• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

آسمان کی طرف حضرت عیسی ؑکے جانے کا قرآنی ثبوت انی متوفیک ورافعک الیّٰ سورۃ (آل عمران:۵۵) سے

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آسمان کی طرف حضرت عیسی علیہ السلام کے جانے کا قرآنی ثبوت
سوال…مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اﷲ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی دست درازیوں سے محفوظ رکھتے ہوئے آسمانوں پر اٹھالیا۔ آپ قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں اس عقیدئہ کو ثابت کریں؟
جواب… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھایا جانا۔
دلیل۱… ارشاد ربانی: ’’ اذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطھرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ ثم الیّٰ مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون (آل عمران:۵۵) ‘‘
ترجمہ: ’’جب کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا: اے عیسیٰ! میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھالوں گا اپنی طرف اور تم کو ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں۔ جو منکر ہیں اور جو لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں ان کو غالب رکھنے والا ہوں ان لوگوں پر جو کہ منکر ہیں۔ روزقیامت تک پھر میری طرف ہوگی سب کی واپسی۔ سو میں تمہارے درمیان فیصلہ کردوں گا۔ ان امور میں جن میں تم باہم اختلاف کرتے تھے۔‘‘
اس آیت کریمہ کے متصل ماقبل کی آیت کریمہ و مکروا و مکراﷲ میں باری تعالیٰ کی جس خفیہ و کامل تدبیر کی جانب اشارہ فرمایا گیا تھا۔ اس کی تفصیل حسب بیان مفسرین آیت مذکورہ میں فرمائی گئی ہے۔ اس محکم تدبیر کے وقوع سے پہلے ہی جب کہ یہود بے بہبود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے قیام کا محاصرہ کرکے قتل و سولی پر چڑھانے کا ناپاک منصوبہ بنارہے تھے۔ حضرت حق جل مجدہ نے ایسے خطرناک وقت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دینے کے لئے بشارت دے دی کہ آپ کے دشمن خائب و خاسر رہیں گے۔
اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چار وعدے فرمائے گئے:

  1. میں تجھے پورا پورا لے لوں گا۔
  2. اور تجھے اپنی طرف (آسمان پر) اٹھالوں گا۔
  3. اور تجھے کفار (یہود) کے شر سے صاف بچالوں گا۔
  4. تیرے متبعین کو تیرے دشمنوں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔
یہ چار وعدے اس لئے فرمائے گئے کہ یہود کی سازش میں یہ تفصیل تھی کہ:
  1. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑیں۔
  2. اور طرح طرح کے عذاب دے کر ان کو قتل کریں۔
  3. اور پھر خوب رسوا اور ذلیل کریں۔
  4. اور اس ذریعہ سے ان کے دین کو فنا کریں کہ کوئی ان کا متبع ونام لیوا بھی نہ رہے۔
لہٰذا ان کے پکڑنے کے مقابلہ میں متوفیک فرمایا۔ یعنی تم کو بھرپورلینے والا ہوں۔تم میری حفاظت میں ہو اور ارادئہ ایذاء و قتل کے مقابلہ میں رافعک الیّٰ فرمایا۔ یعنی میں تم کو آسمان پر اٹھالوں گا، اور رسوا اور ذلیل کرنے کے مقابلہ میں مطہرک من الذین کفروا فرمایا۔ یعنی میں تم کو ان یہود نامسعود سے پاک کروں گا۔ رسوائی و بے حرمتی کی نوبت ہی نہیں آئے گی اورآپ کی امت کو مٹانے اور دین مسیحی کو نیست و نابود کرنے والوں کے مقابلہ میں: ’’ جاعل الذین اتبعوک ‘‘ فرمایا۔ یعنی تیرے رفع کے بعد تیرے متبعین کو ان کفار پر غلبہ دوں گا۔

توفی کے معنی

بہرحال پہلا وعدہ لفظ ’’توفی‘‘ سے فرمایا گیا ہے۔ اس کے حروف اصلیہ ’’وفا‘‘ ہیں۔ جس کے معنی ہیں پورا کرنا۔ چنانچہ استعمال عرب ہے وفی بعھدہ اپنا وعدہ پورا کیا۔
(لسان العرب)
باب تفعل میں جانے کے بعد اس کے معنی ہیں: اخذ الشئی وافیاً (بیضاوی) یعنی کسی چیز کو پورا پورا لینا۔ توفی کا یہ مفہوم جنس کے درجہ میں ہے۔ جس کے تحت یہ تمام انواع آتی ہیں۔ موت، نیند اور رفع جسمانی۔
چنانچہ امام رازیؒ فرماتے ہیں: ’’ قولہ (انی متوفیک) یدل علی حصول التوفی وھو جنس تحتہ انواع بعضھا بالموت وبعضھا بالاصعاد الی السماء فلما قال بعدہ (و رافعک الیّٰ) کان ھذا تعیینا للنوع و لم یکن تکراراً ‘‘
(تفسیر کبیر زیر آیت یعیسیٰ انی متوفیک ص۷۲ جز۸)
ترجمہ: ’’باری تعالیٰ کا ارشاد انی متوفیک صرف حصول توفی پر دلالت کرتا ہے اور وہ ایک جنس ہے۔ جس کے تحت کئی انواع ہیں۔ کوئی بالموت اور کوئی بالرفع الی السمائ۔ پس جب باری تعالیٰ نے اس کے بعد ورافعک الیّٰ فرمایا تو اس نوع کو متعین کرنا ہوا۔ (رفع الی السمائ) نہ کہ تکرار۔‘‘
یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی لفظ جنس کو بول کر اس کی خاص نوع مراد لینے کے لئے قرینہ حالیہ و مقالیہ کا پایا جانا ضروری ہے۔ تو یہاں توفی بمعنی رفع جسمانی الی السماء لینے کے لئے ایک قرینہ یہ ہے کہ اس کے فوراً بعد ورافعک الیّٰ فرمایا گیا۔ رفع کے معنی ہیں اوپر اٹھا لینا۔ کیونکہ رفع، وضع وخفض کی ضد ہے۔ جس کے معنی نیچے رکھنا اور پست کرنا اور دوسرا قرینہ ومطھرک من الذین کفروا ہے۔ کیونکہ تطہیر کا مطلب یہی ہے کہ کفار (یہود) کے ناپاک ہاتھوں سے آپ کو صاف بچالوں گا۔
چنانچہ ابی جرؒیج سے محدث ابن جریرؒ نے نقل فرمایا ہے:
’’ عن ابی جریج قولہ (انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطھرک من الذین کفروا) قال فرفعہ ایاہ الیہ توفیہ ایاہ وتطھیرہ من الذین کفروا ‘‘
(تفسیر ابن جریر ج ۳ ص ۲۹۰)
’’باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی متوفیک! کی تفسیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالینا ہی آپ کی توفی ہے اور یہی کفار سے ان کی تطہیر ہے۔‘‘
اور تیسرا قرینہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت مرفوعہ ہے۔ جس کو امام بیہقیؒ نے نقل فرمایا ہے اور جس میں نزول من السماء کی تصریح ہے:
’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم‘‘
(کتاب الاسماء والصفات ص :۲۰۳)
اس لئے کہ نزول سے پہلے رفع کا ثبوت ضروری ہے۔ اسی طرح جب یہ لفظ موت کے معنی دے گا۔ تو قرینہ کی احتیاج ہوگی مثلاً:
’’ قل یتوفٰکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم سجدہ:۱۱) ‘‘
ترجمہ: ’’اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ تم کو قبض کرے گا۔ملک الموت جو تم پر مقرر کیا گیا ہے۔ (یعنی تم کو مارے گا)‘‘
اس میں ملک الموت قرینہ ہے۔ دیگر متعدد آیات میں بھی بربنائے قرائن توفی بمعنی موت آیا ہے۔ کیونکہ موت میں بھی توفی یعنی پوری پوری گرفت ہوتی ہے۔ ایسے ہی جہاں نیند کے معنی دے گا۔ تو بھی قرینہ کی ضرورت ہوگی۔
مثلاً: ’’ وھوالذی یتوفٰکم باللیل (انعام:۶۰) ‘‘
ترجمہ: ’’خدا ایسی ذات ہے کہ تم کو رات کے وقت پورا لے لیتا ہے۔ یعنی سلادیتا ہے۔‘‘
یہاں لیل اس بات کا قرینہ ہے کہ توفی سے مراد نوم ہے۔ کیونکہ وہ بھی توفی (پوری پوری گرفت) کی ایک نوع ہے۔ یہ تمام تفصیلات بلغاء کے استعمال کے مطابق ہیں۔ البتہ عام لوگ توفی کو اماتت اور قبض روح کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ کلیات ابوالبقاء میں ہے:
’’ التوفی الاماتۃ وقبض الروح وعلیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغائ ‘‘
(کلیات ابوالبقائ:۱۲۹)
یعنی عام لوگ تو توفی کو اماتت اور قبض روح کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور بلغاء پورا پورا وصول کرنے اور حق لے لینے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔
بہرحال زیر بحث آیت کریمہ میں بربنائے قرائن توفی کے معنی قبض اور پورا پورا۔ یعنی جسم مع الروح کو اپنی تحویل میں لے لینے کے ہیں، اماتت کے نہیں ہیں۔ البتہ قبض روح بصورت نیند کے معنی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ قبض روح کی دو صورتیں ہیں۔ ایک مع الامساک اور دوسری مع الارسال۔ تو اس آیت میں توفی بقرینہ رافعک الیّٰ بمعنی نیند ہوسکتی ہے اور یہ ہمارے مدعا کے خلاف نہیں ہوگا۔ کیونکہ نیند اور رفع جسمی میں جمع ممکن ہے۔ چنانچہ مفسرین کی ایک جماعت نے اس کو اختیار کیا ہے: ’’ (الثانی) المراد بالتوفی النوم ومنہ قولہ تعالیّٰ اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا) فجعل النوم وفاۃ وکان عیسیٰ قد نام فرفعہ اﷲ وھو نائم لئلا یلحقہ خوف ‘‘
(خازن ج۱ ص۲۵۵)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سوال … قال اﷲتعالیٰ واذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ اس کی صحیح تفسیر بیان کرکے حیات حضرت مسیح علیہ السلام کو ثابت کریں۔ مرزائی ’’ توفی‘‘ سے وفات مراد لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے بھی ’’متوفیک‘‘ کی تفسیر ’’ممیتک‘‘ منقول ہے۔ اور اس تائید میں مرزائی ’’توفنا مع الابرار، تو فنا مع المسلمین‘‘ کو بھی پیش کرتے ہیں، ان تمام امور کا شافی جواب تحریر کریں؟
جواب … ’’ واذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ثابت ہے۔ یہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی دلیل ہے، نہ کہ وفات عیسیٰ علیہ السلام کی۔ توفی وغیرہ کی کچھ بحث پہلے گزرچکی ہے۔ مزید ملاحظہ ہو:

