المبین ختم النبیین
(حضور کے خاتم النبیین ہونے کے واضح دلائل)(۱۳۲۶ھ)
(حضور کے خاتم النبیین ہونے کے واضح دلائل)(۱۳۲۶ھ)
مسئلہ۸۸تا۹۴:ازبہار شریف محلہ قلعہ مدرسہ فیض رسول مرسلہ مولوی ابوطاہر نبی بخش صاحب ۱۸ربیع الاول شریف۱۳۲۶ھ
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم____حامد او مصلیا ومسلما
اما بعد بست وپنجم ماہ ربیع الاول ۱۳۲۶ھ شب سہ شنبہ کو مولوی سجاد حسین ومولوی مبارک حسین صاحب مدرسین مدرسہ اسلامیہ بہار کے وطلبا تعلیم دادہ وعظ میں فرماتے تھے کہ خاتم النبیین میں''النبیین''پر الف لام عہد خارجی کا ہے، جب دوسرے روز مسجد چوک میں مولوی ابراہیم صاحب نے (جوبالفعل مدرسہ فیض رسول میں پڑھتے ہیں)اثنائے وعظ میں آیہ کریمہ:ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۱؎۔ محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔(ت)(۱؎ القرآن الکریم ۳۳/ ۴۰)
تلاوت کرکے بیان کیا کہ النبیین میں جو لفظ النبیین مضاف الیہ واقع ہواہے اس لفظ پر الف لام استغراق کا ہے بایں معنی کہ سوائے حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے کوئی نبی نہ آپ کے زمانہ میں ہواور نہ بعد آپ کے قیامت تک کوئی نبی ہو نبوت آپ پر ختم ہوگئی آپ کل نبیوں کے خاتم ہیں، بعد وعظ مولوی ابراہیم صاحب کے راحت حسین طالب علم مدرسہ اسلامیہ بہار کے مجاور در گاہ نے باعانت بعض معاون روپوش بڑے دعوے کے ساتھ مولوی ابراہیم صاحب کی تقریر مذکور کی تردید کی اورصاف لفظوں میں کہا کہ لفظ''النبیین''پر الف لام استغراق کا نہیں ہے بلکہ عہد خارجی کا ہے، چونکہ یہ مسئلہ عقائد ہے لہذا اس کے متعلق چند مسائل نمبروار لکھ کر اہل حق سے گزارش ہے کہ بنظرِ احقاق ہر مسئلہ کا جواب باصواب بحوالہ کتب تحریر فرمادیں تاکہ اہل اسلام گمراہی و بدعقیدگی سے بچیں:
(۱) راحت حسین مذکور کا کہنا کہ''النبیین''پر الف لام عہد خارجی کا ہے استغراق کا نہیں۔ یہ قول صحیح اور موافق مذہب منصور اہل سنت وجماعت کے ہے یا موافق فرقہ ضالہ زید یہ کے؟
(۲) نفی استغراق سے آیہ کریمہ کا کیا مفہوم ہوگا؟
(۳) برتقدیر صحت نفی استغراق اس آیہ سے اہل سنت کا عقیدہ کہ حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کل انبیاء کے خاتم ہیں ، ثابت ہوتا ہے کہ نہیں اور اہل سنت اس آیہ کو مثبت خاتمیت کاملہ سمجھتے ہیں یانہیں؟
(۴) اگر آیت مثبت کلیت نہیں ہوگی تو پھر کس آیت سے کلیت ثابت ہوگی اور جب دوسری آیت مثبت کلیت نہیں تو اہل سنت کے اس عقیدے کا ثبوت دلیل قطعی سے ہرگز نہ ہوگا۔
(۵) جس کا عقیدہ ہو کہ حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کل انبیاء کے خاتم نہیں ہیں، اس کے پیچھے اہلسنت کو نماز پڑھنا جائز ہے یانہیں؟
(۶) اس باطل عقیدے کے لوگوں کی تعظیم و توقیر کرنی اور ان کو سلام کرنا جائز ہوگا یا ممنوع؟
(۷) کیا سنی حنفی کو جائز ہے کہ جو شخص حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو کل انبیاء کا خاتم نہ سمجھے اس سے دینی علوم پڑھیں یا اپنی اولاد کو علم دین پڑھنے کے واسطے ان کے پاس بھیجیں،فقط المستفتی محمد عبداﷲ۔
دلائل خارجیہ(عہ)
عہ۱: چونکہ خاتم النبیین میں الف لام عہد خارجی کے قائل ہیں لہذا خارجیہ لکھے گئے ہیں۱۲
دلیل اول:توضیح ص۱۰۰میں ہے : الاصل ای الراجح ھوالعھد الخارجی لانہ حقیقۃ التعیین وکمال التمییز۱؎۔ اصل یعنی راجح عہد خارجی ہی کا ہے اس لئے عہد خارجی حقیقت تعیین اور کمال تمیز ہے۔
