التبشیر برد التحذیر
دیباچہ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِط
اما بعد ایک کرم فرما مجھے ایک خط لکھا تھا جس میں چند سوالات درج تھے۔ ان میں سے بعض کے جوابات ’’الحق المبین‘‘ میں پہلے ہی آ گئے تھے۔ اس لئے ان کا اعادہ بے فائدہ تھا۔ ایک سوال میری ذات سے متعلق تھا اور ایک کا تعلق کسی اصولی بحث سے نہ تھا۔ تاہم دونوں کے جوابات زیر نظر مضمون میں آ گئے ہیں۔ البتہ ایک سوال ایسا تھا کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر مستقل حیثیت سے اس کا جواب لکھنا ضروری معلوم ہوا مگر سائل کا طرزِ تخاطب اس قدر جارحانہ تھا کہ جواب کی حیثیت سے اس پر کچھ لکھنا میری افتاد طبع کے خلاف تھا۔ اس کے باوجود محض اظہارِ حق کی خاطر مجھے یہ مضمون لکھنا پڑا جس میں بحث کے تمام اصولی پہلوؤں کو میں نے اجاگر کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ اسی وجہ سے مضمون اتنا طویل ہو گیا کہ اس نے ایک مستقل رسالہ کی صورت اختیار کر لی۔
اس سوال کا مبنیٰ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی قدس سرہ العزیز پر یہ الزام ہے کہ ممدوح موصوف نے ’’تحذیر الناس‘‘ کے مختلف مقامات سے تین نا مکمل فقروں کو لے کر ایک فقرہ بنا لیا جس سے کفری مضمون پیدا ہو گیا۔ زیر نظر مضمون میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر یہ الزام قطعاً غلط او ربے بنیاد ہے۔
اس مضمون میں ’’تحذیر الناس‘‘ کی چودہ (۱۴) غلطیاں ہدیۂ ناظرین کی گئی ہیں اور ہر غلطی کے ضمن میں دلائل کے ساتھ تحذیر الناس کے مباحث کا رد کیا گیا ہے۔
آیۂ کریمہ ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ میں استدراک کی توجیہات علمائے محققین کی تصریحات کی روشنی میں اس انداز سے کی گئی ہیں کہ تحذیر الناس کے تمام اوہام کا ابطال ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ چودہ سو برس میں آج تک کسی عالم دین نے آیۂ مبارکہ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی ’’آخر النبیین‘‘ کو عوام کا خیال قرار دے کر بنائے خاتمیت تاخر زمانی کے سوا کسی اور چیز پر نہیں رکھی۔ نہ آج تک کسی نے نبوت کی تقسیم بالذات اور بالعرض کی ہے۔
اس رسالہ میں ثابت کیا گیا ہے کہ اثر عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تاویل میں نانوتوی صاحب کا مسلک جمہور امت مسلمہ کے قطعاً خلاف ہے۔ حتیٰ کہ بعض اکابر دیوبند نے بھی نانوتوی صاحب کی اس تاویل سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ دیوبند کے مولانا انور شاہ صاحب کشمیری نے ’’فیض الباری‘‘ میں ’’تحذیر الناس‘‘ کی تاویل کا ردِ بلیغ فرمایا ہے۔ جیسا کہ اس بیان کو پڑھنے سے معلوم ہو گا اور حقیقت یہ ہے کہ میری نیت اس تحریر سے اظہارِ حق کے سوا کچھ نہیں۔ واللّٰہ المستعان وہو حسبی ونعم الوکیل وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ ونورِ عرشہٖ سیدنا ومولانا محمد واٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین۔
سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ
۲۷؍ جولائی ۱۹۶۳ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
حامدا ومصلیا وسلما
وسیع المناقب ……… اصلحکم اللّٰہ تعالٰی
السلام المسنون
آپ کا طویل دل خراش مکتوب بذریہ رجسٹری موصول ہوا جسے پڑھ کر جواب لکھنے کے لئے طبیعت آمادہ نہ ہوئی کیونکہ آپ کا جارحانہ طرزِ تخاطب اتنا تلخ تھا کہ اس کے احساس نے سنجیدگی کا ساتھ نہ دیا۔ پھر یہ کہ آپ کے اکثر سوالات ایسے تھے جن کے جوابات بارہا دئیے جا چکے ہیں۔ میں خود بھی ’’الحق المبین‘‘ میں ان کے جوابات لکھ چکا ہوں۔ بعض سوالات محض جذباتی تھے جن کا تعلق کسی اصولی بحث سے نہ تھا۔ مثلاً علماء بریلی نے قرآن و حدیث اور علوم دینیہ کی کوئی خدمت نہیں کی نہ کوئی تفسیر لکھی نہ حدیث میں کچھ لکھا نہ فنون میں کوئی کتاب لکھی حتیٰ کہ کوئی شرح یا حاشیہ تک لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ تمام کتب متداولہ پر ہمارے علماء کے شروح و حواشی پائے جاتے ہیں۔ وہی کتابیں آپ لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں وغیرہ وغیرہ۔
حقانیت کا معیار
حالانکہ ایک حق پسند انسان اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ حقانیت کا معیار یہ نہیں جو آپ پیش کر رہے ہیں بلکہ ادلہ شرعیہ اور کتاب و سنت کی تصریحات ہی حق کی کسوٹی ہیں۔ اگر ایک بہت بڑے مصنف کے خلاف کوئی شخص استقرارِ حق کا دعویٰ دائر کر دے تو اس کے جواب میں شرعی اور قانونی ثبوت ہی قبول کیا جائے گا۔ یہ نہیں کہ اس مصنف کی تصنیفات اس کے بری الذمہ ہونے کے لئے کافی ہو جائیں۔ حق و باطل کا فیصلہ دلیل سے ہوتا ہے، تصانیف سے نہیں ہوتا۔ پھر یہ کہ علماء بریلی اس حیثیت سے کہ وہ بریلی سے تعلق رکھتے تھے ہرگز ہمارے مقتداء نہیں بلکہ ان کا مقتداء ہونا اس مسلک کی بنا پر ہے جو سوادِ اعظم اہل سنت و جماعت کے نزدیک حق ہے خواہ اس مسلک کے حامی بریلی میں ہوں یا دیوبند میں یا کسی اور جگہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسلک کے حامی علماء کون ہیں اور انہوں نے علمی دنیا میں کیا کارنامے انجام دئیے ہیں تو اس کے متعلق سر دست مجھے کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آئندہ مباحث پڑھ کر آپ خود فیصلہ کر لیں گے کہ علمائے مفسرین و محدثین جن کے علمی کارناموں کا آپ بھی انکار نہیں کر سکتے کس مکتبۂ فکر کے ہم مسلک تھے۔
ایک تلخ حقیقت
اور اگر بریلی کی خصوصیت ہی آپ کے پیشِ نظر ہے تو بفضلہ تعالیٰ میں پورے وثوق کے ساتھ عرض کر سکتا ہوں کہ بریلوی علماء کسی میدان میں کسی کے پیچھے نہیں رہے۔ مگر سوء اتفاق سے جاہ و منصب کے پرستاروں، خود ستائی اور شہرت کے متوالوں کی اجتماعی قوتیں جب نشر و اشاعت کے ذرائع پر حاوی ہو گئیں اور انہوں نے اپنے حریفوں کے خلاف ایک مضبوط اور مستقل محاذ قائم کر لیا تو ایسی صورت میں کیونکر ممکن تھا کہ ان کے کسی مد مقابل کی علمی خدمات منظر عام پر آ سکیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کی تفصیل ایک دفتر طویل کو چاہتی ہے۔
معتزلہ کا اہل سنت پر الزام
کچھ بھی سہی اتنی بات کا انکار تو کوئی انصاف پسند آدمی نہیں کر سکتا کہ اپنے مخالفوں کو نیچا دکھانے کے لئے اس قسم کے اوچھے ہتھیار ہمیشہ استعمال ہوتے چلے آئے ہیں جس زمانہ میں معتزلہ کے علمی کارناموں کا دور دورہ تھا۔ اہل سنت کو اسی طرح موردِ الزام قرار دیا جاتا رہا۔
غیر مقلدین کا امام اعظم پر الزام
غیر مقلدین سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف آج تک یہی کہتے ہیں کہ امام صاحب نے نہ کوئی تفسیر لکھی نہ حدیث ہی کی کوئی خدمت کی۔ صرف سترہ (۱۷) حدیثیں انہیں یاد تھیں۔ انہوں نے ساری عمر قیاس اور رائے کی وادیوں میں گزار دی۔
ظاہریہ، شوافع اور حنابلہ کا علمائے احناف پر الزام
متعصب قسم کے ظاہریہ، شوافع اور حنابلہ وغیرہ علماء احناف کے خلاف یہی کہتے رہے کہ یہ لوگ اصحاب الرائے ہیں۔ نہ انہوں نے کوئی تفسیر لکھی نہ حدیث۔ محض فقہی مسائل میں الجھے رہے بلکہ اس زمانہ میں مرزائی بھی اہل حق کے خلاف اس قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔ یورپ اور امریکہ ممالک میں تبلیغ اسلام کے بلند بانگ مدعی، انگریزی زبان میں بزعم خود تفسیر قرآن لکھنے کے کارناموں کو بیان کر کے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے اور اہل حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا کوئی حق پسند انسان ان باتوں سے متاثر ہو کر حق و باطل کے اصل معیار سے منحرف ہو سکتا ہے؟