توفی کاحقیقی معنی
الف… ’’توفی‘‘ کا حقیقی معنی موت نہیں۔ اس لئے کہ اگر اس کا حقیقی معنی موت ہوتا تو ضرور قرآن و سنت میں کہیں ’’ توفی ‘‘ کو ’’ حیات ‘‘ کے مقابل ذکر کیا جاتا۔ حالانکہ ایسا کہیں نہیں ہے۔ بلکہ ’’ توفی ‘‘ کو ’’ مادمت فیھم ‘‘ کے مقابلہ میں رکھا گیا۔ معلوم ہوا کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ دیکھئے قرآن مجید میں جگہ جگہ موت و حیات کا تقابل کیا گیا ہے نہ کہ توفی و حیات کا۔ مثلاً الذی یحیی ویمیت، یحییکم ثم یمیتکم، ھوامات و احیی، لایموت فیھا ولایحییٰ، ویحي الموتیٰ، اموات غیر احیائ، یحییٰ الموتی، یحیی الارض بعد موتھا، تخرج الحي من المیت و تخرج المیت من الحي ۰یہ تقابل بتاتا ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادہا کے تحت حیات کی ضد موت ہے توفی نہیں۔ توفی کو قرآن مجید میں مادمت فیھم کے مقابلہ میں لایا گیا: ’’ وکنت علیھم شھیداً مادمت فیھم فلما توفیتنی ‘‘ اس سے توفی کا حقیقی معنی سمجھا جاسکتا ہے کہ کیا ہے؟ اس کے لئے علامہ زمخشری کا حوالہ کافی ہوگا : ’’ اوفاہ، استوفاہ، توفاہ استکمال ومن المجاز توفی و توفاہ اﷲ ادرکتہ الوفاۃ ‘‘
ترجمہ : ’’ اوفاہ، استوفاہ اور توفاہ کے معنی استکمال یعنی پورا لینے کے ہیں۔ توفی کو مجازاً موت کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ جیسے توفی اور توفاہ اﷲ یعنی اس کی وفات ہوگی۔‘‘
اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ البتہ مجازاً کہیں کہیں موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
ب… اﷲ رب العزت نے اپنی کتاب میں ’’ اماتت ‘‘ کی اسناد اپنی طرف ہی فرمائی۔ غیر اﷲ کی طرف ہرگز نہیں کی۔ جبکہ ’’ توفی ‘‘ کی اسناد ملائکہ کی طرف بھی اکثر موجود ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ جیسے ’’ حتی اذا جاء احد کم الموت توفتہ رسلنا ‘‘ یہاں پر توفی کی اسناد ملائکہ کی طرف کی گئی۔
ج… توفی کا حقیقی معنی موت نہیں جیسے قرآن مجید میں ہے: ’’ حتیٰ یتوفھن الموت ‘‘ یہاں توفی اور موت کو مقابلہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب اس کے معنی ہوں گے کہ ان کو موت کے وقت پورا پورا لے لیا جاتا ہے۔ اگر توفی کا معنی موت ہو تو پھر اس کا معنی تھا کہ: ’’ یمیتہن الموت ‘‘ یہ کس قدر رکیک معنی ہوں گے۔ کلام الٰہی اور یہ رکاکت؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
د… توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ قرآن مجید میں ہے : ’’ اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الیٰ اجل مسمی (الزمر: ۴۲)‘‘
ترجمہ: ’’اﷲتعالیٰ نفسوں کو لے لیتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان نفسوں کو جو نہیں مرے ان کو نیند میں لے لیتا ہے۔ پس وہ نفس جس کو موت وارد ہوتی ہے روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقرر مدت تک چھوڑ دیتا ہے۔‘‘

  1. یہاں پہلے جملہ میں توفی نفس کو حین موتھا کے ساتھ مقید کیا ہے۔ معلوم ہوا توفی عین موت نہیں۔
  2. اور پھر توفی کو موت اور نیند کی طرف منقسم کیا ہے۔ لہٰذا نصاً معلوم ہوا کہ توفی موت کے مغائر ہے۔
  3. نیز یہ کہ توفی، موت اور نیند دونوں کو شامل ہے۔ نیند میں آدمی زندہ ہوتا ہے۔ اس کی طرف توفی کی نسبت کی گئی۔ توفی بھی ہے اور آدمی زندہ ہے۔ مرا نہیں۔ کیا یہ نص نہیں اس بات کی کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں؟
خلاصہ بحث:
توفی کا حقیقی معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ ہاں البتہ کبھی مجازاً موت کے معنی میں بھی توفی کا استعمال ہوا ہے۔ جیسے : ’’توفنا مع الابرار، توفنا مسلمین‘‘ وغیرہ۔
ضروری تنبیہ… اگرکہیں کوئی لفظ کسی مجازی معنی میں استعمال ہو تو ہمیشہ کے لئے اس کے حقیقی معنی ترک نہیں کردیئے جائیں گے۔ اگر کوئی ایسے سمجھتا ہے تو وہ قادیانی احمق ہی ہوسکتے ہیں۔ ورنہ اصول صرف یہ ہے کہ مجازی معنی وہاں مراد لئے جائیں گے جہاں حقیقی معنی متعذر ہوں۔ یا عیسیٰ انی متوفیک میں حقیقی معنی پورا پورا لینے کے لئے جائیں گے اور توفنا مع الابرار میں مجازی معنی (موت) کے کئے جائیں گے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضرت ابن عباس ؓ اور حیات عیسیٰ علیہ السلام
الف… حضرت ابن عباسؓ پوری امت کی طرح حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ آپ نے آنحضرتﷺسے متعدد روایات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول وحیات کی روایت کی ہیں۔ ’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیح طبع ملتان‘‘ کے ص ۱۸۱، ۲۲۳، ۲۲۴، ۲۴۵، ۲۷۳، ۲۷۹، ۲۸۴، ۲۸۹، ۲۹۱، ۲۹۲ پر دس روایات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کی حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے حضرت انور شاہ کشمیریؒ نے جمع فرمائی ہیں۔ من شاء فلیراجع!
ب… متوفیک کے معنی ممیتک عبداﷲ بن عباسؓ سے نقل کرنے والا راوی علی بن ابی طلحہ ہے۔

(تفسیر ابن جریر ج۳ ص ۲۹۰)
علماء اسماء الرجال نے اس کے متعلق ضعیف الحدیث، منکر، لیس بمحمود المذہب کے جملے فرمائے ہیں اور یہ کہ اس نے حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ کی زیارت بھی نہیں کی۔ درمیان میں مجاہدؒ کا واسطہ ہے۔
(میزان الاعتدال ج ۵ ص ۱۶۳، تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۱۳)
رہا یہ کہ پھر صحیح بخاری شریف میں یہ روایت کیسے آگئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: امام بخاریؒ کا یہ التزام صرف احادیث مسندۃ کے بارے میں ہے۔ نہ کہ تعلیقات و آثار صحابہ کے ساتھ۔ چنانچہ فتح مغیث ص ۲۰ میں ہے: ’’ قول البخاری ماادخلت فی کتابی الا ماصح علی، مقصود بہ ھو الاحادیث الصحیحۃ المسندۃ دون التعالیق والاثار الموقوفۃ علی الصحابۃ فمن بعدھم والاحادیث المترجمۃ بھا ونحوذٰلک ‘‘
ترجمہ: ’’یعنی امام بخاری کے اس فرمان کا مطلب کہ میں نے اپنی کتاب میں صرف وہی ذکر کیا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ اس سے مراد صرف احادیث صحیحہ مسندہ ہیں۔ باقی تعلیقات اور آثار موقوفہ وغیرہ اس میں شامل نہیں۔ اس طرح وہ احادیث جو ترجمۃ الباب میں ذکر کی گئی ہیں وہ بھی مراد نہیں ہیں۔‘‘
ج… حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے دوسری صحیح روایت میں اگرچہ توفی کے معنی موت منقول ہیں۔ مگر اسی روایت میں کلمات آیت کے اندر تقدیم و تاخیر بھی صراحتاً مذکور ہے۔ جس سے قادیانی گروہ کی خود بخود تردید ہوجاتی ہے۔
’’ اخرج ابن عساکر واسحاق بن بشر عن ابن عباسؓ قال قولہ تعالیٰ یٰعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخرالزمان ‘‘

(درمنثور ج۲ ص۳۶)
ترجمہ: ’’یعنی ابن عساکر اور اسحاق بن بشر نے (بروایت صحیح) ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ میں آپ کو اٹھانے والا ہوں اپنی طرف پھر آخر زمانہ میں (بعد نزول) آپ کو موت دینے والا ہوں۔‘‘
د… تفسیر ابن کثیر میں عبداﷲ ابن عباسؓ سے صحیح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر قتل کے زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے۔
’’ ورفع عیسیٰ من روزنۃ فی البیت الی السماء ھذا اسناد صحیح الی ابن عباس ‘‘

(تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۵۷۴ زیر آیت بل رفعہ اﷲ)
ترجمہ: ’’عیسیٰ علیہ السلام گھر کے روزن (روشن دان) سے (زندہ) آسمان کی طرف اٹھالئے گئے۔ یہ اسناد ابن عباسؓ تک بالکل صحیح ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
رفع سے مراد رفع روحانی یا رفع درجات ہے؟؟
سوال…سورئہ آل عمران میں ارشاد خداوندی ہے: ’’ ورافعک ‘‘ اور سورئہ نساء میں فرماتے ہیں: ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ دونوں مقامات پر قادیانی رفع سے مراد رفع روحانی یا رفع درجات لیتے ہیں۔ آپ ان کے مؤقف کا اس طرح رد کریں۔ جس سے قادیانی دجل تارتار ہوجائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ثابت ہو؟

جواب …یہ بات بھی قادیانی دجل کا شاہکار ہے کہ وہ کہیں رافعک اور بل رفعہ اﷲ میں رفع روح مراد لیتے ہیں اور جب ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ تمہارے (قادیانی) عقیدہ کے مطابق تو مسیح علیہ السلام صلیب سے اتر کر زخم اچھے ہونے کے بعد کشمیر چلے گئے اور ستاسی سال بعد ان کی موت واقع ہوئی۔ تو موت کے بعد رفع روح ہوا۔ حالانکہ یہ قرآن کے اسلوب بیان کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ چاروں وعدوں میں سے تین وعدے جو براہ راست مسیح علیہ السلام کی ذات (جسم) مبارک سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک ہی وقت میں ایک ساتھ ان کا ایفاء ہوا۔ تو قادیانی مجبوراً پھر اس سے فوراً رفع درجات پر آجاتے ہیں۔ جس طرح قادیانیوں کو ایمان کا قرار (سکون) نصیب نہیں اس طرح ان کے مؤقف کو بھی قرار نہیں۔ وہ اپنا مؤقف بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی رفع روح مراد لیتے ہیں، کبھی رفع درجات مراد لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں مؤقف غلط ہیں۔
۱… یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ’’ بل رفعہ اﷲ ‘‘کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’ قتلوہ ‘‘ اور’’ صلبوہ ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ’’ قتلوہ ‘‘اور ’’ صلبوہ ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب پر لٹکانا قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا ’’ بل رفعہ ‘‘ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی۔ جس جسم کی طرف ’’ قتلوہ ‘‘ اور ’’ صلبوہ ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔
۲… دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے۔ بلکہ قتل جسم کے مدعی تھے اور ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ سے اس کی تردید کی گئی ہے۔ لہٰذا بل رفعہ میں رفع جسم ہی مراد ہوگا۔ اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ماقبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ماقبل اور مابعد میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ: ’’ وقالوا اتخذالرحمن ولداً سبحنہ بل عباد مکرمون ‘‘ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’ ام یقولون بہ جنۃ بل جاء ھم بالحق ‘‘ مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی من جانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کالا نے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہیں۔ وہ مرفوعیت الیٰ اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہونا چاہئے اور ظاہر ہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہوجاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ بل رفعہ اﷲ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا۔ اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اوردرجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’ کما قال تعالیٰ ورفعنالک ذکرک ‘‘ اور ’’ یرفع اﷲ الذین آمنوا منکم والذین اوتو العلم درجات ‘‘ ہے ۔
۳… یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے بل رفعہ اﷲ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح و سالم آسمان پر اٹھالیا۔ نیز اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے ما بعد کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الیٰ السمائباعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھالیا۔ جیسا کہ بل جاء ھم بالحق میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلادیا جائے کہ آپﷺ کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔ اسی طرح بل رفعہ اﷲ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔
۴… جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہوگی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندی رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’ کما قال تعالیٰ ورفعنا فوقکم الطور ‘‘ اٹھایا ہم نے تم پر کوہ طور ’’ اﷲ الذی رفع السمٰوت بغیر عمدا ترونھا ‘‘ اﷲ ہی نے بلند کیا آسمانوں کو بغیر ستونوں کے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ ’’ واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسمٰعیل ‘‘ یاد کرو اس وقت کو کہ جب ابراہیم بیت اﷲ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور اسمٰعیل ان کے ساتھ تھے۔ ’’ ورفع ابویہ علی العرش ‘‘ یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت کے اوپر بٹھایا۔ ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام سے مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ورفعنالک ذکرک ہم نے آپﷺ کا ذکر بلند کیا اور ورفعنا بعضھم فوق بعض درجات ہم نے بعض کو بعض پر درجہ اور مرتبہ کے اعتبار سے بلند کیا۔اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید یعنی قرینہ مذکور ہے۔

