انبیاء اور مرزا قادیانی کی وراثت میں فرق
حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے
حدثنا القعنبي عن مالک عن ابن شهاب عن عروة عن عاشة أنها قالت إن أزواج النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) حين توفي رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) أردن أن يبعثن عثمان بن عفان إلی أبي بکر الصديق فيسألنه ثمنهن من النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) فقالت لهن عاشة أليس قد قال رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) لا نورث ما ترکنا فهو صدقة (سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 1209)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات ہو گئی تو آپ کی ازواج نے چاہا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اپنا آٹھواں حصہ طلب کرنے کیلئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بھیجیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو بطور میراث پہنچتا تھا. تو حضرت عائشہ نے ان سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)نے یہ نہیں فرمایا کہ. ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو مال چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے.
ایک اور حدیث ہے
نحن معاشر الانبیاء لا نرث ولا نورث (بحاری کتاب خمس-فضاہل اصحاب النبی-مغازی فرائض. مسند احمد بن حنبل(بحوالہ مرزائی پاکٹ بک) قسطلانی، الاحتجاج للشيخ الطبرسي ج:1 ص97، تاريخ مدينة دمشق ج:30 ص311 ح، شرح نہج البلاغة ج:16 ص251. 6442)
ہم انبیاء کا گروہ ہیں نہ ہم کسی کے(مال میں) وارث ہیں نہ ہماری کوئی وراثت(مالی) ہے.
ایک اور صحیح حدیث ہے
إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ (سنن ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 81 الرقم:223 مطبوعہ دار اخیاء الکتب)
علماء انبیا کے وارث ہیں، انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں بلکہ ان کا علم ہوتا ہے. جس نے اس میں کچھ پا لیا اس نے وافر پا لیا.
احادیث سے معلوم ہوتا ہے انبیاء کے مال کی کوئی وراثت نہیں ہوتی نہ ہی ان کی اولادیں اس کا مالک ہوتی ہیں بلکہ انبیاء کی وراثت ان کا علم ہوتا ہے. یہی وجہ تھی جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے استدعا کی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جو اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فئے عنایت فرمایا تھا ان کا میراثی حصہ ان کو دیدیں تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں کہ ہمارے مال میں عمل میراث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہے.
کچھ شبہات کا ازالہ
یہاں کچھ شبہات پیدا ہوتے ہیں بلکہ کہا جائے پیدا کیا جاتے ہیں. آئیں دیکھتے ہیں وہ کیا ہیں اور ان کا جواب کیا ہے.
1: یہ حدیث صرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے خاص تھی
مرزائیہ پاکٹ بک میں ہے:
” یرید بذالک نفسہ (بخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی نضیر جلد 3 صفحہ 11) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس مراد صرف اپنا وجود تھا. باقی انبیاء کی وراثت کے متعلق بیان کرنا مقصود نہ تھا.“ (پاکٹ بک صفحہ 699 )
جواب: حدیث میں لفظ ہے ” الانبیاء “ جو کہ جمع ہے. اس سے پتا چلتا ہے اس سے مراد صرف حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات نہ تھی.