تحریک ختم نبوت میں گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟
ایک سوال خاص میری ذات کے متعلق بھی کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک ختم نبوت میں آپ گرفتار کیوں نہیں ہوئے۔ اگرچہ یہ بات اب بے وقت ہے مگر جواباً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ جہاں تک عقیدئہ ختم نبوت کا تعلق ہے میرا یہ مضمون آپ کے سامنے ہے جس کو بغور پڑھنے کے بعد آپ خود فیصلہ کر لیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین ہونا کس کا عقیدہ ہے؟
رہا تحریک کے زمانہ میں گرفتاری کا مسئلہ تو اس کا جواب تو آپ کو اس وقت کے مفتیان حکومت سے پوچھنا چاہئے تھا۔ میں تو صرف اتنی بات جانتا ہوں کہ جب مجلس عمل کے ارکان مولوی خیر محمد صاحب جالندھری اور مولوی محمد شفیع صاحب مہتمم مدرسہ قاسم العلوم وغیرہ حضرات نے مجھے ملتان کی تحریک کا صدر بنایا تو میں نے اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیا جس کی دلیل یہ ہے کہ ہر جگہ یہ تحریک ختم ہونے کے باوجود بھی ملتان میں نہایت پر امن طریقہ سے آخر تک چلتی رہی لیکن چونکہ میں نے امن عامہ کو بھی برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی تھی اس لئے مجھے گرفتار نہیں کیا گیا۔
قابل غور بات
قابل غور بات یہ ہے کہ صدر کی کارگزاری تو ارکان عاملہ کے فیصلہ کے مطابق ہی ہوا کرتی ہے۔ اس صورت میں اگر میرا گرفتار نہ ہونا آپ کے نزدیک موجب اعتراض ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی خیر محمد صاحب اور مولوی محمد شفیع صاحب کے گرفتار نہ ہونے پر آپ نے کیوں اعتراض نہیں کیا؟
صرف یہ نہیں بلکہ مرکزی مجلس عاملہ کا مرکزی نقطہ تو آپ کے مولوی احتشام الحق تھانوی اور مولوی مفتی محمد شفیع دیوبندی تھے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ ان کے گرفتار نہ ہونے میں کیا راز تھا؟
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے دل خراش طرزِ تخاطب اور فرسودہ سوالات کے پیش نظر قلم اٹھانے کو دل نہ چاہتا تھا مگر اس کے باوجود آپ کو جواب دینے کی غرض سے نہیں بلکہ حق کو واضح کرنے کے لئے صرف ایک سوال کا جواب حوالہ قلم کرتا ہوں جو باوجود فرسودہ ہونے کے اہمیت رکھتا ہے اور باب عقائد میں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
لیکن یہ عرض کر دوں کہ میں بہت عدیم الفرصت ہوں اس لئے آپ میری اس تحریر کو پہلی اور آخری تحریر تصور فرمائیں۔ اگر آپ نے انصاف کی نظر سے میرا یہ مضمون پڑھا تو ان شاء اللہ دوبارہ کچھ لکھنے کی آپ کو ضرورت پیش نہ آئے گی۔ البتہ تعصب سے کام لیا گیا تو کسی مرحلہ پر بھی آپ مطمئن نہیں ہو سکتے۔
مختصراً یہ کہ اگر اس تحریر کے بعد آپ مزید وضاحت کے طالب ہوں تو خط لکھنے کی بجائے آپ خود میرے پاس تشریف لے آئیں، ان شاء اللہ تعالیٰ زبانی معروضات سے دریغ نہ کروں گا مگر بار بار تحریر کے لئے میرے پاس وقت نہیں لہٰذا آئندہ اس سلسلہ میں کسی تحریر کی آپ مجھ سے توقع نہ رکھیں۔
میں نے اپنے اس مضمون میں بحث کے اہم ترین پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آپ نے اسے بغور پڑھ لیا تو مجھے امید ہے کہ آپ پر اپنے بقیہ سوالات جن کے جوابات ’’الحق المبین‘‘ میں آ گئے ہیں، کی حقیقت بھی منکشف ہو جائے گی اور آپ سمجھ جائیں گے کہ ان کا اعادہ تضییع اوقات کے سوا کچھ نہیں۔ اظہارِ حق کے لئے یہی ایک مضمون کافی ہے۔
وما توفیقی الا باللّٰہ
سوال کا خلاصہ اور اس کا جواب
آپ کے سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے تحذیر الناس کے تین بے ترتیب اور نامکمل فقروں کو مسلسل کلام میں ایک فقرہ بنا کر کفری مضمون پیدا کر لیا۔ اس کے متعلق میری گزارش ہے کہ