قادیانی اشکال
ایک حدیث میں ہے: ’’ اذا تواضع العبد رفعہ اﷲ الی السماء السابعۃ ‘‘
(کنزالعمال ج۳ ص۱۱۰، حدیث نمبر ۵۷۲۰، بحوالہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق)
ترجمہ: ’’جب بندہ تواضع کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس کو ساتویں آسمان پر اٹھالیتے ہیں۔ اس حدیث کو خرائطیؒنے اپنی کتاب مکارم الاخلاق میں ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے ۔
اس روایت کو مرزائی بہت خوش ہوکر بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں کہ رفع کا مفعول جسمانی شے ہے اور الی السماء کی بھی تصریح ہے۔ مگر باوجود اس کے رفع سے رفع جسمی مراد نہیں بلکہ رفع معنوی مراد ہے۔
جواب …یہ ہے کہ یہاں مجاز کے لئے قرینہ عقلیہ قطعیہ موجود ہے کہ یہ اس زندہ کے حق میں ہے۔ جو لوگوں کے سامنے زمین پر چلتا ہے اور تواضع کرتا ہے۔ تو اس کا مرتبہ اور درجہ اﷲتعالیٰ کے یہاں ساتویں آسمان کے برابر بلند اونچا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رفع جسم مراد نہیں بلکہ رفع درجات مراد ہے۔ غرض یہ کہ رفع کے معنی بلندی رتبہ مجازاً بوجہ قرینہ عقلیہ لئے گئے اور اگر کسی کم عقل کی سمجھ میں یہ قرینہ عقلیہ نہ آئے۔ تو اس کے لئے قرینہ قطعیہ بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ کنزالعمال میں روایت مذکورہ کے بعد ہی علی الاتصال یہ روایت مذکور ہے : ’’ من یتواضع للّہ درجۃ یرفعہ اﷲ درجۃ حتی یجعلہ فی علیین ‘‘ یعنی جس درجہ کی تواضع کرے گا۔ اسی کے مناسب اﷲ اس کا درجہ بلند فرمائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ تواضع کے آخری درجہ پر پہنچ جائے گا تو اﷲتعالیٰ اس کو علیین میں جگہ دیں گے۔، جو علو اور رفعت کا آخری مقام ہے۔ اس حدیث میں صراحتاً لفظ درجہ کا مذکور ہے اور قاعدہ مسلمہ ہے۔ الحدیث یفسر بعضہ بعضا ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر اور شرح کرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا، اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا۔ وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا۔ وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع اسی کے مناسب ہوگا۔
۵… یہ کہ اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا۔ تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا۔ بلکہ اس وقت حضرت مسیح کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا بل رفعہ اﷲ میں ذکر ہے حضرت عیسیٰ کو پہلے سے حاصل نہ تھا۔ بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کررہے تھے اور وہ رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح و سالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھی اور وجیھا فی الدنیا ولآخرۃ ومن المقربینکے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا۔ یعنی رفع جسمی اور رفع عزت و منزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا۔ اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔
۶… یہ کہ یہود کی ذلت و رسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت و رفعت بجسدہ العنصری صحیح و سالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ نیز یہ رفعت شان اور علو مرتبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ زندہ اہل ایمان اور زندہ اہل علم کو بھی حاصل ہے۔ ’’ کما قال تعالی یرفع اﷲ الذین اٰٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات ‘‘ بلند کرتا ہے اﷲتعالیٰ اہل ایمان اور اہل علم کو باعتبار درجات کے۔
۷… یہ کہ اگر آیت میں رفع روحانی بمعنی موت مراد ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ رفع روحانی بمعنی موت یہود کے قتل اور صلب سے پہلے واقع ہوا جیسا کہ: ’’ ام یقولون بہ جنۃ بل جاء ھم بالحق، ویقولون أئنا لتارکوا اٰلھتنا للشاعر مجنون، بل جاء بالحق ‘‘ ان آیات میں آنحضرتﷺ کا حق کو لے کر آنا ان کے شاعر اور مجنون کہنے سے پہلے واقع ہوا۔ اسی طرح رفع روحانی بمعنی موت کو ان کے قتل اور صلب سے مقدم ماننا پڑے گا۔ حالانکہ مرزا قادیانی اس کے قائل نہیں۔ مرزا قادیانی تو (العیاذباﷲ) یہ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام یہود سے خلاص ہوکرفلسطین سے کشمیر پہنچے اور عرصہ دراز تک بقید حیات رہے اور اسی عرصہ میں اپنے زخموں کا علاج کرایا اور پھر طویل مدت کے بعدیعنی ستاسی سال زندہ رہ کر وفات پائی اور سری نگر کے محلہ خان یار میں مدفون ہوئے اور وہیں آپ کا مزار ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی کے زعم کے مطابق عبارت اس طرح ہونی چاہئے تھی: ’’ وما قتلوہ بالصلیب بل تخلص منھم وذہب الی کشمیر واقام فیھم مدۃ طویلۃ ثم اماتہ اﷲ ورفع الیہ ‘‘
۸… یہ کہ رفع روحانی بمعنی موت لینے سے وکان اﷲ عزیزاً حکیماً کے ساتھ مناسبت نہیں رہتی۔ اس لئے کہ عزیز اور حکیم اور اس قسم کی ترکیب اس موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں کوئی عجیب و غریب اور خارق العادات امر پیش آیا ہو اور وہ عجیب و غریب امر جو اس مقام پر پیش آیا وہ رفع جسمانی ہے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔ وہ عزت والا اور غلبہ والا اور قدرت والا ہے۔ اس کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں اور نہ یہ خیال کرے کہ جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا خلاف حکمت اور خلاف مصلحت ہے۔ وہ حکیم ہے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔ دشمنوں نے جب حضرت مسیح پر ہجوم کیا تو اس نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھلا دیا کہ اپنے نبی کو آسمان پر اٹھالیا اور جو دشمن قتل کے ارادہ سے آئے تھے۔ انہی میں سے ایک کو اپنے نبی کا ہم شکل اور شبیہ بناکر انہیں کے ہاتھ سے اس کو قتل کرادیا اور پھر اس شبیہ کے قتل کے بعد ان سب کو شبہ اور اشتباہ میں ڈال دیا۔
رفع کے معنی عزت کی موت۔ نہ کسی لغت سے ثابت ہے نہ کسی محاورہ سے اور نہ کسی فن کی اصطلاح سے۔ محض مرزا قادیانی کی اختراع ہے۔ البتہ رفع کا لفظ محض اعزاز اور رفع جسمانی کے منافی نہیں اعزاز اور رفع جسمانی دونوں جمع ہوسکتے ہیں۔ نیز اگر رفع سے عزت کی موت مراد ہو تو نزول سے ذلت کی پیدائش مراد ہونی چاہئے۔ اس لئے کہ حدیث میں نزول کو رفع کا مقابل قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ نزول کے یہ معنی مرزا قادیانی کے ہی مناسب ہیں۔
۹… رہا یہ امر کہ آیت میں آسمان پر جانے کی کوئی تصریح نہیں۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بل رفعہ اﷲ الیہ (اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھالیا) اس کلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اﷲ نے آسمان پر اٹھالیا جیسا کہ: ’’ تعرج الملائکۃ والروح الیہ ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ: فرشتے اور روح الامین اﷲ کی طرف چڑھتے ہیں یعنی آسمان پر۔ وقال تعالیٰ :’’ الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ ‘‘ اﷲ ہی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور اﷲتعالیٰ عمل صالح کو اوپر اٹھاتا ہے۔ یعنی آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ اس طرح بل رفعہ اﷲ الیہ میں آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہوگا اور جس کو خدائے تعالیٰ نے ذرا بھی عقل دی ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے بل رفعہ اﷲ الیہ کے یہ معنی کہ خدا نے ان کو عزت کی موت دی۔ یہ معنی جس طرح لغت کے خلاف ہیں اسی طرح سیاق و سباق کے بھی خلاف ہیں۔ اس طرح کہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ سے باسناد صحیح یہ منقول ہے : ’’ لما اراداﷲ ان یرفع عیسیٰ الیٰ السمائ ‘‘
(تفسیر ابن کثیر ص ۵۷۴ ج۱ زیر آیت بل رفعہ اﷲ)
’’جب اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھانے کا ارادہ فرمایا۔ الی آخر القصہ ‘‘
اس کے علاوہ متعدد احادیث میں آسمان پر جانے کی تصریح موجود ہے وہ احادیث ہم نقل کرچکے ہیں۔
۱۰… مرزا قادیانی نے لکھا ہے: ’’لہٰذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے۔ مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو۔جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علیین تک پہنچائی جاتی ہیں : ’’ فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر ‘‘
(ازالہ اوہام ص ۵۹۹، خزائن ج۳ ص ۴۲۴)
مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ رفع سے ایسی موت مراد ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ جیسے مقربین کی موت ہوتی ہے کہ ان کی روحیں مرنے کے بعد علیین تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس عبارت سے خود واضح ہے کہ بل رفعہ اﷲ سے آسمان پر جانا مراد ہے۔ اس لئے کہ علیین اور ’’مقعد صدق‘‘ تو آسمان ہی میں ہیں۔ بہرحال آسمان پر جانا تو مرزا قادیانی کو بھی تسلیم ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ آسمان پر حضرت مسیح بن مریم کی فقط روح گئی یا روح اور جسد دونوں گئے۔ سو یہ ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ آیت میں بجسدہ العنصری رفع مراد ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قرآن شریف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حیات ورفع جسمانی کا ثبوت نمبر 2

۱… آیت : آلعمران : 55

آیت اعراب کے ساتھ:
اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَہِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵
آیت اعراب کے بغیر:
اذ قال الله يعيسى اني متوفيک و رافعک الي و مطهرک من الذين کفروا و جاعل الذين اتبعوک فوق الذين کفروا الى يوم القيمة ثم الي مرجعکم فاحکم بينکم فيما کنتم فيه تختلفون آیت 55
۱… ’’ (آل عمران:۵۵)‘‘
ہم اس آیت کریمہ کا ترجمہ اس مفسر اعظم کی زبان سے بیان کرتے ہیں جن کو قادیانی اور لاہوری، صدی ششم کا مجدد اعظم قرار دے چکے ہیں اور دنیائے اسلام میں وہ امام فخرالدین رازی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ تفسیر کبیر میں بذیل آیت کریمہ فرماتے ہیں اور قریباً سات سو (۷۰۰) سال پیشتر قادیانیوں کے الحاد اور تحریف کا جواب دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ ووجد ہذا المکر اذ قال اﷲ ہذا القول (انی متوفیک) ومعنیٰ قولہ تعالیٰ انی متوفی ای متمم عمرک فحینئذ اتو فاک فلا اترکہم حتیٰ یقتلوک بل انا رافعک الیٰ سمائی ومقر ملائکتی واصونک ان یتمکنوا من قتلک وہذا تاویل حسن… ان التوفی اخذ الشیٔ وافیا ولما علم اﷲ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذین رفعہ ہو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علیٰ انہ علیہ الصلوت والسلام رفع بتمامہ الیٰ السماء بروحہ وبجسدہ… وکان اخرجہ من الارض واصعادہ الیٰ السماء توفیا لہ فان قیل فعلیٰ ہذا الوجہ کان التؤفی عین الرفع الیہ فیصیر قولہ ورافعک الیّٰ تکرارا قلنا قولہ انی متوفیک یدل علیٰ حصول التوفی وھو جنس تحتہ انواع بعضہا بالموت وبعضہا بالاصعاد الیٰ السماء فلما قال بعد ورافعک الیّٰ کان ہذا تعیینا للنوع ولم یکن تکرارا… ومطہرک من الذین کفروا والمعنی مخرجک من بینہم ومفرق بینک وبینہم ‘‘