’’ یرید رسول نفسہ ‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ اس حکایت کرنے سے محض انبیاء سابقین کے حالات کو بیان کرنا مقصود نہیں تھا. بلکہ اس واقعہ کو ذکر کر کے یہ ظاہر کرنا تھا کہ جملہ انبیاء کی طرح میرے ترکہ میں بھی وراثت جاری نہ کی جائے. چنانچہ قسطلانی اس خصوصیت کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’ يريد رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نفسه الزكية وكذا غيره لقوله في الحديث الآخر "إنّا معاشر الأنبياء لا نورث" فليس ذلك من الخصائص ‘‘ (شرح قسطلانی جلد9صفحہ425 الرقم:6728) ’’ کذانفیا بقولہ فی الحدیث الآخر انا معاشر الانبیاء لانورث فلیس ذالک من الخصائص ‘‘(قسطلانی مطبوعہ نو الکشور ج۹ ص۳۴۲)
جس طرح بخاری کی حدیث ’’ لعن اﷲ الیہود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیاء ہم مساجدا یحذر ماصنعوا ‘‘(بخاری ج۱ ص۲ ۶، مشکوٰۃ ص۶۹، باب المساجد)اور دوسری روایت’’ عن عائشۃرضی اللہ تعالی عنھاقالت قال رسول اﷲ علیہ السلام لعن اﷲ الیہود اتخدوا قبور انبیائہم مساجد قالتفلولاذالک لابرز قبرہ انہ خشی ان یتخذ وامسجداً “ (مسلم ج۱ص۲۰۱ باب النھی عن بناء المسجد علی القبور) میں ’’ یحذر ماصنعوا اور انہ خشی ان یتخذ مسجد ‘‘سے آنحضرت علیہ السلام کی خصوصیت ظاہر نہیں ہوتی. اسی طرح ’’یرید رسول اﷲ‘‘ سے حضور علیہ السلام کی خصوصیت سمجھنا درست نہیں ہے.
2:قرآن کریم میں ہے
وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَاۗءِيْ وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا فَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا☼ يَّرِثُنِيْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (مریم 5-6)
اور میں ڈرتا ہوں اپنے پیچھے اپنے رشتہ داروں سے اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اے میرے مالک! مجھے اپنے یہاں سے ایک ایسا جانشین عطا فرما دے. جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کے خاندان کا بھی اور اے میرے رب اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا .
اگر غور کیا جائے تو یہاں پر دو قرینے ایسے پائے جاتے ہیں جن سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں پر وراثت سے مراد مالی وراثت نہیں . جیسا کہ اہل زیغ و ضلال کا کہنا ہے. کیونکہ اگر یہاں مالی اور نسبی میراث مراد ہوتی تو پھر یَرِثُنِیْ " جو کہ وارث ہو میرا " کی دعاء کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی. کیونکہ مالی میرات تو خودبخود انسان کی اولاد کو ملتی ہے . اسی طرح وَیرِثُ مِنْ آلٰ یَعْقُوْبَ کا ارشاد یہ معنیٰ لینے کے خلاف ہے کہ آلِ یعقوب کی مالی وراثت کے مستحق تو پہلے ہی سے موجود تھے اور حضرت زکریا علیہ السلام کے بیٹے کے آلِ یعقوب علیہ السلام کا دنیاوی میراث کے اعتبار سے وارث بننے کے کوئی معنیٰ ہی نہیں تھے. پھر یہ خیال کرنا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو اپنے مال و دولت کی فکر تھی کہ کہیں میرے گھر سے نکل کر بنی اعمام اور دوسرے رشتہ داروں میں نہ پہنچ جائے، نہایت پست اور ادنیٰ خیال ہے.
3:قرآن کریم میں اللہ کا فرمان عالی شان ہے
وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ۭ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ (النمل:16)
اور سلیمان علیہ السلام کو ہم نے داؤد علیہ السلام کا جانشین بنایا اور اس نے کہا اے لوگو! ہم کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر قسم کی چیزیں عطا ہوئی ہیں بلاشبہ یہ کھلا فضل ہے.قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وراثت کا لفظ کسی کے بعد آنے والے پر بھی بولا جاتا ہے. مثلاً واورثکم ارضہم ودیارہم واموالہم وارضالم تطئوھا (احزاب:27)اور خدا نے تمہیں وارث بنا دیا ان(یہودیوں) کی زمین کا ان کے گھروں کا ان کے مالوں کا اور (اس علاوہ) ایسی زمین کا بھی جس پر تم نے ابھی تک قدم بھی نہیں رکھے. یہاں اورثکم سے وراثت عرفی اور اصطلاحی وراثت ہرگز مراد نہیں ہے بلکہ یہاں مسلمانوں کے یہودیوں کی املاک پر قبضہ دیے جانے کو وراثت کا نام دیا گیا ہے. اسی طرح سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث کہنے کا یہی مطلب ہے کہ ان کو علم و حکمت داؤد علیہ السلام کے بعد عطا فرمائی گئی.
