غلام نبی قادری نوری سنی
رکن ختم نبوت فورم
انسان اور اللہ عزوجل کی زات
قسط نمبر 9
اپنا تجزیہ اور پوری نہ ہونے والی خواہشات
بسم اللہ الرحمن الرحیم معزز قارئین زی وقار جیسا کہ گزشتہ اقساط میں اپ نفس اور اسکی خصوصیات و جبلیات سے اگاہ ہوچکے ہیں ۔۔۔ جنہوں نے باقائدگی سے اقساط پڑھی ہیں ان شاء اللہ وہ اس سلسلے کو سہی انداز میں سمجھ پائیں گے ۔۔۔۔
زندگی کے ہر موڑ پر ہر لمحے ہمیں فیصلہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیا ٹھیک ہے کیا غلط ہے کی تلاش میں ہم اپنے ہر مسلے کو ایک موضوع یا object کے طور پر لیتے ہوئے اپنے زہن میں موجود ماضی کے تمام ڈیٹا کو استمال کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں جس پر یقینی طور پر ہمارے مستقبل کا تمام تر انحصار ہوتا ہے ۔۔۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم درست فیصلہ کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم حقائق کو نظر انداز کرکے زندگی کے تمام تر فیصلے اپنی فطرت اور پسند نا پسند کے حوالے سے کررہے ہیں ؟؟؟
انسان کے ساتھ ایک بڑا مسلہ یہ ہے کہ اسے زندگی آئیڈیل صورتحال میں نہیں بلکہ ہمیشہ دی گئی صورتحال میں گزارنی پڑتی ہے عام لفظوں میں کہا جائے تو انسان کے لیے قانون قدرت ہے کہ وہ حقیقت پسندی پر زندگی گزارے ۔۔۔۔۔ خیالاتی زندگی نہیں۔۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ عظیم اکثیریت ساری زندگی دی گئی صورتحال کو پسند یا آئڈیل صورتحال میں تبدیل کرنے میں گزار دیتی ہے ۔۔۔۔ یہ سب کم علمی کا نتیجہ ہے اور اس کی بہت بھیانک قیسمت انسان کو ادا کرنا پڑتی ہے ۔۔۔
نفس کی فطرت ہے کہ یہ اپنا تجزیہ خود کرنے میں ماہر خود کو ماہر سمجھتا ہے ۔۔۔۔ خود کو analytical expert سمجھتا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔۔ تجزیہ چونکہ کم تربیت یافتہ نفس کے ندیک صرف سوچنے سے ہی ممکن ہے اس لیے ہوتا کچھ یوں ہے کہ سوچ اپنے آپ کو دوحصوں میں تقسیم کرلیتی ہے ۔۔۔ ایک حصہ مسلہ بن جاتا ہے اور دوسرا تجزیہ کار ۔۔۔۔ خود چوچئے غور کیجیے اگر دو انسانوں کے درمیاں کوئی اختلاف ہوجائے تو کیا ان دونوں میں سے کوی ایک فرد جو خود فریق ہے وہ درست فیصلہ کرسکتا ہے ؟؟ انصاف کرسکتا ہے ؟؟ ایسا ممکن ہی نہیں ۔۔۔۔ کسی تیسرے کی ضرورت پڑتی ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ غیر جانبداری سے ہی درست فیصلہ ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ غیر تربیت یافتہ نفس کے ساتھ سب سے بڑا مسلہ یہی ہے کہ یہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ کیونکہ اسے خود اپنی زات سے بلا کی ہمدردی ہوتی ہے۔۔۔۔ ایسی ہمدرد سوچ کے ساتھ کوئی خود سے کیسے انصاف کرسکتا ہے ۔۔۔۔
