• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION (قادیانی مسئلہ، عمومی بحث)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
QADIANI ISSUE- GENERAL DISCUSSION
(قادیانی مسئلہ، عمومی بحث)

Mr. Chairman: Yes, Mr. Attorney- General.
(جناب چیئرمین: جی، جناب اٹارنی جنرل!)
Mr. Yahya Bakhtiar (Attorney- Genral of Pakistan): Mr. Chairman, Sir, I have just received a message that the Prime Minister wants me now. I think, I hope I will be permitted to continue this evening, or if I could come back earlier, but I don't think it will be possible.
(جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل آف پاکستان): جناب چیئرمین! مجھے ابھی پیغام موصول ہوا ہے کہ وزیراعظم مجھے ابھی طلب کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے امید ہے کہ مجھے اس شام بات جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی یا اگر میں پہلے واپس آسکا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممکن ہوگا)
2932Mr. Chairman: No, it is Friday, we have to close by 12:30.
(جناب چیئرمین: نہیں، آج جمعہ ہے اور ہم نے ساڑھے بارہ بجے تک اجلاس ختم کرنا ہے)
Mr. Yahya Bakhtiar: In the meantime other members will continue. I have to cover a lot of ground, so in the evening...
(جناب یحییٰ بختیار: اس دوران دیگر ارکان اپنی بات جاری رکھیں۔ مجھے لمبی بات کرنی ہے لہٰذا شام کو…)
Mr. Chairman: Yes, at what time you have to leave? (جناب چیئرمین: ٹھیک ہے آپ کو کس وقت جانا ہے؟)
Mr. Yahya Bakhtiar: Just now.
(جناب یحییٰ بختیار: ابھی)
Mr. Chairman: Then we will make an exception, and you are permitted to leave and resume your summing up of the arguments. And, in the meantime, I will request the honourable members who wanted to participate in the debate. Moulvi Niamatullah.
(جناب چیئرمین: ایسی صورت میں آپ کو جانے کی اجازت ہے۔ آپ واپس آکر تمام دلائل کا خلاصہ اور حاصل بیان کریں گے اور اس دوران میں معزز اراکین سے بحث میں شمولیت کی درخواست کروں گا۔ مولوی نعمت اﷲ!)
مولوی نعمت اﷲ: جناب والا! میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ اچھا ہوا کہ کوٹ پتلون والوں کو بھی آج سپاہیوں نے روک لیا اور وہ بھی ہمارے برابر ہوگئے۔ ہم تو روزانہ شکایت کرتے تھے کہ وہ ہمیں روکتے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ لیکن اب یہ اچھا ہوا کہ کوٹ پتلون والوں کو بھی روک لیا گیا اور آپ کی توجہ ان کی طرف ہوئی کہ کوٹ پتلون والے کیوں روک لئے گئے۔
جناب چیئرمین: عزت سب کی برابر ہے۔ شلوار قمیص والوں کی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ ہمارا قومی لباس ہے۔
مولوی نعمت اﷲ: جناب! حقیقت یہ ہے کہ میں اگر پاکستان کا نام لوں تو بجا نہ ہوگا۔ یہاں پر یعنی اسمبلی کے ممبران کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ سرحد کے سیکرٹریٹ کو ہم نہیں جاسکتے۔ کیونکہ وہاں سپاہی کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم کارڈ نکال کر ان کو دکھاتے ہیں۔ ہمارے پاس کارڈ ہے۔ میں ممبر ہوں۔ کہتے ہیں کہ نہیں کارڈ پھینکو۔ کارڈ کو یہ نہیں جانتے۔ یہاں پر اجازت نہیں ہے۔ تو میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کم ازکم یہ کسی کو کوئی قانونی یا کوئی طریقہ ظاہر کر لیں کہ بھائی یہ نیشنل اسمبلی کا ممبر ہے، یہ تمام پاکستان کے زبردست ایوان کا ممبر ہے۔ اس کے ممبران کی کچھ تو حیثیت 2933ہونی چاہئے تاکہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ یہ ممبر ہے۔ لیکن ایک سپاہی کو ہم جواب نہیں دے سکتے۔ ایک تھانیدار کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈی۔سی کے پاس ایک سرمایہ دار شخص جو بی۔ڈی ممبر نہیں ہوتا تھا وہ براۂ راست جاسکتا ہے۔ لیکن ممبر نیشنل اسمبلی ڈی۔سی کے پاس نہیں جاسکتا۔
جناب چیئرمین: آپ میں اور سپاہی میں بڑا فرق ہے۔ سپاہی کے پاس اختیار ہے اور آپ کے پاس خدمت ہے۔ آپ خدمت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ اختیار استعمال کرنے کے لئے۔ آپ اپنے میں اور اس میں فرق جانیں۔ ملک کرم بخش اعوان!
