• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

کیا تعلیمات نبوی صلى الله علیہ وسلم پر مسیحیت کا اثر ہے؟

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
کیا تعلیمات نبوی صلى الله علیہ وسلم پر مسیحیت کا اثر ہے؟

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذرائع علم کیا تھے ؟خاص طور پرمغرب کے نزدیک یہ مسئلہ ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ اگروحی کوذریعہ ابلاغ تسلیم کرلیاجائے توسارامسئلہ ہی ختم ہوجاتاہے ۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ محمد کونبی تسلیم نہیں کرنا ہے ،اس لیے وحی کے ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بڑی مشکل سے انہیں بشریت کامقام دیاگیاتوعیسائی کلیساکارکن سمجھاگیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ نبی کے معلّمین کارکنان کلیساتھے ۔ اتفاق سے شام کے تجارتی اسفارکاواقعہ مستشرقین کی نظرسے گزرا،توپھران کے لیے راہبوں کومعلم ثابت کرنے میں کوئی کلام نہیں رہ گیا۔ لیکن دقت یہ تھی کہ مختصروقت کی ملاقات تعلیم وتعلم کے لیے کافی نہیں۔ لہٰذااس قسم کے معلّمین کوعرب میں تلاش کیاگیا۔ مستشرقین کی نظرورقہ بن نوفل پرپڑی۔ بڑے وثوق سے کہاگیاکہ یہی آپ کی تعلیم پرمامور ہوئے ۔ ان لوگوں نے معلّمین کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی تو یہ بھی کہاکہ زیدبن حارثہ رضى الله تعالى عنه چوں کہ ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کا تعلق عیسائیت سے تھا ، اس لیے مذہب کی تشکیل وتفہیم میں ان سے مدد لی ہوگی ۔ یہ بھی کہا گیاکہ حضرت بلال حبشی رضى الله تعالى عنه اورماریہ قبطیہ رضى الله تعالى عنها کاتعلق بھی عیسائیت سے تھا،کوئی بعید نہیں کہ ان لوگوں سے بھی آپ نے عیسائیت سے واقفیت حاصل کی ہوگی۔ ان سارے لوگوں کامعلّمین ہونامستشرقین نے ناکافی سمجھاتوان اہل کتاب عالموں کوبھی اس فہرست میں شامل کردیا،جومکہ کے قرب وجوارمیں رہتے تھے۔ بیش تر مستشرقین مثلا:سرولیم میور،بلاشیر،ڈریپر،باڈلے،فلیپ ایر لنگی اور گولڈ زیہر وغیرہ نے اسی بات پر زور دیا ہے۔ ’ڈریپر‘لکھتا ہے:

”بحیراراہب نے بصری کی خانقاہ میں محمدکونسطوری عقائد کی تعلیم دی ....آپ کے ناتربیت یافتہ اخَّاذ دماغ نے نہ صرف اپنے اتالیق کے مذہبی بلکہ فلسفیانہ خیالات کاگہرااثرقبول کیا ... بعدمیںآ پ کے طرزعمل سے اس امرکی شہادت ملتی ہے کہ نسطوریوں(عیسائیوں کے ایک فرقہ کانام ہے) کے مذہبی عقائد نے آپ پر کہاں تک قابولیا تھا۔ “(۱)

’فلیپ ایرلنگی‘ اپنے ایک مضمون میں متضاد اور ناقابل تسلیم رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتاہے :

”محمد کی مکہ میں اکثریہودیوں سے ملاقات ہوتی رہتی تھیں... محمداپنے خادم زیدسے جوعیسائیوں کاغلام رہ چکاتھا یہودیوں اورمسیحی مذاہب کے بارے میں استفادہ کی غرض سے سوالات کیاکرتے تھے وہ اپنے خادم سے زیادہ سمجھ دار تھے... مدینہ میں محمدیہودیوں کے شاگردرہے ، یہودیوں ہی نے آپ کی شخصیت سازی کی تھی یہودیوں اور مسیحیوں میں جو داستانیں مشہور تھیں جبرئیل ان سب کومحمدکے سامنے بیان کردیاکرتے تھے۔ “(۲)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مکہ کے ماحول میں تعلیم کاحصول ممکن نہ تھا

