ہر عیب رکھتا تھا اور بے بہا رکھتا تھا
وہ سب کچھ غیرت کے سوا رکھتا تھا
راتوں کو لڑکیوں سے خدمتوں کے وقت
کڑتا اتار رکھتا دھوتی اٹھا رکھتا تھا
دائمی پیچس کی بیماری تھا نشان اسکا
سو سو بار دن میں موتر بہا رکھتا تھا
تھا ننگی عورتوں کے دیدار کا شوقین
کچھ شرم رکھتا تھا نہ حیا رکھتا تھا
تھا دیدوں پہ اسکے خدا کا کرم ایسا
پڑھنے کو دس دس دئیے جلا رکھتا تھا
اپنے کفر میں ہر اک حد سے گزر گیا
نفس کا پجاری غرض کو خدا رکھتا تھا
کرتا تھا خیانت امانتوں میں شوق سے
اپنی سوچ میں ہر وقت دغا رکھتا تھا
تسکین لیتا تھا صنف نازک سے وہ ہر آن
آتش حوس سے اپنی ہستی جلا رکھتا تھا
تھا وہ زانی اپنے ہر ایک عضو سے
نگاہیں بھی وہ نامحرم پہ جما رکھتا تھا
تھا لعین وہ سب سے بڑا زمانے کا
ہر قول و فعل میں کذب و خطا رکھتا تھا
تھا دین و ایماں اس کا فقط زر کی پوجا
ہر گناہ کو اپنے مذہب میں روا رکھتا تھا
نہ تھا کچھ بھی خوف اسے کفر پہ اپنے
ابلیس کے جیسا غرور و انا رکھتا تھا
لگا کر الزام بدفعلی کا خدا پر
اسکی صفات پہ بری نگاہ رکھتا تھا
آتا تھا چوروں کی طرح چھپ کے پوشیدہ
وہ یلاش نامی اک ایسا خدا رکھتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول
وہ سب کچھ غیرت کے سوا رکھتا تھا
راتوں کو لڑکیوں سے خدمتوں کے وقت
کڑتا اتار رکھتا دھوتی اٹھا رکھتا تھا
دائمی پیچس کی بیماری تھا نشان اسکا
سو سو بار دن میں موتر بہا رکھتا تھا
تھا ننگی عورتوں کے دیدار کا شوقین
کچھ شرم رکھتا تھا نہ حیا رکھتا تھا
تھا دیدوں پہ اسکے خدا کا کرم ایسا
پڑھنے کو دس دس دئیے جلا رکھتا تھا
اپنے کفر میں ہر اک حد سے گزر گیا
نفس کا پجاری غرض کو خدا رکھتا تھا
کرتا تھا خیانت امانتوں میں شوق سے
اپنی سوچ میں ہر وقت دغا رکھتا تھا
تسکین لیتا تھا صنف نازک سے وہ ہر آن
آتش حوس سے اپنی ہستی جلا رکھتا تھا
تھا وہ زانی اپنے ہر ایک عضو سے
نگاہیں بھی وہ نامحرم پہ جما رکھتا تھا
تھا لعین وہ سب سے بڑا زمانے کا
ہر قول و فعل میں کذب و خطا رکھتا تھا
تھا دین و ایماں اس کا فقط زر کی پوجا
ہر گناہ کو اپنے مذہب میں روا رکھتا تھا
نہ تھا کچھ بھی خوف اسے کفر پہ اپنے
ابلیس کے جیسا غرور و انا رکھتا تھا
لگا کر الزام بدفعلی کا خدا پر
اسکی صفات پہ بری نگاہ رکھتا تھا
آتا تھا چوروں کی طرح چھپ کے پوشیدہ
وہ یلاش نامی اک ایسا خدا رکھتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم ضیاء رسول