جناب کرم بخش اعوان: جناب والا! میں آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ یہ جو کاروں کے ساتھ ایم۔این۔اے کے بورڈ لگے ہوئے ہیں ان کی کیا ضرورت ہے۔ یعنی کسی پل پر سے گزریں تو رک کر ضرور اس کی Payment (ادائیگی) کر کے پل کے پار جانا پڑتا ہے۔
جناب چیئرمین: اس کے متعلق میں نے لیٹرز پروانشل گورنمنٹ کو لکھے ہیں۔ میں نے خود لکھے ہیں، سیکرٹریٹ سے لکھوائے ہیں۔ میں دستی پروانے دے دیتا ہوں۔
جناب کرم بخش اعوان: جناب والا! میں ۳۱؍جولائی کو مری گیا تھا تو وہاں پر جو چیک پوسٹ ہے اس پر مجھے روک لیا گیا، حالانکہ کار کے ساتھ ایم۔این۔اے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ تو سپاہی کو یہ تو بتائیں کہ ایم۔این۔اے، وی۔ آئی۔ پی ہوتے ہیں۔ اس نے کہا یہاں سے ولی خان اور مفتی صاحب جیسے آدمی تو جاسکتے ہیں۔ لیکن آپ کے لئے نہیں، کیونکہ اے۔سی کو پوچھنا پڑتا ہے۔
جناب چیئرمین: وہ پارٹی لیڈر ہیں۔
جناب کرم بخش اعوان: تو ان کو یہ پتا نہیں ہے کہ ایم۔این۔اے بھی وی۔آئی۔پی ہوتے ہیں۔
جناب چیئرمین: آپ دونوں بورڈ لگالیں یعنی دو ایم۔این۔اے کے۔
2934جناب کرم بخش اعوان: نہیں، اگر ہمیں یہ بھی اجازت نہیں ہے کہ ہم کہیں آگے جا سکتے ہیں کسی جگہ جہاں وی۔آئی۔پی جاسکتے ہیں تو پھر کسی بورڈ کی ضرورت کیا ہے۔
جناب چیئرمین: نہیں، انشاء اﷲ! اس کے متعلق ضرور کچھ کریں گے۔ چوہدری غلام رسول تارڑ صاحب! آپ نے تقریر کرنی ہے۔
چوہدری جہانگیر علی: جناب والا! ملک کرم بخش اعوان صاحب نے جو پوائنٹ اٹھایا ہے اس کے متعلق میں نے آج سے سات آٹھ مہینے پہلے اپ کو چٹھی لکھی تھی اور وہ یہ تھی کہ ہر پل پر اور ہر ٹول ٹیکس، بیریر پر ممبران کو روکتے ہیں اور انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ ٹول ٹیکس دیں۔ جناب! یہ ایک دو روپے کی بات نہیں ہے۔ It is a question of the prestige and the privelege of the members of the National Assembly (یہ قومی اسمبلی کے ممبران کے وقار اور عزت کا معاملہ ہے) جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا ہاؤس ہے اور جناب کی کرسی سب سے بڑی کرسی ہے تو جس وقت ہمارے حقوق کا سوال پیدا ہوتا ہے توجناب فرما دیتے ہیں کہ آپ کے پاس اختیارات نہیں ہیں، آپ کے پاس صرف خدمت ہے۔ تو میں یہ گزارش کروں گا کہ میری چٹھی کا جناب نے یہ جواب دیا تھا ’’کہ آپ کا خط موصول ہوا۔ آپ بے فکر رہیں۔ انصاف کیا جائے گا۔‘‘ یعنی میرا خط کیا تھا اور آپ کا جواب کیا تھا اور آج اس ہاؤس میں مختلف اطراف سے وہی آواز سنی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں تو کم ازکم آپ کے پاس تو اختیارات ہیں، اور آپ کے ہی اختیارات کو ہم اپنے اختیارات سمجھتے ہیں۔
