• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیما (النسا، 158)
یہ آیت مبارکہ حیات مسیح علیہ السلام پر دلیل صریح ہے ۔ اس میں اللہ پاک نے بالکل واضح الفاظ میں بیان کردیا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہرگز قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔
اس آیت میں دو چیزیں بہت اہم ہیں جن پر ہم راشنی ڈالیں گے ۔
1: لفظ "بل"
2: آسمان پر اٹھایا جانا
تو پہلے ہم لفظ بل پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔
۔ بل ایک عربی لفظ ہے کتب نحو کے جاننے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ بل کے بعد والے مضمون اور مضمون ماقبل کے درمیان تضاد ہونا ضروری ہے ۔
مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ "زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے" تو یہ فقرہ بالکل غلط ہے کیونکہ بل سے پہلے زید کے آدمی ہونے کا انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت یا تضاد نہیں کیونکہ آخر آدمی تو قادیانی بھی ہیں ۔
لہذا صحیح فقرہ یوں ہونا چاہئے " زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے" کیونکہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہے ۔ یا یہ فقرہ صحیح ہے " زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے" کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے ۔
پس معلوم ہوا کہ بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔
قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے مگر قتل اور روح کے اٹھائے جانے میں کوئی مخالفت نہیں بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو ایک مسلمہ اصول ہے ۔
۔بل ابطالیہ میں جو اللہ کریم نے یہاں استعمال فرمایا ہے ضروری ہے کہ بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔
و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔
دوسری مثال "وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا"دیکھئے ! زیدکا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ سیالکوٹ گیاتھا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو بل کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔
اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اگر رفعہ اللہ الیہ میں رفع سے مراد رفع روحانی مراد لیا جائے جو کہ بقول مرزا قادیانی واقعہ صلیب کے 87 سال بعد کشمیر میں ہوا تھا تو یہ باطل ہے کیونکہ بل کا استعمال ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا تو اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا ۔

۔ بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم(مجموعہ جسم و روح) کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
 
آخری تدوین :

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اب آتے ہیں اس طرف کے بل رفعہ اللہ الیہ میں آسمان کا ذکر کہاں ہے ؟
یاد رہے کہ اللہ کریم کے لئے فوق و علو ہے، انہیں معنوں میں کہا گیا ہے ،امنتم من فی السما، ان یخسف بکم الارض (الملک 19)
کیا تم نڈر ہو گئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے اس سے کہ دھنسا دے تم کو زمین۔
ایسا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتظار وحی کے وقت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے قد نری تقلب وجھک فی السما،(البقرہ 144)
اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے خود رافعک الی کے معنی آسمان ہی کئے ہیں۔
" ہرایک مومن کی روح مرنے کے بعد آسمان کی طرف اُٹھائی جاتی ہے تو اس سے صاف طورپر کُھل گیا کہ رافعک الیّ کے یہی معنے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے تو اُن کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی گئی(خزائن جلد3 صفحہ 234)
"ا۔ کیونکہ شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہے۔ ایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقامِ انتہائے عرش ہے اور دوسری شیطان کی اور وہ بہت نیچی ہے اور اس کا انتہا زمین کا پاتال ہے۔ غرض یہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مومن مرکر خدا کی طرف جاتا ہے۔ اور اُس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں جیسا کہ آیت ارجعی الیٰ ربک اس کی شاہدہے"(خزائن جلد 17 صفحہ 108)
 
آخری تدوین :

محمدعثمان

رکن ختم نبوت فورم
(النسا، 158)بالکل یہ منطقی بات ہے کہ جب اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ اور اس کو اٹھا لیا اپنی طرف اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (بے شک وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیما(النسا، 158) میں لفظ السما، نہیں ہے)تو زی شعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ اللہ کا عرش کہاں ہے ۔ جب اللہ کہتا ہے کہ میں نے اٹھا لیا اپنی طرف (تو اللہ لاہور میں یا کراچی میں تو نہیں ہے جہاں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لے گیا) تو یہاں لوجیکلی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان کی طرف ہی اٹھائے گئے ہیں۔ یہاں ایک بات اور ہے کہ اللہ نے اس آیت میں اپنے آپ کو عزیزا حکیما یعنی غالب حکمت والا فرما رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ غالب کس بات پے ہے تو بات یہ ہے کہ جب اللہ بنا باپ کے پیدا کر سکتا ہے تو زندہ آسمان کی طرف اٹھا بھی سکتا ہے اور حکمت والا کیوں ہے تو بات یہ ہے کہ اس کا جواب (النسا، 159) میں ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے میں کیا حکمت ہے۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

اب ہم آپ کو " بل " ابطالیہ کے چند تفسیری معنیٰ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف مفسرین نے آیت میں مذکور لفظ بل کو کن معنوں میں لیا ہے فی الوقت میں چار تفسیر سے اپنے موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں اگرچہ اور بھی کئی تفاسیر میں اس لفظ بل کو ابطالیہ ہی لیا گیا ہے سب سے پہلے تفسیر البحر المحیط کے مفسر أبو حيان محمد بن يوسف بن علي بن يوسف بن حيّان لکھتے ہیں کہ :

{ بل رفعه الله إليه } هذا إبطال لما ادعوه من قتله وصلبه ،تفسیر البحرالمحیط

"بل رفعہ اللہ الیہ " یہ باطل کرنے کے لیے ہے جو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جس نے اس کو قتل گیا اور اس کو صلیب دی ۔ اس جگہ مفسر البحر واضح طور پر ارشاد فرما رہے ہیں کہ ہیں کہ اس لفظ"بل" کا معنیٰ ابطال کے لیے ہے یعنی پچھلے حکم کو باطل کرنا اور اگلے حکم کو ثابت کرنا۔

دوسری تفسیر علامہ رازی کی "مفاتيح الغيب" سے ہے جو کہ أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي الملقب بفخر الدين الرازي نے لکھی ہے آپ اس آیت کے بارے کیا ارشاد فرماتے ہیں ملاحظہ ہو:

{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } وهذا الكلام إنما يصح إذا تقدم القطع واليقين بعدم القتل .تفسیررازی

"بل رفعۃ اللہ الیہ " اور یہ کلام بالکل درست درست ہے جس میں مقدم حکم کا انقطاع ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کے عدم قتل کا حکم متیقن ہے ۔ اس جگہ بھی مفسر علیہ الرحمہ "إذا تقدم القطع" میں لفظ بل کو بل ابطالیہ کے طور پر ہی لے رہے ہیں اگر مفسر مذکور بل کو بل ابطالیہ نہ لیتے تو وہ یہ معنیٰ ہرگز نہ کرتے کہ " إذا تقدم القطع جبکہ مقدم حکم منقطع ہے " اور صاحبان علم تو جانتے ہیں ہیں کہ قطع و ابطال ایک ہی معنی کے دو الفاظ ہیں ۔

اسی طرح تفسیر بیضاوی ور فتح القدیر میں بھی بل سے مراد بل ابطالیہ ہی لیا گیا ہے جس کو آپ یہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔

{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } وإنكار لقتله وإثبات لرفعه .تفسیر بیضاوی
{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } ردّ عليهم وإثبات لما هو الصحيح ،تفسیر فتح القدیر
 
Top