یہ صحیح ہے کہ اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ العزیز نے تحذیر الناس کی تین عبارتوں کو مسلسل کلام میں بیان فرمایا ہے لیکن حضرت موصوف پر یہ الزام سراسر غلط ہے کہ انہوں نے ناتمام فقروں کو مختلف صفحات سے لے کر ایک ہی فقرہ بنا ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ حسام الحرمین میں تحذیر الناس کی تین مستقل عبارتوں کا خلاصہ مسلسل کلام میں بیان کر دیا گیا ہے۔ حسام الحرمین کی عبارت حسب ذیل ہے
قاسم النانوتوی صاحب تحذیر الناس وہو القائل فیہ لو فرض فی زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بل لو حدث بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبی جدید لم یخل ذالک بخاتمیتہ وانما یتخیل العوام انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین بمعنی اٰخر النبیین مع انہٗ لا فضل فیہ اصلاً عند اہل الفہم۔ (حسام الحرمین ص ۱۰۰۰)
تحذیر الناس کی تین مستقل عبارتوں کا خلاصہ
اس عبارت میں تحذیر الناس کی تین مستقل عبارتوں کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ تین عبارتیں حسب ذیل ہیں
۱۔ ’’غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہو گا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔‘‘ ص ۱۳
۲۔ ’’ہاں اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا کہ اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوائے رسول اللہ ﷺ اور کسی کو افراد مقصودہ بالخلق میں سے مماثل نبوی ﷺ نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کے افراد خارجی ہی پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہو گی افراد مقدرہ پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہو جائے گی۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘ (ص ۲۳)
۳۔ ’’بعد حمد و صلوٰۃ کے قبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ وقت نہ ہو۔ سو عوام کے خیال میں تو رسول ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ’’وَلٰـکِن رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ ۱ ھ ص ۳
عبارت ۱ میں لفظ خاتم کو جس معنی میں تجویز کر کے یہ کہا گیا کہ ’’اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا باقی رہتا ہے۔‘‘ وہی معنی مرزائی تجویز کرتے ہیں اور یہ ایسے معنی ہیں جنہیںاس آیۂ کریمہ کی تفسیر میں رسول اللہ ﷺ سے لے کر آج تک کسی نے تجویز نہیں کیا۔
اعتراض غلط ہے
آپ کا یہ اعتراض کہ حسام الحرمین میں تین مختلف صفحات سے بے ترتیب ناتمام فقروں کو لے کر ایک ہی فقرہ بنا ڈالا قطعاً غلط ہے۔ ہم نے تحذیر الناس کے وہ تینوں بے ترتیب فقرے مختلف صفحات سے خط کشیدہ صورت میں نقل کر دئیے ہیں اور ساتھ ہی زائد عبارت بھی نقل کر دی ہے تاکہ ہر فقرہ کا تمام یا ناتمام ہونا اچھی طرح واضح ہو جائے۔ نیز ان کے مضمون کا وہ خلاصہ بھی ذہن نشین ہو جائے جسے حسام الحرمین میں بیان کیا گیا ہے۔
تینوں فقرے مستقل ہیں
ہر منصف مزاج آدمی تحذیر الناس کے منقولہ بالا تینوں حوالوں کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گا کہ یہ تینوں مستقل فقرے ہیں۔ ص ۱۳ والے فقرے کا صاف و صریح مطلب یہ ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی اگر کوئی نبی پیدا ہو جاتا تب بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاتم النبیین ہونے میں کچھ فرق نہ آتا۔ ’’بالفرض‘‘ کے لفظ سے ’’پیدا‘‘ ہونے کے معنی نکلتے ہیں۔ کیونکہ پہلے انبیاء میں کسی نہ کسی نبی کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانۂ اقدس میںہونا تو امر واقعی ہے جیسے عیسیٰ علیہ السلام۔ امر واقعی کو ’’بالفرض‘‘ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اس لئے زمانۂ نبوی میں کہیں کسی اور نبی کا ہونا مطلقاً ’’ہونے‘‘ کے معنی نہیں دیتا بلکہ پیدا ہونے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک مستقل مضمون ہے جسے مستقل فقرہ میں صاحب تحذیر الناس نے بیان کیا ہے۔
