کیا اللہ نے مومنوں کو مریم کہا ہے؟
قادیانی پادری دھوکہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "الله نے اس امت کے کچھ لوگوں کو مريم اور کچھ کو عيسى فرمایا ہے" نيز قرآن میں الله نے مومنوں کو فرعون کی بیوی کہا ہے ، اور حوالہ دیا جاتا ہے سورة التحريم کی آخری آیات کا .سورة التحريم میں الله نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطهرات کو خطاب فرمایا ہے (لیکن یہ بات انھیں ہی نظر آئیگی جو تفسیر کا مطالعه کرنے کی زحمت کرینگے) اس پوری سورت میں زیادہ تر انہی ازواج مطهرات رضي الله عنهن کو خطاب ہے .. اور آخر میں الله نے انکے لئے چار عورتوں کی مثالیں پیش کی ہیں دو وہ عورتیں جنہوں نے نبیوں کی بیویاں ہوتے ہووے کفر اختیار کیا (حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویاں) اور الله نے فرما دیا کہ دیکھو انکو اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ انکے شوھر نبی ہیں اور انکو آگ میں داخل کر دیا گیا .. اور اسکے بعد الله نے دو ایسی عورتوں کا ذکر کیا جنہوں نے مشکل حالات میں ایمان اور صبر کا دامن پکڑا .. ایک فرعون کی بیوی اور دوسری حضرت مریم بنت عمران .... نہ تو ان آیات میں کہیں یہ ذکر ہے کہ اس امت کے کچھ لوگوں کا نام "عيسى بن مريم" رکھا گیا ہے (جیسا کہ مرزا بن چراغ بی بی نے دعویٰ کیا ہے) اور نہ یہاں کسی "مثیل" کا ذکر ہے .. اور اگر مرزائی پادریوں کی اس نرالی منطق کو تسلیم کیا جائے تو پھر دنیا کا ہر مومن فرعون کی بیوی اور ہر مومن مریم بنےگا کیونکہ آیت میں "مؤمنين" کا لفظ ہے جو جمع ہے مومن کی تو پھر صرف ایک ّ مرزا قادیانی کیوں سب مومنوں کو مریم مانو ؟؟
دوستو آپ لوگ سورة التحريم ، جو کہ پارہ 28 کی آخرى سورت ہے اسکی آخرى تین آیات 10 ، 11 اور 12 کھولیں اور کسی بھی تفسیر سے انکا ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ کریں ، آیت 10 یہ ہے
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ .
اس آیت میں الله نے کافروں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے مثال کہتے ہیں example اور ماڈل کو ..الله بتانا یہ چاہتے ہیں کہ حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بیویاں چونکہ کافر تھیں اس لئے نبی کی بیوی ہونا انکے کسی کام نہ آیا اور وہ آگ میں داخل کی گئیں اس لئے کسی کا صرف کسی نبی کی بیوی ہونا باعث نجات نہیں ہے جب تک کہ وہ بیوی خود بھی مومن نہ ہو ، اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہ کہے کہ الله نے اس آیت میں تمام کافروں کو حضرت لوط اور حضرت نوح عليهم السلام کی بیوی کہا ہے۔
اس آیت کے بعد آیت 11 اور 12 یہ ہے
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (11) وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (12)
ان دونوں آیتوں میں الله نے ایمان والوں کے لئے دو example اور مثالیں دی ہیں ایک فرعون کی بیوی آسیہ کی کہ دیکھو وہ ایک کافر کی بیوی ہوتے ہوے مومن تھی تو الله نے اسکے ایمان کی وجہ سے اسکو جنّت میں داخل کر دیا، اور دوسری مثال حضرت مريم عليها السلام کی دی ہے .. اب پاگل اور جاہل لوگ اس سے یہ نتیجہ نکالیں کہ ان دونوں آیتوں میں الله نے تمام مومنوں کو فرعون کی بیوی اور حضرت مریم کہا ہے یہ سرا سر تحریف اور قرآن پر جھوٹ ہے .. قرآن میں الله نے لوگو کو سمجھانے کے لئے بہت سے انبیاء کے قصّے بیان کیے ہیں ، بہت سی پچھلی قوموں کے واقعات ذکر کیے ہیں تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ تمام مومنوں کو الله نے نبی کہا ہے؟؟؟؟؟ یا امّت محمدیہ کو الله نے قوم نوح، یا قوم ھود، یا قوم ثمود یا بنی اسرئیل کہا ہے ؟؟
