چاند اور سورج گرہن کے بارے مرزا کی تحاریر
مرزا غلام قادیانی سورج اور چاند گرہن کے بارے اپنی کتابوں میں جا بجا حیلے بہانے سے اس موضوع کو زیرِ بحث لاتا رہا جس کو ہم آپ کی خدمت میں چیدہ چیدہ پیش کر رہے ہیں ۔سب سے پہلے ہم آپ کے سامنے وہ حوالہ پیش کر رہے ہیں جس میں چاند اور سورج گرہم کے واقعہ کا مفصل ذکر کیا گیا ہے تا کہ بات سمجھے میں آسانی رہے ۔
"۲۔ نشان۔ صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں
انّ لمھدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السماوات والارض ینکسف القمر لاوّل لیلۃٍ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ ۔
ترجمہ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اُس کے دِنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا۔ یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا صرف مہدی معہود کے وقت اُس کا ہونا مقدر ہے۔
اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اِس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً با ۱۲ رہ سال کا گذر چکا ہے اِسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے اورؔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے۔ اول اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دیکر صدہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے اِس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔ دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ با رہ 12برس پہلے اِس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اِس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا۔ اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی۔ اور بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف سراسر تعصب سے یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی اُن کے زعم کے موافق ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔‘‘ مگر اس خیال میں سراسر ان لوگوں کی نا سمجھی ہے کیونکہ دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے چاند گرہن کے لئے تین راتیں خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور چاند گرہن کی پہلی رات جو خدا کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے وہ قمری مہینے کی تیرھویں رات ہے اور سورج کے گرہن کے لئے تین دن خدا کے قانون قدرت میں مقرر ہیں۔ یعنی قمری مہینے کا ستائیسواں اٹھائیسواں اور انتیسواں دن۔ اور سورج کے تین دن گرہن میں سے قمری مہینہ کے رُو سے اٹھائیسواں دن بیچ کا دن ہے۔ سو ا نہیں تاریخوں میں عین حدیث کے منشاء کے موافق سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن ہوا۔ یعنی چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات میں ہوا اور سورج گرہن اسی رمضان کے اٹھائیسویں دن ہوا۔ اور عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر کبھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نامؔ ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے۔ دوسرا یہ اعتراض ہے کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ چاند کی پہلی رات سے مُراد تیرھویں رات ہے اور سورج کے بیچ کے دن سے مُراد اٹھائیسواں دن ہے تو اس میں خارق عادت کونسا امر ہوا کیا رمضان کے مہینہ میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن نہیں ہوا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مُدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اِسی پر دلالت کر رہے ہیں۔ اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔ خاص کر یہ امر کس کو معلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افترا کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں۔ مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُن کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے۔ اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلا شبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے کیونکہ خارق عادت اسی کو توکہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھو آیت وَخَسَفَ الْقَمَرُۙ ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُۙ (حاشیہ * خدا تعالیٰ نے مختصر لفظوں میں فرما دیا کہ آخری زمانہ کی نشانی یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ میں شمس اور قمر کے کسوف خسوف کا اجتماع ہوگا اور اسی آیت کے اگلے حصہ میں فرمایا کہ اس وقت مکذب کو فرار کی جگہ نہیں رہے گی جس سے ظاہر ہے کہ وہ کسوف خسوف مہدی معہود کے زمانہ میں ہوگا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ وہ کسوف خسوف خدا کی پیشگوئی کے مطابق واقع ہوگا اس لئے مکذبوں پر حجت پوری ہو جائے گی۔منہ)
تیسرا یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث مرفوع متصل نہیں ہے صرف امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کا یہی طریق تھا کہ وہ بوجہ اپنی وجاہت ذاتی کے سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عادت شائع متعارف ہے چنانچہ شیعہ مذہب میں صدہا اسی قسم کی حدیثیں موجود ہیں اور خودامام دارقطنی نے اس کو احادیث کے سلسلہ میں لکھا ہے ماسوا اس کے یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آگیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدیؔ موعود ظاہر ہوگا اُس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئیگا اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچے بہانے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو۔ دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول اُن کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محدثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اُس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کرکے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔(حاشیہ : فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰـكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِىْ فِىْ الصُّدُوْرِ * شعر میں ستائیسویں کا لفظ سہو کا تب ہے یا خود مولوی صاحب سے بباعث بشریت سہو ہو گیاہے ورنہ جس حدیث کا یہ شعر ترجمہ ہے اُس میں بجائے ستائیس کے اٹھائیسویں تاریخ ہے۔ منہ) خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدثین اس کے وقوع کے اُمید وار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے چنانچہ سب سے آخر مولوی محمد لکھوکے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الآخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے:
تیرھویں چند ستیہویں ژ سورج گرہن ہو سی اُس سالے
اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے
پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صدہا سال سے مشہور چلا آتا ہے۔ یہ لکھتے ہیں: اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے
در۱۳۱۱سنِ غاشی ہجری دو قِران خواہدبود
از پئے مہدی و دجّال نشان خواہدبود
یعنی چو۱۳۱۱ دھویں صدی میں جب چاند اور سُورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا تب وہ مہدی معہود اوردجّال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا۔ اِس شعر میں ٹھیک سن کسوف و خسوف درج ہوا ہے۔"از پئے مہدی و دجّال نشان خواہدبود
(روحانی خزائن ، جلد22حقِیقۃُالوَحی: صفحہ ، 205،204،203،202)
آخری تدوین
: