• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

التبشیر پر اعتراضات کا علمی جائزہ

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
التبشیر پر اعتراضات کاعلمی جائزہ


حضرت محترم جناب دیوان صاحب قبلہ (۲) مولانا پیر محمد چشتی (۳) بابا اکرم صاحب (۴) عبداللطیف قادری صاحب پشاور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مزاج مبارک!
پشاور سے فضل الٰہی نامی ایک صاحب کا مسودہ میرے پاس آیا تھا۔ میں نے اس کا جواب انہیں ارسال کردیا ہے۔ اپنے جواب کی فوٹو اسٹیٹ کاپی فضل الٰہی کے مسودہ کے سرورق کی ایک ’’نقل مطابق اصل‘‘ منسلک کر رہا ہوں۔
جواب کی جو فوٹو اسٹیٹ کاپی فضل الٰہی کو بھیجی ہے اس کے صفحہ نمبر ۲۵ کی آخری سطر میں فاضلِ مضمون سے ایک غلطی ہوگئی تھی جو بعد میں دیکھنے میں آئی ہے چنانچہ اس کی تصحیح کرکے مورخہ ۲۹؍جولائی ۱۹۸۰ء کو انہیں بذریعہ رجسٹری جوابی رسید ارسال کر دی ہے۔ اس کی نقل بھی منسلک ہذا کی جارہی ہے تاکہ وہ یعنی فضل الٰہی احباب میں غلط بیانی نہ کرسکیں۔
آپ بھی ملاحظہ فرمالیں اور تمام احباب کو بھی پڑھادیں تاکہ ہمارے سنی احباب کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔


فقط والسلام
سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ
۷؍اگست ۱۹۸۰ء


تاریخ: ۱۵؍رمضان المبارک ۱۴۰۰ ؁ھ
محترم جناب فضل الٰہی صاحب
سلام مسنون: -
مزاجِ گرامی
آپ کے مضمون کا جواب جو ۲۲؍جولائی کو آپ کے نام بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا ہے اس جواب کی کاپی کے صفحہ ۲۵ پر آخری سطر میں کتابت کی ایک غلطی رہ گئی ہے جس سے آپ کو مطلع کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ سطر حسب ذیل ہے۔
حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کمالات ولایت کے اس بلند مقام پر پہنچے جس سے رسالت کا آغاز ہوتا ہے۔
اس سطر میں جس سے کی بجائے ’’جس کے بعد‘‘ پڑھا جائے۔ اصل مسودہ میں ’’جس کے بعد‘‘ ہی ہے۔ ناقل نے غلطی سے اس کی بجائے ’’جس سے‘‘ لکھ دیا۔ پوری سطر اس طرح پڑھی جائے۔
’’حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کمالات ولایت کے اس بلند مقام پر پہنچے جس کے بعد رسالت کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘
اپنی فوٹو اسٹیٹ کاپی میں یہ تصحیح ضرور فرمالیں۔


شکریہ

سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ
۲۹؍جولائی ۱۹۸۰ء


جواب مکتوب!

جناب محترم!
سلام مسنون: جیسا کہ میں اس سے قبل آپ کو لکھ چکا ہوں کہ دو ؍۲ اپریل ۱۹۸۰ء کو آپ نے میرے نام اپنے مضمون کی رجسٹری کرائی۔ اسی دو ؍۲ اپریل کی شام کو میں نشتر ہسپتال ملتان میں داخل ہوا اور ساڑھے چار گھنٹے میرا اپریشن جاری رہا۔ ابتداء مئی میں شدید تکلیف اور انتہائی نقاہت کی حالت میں گھر آیا اور صاحبِ فراش رہا۔ تاحال صاحبِ فراش ہوں۔ آپ یقین فرمائیں چند آدمیوں کا سہارا لئے بغیر دو قدم چلنا بھی دشوار ہے۔ آپ کی رجسٹری کا مجھے علم نہیں ہوا۔ میرے احباب نے میری علالت کے پیشِ نظر مجھے بتایا تک نہیں کہ اس قسم کی کوئی رجسٹری آئی ہے۔
بالآخر کافی مدت کے بعد پرانی ڈاک میں آپ کی وہ رجسٹری احباب نے مجھے بھیجی۔ میرے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ آپ کا مضمون پڑھ سکتا بستر پر لیٹے ہوئے سرسری طور پر آپ کا مضمون دیکھا اور اس کے اکثر و بیشتر حصے احباب سے پڑھوا کر سنے۔
مجھے انتہائی افسوس ہے کہ آپ کے اس طویل مضمون میں لاعلمی، غلط فہمی، مغالطہ دہی، دروغ گوئی اور تضاد بیانی کے سوا کچھ نہیں، مثال کے طور پر آپ نے میرے نام اپنے مکتوب (جو مضمون کے ساتھ شامل ہے) کے صفحہ ۱ کی سطر نمبر۱۰ پر لکھا۔
’’ناچیز کا اختلاف تو علمی ہے مجادلہ یا مکابرہ نہیں کہ کسی کی ذات کو دشنام دہی کروں۔ ۱ ھ بلفظہ
آگے چل کر اسی صفحہ کی سطر ۱۳، ۱۴ پر لکھتے ہیں۔
’’ناچیز نے دلائل کے ساتھ مجبور کرکے اُس سے احمد رضا خان خیانتی لعنتی، تین بار کہلوایا‘‘ ۱ ھ بلفظہٖ
اگر کوئی شخص نانوتوی کو خیانتی، لعنتی کہے تو کیا یہ آپ کے نزدیک دشنام دہی قرار نہیں پائے گی؟
ایک ہی صفحہ کی دو مختلف سطروں سے آپ کی تضاد بیانی اور دروغگوئی واضح ہوگئی۔ یہ مثال تو بطور ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہے ورنہ آپ کا سارا مضمون اسی قسم کی تضاد بیانی اور لا علمی و دروغ گوئی سے بھرا پڑا ہے۔
آپ کے سب سے پہلے خط کے جواب میں اگر میں جواب دینے کا وعدہ نہ کرتا تو بخدا ہر گز جواب نہ دیتا کیوں کہ اس سارے مضمون میں لغویات کے سوا جواب دینے کے قابل کوئی بات ہی نہیں۔
آخر میں اتنا اور عرض کردوں کہ اگر اس کے بعد آپ نے کچھ لکھنے کی جسارت کی تو مجھ سے اُس کے جواب کی توقع ہر گز نہ رکھنا کیوں کہ میں اپنے دینی و علمی مشاغل میں اس قدر مصروف ہوں کہ اس قسم کے لغویات کی طرف متوجہ ہونے کی مجھے فرصت بھی نہیں۔