حضور ﷺ کے بعد جدید نبی
ص ۲۳ والے دوسرے فقرے کا واضح اور روشن مفہوم یہ ہے کہ حضور ﷺ کے بعد بھی اگر کوئی جدید نبی مبعوث ہو جائے تب بھی حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ یہ بھی ایک مستقل مفہوم ہے جسے مکمل عبارت میں صاحب تحذیر الناس نے بیان کیا ہے۔
ص ۳ والے تیسرے فقرے کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ ’’تاخر زمانی میں فضیلت ماننا اور خاتم النبیین کے یہ معنی سمجھنا کہ حضور ﷺ سب سے پچھلے نبی ہیں، عوام کا خیال ہے، سمجھدار لوگوں کے نزدیک اس میں کچھ فضیلت نہیں۔ لہٰذا یہ معنی غلط ہیں کیونکہ اگر یہ معنی صحیح ہوں تو مقام مدح میں اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین فرمانا غلط ہو جائے گا۔‘‘ یہ مضمون بھی مکمل ہے جسے مستقل عبارت میں لکھا گیا ہے۔
تینوں عبارتوں کا مطلب
ان تینوں عبارتوں اور ان کے واضح مطالب کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد یہ کہنا کہ نامکمل اور بے ترتیب فقروں کو جوڑ کر کفریہ معنی پیدا کئے گئے ہیں، سراسر ظلم اور زیادتی نہیں تو اور کیا ہے؟ تحذیر الناس کی ان تینوں عبارتوں کو ترتیب سے پڑھا جائے یا بے ترتیب، ایک عبارت کو پڑھا جائے یا تینوں کو، ہر ایک کا وہی مطلب ہو گا جو بیان کیا جا چکا ہے اور یہ تینوں عبارتیں اسلام کے تین اصولی عقیدوں کے خلاف ہیں۔
۱۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں کبھی کسی نبی کا پیدا ہونا اسلامی عقیدہ کے منافی ہے مگر تحذیر الناس کی پہلی عبارت میں صاف مذکور ہے کہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی (پیدا) ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ ص ۱۳
۲۔ دوسری عبارت میں واضح طور پر مذکور ہے کہ ’’بلکہ اگر بالفرض بعد زمانۂ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ ص ۲۳
حالانکہ بعد زمانۂ نبوی ﷺ کسی نبی کے پیدا ہونے سے خاتمیت محمدی میں ضرور فرق آئے گا۔ حضور کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا اسلام کے بنیادی عقیدہ کے قطعاً مخالف ہے۔
۳۔ تیسری عبارت میں بھی صاف صاف مذکور ہے کہ ’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ ص ۳
ہر مسلمان قطعاً یقینا جانتا ہے کہ حضور ﷺ کا خاتم النبیین ہونا بلاشبہ اسی معنی میں ہے کہ حضور ﷺ کا زمانہ انبیاء سابقین کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ یہ عقیدہ اور اسی طرح پہلے دونوں عقیدے اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہیں جن کا منکر مسلمان نہیں ہو سکتا۔
اعلیٰ حضرت پر الزام غلط ہے
ہم نے واضح کر دیا کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یہ الزام قطعاً بے بنیاد ہے کہ انہوں نے تحذیر الناس کے تین نامکمل غیر مرتب فقروں کو ملا کر ایک کفریہ مضمون پیدا کر دیا۔ بنظر انصاف دیکھنے والا فوراً کہے گا کہ یہ الزام دروغ بے فروغ ہے بلکہ تحذیر الناس کی ہر عبارت اپنے مضمون میں مکمل اور مستقل ہے اور تینوں میں سے ہر ایک عبارت اسلام کے اصولی اور بنیادی عقیدہ کے خلاف غیر اسلامی نظریہ کی حامل ہے۔
دوسرا اعتراض اور اس کا جواب
حسام الحرمین کی عبارت پر دوسرا اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ تحذیر الناس کی عبارت یہ ہے کہ ’’اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔‘‘