قریش مکہ کو اپنی زبان دانی پر ضرورناز تھا۔ مگران کے اندرنوشت وخواندسے دل چسپی نہیں تھی۔ یہ صورت اس وقت تک برقراررہی جب تک کہ محمد صلى الله عليه وسلم نے نبوت سے سرفرازکیے جانے کے بعدان لوگوں کے اندرپڑھنے لکھنے کا داعیہ نہ پیداکردیا۔ حضورصلى الله عليه وسلم کے ابتدائی حالات سے بھی پتا چلتاہے کہ آپ کی پرورش جس ماحول اورمعاشرہ میں ہوئی اس میں حصول علم کے ذرائع اورمواقع مفقود تھے ۔ خاص کراس بچہ کے لیے جس کے سرسے والدین کاسایہ اٹھ چکاہو،علم حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ ابوطالب کوئی اتنے بڑے مال دار اورفارغ البال بھی نہ تھے کہ اپنے بچوں سے توجہ ہٹاکرصرف حضورصلى الله عليه وسلم کی تعلیم پرتوجہ دیتے ۔ اس لیے یہ بات سرے سے بے بنیاد ہے کہ آپ نے حصول علم کے لیے معلّمین کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیاتھا،جس کے اثرا ت نبوت کے بعدظاہرہوئے ،یااس سے قبل آپ صلى الله عليه وسلم نے جس سنجیدگی اورفرزانگی کا مظا ہرہ کیاوہ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔ بلکہ آپ کاطریقہ زندگی ٹھیک اسی نہج پرپروان چڑھا جس طرح حضرت ابراہیم عليه السلام کی زندگی۔ وہ کم عمری میں بتوں کے مخالف ہوگئے اورجستجوئے حق میں سرگرداں رہتے۔ (الانبیاء: ۵۱-۵۲)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضورصلى الله عليه وسلم کی امیت کے دلائل

یہ بات تو طے ہے کہ آپ امی تھے ۔ قرآن نے باربارآپ کواسی لقب سے یادکیا اور متعارف کرایاہے ۔ چنانچہ کفارومشرکین کے شکوک وشبہات کا ازالہ اور ان کے اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے قرآن میں فرمایا گیاہے :
فَاَمِنُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیّ ِالْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُوٴْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمٰتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْن۔(الاعراف :۱۵۸)
(پس ایمان لاؤاللہ پراوراس کے بھیجے ہوئے نبی امی پرجواللہ اوراس کے ارشادات کومانتاہے اورپیروی اختیارکرواس کی ، امیدکہ تم راہ راست پالوگے۔ )
ایک اور مقام پر حضورصلى الله عليه وسلم کو امی محض کے طور پر تعارف کراتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ.(العنکبوت:۴۸)
(اے نبی) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے،اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑجاتے۔ )
نبی امی کی پیروی کرنے کی تائیدکرتے ہوئے فرمایاگیاہے :
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہُ عَلَیْْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْماً وَزُوراً. وَقَالُوا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْْہِ بُکْرَةً وَأَصِیْلاً. قُلْ أَنزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً.(الفرقان:۴-۶)
(جن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکارکردیاہے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیزہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ ان منکرین نے خلاف واقع من گھڑت بات کہی اورکہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں۔ جنہیں یہ شخص نقل کرلیتاہے اوروہی صبح وشام اس کے پاس لکھی جاتی ہیں۔ اے نبیان سے کہوکہ اسے نازل کیاہے اس نے جوزمین اورآسمانوں کابھیدجانتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑاغفورورحیم ہے ۔ )
چالیس سال کی عمرمیں غارحراکے اندرجبرئیل امین وحی لے کرآئے اورآپ سے کہاکہ اے محمدپڑھیے۔ آپ بار باریہی کہتے رہے کہ میں پڑھاہوا نہیں ہوں ۔ فرشتہ وحی نے جب آپ کوسینہ سے لگاکربھینچاتوآپ پڑھنے لگے ۔ (۳) یہ اوربعض دوسرے واقعات سے یہ بات مزیدواضح ہوجاتی ہے کہ آپ پڑھنے لکھنے سے واقف نہ تھے ۔ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد تبلیغ دین کے لیے آپ نے بہت سے حکم رانوں کے نام خطوط اورفرامین لکھواکربھیجے ۔ اگرآپ نوشت وخواندسے واقف ہوتے توایساکرنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پرکفارکے قابل اعتراض لفظ کومٹاکرمحمدبن عبداللہ لکھنے کوحضورنے حضرت علی سے کہا۔ انہوں نے احترام نبوی کا لحاظ کرتے ہوئے جواب دیا یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اس پرحضورنے علی سے فرمایابتاؤوہ لفظ کہاں ہے ۔ حضرت علی نے انگلی رکھ کربتادیا ۔ حضورنے اپنے ہاتھ سے اسے مٹایااوراس کی جگہ محمدبن عبداللہ لکھوا دیا۔ (۴) برسوں علمی ماحول میں رہنے کی وجہ سے بعض لوگ کم ازکم اپنے نام کااملاکرہی لیتے ہیں۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں اورنہ اس سے پڑھے لکھے ہونے پراستدلال نہیں کیاجاسکتاہے ۔ بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ تک آپ کے اندر لکھنے پڑھنے کی شد بد پیدا ہوگئی تھی۔ مگر یہ تمام روایتیں موضوع اور کم زور ہیں۔ (۵)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
کفار مکہ نے راہبوں سے علمی استفادہ کاالزام نہیں لگایا