جناب چیئرمین: میرے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
2935چوہدری جہانگیر علی: جناب والا! آپ ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں ہیں۔ مگر ہمارے حقوق کے کسٹوڈین تو ہیں، ہمارے پریولیج کے کسٹوڈین ہیں۔ Justice delayed is Justice denied (انصاف میں تاخیر انصاف کا انکار ہے) جناب والا! آپ نے فرمایا انصاف کیاجائے گا، مگر ہمارے ساتھ اس سلسلے میں انصاف نہیں ہوا۔
جناب چیئرمین: نہیں، سب کو لیٹرز لکھے ہوئے ہیں۔
کرنل حبیب احمد: جناب! میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ میں چوہدری جہانگیر علی صاحب سے اتفاق کرتا ہوں، نہ صرف ان سے بلکہ جتنے بھی ہمارے معزز اراکین یہاں تشریف رکھتے ہیں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ کس بات پر؟ اس بات پر کہ جو لوگ ہم سے پہلے ایم۔این۔اے یا ایم۔ایل۔اے یا پرانے پارلیمنٹیرین ہیں، جب ان کے پاس ہم نئے لوگ بیٹھتے ہیں تو وہ اپنے زمانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس زمانے کی باتوں سے ایک چیز بڑی عیاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اس وقت اسمبلی میں منتخب ہوکر آتے تھے ان کی بڑی عزت ہوتی تھی۔ ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی، ہر دفتر میں ان کی عزت ہوتی تھی، ہر محکمہ میں ان کی عزت ہوتی تھی۔ لیکن آج کل کسی جگہ عزت نہیں ہوتی، پٹواری کے دفتر سے لے کر کمشنر کے دفتر تک۔
Mr. Chairman: That is provincial subject.
(جناب چیئرمین: وہ صوبائی معاملہ ہے)
کرنل حبیب احمد: مجھے معلوم ہے، لیکن آپ میری بات سن لیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کے پاس ایگزیکٹو پاور نہیں۔ لیکن آپ اتنا ضرور کریں کہ ہمیں سن لیں۔ آپ جس سیکرٹریٹ میں تشریف رکھتے ہیں، یہی سیکرٹری ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ایم۔این۔اے سے جونیئر ہیں۔ یہ ہم کو بتایا گیا۔ اگر وہ نہ بتاتے تو ہم یہ سمجھتے کہ ہم چپڑاسی سے بھی کم ہیں اور یہ ہمارے لئے اعزاز ہے۔ لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے۔ وہ اپنی کاروں پر جھنڈے 2936لگاتے ہیں اور ہمیں اتنی عزت کیوں نہیں ملتی۔ جس کا ہمیں حق ہے۔ عوامی نمائندے ہونے کی حیثیت سے۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ میرے تمام دوست جو یہاں بیٹھے ہیں وہ بھی اس میں شامل ہوں گے کہ ہماری وہ عزت جو تصور ہمارے دماغوں میں تھا وہ نہیں ہے۔ نہ پولیس کے محکمے میں، نہ انتظامیہ کے محکمے میں، نہ سینٹر کے، نہ صوبے کے، نہ کسی انتظامیہ میں، ہماری عزت ہے اور ہمارے تحفظ کے لئے کیا اتھارٹی ہے؟
سردار شیر باز خان مزاری: جناب والا!