پس جب عہد خارجی سے معنی درست ہوتو استغراق وغیرہ معتبر نہ ہوگا۔(۱؎ التوضیح والتلویح قولہ ومنہا الجمع المعرف باللام نورانی کتب خانہ پشاور ۱/ ۱۳۶)
دلیل دوم:نورالانوارصفحہ۸۱میں ہے : یسقط اعتبار الجمعیۃ اذادخلت علی الجمع۲؎۔ جب لام تعریف جمع پر داخل ہوتو اعتبار جمعیت ساقط ہوجاتا ہے۔(۲؎ نورالانوار بحث التعریف باللام والاضافۃ مکتبہ علمی دہلی ص۸۱)
پس نبیین کہ صیغہ جمع ہے، جب اس پر الف لام تعریف داخل ہوا تو نبیین سے معنی جمعیت ساقط ہوگیا اور جب معنی جمعیت ساقط ہوگیا تو الف لام استغراق کا ماننا صحیح نہیں ہوسکتا۔
دلیل سوم: یہ امر مسلم ہے کہ مضاف مضاف الیہ کا غیر ہوتا ہے جب فردواحد اس کل کے طرف مضاف ہو جس میں وہ داخل ہے تو وہ کل من حیث ہو کل ہونے کے کل، باقی نہ رہے گا بلکہ کلیت اس کی ٹوٹ جائے گی، اور جب کلیت اس کی باقی نہ رہی تو بعضیت ثابت ہوگئی اور یہی معنی ہے عہد کا، اور اگر اس فرد مضاف کہ ہم اس کل کے شمول میں رکھیں تو تقدم الشئے علی نفسہ لازم آتا ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ وجود مضاف الیہ مقدم ہوتا ہے وجود مضاف پر، پس ان دلائل سے ثابت ہواکہ النبیین میں الف لام عہد خارجی کا مانناچاہئے۔
الجواب: حضور پر نور خاتم النبیین سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کا خاتم یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء و مرسلین بلا تاویل و بلا تخصیص ہونا ضروریات دین سے ہے جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنی شک و شبہہ کو بھی راہ دے کافر مرتد ملعون ہے، آیہ کریمہ :ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۳؎ ۔ (لیکن آپ اﷲ کے رسول اور انبیاء کے خاتم ہیں۔ت) وحدیث متواتر لانبی بعدی۴؎ (میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ت) سے تمام امت مرحومہ نے سلفاً وخلفاًیہی معنی سمجھے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بلا تخصیص تمام انبیاء میں آخر نبی ہوئے حضور کے ساتھ یا حضور کے بعد قیام قیامت تک کسی کو نبوت ملنی محال ہے۔(۳؎ القرآن الکریم۳۳/ ۴۰)(۴؎ صحیح البخاری کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۹۱)
فتاوٰی یتیمیۃ الدہرواشباہ والنظائر وفتاوٰی عالمگیریہ وغیرہا میں ہے : اذالم یعرف الرجل ان محمدا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اٰخرالانبیاء فلیس بمسلم لانہ من الضروریات۱؎۔ جو شخص یہ نہ جانے کہ محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انبیاء میں سب سے پچھلے نبی ہیں وہ مسلمان نہیں کہ حضور کا آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے(ت) (۱؎ الاشباہ والنظائر اب الردۃ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱/ ۲۹۶)(فتاوٰی ہندیہ باب احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۶۳)
شفاء شریف امام قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ میں ہے : کذٰلک (یکفر) من ادعی نبوۃ احد مع نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اوبعدہ (الی قولہ) فھٰؤلا کلھم کفار مکذبون للنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اخبرانہ خاتم النبیین ولانبی بعدہ واخبر عن اﷲ تعالٰی انہ خاتم النبیین وانہ ارسل کافۃ للناس واجمعت الامۃ علی حمل ان ھذا الکلام علی ظاھرہ وان مفھومہ المراد بہ دون تاویل ولاتخصیص فلا شک فی کفر ھٰؤلاء الطوائف کلھا قطعا اجماعاوسمعا۲؎۔ یعنی جو ہمارے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں خواہ حضور کے بعد کسی کی نبوت کا ادعا کرے کافر ہے(اس قو ل تک)یہ سب نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ہیں کہ نبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے خبردی کہ خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں اور اﷲ تعالٰی کی جانب سے یہ خبر دی کہ حضور خاتم النبیین ہیں اور ان کی رسالت تمام لوگوں کو عام ہے اور امت نے اجماع کیا ہے کہ یہ آیات واحادیث اپنے ظاہر پر ہیں جو کچھ ان سے مفہوم ہوتا ہے وہی خدا ورسول کی مراد ہے نہ ان میں کوئی تاویل ہے نہ کچھ تخصیص تو جو لوگ اس کا خلاف کریں وہ بحکم اجماع امت وبحکم قرآن وحدیث سب یقیناً کافر ہیں۔(۲؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل فی تحقیق القول فی اکفار المتاؤلین شرکت صحافیہ فی البلد العثمانیہ ترکی۲/۱۷۰،۷۱ )
امام حجۃ الاسلام غزالی قدس سرہ العالی کتاب الاقتصاد میں فرماتے ہیں : ان الامۃ فھمت ھذااللفظ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابداوعدم رسول بعدہ ابدا وانہ لیس فیہ تاویل ولاتخصیص وامن اولہ بتخصیص فکلامہ من انواع الھذیان لایمنع الحکم بتکفیرہ لانہ مکذب لھذاالنص الذی اجمعت الامۃ علی انہ غیر مؤول ولامخصوص۱؎۔ یعنی تمام امت مرحومہ نے لفظ خاتم النبیین سے یہی سمجھا ہے وہ بتاتا ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کبھی کوئی نبی نہ ہوگا حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کوئی رسول نہ ہوگا اور تمام امت نے یہی مانا ہے کہ اس میں اصلاً کوئی تاویل یا تخصیص نہیں تو جو شخص لفظ خاتم النبیین میں النبیین کو اپنے عموم واستغراق پر نہ مانے بلکہ اسے کسی تخصیص کی طرف پھیرے اس کی بات مجنون کی بک یا سرسامی کی بہک ہے اسے کافر کہنے سے کچھ ممانعت نہیں کہ اس نے نص قرآنی کو جھٹلایا جس کے بار ے میں امت کا اجماع ہے کہ اس میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص۔ (۱؎ الاقتصاد فی الاعتقاد امام غزالی المکتبۃ الادبیہ مصر ص۱۱۴)
عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی شرح الفرائد میں فرماتے ہیں : تجویز نبی مع نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اوبعدہ یستلزم تکذیب القراٰن اذ قد نص علٰی انہ خاتم النبیین واٰخر المرسلین وفی السنۃ انا العاقب لانبی بعدی واجمعت الامۃ علی ابقاء ھذاالکلام علی ظاہرہ وھذہ احدی المسائل المشہورۃ التی کفرنا بھا الفلاسفۃ لعنھم اﷲتعالٰی ۲؎۔ ہمارے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ یا بعد کسی کو نبوت ملنی جائز ماننا تکذیب قرآن کو مستلزم ہے کہ قرآن عظیم تصریح فرماچکا ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خاتم النبیین وآخر المرسلین ہیں اور حدیث میں فرمایا: میں پچھلا نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور تمام امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پرہے یعنی عموم واستغراق بلاتا ویل وتخصیص اور یہ ان مشہور مسئلوں سے ہے جن کے سبب ہم اہل اسلام نے کافرکہا فلاسفہ کو، اﷲ تعالٰی ان پر لعنت کرے۔(۲؎ المعتقد المنتقد بحوالہ المطالب الوفیہ شرح الفرائد السنیہ تجویز نبی بعدہ کفر مکتبۃ الحقیقیۃ استنبول ترکی ص۱۱۵)
