• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

انبیاء کسی دنیاوی استاد کے شاگرد نہیں ہوتے

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
انبیاء کسی دنیاوی استاد کے شاگرد نہیں ہوتے۔


الله کے سچے نبی کسی دنیاوی استاد کے شاگرد نہیں ہوتے بلکہ ان کا استاد صرف الله تعالی ہی ہوتا ہے اور اسی سے علوم و معارف حاصل کرتے ہیں ، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف میں قیامت کے دن کے احوال کے بارے میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : .

" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْبَرًا مِنْ نُورٍ، وَإِنِّي لَعَلَى أَطْوَلِهَا وَأَنْوِرِهَا، فَيَجِيءُ مُنَادٍ، فَيُنَادِي: أَيْنَ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ؟ قَالَ: فَيَقُولُ الْأَنْبِيَاءُ: كُلُّنَا نَبِيٌّ أُمِّيٌّ، فَإِلَى أَيِّنَا أُرْسِلَ؟ فَيَرْجِعُ الثَّانِيَةَ، فَيَقُولُ: أَيْنَ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ الْعَرَبِيُّ؟ قَالَ: فَيَنْزِلُ مُحَمَّدٌ حَتَّى يَأْتِيَ بَابَ الْجَنَّةِ، ۔۔۔۔۔ الی آخر الحدیث "
قیامت کے دن ہر نبی کے لیئے ایک منبر ہوگا لیکن میرا منبر سب سے لمبا اور سب سے زیادہ روشن ہوگا ،پس ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا کہ : امی نبی کہاں ہیں ؟ تو تمام انبیاء کرام فرمائیں گے کہ ہم سب امی نبی ہیں ، ہم میں سے کسے بلایا جا رہا ہے ؟ تو آواز لگانے والا دوبارہ آواز لگائے گا : عربی امی نبی کہاں ہیں ؟ تو فرمایا : محمد صلی الله علیہ وسلم ( منبر سے ) اتریں گے اور جنت کے دروازے کے پاس جائیں گے اور باب جنت پر دستک دیں گے ۔ الی آخر الحدیث ۔ ( صحیح ابن حبان حدیث نمبر 6480 )

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ الله کے تمام نبی " امی " ہوئے ہیں اور ان میں سے کسی نے کسی مدرسہ یا درسگاہ میں کسی استاد کے سامنے بیٹھ کر دین یا اس کا کوئی متعلقہ علم حاصل نہیں کیا اور اس حقیقت کا اقرار خود مرزا غلام قادیانی نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی کتاب جو بقول اس کے اس نے الله کی طرف سے ملہم مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کی تھی اس کے اندر اس طرح لکھا ہے کہ : .
" لاکھ لاکھ حمد اور تعریف اس قادر مطلق کی ذات کے لائق ہے جس نے ساری ارواح اور اجسام بغیر کسی مادہ اور ہیولٰی کے اپنے ہی حکم اور امر سے پیدا کر کے اپنی قدرت عظیمہ کا نمونہ دکھلایا اور تمام نفوس قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا " ( خزائن جلد 1 صفحہ 16 )

اور ایک جگہ یوں لکھا کہ : .

" کیونکہ سب نبی تلمیذ الرحمٰن ہیں " ( خزائن جلد 17 صفحہ 358 حاشیہ )

تلمیذ الرحمٰن کا مطلب ہے کہ تمام نبی رحٰمن یعنی الله کے شاگرد ہیں۔

لیکن دوسری طرف جس کو آپ لوگ نبی سمجھ بیٹھے ہو یعنی مرزا غلام قادیانی اس نے باقاعدہ دنیا کے استادوں سے قرآن وصرف ونحو کا سبقاٙٙ علم حاصل کیا ۔ لہذا وہ نبی نہیں ہوسکتا ۔

ایک مرزائی دھوکہ

جماعت مرزائیہ اکثر کہتی ہے کہ دیکھو قرآن میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے کہا تھا کہ آپ مجھے اس چیز کی تعلیم دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہے ، اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ، نیز حدیث میں آتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قبیلہ بنوجرہم سے عربی سیکھی ، لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ نبی دنیا میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوتا ۔

