• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

احادیث نبویہ سے مغالطہ دہی کے جوابات ( مغالطہ نمبر: ۸ حدیث مجدد)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
احادیث نبویہ سے مغالطہ دہی کے جوابات ( مغالطہ نمبر: ۸ حدیث مجدد)
قادیانی:
’’ان اﷲ یبعث لہٰذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لہا دینہا (ابوداؤد ج۲ ص۱۳۲ کتاب الملاحم)‘‘ مرزاقادیانی کا علمی کارنامہ اور خدمت دین اس امر کی شہادت ہے کہ وہ اس کے مجدد تھے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس پیش گوئی کے باوجود اب تک کوئی مجدد پیدا نہیں ہوا۔ یہ وعدۂ الٰہی نہ صرف احادیث میں آیا ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں بھی پایا جاتا ہے۔ ’’وعداﷲ الذین آمنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضی لہم (النور:۵۵)‘‘ یعنی جس طرح وہ پہلے امت موسوی میں خلفاء بھیجتا تھا۔ اسی طرح امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف تحیہ) میں مومنوں کو جو نیک عمل کریںگے۔ خلفاء بنائے گا تاکہ وہ اس دین کو مضبوط کریں۔ جس کو اﷲ نے پسند کیا ہے۔ لہٰذا چونکہ موسوی شریعت کی تمکین کے لئے ۱۳سو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اس لئے سلسلۂ محمدی میں ایک مثل عیسیٰ اتنی ہی مدت کے بعد آنا چاہئے تاکہ مماثلت پوری ہوجائے۔


تصحیح… تجدید دین کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح کسی پتھر کی مٹی ہوئی تحریر پر قلم لگا کر اس کو روشن کردیا جائے۔ اسی طرح دین کے مٹے ہوئے آثار کو از سرنو تازہ کردے اور بدعت کو دور کر کے سنت مستقیم پر لوگوں کو قائم کرے۔ چنانچہ تیسیر شرح جامع صغیر میں ہے کہ: ’’یجددلہا بیّنہا ای یبیّن السنۃ من البدعۃ ویذل اہلہا‘‘ سنت کو بدعات سے پاک کردے، اور اہل بدعۃ کی تردید کرے، اور یہی معنے ملاعلی قاری رحمۃُ اللہ علیہ نے لکھے ہیں: ’’من یجد دلہا دینہا اے یبیّن السنۃ من البدعۃ ویکثر العلم ویعز اہلہ ویقمع البدعۃ ویکسر اہلہا‘‘ یعنی مجدد وہ ہے جو دین کو بدعات سے پاک کرے، سنت کی ترویج اور اشاعت کرے۔ بدعات کو اکھاڑے، دینداروں کی عزت کرے، اور اہل بدعت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے۔
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۱ ص۳۰۲)
پھر جائز ہے کہ جماعت کثیرہ اس کام پرلگی ہوئی ہو، اوران میں ہر فرد اپنے عہد کا مجدد ہو۔ چنانچہ ’’تیسیر شرح جامع صغیر‘‘ میں ہے کہ ’’علی رأس التنزیل سنۃ من الہجرۃ اوغیرہا علی مامر من رجل اواکثر یجدد… الخ‘‘
’’قال ابن کثیر قدیدعی کل قوم فی امامہم انہ المراد والظاہر حملہ علی العلماء من کل طائفۃ (تیسیر) کل فرقۃ حملوہ علی امامہم والاولیٰ الحمل علی العموم ولایخص بالفقہاء فان انتفاعہم باولی الامروالمحدثین والقراء والو عاظ والزہا دایضا کثیر (مجمع البحار ج۱ ص۳۲۸)‘‘
یعنی عام علماء حق جو دین کی صحیح خدمت کرنے والے اور ردبدعت اور ترویج سنت جن کا مشغلہ ہے۔ وہ سب مجدد ہیں۔ خود مرزاقادیانی نے بھی یہی کہا ہے۔