Mr. Chairman: You want to speak?
(جناب چیئرمین: کیا آپ بات کرنا چاہتے ہیں؟)
سردار شیر باز خان مزاری: جی، میں نے ایک عرض کرنا تھی۔
Mr. Chairman: In this connection or in connection with the issue?
سردار شیرباز خان مزاری: آپ نے جناب والا کہا ہے کہ ہم خدمت گار ہیں۔ وہ ٹھیک ہے۔ مگر جب سپاہی اور کمشنر کی بات کرتے ہیں تو وہ ہمارے Tax payee ہیں۔ وہ اس قوم کے نوکر ہیں۔
I feel, Sir, that because of your unassuming manner and modesty, you happen to think that you have no importance. I am sorry, I do not agree, with due respect, with your views about yourself. You are here to protect the interests and rights of the House. Surely you can protect the interests of this House. They are paid to do this job. We happen to represent at least the masses. Day in and day out, we are told that masses are sovereign. If we represent the sovereign people of Pakistan, our status is no less than anyone else in the executive post. I appeal to you that whatever problems have been placed before you, they are genuine, and there is no party basis for this. It is not a question of privileges; they are to pay due honour and respect to the masses of pakistan whom we represent.
ایک یا دو روپے کے ٹول ٹیکس کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
2937It is a question of dignity of this sovereign body which is supposed to be the highest body in the country. آپ آپ چپڑاسی کی بات کرتے ہیں۔ With due respect, I submit that this matter may be taken up with those who are at the helm of affairs, those who hold responsible position in Government, to ensure that the dignity and privilege of the representatives of the people of Pakistan are maintained. Thank you.
(جناب والا! میرا خیال ہے کہ اپنی سادگی اور عاجزی کی وجہ سے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ معذرت کے ساتھ اور احترام کے ساتھ میں آپ کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا۔ آپ کا کام ایوان کے مفادات اور حقوق کا تحفظ ہے اوریقینا آپ اس ایوان کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ جب کہ ان لوگوں کو اس کام کی تنخواہ ملتی ہے۔ ہم کم ازکم عوام کی نمائندگی تو کر رہے ہیں۔ دن رات ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہے۔ اگر ہم پاکستان کے مقتدر عوام کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہمارا منصب انتظامی عہدے پر فائز کسی شخص سے کم نہیں۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ جو مسائل آپ کے سامنے پیش ہوئے ہیں وہ بالکل درست ہیں اور ان کی بنیاد پارٹی بازی پر نہیں ہے۔ یہ مراعات کامعاملہ نہیں ہے۔ لیکن انہیں پاکستان کے عوام کو جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں وہ عزت واحترام دینا چاہئے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ اس مقتدر ادارے کے وقار کا سوال ہے جو اس ملک کا بلند ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ بجا احترام کے ساتھ میں گزارش کرتا ہوں کہ اس معاملے کو حکومت کے انتظامی معاملات کے سربراہوں کے سامنے اٹھایا جائے تاکہ پاکستان کے عوام کے نمائندوں کے وقار کو یقینی بنایا جاسکے۔ آپ کا شکریہ!)
ڈاکٹر محمد شفیع: جناب والا ایک بات کرنا ہے۔
جناب چیئرمین: کل پرسوں بات کر لیں گے۔
I agree with the sentiments of the honourable members. Honourable members of the National Assembly are entitled to the highest respect and regard, leaving aside the placing in the Warrant of Precedence, leaving aside other matters. They are the persons in whom, the people of this country, who have a right to rule this country, have reposed their confidence; they are entitled to it as such. These things, whenever they happen, whenever they come to my notice, I am always prompted to take action. I always write, I always take action through whatever channels are available to me, and on all the complaints I have always taken action. It is my duty to maintain the dignity of the House and I shall maintain the dignity of the House inside the House. I will see that all honourable members of the National Assembly are safeguarded outside. That is my duty. Ch. Ghulam Rasul Tarar.