یہاں وراثت سے مراد وراثت مالی نہیں بلکہ وراثت علمی ہے کی دلیل اسی قول کے فوراً بعد يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ کے الفاظ بھی ہیں. قرآن کریم کی اس آیت کی تشریح میں جمہور مفسرین نے یہی کہا ہے . دیکھیں(ابنِ کثیر ، روح ، مراغی ، صفوۃ ، خازن ، اور مدارک وغیرہ) اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد کے روایات کے مطابق اٹھارہ بیٹے تھے(بعض کے مطابق بارہ اور بعض کے مطابق انیس ) ، اگر یہاں مال و دولت کی وراثت مراد ہوتی تو آپ علیہ السلام کے دوسرے بیٹوں کا بھی ذکر ہوتا نہ کہ صرف حضرت سلیٰمان علیہ السلام کا کہ اس میراث کا حصہ سب کو برابر ملتا نہ کہ اکیلے کسی ایک بیٹے کو .یہ تو ہو نہیں سکتا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام تو وارث بن جائیں اور باقی بیٹے محروم رہ جائیں. پھر وراثت ذاتی املاک میں ہوا کرتی ہے. حکومت میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ ایک قومی امانت ہے. جس میں امیر کو قوم اور مالک کی مرضی کے بغیر کسی قسم کے تصرف کرنے کا حق نہیں ہوتا. حدیث مرفوع ہے ’’ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اسْتَعْمِلْنِي ، قَالَ : فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِي ، ثُمَّ قَالَ : " يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ ضَعِيفٌ ، وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ ، إِلا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا ، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا “(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 222 ،السنن الكبرى للبيهقي رقم الحديث: 18596)”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عامل نہ بنائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مار کر فرمایا :اے ابوذر رضی اللہ عنہ! تو کمزور ہے اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس بارے میں جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو ادا کیا. ‘‘ لہٰذا سلیمان علیہ السلام کے وارث ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنے والد ماجد کے بعد حکومت کے تخت پر متمکن اور جلوہ افروز ہوئے نہ یہ کہ انھیں یہ میراث ملی.
یہاں ایک دلچسپ بات عرض کرتا چلوں مصنفہ مرزائی پاکٹ بک نے طبع 1932 میں اہل تشیع حضرات کو جواب دیتے ہوے لکھا تھا:
” یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ والی آیت میں جو استثناء ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کی وجہ سے ہے جو بخاری و مسلم بلکہ تمام صحاح میں مذکور ہے اور وہ نَحْنُ مَعَاشِرُ الْاَنبیائِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ ہے اگر کہا جائے کہ یہ حدیث (نحن معاشر الانبیاء) اس لیے صحیح نہیں کہ قرآن شریف کے خلاف ہے. کیونکہ قرآن کریم میں ورِثُ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ (النمل) فَھَبْ لِیْ مِن لَّدُنْکَ وَلِیًّا یَّرثُنِیْ وَیَرِثْ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ (مریم ) آیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں روحانی ورثہ مراد ہے نہ کہ مالی ورثہ.“(احمدیہ پاکٹ بک صفحہ۲۴۵ طبعہ ۱۹۳۲ء)
مگر جب مولانا عبد المعمار صاحب نے مرزا صاحب کی وراثت پر مرزا جی کو جھوٹا ثابت کیا تو اگلے ایڈیشنشز میں تخریف کر دی گئی. مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت میں '' اگر کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں'' سے ما قبل کی عبارت کو تو رہنے دیا ہے لیکن ما بعد کی عبارت کو نکال دیا.
مصنف مرزائی پاکٹ بک نے اس کے علاوہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی کچھ تشریحات لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء کو وراثت ملی. پہلی بات یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اور کثیر احادیث سے جب یہ بات ثابت ہے انبیاء کی وراثت علمی ہوتی ہے اس کے بعد اگر امام رازی رحمۃ اللہ نے بھی کچھ ایسی بات لکھی جو اس کے مخالف ہے تو وہ بات ہرگز ہرگز حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے حجت نہیں ہو سکتی.
