ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
حیات و نزول عیسی علیہ السلام کے متعلق صحابہ اکرام کے عقائد
۲۱…
حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کا عقیدہ
’’
قال مغیرۃ ابن شعبہؓ انا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج فان ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ
‘‘ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴، بحوالہ اخبار الفضل ج۱۰ نمبر۴۰ ص۹، مورخہ۲۰؍نومبر ۱۹۲۲ئ) یعنی ہم صحابہ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام تشریف لانے والے ہیں۔ ثبوت اجماع
حضرت مغیرہؓ تمام صحابہ کا عقیدہ بیان کر رہے ہیں اور اس وقت کے موجودہ صحابہ میں سے کسی نے مخالفت بھی نہیں کی۔ پس اجماع ثابت ہے۔
حیات و نزول عیسی علیہ السلام کے متعلق صحابہ اکرام کے عقائد
۲۲…
حضرت سعد بن وقاص سپہ سالار اسلامیؓ کا عقیدہ
ہم رئیس المکاشفین ابن عربیؒکے حوالہ سے ایک طویل واقعہ نقل کر آئے ہیں۔ جس میںحضرت نضلہ انصاری اوران کے ساتھ ایک بڑی جماعت صحابہ نے زریب بن برتملا وصی عیسیٰ کی زیارت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول من السماء کا حال حضرت سعدؓ کا لکھا۔ انہوں نے اسے صحیح سمجھا۔ اگر ان کا عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا نہ ہوتا تو ضرور کہتے۔ ’’ارے نضلہ حیات عیسیٰ کا عقیدہ رکھنا تو شرک ہے۔ کیونکہ وہ مر چکے ہیں۔‘‘ مگر انہوں نے اسے قبول کر کے اور صحیح تسلیم کر کے سارا واقعہ حضرت عمرؓ کو لکھ بھیجا۔ ایسے عجیب واقعات کا چرچا بھی بہت ہوتا ہے۔ مدینہ شریف میں ہزارہا صحابہ نے اس کو سن کر اس کی تصدیق کی۔ کیا قادیانیوں کے لئے حضرت عمرؓ کی تصدیق کافی نہیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ پڑھا تو انکار نہیں کیا۔ بلکہ تصدیق کی۔ اب ہم حضرت عمرؓ کی عظمت بیان کر کے فیصلہ ناظرین کی طبع رسا پر چھوڑتے ہیں۔
قول مرزا…
’’حضرت عمرؓ خلیفہ رسول اﷲﷺ اور رئیس الثقات ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۳۰، خزائن ج۳ ص۳۸۵) قول مرزا…
’’حضرت عمرؓ آنحضرتﷺ کے بروز اور ظل ہیں۔ گویا کہ حضرت عمر بعینہ حضرت محمدﷺ ہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۳۵، خزائن ج۱۴ ص۲۶۵)
ایسی بزرگ ہستی کی تصدیق کے بعد جو شخص صحابہ کے عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کو قبول نہ کرے۔ اس سے پھر خدا سمجھے۔
حیات و نزول عیسی علیہ السلام کے متعلق صحابہ اکرام کے عقائد
۲۳…
حضرت نضلہ انصاریؓ کا عقیدہ
مذکورہ بالا واقعہ جوتفصیل کے ساتھ پہلے درج ہے۔ حضرت نضلہ انصاری اور ایک کثیر جماعت صحابہ کا چشم دید واقعہ ہے اور مشاہدہ ہے۔ انہوں نے حضرت سعد بن وقاصؓ اسلامی سپہ سالار کو لکھا۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کو۔ انہوں نے تصدیق کی۔
حیات و نزول عیسی علیہ السلام کے متعلق صحابہ اکرام کے عقائد
اجماع صحابہ کی آخری ضرب
ہم ۲۳ صحابہ کرامؓ اور ان کی وساطت سے دیگر ہزارہا صحابہؓ کرامؓ کا عقیدہ بیان کر چکے ہیں۔ اس موقعہ پر ہم ناظرین کی توجہ قادیانی کے طرز استدلال کی طرف منعطف کراتے ہیں اور اسلامی استدلال سے اس کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
پہلے ہم مرزاقادیانی کا ایک قول نقل کر آئے ہیں۔ محض ایک روایت سے جو صحابی نے اپنے اجتہاد سے بیان کی۔ مرزاقادیانی نے صحابہ کا اجماع ثابت کر لیا۔ ہم ہزارہا صحابہ نہ سہی۔ تو کم از کم ۲۳صحابہ کی شہادت پیش کر کے اجماع کا دعویٰ کریں تو قادیانی قبول نہ کریں۔ اسی کو کہتے ہیں۔ ’’میٹھا میٹھا ہڑپ اورکڑوا کڑوا تھو۔‘‘
پھر جو شخص امام ابن حزم پر افتراء کر کے محض ان کے نام سے اکابر امت کا اجماع ثابت کر سکتا ہے۔ اس کو کس طرح جرأت ہوسکتی ہے کہ ہزارہا صحابہ کے عقیدۂ حیات عیسیٰ علیہ السلام رکھنے کے بعد بھی دو اور دو پانچ ہی کی رٹ لگاتا جائے اور محض افتراء کے طور پر وفات عیسیٰ علیہ السلام پر اجماع صحابہ کا دعویٰ کر کے کم علم عوام الناس کو دھوکا دیتا رہے۔