درست تجزیہ کرنے پر ہی اچھے فیصلے کا تمام دارومدار ہوتا ہے ۔ اور درست غیر جانبدار تجزیہ کم علم کم عقل یعنی محدود سوچ و خیالات سے ہرگز ممکن نہیں ۔۔۔ اس کے لیے بصیرت درکار ہے ۔۔۔۔ بے پناہ تیز ترین بصیرت۔۔۔۔ اگر اپ اپنی سوچ پر اعتبار کیے بغیر سامنے موجود حل طلب صورت حال یا کسی مسلے پر گہری نظر ڈالیں ۔۔۔۔۔ ایک ایسی نظر ڈالیں جس میں آپ کی زات اور اپ کے کردار کی کوئی جھلک نہ ہو کوئی (میں) نہ ہو صرف معاملہ ہو اور معاملے کا مشاہدہ ہو تو اپ کو معاملے کا اس صورت حال کا اس مسلے کا وہ چہرہ وہ خدو خال بھی دکھائی دیں گے جو اپ کی سوچ اپ کے وہم و گمان میں بھی نہہیں آسکتے ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہسے پہنچا جاسکتا ہے اس کے لیے اگلی اقساط میں ایک باب باندھیں گے مشاہدہ حق کے نام سے ۔۔۔۔۔ ابھی صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ سوچ اپنا تجزیہ خود نہیں کرسکتی ۔۔۔۔ اس موضوع کے ساتھ منسلک پوری نہ ہونے والی خواہشات پر گفتگو کرکے مضمون کو ختم کرتے ہیں ۔۔۔
یہ تمنا بڑی چیز ہے ازل سے ابد تک انسان خواہشات میں جیتا چلا آرہا ہے ۔۔۔۔ لاکھوں اربوں قسم کی خواہشات میں انسان کی روئے زمین پر آنے کے بعد سے اب تک اور روز قیامت تک کی سب سے بڑی خواہش خدا کی پہچان ہے ۔
اس سب سے بڑی خواہش کو اگر انسان پانا چاہتا ہے تو اس خواہش کی ڈیمانڈ ہی یہ ہے کہ دوسری تمام خواہشات اس خواہش پر قربان کردی جائیں ۔۔۔۔ بات کو کھول کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے لیے ہمیں جاننا ہوگا کہ خواہس اہنی اصل میں کیا ہے ۔۔۔
خواہش ایک محرک ہے ۔۔۔۔ ایک motive ہے سوچ خواہش ہے یہ طلب ہے ڈیمانڈ ہے یہ یہاں سے وہاں تک جانے کی سوچ ہے ۔۔۔۔ یہ کچھ بن جانے کا خیال ہے ۔۔۔
یہ وہاں تک جانے کی سوچ ہے جو اس وقت یہاں نہیں ۔۔۔ خواہش زندگی کو حرکت دیتی ہے ۔ اگر خواہش نہ ہوتو زہن مردہ dead ہے اگر اپ کی کوئی خواہش نہیں تو اپ کی کیا سوچ ہے ؟؟؟اس میں بہت بڑا راز چھپا ہے ۔۔۔ ہر انسان کی زندگی میں خواہش ہر سانس کے ساتھ موجود ہے خواہش اپنی اصل میں وسعت کا نام ہے پھیلاو اور آگے بڑھنے کا نام ہے ۔۔۔۔۔
ہر انسان اگے بڑھ رہا ہے ۔۔۔ پھیل رہا ہے جیسے کائنات یہ کہکشائیں بڑھ رہی ہیں اور پھر ایک دن پھٹ جائیں گی اسی طرح انسان بھی آگے بڑھتا ہے ساری زندگی ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے ۔۔۔۔
اَ لْـهَـاكُمُ التَّكَاثُرُ (1)حَتّـٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2)
کثرت کی خواہشوں نے تم کو آلیا یہاں تک کہ تم قبروں میں جاپہنچے
(التکاثر 1 تا 2)
