التبشیر پر اعتراضات کاعلمی جائزہ
حضرت محترم جناب دیوان صاحب قبلہ (۲) مولانا پیر محمد چشتی (۳) بابا اکرم صاحب (۴) عبداللطیف قادری صاحب پشاور
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
مزاج مبارک!
پشاور سے فضل الٰہی نامی ایک صاحب کا مسودہ میرے پاس آیا تھا۔ میں نے اس کا جواب انہیں ارسال کردیا ہے۔ اپنے جواب کی فوٹو اسٹیٹ کاپی فضل الٰہی کے مسودہ کے سرورق کی ایک ’’نقل مطابق اصل‘‘ منسلک کر رہا ہوں۔
جواب کی جو فوٹو اسٹیٹ کاپی فضل الٰہی کو بھیجی ہے اس کے صفحہ نمبر ۲۵ کی آخری سطر میں فاضلِ مضمون سے ایک غلطی ہوگئی تھی جو بعد میں دیکھنے میں آئی ہے چنانچہ اس کی تصحیح کرکے مورخہ ۲۹؍جولائی ۱۹۸۰ء کو انہیں بذریعہ رجسٹری جوابی رسید ارسال کر دی ہے۔ اس کی نقل بھی منسلک ہذا کی جارہی ہے تاکہ وہ یعنی فضل الٰہی احباب میں غلط بیانی نہ کرسکیں۔
آپ بھی ملاحظہ فرمالیں اور تمام احباب کو بھی پڑھادیں تاکہ ہمارے سنی احباب کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
فقط والسلام
سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ
۷؍اگست ۱۹۸۰ء
تاریخ: ۱۵؍رمضان المبارک ۱۴۰۰ ھ
محترم جناب فضل الٰہی صاحب
سلام مسنون: -
مزاجِ گرامی
آپ کے مضمون کا جواب جو ۲۲؍جولائی کو آپ کے نام بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا ہے اس جواب کی کاپی کے صفحہ ۲۵ پر آخری سطر میں کتابت کی ایک غلطی رہ گئی ہے جس سے آپ کو مطلع کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ سطر حسب ذیل ہے۔
حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کمالات ولایت کے اس بلند مقام پر پہنچے جس سے رسالت کا آغاز ہوتا ہے۔
اس سطر میں جس سے کی بجائے ’’جس کے بعد‘‘ پڑھا جائے۔ اصل مسودہ میں ’’جس کے بعد‘‘ ہی ہے۔ ناقل نے غلطی سے اس کی بجائے ’’جس سے‘‘ لکھ دیا۔ پوری سطر اس طرح پڑھی جائے۔
’’حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کمالات ولایت کے اس بلند مقام پر پہنچے جس کے بعد رسالت کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘
اپنی فوٹو اسٹیٹ کاپی میں یہ تصحیح ضرور فرمالیں۔
شکریہ
سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ
۲۹؍جولائی ۱۹۸۰ء
جواب مکتوب!
جناب محترم!
سلام مسنون: جیسا کہ میں اس سے قبل آپ کو لکھ چکا ہوں کہ دو ؍۲ اپریل ۱۹۸۰ء کو آپ نے میرے نام اپنے مضمون کی رجسٹری کرائی۔ اسی دو ؍۲ اپریل کی شام کو میں نشتر ہسپتال ملتان میں داخل ہوا اور ساڑھے چار گھنٹے میرا اپریشن جاری رہا۔ ابتداء مئی میں شدید تکلیف اور انتہائی نقاہت کی حالت میں گھر آیا اور صاحبِ فراش رہا۔ تاحال صاحبِ فراش ہوں۔ آپ یقین فرمائیں چند آدمیوں کا سہارا لئے بغیر دو قدم چلنا بھی دشوار ہے۔ آپ کی رجسٹری کا مجھے علم نہیں ہوا۔ میرے احباب نے میری علالت کے پیشِ نظر مجھے بتایا تک نہیں کہ اس قسم کی کوئی رجسٹری آئی ہے۔
بالآخر کافی مدت کے بعد پرانی ڈاک میں آپ کی وہ رجسٹری احباب نے مجھے بھیجی۔ میرے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ آپ کا مضمون پڑھ سکتا بستر پر لیٹے ہوئے سرسری طور پر آپ کا مضمون دیکھا اور اس کے اکثر و بیشتر حصے احباب سے پڑھوا کر سنے۔
مجھے انتہائی افسوس ہے کہ آپ کے اس طویل مضمون میں لاعلمی، غلط فہمی، مغالطہ دہی، دروغ گوئی اور تضاد بیانی کے سوا کچھ نہیں، مثال کے طور پر آپ نے میرے نام اپنے مکتوب (جو مضمون کے ساتھ شامل ہے) کے صفحہ ۱ کی سطر نمبر۱۰ پر لکھا۔
’’ناچیز کا اختلاف تو علمی ہے مجادلہ یا مکابرہ نہیں کہ کسی کی ذات کو دشنام دہی کروں۔ ۱ ھ بلفظہ
آگے چل کر اسی صفحہ کی سطر ۱۳، ۱۴ پر لکھتے ہیں۔
’’ناچیز نے دلائل کے ساتھ مجبور کرکے اُس سے احمد رضا خان خیانتی لعنتی، تین بار کہلوایا‘‘ ۱ ھ بلفظہٖ
اگر کوئی شخص نانوتوی کو خیانتی، لعنتی کہے تو کیا یہ آپ کے نزدیک دشنام دہی قرار نہیں پائے گی؟
ایک ہی صفحہ کی دو مختلف سطروں سے آپ کی تضاد بیانی اور دروغگوئی واضح ہوگئی۔ یہ مثال تو بطور ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہے ورنہ آپ کا سارا مضمون اسی قسم کی تضاد بیانی اور لا علمی و دروغ گوئی سے بھرا پڑا ہے۔
آپ کے سب سے پہلے خط کے جواب میں اگر میں جواب دینے کا وعدہ نہ کرتا تو بخدا ہر گز جواب نہ دیتا کیوں کہ اس سارے مضمون میں لغویات کے سوا جواب دینے کے قابل کوئی بات ہی نہیں۔
آخر میں اتنا اور عرض کردوں کہ اگر اس کے بعد آپ نے کچھ لکھنے کی جسارت کی تو مجھ سے اُس کے جواب کی توقع ہر گز نہ رکھنا کیوں کہ میں اپنے دینی و علمی مشاغل میں اس قدر مصروف ہوں کہ اس قسم کے لغویات کی طرف متوجہ ہونے کی مجھے فرصت بھی نہیں۔
فقط
سید احمد سعید کاظمی غفرلہٗ
۱۸؍رمضان المبارک ۱۴۰۰ ھ مطابق ۲۲؍جولائی ۱۹۸۰ ء
اب لیجئے اپنے مضمون کا جواب ملاحظہ فرمایئے!
حامدًا ومصلیاً و مسلمًا