ایک مرزائی دھوکہ اور مغالطہ
اسی سورت کریمہ کی آخری آیت ” وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ وَ کَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیۡنَ “ ہے۔ اس آیت کریمہ میں عیسی علیہ السلام کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر ہے اس آیت کا ترجمہ یوں ہے۔ ”اور عمران کی بیٹی مریم (کی مثال بیان کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا اور ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کو اور اسکی کتابوں کو سچ جانا اور وہ عبادت کرنے والوں میں سے تھی۔“
قارئین! اس آیت کریمہ میں پہلے تو حضرت مریم علیہا السلام کا نام مع ولدیت کے مذکور ہے، پھر سارے صیغے ماضی (Past) کے ہیں، یعننی اس آیت میں مزکورہ سارے کام ماضی میں ہو چکے ہیں، اس میں کسی لفظ کا یہ ترجمہ نہیں کہ ”ان میں سے کوئی کام مستقبل میں ہو گا“ یہاں ذکر بھی ایک عورت یعنی حضرت مریم علیہا السلام کا ہو رہا ہے نہ کہ کسی مرد کا...اور سارے صیغے ”فعل ماضی مؤنث“ کے ہیں... احصنت، صدقت، کانت ...اس سے کوئی ”مذکر“ مراد ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے یہاں کسی مرد کے ”مریم“ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا. لیکن مرزائی مذہب کی بنیاد چونکہ تحریفات اور دجل و فریب پر قائم ہے اس لئے اس آیت میں ایک مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ اس طرح کہ'' اللہ نے فرمایا ” فَنَفَخْنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا “” ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی“ یہاں ” فِیۡہِ “ کے لفظ میں ” ہ “ کی ضمیر ہے جو کہ مذکر ہے یعنی مرد کے لئے آتی ہے، اس سے ثابت ہوا کہ ایک مرد میں اللہ اپنی طرف سے روح پھونکے گا." یہ بھی عجوبہ ہے۔ صیغہ ماضی کا ہے ”روح پھونک دی“ لیکن مرزائی تحریف میں اسے ”روح پھونکے گا“ یعنی مستقبل بنا دیا گیا...بہر حال ہم اس مغالطے کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ اس لفظ ” فِیۡہِ “ کی ضمیر ” مریم“ کی طرف نہیں لوٹ رہی بلکہ اس سے پہلے جو لفظ ہے ” فَرْجَہَا “ اس میں موجود ” فرج “ کا لفظ عربی میں ”مذکر“ ہے۔ لیکن پنجابی نقلی مسیح اور اسکے امتی چونکہ عربی زبان کے اصول و قوائد کے قریب سے بھی نہیں گزرے اس لئے جو چاہا کہہ دیا۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر، تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں۔
أی بواسطۃ اللَکَ و ھو جبریل، فإن اللہ بعثہ إلیھا فتمثل لھا فی صورۃ بشر سوَی، و أمرہ اللہ تعالی أن ینفخ بفیہ فی جیب درعھا، فنزلت النفخۃ فولجت فی فرجھا، فکان منہ الحمل بعیسی علیہ السلام (تفسیر ابن کبیر جلد 8 صفحہ173)