حیات عیسیّ کا ثبوت مجددین،مفسرین امت جن کو قادیانی حضرات بھی صحیح مانتے ہیں
قارئین کرام! ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مجددین امت محمدیہ اور مفسرین اسلام کی اہمیت وعظمت مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں پیش کر کے ان بزرگان دین کے ا قوال کا حجت ہونا الزامی طور پر ثابت کر دوں۔
۱… تیرہ صد سال کے مجددین امت کی مکمل فہرست تو (عسل مصفی ج۱ ص۱۶۳،۱۶۵) پر درج ہے۔ یہ کتاب قادیانی جماعت کی مایہ ناز کتاب ہے۔ مرزاقادیانی، مرزامحمود احمد قادیانی اور مولوی محمد علی قادیانی لاہوری اور دیگر اکابر مرزائی اصحاب کی مصدقہ ہے۔ مختصر سی فہرست مجددین ہم نے کتاب ہذا کے ابتدائی صفحات پر درج کر دی ہے۔
۲… ان مجددین امت محمدیہ کی عظمت اور علومرتبت کا حال مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں کتاب ہذا کے ابتداء میں ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
۳… ’’خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر ایک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو دین کو تازہ کرے گا اور اس کی کمزوریوں کو دور کر کے پھر اپنی اصلی طاقت پر اسے لے آئے گا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۴۰، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۴… ’’ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندہ خدا اصلاح کے لئے کھڑا ہوا۔ جاہل لوگ اس کا مقابلہ کرتے رہے۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ ص۱، خزائن ج۲۰ ص۲۰۳)
۵… ’’بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ کیا ہم پر اولیاء کا ماننا فرض ہے۔ سو اﷲتعالیٰ فرماتا ہے بے شک فرض ہے اور ان سے مخالفت کرنے والے فاسق ہیں۔ اگر مخالفت پر ہی مریں۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۴۳، خزائن ج۶ ص۳۳۹)
۶… ’’ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں۔ یا زیادہ کرتے ہیں۔ بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے۔ تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں۔ مجدد لوگ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں۔ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے۔ جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۴۴، خزائن ج۶ ص۳۴۰)
۷… ’’امام الزمان بذریعہ الہامات کے خداتعالیٰ سے علوم وحقائق ومعارف پاتا ہے اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہوسکتے… خداتعالیٰ ان سے نہایت صفائی کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات سوال وجواب کا ایک سلسلہ منعقد ہوکر ایک ہی وقت میں سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب ایسے صفا اور لذیذ اور فصیح الہام کے پیرایہ میں شروع ہوتا ہے کہ صاحب الہام خیال کرتا ہے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے… امام الزمان غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کر لیتا ہے۔ یہ قوت وانکشاف اس لئے ان کے الہام کو دیا جاتا ہے تاکہ ان کے پاک الہام شیطانی الہامات سے مشتبہ نہ ہوں اور تاکہ دوسروں پر حجت ہوسکیں۔‘‘ (ضرورت الامام ص۱۲،۱۳، خزائن ج۱۳ ص۴۸۳)