پھر امام رازی رحمۃ اللہ علیہ وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ کی تفسیر میں لکھتے ہیں
''أما قوله تعالى : ( وورث سليمان داود ) فقد اختلفوا فيه ، فقال الحسن : المال ؛ لأن النبوة عطية مبتدأة ولا تورث ، وقال غيره : بل النبوة ، وقال آخرون : بل الملك والسياسة ، ولو تأمل الحسن لعلم أن المال إذا ورثه الولد فهو أيضا عطية مبتدأة من الله تعالى ، ولذلك يرث الولد إذا كان مؤمنا ولا يرث إذا كان كافرا أو قاتلا ، لكن الله تعالى جعل سبب الإرث فيمن يرث الموت على شرائط ، وليس كذلك النبوة لأن الموت لا يكون سببا لنبوة الولد فمن هذا الوجه يفترقان ، وذلك لا يمنع من أن يوصف بأنه ورث النبوة لما قام به عند موته ، كما يرث الولد المال إذا قام به عند موته ؛ ومما يبين ما قلناه أنه تعالى لو فصل فقال : وورث سليمان داود ماله لم يكن لقوله : ( وقال ياأيها الناس علمنا منطق الطير ) معنى ، وإذا قلنا وورث مقامه من النبوة والملك حسن ذلك لأن تعليم منطق الطير يكون داخلا في جملة ما ورثه ، وكذلك قوله تعالى : ( وأوتينا من كل شيء ) لأن وارث الملك يجمع ذلك ووارث المال لا يجمعه وقوله : ( إن هذا لهو الفضل المبين ) لا يليق أيضا إلا بما ذكرنا دون المال الذي قد يحصل للكامل والناقص ، وما ذكره الله تعالى من جنود سليمان بعده لا يليق إلا بما ذكرناه ، فبطل بما ذكرنا قول من زعم أنه لم يرث إلا المال ، فأما إذا قيل : ورث المال والملك معا فهذا لا يبطل بالوجوه التي ذكرناها ، بل بظاهر قوله عليه السلام : " نحن معاشر الأنبياء لا نورث'' (تفسیر رازی جلد 24 صفحہ 186)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا فرمان " وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ " "اور داود کے وارث سلیمان ہوئے" اس کی تفسیر میں اختلاف ہے، حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مال ہے کیونکہ نبوت محض عطائی ہوتی ہے وراثت میں نہیں ملتی، اوروں نے کہا بلکہ اس سے مراد نبوت ہے بعض نے کہا اس سے مراد حکومت اور سیاست ہے، حسن بصری غور فرماتے تو جان لیتے کہ اگر اولاد مال کی وارث بنتی ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہوتی ہے اسی لیے اولاد اگر مسلمان ہو تو وارث بنتی ہے، کافر یا قاتل ہو تو وارث نہیں بنتی، مگر اللہ تعالیٰ نے موت کے سبب وارث بننے کو کچھ باتوں سے مشروط کر دیا جبکہ نبوت کا معاملہ ایسا نہیں کیونکہ موت اولاد کی نبوت کا سبب نہیں بنتی اس لحاظ سے دونوں میں فرق ہوا، مگر جب بیٹا والد کی موت کے بعد اس کے قائم مقام ہو تو پھر یہ کہنے مین کوئی ممانعت نہیں کہ وہ نبوت کا وارث بنا جیسا کہ اولاد مال کی وارث بنتی ہے جب وہ موت کے وقت اس کی ذمہ دار بنتی ہے۔ ہمارے دعوے کی مزید وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے "وورث سليمان داود ماله" کہ "سلیمان مال میں داود کے وارث بنے" تو پھر یہ بات بے معنی ہوتی کہ " وَقَالَ يَاأَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ " " اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے" مگر اگر یہ کہا جائے کہ مقامِ نبوت اور حکومت مین وارث بنے تو یہ مناسب معنی ہوتا کیونکہ پرندوں کی بولی سیکھنا بھی اس میں شامل ہوتا جو ان کو وراثت میں ملا، اسی کے مثل اللہ کا فرمان " وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ " "اور ہمیں ہر چیز عطا فرمائی گئی ہے" ہے۔ کیونکہ وارثِ حکومت کو یہ سب کچھ حاصل ہے جبکہ وارثِ مال کو نہیں اور اللہ کا فرمان " إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ " "بلاشبہ یہ کھلا ہوا فضل ہے۔" بھی اسی کے مناسب ہے جو ہم نے بیان کیا نہ کہ مال جو کسی بھی کامل یا ناقص کو حاصل ہو سکتا ہے، پس اس توضیح سے محض وراثتِ مال کے دعویدار کا قول باطل ثابت ہوا، ہاں اگر یہ کہا جائے کہ مال وسلطنت دونوں کے وارث بنے تو یہ ان وجوہات کی بنا پر تو باطل نہ ہوگا جو ہم نے بیان کیں مگر یہ حدیث "ہم انبیاء کی جماعت کا کوئی وارث نہیں ہوتا" کے ظاہری مفہوم کی بنا پر باطل ہے۔
یہ قول "مگر جب بیٹا والد کی موت کے بعد اس کے قائم مقام ہو تو پھر یہ کہنے مین کوئی ممانعت نہیں کہ وہ نبوت کا وارث بنا جیسا کہ اولاد مال کی وارث بنتی ہے جب وہ موت کے وقت اس کی ذمہ دار بنتی ہے"
اسی لیے بعض تراجم میں ورث کا معنی قائم مقام بنے ہے، علامہ رازی کی مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے ہو کہ بیٹا نبوت اور سلطنت میں والد کا قائم مقام بنے گا تو پھر اس طرح کہنے مین کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کا وارث بنا جیسا کہ اولاد والد کی موت کے بعد مال میں اس کے قائم مقام ہوتی ہے۔ جیسا کہ سورہ مریم کی آیت " يرثني ويرث من آل يعقوب " کی تفسیر میں علامہ رازی نے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا۔
اسی آیت کی تفصیل میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ یہاں وراثت کا لفظ قبضہ میں آنے یہ ملکیت میں آنے کے معنوں میں آیا ہے اور اسی بات کو امام رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہوے کہتے ہیں یہ بات نحن معاشر الأنبياء لا نورث کے بظاہر ہے مگر غلط نہیں.
کیا مرزا قادیانی کو وراثت مالی ملی؟ اور کیا اس کی اولاد اس کے مال کی وارث بنی؟
مرزا قادیانی لکھتا ہے
” لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اور میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے کسی پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے. کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ وار ہیں پھر خدا تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا. میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس قدر دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور وراثت میرے قبضہ میں آئی ہے بحالت دروغ گو نکلنے کے وہ سب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا.“ (روحانی خزائن . کمپیوٹرائزڈ: جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 348)
تحریر کی کسی تشریح کی ضرورت نہیں مرزا قادیانی نے خود کھلے الفاظ میں قبول کیا ہے کہ اس کو وراثت مالی، املاکی میں سے حصہ ملا.
مرزا قادیانی کی طرح مرزا قادیانی کی اولاد بھی اس کی وارث ہوئی
دیکھیں خادم گجراتی یہ تحریر
”تمہارا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود(جعلی) کی بیٹیوں کو ورثہ نہیں ملا سفید جھوٹ ہے. کاغذات مال اس امر کے گواہ ہیں کہ حضرت اقدس(لعنۃ اللہ علیہ) کی دونوں بیٹیوں کو شریعت اسلام کے عین مطابق پورا پورا حصہ دیا گیا اور وہ اپنے اپنے حصوں پر قابض ہیں.“ (مرزائیہ پاکٹ بک صفحہ700)
پس انبیاء کی وراثت علم اور حکمت ہوتی ہے مگر انگریز کے خود کاشتہ ”نبی“ کی وراثت جائیدادیں ہوتی ہیں۔