بتوں کی مذمت اورعقائدواعمال کے مفاسد کی باتیں سنناکفار ومشرکین کے نزدیک دل شکن بات توتھی، مگران کے لیے زیادہ اچنبھے والی بات یہ تھی کہ سابقہ انبیاء اوران کے پیروکاروں کی اطلاع آخر نبی کو کہاں سے مل رہی ہے ۔ وہ توپڑھے لکھے نہیں ہیں کہ سابقہ کتابوں سے معلومات اخذکرسکیں۔ ہونہ ہویہ فلاں فلاں عجمی غلاموں سے جنہیں آسمانی کتابوں کا علم ہے ، معلومات حاصل کرتے ہوں۔ ان کے نزدیک معلومات کے ذرائع ان کے علاوہ شام کے راہب ہوتے تووہ ضروراس کی تشہیر کرتے اور کہتے یہ باتیں انہیں سے سیکھی تھیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی کے ہم عصردشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہاکہ تم بچپن میں بحیراراہب سے جب ملے تھے ،اس وقت یہ سارے مضامین ان سے سیکھ لیے تھے اورنہ یہ کہاکہ جوانی میں جب تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہرجایاکرتے تھے ،اس زمانے میں تم نے عیسائی اوریہودی علماسے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ یہ سفراکیلے نہیں قافلے کے ساتھ ہوئے تھے اوروہ جانتے تھے کہ ان میں کسی سے کچھ سیکھ کرآنے کاالزام لگائیں گے تو اپنے ہی شہر والے جھٹلائیں گے ۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گاکہ اگریہ معلومات اس شخص کوبارہ تیرہ برس کی عمرہی میں بحیراسے حاصل ہوگئی تھیں توآخریہ شخص کہیں باہرتو نہیں رہتاتھا،ہمارے ہی درمیان رہتا،بستاتھا۔ کیاوجہ ہے کہ چالیس برس کی عمرتک اس کایہ ساراعلم چھپارہااورکبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسانہ نکلاجواس کے علم ودانش کی غمازی کرتا؟(۶)
علامہ سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آں حضرت کی پیغمبرانہ زندگی پورے ۲۳/برس تک قائم رہی ،اگرآں حضرت صلى الله عليه وسلم کسی انسانی معلم سے فیض پاتے رہتے تو ضرور تھاکہ وہ اس پورے زمانہ تک یابڑی حدتک خلوت وجلوت میںآ پ کے ساتھ رہتاکہ وقت ضرورت (نعوذباللہ )آپ اس سے قرآن بنواتے ،احکام ومواعظ سیکھتے، اسرارونکات معلوم کرتے اوریہ شخص یقینا مسلمان نہ ہوتا،کیوں کہ جوشخص خودمدعی نبوت کوتعلیم دے رہاہو،وہ کیوں کراس کی نبوت کوتسلیم کرسکتاتھااورپھراس شہرت عام، ذکرجمیل، رفعت مقام کو دیکھ کرجومدعی نبوت کوحاصل ہورہی تھی ،وہ خودپردہ کے پیچھے گم نامی پسندکرتااورصحابہ کرام کی نگاہوں سے اس کا وجودہمیشہ مستور رہتا،جس عجمی کی نسبت قریش کوشبہ تھا،اگرحقیقت میں آپ اس سے تعلیم حاصل کیا کرتے توقریش جوآپ کی تکذیب ،تذلیل اورآپ کوخاموش کرنے کی تدبیرپرعمل پیراہورہے تھے ،ان کے لیے آسان تھاکہ اس غلام عجمی کوالگ کردیتے کہ محمدرسول اللہ کا وحی اورقرآن کاتمام کاروباردفعتاًدرہم برہم ہوجاتا، علاوہ ازیں زیادہ سے زیادہ اس کاوجودمکہ میں تھا،پھرمدینہ میں۱۳/برس تک سینہٴ نبوت سے فیضان الٰہی کاسرچشمہ کیوں کر ابلتا رہا،قر آن شریعت اسلام اوراحکام کابڑاحصہ یہیں وحی ہواہے ،مکہ میں تونسبتابہت کم سورتیں نازل ہوئیں۔ “(۷)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
شام کے تجارتی سفر کا تفصیلی پس منظر