۸… ’’امام الزمان حامی اسلام کہلاتا ہے اور اس باغ کا خداتعالیٰ کی طرف سے باغبان ٹھہرایا جاتا ہے اوراس پر فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک اعتراض کو دور کرے اور ہر ایک معترض کا منہ بند کرائے اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہے کہ نہ صرف اعتراضات دور کرے بلکہ اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بھی دنیا پر ظاہر کرے۔ ایسے شخص نہایت قابل تعظیم اور کبریت احمر کا حکم رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے وجود سے اسلام کی زندگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسلام کا فخر اور تمام بندوں پر خداتعالیٰ کی حجت ہوتا ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہوتا کہ اس سے جدائی اختیار کرے۔ کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے ارادہ اور اذن سے اسلام کی عزت کا مربی اور تمام مسلمانوں کا ہمدرد اور کمالات دینیہ پر دائرہ کی طرح محیط ہوتا ہے۔ ہر ایک اسلام اور کفر کی کشتی گاہ میں وہی کام آتا ہے اور اسی کے انفاس طیبہ کفر کش ہوتے ہیں۔ وہ بطور کل کے اور باقی سب اس کے جزو ہوتے ہیں۔‘‘
اور چوکل و تو چو جزئی نے کلی
تو ہلاک استی اگر ازوے بگسلی
(ضرورت الامام ص۱۰، خزائن ج۱۳ ص۴۸۱)
نوٹ: مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، مجدد، محدث، سب داخل ہیں۔‘‘ (ضرورت الامام ص۲۴، خزائن ج۱۳ ص۴۹۵)
۹… ’’جو بزرگ خداتعالیٰ سے الہام پاتے ہیں۔ وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کسی قسم کی دلیری نہیں کر سکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۸، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
۱۰… ’’ہمارے نبیﷺ نے امام الزمان کی ضرورت ہر ایک صدی کے لئے قائم کی ہے اور صاف فرمادیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا۔ وہ اندھا آئے گا اور جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘ تلک عشرۃ کاملۃ! (ضرورت الامام ص۴، خزائن ج۱۳ ص۴۷۴)
قارئین عظام! آپ امام الزمان یعنی مجدد وقت کی عظمت واہمیت مرزاقادیانی کے اپنے اقوال سے ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اب ہم آپ کی خدمت میں ہر صدی کے آئمہ (اماموں) کے اقوال درج کرتے ہیں تاکہ قادیانی کے دعویٰ کی حقیقت الم نشرح ہو جائے۔ نوٹ: میں صرف انہیں امامان زمان کے اقوال درج کروں گا۔ جن کو قادیانی سچے امام تسلیم کر چکے ہیں۔ ثبوت ساتھ ساتھ ملاحظہ کرتے جائیں۔
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام احمد بن حنبلؒ مجدد وامام الزمان صدی دوم کا عقیدہ)
۱… ہم نے امام احمدؒ کی روایت سے ایک حدیث بیان کی ہے۔ جس میں انبیاء علیہم السلام کے سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان پر معراج کی رات صاف صاف اعلان کیا کہ وہ قرب قیامت میں نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔
۲… ہم امام احمد بن حنبل کی روایت سے ایک مرفوع حدیث نقل کر آئے ہیں۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی کیفیت مفصل درج ہے۔
۳… امام احمد مجدد صدی دوم کی روایت سے حضرت عائشہؓ صدیقہ کی مرفوع حدیث بیان کر آئے ہیں۔ جس میں حضرت عائشہؓ صدیقہ رسول کریمﷺ کے پہلو میں دفن کئے جانے کی اجازت طلب کرتی ہیں۔ مگر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حجرہ مبارک میں صرف حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کے لئے ہی جگہ ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم زندہ نہیں تو قبر کے لئے جگہ رکھنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟
۴… ایک حدیث کو امام موصوف نے روایت کیا ہے۔ جس میں حضرت عمرؓ نے ابن صیاد کو دجال معہود سمجھ کر آنحضرتﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی۔ مگر آپؐ نے اجازت نہیں دی اور عدم اجازت کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ دجال معہود کا قاتل حضرت عیسیٰ ابن مریم ہے۔ تم اسے قتل نہیں کر سکتے اور اگر تم ابن صیاد کو قتل کردو تو وہ دجال معہود نہیں ہوگا۔
۵… امام احمدؒ کی ایک روایت کردہ حدیث درج ہے جو انہوں نے اپنی مسند میں کئی بار درج کی ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول جسمانی صاف صاف مذکور ہے۔
۶… امام ممدوح نے ایک حدیث روایت کی ہے۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول من السماء کا اقرار خود حضرت رسول کریمﷺ کی زبانی مذکور ہے۔
