جبکہ وہ جوانی میں ہی ایک ہی وار سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔ جو لوگ گوشت اور دوسری مرغن غذائیں زیادہ کھانے سے اپنے خون کو غلیظ کرتے ہیں وہ اپنی خود کشی کا سامان کرتے ہیں چونکہ خون کی خرابی ناگہانی بیماری کا سبب بنتی ہے اور اگر اس بیماری کا سبب نہ بھی بنے توکسی دوسری بیماری کا سبب بن جاتی ہے ۔ لہذا پیٹ بھر کر کھانا اور خصوصا گوشت و مرغن غذائیں زیادہ کھانا ‘ خود کشی کے مترادف ہے ۔ پس جو کوئی بسیار خوری کے نتیجے میں اپنی طبعی عمر کے تقاضے سے پہلے اس دنیا سے کوچ کر جائے وہ خداوند تعالی کے فرمان میں شامل نہیں ہے اور تو اے ابو شاکر جان لے کہ میں قرآن کو تجھ سے بہتر جانتا ہوں اور اس بات سے اگاہ ہوں کہ خداوند تعالی نے قرآن میں موت کے بارے میں کیا کہا ہے اور کسی نے کبھی بھی میرے منہ سے ایسی بات نہیں سنی ہو گی جو خدا کے فرمان کے خلاف ہو اور نہ ہی اس کے بعد سنے گا ۔
 
Top