گفت پیغمبرے ستودہ صفات
از خدائے علیم مخفیات
برسر ہر صدی بروں آید
آنکہ ایںکار راہمے شاید
تاشود پاک ملت از بدعات
تابیابند خلق زو برکات
الغرض ذات اولیاء کرام
ہست مخصوص ملت اسلام
(براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۳۱۱، خزائن ج۱ ص۳۶۲)
کیا مرزاقادیانی نے ۱۳سو برس سے جو دین چلا آتا تھا اس کی اشاعت کی؟ اور کیا سنت کی ترویج کرتے ہوئے خلاف شرع کاموں اور بدعات کے دور کرنے میں جان لڑادی؟ اور جس طرح دین کی تجدید ہر صدی کے مجدد کرتے چلے آئے ہیں۔ کیا مرزاقادیانی نے اس طرح دین کی تجدید کی؟ اور جو اسلامی تعلیم مرزاقادیانی نے پیش کی ہے۔ کیا کسی پہلے مجدد نے ایسے گندے خیالات کو اسلام میں جگہ دی تھی؟۔ ہر گز نہیں! بلکہ مرزاقادیانی نے:
۱… اسلام میں وفات مسیح کا عقیدہ جاری کیا۔
۲… نبوت کا دروازہ کھولا۔
۳… ملائکہo کی شرعی حقیقت سے انکار کرتے ہوئے فلسفیوں کے خیال کی تائید کی۔
۴… جبرائیل علیہ السلام اور دوسرے فرشتوں کے معینہ انسانی شکل میں حقیقی طور پر نازل ہونے سے باوجود اسلامی عقیدہ ہونے کے انکار کیا اورفلسفی رنگ نزول مانا۔
۵… معجزوں میں اسلامی تحقیق کو ٹھکرا کر ملحدانہ شبہے کئے اور ملحدین کے خیالات کی تائید کی۔
۶… احیاء موتی، اور خلق طیر، اور اس قسم کے خارق عادت معجزوں کو تسلیم نہ کیا۔ اس کو جادو اور مسمریزم بتایا۔
۷… قرآن میں اپنی رائے کو دخل دیا، اور آنحضرت علیہ السلام کے ارشادات عالیہ کی پرواہ نہ کی، اور فرقۂ باطنیہ کی طرح قرآن کی آیتوں کو ظاہری معنوں سے پھیر کر استعارات کا رنگ دیا، اوراس پرد ہ میں ناواقف اور دین سے بے خبر مسلمانوں کو اسلام کی سیدھی سادھی تعلیم سے ہٹا کر گمراہی کے گڑھے میںدھکیلا، اور اسی طرح قرآن میں تفسیر بالرائے کا دروازہ کھولا۔
۸… نصاریٰ کو خوش کرنے کے لئے جہاد کے حکم کو اسلامی تعلیم سے خارج کیا۔
۹… معراج کو ایک کشفی چیز بتایا اور اس خیال کی حضرت عائشہ صدیقہt کی طرف جھوٹی نسبت کی۔
۱۰… ابن اﷲ، اور عین خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔
۱۱… باوجود استطاعت کے کبھی حج نہ کیا، نہ دعویٰ مسیحیت سے پہلے، اور نہ بعد میں، اورا س گناہ کو سرپر لے کر چلتے بنے۔ اگر مجدد دنیا میں ایسے ہی کاموں کے واسطے آتا ہے۔ تو ایسے مجدد کو دور ہی سے سلام ہے۔
محمد علی نے ۲۵؍دسمبر۱۹۳۰ء کو بعنوان ’’برادران قادیان سے اپیل‘‘ ایک مصالحتی ٹریکٹ شائع کیا تھا۔ جس میں وہ اپنی اسلامی خدمات کا ذکر اس طرح کرتا ہے: ’’آج خدا کے فضل سے اس ترقی کے علاوہ جو ہندوستان میں ہماری جماعت کو ملی ہے۔ دس بیرونی ممالک میں ہمارے ہاتھوں سے سلسلہ احمدیہ کی بنیاد قائم ہوچکی ہے اور وہاں جماعتیں بن چکی ہیں۔ چار ہزار سے زیادہ صفحات حضرت غلام احمد کی کتابوں کے ہم دوبارہ چھپوا کر اس کا بڑا حصہ تقسیم کر چکے ہیں۔ صرف انگریزی میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی اور کئی زبانوں میں بھی تقسیم کیا۔ جب ہم آپ سے جدا ہوئے تھے تو اس وقت ہم کتنے آدمی تھے، اور پھر کس قدر نصرت عطاء فرمائی کہ وہ علوم جو ہم کو حضرت موعود سے ورثہ میں ملے تھے۔ انہیں ہم نے دنیا کے دوردور کے کناروں تک پہنچایا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی کے عقائدوخیالات ہی اس جماعت کی نظر میںاصل اسلام ہے اور اسی کی ہندوستان سے باہر دیگر ممالک میں اور یہاں اشاعت کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اگر (ازالۂ اوہام ص۵۷ اور آئینہ کمالات ص۲۱۹،۲۲۰) سے قطع نظر کرلیا جائے۔ جن سے مرزاقادیانی کا دعویٔ مجددیت ۱۲؍اپریل۱۸۷۵ء میں معلوم ہوتا ہے۔
اور (حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۱۹۱) کو بھی چھوڑ دیں کہ جس میں دعوے کی ابتداء ۱۲۹۰ھ میں بتائی ہے تو پھر مرزاقادیانی نے مجدد کا دعویٰ صاف لفظوں میں (براہین احمدیہ ص۳۱۲، خزائن ج۱ ص۳۶۳) پر مجدد کا ذکر کرتے ہوئے یوں کہا ہے:
وعدہ کج بطالباں ند ہم
کاذبم گراز ونشاں ندہم
من خود از بھرایں نشاں زادم
دیگر از ہر غمے دل آزادم
ایں سعادت چوبود قسمت ما
رفتہ رفتہ رسید نوبت ما
کتاب ۱۲۹۷ھ یعنی صدی سے تین سال پہلے طبع ہوئی۔ جیسا کہ مادۂ تاریخ ’’یا غفور‘‘ سے ظاہر ہے اور حصہ سوم کے شروع میں ۸۷ دعویداروں سے بوجہ تاخیر عذر خواہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حصہ سوم کے نکلنے میں تقریباً دوبرس کی تاخیر ہوگی۔ مگر اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ بلکہ مالک مطبع کی طرف بعض مجبوریاں ایسی پیش آگئیں۔ جن سے طباعت میں دیر ہوگئی۔ اس لئے معلوم ہوا کہ صدی سے تقریباً ۵سال پہلے کا ہے اور اگر ۱۲۹۷ھ کو مان لیں تب بھی تین سال پیشتر ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اﷲ کا ایماندار اور نیک عمل مسلمانوں سے وعدہ ہے کہ وہ ان کو زمین میں حکومت عطاء فرمائیں، اور ان کے دین کو جس کو اس نے پسند کیا ہے۔ مضبوط کرے۔ جس طرح کہ انبیائo سابقین کے سچے پیروں کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ لہٰذا جو معنے مرزائی جماعت نے اس آیت کے کئے ہیں۔ وہ سرتاپا غلط اور الفاظ قرآن کے مخالف ہیں۔ پھر ولایت کے لئے شرط اوّل یہ ہے کہ وہ کوئی مسئلہ قرآن عزیز کی صریح نص کے خلاف نہ کہے اور (یواقیت ج۲ ص۹۲) میں ہے کہ: ’’من زعم ان علما باطنا للشریعۃ غیر ماباید ینا فہو باطنی یقارب الذندیق… فان من شان اہل الطریق ان یکون جمیع حرکاتہم وسکناتہم محررۃ علی الکتاب والسنۃ ولا یعرف ذلک الا بالتبحر فی علم الحدیث والفقہ والتفسیر‘‘ مگر مرزاقادیانی کو ’’لاتاخذہ سنۃ ولا نوم (بقرہ:۲۵۵)‘‘ کے خلاف ۳؍فروری۱۹۰۳ء کو یہ الہام ہوا کہ: ’’اصلی، واصوم، اسہر، وانام، واجعل لک انوار القدوم، واعطیک ماید وم ان اﷲ مع الذین اتقوا‘‘ یعنی میں نماز پڑہوںگا، اور روزہ رکھوںگا، جاگتا ہوں اور سوتا ہوں… الخ!
( البشریٰ ج۲ ص۷۹، تذکرہ ص۴۶۰، طبع سوم، اخبار الحکم ج۷ نمبر۵ ص۱۶، ۷؍فروری۱۹۰۳ئ)
 
Top