احادیث نبویہ سے مغالطہ دہی کے جوابات ( خسوف وکسوف )
مغالطہ نمبر: ۶… ’’ان لمہدینا آیتین لم تکونا منذخلق السموٰت والارض تنکسف القمر لاول لیلۃ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ (دار قطنی ج۲ ص۶۵ باب صفۃ صلاۃ الخسوف والکسوف)‘‘چاند گرہن۱۳،۱۴،۱۵ سورج گرہن ۲۷،۲۸،۲۹۔ (کتاب التعارض بین العقل والنقل ص۲۴۶ احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۹)
تصحیح… یہ قول رسول اﷲ علیہ السلام کا نہیں ہے اور نہ متصلایا مرسلاًآنحضرت علیہ السلام سے نقل کیاگیا ہے۔ بلکہ محمد بن علی کاکشف ہے اور کشف اس جگہ دو وجہ سے حجۃ نہیں ہوسکتا۔
۱… محمد بن علی غیر معلوم آدمی ہے، اور اگر مرزاقادیانی کی اس بات کو مان لیں کہ محمد بن علی سے مراد امام محمد باقر رحمۃُ اللہ علیہ ہیں، تو پھر بھی یہ روایت ازروئے سند کے غیر معتبر ہے۔ کیونکہ اس میں عمروبن شمر راوی ہے اور ’’میزان الاعتدال‘‘ میں اس کے متعلق یہ لکھا ہوا ہے: ’’لیس بشئی تشتم الصحابۃ، ویروی الموضوعات عن الثقات‘‘ ممکن ہے کہ یہ حدیث بھی اس نے گھڑ کر محمد باقر رحمۃُ اللہ علیہ کی طرف منسوب کردی ہو اور مرزاقادیانی کا (ایام الصلح اردو کے ص۸۰، خزائن ج۱۴ ص۳۱۵) پر تسلیم کرتے ہوئے کہ کسوف خسوف… امام باقر رحمۃُ اللہ علیہ سے مہدی کا نشان قراردیاگیا ہے۔ پھر اس کو رسول اﷲ علیہ السلام کی حدیث اس لئے بتایا کہ سوائے نبی کے کوئی غیب کی خبر نہیں دیتا۔ جیسا کہ ’’حاشیہ تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’دوسری گواہی اس حدیث کے صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت ’’فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضیٰ من رسول‘‘ میں ہے۔ کیونکہ یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے۔ جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ ’’ان لمہدینا‘‘ کی حدیث بلاشبہ رسول اﷲ علیہ السلام کی حدیث ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۲۹، خزائن ج۱۷ ص۱۳۵ حاشیہ)
صحیح نہیں کیونکہ حدیث کی حجت اور اتصال کا انوکھا طریقہ ہونے کے علاوہ لازم آتا ہے کہ باعتبار اس ضابطہ کے جو خبریں بھی غیب سے تعلق رکھیں گی۔ وہ یا احادیث ہوںگی یا اس کی خبر دینے والا خود رسول ہوگا۔ دونوں باتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑے گی۔ اس لئے ہندو، بددین، کنجر، خاکروبہ وغیرہ کی ایسی خبریں بھی نعوذ باﷲ حدیث ہوںگی۔ یا وہ خود رسول ہوںگے۔ لا حول ولا قوۃ!