امام علامہ شہاب الدین فضل اﷲ بن حسین تورپشتی حنفی کتاب المعتمد فی المعتقد میں فرماتے ہیں :بحمدہ اﷲ تعالٰی ایں مسئلہ درمیان اسلامیان روشن ترازاں ست کہ آں را بکشف وبیان حاجت افتد، خدائے تعالٰی خبردار کہ بعد ازوے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نبی دیگر نباشد ومنکرایں مسئلہ کسے تواند بود کہ اصلاً درنبوت اوصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم معتقد نباشد کہ اگر برسالت او معترف بودے وے را در ہرچہ ازاں خبردار صادق دانستے وبہماں جہتہاکہ از طریق تواتر رسالت او بیش مادرست شدہ ایں نیز درست شد کہ وے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم باز پسیں پیغمبران ست در زمان اووتاقیامت بعد ازوے ہیچ نبی نباشد وہرکہ دریں بہ شک ست دراں نیز بہ شک ست ونہ آں کس کہ گوید کہ بعد اووے نبی دیگر بودیا ہست یا خواہد بودآں کس نیز کہ گوید کہ امکان دار د کہ باشد کافر ست اینست شرط در ستی ایمان بخاتم انبیاء محمد مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔۱؎(۱؎ المعتمدفی المعتقد)
بحمداﷲ تعالٰی یہ مسئلہ اہلِ اسلام کے ہاں اتنا واضح اور آشکار ہے کہ اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں، اﷲ تعالٰی نے خود اطلاع فرمادی ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، اگر کوئی شخص اس کا منکر ہے تو وہ تو اصلاً آپ کی نبوت کا معتقد نہیں کیونکہ اگر آپ کی رسالت کو تسلیم کرتا تو جو کچھ آپ نے بتایا ہے اس کو حق جانتا جس طرح آپ کی رسالت و نبوت تواتر سے ثابت ہے اسی طرح یہ بھی تواتر سے ثابت ہے کہ حضور تمام انبیاء کے آخرمیں تشریف لائے ہیں اور اب تا قیامت آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جس کو اس بارے میں شک ہے اسے پہلی بات کے بارے میں شک ہوگا صرف وہی شخص کافر نہیں جو یہ کہے کہ آپ کے بعد نبی تھا یا ہے یا ہوگا بلکہ وہ بھی کافر ہے جوآپ کے بعد کسی نبی کی آمد کو ممکن تصور کرے، خاتم الانبیاء صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم پر ایمان درست ہونے کی شرط ہی یہ ہے(ت)
بالجملہ آیہ کریمہ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۲؎(۲؎ القرآن الکریم۳۳/ ۴۰)
مثل حدیث متواتر لانبی بعدی۳؎ قطعاً عام اور اس میں مراد استغراق تام اور اس میں کسی قسم کی تاویل وتخصیص نہ ہونے پر اجماعِ امت خیرالانام علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام ، یہ ضروریات دین سے ہے اور ضروریاتِ دین میں کوئی تاویل یا اس کے عموم میں کچھ قیل وقال اصلا مسموع نہیں ، جیسے آج کل دجال قادیانی بک رہاہے کہ''خاتم النبیین سے ختم نبوت شریعت جدیدہ مراد ہے اگر حضور کے بعد کوئی نبی اسی شریعت مطہرہ کا مروج وتابع ہوکر آئے کچھ حرج نہیں''اور وہ خبیث اس سے اپنی نبوت جمانا چاہتا ہے،یا ایک اور دجال نے کہا تھا کہ''تقدم (عہ۱) تاخرزمانی میں کچھ فضیلت نہیں خاتم بمعنی آخر لیناخیال جہال ہے بلکہ خاتم النبیین بمعنی نبی بالذات ہے''۔(عہ۱: تحذیر الناس۱۲)(۳؎ صحیح البخاری کتاب الانبیاء باب ماذکر عن نبی اسرائیل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۹۱)
