وحید احمد
رکن ختم نبوت فورم
اسلوب حدیث
آنحضرتﷺ کا اندازِ بیان، لب ولہجہ
حدیث سے متعلق جاننا بھی ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ کا اسلوب بیان کیا تھا، قرآن کریم کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا انداز بیان حکیمانہ اورلہجہ سخن بہت نرم تھا، قرآن کریم میں ہے کہ آپ قرآن کریم سنانے اورصحابہ کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ معلم حکمت بھی ہیں،آپ نے امت میں اخلاق و حکمت کےپھول چنے، اپنے آپ کو معلم اخلاق بتلایا،قرآن کریم نے آپ کے وصف "وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" کی بھی خبردی ہے اورآپ کا لہجہ سخن یہ بتایا :
"فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْكُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ"۔
(آل عمران:۱۵۹)
ترجمہ:سویہ اللہ ہی کی رحمت ہے کہ آپ ان کے سامنے نرم دل رہےاور اگر آپ ہوتے سخت دل تندخو تو یہ آپ کے پاس سے متفرق ہوجاتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، حضورصلی اللہ علییہ وسلم نے فرمایا:
"أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ" ۔
(سنن ابی داؤد،باب فی تنزیل الناس منازلھم،حدیث نمبر:۴۲۰۲)
ترجمہ :لوگوں کے سامنے اس طرح اترو جس درجہ کے وہ ہوں۔
آپ امت کے لیے شفقت مجسم تھے،بات نہایت آسان کرتے، مثالیں دے دے کر بات واضح کرتے اور اسے دلوں میں اتارتے، ایسی بات جس سے مغالطہ پیدا ہو،اس سے منع فرماتے ایک بات پر لمبی تقریر نہ فرماتے، جو بات فرماتے پختہ اورمحکم ہوتی،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب کسی امر الہٰی کا بیان ہوتا تو اللہ رب العزت کے اجلال میں آپ کے چہرہ انور پر کبھی کچھ آثار جلال آجاتے، یہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہوکر خالق کی طرف جھکنے کا ایک پیرایہ تھا۔
حدیث کا سرچشمہ بھی وحی خداوندی ہے،الفاظ خدا کی طرف سے مقرر ہوں تو یہ وحی قرآن ہے،حضورﷺ کے اپنے ہوں تو یہ حدیث ہے،سو حدیث معنا شانِ اعجاز رکھتی ہے اوراسے کسی پہلو سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا، لفظا یہ معجز نہیں؛ تاکہ قرآن کریم کی شان اعجاز واضح رہے،حضورﷺ نے جس طرح قرآن کے مقابل مشرکین سے نظیر مانگی، اپنے الفاظ کو آپ نے کبھی بے مثل نہ ٹھہرایا، نہ کبھی یہ دعویٰ کیا کہ یہ حداعجاز کو چھورہے ہیں،ہاں یہ ضرورہے کہ آپ جوامع الکلم سے نوازے گئے اورانسانی کلام فصاحت اور بلاغت کی جس بلندی تک جاسکتا ہے، آپ اس میں بات کہتے تھے اوراس پہلوسے آپ کی بات بہت جامع ہوتی تھی۔
اسلوب بیان حالات کے آئینہ میں
انسان کی زندگی طرح طرح کے حالات سے گزرتی ہے،کہیں انسان غموں میں گھرا ہوتا اورکہیں خوشی کی لہروں میں گھومتا ہے،یعنی غم کے وقت اس سے خوشی کی بات نہیں نکلتی اورعین خوشی میں اس کے الفاظ کبھی غم آلود نہیں ہوتے،اس کا اسلوب گفتگو اس کے حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے اوراس کے خیالات کا مظہر ہوتا ہے۔
آنحضرتﷺ پر قرآن اترتا تو اس کا اسلوب بیان اپنا ہوتا تھا، یہ کلام معجز تھا،حضورﷺ کے حالات خوشی یا غمی سے گزرتے اورآپ کا لہجہ سخن ان کے مطابق ہوتا، آپ کے الفاظ میں آپ کے حالات کی جھلک ہوتی،پھر کبھی اچانک قرآن کریم کا نزول ہوتا جس کا پیرایہ آپ کے حالات سے بالکل مختلف ہوتا، ہنسنے والوں کو اس کے کلام الہٰی ہونے کا اور یقین ہوتا کہ اگر یہ واقعی آپ کا اپنا بنایا کلام تھا تو آپ کے خوشی یا غمی کے حالات میں کیوں نہیں جھلکتے، انہیں اسلوب حدیث اوراسلوب قرآن میں واضح فرق محسوس ہوتا تھا اورانہیں جب ایک ہی شخصیت سے دو مختلف اسلوب ملتے تو یہ وہ سچائی ہے جو مخالف سے مخالف کو بھی اپنا لوہا منوائے بغیر نہ رہی اوروہ بے اختیار کہنے لگتے، ہوسکتا ہے یہ کسی جن کا کلام ہو، جو آپ کے کلام سے بالکل علیحدہ اسلوب رکھتا ہو، وہ اپنے پہلے موقف پر کہ یہ کلام آپ کا اپنا بنایا ہوا ہے،قائم نہ رہتے، یہ اسی لیے ہوتا کہ آپ کا اپنا اسلوب بیان قرآن پاک کے اسلوب سے مختلف ہوتا تھا۔