(تفسیر کبیر جز۸ ص۷۱،۷۲)
امام رازی مجدد صدی ششم فرماتے ہیں: ’’اور یہ مکر الٰہی اس وقت پایا گیا جب کہ کہا خدا نے انی متوفیک اور انی متوفیک کے معنی ہیں (اے عیسیٰ) میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا۔ پس میں ان یہود کو تیرے قتل کے لئے نہیں چھوڑوں گا۔ بلکہ میں تجھے اپنے آسمان اور ملائکہ کے مقر کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچالوں گا اور یہ تفسیر نہایت ہی اچھی ہے… تحقیق توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو ہر لحاظ سے اپنے قابو میں کر لینا اور کیونکہ اﷲتعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض آدمی (سرسید علی گڑھی اور مرزاغلام احمد قادیانی وغیرہم) خیال کریں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم نہیں بلکہ روح اٹھائی گئی تھی۔ اس واسطے انی متوفیک کا فقرہ استعمال کیا تاکہ یہ کلام دلالت کرے۔ا س بات پر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم بمعہ روح آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے۔ ان کی توفی کے معنی زمین سے نکل کر آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہے اور اگر کہا جائے کہ اس صورت میں تو توفی اور رفع میں کوئی فرق نہ ہوا بلکہ دونوں ہم معنی ہوئے اور اگر ہم معنی ہوئے تو پھر رافعک الیّٰ کا فقرہ بلا ضرورت تکرار کلام میں ثابت ہوا۔ (جس سے کلام اﷲ پاک ہے) جواب اس کا ہم یہ دیتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کے قول انی متوفیک سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کا اعلان کرنا ہے اور توفی ایک عام لفظ ہے جس کے ماتحت بہت قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک توفی موت کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک توفی آسمان کی طرف بمعہ جسم اٹھالینا ہے۔ پس جب ’’ انی متوفیک ‘‘ کے بعد اﷲتعالیٰ نے فرمایا ’’ ورافعک الیّٰ ‘‘ تو اس فقرہ سے توفی کی ایک قسم مقرر ومعین ہوگئی (یعنی رفع جسمانی) پس کلام میں تکرار نہ رہا اور ’’ مطہرک من الذین کفروا ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ میں تجھے ان یہود کی صحبت سے جدا کرنے والا ہوں اور تیرے اور ان کے درمیان علیحدگی کرنے والا ہوں۔‘‘ ختم ہوا ترجمہ تفسیر کبیر کا۔

۲… تفسیر از امام جلال الدین سیوطیؒ جن کو قادیانی اور لاہوری دونوں مجدد صدی نہم ماننے کے علاوہ اس مرتبہ کا آدمی سمجھتے ہیں کہ:
’’وہ آنحضرتﷺ سے بالمشافہ مسائل متنازع فیہ پوچھ لیا کرتے تھے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
’’ اذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک (قابضک) ورافعک الیّٰ (من الدنیا من غیر موت) ومطہرک (مبعدک) من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک (صدقوا نبوتک من المسلمین والنصاریٰ) فوق الذین کفروا بک وہم الیہود یعلونہم بالحجۃ والسیف ‘‘
(تفسیر جلالین ص۵۲)
’’جب کہا اﷲتعالیٰ نے اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تجھ کو اپنے قبضہ میں کرنے والا ہوں اور دنیا سے بغیر موت کے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے الگ کرنے والا ہوں کافروں کی صحبت سے اور تیرے تابعداروں کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک دلائل اور تلوار سے غالب رکھنے والا ہوں۔‘‘

دیگر مجددین امت نے بھی اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی ہی کو ثابت کیا ہے۔ ایک مجدد یا محدث بھی ایسا پیش نہیں کیاجاسکتا جس نے اس آیت میں رفع کے معنی رفع روحانی کئے ہوں۔ ہاں بعض بزرگوں نے اس آیت میں توفی کے مجازی معنی یعنی موت دینا اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ مگر ساتھ ہی تقدیم وتاخیر کی شرط لگا کر پھر بھی رفع جسمانی کے قائل رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لیجئے! اس کے متعلق بھی ہم صرف تین مجددین کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ جن کا رد کرنے والا مرزاقادیانی کے فتویٰ کی رو سے فاسق ہو جائے گا۔

۱… امام فخرالدین رازی مجدد صدی ششم کا ارشاد ملاحظ ہو:
’’ وقولہ رافعک الیّٰ یقتضی انہ رفعہ حیا والوا ولا تقتضی الترتیب فلم یبق الا ان یقول فیہا تقدیم وتاخیر والمعنیٰ انی رافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالی ایاک فی الدنیا ومثلہ من التقدیم والتاخیر کثیر فی القرآن ‘‘

(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)
’’قول الٰہی رافعک الیّٰ تقاضا کرتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے آپ کو زندہ اٹھا لیا اور واؤ ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی۔ پس سوائے اس کے کچھ نہ رہا کہ کہا جائے کہ اس میں تقدیم وتاخیر ہے اور معنی یہ ہیں کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار سے بالکل پاک وصاف رکھنے والا ہوں اور تجھے دنیا میں نازل کرنے کے بعد فوت کرنے والا ہوں اور اس قسم کی تقدیم وتاخیر قرآن شریف میں بکثرت ہے۔‘‘
اس سے ذرا پہلے فرماتے ہیں:
’’ ان الواو فی قولہ متوفیک ورافعک الیّٰ لا تفید الترتیب فالایۃ تدل علیٰ انہ تعالیٰ یفعل بہ ہذہ الافعال فاما کیف یفعل ومتی یفعل فالامر فیہ موقوف علیٰ الدلیل وقد ثبت الدلیل انہ حی وورد الخبر عن النبیﷺ انہ سینزل ویقتل الدجال ثم انہ تعالیٰ یتوفاہ بعد ذالک ‘‘

(تفسیر کبیر ج۸ ص۷۱،۷۲)
’’واؤ عاطفہ جو اس آیت میں ہے وہ مفید ترتیب نہیں۔ یعنی وہ ترتیب کے لئے نہیں۔ پس یہ آیت صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے یہ سب معاملات کرے گا۔ لیکن کس طرح کرے گا اور کب کرے گا۔ پس یہ سب کچھ کسی اور دلیل پر موقوف ہے اور اس کی دلیل ثابت ہوچکی ہے کہ آپ زندہ ہیں اور نبیﷺ سے حدیث وارد ہے کہ آپ ضرور اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ پھر اﷲتعالیٰ آپ کو اس کے بعد فوت کرے گا۔‘‘

۲… امام سیوطیؒ مجدد صدی نہم فرماتے ہیں:
’’ عن الضحاکؒ عن ابن عباسؓ فی قولہ انی متوفیک ورافعک الیّٰ یعنی رافعک ثم متوفیک فی آخر الزمان ‘‘

(درمنثور ج۲ ص۳۶)
’’حضرت ضحاکؒ تابعی حضرت ابن عباسؓ سے قول الٰہی انی متوفیک ورافعک الیّٰ کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ مراد اس جگہ یہ ہے کہ تجھے اٹھا لوں گا۔ پھر آخری زمانہ میں فوت کروں گا۔‘‘

۳… تفسیر از علامہ محمد طاہر گجراتی مصنف مجمع البحار جن کو قادیانی مجدد صدی دہم تسلیم کرتے ہیں۔
’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ علی التقدیم والتاخیر… ویجییٔ اخر الزمان لتواتر خبر النزول ‘‘ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں تقدیم وتاخیر ہے۔ یعنی معنی یہ ہیں کہ میں تجھے اوپر اٹھانے والا ہوں اور پھر فوت کرنے والا ہوں… حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانہ میں دوبارہ آئیں گے۔ کیونکہ احادیث نبوی نزول کے بارہ میں تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔
غرضیکہ تمام علماء اسلام سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کا اعلان کر رہی ہے۔ اگر قادیانی امت ۱۳صدیوں کے علماء مجددین میں سے ایک مجدد بھی ایسا پیش کر سکے۔ جس نے اس آیت میں رفع سے مراد رفع روحانی لیا ہو۔ تو ہم انعام مقررہ کے علاوہ اعلان کرتے ہیں کہ ایک سال تک تردید مرزائیت کا کام چھوڑ دیں گے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ تیرہ صدیوں کے مجددین امت (جن کی فہرست قادیانیوں کی مایہ ناز کتاب (عسل مصفیٰ ج۱ ص۱۶۲،۱۶۵) پر لکھی ہے) میں سے ایک بھی اس رفع کے معنی رفع روحانی نہیں کرتا۔ بلکہ تمام کے تمام اس کے معنی رفع جسمانی پر ایمان رکھتے ہیں تو جو آدمی ان کے فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرے گا وہ قادیانی فتویٰ کی رو سے فاسق ہو جائے گا۔

(قادیانی اصول نمبر۴)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی کی پرلطف بحث
میرے معزز ناظرین! توفی کی تفسیر میں نے ایسے مفسرین کی زبان سے بیان کر دی ہے کہ جس آدمی میں ذرا بھی انصاف اور حق پرستی کا مادہ ہو۔ وہ قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ یہ سارے حضرات قادیانی اور لاہوری مرزائیوں کے مسلمہ مجددین گزرے ہیں اور مجدد علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ علوم قرآنیہ کی صحیح تعلیم کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ وہ دین میں نہ کمی کرتے ہیں نہ زیادتی۔
(قادیانی اصول نمبر۴)
مگر تاہم چونکہ قادیانی مناظر ہر جگہ توفی کے متعلق بڑی تحدی اور زور سے چیلنج دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا مناسب سمجھتا ہوں کہ بقدر ضرورت میں بھی اس پر روشنی ڈال کر اپنے ناظرین کو حقیقت حال سے مطلع کر دوں۔ پہلے میں مرزاقادیانی کے خیالات کو ان کی کتابوں کے حوالہ سے ’’توفی کی بحث‘‘ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس کے بعد خود اپنا ’’مافی الضمیر‘‘ عرض کروں گا۔
سوال نمبر:۱… توفی کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
جواب نمبر:۱… از مرزا ’’توفی کے حقیقی معنی وفات دینے اور روح قبض کرنے کے ہیں۔‘‘
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے معنی حقیقت میں وفات دینے کے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۵)
سوال نمبر:۲… توفی کے مجازی معنی کیا ہیں؟
جواب… ’’(قرآن شریف میں) دونوں مقامات میں نیند پر توفی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے جو بہ نصب قرینہ نوم استعمال کیاگیا ہے۔ یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیاگیا ہے۔ تاہر ایک شخص سمجھ لے کہ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیںہے۔ بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۳… قرآن کریم میں یہ لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟
جواب نمبر:۱… از مرزاقادیانی: ’’قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک جس جس جگہ توفی کا لفظ آیا ہے۔ ان تمام مقامات میں توفی کے معنی موت ہی لئے گئے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴ حاشیہ)
جواب نمبر:۲… ’’توفی کے سیدھے اور صاف معنی جو موت ہیں وہی اس جگہ (قرآن کریم میں) چسپاں ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۶، خزائن ج۳ ص۲۲۴)
جواب نمبر:۳… ’’ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم اوّل سے آخر تک صرف یہی معنی ہر ایک جگہ مراد لیتا ہے کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم سے کچھ تعلق نہ رکھنا بلکہ اس کو بیکار چھوڑ دینا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۴۲، خزائن ج۳ ص۳۹۱)
سوال نمبر:۴… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! یہ کیسے معلوم ہو کہ کوئی لفظ کس جگہ اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا اور کس جگہ مجازی معنوں میں؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’اس بات کے دریافت کے لئے کہ متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متبادر اور شائع ومتعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتیاج قرائن کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے۔ مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے۔ اپنے اس مدعا کو ظاہر کر جائے کہ یہ لفظ اپنے اصلی معنوں پر مستعمل نہیں ہوا۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۹)
سوال نمبر:۵… از ابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! سچ سچ فرمائیے کہ موت یا حیات دینے کا اختیار خدا کے سوا کسی اور ہستی کو بھی ہوسکتا ہے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی: ’’خداتعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۱۴، خزائن ج۳ ص۲۶۰ حاشیہ)
سوال نمبر:۶… از ابوعبیدہ: ’’قرآن شریف میں توفی کا لفظ کتنی جگہ آیا ہے۔ ذرا مکمل فقرات کی صورت میں پیش کیجئے؟‘‘
جواب… از مرزاقادیانی:
۱… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۲… ’’والذین یتوفون منکم (بقرہ)‘‘
۳… ’’حتیٰ یتوفہن الموت (نسائ)‘‘
۴… ’’توفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نسائ)‘‘
۵… ’’توفتہ رسلنا (انعام)‘‘
۶… ’’رسلنا یتوفونہم (اعراف)‘‘
۷… ’’اذیتوفی الذین کفروا الملئکۃ (انفال)‘‘
۸… ’’فکیف اذا توفتہم الملئکۃ یضربون وجوہہم (محمد)‘‘
۹… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ ظالمی انفسہم (نحل)‘‘
۱۰… ’’الذین تتوفہم الملئکۃ طیبین (نحل)‘‘
۱۱… ’’قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم (الم سجدہ)‘‘
۱۲… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (یونس)‘‘
۱۳… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (رعد)‘‘
۱۴… ’’واما نرینک بعض الذی نعدہم (ونتوفینک) (مؤمن)‘‘
۱۵… ’’ثم یتوفکم (نحل)‘‘
۱۶… ’’ومنکم من یتوفیٰ (حج)‘‘
۱۷… ’’ومنکم من یتوفیٰ (مؤمن)‘‘
۱۸… ’’وتوفنا مع الابرار (آل عمران)‘‘
۱۹… ’’توفنا مسلمین (اعراف)‘‘
۲۰… ’’توفنی مسلما والحقنی بالصالحین (یوسف)‘‘
۲۱… ’’ھو الذی یتوفکم بالیل ویعلم ماجرحتم بالنہار ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمیٰ (انعام)‘‘
۲۲… ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضی علیہا الموت ویرسل الاخریٰ الی اجل مسمیٰ (زمر)‘‘