لیکن حسام الحرمین میں اس کا عربی ترجمہ یوں کیا گیا کہ ’’لا فضل فیہ اصلاً عند اہل الفہم‘‘ ’’بالذات‘‘ کا لفظ اڑا دیا گیا جس سے تحذیر الناس کی عبارت میں کفری معنی پیدا ہو گئے۔ مگر اعتراض کرنے والوں نے یہ نہ دیکھا کہ اسی تحذیر الناس میں اسی عبارت کے آخر میں یہ بھی موجود ہے کہ
’’پھر مقام مدح میں ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔‘‘
اس کا صاف اور صریح مطلب یہ ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سب سے آخری نبی ہونا معاذ اللہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کو حضور کی مدح و تعریف میں بیان کیا جائے تو مطلقاً اس وصف مبارک میں فضیلت ہونے کا انکار ہوا۔ ایک عام انسان بھی جانتا ہے کہ مقام مدح میں ذکر کرنے کے لئے کسی وصف کا محض فضیلت ہونا کافی ہے عام اس سے کہ وہ بالذات ہو یا بالعرض۔ دیکھئے نانوتوی صاحب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماسوا تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت کو بالذات نہیں بلکہ بالعرض مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں ان کے وصف نبوت کا ذکر مقام مدح میں جابجا وارد ہوا ہے جس کا انکار نانوتوی صاحب بھی نہیں کر سکتے۔ معلوم ہوا کہ مقام مدح میں کسی وصف کے ذکر کی صحت اس کے بالذات فضیلت ہونے پر موقوف نہیں بلکہ مطلقاً فضیلت ہونا بھی صحت ذکر کے لئے کافی ہے۔ جب نانوتوی صاحب کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہونا محض عوام کا خیال ہے اور وہ اس صورت میں یعنی خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین ہونے کی تقدیر پر لفظ خاتم النبیین کو مقام مدح میں بیان کئے جانے کو صحیح نہیں مانتے تو صاف ظاہر ہو گیا کہ ان کی عبارت میں بالذات کا لفظ بالکل مہمل اور بے معنی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے آخر النبیین ہونے میں ان کے نزدیک کسی قسم کی کوئی فضیلت نہیں، نہ بالذات نہ بالعرض۔ ورنہ وہ آخر النبیین کے معنی میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کے ذکر کو مقام مدح میں بلا تامل صحیح قرار دیتے۔ یہ ادعائے عدم صحت اس حقیقت پر آفتاب سے زیادہ روشن دلیل ہے کہ صاحب تحذیر الناس کے نزدیک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آخری نبی ہونے میں کوئی اصلاً فضیلت نہیں۔ لہٰذا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی اردو عبارات کا جو مطلب عربی میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ انہوں نے تحذیر الناس کی ہر سہ عبارات کے مطالب و معانی کو نقل کیا ہے۔ الفاظ و کلمات کی نقل کا حسام الحرمین میں کسی جگہ دعویٰ نہیں فرمایا۔ اگر کوئی شخص حسام الحرمین میں نقل الفاظ کے دعویٰ کا مدعی ہے تو وہ اس پر دلیل لائے ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ نقل الفاظ و کلمات کا دعویٰ ثابت نہ کر سکے گا اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ نقل بالمعنی کے لئے الفاظ و کلمات کو بعینہا نقل کرنا قطعاً ضروری نہیں۔ لہٰذا حسام الحرمین میں بالذات کا لفظ نہ ہونا ہرگز خیانت پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔
مختصر یہ کہ حسام الحرمین میں تحذیر الناس کی مختلف مقامات سے جو تین عبارتیں نقل کی گئی ہیں وہ ناتمام فقرے نہیں ہیں بلکہ مستقل عبارتیں ہیں پورے پورے جملے ہیں اور ان میں سے ہر ایک جملہ بجائے خود ایک غیر اسلامی عقیدے کو بیان کرتا ہے۔ ان کی ترتیب بدل جانے سے ان کے مطالب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
وصف نبوت بالذات و بالعرض اور ختم ذاتی و زمانی