آپ اپنی بات کہتے، بعض دفعہ اسے تین تین بار دہراتے،حدیث میں یہ تکرار بظاہر خلاف فصاحت نظر آتا ہے؛ لیکن جب حالات سامع پر نظر کی جائے تو آپ کا یہ کلام بلاغت پر پورا اترتا تھا اورمتقضائے حال کے بالکل مطابق ہوتا تھا۔
آپ غرائب الفاظ سے پرہیز فرماتے،لیکن عرب اسالیب کبھی خود ان کا تقاضا کرتے ہیں؛ سو آنحضرتﷺ بھی بعض اوقات غرائب کا استعمال کرتے تھے،ان میں کچھ پیچیدگی تو ہوتی تھی،لیکن مغالطہ دہی نہیں،حدیث ام زرع کے بعض پیچیدہ الفاظ اسی قبیل سے ہیں اور یہ زبان کی دقیق راہوں سے گزرنا ہے،دقائق پر قابو پانا کسی جہت سے مخل فصاحت نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: "لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ وَلَاالْجَعْظَرِيُّ قَالَ وَالْجَوَّاظُ الْغَلِيظُ الْفَظُّ" (ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۱۶۸،شاملہ، موقع الإسلام) علمائے حدیث کے ہاں غریب الحدیث ایک مستقل موضوع کلام ہے جویہاں زیرِبحث نہیں ہے؛ یہاں حدیث کے ان پیراؤں پرنظر کریں جنہیں آپ نے کمال شان جامعیت اورکبھی عجیب وغریب مثالوں سے واضح فرمایا اوربات دلوں میں اتاری؛ کبھی آپ نے اپنے ادبی ذوق میں قافیہ دار الفاظ بھی کہے اوراسے بھی آپ کے اسلوب بیان میں ایک اہم درجہ حاصل ہے، ذیل میں ہم احادیث سے آپ کے اسلوب بیان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
اسلوب جامعیت
دیانت کے تین محال ہیں:
۱۔ دیانت Honesty اور نفاق hypocracy مقابلے کے الفاظ ہیں:
(۱)زبان دیانت پر ہو تو اس سے سچ نکلتا ہے جھوٹ نہیں (۲)نیت دیانت پر ہو تو انسان آئندہ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا کہ دل میں اس کے خلاف ہو (۳)عمل دیانت پر ہو تو انسان کسی کی امانت اوراس کے حق میں خیانت نہیں کرتا،ظاہر ہے کہ نفاق کے موضوع بھی تین ہی ہونگے، زبان، نیت اورعمل، آنحضرتﷺ نے منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
"آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ"۔
(بخاری،باب علامۃ المنافق،حدیث نمبر:۳۲)
ترجمہ:منافق کے تین نشان ہیں،بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو الٹ کرے (پہلے سے نیت ہو کہ پورا نہ کرونگا) اورجب اس کے پاس کسی کی امانت (یاحق) ہو تو وہ خیانت کرے)۔
جس شخص میں ان میں سے کوئی عیب ہو، اس میں یہ علامت نفاق ہے اورجس میں یہ سب صفات پائی جائیں اس کے پکا منافق ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب الایمان میں لائے ہیں، کتاب الادب میں نہیں۔
اس حدیث نے کس طرح نفاق کے مضامین کا احاطہ کیا ہے،یہ آپ کے سامنے ہے، اس جامعیت سے بات کرنا آپ کو کلام رسالت میں ہی ملے گا؛ یہی اسلوب حدیث ہے۔
۲۔ انسان خواہشات کا پتلا ہے،اپنی چیز دوسروں سے سمیٹ کر رکھتا ہے اپنے خیال، رائے کو پختہ سمجھتا ہے،خواہش نفسانی (ھوی)اپنے کو سمیٹ کر رکھنا(بخل) اور ہربات میں اپنی رائے دینا ہے،یہ انسان کی فطرت تھی،آنحضرتﷺ نے اُن پرروک اورقد غن نہیں لگائی، یہ نہ فرمایاکہ اس میں خواہش نہ ابھرے جذبہ بخل نہ ابھرے اوروہ ہر بات میں اپنی رائے قائم نہ کرے، آپ نے فطری تقاضوں پر زنجیریں نہیں لگائیں، فرمایا:
"أماالمهلكات: فهوى متبع وشح مطاع واعجاب المرء بنفسه"۔