کیونکہ مرزاقادیانی نے ان سب کو صاحب کشف وشہود بتایا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
’’خواب تو چوڑھوں چماروں اور کنجروں کو بھی آجاتے ہیں اور وہ سچے بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسی چیز پر فخر کرنا لعنت ہے۔ فرض کرو ایک شخص کو چند خوابیں آگئیں اور وہ سچی بھی ہوگئیں۔ اس سے کیا بنتا ہے۔‘‘ (ملفوظات ج۱۰ ص۹۳)
’’ہر ایک فرقہ کے لوگ خوابیں دیکھتے ہیں اور بعض خوابیں سچی بھی نکلتی ہیں۔ بلکہ بعض فاسقوں فاجروں اور مشرکوں کی بھی خوابیں سچی ہوتی ہیں اور الہام بھی ہوتے ہیں۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۳۰۱، خزائن ج۲۳ ص۳۱۶)
پھر حدیث میں بھی تصریح ہے کہ جب سے زمین وآسمان بنا ہے۔ ایسا اجتماع مہدی علیہ السلام کے زمانہ تک کبھی ظہور میں نہیں آیا ہوگا۔ وہ یہ ہے کہ رمضان کی پہلی تاریخ کو چاند گرہن اور اسی رمضان کی پندرھویں تاریخ کو سورج گرہن ہوگا۔
نظام شمسی وقمری میں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے دن چاند گرہن اور پندرھویں تاریخ سورج گرہن ہو۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ ہمیشہ سے چاند گرہن ۱۳،۱۴،۱۵ کو اور سورج گرہن ۲۷،۲۸،۲۹ ماہ کو ہوتا رہا ہے۔ جیسا کہ ’’کتاب التعارض‘‘ سے نقل کیا ہے۔ یعنی چاند اور سورج کو ان کی مقررہ تین تاریخوں میں سے ایک نہ ایک دن ضرور گرہن لگتا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں رمضان کی پہلی اور پندرھویں تاریخ کو خلاف عادت چاند سورج کا گرہن نہیں ہوا۔ بلکہ مقررہ اوقات میں سے کسی ایک وقت میں گرہن ہواتھا۔ اس لئے ۱۳تاریخ کا ’’خسوف‘‘ اور ۲۸ کا ’’کسوف‘‘ کسی صورت میں نشانی نہیں بن سکتا: ورنہ ’’لم یکونا منذ خلق اﷲ السموٰت والارض‘‘ کی قید لغو اور بے سود ہوجائے گی اور دوسرے اس حدیث میں ’’ینکسف القمر من اوّل لیلۃ من رمضان تنکسف الشمس فی النصف‘‘ آیا ہے۔ یہ نہیں آیا کہ ’’ینکسف القمر لاول لیلۃ من لیالی خسوفہا وتنکسف الشمس فی نصف من ایام کسوفہا‘‘ پھر دنیا میں چاند وسورج گرہن کا اجتماع رمضان المبارک میں مرزاقادیانی کے جیتے جی تین مرتبہ ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ہندوستان میں ایسا پہلا اجتماع رمضان کے اندر ۱۲۶۷ھ میں ہوا۔ یعنی ۱۳؍جولائی ۱۸۵۱ء مطابق ۱۳؍رمضان ۱۲۶۷ھ کو چاند گرہن اور ۲۸؍جولائی مطابق ۲۸؍رمضان کو سورج گرہن ہوا۔ اس گرہن کے وقت مرزاقادیانی کی عمر تقریباً ۱۱،۱۲ برس کی تھی۔ پھر دوسرا اجتماع انہی تاریخوں میں ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء کو امریکہ میں ہوا، جس کا مرزاقادیانی نے ’’حقیقت الوحی‘‘ میں اقرار کیا ہے۔ تیسرا اجتماع ۱۳؍رمضان ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۱؍مارچ ۱۸۹۵ء کو چاند گرہن اور ۲۶؍مارچ مطابق ۲۸؍رمضان کو سورج گرہن ہوا۔ جب اس تینتالیس سال کی مدت میں تین دفعہ اجتماع ہوگیا تو جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے نہ معلوم کتنی مرتبہ رمضان میں دونوں گرہنوں کا اجتماع ہوا ہوگا۔ پھر لطف یہ ہے کہ مہدی پہلے بن جاتے ہیں اور نشانی بعد میں ۱۲برس پیچھے ظاہر ہوتی ہے، اورمرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ قمر کا لفظ اوّل رات کے چاند پر اطلاق نہیں کیا جاتا، بالکل غلط ہے، اور قمر عام ہے۔ ہلال اور بدر دونوں چاندوں پر بولا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے کہ: ’’والقمر قدرناہ منازل حتیٰ عادکالعرجون القدیم (یٰسین :۳۹)‘‘
۲… ’’ھوالذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب (یونس :۵)‘‘