(میں معزز اراکین کے احساسات سے متفق ہوں۔ قومی اسمبلی کے معزز اراکین سب سے زیادہ عزت واحترام کے مستحق ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ وارنٹ آف پریسی ڈنس (Warrant of Precedence) میں وہ کہاں پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ملک کے عوام نے، جو حکومت کرنے کے اصل حق دار ہیں، اعتماد کا اظہار کیا۔ لہٰذا اس قسم کے واقعات جب بھی ہوں اور جب بھی میرے نوٹس میں آئیں تو میں فوری ایکشن لیتا ہوں۔ میں تحریراً اور تمام موجود چینلز کے ذریعے کارروائی کرتا ہوں اور اب تک جتنی بھی شکایات مجھے ملی ہیں میں نے ان سب پر کارروائی کی ہے۔ ایوان کے وقار کو تحفظ دینا میرا فرض ہے اور میں ایوان کے اندر ایوان کا وقار برقرار رکھوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ قومی اسمبلی کے معزز اراکین کو باہر تحفظ حاصل ہو۔ یہ میرا فرض ہے۔ چوہدری غلام رسول تارڑ!)
چوہدری غلام رسول تارڑ: جناب چیئرمین! میں اپنی تقریر کرنے سے پہلے گزارش کروں گا کہ ہمارے اٹارنی جنرل صاحب…
Mr. Chairman: Just a minute. The Attorney- General had to come today. He could not resume his address. He will not be able to come back by 12:30, so, up to 12:30, I request that honourable members, whosoever wants to speak can speak. After they have finished, I have reserved time for the Attorney- General, who will take about two to three hours. Attorney- General's summing up of evidence is a must; that must come on record. He is just conversant with the evidence. If at all they want to speak, I will request the honourable members to be brief so that we may finish by 12:30. Tomorrow is the last date. Tomorrow, we have to finalize the recommendations by 7th.
(جناب چیئرمین: صرف ایک منٹ، اٹارنی جنرل نے آج آنا تھا۔ وہ اپنا خطاب شروع نہ کر سکے، وہ ساڑھے بارہ بجے تک واپس نہ آ سکیں گے۔ لہٰذا میں معزز اراکین سے گزارش کروں گا کہ ساڑھے بارہ بجے تک جو بھی بات کرنا چاہے وہ بات کر سکتا ہے۔ اس کے بعد کا وقت میں نے اٹارنی جنرل کے لئے مخصوص کر رکھا ہے۔ جو تقریباً دو تین گھنٹے لیں گے۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے شہادت کا خلاصہ بیان کرنا نہایت ضروری ہے اور یہ ریکارڈ کا حصہ ضرور بننا چاہئے۔ وہ شہادت سے خوب واقف ہیں۔ جو معزز اراکین بات کرنا چاہیں میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی بیانات کو مختصر رکھیں تاکہ ہم ساڑھے بارہ بجے تک ختم کر سکیں۔ کل آخری تاریخ ہے۔ کل ہمیں سات بجے تک اپنی تجاویز کو حتمی شکل دینی ہے)
2938شہزادہ سعید الرشید عباسی: میں یہ گزارش کروں گا کہ آپ پوچھ لیں کہ کتنے بولنے والے ہیں اس کے حساب سے وقت دیا جائے۔
Mr. Chairman: Yes, I will request the honourable members who want to speak on this issue may please rise in their seats.
(جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، میں معزز اراکین سے درخواست کرتا ہوں کہ جو اس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں وہ براہ کرم اپنی نشستوں پر کھڑے ہو جائیں)
جو بول چکے ہیں وہ نہیں بولیں گے۔ ان کے بولنے کے بعد آپ بولیں گے۔
چوہدری جہانگیر علی: مولانا عبدالحکیم صاحب کافی تقریر کر چکے ہیں۔
جناب چیئرمین: غلام رسول تارڑ صاحب کے بعد احمد رضا قصوری اور مولوی ذاکر صاحب بولیں گے۔ دس(۱۰)سے پندرہ منٹ تک بہت ہیں۔ چوہدری غلام رسول تارڑ!
 
Top