ساری امت مسلمہ کے نزدیک حضور ﷺ کے حق میں ختم زمانی کے معنی تو ظاہر ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کے بعد تشریف لائے اور حضور ﷺ کا زمانہ سب نبیوں کے بعد ہوا۔ نانوتوی صاحب اس ختم زمانی میں کچھ فضیلت نہیں مانتے۔ حتیٰ کہ مقام مدح میں اس کا ذکر ان کے نزدیک صحیح نہیں۔ جیسا کہ تحذیر الناس کی عبارت ص ۳ سے ہم نقل کر چکے ہیں۔
چھ زمینوں میںچھ خاتم النبیین
اصل بات یہ ہے کہ اثر عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو تسلیم کر لینے کے بعد اس کی توجیہ کرتے ہوئے ہمارے رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بقیہ چھ زمینوں میں جو چھ خاتم النبیین نانوتوی صاحب نے تجویز کئے ظاہر ہے کہ اس کے پیشِ نظر اثر مذکور دو وجہ سے آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِن رَّسُوْل اللّٰہ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کے مخالف قرار پاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس آیت میں ’’وخاتم النبیین‘‘ کے معنی ساری امت کے نزدیک ’’آخر النبیین‘‘ ہیں جس کا مفاد یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت دنیوی کا زمانہ سب نبیوں کی بعثت کے بعد ہے اور یہ امر بدیہی ہے کہ جس طرح قبلیت ’’بعدیت‘‘ کے معارض ہے اسی طرح ’’معیت‘‘ بھی ’’بعدیت‘‘ کے منافی ہے۔ لہٰذا کسی نبی کا حضور ﷺ کے بعد یا حضور ﷺ کی معیت میں مبعوث ہونا دونوں باتیں حضور ﷺ کے ’’خاتم النبیین‘‘ بمعنی ’’آخر النبیین‘‘ ہونے کے خلاف ہیں۔
دوسرے یہ کہ مقام مدح میں وصف مدح کا ممدوح کے ساتھ خاص ہونا ضروری ہے۔ جب اثر مذکور کو صحیح مان کر ہمارے حضور ﷺ کے ساتھ مزید چھ خاتم النبیین تسلیم کر لئے تو ’’خاتم النبیین‘‘ ہونا ہمارے رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا وصف خصوصی نہ رہا۔ لہٰذا آیت کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ باوجود مقام مدح میں وارد ہونے کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدح نہ رہی۔
ایک نیا راستہ: نبوت کی تقسیم
ان دونوں باتوں کا مقتضا یہ ہے کہ اثر مذکور معلل قرار دے کر ساقط الاعتبار کر دیا جاتا یا اس کی ایسی تاویل کی جاتی کہ مذکورہ بالا دونوں خرابیوں کا انسداد ہو جاتا، جیسا کہ محققین محدثین نے کیا ہے لیکن مصنف تحذیر الناس نے ایک نیا راستہ نکالا۔ اثر مذکور کی بجائے آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کو اپنی تاویلاتِ فاسدہ کا تختۂ مشق بنا لیا۔ وصف نبوت کو ’’بالذات‘‘ اور ’’بالعرض‘‘ کی طرف تقسیم کیا۔ دیکھئے وہ کہتے ہیں
’’آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوائے آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت بالعرض ہیں۔‘‘ (تحذیر الناس ص ۴)
اور آیۂ کریمہ ’’وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْن‘‘ کے معنی بیان کرتے ہوئے صاف کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا بایں معنی کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابقین کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں، عوام کا خیال ہے۔ بنائے خاتمیت تأخر زمانی کے بجائے نبوت بالذات کو قرار دیا۔
نبوت بالذات کو بنائے خاتمیت قرار دینا باطل ہے
بالذات اور بالعرض کی تقسیم شرعاً باطل ہے تو وصف نبوت بالذات کو بنائے خاتمیت قرار دینا بداہۃً باطل ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ وصف ذاتی اور اصلی وصف عرض اور غیر اصلی سے افضل ہوتا ہے۔ لہٰذا ذاتی نبوت عرضی نبوت سے افضل قرار پائے گی۔ جیسا کہ خود صاحب تحذیر الناس نے تسلیم کیا ہے۔ اس تقدیر پر نفس نبوت میں تفضیل کا قول کرنا پڑے گا جو قرآن و حدیث اور علمائے امت کے مسلک کے منافی ہے۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے ’’لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘ اس آیۂ کریمہ میں عدم تفریق من حیثیت النبوۃ والرسالۃ ہے۔