(مشکاۃ المصابیح،باب السلام،الفصل الاول،حدیث نمبر:۵۱۲۲)
ترجمہ: انسان کو ہلاک کرنے والی چیزیں تین ہیں،خواہش جب اس کی پیروی کی جائے،بخل جب انسان اس پر عمل کرے اوررائے جب انسان اسی کو اچھا سمجھے۔
غور کیجئے، نکیر ھویٰ پر نہیں اس کی اتباع پر ہے،بخل پر نہیں،اس کی پیروی پر ہے، رائےپر نہیں اس کے اعجاب پر ہے،اتنا محتاط اورجامع کلام صاحب جوامع الکلم کے سوا اورکس کا ہوسکتا ہے،یہ مہلکات کا بیان تھا،اب منجیات کو بھی دیکھ لیجئے:
انسانی زندگی دوحصوں میں منقسم ہے، پرائیوٹ زندگی اورپبلک زندگی؛ پھر ہر شخص کی زندگی پر دو حالتیں ضرور آتی ہیں،کبھی رضا مندی، کبھی غصہ اورپھر کبھی آسودگی اورپھر کسی وقت محتاجگی،زندگی کا کوئی حصہ ہو،پرائیویٹ یا پبلک، اللہ کا ڈر ہر حال میں ہونا چاہئے اورپھر رضا مندی پر یا غصہ،بات ہمیشہ حق ہونی چاہئے، اورحالت آسودہ ہو یا احتیاج کی میانہ روی ہرحال میں بہتر ہے، حضرت ابوہریرہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فأما المنجيات: فتقوى الله في السر والعلانية والقول بالحق في الرضى والسخط والقصد في الغنى والفقر" ۔
(مشکوٰۃ، حدیث نمبر:۵۱۲۲، الناشر: المكتب الإسلامي،بيروت)
ترجمہ:منجیات (نجات دلانے والی اشیاء) باطن اورظاہر میں اللہ سے ڈرنا ہے،خوشی اورسختی ہر حال میں سچ بات کہنا ہے اوردولت مندی ہو یا محتاجگی ہر حال میں میانہ روی اختیار کرنا ہے۔
۳۔ادبی ملاحت کا اسلوب: آپ نے فرمایا:
"كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ"۔
(بخاری،باب قول اللہ تعالی ونضع المواذین،حدیث نمبر:۷۰۰۸)
اسماء بنت عمیس کہتی ہیں،حضورﷺ نے فرمایا:
"بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ" ۔
(سنن الترمذی،باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض،حدیث نمبر:۲۳۷۲)
ترجمہ: برا بندہ وہ ہے جو اپنے خیال میں لگا رہے اوراپنے کو بڑا سمجھے اوراللہ تعالی برتر و بالا کوبھول جاے، اور برا بندہ وہ ہے جو سختی کرے اور حد سے نکلے اور جبار اعلی کو بھول جائے کہ کوئی اس پر بھی سختی کرنے والا ہے، اور برا بندہ وہ ہے جو اطاعت الہٰی سے غافل ہوا اور لا یعنی میں مشغول ہو اور بھول جائے قبروں کو اور کفن کے پرانا ہونے کو اور برابندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور سرکش ہو اور اپنے اول اورآخر کو بھول جائے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کو دنیا کے ذریعہ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کوشبہات کے ساتھ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جس کو لالچ چلاتا رہے اور برا بندہ وہ ہے جسے خواہشات نے رستے سے بچلا رکھا ہو، اور برا بندہ وہ ہے جس کو اس کی رغبتیں (خواہشات ) ذلیل کراتی رہیں ، اوکما قالﷺ ۔
آپ نے اس حدیث میں برے لوگوں کے نوعنوان ذکر فرمائے، نو سب سے بڑا عدد ہے، ان عنوانوں میں سے ہر ایک ادبی پارہ ہے اور ہدایت ربانی کا ایک اچھلتا فوارہ ہے، حدیث کا یہ ادبی اسلوب معاشرے کے ہر پہلو کو چھورہا ہے، احکام کی احادیث میں بات کی وضاحت آپ کے پیش نظر ہوتی ہے؛ لیکن نصائح کے موقعہ پر بات کی صحت کے علاوہ آپ کی قوت تاثیر بھی اسلوب میں لپٹی ہوتی ہے۔
۴۔مثال دیکر بات کو واضح کرنا اور شرعی امور کے کوئی نقشے سامنے لے آنا، یہ آپ کا نمایاں پیرائی ہدایت تھا، عرب کے امیوں میں اس خاص نہج پر کام کرنے کی بہت ضرورت تھی،آپ نے دقیق فسلفیانہ کلام کے بجائے عام اور فطری پیرایہ بیان اختیار فرمایا آپ کی زیادہ توجہ اس پر ہوتی تھی کہ حق کس طرح حق تعالی کے بندوں میں اتر آئے اوران کے دل و دماغ اسلام کی اس فطری روشنی سے منور ہوجائیں۔