حضور کے تجارتی سفرجو بچپن میں ہوئے اس کی تفصیل جامع الترمذی میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں:
” ابوطالب رؤسائے قریش کے ہمراہ (ملک )شام کی طرف (تجارت کے لیے) چلے ۔ آپ کے ہمراہ رسول اللہ بھی اس سفرمیں تھے ۔ جب (بحیرا) راہب کے مکان( یاصومعہ)کے قریب پہنچے توابوطالب اترے اورلوگوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ پادری(راہب )ان کے پاس آیا،اس سے پہلے بھی یہ لوگ یہاں سے گذراکرتے تھے ،مگر راہب ان کے پاس نہ آتاتھابلکہ التفات بھی نہ کرتاتھا۔ (اب کی دفعہ خلاف معمول خودچل کرآیا)یہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان گھس کرچلنے لگا،یہاں تک کہ اس نے آکررسول اللہ کاہاتھ پکڑ لیا اوراس نے (لوگوں کومخاطب کر کے )کہا:یہ تمام جہانوں کے پروردگارکی طرف سے رسول ہیں۔ اللہ تعالی ان کوعالم کے لیے رحمت بناکرمبعوث کرے گااوریہ تمام عالم کے سردارہیں۔ رؤسائے قریش نے پوچھایہ آپ کوکیسے معلوم ہوا۔ پادری نے کہاجس وقت تم لوگ عقبہ سے چلے ہوتوجتنے پتھراوردرخت تھے ،سب سجدہ میں گرپڑے ۔ ایک پتھراورایک درخت بھی ایسانہ رہاجس نے سجدہ نہ کیاہوا۔ درخت اورپتھرسوائے پیغمبر کے کسی کوسجدہ نہیں کرتے اورمیں ان کی مہرنبوت بھی پہچانتاہوں جو آپ کے مونڈھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانندہے ،پھروہ پادر ی واپس چلاگیااوران لوگوں کے لیے کھاناتیارکرنے لگاجس وقت وہ کھانالے کران کے پاس آیاتوآپ اونٹوں کے چرانے میں مصروف تھے ۔ اس نے آپ کوبلابھیجا،جس وقت حضور وہاں سے چلے توایک بدلی آپ کے سرپرسایہ کیے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے پاس پہنچے توکیادیکھتے ہیں کہ یہ لوگ مجھ سے پہلے درختوں کے سایوں کی جگہ قبضہ کرچکے ہیں۔ جب آپ بیٹھے تودرخت کاسایہ آپ پرجھک گیا،پادری نے لوگوں سے کہا۔ دیکھواس درخت کاسایہ آپ پرجھک گیاہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ پادری ان کے پاس کھڑا ہوا قسمیں کھاکھاکران کوسمجھارہاتھاکہ ان کوروم کی طرف نہ لے جاؤ،کیوں کہ رومی لوگ اگران کودیکھیں گے توصفت و علامات سے ان کوپہچان لیں گے (کہ یہ اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی ہیں) اورآپ کوقتل کرڈالیں گے ۔ اتنے میں اس نے منھ موڑ کر کیا دیکھا کہ سات آدمی روم کی طرف سے چلے آرہے ہیں پادری نے ان کااستقبال کیا اور ان سے پوچھاکہ تم کیوں آئے ؟انہوں نے کہاہم اس لیے آئے ہیں کہ ایک نبی اس مہینہ میں نکلنے والے ہیں۔ پس کوئی راستہ ایسا نہیں جہاں چندآدمی نہ بھیجے گئے ہوں اورہمیں ان کی خبرملی ہے تو ہمیں اس راستہ کی طرف بھیجاگیاہے۔ پادری نے پوچھاکیاتم لوگوں کے پیچھے کوئی تم سے بہترآدمی بھی ہے ؟انہوں نے کہا ہمیں توآپ کے اسی راستہ کی خبر دی گئی ہے (اورکچھ نہیں بتایا گیا ) پادری نے کہا اچھا تو یہ بتاؤکہ اگراللہ تعالی نے کسی امرکاارادہ کیاہوتوکیاانسان کی طاقت ہے کہ اسے روک دے ؟انہوں نے کہانہیں۔ الغرض انہوں نے آپ سے بیعت کرلی اور آپ کے ساتھ مقیم رہے ۔ پادری نے قریش سے کہاتمہیں خداکی قسم یہ بتاؤکہ تم میں اس کا ولی (سرپرست)کون ہے ؟انہوں نے کہاابوطالب (آپ کے چچا اور سرپرست ہیں) پادری نے قسمیں دے کرابوطالب سے کہاکہ انہیں واپس لے جاؤ۔ آخر ابوطالب نے آپ کومکہ واپس بھیج دیااورحضرت ابوبکرصدیق رضى الله تعالى عنهنے آپ کے ہمراہ بلال کوبھیجا اور اس پادری نے آپ کوزادراہ کے لیے روٹیاں اورروغن دیا۔ “(۸)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضورصلى الله عليه وسلم کے تجارتی اسفارصحیح تناظرمیں