جواب

کیا کوئی مرزائی بتا سکتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے کون سی کتاب پڑھی تھی ؟ یا کون سا دینی یا شریعت کا علم حاصل کیا تھا ؟ اگر کوئی بتا دے تو ہمیں بھی پتہ چلے ۔ حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کا سورۃ الکہف میں مذکور پورا واقعہ پڑھنے اور کتب حدیث و تفسیر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کے پاس بھیجنے جانے کا سبب اور وجہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے آپ کو حضرت خضر علیہ السلام کے پاس کوئی علم حاصل کرنے نہیں بھیجا تھا اور نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے کوئی شریعت یا دین کا علم حاصل کیا یا کوئی کتاب پڑھی ، جو علم حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ نے دیا تھا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ضروری نہ تھا اور نہ انہیں اس کی کوئی حاجت تھی ۔ اس علم کو " علم لدنی " کے نام سے بیان کیا جاتا ہے ۔ لہذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے جو یہ فرمایا کہ :۔
" هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا " ( سورہ الکہف 66 )
اس کا یہ مفہوم نہیں کہ میں آپ سے دین یا شریعت کی تعلیم حاصل کرنے آیا ہوں ، بلکہ یہ ہے کہ مجھے اس علم کے بارے میں بتائیں کہ وہ کیا علم ہے جو اللہ نے آپ کو دیا اور مجھے نہیں ۔ اس سے یہ دلیل پکڑنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللی نے حضرت خضر علیہ اسلام سے کوئی دین یا شریعت کا علم حاصل کرنے بھیجا تھا سراسر غلط ہے ۔ پھر حضرت خضر علیہ السلام تو جمہور کے نزدیک اللہ کے نبی ہیں اور دلائل و قرائن سے یہی بات صحیح بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ میں ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ " هَلْ أَتَّبِعُكَ " کیا میں آپ کی پیروی کرسکتا ہوں ، اور یہ ناممکن ہے کہ اللہ کا ایک نبی کسی غیر نبی کی اتباع کرے ، اسی طرح اس واقعہ کے آخر میں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا " وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي " یہ سب کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے ، یعنی یہ سب اللہ کی وحی سے کیا ہے ۔ نیز اسی واقعہ میں اللہ نے حضرت خضر علیہ السلام کے بارے فرمایا " آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا " انہیں ہم نے اپنی طرف سے رحمت دی تھی ۔ اس " رَحْمَةً " کی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمائی " الْهدى والنبوة " یعنی ہدایت اور نبوت ( تفسیر درمنثور جلد 5 صفحہ 425 زیر آیت مذکورہ ) ۔ علامہ بیضاوی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے کہ اس سے مراد وحی اور نبوت ہے ، امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ مے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام نبی ہیں اور آیت بھی ان کے نبی ہونے پر دلالت کرتی ہے ( تفسیر قرطبی جلد 13 صفحہ 325 ) ، لہذا ایک نبی کا دوسرے نبی سے کسی چیز میں استفادہ کرنا کوئی قابل اعتراض نہیں ، کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ نبی نہیں لیکن ان کا ولی اللہ اور اللہ کا نیک بندہ ہونا تو سب کے نزدیک متفق علیہ ہے ، نیز اللہ نے فرمایا تھا کہ " وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا " ہم نے انہیں اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا ،یعنی جو علم حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تھا وہ انہوں نے کسی انسان سے نہیں حاصل کیا تھا بلکہ اللہ نے دیا تھا تو جس علم کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جاننے کے خواہش مند تھے وہ براہ راست اللہ سے ہی ملا ہوا تھا کسی انسان سے نہیں ، جبکہ مرزا غلام قادیانی نے تو بااقرار خود ایسے استادوں کی شاگردی اختیار کی جو نماز تک نہیں پڑھتے تھے بلکہ منہ تک نہ دھوتے تھے ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت اسماعیل نے قبیلہ بنوجرہم سے عربی سیکھی تو اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ " قبیلہ بنوجرہم کے کچھ لوگوں نے وہیں پڑاؤ ڈال لیا جہاں حضرت اسماعیل اور آپ کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہما السلام تھے یعنی مکہ میں " تو حضرت اسماعیل علیہ السلام جو ابھی بچے تھے اس قبیلے کے لوگوں میں گھل مل گئے کیونکہ ان دونوں ماں بیٹوں نے اس سے پہلے اس جگہ کوئی انسان نہ دیکھا تھا ، قبیلہ بنوجرہم عربی زبان بولتے تھے تو جب حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کے اندر رہتے تھے تو آپ نے جوان ہوتے ہوتے عربی زبان سیکھ لی ، حدیث میں ہرگز یہ نہیں کہ کہ آپ نے قبیلہ بنوجرہم کے فلاں آدمی سے باقدہ عربی کی کتابیں پڑھ کر عربی سیکھی تھی جیسے مرزا قادیانی نے عربی و فارسی پڑھی تھی ۔


الله آپ سب قادیانیوں کو سوچنے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
 
Top