۷… اسی طرح اس میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی جسمانی زندگی کا اقرار موجود ہے۔
۸… ان کی روایت سے ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جسمانی مروی ہے۔
۹… امام احمدؒ اپنی مسند میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت فرماتے ہیں۔ ’’
قال ابن عباسؓ لقد علمت آیۃ من القرآن… وانہ لعلم للساعۃ قال ہو خروج عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ
‘‘ (مسند احمد ج۱ ص۳۱۸)
’’یعنی فرمایا حضرت ابن عباسؓ نے ’’
انہ لعلم للساعۃ
‘‘ کے معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کے قرب کا نشان ہوگا۔‘‘
۱۰… امام احمدؒ نے اور بھی بیسیوں حدیثوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت کی ہے۔ جسے دیکھنا ہو۔ مسند احمد اٹھا کر ملاحظہ کر لیں۔ ’’تلک عشرۃ کاملۃ‘‘
ناظرین! قادیانی کی بیان کردہ عظمت واہمیت مجدد زمان کو سامنے رکھ کر دوسری صدی کے مجدد اعظم کا فیصلہ کس قدر اہم ہے؟ ظاہر ہے کہ جج کی عظمت شان کے ساتھ اس کے فیصلہ کی عظمت شان بڑھ جاتی ہے۔
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ کا عقیدہ)
عظمت شان
۱… مسلمانان عالم حضرت امام کے مرتبہ کے قائل ہیں۔ کیوں نہ ہوں جب کہ آپ کے شاگردوں کے شاگرد یعنی امام محمد ادریس الشافیؓ اور آپ کے مقلدین میں سے بیسیوں حضرات مجدد اور امام الزمان کے درجہ پر پہنچ گئے تو ان کے امام اور استاد کا درجہ کس قدر بلند ہوگا۔
۲… لیجئے! ہم مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں حضرت امام الائمہؓ کی عظمت شان کا پتہ دیتے ہیں۔ مرزاقادیانی کہتا ہے۔
’’اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم وفراست میں آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور ان کی قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت وعدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف سمجھنے میں ایک خاص دست گاہ تھی اور ان کی فطرت کو کلام الٰہی سے ایک نسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد اور استنباط میں ان کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا۔ جس تک پہنچنے سے سب لوگ قاصر تھے۔ امام موصوف بہت زیرک اور ربانی امام تھے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۳۰،۵۳۱، خزائن ج۳ ص۳۸۵)
دیکھا حضرات! مرزاقادیانی ہمارے دعویٰ کی تصدیق کن پر زور الفاظ میں کر رہے ہیں۔ صاف صاف لکھ رہے ہیں کہ امام موصوف ربانی امام تھے اور باقی سب آئمہ سے افضل تھے۔ باقی آئمہ میں سے امام شافعی اور امام احمد رحمہما اﷲ کو تو قادیانیوں نے امام الزمان اور مجدد تسلیم کر لیا ہے۔
امام اعظمؓ کی عظمت شان کو دل میں جگہ دے کر اب ان کا فیصلہ بھی سنئے۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف فقہ اکبر میں فرماتے ہیں۔
’’
خروج الدجال ویاجوج وماجوج وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السماء وسائر علامات یوم القیامۃ علی ماوردت بہ الاخبار الصحیحۃ حق کائن
‘‘ (الفقہ الاکبر ص۸،۹)
’’دجال اور یاجوج ماجوج کا نکلنا، سورج کا اپنے مغرب سے نکلنا اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور دیگر علامات قیامت جیسا کہ احادیث صحیحہ وآثار صحابہ میں آچکی ہیں۔ وہ سب کی سب حق ہیں اور واقع ہونے والی ہیں۔‘‘
خیال کیجئے کن الفاظ میں حضرت امام الائمہؒ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام مالکؒ کا عقیدہ )
۱… ’’
وفی العتبیۃ قال مالک بینما الناس قیام یستصفون لاقامۃ الصلوٰۃ فتغشاہم غمامۃ فاذا عیسیٰ قد نزل
‘‘ (مکمل اکمال الاکمال شرح مسلم ج۱ ص۴۴۶، باب نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام)
’’امام مالکؓ فرماتے ہیں کہ لوگ نماز کی اقامت کو سن رہے ہوں گے۔ بس ان پر ایک بادل سایہ کر لے گا اور اچانک عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں گے۔‘‘