روح المعانی پارہ ۳ میں ہے’’لان المعتبر عدم التفریق من حیث الرسالۃ دون سائر الحیثیات‘‘ ۱ ھ اور تفسیر کبیر جلد ۲ ص ۵۶۹ میں ہے’’بل معنی الاٰیۃ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ وَبَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ غَیْرِہٖ فِی النُّبُوَّۃِ‘‘ ۱ ھ
اور ابو السعود بہامش الکبیر جلد ۲ ص ۵۷۳ میں ہے’’لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘ لان المعتبرۃ عدم التفریق من حیث الرسالۃ دون سائر الحیثیات الخاصۃ۔ ۱۱ ھ
نبوت اور رسالت میں ذاتی و عرضی کی تفریق باطل ہے
مفسرین کرام کی عبارات کی روشنی میں آیۂ کریمہ کا مفہوم صاف طور پر واضح ہو گیا کہ نبوت اور رسالت میں ذاتی اور عرضی کی تفریق اور اس بنا پر ادعائے تفضیل قطعاً باطل ہے۔
نفس نبوت میں تفضیل ممنوع ہے
اسی طرح حدیث شریف سے بھی ثابت ہے کہ نفس نبوت میں تفضیل ممنوع ہے۔ دیکھئے حدیث شریف میں وارد ہےلا تخیرونی علی موسٰی۔ الحدیث (مرفوع عن ابی ہریرہ بخاری جلد اول جزو ۹ باب الخصومات ص ۳۲۵)
عینی شرح بخاری میں ہےالخامس انہ نہی عن التفضیل فی نفس النبوۃ لا فی ذوات الانبیاء علیہم السلام وعموم رسالتہم وزیادۃ خصائصہم وقد قال تعالٰی تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ (عینی جلد ۱۲ ص ۲۵۱ طبع جدید)
اس حدیث کے تحت حافظ علامہ ابن حجر عسقلانی تحریر فرماتے ہیںوقیل النہی عن التفضیل انما ہو فی حق النبوۃ نفسہا کقولہ تعالٰی ’’لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘ ولم ینہ عن تفضیل بعض الذوات علی بعض لقولہ تعالٰی ’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘۔ ۱ھ (فتح الباری جلد ۶ ص ۳۴۶ طبع مصر)
علامہ قسطلانی بھی شرح بخاری میں حدیث ’’ما ینبغی لاحد ان یقول خیرا من ابن متی‘‘ کے تحت انہی الفاظ میں رقم طراز ہیں۔ دیکھئے قسطلانی کتاب التفسیر سورئہ صافات جلد سابع ص ۳۱۵’’ای فی نفس النبوۃ اذلا تفاضل فیہا نعم بعض النبیین افضل من بعض کما ہو مقرر ۱ ھ‘‘
نیز اسی صفحہ پر آٹھ سطر کے بعد فرماتے ہیں’’ونفس النبوۃ لا تفاضل فیہا اذ کلہم فیہا علی حد سواء کما مر‘‘
اسی طرح بخاری شریف جلد اول ص ۴۸۴ باب وفات موسیٰ علیہ السلام کے حاشیہ میں حدیث ’’لا تخیرونی علٰی موسٰی‘‘ پر مرقوم ہے’’قولہ لا تخیرونی علٰی موسٰی وقیل النہی عن التفضیل انما ہو فی حق النبوۃ نفسہا لقولہ تعالٰی ’’لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘ لا فی ذوات الانبیاء وعموم رسالتہم لقولہٖ تعالٰی ’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘۔ ۱ ھ
نیز حاشیہ بخاری میں حدیث ’’ولا اقول ان احدا افضل من یونس بن متی‘‘ جلد اول ص ۴۸۵ پر مسطور ہے’’قولہ لا اقول ان احدا افضل ای لا اقول ان احدا خیر من یونس من تلقائ نفسی ولا افضل علیہ احدا من حیث النبوۃ‘‘ ۱ ھ
عبارات منقولہ کی روشنی میں یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہو کر سامنے آ گئی کہ ہمارے آقائے نامدار ﷺ سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک کسی نبی کی نبوت میں دوسرے نبی کی نبوت کے بالمقابل کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ نہ کسی نبی کا وصف نبوت کسی دوسرے نبی کے وصف نبوت سے کم و بیش ہو سکتا ہے ’’لا تفضیل فی النبوۃ‘‘ نفس نبوت میں قطعاً کوئی تفضیل نہیں۔ البتہ ذواتِ انبیائے کرام و رسل عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام میں خصوصیات کی بنا پر ضرور تفضیل ہے۔ قال اللّٰہ تعالٰی’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘ لہٰذا صاحب تحذیر الناس نے اپنے مذہب جدیدہ کی عمارت جس بنیاد پر قائم کی تھی وہ بنیاد ہی ختم ہو گئی۔ اب عمارت کی بقا کیونکر متصور ہو سکتی ہے؟