(ازالہ اوہام ص۳۳۰،۳۳۳، خزائن ج۳ ص۲۶۸)
سوال نمبر:۷… ازابوعبیدہ: ’’مرزاقادیانی! آپ نے آیات نقل کرنے میں دیانت سے کام نہیں لیا۔ صرف آخری دو آیتیں کما حقہ نقل کی ہیں۔ میں ہر ایک آیت کے متعلق ابھی مفصل عرض کروں گا۔ مگر اتنا تو آپ کے اصول سے سمجھ میں آگیا کہ اگر میں ثابت کر دوں کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں بلکہ جس طرح آپ توفی کے مجازی معنی نیند دینا مانتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح ہم توفی کے مجازی معنی موت دینا بھی مانتے ہیں۔ دلائل ذیل میں ملاحظہ کیجئے اور پھر ایمان سے فرمائیے کہ آپ کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک ہے؟‘‘
توفی کے حقیقی معنی کسی چیز کو اپنے تمام لوازمات کے ساتھ قبضہ میں کر لینا ہے۔ وجہ ملاحظہ کریں:

۱… توفی کا لفظ وفا سے نکلا ہوا ہے اور باب تفعل کا صیغہ ہے۔ اسی طرح ایفاء توفیہ اور استیفاء بھی اسی مادہ وفاء سے بالترتیب باب افعال، تفصیل اور استفعال کے صیغے ہیں۔ اب یہ بات تو ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ کسی صیغہ کے حقیقی معنوں میں مادے (اصلی روٹ) کے معنی ضرور موجود رہتے ہیں۔ پس ان سب صیغوں میں وفا کے معنی پائے جانے ضروری ہیں۔ وفاء کے معنی ہیں پورا کرنا۔ معمولی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ باب تفعل اور استفعال میں اخذ یعنی لینے کے معنی زائد ہو جاتے ہیں۔ پس توفی اور استیفا کے معنی ہوئے۔ ’’ اخذ الشیی وافیاً ‘‘ یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا۔ یعنی تمام جزئیات سمیت قابو کر لینا۔ چنانچہ ہم اپنی تصدیق وتائید میں ماہرین زبان عرب کے اقوال پیش کرتے ہیں۔
الف… ’’ اساس البلاغہ ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ استوفاہ وتوفاہ استکملہ ‘‘ یعنی استیفاء اور توفی دونوں کے معنی پورا پورا لے لینا ہے۔
ب… (لسان العرب ج۱۵ ص۳۵۹) میں بھی یہی لکھا ہے۔
ج… تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی مجدد صدی ششم نے بھی دونوں کو ہم معنی قرار دیا ہے۔

۲… مرزاقادیانی! آیت نمبر۴،۵،۷تا۱۱ میں توفی کرنے والے فرشتے قرار دئیے گئے ہیں اور آپ کے جواب نمبر:۵ میں آپ نے فرمایا ہے کہ موت وحیات بغیر خدا کے کوئی دے نہیں سکتا۔ پس ماننا پڑے گا کہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت دینے کے ہیں تو پھر فرشتے آپ کے نزدیک خدا ٹھہریں گے اور اگر فرشتے خدا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہوسکتے اور یقینا نہیں ہوسکتے؟

۳… آیات نمبر:۱،۲ میں ’’ یتوفون ویتوفون ‘‘ دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔
پہلی صورت میں فعل مجہول ہے اور دوسری صورت میں معروف ہے۔ دوسری صورت میں توفی بمعنی موت کرنے، ناممکن ہیں۔ کیونکہ والذین اس کا فاعل ضمیر ہے۔ مرزا قادیانی! آپ کے معنی قبول کر لیں تو یوں معنی کرنے پڑیں گے۔ ’’وہ لوگ جو اپنے آپ کو موت دیتے ہیں۔‘‘ یہ بالکل بے معنی ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی موت دینا نہیں۔

۴… آیت نمبر:۳ میں یتوفی کا فاعل الموت ہے۔ اگر توفی بمعنی موت دینا ہو تو آیت کے معنی یوں کریں گے۔ یہاں تک کہ موت ان کو موت دے دے۔
مرزاقادیانی! کچھ تو انصاف کیجئے! کیا موت ہم کو موت دیا کرتی ہے یا خدا؟ موت تو خدا دیتا ہے۔ پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں۔

۵… قرآن شریف میں توفی کے معنی بطور مجاز جہاں موت دینا کئے گئے ہیں۔ وہاں اسی فعل کا فاعل یا تو خدا ہے یا فرشتے۔ یا موت یا خود آدمی۔ حالانکہ اس کے برعکس اماتت جس کے حقیقی معنی موت دینا ہے۔ اس کا فاعل قرآن کریم یا حدیث نبوی یا اقوال صحابہؓ یا اقوال اہل لسان میں کسی جگہ بھی سوائے خدا کے اور کسی کو قرار نہیں دیا۔ اگر توفی کے حقیقی معنی موت ہیں تو قرآن کریم میں اس کا فاعل بھی سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہوتا۔ پس اﷲتعالیٰ کا دونوں فعلوں کے فاعل مقرر کرنے میں اس قدر اہتمام کرنا ثابت کرتا ہے کہ اگر اماتت کے حقیقی معنی موت دینا ہے تو یقینا توفی کے حقیقی معنی موت دینا نہیں ہو سکتے۔ ورنہ وجہ بتائی جائے کہ کیوں سارے قرآن کریم میں احیاء اور اماتت کے استعمال میں نسبت فاعلی خدا نے اپنی طرف کی ہے اور توفی میں سب طرح جائز رکھا ہے؟

۶… آپ نے جس قدر آیات نقل کی ہیں۔ اگر مکمل پڑھی جائیں تو ہر ایک میں قرینہ موت موجود ہے۔ مثلاً:
آیت نمبر:۱… میں آپ نے صرف اتنا نقل کیا ہے۔ ’’ والذین یتوفون منکم ‘‘ اور اس کے آگے ’’ ویذرون ازواجاً وصیۃ لا زواجہم متاعاً الیٰ الحول غیر اخراج ‘‘ ’’تم میں سے جو لوگ اپنی عمر پوری کر لیتے ہیں۔ (یعنی فوت ہو جاتے ہیں) اور چھوڑ جاتے ہیں اپنی عورتیں۔ وہ وصیت کر جایا کریں اپنی بیبیوں کے واسطے۔‘‘
آیت نمبر:۲… میں بھی ’’ویذرون ازواجاً یتربصن بانفسہن اربعۃ اشہر وعشراً‘‘ یہاں بھی بیبیوں کا پیچھے چھوڑ جانا اور ان کی عدت کا حکم صاف صاف قرینہ صارفہ موجود ہے۔ یعنی یتوفون کے معنی ہوں گے اپنی عمر پوری کر لینا۔
اسی طرح آیات نمبر۴ سے۱۱ تک موت کے فرشتوں کا فاعل ہونا قرینہ ہے۔ بعض میں حیات کا ذکر کرنے کے بعد توفی کا استعمال ہوا ہے۔ جو قرینہ کا کام دیتا ہے۔ بعض آیات میں خاتمہ بالخیر کی دعا قرینہ موت موجود ہے۔ آیت نمبر:۲۱ میں باللیل وغیرہ قرینہ نیند کا موجود ہے۔ اس واسطے یہاں توفی کے معنی نیند دینا ہے۔ ورنہ اگر توفی کے حقیقی معنی موت کے ہوں تو مرزاقادیانی کو ماننا پڑے گا کہ تمام دنیا رات کو حقیقی موت مرجاتی ہے۔ صبح پھر دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے (اور یہ بات مرزائیوں کے نزدیک بھی صحیح نہیں)
آیت نمبر۲۲ تو توفی کے معنوں کا فیصلہ ہی کر دیتی ہے۔ توفی کا مفعول انفس ہے یعنی روح۔ اگر آپ کے معنی قبول کر لئے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اﷲ روح کو موت دے دیتا ہے۔ حالانکہ یہ امر بالکل غلط ہے۔ ہاں پھر ’’ والتی لم تمت فی منامہا ‘‘ (اور اﷲ ان روحوں کی بھی توفی کرتا ہے جن پر موت وارد نہیں ہوئی) کا اعلان کرکے مرزاقادیانی! آپ کے سارے تانے بانے کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ یہاں توفی کا حکم بھی جاری ہے اور لم تمت (نہیں مریں یعنی زندہ ہیں)کا اعلان بھی ہورہا ہے۔ یعنی توفی کا عمل ہو جانے کے بعد بھی آدمی کا زندہ رہنا ممکن ہی نہیں بلکہ ہر روز کروڑہا انسانوں پر اس کا عمل ہورہا ہے۔ غرضیکہ اس آیت میں ایک ہی لفظ توفی مستعمل ہوا ہے۔ اس کے معنی مجازی طور پر مارنے کے بھی ہیں اور مجازی طور سلانے کے بھی۔

نتیجہ… آپ نے سوال جواب نمبر۴ میں فرمایا تھا کہ اگر کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوتو اس کے ساتھ قرائن نہیں ہوتے اور جن کے ساتھ قرینہ موجود ہو۔ وہ ضرور مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ ان تمام آیات میں موت اور نیند کے معنی کرنے کے لئے زبردست قرائن موجود ہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی صرف اخذ الشیٔ وافیاً یعنی کسی چیز کو پوری طرح اپنے قبضہ میں کر لینا ہے اور اس کے معنی کرتے وقت قرینہ کا ضرور خیال رکھنا ہوگا۔ بغیر قرینہ کے اس کو اپنے حقیقی معنوں سے پھیرنا جائز نہ ہوگا۔

۷… قرآن شریف میں حیوٰۃ اور اس کے مشتقات کے مقابلہ پر صرف موت اور اس کے مشتقات ہی مستعمل ہیں۔ تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی حیات کے مقابلہ پر توفی کا استعمال نہیں ہوا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ آپ بمعہ اپنی جماعت کے قرآن کریم ہزارہا احادیث رسول کریمﷺ اقوال صحابہؓ، اقوال بزرگان دین اور سینکڑوں کتب لسان عرب سے کہیں ایک ہی ایسا مقام دکھا دو۔ جہاں احیاء (زندہ کرنا) اور توفی (پوری پوری گرفت کرنا) بالمقابل استعمال ہوئے ہیں۔ انشاء اﷲ تاقیامت نہ دکھاسکو گے۔