یعنی اللہ نے اپنے فرشتے جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے اپنی طرف سے روح پھونکی، اللہ نے انھیں حکم دیا کہ مریم کے گریبان میں پھونک مارو اور وہ پھونک آپ کی شرمگاہ میں قرار پائی اور حمل ہو گیا۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر، تفسیر جلالین میں ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کے گریبان میں پھونک ماری جو کہ آپ کی شرمگاہ میں قرار پائی...(تفسیر جلالین از آیت مذکورہ)
یہی بات تفسیر طبری (جلد 23 صفحہ 116)، تفسیر بیضاوی، تفسیر کشاف، تفسیر روح المعانی، تفسیر خازن، تفسیر کبیر اور دوسری تمام تفاسیر میں بھی ہے اور یہ مرزائی دھوکے کا پوسٹ مارٹم کرتی ہیں کہ یہاں مریم سے مراد کوئی مرد ہے۔ بلکہ عربی زبان کے اصول کے مطابق اس آیت میں الفاط کو مدنظر رکھتے ہووے ” فیہ “ کی ضمیر ” فرج “ کی طرف راجع ہے اور ایک دوسری آیت میں یہی ضمیر شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی طرف راجع کی گئی ہے اور ” فَنَفَخْنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا “ کے الفاظ آے ہیں اور یہ عربی زبان میں مستعمل ہے۔ لیکن دونوں جگہ میں کہیں بھی یہ خبیث مضمون مراد نہیں کہ ”کسی مرد کو مریم بنایا جاے گا“۔ دوسری بات اگر یہاں مریم سے مراد کوئی مرد ہے تو پھر اس مرد کے لیے” احصنت، صدقت، کانت “ کے مؤنث ضیغے کیوں آئے؟ ” احصن، صدق، کان “ کے مذکر ضیغے کیوں نہ آئے؟ تیسری بات اگر مرزا ”مریم“ بن گیا تو پھر وہ ”ابن مریم“ کیسے بن گیا؟ کیا حضرت مریم سلام اللہ علیہا اور حضرت عیسی علیہ السلام دونوں ”ایک وجود“ تھے؟ لعنت ہے ایسی مرزائی عقل پر!
چوتھی بات ان آیات میں ”مومنین“ کے لئے مثال بیان ہو رہی ہے نہ کہ ”ایک مومن“ کے لیے یا ”بعض مومنوں“ کے لئے (جیسا کہ مرزا قادیانی نے بھی دھوکہ دیا) یہاں ” للذین آمنوا “ ہے جس میں وہ سب داخل ہیں جو صاحب ایمان ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ صرف ایک ”مرزا قادیانی“ ہی مریم بنا؟ باقی مومنوں نے کیا گناہ کیا کہ وہ مریم نہیں بنے؟
دراصل مرزا قادیانی اور مرزائی امت کے لئے یہ بات درد سر بنی ہوئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کی قسم اٹھا کر خبر دی تھی کہ ”قرب قیامت مریم کے بیٹے عیسی علیہ السلام نازل ہونگے“ اور ایک دوسری حدیث میں صاف طور پر یہ بھی فرمایا کہ ”وہی عیسی نازل ہونگے جنکے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا“ یعنی صاف طور پر بتا دیا کہ جو عیسی علیہ السلام مجھ سے پہلے مبعوث ہووے وہ ہی نازل ہونگے۔ تو اب مرزا اپنی والدہ مسماۃ چراغ بی بی کو تو ”مریم“ ثابت نہ کر سکا اس لیے اس نے ایک نیا ڈھکوسلہ ایجاد کر لیا کہ خود ہی مریم بن جاو پھر خود ہی اپنے ہی پیٹ سے پیدا ہو کر ”ابن مریم“ بن جاو۔ خیر ہمارا کیا جاتا ہے
بے حیا باش -------- ہر چہ خواہی کن
دراصل مرزائی تحریف کو اگر قبول کیا جائے تو قرآن کریم نعوذ باللہ ایک مزاق بن کر رہ جائے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم میں کہیں بھی نہ صراحتاً اور نہ اشارتاً ایسی کوئی بیان ہوئی ہے کہ امت محمدیہ میں سے پہلے کوئی مریم بنے گا پھر خود اپنے ہی پیٹ سے پیدا ہو کر ابن مریم بنے گا۔ نہ کسی حدیث میں نہ کسی صحابی کے قول میں اور نہ ہی مرزا سے پہلے 1300 سال میں ہوے مجددین، مفسرین، محدثین اور اکابر امت میں سے کسی نے یہ احمقانہ بات لکھی ہے۔