’’الہلال غرۃ القمروہی اوّل لیلۃ (تاج العروس)‘‘ یعنی ہلال قمر کی پہلی رات ہے۔ اس کے علاوہ مرزامحمود پسر مرزا نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قمر کا لفظ ہلال پر بولا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’قمر بدر نہیں ہوتا۔ لیکن بدر ضرور قمر ہوتا ہے۔ اسی طرح قمر ہلال نہیں ہوتا۔ مگر ہلال ضرور قمر ہوتا ہے۔‘‘
(درس قرآن تفسیر سورۂ مدثر مندرجہ اخبار الفضل ۷؍جولائی ۱۹۲۸ئ)
افتراء علی اﷲ
’’اسلام نے سورج اور چاند کے گرہن کا ذکر فرمایا ہے۔قرآن پاک نے اسے مختلف پیرایوں میں انقلاب عظیم اور قیامت کی نشانی بھی ٹھہرایا ہے۔‘‘ (الفضل ربوہ ۹؍دسمبر۱۹۷۴ئ)
سورج یا چاند گہن کا قیامت کی نشانی ہونا مرزائیوں کی ’’مسیحی انجیل‘‘ (انجیل البشریٰ مسیح قادیان صاحب کی وحی والہام کا مجموعہ ہے) میں کہیں لکھا ہوتو ہو مگر قرآن پاک میں کہیں اس کا نام ونشان نہیں۔ اسے قرآن کی جانب منسوب کرنا محض کذب اور افتراء علی اﷲ ہے۔
افتراء علی الرسول
قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’رسول اکرم علیہ السلام نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ میری امت کی رہبری ورہنمائی کے لئے اﷲ تعالیٰ مسیح موعود اور مہدی معہود کو مبعوث فرمائے گا۔ اس کی شناخت کے سلسلہ میں آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’ ’ان لمہدینا آیتین لم تکونا منذخلق السموات والارض… …الخ ‘‘ (دارقطنی ص۱۸۸)کہ ہمارے مہدی کے لئے یہ دونشان مقرر ہیں اور یہ نشان ہمارے ہی امام مہدی کے ظہور کے ساتھ مختص ہیں۔ اسی کے لئے بطور دلیل صداقت ظاہر ہوں گے اور یہ صورت ابتدائے دنیا سے امام مہدی کے وقت میں ہی پیدا ہوگی۔ یعنی یہ کہ:
۱… امام مہدی ہونے کا دعویدار موجود ہو۔
۲… رمضان کا مہینہ ہو۔
۳… چاند کی تاریخ ہائے خسوف میں سے اسے پہلی تاریخ کو گرہن لگے۔
۴… سورج کی تاریخ ہائے کسوف میں سے اسے درمیانی تاریخ کو گرہن لگے۔
(حوالہ بالا)
اس عبارت میں قایانیوں نے دووجہ سے افترا علی الرسول کیا ہے:
اوّل… یہ کہ قادیانیوں نے ’’دارقطنی‘‘ کا حوالہ دیا ہے اور اس میں یہ قول امام باقر رحمۃُ اللہ علیہ کی جانب منسوب کیا گیا ہے اور محدثین کی تصریح کے مطابق یہ نسبت بھی محض غلط اور بازاری گپ ہے جو ’’عمروبن شمر‘‘ اور جابر جعفی ایسے کذابوں نے حضرت امام باقر رحمۃُ اللہ علیہ کے سردھری تھی۔ مگر ان بزرگوں کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس وضعی اور من گھڑت افسانے کو آنحضرت علیہ السلام کی ذات مقدس سے منسوب کرڈالیں۔ مگر شاباش اور صد آفرین کہ قادیانیوں نے اس افترائی روایت کو ارشاد نبوی علیہ السلام قرار دے کر کذب، افترا کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کند
دوم… یہ کہ قادیانیوں نے اس موضوع روایت کے اصل الفاظ ذکر نہیں کئے۔ نہ ان کا ترجمہ کیا۔ بلکہ اس جھوٹی روایت کی خودساختہ تشریح اور من مانا مفہوم گھڑ کر اس کو فرمودۂ رسول علیہ السلام بتایا۔ یہ کذب در کذب (ڈبل جھوٹ) بھی مسیح قادیان کی مسیحی امت کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔ قادیانیوں کو خوب علم ہے کہ یہ روایت سراپا کذب ہے۔ مگر ان کی مشکل یہ ہے کہ مہدی علیہ السلام کے حق میں یہ جس قدر صحیح حدیثیں کتب صحاح میں موجود ہیں، ان میں سے ایک بھی تو ان کے خانہ ساز مہدی پر چسپاں نہیں ہوتی۔ اس لئے انہوں نے اپنے مہدی کی تقلید میں من گھڑت روایتوں کو رسول اﷲ علیہ السلام سے منسوب کرنے کا راستہ اختیار کرلیا۔ حالانکہ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس گرداب سے نکلنے کی ہمت کرتے۔ لیکن’’ومن لم یجعل اﷲ لہ نوراً فمالہ من نور‘‘