۸… امام ابن تیمیہ کو مرزاقادیانی آپ ساتویں صدی کا مجدد تسلیم کر چکے ہیں اور مجدد کے فیصلہ سے انحراف کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ دیکھئے وہ فرماتے ہیں:
’’ لفظ التوفی فی لغۃ العرب معناہ الاستیفاء والقبض وذالک ثلثۃ انواع احدہا توفی النوم والثانی توفی الموت والثالث توفیٰ الروح والبدن جمیعاً فانہ بذالک خرج عن حال اہل الارض ‘‘

(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ج۲ ص۲۸۰)
’’لفظ توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پوراپورا لے لینا اور اس کو اپنے قابو میں کر لینا اور اس کی پھر تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک نیند کی توفی ہے۔ دوسری موت کی توفی اور تیسری روح اور جسم دونوں کی توفی ہے اور عیسیٰ علیہ السلام اس تیسری توفی کے ساتھ اہل زمین سے جدا ہوگئے۔‘‘
۹… توفی کے یہی معنی امام فخرالدین رازیؒ آپ کے مجدد صدی ششم اور
۱۰… امام جلال الدین سیوطیؒ آپ کے مجدد صدی نہم بھی تسلیم کر رہے ہیں۔
دیکھئے تفسیر کبیر اور تفسیر جلالین وغیرہ۔ تلک عشرۃ کاملۃ!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی عیسیٰ علیہ السلام کی بحث
ناظرین باتمکین! جب یہ امر ثابت ہوچکا کہ توفی کے حقیقی معنی اخذ الشیٔ وافیاً کے ہیں اور یہ کہ مارنا اور سلانا اس کے مجازی معنی ہیں۔ یہ بھی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے کہ کلام اﷲ میں جہاں کہیں توفی بمعنی مارنا استعمال ہوا ہے۔ وہاں موت کا قرینہ موجود ہے اور جہاں بمعنی سلانا مستعمل ہوا ہے۔ وہاں نیند کا کوئی نہ کوئی قرینہ موجود ہے۔ پس جب یہ لفظ بغیر قرینہ موت اور نیند پایا جائے گا تو کوئی شخص اس کے معنی موت دینا یا سلانا کرنے کا مجاز نہیں ہوسکتا۔ کلام اﷲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے توفی دو جگہ آیا ہے۔ ایک تو آیت ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں دوسرا ’’ فلما توفیتنی ‘‘ میں۔
اب میں دلائل سے ثابت کرتا ہوں کہ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ کی توفی کے معنی کیا ہیں۔
حضرات! یہ کلام اﷲ کا معجزہ ہے اور علام الغیوب کے علم غیب پر زبردست دلیل ہے کہ اس آیت کے الفاظ کی بندش اور لفظ توفی کا استعمال ہی اس طریقہ سے کیا گیا ہے کہ توفی کے سارے معنی حقیقی یا مجازی چسپاں کر کے دیکھیں سب ٹھیک بیٹھتے ہیں۔ اسی واسطے جس کسی مفسر نے جو معنی اس کو مرغوب لگے وہی لگادئیے۔ مگر یہ تفسیر اجماع امت کا حکم رکھتی ہے کہ اس آیت کی رو سے تمام امت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے قائل ہے۔
۱… بعض نے فرمایا اس کے معنی سلانا یہاں خوب چسپاں ہوتے ہیں۔ یعنی ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو نیند دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ چونکہ جاگتے ہوئے ہزارہا بلکہ لاکھوں میل کا پرواز اوپر کی طرف کرنا طبعاً توحش کا باعث ہوتا ہے۔ اس واسطے خدا نے نیند کی حالت میں رفع کا وعدہ کیا۔
۲… بعض علماء نے فرمایا کہ اس کے معنی عمر پوری کرنے کے ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیری عمر پوری کرنے والا ہوں۔ (یہ یہود تم پر قبضہ کر کے تمہیں قتل نہیں کر سکتے) اور میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘
اور اس کا مطلب انہیں علماء اسلام نے جن میں سے حبر الامت وترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ بھی ہیں۔ یہی بیان کیا ہے کہ رفع جسمانی کا زمانہ عمر پوری کرنے کے وعدہ کا جز ہے۔ یعنی رفع جسمانی پر نزول جسمانی کے بعد آپ کی عمر پوری کی جائے گی اور پھر موت آئے گی۔
۳… مرزاغلام احمد قادیانی نے مجدد ومحدث وملہم من اﷲ ہونے کے بعد اپنی الہامی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ میں اس کے معنی پورا پورا اجر دینے اور پوری نعمت دینے کے معنی کئے ہیں وہ بھی یہاں خوب چسپاں ہوتے ہیں۔ ’’یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تم پر اپنی نعمت پوری کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۲۰ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۲۰)
۴… جمہور علماء اسلام نے توفی کے حقیقی معنی ہی یہاں مراد لئے ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیرے جسم وروح دونوں پر قبضہ کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ اور یہی معنی موزوں ہیں۔ جس کے دلائل ہم ابھی عرض کرتے ہیں۔ مگر یقینا یہ معجزہ کلام اﷲ کا ہے کہ اس آیت کی بندش الفاظ توفی کو اپنے تمام معنوں میں چسپاں کرنے کے بعد بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں۔ خدائے علام الغیوب نے مرزاقادیانی کی پیدائش سے تیرہ سو سال پہلے ہی ان کے دھوکا کا انتظام کر دیا تھا۔ فالحمد ﷲ رب العالمین!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
توفی عیسیٰ کے معنی ’’مارنا‘‘ کرنے کے خلاف
جسم وروح پر قبضہ کرنے کی تائید میں دلائل اسلامی

ناظرین! انجیل کے بیان اور ومکروا ومکراﷲ کی بحث سے میں قادیانی مسلمات کی رو سے ثابت کر آیا ہوں کہ یہود نے مکروفریب کے ذریعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر قبضہ کر کے انہیں قتل کرنے کا اہتمام کر لیا تھا اور مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر آیا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت سامنے نظر آنے لگ گئی اور یہ بھی ثابت کر آیا ہوں اور وہ بھی مرزاقادیانی کی زبانی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس مصیبت سے بچنے کی دعا تمام رات کی۔ وہ قبول بھی ہوگئی۔ قبولیت کی آواز بذریعہ وحی ان الفاظ قرآنی میں آئی۔ ’’ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ (آل عمران:۵۵) ‘‘

حسب اصول مرزاقادیانی ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں توفی بمعنی مجازی لینے کے لئے کوئی قرینہ یا علامت ضروری چاہئے تھی۔ مگر کوئی قرینہ موت کا اس کے ساتھ موجود نہیں۔ بلکہ باوجود توفی اپنے حقیقی معنوں میں یعنی روح بمعہ جسم کو قبضہ میں لے لینا یہاں مستعمل ہے۔ پھر یہی مرزاقادیانی جیسے محرفین کلام اﷲ اور مدعیان مجددیت ومسیحیت کا ناطقہ بند کرنے کے اﷲتعالیٰ نے یہاں بہت سے ایسے قرائن بیان فرمادئیے ہیں جو قبض روح معہ الجسم پر ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہے ہیں اور وہ قرائن یہ ہیں۔
قرینہ نمبر:۱… توفی کے بعد جب رفع کا لفظ استعمال ہوگا اور رفع کا صدور بھی توفی کے بعد ہوتو اس وقت توفی کے معنی یقینا غیرموت ہوں گے۔ اگر کوئی قادیانی لغت عرب سے اس کے خلاف کوئی مثال دکھا سکے تو ہم یک صدروپیہ خاص انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۲… آیت ’’ ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین ‘‘ کے بعد ’’ انی متوفیک ‘‘ وارد ہوئی ہے اور یہ اﷲ کے مکر کی گویا تفسیر ہے۔ یہود کے مکر اور اﷲتعالیٰ کے مکر میں تضاد اور مخالفت ضروری ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ یہودیوں نے مکر کیا اور اﷲ نے بھی مکر کیا اور اﷲ سب مکر کرنے والوں سے اچھے ہیں۔ اﷲ کا مکر (تدبیر لطیف) سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہودیوں کی تدبیر معلوم کریں۔ سنئے! اور بالفاظ مرزا سنئے!
’’چنانچہ یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے پھر کام بن جائے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶)
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ حالت دیکھی تو ان کے ظلم وجور سے بچنے کے لئے دعا مانگی۔ چنانچہ مرزاقادیانی اس کے متعلق لکھتا ہے:
’’حضرت مسیح نے خود اپنے بچنے کے لئے تمام رات دعا مانگی تھی اور یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رو رو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
اس دعا عیسوی کے جواب میں اﷲتعالیٰ نے بذریعہ وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمایا: ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ‘‘ اگر توفی کے معنی موت دینا یہاں تسلیم کئے جائیں تو مطلب یوں ہوگا۔ اے عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں نے جو تمہارے قتل اور صلیب کی سازش کی ہے۔ ان کے مقابلہ پر میں نے یہ تدبیر لطیف کی ہے کہ میں ضرور تمہیں موت دوں گا۔ یہودی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مارنا چاہتے تھے اور خداتعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہاں تم مرو گے اور ضرور مرو گے۔
سبحان اﷲ! یہ یہودیوں کی تجویز اور تدبیر کی تائید ہے یا اس کا رد ہے۔ اگر کہو کہ اس سے مراد طبعی موت دینا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ طبعی موت کی پچر کس طرح قبول کی جاسکتی ہے۔ اگر یہودی قتل کرنے اور صلیب دینے میں کامیاب ہو جاتے تو اس صورت میں موت دینے والے کیا یہودی ہوتے۔ کیا اس حالت کی توفی خدا کی طرف منسوب نہ ہوتی؟ پس اگر ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی یہ کئے جائیں کہ میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔ تو یہ یہودیوں کی تائید اور ان کے مکر کو کامیاب کرنے کا اعلان تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اس میں کون سی تسلی تھی۔ اس واسطے تو فی عیسیٰ کے معنی روح وجسم پر قبضہ کرنا ہی صحیح ہے۔
قرینہ نمبر:۳… مرزاقادیانی کو بھی خدائے مرزا نے الہام کیا تھا۔ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۶،۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰،۶۶۴)
وہاں مرزاقادیانی اپنے لئے توفی بمعنی موت سے گھبراتے ہیں۔ وہاں یہ معنی کرتے ہیں۔ ’’ انی متوفیک ‘‘ یعنی میں تجھے پوری نعمت دوں گا یا پورا اجر دوں گا۔ پھر یہی مرزاقادیانی کس قدر دیدہ دلیری سے لکھتا ہے۔
’’ وثبت ان التوفی ھو الاماتۃ والافناء لا الرفع والاستیفائ ‘‘ یعنی ثابت ہویا کہ توفی کے معنی موت دینا اور فنا کرنا ہے نہ کہ رفع اور پورا پورا لینا یادینا۔
(انجام آتھم ص۱۳۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
پس جیسا اپنے لئے موت کا وعدہ مرزاقادیانی کو مرغوب نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے موت دینے کا وعدہ خداوندی کیونکر قبول کر سکتا ہے۔ بالخصوص جبکہ موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حسب قول مرزا نظر آہی رہی تھی۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’مسیح ایک انسان تھا اور اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہوگئے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳)
معزز ناظرین! اس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اس کا ذکر بھی مرزاقادیانی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔
’’حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا مانگی تھی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۱)
’’یہ بالکل بعید ازقیاس ہے کہ ایسا مقبول درگاہ الٰہی تمام رات رورو کر دعا مانگے اور وہ دعا قبول نہ ہو۔‘‘
(حوالہ بالا)
’’یہ قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ سچے نبیوں کی سخت اضطرار کی ضرور دعا قبول ہو جاتی ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۸۳، مجموعہ اشتاہرات ج۲ ص۱۰)
ان حالات میں بقول مرزاقادیانی، اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دیتے ہیں کہ اے عیسیٰ میں واقعی تجھے موت دینے والا ہوں۔ خوب مرزاقادیانی کو تو اﷲ تعالیٰ بغیر کسی خطرہ کی حالت کے وعدہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کا دیں اور مرزاقادیانی بقول خود بمطابق لغت عرب اس کے معنی اپنے لئے موت تجویز نہیں کرتے۔ بلکہ لغت کے خلاف اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں پورا پورا اجر دوں گا۔‘‘ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان ناگفتہ بہ حالات کے درمیان اﷲتعالیٰ بشارت دیتے ہیں۔ ’’ انی متوفیک ‘‘ اور مرزاقادیانی اس کے معنی کرتے ہیں۔ ’’میں تمہیں موت دینے والا ہوں۔‘‘
’’ تلک اذا قسمۃ ضیزی (النجم) ‘‘
{یہ تو بہت ہی بے ڈھنگی تقسیم ہے۔}
قرینہ نمبر:۴… ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی رسول پاکﷺ سے لے کر آج تک جس قدر علماء مفسرین ومجددین مسلمہ قادیانی گزرے ہیں۔ انہوں نے تو یہ کئے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھ کو بمعہ جسم آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘ قادیانی اس کے معنی یوں کرتے ہیں۔ ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تمہارا رفع روحانی کروں گا۔‘‘ تجھے صلیب پر مرنے نہیں دوں گا۔ بیشک یہودی تمہیں ذلیل کریں گے۔ تمہارے منہ پر تھوکیں گے۔ تمہارے جسم میں کیل ٹھوکیں گے۔ تمہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ جائیں گے۔ مگر تمہاری میں روح نہیں نکلنے دوں گا۔ روح تمہاری کسی اور موقع پر طبعی موت سے نکالوں گا۔ کیونکہ اگر اس وقت نکال لوں تو تم لعنتی موت مرو گے۔ (مفصل دیکھیں بحث ’’ومکروا ومکر اﷲ‘‘) سبحان اﷲ! یہ ہیں قادیانی کے نکات قرآنی۔ بھلے مانس کو یہ سمجھ نہیں کہ رفع روحانی کا تو ہر ایک مؤمن کو خدا وعدہ دے چکا ہے۔ بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو پہلے سے پتہ تھا۔
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
۱’’یرفع اﷲ الذین اٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات (مجادلہ:۱۱) ‘‘
{اﷲتعالیٰ مؤمنوں اور علم والوں کے درجات کو بلند کرتا ہے۔} یعنی رفع روحانی ہے۔
(دیکھئے رفع کے ساتھ درجات کا لفظ مذکور ہے۔ اس واسطے یہاں اس کے معنی درجات کا بلند کرنا ہے)
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود بچپن میں کہہ دیا تھا۔
(الف)’’ والسلام علیّٰ یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیاً (مریم:۳۳) ‘‘
{اور سلام ہے اﷲ کا مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا۔}
(ب)’’ وجعلنی مبارکاً اینما کنت (مریم:۳۱) ‘‘
{اور اﷲ نے بنایا مجھ کو برکت والا جہاں کہیں رہوں۔}
(ج)اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں فرمایا تھا۔ ’’ وجیہا فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین (آل عمران:۴۵) ‘‘
{حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا اور آخرت دونوں میں صاحب عزت وجاہت ہیں اور خدا کے مقرب بندوں میں سے ہیں۔}
(د)’’ کلمۃ اﷲ القاہا الیٰ مریم (نسائ:۱۷۱) ‘‘
{وہ اﷲ کے کلمہ تھے جو القاء کیاگیا تھا۔ طرف مریم کے۔}
(ہ)خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’ہر مؤمن کا رفع روحانی خود بخود ہوتا ہے۔ تمام انبیاء کا رفع روحانی ہوا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۶۵، خزائن ج۳ ص۲۳۳ ملخصاً)