اور اسی مضمون ملعون کو دجال اول نے یوں (عہ۲) ادا کیا کہ''خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہے''، ایک اور مرتدنے لکھا''خاتم النبیین (عہ۳ ) ہونا حضرت رسالت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا بہ نسبت اس سلسلہ محدودہ کے ہے نہ بہ نسبت جمیع سلاسل عوالم کے، پس اور مخلوقات کا اورزمینوں میں نبی ہونا ہرگز منافی خاتم النبیین کے نہیں جموع محلے باللام امثال اس مقام پر مخصوص ہوتی ہیں''
(عہ۲:مواہب الرحمٰن قادیانی۱۲)(عہ۳: مناظرہ احمدیہ۱۲)
چند اور خبیثوں نے لکھا کہ ''الف لام(عہ۱) خاتم النبیین میں جائز ہے کہ عہد کے لئے ہو اور برتقدیر تسلیم استغراق جائز ہے کہ استغراق عرفی کےلئے ہو اور برتقدیر حقیقی جائز ہے کہ مخصوص البعض ہو اور بھی عام کے قطعی ہونے میں بڑا اختلاف ہے کہ اکثر علماء ظنی ہونے کے قائل ہیں''ان شیاطین سے بڑھ کر'اور بعض ابلیسیوں نے لکھا کہ''اہل اسلام(عہ۲)کے بعض فرقے ختم نبوت کے ہی قائل نہیں اور بعض قائل ختم نبوت تشریعی کے ہیں نہ مطلق نبوت کے ''الی غیرذٰلک من الکفریات الملعونۃ والارتدادات المشحونۃ بنجاسات ابلیس وقاذورات التدلیس لعن اﷲ قائلھا وقاتل اﷲ قابلیھا۔ دیگر کفریات ملعونہ اور ارتدادات جو ابلیس کی نجاستوں اور جھوٹ کی پلیدوں کو متضمن ہے اﷲ تعالٰی کی اس کے قائل پر لعنت ہو اور اسے قبول کرنیوالے کو اﷲ تعالٰی بربادفرمائے(ت)
(عہ۱: ناصر المومنین سہسوانی۱۲)(عہ۲: تحریراسمی زندیق پشاور ی۱۲)
یہ سب تاویل رکیک ہیں یا عموم واستغراق''النبیین'' میں تشویش وتشکیک سب کفر صریح وارتداد قبیح ، اﷲ ورسول نے مطلقاً نفی نبوت تازہ فرمائی، شریعت جدیدہ وغیرہا کی کوئی قید کہیں نہ لگائی اور صراحۃً خاتم بمعنی آخر بتایا، متواتر حدیثوں میں اس کا بیان آیا اور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین سے اب تک تمام امت مرحومہ نے اسی معنی ظاہر ومتبادر وعموم استغراق حقیقی تام پر اجماع کیا اور اسی بنا پر سلفاً وخلفاً ائمہ مذاہب نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد ہر مدعی نبوت کو کافر کہا، کتبِ احادیث و تفسیر عقائد و فقہ ان کے بیانوں سے گونج رہی ہیں، فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اپنی کتاب''جزاء اﷲ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ۱۳۱۷ھ" میں اس مطلب ایمانی پر صحاح وسنن و مسانید ومعاجیم و جوامع سے ایک سو بیس حدیثیں اور تکفیر منکر کہ ارشادات ائمہ وعلمائے قدیم وحدیث و کتب عقائد واصول فقہ وحدیث سے تیس نصوص ذکر کئے وﷲ الحمد۔ تو یہاں عموم واستغراق کے انکار خواہ کسی تاویل و تبدیل کا اظہار نہیں کرسکتا مگر کھلا کافر ،خد اکا دشمن قرآن کا منکر ،مردودوملعون،خائب وخاسر، والعیاذ باﷲالعزیز القادر، ایسی تشکیکیں تو وہ اشقیاء،رب العٰلمین میں بھی کرسکتے ہیں کہ جائز ہے لام عہد کے لئے ہو یا استغراق عرفی کے لئے یا عام مخصوص منہ البعض یا عالمین سے مراد عالمین زمانہ کقولہ تعالٰی وانی فضلتکم علی العالمین۱؎ (جیسے کہ باری تعالی کا فرمان ہے: اور میں نے تم کو جہاں والوں پر فضیلت دی۔ت) اور سب کچھ سہی پھر عام قطعی تو نہیں خدا کا پروردگار جمیع عالم ہونا یقینی کہاں مگر الحمد ﷲ مسلمان نہ ان ملعون ناپاک وساوس کو رب العالمین میں سنیں نہ ان خبیث گندے وساوس کو خاتم النبیین میں ، الالعنۃ اﷲ علی الظالمین۲؎، ان الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والاٰخرۃ اعدلھم عذابا مھینا۳؎۔ ارے ظالموں پرخدا کی لعنت، بیشک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے(ت)(۱؎القرآن الکریم۲/ ۴۸) (۱؎القرآن الکریم ۱۱/ ۱۸)(۲؎القرآن الکریم ۳۳/ ۵۷)