فقط
سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ
۱۸؍رمضان المبارک ۱۴۰۰ ؁ھ مطابق ۲۲؍جولائی ۱۹۸۰ ؁ء


اب لیجئے اپنے مضمون کا جواب ملاحظہ فرمایئے!
حامدًا ومصلیاً و مسلمًا

 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
نانوتوی صاحب کا اعتقاد ختمِ زمانی اور اس کی حقیقت:

آپ نے اپنے مضمون کے صفحہ نمبر۱ پر فرمایا نانوتوی صاحب خاتمیت بمعنیٰ آخر النبیین کے بالکل معتقد ومقرہیں چنانچہ اِسی تحذیر الناس کے صفحہ نمبر ۱۱ میں وہ ختم نبوت کے انکار کنندہ کو بایں الفاظ کافر قرار دیتے ہیں کہ سو جس طرح تعداد رکعت کا منکر کافر ہے ایسا ہی ختم نبوت کا منکر بھی کافر ہے۔ ۱ ھ بلفظہ (تحذیر)
جواباً عرض ہے کہ آپ نے تحذیر سے نانوتوی صاحب کی عبارت نقل کرنے میں ایسی بدترین خیانت کی ہے کہ جو کسی مسلمان کے نزدیک قابلِ معافی نہیں۔
تحذیر کی اصل عبارت یہ ہے۔
’’سو یہ عدم تواتر الفاظ باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعدادِ رکعات فرائض و وتر وغیرہ باوجودیکہ الفاظ احادیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں ۔ جیسا اس کا منکر کافر ہے ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔‘‘(بلفظہٖ (تحذیر) صفحہ ۹)


نانوتوی صاحب کے نزدیک رکعات وتر بھی متواتر ہیںنانوتوی صاحب نے اس عبارت میں اعدادِ رکعات فرائض کے تواتر میں وتر کو بھی شامل کرلیا ہے جیسا کہ خط کشیدہ عبارت سے واضح ہے لیکن آپ نے اس حصہ کو شیرِ مادر کی طرح ہضم کرکے اشد ترین خیانتِ مجرمانہ کا ارتکاب کیا ہے ہر مسلمان جانتا ہے کہ اعداد رکعات فرائض کا منکر اسی لئے کافر ہے کہ یہ اعداد تواتر سے ثابت ہیں اور تواترِ شرعی کا منکر کافر ہوتا ہے۔ جب نانوتوی صاحب نے اس تواتر میں وتر کو بھی شامل کرلیا ہے تو نانوتوی صاحب کے نزدیک وتر کی تعدادِ رکعات کا منکر بھی کافر قرار پائے گا اور کافر بھی ایسا جیسا کہ ختم نبوت کا منکر کافر ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان جانتا ہے کہ فرائض کی طرح وتر تواتر میں شامل نہیں۔ آج تک فرضوں کی رکعتوں میں اختلاف نہیں پایا گیا کسی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ مثلاً ظہر کے تین فرض جائز ہیں یا مغرب کے فرضوں کی دو رکعتیں پڑھ لی جائیں تو نماز ہوجائے گی۔ بخلاف وتر کے کہ سلف صالحین سے لیکر آج تک وتر کی رکعتوں میں اختلاف چلا آرہا ہے۔
دیکھئے بخاری شریف میں ہے۔قال القاسم ر أینا انا سامنذا درکنا یوترون بثلاث وان کلا لواسع وارجو ان لا یکون بشئ منہ بأس انتہیٰ بخاری شریف جلد اوّل ص ۱۳۵