پس ہمارا سوال یہاں یہ ہے کہ
یہ آیت چونکہ بطور بشارت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ رفع روحانی کا وعدہ آپ کے لئے کیا بشارت ہوسکتی تھی؟
کیا اس وعدہ سے پہلے ان کو علم نہ تھا۔ کیا انہیں وجیہہ، کلمتہ اﷲ، روح اﷲ، نبی اولوالعزم ہونے کا یقین نہ تھا۔ کیا انہیں اپنی نجات کے متعلق کوئی شک پیدا ہوگیا تھا؟
جس کا دفعیہ یہاں کیاگیا تھا۔ ہرگز نہیں۔ انہیں اپنی نجات، معصومیت، روح اﷲ، کلمتہ اﷲ اور نبی ہونے کا یقین تھا۔ ہاں سارے سامان قتل اور صلیب اور ذلت کے دیکھ کر بتقاضائے بشریت فکر پیدا ہوا تھا۔ جس پر اﷲتعالیٰ نے بطور بشارت ارشاد فرمایا: ’’انی متوفیک‘‘ اے عیسیٰ علیہ السلام میں خود تم پر قبضہ کرنے والا ہوں۔ (پس گھبراؤ نہیں یہودی تم پر قبضہ نہیں کر سکتے) پھر بتقاضائے بشریت خیال آیا کہ خداوند کریم کس طرح قبضہ کریں گے۔ اس کی صورت کیا ہوگی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ ورافعک الیّٰ ‘‘ اور قبضہ کر کے (تم کو اپنی طرف یعنی آسمان کی طرف) اٹھانے والا ہوں۔ پس ثابت ہوا۔ یہاں توفی اور رفع دونوں کے معنی موت دینا اور رفع روحانی نہیں ہوسکتے۔ بلکہ قبض جسمانی اور رفع جسمانی کے بغیر اور معنی سیاق وسباق اور قوانین لغت عرب کے مخالف ہیں۔
قرینہ نمبر:۵… اگر توفی بمعنی طبعی موت اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو اﷲ ان افعال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مخصوص نہ کرتے اور نہ ہی یہود کے مکروفریب کے مقابلہ پر اس فعل کو تدبیر لطیف بیان کر کے سب مکر کرنے والوں پر اپنا غلبہ ظاہر کرتے۔ کیونکہ یہ سلوک تو اﷲتعالیٰ ہر مؤمن مسلمان سے کرتے ہیں۔
قرینہ نمبر:۶… اگر توفی بمعنی موت طبعی دینا ہوتا اور رفع الیٰ اﷲ سے مراد رفع روحانی ہوتا تو دونوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ حسب قول مرزا، طبعی موت دینے کا وعدہ صلیبی موت سے بچانا تھا۔ یعنی لعنتی موت سے بچا کر رفع روحانی کی غرض سے انی متوفیک کہاگیا۔ پھر رفع الیٰ اﷲ کی کیا ضرورت تھی؟ اﷲتعالیٰ اپنے فصیح وبلیغ کلام میں مرزاقادیانی کی طرح اندھا دھند الفاظ کو موقعہ بے موقعہ استعمال نہیں فرمایا کرتے۔
قرینہ نمبر:۷… یہ آیت وفد نجران کی آمد پر نازل ہوئی تھی۔ یعنی عیسائیوں کا ایک گروہ رسول پاکﷺ کے پاس آیا تھا۔ ان کے سوالات کے جوابات میں اﷲتعالیٰ نے یہ آیات آل عمران اتاری تھیں۔ اب ہر ایک آدمی پڑھا لکھا جانتا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے قائل ہیں۔ اگر فی الواقع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی نہ ہوا ہوتا تو ضرور اﷲتعالیٰ اس کی بھی تردید فرماتے۔ جیسا کہ آپ کی الوہیت کی تردید فرمائی تھی۔ مگر اﷲتعالیٰ نے ’’ رافعک الیّٰ ‘‘ کا فقرہ بول کر ان کی تصدیق فرمائی۔ جس میں وفد نصاریٰ نے اپنی تصدیق سمجھی اور اس پر بحث ہی نہ کی۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ کبھی کبھی رفع کے معنی روحانی بھی ہوتے ہیں تو خدا نے کیوں نصاریٰ کے مقابلہ پر ایسے الفاظ استعمال کئے۔ جس سے ان کو بھی دھوکا لگا۔ وہ اپنی تصدیق سمجھ کر خاموش ہوگئے اور صحابہ کرامؓ اور علمائے اسلام مفسرین قرآن اور مجددین امت محمدیہ مسلمہ قادیانی بھی اسی دھوکا میں پڑے رہے۔ کسی نے رفع عیسوی کے معنی بغیر رفع جسمانی نہ لیئے۔ لیجئے! ایسے مواقع کے لئے ہم مرزاقادیانی کا قول نقل کرتے ہیں۔
’’یہ بالکل غیر ممکن اور بعید از قیاس ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں ایسے تنازع کی جگہ میں جو اس کے علم میں ایک معرکہ کی جگہ ہے۔ ایسے شاذ اور مجہول الفاظ استعمال کرے۔ جو اس کے تمام کلام میں ہرگز استعمال نہیں ہوئے۔
(تمام کلام اﷲ میں کہیں بھی صرف رفع الیٰ اﷲ کے معنی رفع روحانی نہیں آئے۔ مؤلف!) اگر وہ ایسا کرے تو گویا وہ خلق اﷲ کو آپ ورطہ شبہات میں ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس نے ہرگز ایسا نہیں کیا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۹، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ چونکہ صرف ’’ رفع الیٰ اﷲ ‘‘ سے مراد تمام قرآن میں کہیں بھی رفع روحانی نہیں لیاگیا۔ اس واسطے عیسیٰ علیہ السلام کی ’’ رفع الیٰ اﷲ ‘‘ سے رفع جسمانی مراد ہوگا۔
قرینہ نمبر:۸… آیت کریمہ ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے سے پہلے اس وقت کے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ چونکہ دنیا میں ابھی تک اہل کتاب کفار موجود ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ابھی تک فوت نہیں ہوئے۔ اس لئے ’’ رافعک الیّٰ ‘‘ سے پہلے ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی وروحانی اور نہیں ہوسکتے۔
نوٹ: اس آیت کی مفصل بحث تو آگے آئے گی۔ مگر مناظرین کے کام کی چند باتیں یہاں بھی نقل کرتا ہوں۔
۱… اگر ’’ قبل موتہ ‘‘ میں ’’ ہ ‘‘ کی ضمیر کتابی کی طرف راجع ہوتی تو ’’ لیؤمنن ‘‘ بصیغہ مستقبل مؤکد بہ نون ثقلیہ وارد نہ ہوتا۔ اس کے معنی ’’ایمان لاتے ہیں‘‘ کرنا لغت عرب کے قوانین پر چھری پھیرنے کے مترادف ہے۔ اگر ضمیر کتابی کی طرف پھرتی تو ہر ایک کتابی ایمان لاتا ہوگا۔ اس صورت میں ’’ لیؤمن ‘‘ چاہئے تھا نہ کہ ’’ لیؤمنن ‘‘
۲… اگر ضمیر ’’ موتہ ‘‘ کی کتابی کی طرف پھیری جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے۔ ’’کہ اپنی موت سے پہلے تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ جس قدر یہ معنی بے معنی ہیں اور محالات عقلی ونقلی سے بھرے ہوئے ہیں ان کی تشریح محتاج بیان نہیں واقعات ان معنوں کی تصدیق نہیں کرتے۔ یعنی ہم مشاہدے میں کسی اہل کتاب کو اس حالت میں مرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر حالت نزع میں ایمان لانے کا جواب دیا جائے تو یہ بھی صحیح نہیں اس وقت کے اقرار کو ایمان نہیں کہتے۔ اگر وہ ایمان کہلا سکتا ہے تو ایسا ایمان تو ہر ایک کافر کو میسر ہوتا ہوگا۔ پھر یہود کے ایمان کی تخصیص کیوں کی گئی؟‘‘
۳… موت سے پہلے تو ہر کتابی کا ایمان مشاہدے کے خلاف ہے۔ اگر اس سے مراد عین موت کے وقت کا ایمان لیا جائے تو وہ ’’ قبل ‘‘ کے خلاف ہوگا۔ اس صورت میں ’’ عند موتہ ‘‘ موزوں تھا۔ معلوم ہوتا ہے قادیانیوں کے نزدیک جس طرح کہ خود مرزاغلام احمد قادیانی لغت عرب اور اس کے محاورات بلکہ واحد اور جمع، مذکر اور مؤنث کے فرق سے نابلد محض تھا۔ شاید خدا بھی (نعوذ باﷲ) قبل اور عند کے درمیان فرق نہیں جانتا تھا۔
قرینہ نمبر:۹… آیت کریمہ: ’’ وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں ’’ رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ کے معنی تمام امت نے متفقہ طور پر رفع جسمانی کے کئے ہیں۔ چونکہ ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ کے معنوں میں تمام امت کا اجماع ہے۔ اس واسطے امت قادیانی کو اجماع امت ماننا پڑے گا۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ بالفاظ مرزاآنجہانی پیش کرتا ہوں۔
’’جو شخص کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے تو اس پر خدا اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ یہی میرا اعتقاد ہے اور یہی میرا مقصود ہے اور یہی میری مراد مجھے اپنی قوم سے اصول اجماعی میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
کیا کوئی قادیانی ایسا ہے جو قرآن ،حدیث یا لغت عرب میں سے کسی میں یہ دکھائے کہ ’’ وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ میں قتل اور رفع جس ترکیب کے ماتحت استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی قتل کی نفی کرکے اس کے بعد رفع کا اعلان کیاگیا ہو تو وہاں رفع کے معنی قبض روح بھی ممکن ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ کوئی قادیانی قیامت تک ایسے موقع پر رفع کا معنی قبض روح نہیں دکھا سکے گا۔
قرینہ نمبر:۱۰… یہ تمام امتوں کا مسلمہ اور متفقہ مسئلہ ہے کہ انبیاء کے لئے ہجرت کرنا مسنون ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے۔
’’ہر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے اور مسیح نے بھی اپنی ہجرت کی طرف انجیل میں اشارہ فرمایا ہے اور کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶ حاشیہ)
’’ہجرت انبیاء علیہم السلام میں سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ جب تک نکالے نہ جائیں ہرگز نہیں نکلتے اور بالاتفاق مانا گیا ہے کہ نکالنے یا قتل کرنے کا وقت صرف فتنہ صلیب کا وقت تھا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۱۰۸)
اس اصول سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر دوسرے نبیوں کے طریقے پر ہجرت کرنا ضروری تھا یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنہ صلیب سے پہلے انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت سے مراد بے عزتی سے نکل کر عزت حاصل کرنا ہے۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ یہ ہجرت صلیب پر چڑھنے، بے عزت ہونے اور وجود میں میخیں ٹھوکے جانے، منہ پر تھوکے جانے اور یہودیوں کی طرف سے طمانچے کھانے اور قبر میں تین دن تک مردوں کی طرح پڑا رہنے کے بعد اس طرح ہوئی کہ ان کے زخموں کا علاج کیاگیا۔ وہ اچھے ہوئے حواریوں کو چھوڑ کر چپکے چپکے بھاگے بھاگے افغانستان کی راہ لی۔ درۂ خیبر میں سے ہوتے ہوئے پنجاب، یوپی، نیپال، جموں کے راستہ کشمیر میں جاکر سانس لیا۔ وہاں ۸۷ سال زندہ رہ کر خاموشی میں مرگئے۔
سبحان اﷲ! قادیانی نے اپنے اس بیان کے ثبوت میں کوئی ثبوت کلام اﷲ سے، حدیث سے، انجیل سے یا تاریخ سے پیش نہیں کیا۔ لہٰذا یہ سارا واقعہ ایجاد مرزا سمجھ کر مردود قرار دیا جائے گا۔ ہم سے سنئے حضرت مسیح علیہ السلام کی ہجرت کا حال۔
وقت ہجرت تو وہی تھا جو قادیانی نے بیان کیا۔ یعنی فتنہ صلیب کا وقت۔ ہجرت مسیح میں اﷲتعالیٰ نے کئی باتوں کا خیال رکھا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام میں ملکوتیت کا غلبہ تھا۔ کلمتہ اﷲ تھے۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ یہود ان کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ اس واسطے اﷲتعالیٰ نے ان کی ہجرت کو بھی آسمان کی طرف رفع کو قرار دیا۔ وہاں وہ قرب الٰہی صحبت ملائکہ اور آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور قرب قیامت میں آکر پھر اپنی گمراہ امت اور اپنے منکر یہودیوں کو دائرہ اسلام میں داخل کریں گے۔ یہ ہے ہجرت عیسوی کی حقیقت۔
کوئی قادیانی کبھی یہ نہیں دکھا سکتا کہ نبی بعد ہجرت کے مصائب وآلام برداشت کر کے گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد مرگیا ہو۔ بلکہ نبی بعد ہجرت کے ضرور کامیاب اور عزت حاصل کر کے رہتا ہے۔ قادیانی کی مزعومہ بے سروپا ہجرت مسیحی میں کون سی بات لائق ہجرت انبیاء ہے؟ چونکہ حسب قول مرزاقادیانی حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیب سے پہلے تو ہجرت نہیں کی تھی اور واقعہ صلیب کے بعد قرآن اور حدیث اور تاریخ سے ان کی ارضی زندگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ واقعہ صلیب کے زمانہ ہی میں وہ کہیں ہجرت کر گئے تھے اور وہ جگہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کی رو سے آسمان ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی ’’میں تجھ کو مارنے والا ہوں‘‘ غلط ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۱… یہود نے بہت سے سچے رسولوںکو جھوٹا سمجھ کر قتل کرادیا تھا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔
سورۂ بقرہ:۶۱ وسورۂ آل عمران:۲۱ میں ’’ ویقتلون النبیین ‘‘ پھر سورۂ آل عمران :۱۱۲ میں دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’ ویقتلون الانبیاء بغیر حق ‘‘ یعنی یہود ناحق اﷲتعالیٰ کے نبیوں کو قتل کر دیتے تھے اور یادرہے کہ صلیب دینا بھی قتل ہے۔
جیسا کہ خود مرزاقادیانی (تحفہ گولڑویہ ص۲۰،۲۲، خزائن ج۱۷ ص۱۰۶،۱۰۸) پر تسلیم کرتے ہیں۔ نیز (ایام الصلح ص۱۱۳،۱۱۴، خزائن ج۱۴ ص۳۵۰،۳۵۱) پر صلیبی موت کو قتل ہی تسلیم کیا ہے اور اپنے زعم باطل میں یہودی ان تمام نبیوں کو جھوٹے نبی سمجھ کر قتل کرتے تھے۔ لہٰذا ان سب کو وہ ملعون ہی قرار دیتے تھے۔ ایسا ہی انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سمجھا۔ (معاذ اﷲ)