یہ طائفہ خائفہ خارجیہ جن سے سوال ہے اگر معلوم ہو کہ حضور پر نور خاتم الانبیاء ومرسلین صلی اﷲتعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین کے خاتم ہونے کوصرف بعض انبیاء سے مخصوص کرتا ہے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے روز بعثت سے جب یا اب کبھی کسی زمانے میں کوئی نبوت، اگرچہ ایک ہی،اگرچہ غیر تشریعی، اگرچہ کسی اور طبقہ زمین، یا کنج آسمان میں اگرچہ کسی اور نوع انسانی میں واقع مانتا، یاباوصف اعتقاد عدم وقوع محض بطوراحتمال شرعی وامکان وقوعی جائز جانتا یہ بھی سہی مگر جائز ومحتمل ماننے والوں کو مسلمان کہتا یا طوائف ملعونہ مذکورہ، خواہ ان کے کبراء یا نظراء کی تکفیر سے باز رہتا ہے، تو ان سب صورتوں میں یہ طائفہ خائفہ خود بھی قطعا یقینا اجماعاً ضرورۃً مثل طوائف مذکورہ قادیانیہ وقاسمیہ وامیریہ ونذیریہ وامثالہم لعنہم اﷲ تعالٰی کافر ومرتد ملعون ابد ہے۔
قاتلھم اﷲ انی یؤفکون۳؎ (اﷲ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ت) کہ ضروریات دین کا جس طرح انکار کفر ہے یونہی ان میں شک و شبہہ اور احتمال خلاف، ماننا بھی کفر ہے یونہی ان کے منکر یا ان میں شاک کو مسلمان کہنا اسے کافر نہ جاننا بھی کفر ہے۔ (۳؎القرآن الکریم ۹/ ۳۰)
بحرالکلام امام نسفی وغیرہ میں ہے : من قال بعد نبینا یکفر لانہ انکر النص وکذٰلک لوشک فیہ۴؎۔ جو شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی کے بعد نبی آسکتا ہے وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نص قطعی کا انکار کیا، اسی طرح وہ شخص جس نے اس کے بارے میں شک کیا۔(ت)(۴؎ بحرالکلام)
درمختار وبزازیہ ومجمع الانہروغیرہا کتب کثیرہ میں ہے :من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۱؎۔ جس نے اس کے کفر وعذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہے(ت)(۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر فصل فی احکام الجزیہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۷۷)
ان لعنتی اقوال ، نجس ترازابوال، کے ردمیں اواخرصدی گزشتہ میں بکثرت رسائل ومسائل علمائے عرب وعجم طبع ہوچکے اور وہ ناپاک فتنے غار مذلت میں گر کر قعرِ جہنم کو پہنچے والحمدﷲرب العالمین۔ اس طائفہ جدیدہ کو اگر طوائف طریدہ کی حمایت سوجھے گی تو اﷲ واحد قہار کا لشکر جرار، اسے بھی اس کی سزائے کردار پہنچانے کو موجود ہے قال تعالٰی الم نھلک الاولینoثم نُتْبِعُھُمُ الاٰخرینoکذالک نفعل بالمجرمینoویل یومئذ للمکذبین۲؎o۔ اﷲ تعالٰی نے فرمایا:کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہ فرمایا، پھر پچھلوں کو ان کے پیچھے پہنچائیں گے، مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں، اس دن کو جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔(ت)(۲؎ القرآن الکریم ۷۷/ ۱۶تا۱۹)