حضورکے تجارتی اسفارجوملک شام کے لیے ہوئے ،اس سے متعلق جوتفصیلات بعض کتب احادیث وسیراورتاریخ میں ملتی ہیں اور جیسا کہ ابھی اوپرتفصیلی روایت گزری ہے۔ اس میں سے ناقابل فہم باتوں کونکال دیاجائے تواس کاسیدھاسادامطلب یہی نکل کرسامنے آتاہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ شام کاسفراس وقت کیا،جب کہ آپ کی عمر مشہور روایت کے مطابق ۱۲/سال کی تھی ۔ یہ سفر آپ کااپنے چچاابوطالب کے ساتھ ہواتھا۔ جب یہ تجارتی قافلہ منزل بہ منزل کوچ کرتاہوا، شام کے علاقہ بصری کے مقام پرپہنچاتوایک جگہ قیام کیا۔ یہاں سے کچھ فاصلہ پرعیسائیوں کی ایک خانقاہ تھی ۔ اس میں بحیرانام کا ایک راہب رہتا تھا۔ خلاف معمول یہ راہب اپنے صومعے سے نکلااورقافلہ والوں کودیکھنے لگا۔ اسے اس قافلہ والوں میں سے کسی ایک آدمی کے متعلق غیرمعمولی باتیں نظرآنے لگیں۔ صحیح صورت حال جاننے کے لیے اس نے اس تجارتی قافلہ کی دعوت کی۔ وقت مقررہ پرسارے لوگ کھانے کے لیے پہنچے اوردسترخوان پربیٹھ گئے ۔ راہب کی نظراس کم سن بچہ پرپڑی ۔ وہ اسے بغوردیکھتارہا۔ اسے اس بچہ کے چہرہ بشرہ سے غیرمعمولی بلندی کے آثارنظرآرہے تھے اوروہ علامات بھی نظرآرہی تھیں جونبی آخرالزماں کے متعلق وہ اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھ چکاتھا۔ چنانچہ وہ حضورکے قریب ہوااورآپ سے مخاطب ہوکرکچھ پوچھنے لگا۔ آپ نے کم عمرہونے کے باوجوداس کے سارے سوالوں کاصحیح صحیح جواب دے دیا۔ اس سے اسے اتنااندازہ توہوگیاکہ ہونہ ہویہی بچہ آگے چل کر آخری نبی مقرر ہو، مگراس نے یقین سے کچھ کہنے کے بجائے ابوطالب سے کہا کہ یہ بچہ بلنداقبال والاہے، تم اس کی اچھی طرح نگہ داشت اورپرورش و پرداخت کرنا۔ ابن اسحاق کے بہ قول بحیراراہب نے ابوطالب سے یہ بھی کہا:
”آپ اپنے بھتیجے کووطن واپس لے جائیں اوریہودسے اس کوبچائیں۔ اللہ کی قسم اگرانہوں نے دیکھ لیااوروہ علامتیں پہچان لیں جومیں نے پہچانی ہیں تووہ اسے ضرر پہنچائیں گے ۔ آپ کابھتیجابڑی عظمت والاہے ۔ “(۹)
حافظ ابن کثیرنے اپنی تاریخ میں اس واقعہ کو تفصیل سے نقل کیاہے ۔ بحث کے شروع میں انہوں نے اس کے متعلق جو باتیں تحریرکی ہیں،اس سے معلوم ہوتاہے کہ راہب نے ان کے چچاسے حضورکی حفاظت اوراچھی طرح پرورش وپرداخت کرنے کی بات کہی تھی ، نہ کہ یہ کہاتھاکہ یہ بچہ نبی آخرالزماں بننے والاہے ۔ (۱۰) ابن جریرطبری نے اس واقعہ سے متعلق تمام رطب ویابس باتوں کوحذف کردیا ہے ،البتہ انہوں نے ابوموسی اشعری کے حوالے سے وہی روایت نقل کی ہے جسے ترمذی نے نقل کیاہے۔ (۱۱)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
شام کا دوسرا واقعہ اور نسطوراسے ملاقات کی اصلیت