اب سوال یہ ہے کیا وجہ ہے کہ
صرف حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں رفع کا لفظ استعمال کیا ہے اور کسی نبی کے حق میں استعمال نہیں فرمایا؟
اگر اس کے معنی قبض روح یا رفع روحانی لئے جائیں تو کیوں دوسرے نبیوں کی خاطر یہ لفظ استعمال نہیں کیاگیا،۔ کیا ان کی طہارت بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی؟
معلوم ہوا کہ ’’ رافعک ‘‘ کے معنی رفع جسمانی کے بغیر اس آیت میں ممکن ہی نہیں۔ پس جب یہ ثابت ہوا تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ’’ انی متوفیک ‘‘ کے معنی سوائے قبض جسمانی اور پورا لینے کے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ رفع جسمانی سے پہلے مارنے کی کیا ضرورت تھی؟
بلکہ موت سے بچانے کے لئے رفع جسمانی عمل میں آیا۔
قرینہ نمبر:۱۲… توفی کے معنی قادیانی کے زعم باطل میں سوائے موت دینے کے اور ہوتے ہی نہیں اور مراد اس سے وہ طبعی موت لیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں جہاں توفی سے مراد موت لی گئی ہے۔ وہاں ہر قسم کی موت ہے نہ کہ طبعی موت، کوئی ایک جگہ بھی تمام کلام اﷲ سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ جہاں توفی کے معنی صرف طبعی موت ہی لئے گئے ہوں۔ پھر یہاں کیوں طبعی موت سے مارنا معنی لئے جائیں؟ اگر صرف موت کے معنی لئے جائیں تو اس میں یہود کے دعویٰ کی تائید ہے نہ کہ تردید اور اس میں بجائے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودیوں کی سازشوں کے خلاف تسلی دینے کے یہودیوں کی کامیابی کا یقین دلایا گیا ہے۔ صلیب بھی قتل کی ایک صورت ہے۔ جیسا کہ میں قادیانی کے اپنے الفاظ سے ثابت کر چکا ہوں اور قتل موت کا ایک ذریعہ ہے۔ یعنی مقتول کے لئے بھی ہم کہہ سکتے ہیں۔ ’’ توفاہ اﷲ یا اماتہ اﷲ ‘‘ جیسا کہ کلام اﷲ میں توفی کا لفظ سب قسم کی موتوں کے لئے خود قادیانی تسلیم کرتا ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل کیا جانا ہر ایک کو معلوم ہے۔ یعنی وہ قتل کی موت مرے تھے۔ مگر پھر بھی اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ سلام علیہ یوم ولد ویوم یموت (مریم:۱۵) ‘‘ {یعنی سلام ہے ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ فوت ہوئے۔} ثابت ہوا کہ اس آیت میں توفی کے معنی طبعی موت کرنا تمام کلام اﷲ کے خلاف ہے اور صرف مارنا کے معنی لینا اس میں یہود کی کامیابی کا اعلان ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی تسلی نہیں۔ اس واسطے ثابت ہوا کہ ’’انی متوفیک‘‘ میں توفی کے معنی یقینا جسم وروح دونوں پر قبضہ کر کے یہود نامسعود کے ہاتھوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کو محفوظ کر لینے کا اعلان ہے۔
قرینہ نمبر۱۳…: ’’ وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ اس آیت میں قتل اور رفع کے درمیان تضاد ظاہر کیاگیا ہے۔ قادیانی ’’ رفعہ اﷲ ‘‘ کے معنی کرتے ہیں کہ خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طبعی موت سے مارلیا۔ صلیبی موت سے بچا کر طبعی موت دینا لعنت کے خلاف ہے۔ ادھر یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ انی متوفیک ‘‘ میں بھی یہی اعلان ہے کہ اے عیسیٰ علیہ السلام تو لعنتی موت یعنی صلیبی موت پر نہیں مرے گا۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ
پھر یہاں توفی کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیاگیا۔ قتل اور رفع روحانی میں تو کوئی ضد اور مخالفت نہیں۔ کیا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو یہود نے قتل نہیں کیا تھا؟
اﷲتعالیٰ نے ان کے حق میں ایسا اعلان کہیں نہیں کیا۔ حالانکہ یہود انہیں بھی نعوذ باﷲ ایسا ہی ملعون سمجھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو۔ علاوہ ازیں بل کا لفظ بتارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مزعومہ قتل اور رفع کا وقت ایک ہی ہے۔ مثلاً جب یوں کہا جائے کہ زید نے روٹی نہیں کھائی بلکہ دودھ پیا ہے۔ اس فقرہ میں روٹی کھانے کا انکار اوردودھ پینے کا اقرار ایک ہی وقت سے متعلق ہیں۔ یہ نہیں کہ روٹی تو نہیں کھائی تھی ایک سال پہلے اور دودھ پیا تھا کل، بلکہ روٹی نہ کھانے اور دودھ پینے کے فعل ایک ہی وقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح نفی قتل یعنی قتل نہ کیاجانا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اور ان کا رفع عمل میں آنا ایک ہی وقت میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ مگر قادیانیوں کے نزدیک آپ کا رفع روحانی واقعہ صلیب کے ۸۷سال بعد کشمیر میں ہوا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ پس توفی عیسیٰ علیہ السلام کے معنی موت کرنے ناممکن ہیں۔
قرینہ نمبر:۱۴… یہود کے مکر کا نتیجہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کا سامنے نظر آنا۔ اس کے بالمقابل خدا کے مکر کا ظہور حیات جسمانی کی صورت میں ہونا چاہئے۔ اس ظہور مکر کا وعدہ ’’ انی متوفیک ورافعک ‘‘ کے الفاظ سے پورا کیاگیا۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں توفی موت کے مقابل پر استعمال کیاگیا ہے۔ لہٰذا اس کے معنی موت دینا مضحکہ خیز ٹھہرتا ہے۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اگر ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ میں ہم مرزاقادیانی کی ضد مان کر، واو کو خلاف علوم عربیہ ترتیب وقوعی کے لئے قبول بھی کر لیں تو پھر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس صورت میں بھی یقینا ان کی حیات ہی ثابت ہوتی ہے۔[/ARB]
 
Top