تعداد رکعات وتر میں اختلاف امت
یعنی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں۔ ہم نے جب سے لوگوں کو پایا انہیں تین رکعات وتر پڑھتے دیکھا اور گنجائش سب میں ہے۔ مجھے امید ہے کہ کسی شیٔ میں کچھ مضائقہ نہ ہو۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں اس کے تحت فرماتے ہیںقال الکرمانی قولہ (ای قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ) ان کلا ای وان کل واحدۃ من الرکعۃ او الثلاث والخمس والسبع وغیرہا جائز انتہیٰ (فتح الباری ص ۳۸۹، ج ۲)
یعنی علامہ کرمانی نے فرمایا کہ حضرت قاسم بن محمد کے قول ان کلا کے معنیٰ یہ ہیں کہ وتر ایک رکعت، تین رکعت اور پانچ رکعتیں اور سات وغیرہ سب جائز ہیں۔ یہ مسئلہ امت مسلمہ کے نزدیک قطعی اجماعی ہے۔ فرائض کی رکعات کی تعداد تواتر سے ثابت ہے۔ اس لئے اس کا منکر کافر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وتر کی رکعات کی تعداد تواتر سے ثابت نہیں۔ لہٰذا اس کا منکر کافر نہ ہو گا، مگر نانوتوی صاحب نے دونوں کو تواتر میں شامل کر کے تعدادِ رکعات وتر کے منکر کو بھی کافر قرار دے دیا۔ بنا بریں نانوتوی صاحب کے نزدیک معاذ اللہ وہ تمام اسلاف کرام اور ائمۂ دین کافر قرار پائیں گے جنہوں نے تعداد رکعات وتر میں اختلاف کیا اب اگر آپ نانوتوی صاحب کے خلاف اُمتِ مسلمہ کے مسلک کو حق سمجھتے ہیں تو ان پر اجماع قطعی کے انکار کا حکم لگانا پڑے گا اور ساتھ ہی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی عبارت منقولہ بالا کے مفہوم میں صریح تضاد ہے کہ اعداد رکعات فرائض کے منکر کی طرح ختم نبوت کا منکر کافر ہے اور اعداد رکعات وتر کے منکر کی طرح وہ کافر نہیں۔ متضاد عبارت کسی دعویٰ کی دلیل نہیں بن سکتی۔ لہٰذا تحذیر کی اس عبارت سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ منکرِ ختم نبوت ان کے نزدیک کافر ہے۔
۲: اس کے بعد اسی صفحہ پر آپ نے صاحب تحذیر کے معتقد ختم زمانی ہونیکی دلیل مناظرۂ عجیبیہ سے نانوتوی صاحب کی حسب ذیل عبارت نقل کی ہے۔
 

محمدعمرفاروق بٹ

رکن ختم نبوت فورم
یہ کہنا کہ نانوتوی صاحب نے تعداد رکعات وتر کو متواتر کہا درست نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ رکعات وتر متواتر نہیں،
پس عبارت میں وتر کا عطف ”اعداد“پر ہو گا نہ کہ فرائض پر یعنی فرائض کی رکعات کی طرح وتر تواتراً ثابت ہے نہ کہ اس کی رکعات۔اس طرح عبارت بے غبار ہو جاتی ہے،اس کا وتر کا عطف فرائض پر کرنا تکلف بےمحض ہے،کیونکہ سب جانتے ہیں کہ تعداد وتر میں اختلاف رہا،اور اختلاف کرنے والوں کی تکفیر نہیں کی جا سکتی،
لیکن اسی طرح نفس وتر کے وجوب میں اختلاف رہا،مزید برآں تکفیر کا رخ منکر وتر کی طرف بھی نہیں بلکہ منکر ختم نبوت پر ہے،کیونکہ جو حضرات وجوب وتر میں اختلاف کرتے ہیں،ان کے نزديک روایات وتر ہی متواتر نہیں،تو یہ اختلاف اجتہاد پر مبنی ہو گا،
ورنہ امام شافعیؒ بھی نص قرآنی کے باوجود متروک التسمیہ عامدا کی حلت کے قائل ہیں۔اور کوئی ان کی تکفیر کا سوچ بھی نہیں سکتا۔معترضین کو تعصب سے کام نہیں لینا چاہيے۔
اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ أُمُوْرِيْ كُلِّهَا وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَ عَذَابِ الْآخِرَةِ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ. وَ سَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ. وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ
 
Top