اسی نوعیت کادوسراواقعہ بھی ملک شام میں اس وقت پیش آیاجب کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر۲۵سال کی تھی۔ آپ کایہ سفربھی تجارت کی غرض سے ہواتھا۔ حضرت خدیجہ کامال لے کرجارہے تھے۔ آپ کے معاون کے طورپرحضرت خدیجہ نے اپنے غلام میسرہ کوساتھ کردیاتھا۔ (۱۲) جب یہ تجارتی قافلہ شام کے علاقہ بصری میں پہنچاتوسب لوگوں نے پڑاؤ ڈالا۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے آپ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے ۔ اب کی بارنسطوراراہب اپنے خیمہ سے نکل کرقافلہ والوں کے پاس آیا۔ یہاں تک کہ اس نے میسرہ سے پوچھاکہ اس درخت کے نیچے آرام کرنے والاشخص کون ہے؟ اس نے کہاکہ مکہ کے قریش کاایک فرزند ہے۔ راہب نے کہاکہ آج تک اس درخت کے نیچے حضرت عیسی عليه السلام کے بعد کوئی دوسراآدمی نہیں بیٹھا،یہ کوئی غیرمعمولی آدمی نظرآتاہے۔ پھروہ حضورسے ملااورگفت و شنیدکی ۔ راہب آپ سے غیرمعمولی طورپر متاثر ہوا۔ بعض نشانیوں کودیکھ کر اورحضورکے عادات واطوارکوملاحظہ کرنے کے بعداسے یہ نتیجہ اخذکرنے میں دقت نہ ہوئی کہ یہ نبی آخرالزماں ہیں۔ مگریقینی بات کہنے کے لیے اس کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہ تھی ۔ یہاں تک کہ حضوراپنی تجارت سے فارغ ہوئے اوروطن لوٹے۔ چوں کہ میسرہ ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے،اس لیے وہ حضورکے افعال و گفتاراوراخلاق وکردارسے بہت متاثر ہوے۔ اس کا ذکرانہوں نے حضرت خدیجہ رضى الله تعالى عنها سے کیاتووہ بھی آپ کی قدرداں ہوگئیں۔ یہاں تک کہ حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کی پیش کش کردی ۔
ابن جریرطبری نے اس دوسرے سفرکے متعلق زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی ہیں ۔ انہوں نے بس اتنالکھاہے کہ میسرہ سے راہب نے پوچھاکون یہ شخص ہے ۔ میسرہ نے مذکورہ باتیں بیان کردیں،اس پرراہب نے کہاکہ مانزل تحت ھذہ الشجرہ قط الانبی(۱۳) اس کے بعدانہوں نے تجارت سے واپسی اورمکہ پہنچنے کاذکرکیاہے ۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ان واقعات کاکم زور پہلو

ان واقعات کے متعلق ایسی بہت سی باتیں بعض دوسری کتابوں میں جگہ پاگئیں ہیں جودرست معلوم نہیں ہوتیں۔ ان میں سے بعض باتیں یہ ہیں۔ ایک یہ کہ قافلے والے حضور کو سامان کی حفاظت کے لیے خیمہ میں چھوڑ کرراہب کی دعوت کھانے چلے گئے۔ لاکھوں کاسامان تجارت ایک بچہ کی نگرانی میں چھوڑکرجاناخلاف قیاس معلوم ہوتاہے۔ جب حضرت ابوطالب سفرکے لیے نکل رہے تھے تو حضور نے اپنے چچا کا دامن تھام لیا اور سفر میں ساتھ جانے پراصرار کرتے رہے ،بہ مشکل تمام ابوطالب اپنے ساتھ لے جانے پر راضی ہوئے۔ جب قافلہ والوں کی دعوت راہب نے کی توحضرت ابوطالب اپنے بھتیجہ کو غیرمامون جگہ پرتنہاچھوڑکرہرگزنہیں جاسکتے تھے ،وہ آپ کوضرور اپنے ساتھ لے کرجاتے۔ راہب نے لات وعزی کی قسم دے کر حضور سے کچھ معلومات حاصل کرناچاہاحضورنے کہا،لات و عزی کی قسم مجھے نہ دومجھے اس سے نفرت ہے ۔ تب اس نے کہاکہ اچھااللہ کے واسطے سے بتاؤ۔ پھرآپ نے راہب کے تما م سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا۔ راہب نے آپ کی مہرنبوت کو ملاحظہ کیااورپہچان لیا کہ آپ ہی نبی آخرالزماں ہیں۔ اس کا اظہارراہب نے ابوطالب سے کیااور کہاکہ اس کی حفاظت کرنا، مبادا یہودپہچان لیں گے توانہیں قتل کرڈالیں گے۔ جیسے ہی ابوطالب نے بچہ کووہاں سے رخصت کیا سات شرپسندرومی حضور کوتلاش کرتے ہوئے خانقاہ میں پہنچ گئے اوراپناارادہ ظاہرکیاکہ ہم محمدکاقتل کرنے آئے ہیں۔ مگرراہب کے سمجھانے پروہ اپنے فعل سے بازآگئے۔ یہ اوراس طرح کی دوسری باتیں جواس واقعہ کے متعلق بیان کی جاتی ہیں بے بنیاداورمن گھڑت معلوم ہوتی ہیں۔
اس سے یہ بھی پتا چلتاہے کہ ۱۲/سال کی عمرمیں خود حضورکومعلوم ہوگیاتھاکہ آپ عنقریب نبی بنائے جانے والے ہیں۔ اسی طرح مکہ والے بھی جان گئے تھے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں اوراس کی شہرت دوردورتک پھیل جانی چاہیے تھی ۔ اگرراہب کی باتوں کااعتبارکرلیاجائے توکم ازکم اس سفرکے بعدلوگوں نے آپ پرقاتلانہ حملہ کیوں نہیں کیا۔
اس سفرکے بعدآپ نے یقینا کئی اسفاربغرض تجارت کیے ہوں گے جس کی تفصیلات نہیں ملتیں ۔ لیکن بالکل اسی نوعیت کادوسراواقعہ بغرض تجارت جاتے ہوئے بصری کے مقام پر ظاہرہوااوراس وقت بھی اسی خانقاہ کے ایک راہب جونسطورا کہلاتاتھاکاواسطہ آپ سے پڑا اور اس نے بھی آپ کے نبی بنائے جانے کی تصدیق کی ۔ یہ بات توتسلیم کی جاسکتی ہے کہ اگریہ سفریقینی ہے توآپ نے ایک درخت کے نیچے آرام کیاہوگااورراہب نے کہاہوگاکہ حضرت عیسیٰ کے بعدسے لے کرآج تک کوئی دوسراآدمی اس درخت کے نیچے نہیں بیٹھا۔ مگریہ کہناصحیح نہیں معلوم ہوتاکہ اس کے نیچے بیٹھنے والاشخص ہی نبی آخرالزماں ہے ۔ علامہ زرقانی نے شرف المصطفی کے حوالے سے یہ بھی تحریرکیاہے کہ پھرنسطوراآپ کے قریب ہوااورآپ کے قدم چومے اورکہاکہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول اورنبی امی ہیں،جس کی بشارت عیسی نے دی تھی اورکہاتھاکہ میرے بعداس درخت کے نیچے آپ کے سواکوئی نہ بیٹھے گا۔ (۱۴) واقعہ کی تفصیل میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ میسرہ نے پورے راستے میںآ تے جاتے دیکھاکہ دو فرشتے مستقل آپ پرسایہ کیے رہتے ہیں۔ یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتاتوآپخودتعجب کرتے اورقافلہ میں موجودلوگ حیرت میں پڑجاتے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
غیر معمولی باتوں کا اثرآپ صلى الله عليه وسلم پرکیوں نہیں ہوا؟