اس عبارت میں کس صفائی کے ساتھ حضرت امام مالکؓ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول جسمانی ثابت کر رہے ہیں۔ اگر مراد اس نزول سے بروزی نزول لی جائے تو معنی اس کے یہ ہوں گے کہ کوئی شخص مثیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا (موافق دعویٰ قادیانی) ماں کے پیٹ سے اس وقت نازل ہوں گے جب کہ لوگ نماز کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے اور بادل نے سایہ کیا ہوگا۔ حضرات کیا مضحکہ خیز تاویل ہے۔ ایسی واہیات تاویلات سے خدا کی پناہ۔
۲… مشہور ہے کہ: ’’
الولد سرلابیہ
‘‘ یعنی اولاد باپ کے لئے بھید ہوتا ہے۔ نیز یہ ایک مسلم اصول ہے۔ ’’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ امام مالکؓ کا عقیدہ یقینا وہی ہوگا جو علماء مالکیہ رحمہمااﷲ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مرزابشیرالدین محمود اپنے باپ کا قائم مقام ہے۔ اسی طرح شاگرد اپنے استاد ہی سے نقل کرتا ہے۔ ہم یہاں علماء مالکیہ کے اقوال نقل کر کے امام مالکؓ کے عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ قول علامہ زرقانی مالکیؒ
شرح مواہب قسطلانی میں بڑی بسط سے لکھتے ہیں:
’’
فاذا نزل عیسیٰ علیہ السلام فانہ یحکم بشریعۃ نبیناﷺ بالہام اواطلاع علی الروح المحمدی اوبمشاء اﷲ من استنباط لہ من الکتاب والسنۃ… فہو علیہ السلام وان کان خلیفۃ فی الامۃ المحمدیۃ فہو رسول ونبی کریم علی حالہ لا کما یظن بعض الناس انہ یأتی واحد من ہذہ الامۃ بدون نبوۃ ورسالۃ انہما لا یزولان بالموت کما تقدم فکیف بمن ھو حی نعم ہو واحد من ہذہ الامۃ مع بقائہ علیٰ نبوۃ ورسالۃ
‘‘ (شرح مواہب اللدنیہ ج۵ ص۳۴۷) ’’جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ رسول کریمﷺ کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے۔ الہام کی مدد سے یا روح محمدی کی وساطت سے یا اور جس طرح اﷲ چاہے گا مثلاً کتاب اور سنت سے اجتہاد کر کے… پس اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امت محمدی کے خلیفہ ہوں گے۔ مگر وہ اپنی نبوت ورسالت پر بھی قائم رہیں گے اور اس طرح نہیں ہوگا۔ جیسا کہ بعضے کہتے ہیں کہ وہ نبوت اور رسالت سے الگ ہوکر محض ایک امتی کی حیثیت سے ہوں گے۔ کیونکہ نبوت ورسالت تو موت کے بعد نبی ورسول سے الگ نہیں ہوتیں۔ پس اس شخص (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) سے کیسے الگ ہوسکتی ہیں۔ جو ابھی تک زندہ ہے۔ ہاں وہ امتی ہوگا۔ مگر اس کی نبوت ورسالت بھی اس کے ساتھ ہی رہے گی۔‘‘
یہ عبارت امام مالک کے مذہب کو کس بلند اور صریح آواز سے بیان کر رہی ہے۔ بروز وروز کے پرخچے اڑا رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے حیی کا لفظ استعمال کر کے قادیانیوں کی زبان بندی کا اعلان کر رہی ہے۔ مزید حاشیہ کی ضرورت نہیں ہے اور عاقل کے لئے تو اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔ یہاں تو صریح اعلان ہے۔ حیات ونزول عیسیٰ علیہ السلام کا۔ قادیانی دھوکہ اور اس کا علاج
مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۱… ’’امام مالکؓ نے کھلے کھلے طور پر بیان کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۳۶،۱۳۷، خزائن ج۱۴ ص۳۸۱) ۲… ’’امام ابن حزم اور امام مالکؓ بھی موت عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں اور ان کا قائل ہونا گویا امت کے تمام اکابر کا قائل ہونا ہے۔ کیونکہ اس زمانہ کے اکابر علماء سے مخالفت منقول نہیں اور اگر مخالفت کرتے تو البتہ کسی کتاب میں اس کا ذکر ہوتا۔‘‘ (ایام الصلح ص۳۹، خزائن ج۱۴ ص۲۶۹) ۳… یہی مضمون مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (عربی مکتوب ص۱۳۲، کتاب البریہ ص۲۰۳، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱) میں لکھتا ہے۔ اس کا جواب اور اس دھوکہ دہی کا تجزیہ درج ذیل ہے۔