اور اگر اس طائفہ جدیدہ کی نسبت وہ تجویز واحتمال نبوت یا عدم تکفیر منکران ختم نبوت، معلوم نہ بھی ہو، نہ اس کا خلاف ثابت ہوتو اس کا آیہ کریمہ میں افادہ استغراق سے انکار اور ارادہ بعض پر اصرارکیا اسے حکم کفر سے بچالے گا کہ وہ صراحۃً آیہ کریمہ ا اس تفسیر قطعی یقینی اجماعی ایمانی کا منکر ومبطل ہے جو خود حضور پر نورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی اور جس پر تمام امت مرحومہ نے اجماع کیا اور بنقل متواتر ضروریاتِ دین سے ہوکر ہم تک آئی، مثلاًکوئی شخص کہے کہ شراب کی حرمت قرآن عظیم سے ثابت نہیں ائمہ دین فرماتے ہیں وہ کافر ہوگیا اگرچہ اس کے کلام میں حرمت خمر کا انکار نہ تھا، نہ تحریم خمر کا ثبوت صرف قرآن عظیم پر موقوف کہ ا س کی تحریم میں احادیث متواتر بھی موجود، اور کچھ نہ ہوتو خود اس کی حرمت ضروریات دین سے ہے اور ضروریات دین خصوص نصوص کے محتاج نہیں رہتے۔
امام اجل ابوزکریا نووی کتاب الروضہ پھر امام ابن حجر مکی اعلام بقواطع الاسلام میں فرماتے ہیں : اذاجحد مجمعا علیہ یعلم من دین الاسلام ضرورۃ سواء کان فیہ نص اولافان جحدہ یکون کفرااھ ملتقطا۳؎۔ جب کسی نے ایسی بات کا انکار کیا جس کا ضروریات دین اسلام میں سے ہونا متفق علیہ معلوم ہے خواہ اس میں نص ہو یا نہ ہو تو اس کا انکار کفر ہے اھ ملتقطا(ت)(۳؎ الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ مکتبۃ الحقیقیہ استنبول ترکی ص۳۵۲)
بعینہٖ یہی حالت یہاں بھی ہے کہ اگرچہ بعثت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ہمیشہ کے لئے دروازہ نبوت بند ہوجانا اور اس وقت سے ہمیشہ تک ، کبھی کسی وقت کسی جگہ کسی صنف میں کسی طرح کی نبوت نہ ہوسکنا کچھ اس آیہ کریمہ ہی پر موقوف نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں قاہروباہر، متوار ومتظافر، متکاثرومتواتر حدیثیں موجود اور کچھ نہ ہوتو بحمد اﷲ تعالٰی مسئلہ خود ضروریات دین سے ہے مگر آیت کے معنی متواتر، مجمع علیہ ،قطعی ضروری کا انکار، اس پر کفر ثابت کرے گا اگرچہ اس کے کلام میں صراحۃً نفسِ مسئلہ کا انکار نہیں ۔
منح الروض الازہر شرح فقہ اکبر سیدنا امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں ہے : لوقال حرمۃ الخمر لاتثبت بالقراٰن کفر ای لانہ عارض نص القراٰن وانکر تفسیر اھل الفرقان۱؎۔ لوقال حرمۃ الخمر لاتثبت بالقراٰن کفر ای لانہ عارض نص القراٰن وانکر تفسیر اھل الفرقان۱؎۔ اگر کسی نے کہا شراب کی حرمت قرآن سے ثابت نہیں تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نص قرآنی کے ساتھ معارضہ کیا اور اہل فرقان کی تفسیر کا انکار کیا(ت)(۱؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر ملاعلی قاری فصل فی الکفر صریحاً وکنایۃً مصطفی البابی مصر ص۱۹۰)
فتاوٰی تتمہ میں ہے :من انکر حرمۃ الخمر فی القراٰن کفر۲؎۔ جس نے قرآن کے حوالے سے حرمت شراب کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا(ت) (۲؎منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر بحوالہ فتاوی تتمہ فصل فی الکفر صریحاً وکنایۃً مصطفی البابی مصر ص۱۹۰)
اعلام امام مکی میں ہمارے علماء سے کلمات کفر بالاتفاق میں نقل کیا : اوقال لم تثبت حرمۃ الخمر فی القراٰن ۳؎۔ یا اس نے کہاقرآن میں حرمت شراب کا ثبوت نہیں ہے۔(ت)(۳؎ الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ مکتبۃ الحقیقیۃ استنبول ترکی ص۳۷۱)