اگراس واقعہ میں صداقت ہوتی تویہ بات مکہ سے لے کرشام تک اورشام سے لے کے مکہ تک تومشہورہو ہی جاتی ،مگر روایات سے بس اتناپتاچلتاہے کہ میسرہ نے پورے راستہ اس منظرکوملاحظہ کیا۔ رہی بات راہب کے اس علامت کے ملاحظہ کرنے کی تویہ کوئی بعید بات نہیں ہے، کیوں کہ بعض لوگ اپنے علم اورریاضت کی وجہ سے بعض وقت اللہ کی نشانیوں کوملاحظہ کرلیتے ہیں۔ مگر پہلے تویہ ثابت ہوجائے کہ ایساہوابھی کہ نہیں۔ پھرجب حضورتجارتی سفرسے لوٹ کرمکہ میںآ ئے توخدیجہ نے اپنے بالاخانے سے دیکھاکہ حضوراونٹ پرسوارہیں اوردوفرشتے آپ پرسایہ کیے ہوئے ہیں اس منظرکوخدیجہ نے اپنی سہیلیوں کودکھایاجواس وقت موجودتھیں۔ اس پران لوگوں کوتعجب ہوا۔ میسرہ نے راستے کے عجائبات اورآپ کی کرامت وبزرگی کاتفصیل سے ذکرکیااورراہب کی بات بیان کی کہ آپ نبی آخرالزماں ہیں جس کی بشارت کتب سابقہ میں دی گئی ہے۔ ان باتوں کوسننے اورآپ کی کرامت وبزرگی کودیکھ کرحضرت خدیجہ نے اپنے آپ کوآپ سے منسوب کرنے کاپیغام بھیج دیاجسے آپ نے قبول بھی کرلیا۔ (۱۵) اس طرح کی باتوں سے توبالکل یہی معلوم ہوتاہے کہ اس باربھی آپ کو۱۵/ سال پہلے معلوم ہوگیاکہ آپ نبی بننے والے ہیں،جوصحیح نہیں ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ آپ شروع سے ہی نیک ،شریف اوراعلی اخلاق کے مالک تھے، لیکن خودآپ پر اپنا مقصد زندگی واضح نہیں تھا اور نہ آپ نے مسقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا تھا۔ ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔ مگربنیادی فرق یہ تھاکہ آپ کائنات کی ہرچیز پر غور وفکر کرتے تھے اوروحدانیت کے تصورسے آپ کاسینہ سرشارتھا۔ اس لیے یہ بات کس طرح درست ہوسکتی ہے کہ جیساکہ علامہ زرقانی اورحافظ ابن حجرنے ابوسعید کے حوالے سے کہاکہ راہب آپ پرایمان لے آیاتھا۔ (۱۶) نبوت ملی نہیں ایمان لانے کا عمل کیسے واقع ہوگیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آیات قرآنی سے واقعہ کی تغلیط