۱… امام مالکؓ کا عقیدہ اوپر مذکور ہوا اور باقاعدہ ان کے مذہب کی کتابوں کے حوالوں سے ہوا۔ مرزاقادیانی کا یہ بیان بغیر حوالہ کے کس طرح منظور کر لیا جائے۔
۲… ہم مرزاقادیانی کی خاطر خود وہ حوالہ نقل کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے حوالہ یقینا اس واسطے نقل نہیں کیا کہ شاید کوئی خدا کا بندہ کتاب کو حوالہ کے مطابق کھول کر پڑھے تو راز طشت ازبام ہوکر الٹا ذلت کا باعث نہ بنے۔ مگر ہم تو اسی راز کے طشت ازبام کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہیں۔ یہ حوالہ مرزاقادیانی نے مجمع البحار سے نقل کیا ہے۔ وہاں امام محمد طاہر مجدد صدی دہم نے یہ قول نقل کیا ہے۔مگر مرزاقادیانی نے اپنی خود غرضی اور دجل وفریب سے اگلی عبارت نقل نہیں کی۔ امام موصوف فرماتے ہیں۔
’’قالت مالک مات لعلہ اراد رفعہ علی السماء… ویجییٔ آخر الزمان لتواتر خبر النزول‘‘ (مجمع البحار ج۱ ص۵۳۴، بلفظ حکم مصنفہ امام محمدطاہر گجراتی مجدد صدی دہم) ’’یعنی مالکؓ کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سو گئے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پراٹھانے کا ارادہ کر لیا۔ (جاگتے ہوئے اوپر کی طرف پرواز کرنا اور کروڑہا میل کا پرواز کرنا طبعاً وحشت کا باعث ہوتا ہے)… اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ کیونکہ ان کے نزول کی خبر احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔‘‘
نوٹ: ’’
مات
‘‘ کے معنی ’’مرگئے‘‘ کرنا اور انہی معنوں میں حصر کرنا قادیانی کی کمال چالاکی ہے۔ اس کے معنی ’’نام‘‘ یعنی سوگیا بھی ہیں۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
۱… ’’
مات
‘‘ کے معنی لغت میں نام کے بھی ہیں۔ دیکھو قاموس۔ (ازالہ اوہام ص۶۴۰، خزائن ج۳ ص۴۴۵) ۲… ’’ہواء ہوس سے مرنا بھی ایک قسم کی موت ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۴۰، خزائن ج۳ ص۴۴۵) ۳… ’’اماتت کے حقیقی معنی صرف مارنا اور موت دینا نہیں بلکہ سلانا اور بیہوش کرنا بھی اس میں داخل ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۴۳، خزائن ج۳ ص۶۲۱) ۴… ’’لغت کی رو سے موت کے معنی نیند اور ہر قسم کی بے ہوشی بھی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۴۲، خزائن ج۳ ص۶۲۰) ۵… ’’لغت میں موت بمعنی نوم اور غشی بھی آتا ہے۔ دیکھو قاموس‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۶۵، خزائن ج۳ ص۴۵۹) اندریں صورت مرزاقادیانی کا کیا حق ہے کہ جہاں کہیں موت یا مات یا امات کا لفظ آجائے تو اس کے معنوں کو صرف مارنا یا مرنا ہی میں حصر کر دے۔ پھر ممکن ہے کہ بعض نے اس نیند ہی کو موت کی حالت سمجھ کر عارضی موت کا اقرار کر لیا ہو۔ ہماری بحث تو صرف یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسدہ النعصری آسمان پر موجود ہیں اور وہی عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے نزول فرما کر امت محمدی میں رسول کریمﷺ کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کریں گے اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام محمد بن ادریس شافعیؒ)
۱… امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام محمدؒ کے شاگرد تھے اور امام محمد، امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔ اگر امام شافعی کو حیات مسیح علیہ السلام میں آئمہ ثلاثہ سے اختلاف ہوتا تو ضرور اس کا اظہار کرتے۔ پس انہوں نے اس بارہ میں اپنی خموشی سے۔ ’’سکوتی اجماع‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
نوٹ: ’’سکوتی اجماع‘‘ کی حقیقت بیان ہوچکی۔ دیکھئے!
۲… نیز امام شافعی کے مذہب کے تمام مجددین مثل امام جلال الدین سیوطیؒ وغیرہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی تصریح کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آگے آتا ہے۔