مذکورہ دونوں اسفارمیں راہب سے علمی استفادہ کو درست ماناجائے توپھرقرآن کی مندرجہ ذیل آیتوں کاکیاجواب ہوگا،جس میں کہاگیاہے کہ آپ نبوت کی امیدلگائے ہرگزنہ بیٹھے تھے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَا کُنتَ تَرْجُو أَن یُلْقَی إِلَیْْکَ الْکِتَاب.(القصص:۸۶)
(اورآپ ہرگزاس کے امیدوارنہ تھے کہ آپ پرکتاب نازل کی جائے گی۔ )
ایک اورمقام پرآپ کی امیت کوواضح کرنے کے ساتھ فرمایاگیاہے کہ آپ کوکیامعلوم کہ کتاب اورایمان کیاچیزہوتی ہے ،اگراس بات کاپہلے سے علم ہوتاکہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں تویہ بڑی بات ہوتی ۔ ارشادباری تعالی ہے :
مَا کُنتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ .“ (الشوری:۵۲)
(تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیاہوتی ہے اورنہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیاہوتاہے)
آئندہ کے لیے اس طرح کی باتیں وہی شخص سوچ سکتاہے جوسماج کاسب سے اعلی فردہو۔ جیساکہ کفارو مشرکین کی گفتگو قرآن نے نقل کی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو اور دوسرا معزز آدمی نہیں ملا تھا کہ وہ اسے نبی بناتا۔ (زخرف:۳۰)پھردومرتبہ جب آپ پریہ بات واضح ہوگئی کہ آپ عنقریب نبی بنائے جانے والے ہیں،تو آپ کے دل میں اس کی امنگ پیدانہ ہوئی ناقابل فہم بات ہے۔ اگرایساہواتونعوذباللہ قرآن کی تصریحات غلط ہیں ۔ یاپھرقرآن نے جوکچھ کہاہے تواسے ہی صحیح ماناجائے اورماننابھی چاہیے تواس سفرمیں جوخرق عادات باتیں سامنے آتی ہیں وہ لغو ہیں ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی لکھتے ہیں:
”یہ واقعہ جس پرمستشرقین نے بہت سے قیاسات کی عمارت اٹھائی ہے اوران علوم کوجورسول ہونے کے بعدآپ سے ظاہرہوئے ،عیسائی را ہبوں سے حاصل کردہ معلومات قراردیاہے ۔ اس پرمزیدخودہمارے ہاں کی بعض روایات بھی ایسی ہیں جوایک حدتک ان قیاسات کوتقویت پہنچاتی ہیں۔ دراصل یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ ایک زاہدمرتاض آدمی جس نے مجاہدوں سے اپنی روحانی قوتوں کو نشوونما دیاہو،کچھ غیرمعمولی برکات کے آثاردیکھ کرمحسوس کرلے کہ اس قافلہ میں کوئی عظیم شخصیت موجودہے ، اورآپ کودیکھ کراسے اپنے اندازوں کی تصدیق ہوگئی ہو۔ نیزاس نے اس خیال سے کہ یہودی ایک حاسدقوم ہیں اوروہ عرب کے امیوں میں کسی عظیم شخصیت کے ظہورکواپنے لیے خطرہ سمجھ کراس کے درپے آزار ہوسکتے ہیں،ابوطالب کوان سے بچانے کامشورہ دیاہو۔ لیکن یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ اس نے یہ سمجھ لیاکہ آپ ہی وہ ہونے والے نبی ہیں جن کے آنے کی خبرپچھلی کتابوں میں دی گئی ہے ،کیوں کہ پیشین گوئیوں سے یہ ضرورمعلوم ہوتا تھا کہ ایک نبی آنے والے ہیں اوران کانام محمدہوگا،لیکن تعیین کے ساتھ یہ معلوم کرلیناممکن نہ تھاکہ حضورہی وہ نبی ہیں“۔ (۱۷)
اسی واقعہ کے تناظرمیں شیخ محمدغزالی لکھتے ہیں:
”خواہ یہ واقعہ صحیح ہویاغلط،لیکن بعدمیں اس کاکوئی اثرنظرنہیں آتا۔ نہ حضرت محمدنے نبوت کی توقع یااس کے لیے تیاری شروع کی ،نہ اہل قافلہ نے بعدمیں اس واقعہ کو پھیلایااو راس طرح بھول گئے جیسے کوئی واقعہ ہواہی نہیں تھا۔ “(۱۸)
 
Top