ہم اس کثرت کو سمجھنے میں اکثر مار کھاجاتے ہیں ،،، ہر انسان کی زندگی میں ایک ناسودہ ، نامکمل سلگتی لو دیتی خواہش ہر وقت موجود رہتی ہے ۔۔۔۔ یہ نامکمل خواہش ہر انسان کو بھگا رہی ہے ۔۔۔۔ عظیم اکثریت بلکہ ہم سب آج جہاں ہیں وہاں مطمئن نہیں ہم مذید آگے بڑھنا چاہتے ہیں ،،،،، اس ناتمام خواہش کو زرا کھول کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر یہ ایسی ہوتی ہے جیسے سکول کے زمانے میں لگتا ہے کہ کالج پہنچ جائیں گے تو بات بن جائے گی ۔۔۔۔ یہی تمنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت مشقت اور انتظار سے گزرتے ہیں ۔۔۔ جس دن کالج پہنچ جاتے ہیں اس دن شعور سطحی طور پر خوش دکھائی دیتا ہے مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد نفس کو یعنی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے خواہش تو پوری ہوگئی مگر جانے کیا بات ہے یہ اچھا تو مگر ویسا نہیں جیسا ہمیں لگتا تھا جیسا ہم سوچتے تھے جیسی ہماری خواہش تھی ۔۔۔۔ نفس کی طفرت ہےکہ جس شے کو پا لیتا ہے جسے دیکھ لیتا ہے اس کی اہمیت انسان کے نزدیک انتہائی تیزی سے کم ہوتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔ rejection کا پروسیس بہت تیزی سے انسان کو پکڑ لیتا ہے خاص کب عام ہوجاتا ہے یہ خبر ہی نہیں ہوتی ۔۔۔۔ پھر ایک اور ناتمام خواہش کا دیا آنکھوں کے آگے لہرانا شروع کردیتا ہے ۔۔۔۔ اور یوں یہ ایک نارکنے والا سلسلہ ہمیں راز حیات میں گھسیٹتا ہوا لے نکلتا ہے ۔۔۔۔۔ ہر خواہش پوری ہوجانے کے بعد اگلی خواہش کو جنم دے کر خود پھیکی پڑتی جاتی ہے ۔۔۔۔ یہاں تک مشاہدہ پہنچے تو خواہش کی دو پرتیں نظر آتی ہیں ۔۔۔۔۔ ایک فنا ہے ہلاک ہے mortality ہے دوسری تاثر expression ہے ۔۔۔
جفس چونکہ جبلی طور پر موت سے آگاہ ہے جانتا ہے کہ وہ مرجائے گا وہ ہلاک ہونے والا ہے لیکن چونکہ اللہ سے بیزار ہے خائف ہے ۔۔۔ اس لیے ہلاکت کے دباو سے نکلنے کے لیے موت کے خوف سے فرار کے لیے خواہشات کا ایک عجب داو کھیلتا ہے جو اہل علم کے سوا کسی کو نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔
یہ خواہش کو بقا immorality کا دھوکہ تخلیق کرنے کلے لیے استمال کرنا سیکھ جاتا ہے ۔۔۔۔ میں کالج پہنچ جاوں گا تو زندگی سلجھ جائے گی ۔۔۔۔ حال میں بیٹھ کر نفس ایک عارضی مدت تخلیق کررہا ہے ۔۔۔ خود کو یقین دلا رہا ہے کہ کالج داخلے تک میرے پاس وقت ہے میں نہیں مروں گا ۔۔۔۔
خود ساختہ مہلت لے رہا ہے ۔۔۔۔ دھوکہ دے رہا ہے ۔۔۔۔ خود کو دھوکہ دیکر جی رہا ہے۔۔۔۔ کسی کا مرجانا ہمارے لیے ایک سچ ہے ایک حقیقت ہے انا للہ وانا الیہ راجعون بہت خلوص سے پڑھتے ہیں جو زندہ ہے اسے مرنا ہے میرا ایمان ہے ۔۔۔۔ لیکن میرا مرجانا؟؟ میری موت؟؟ میری نظر میں ایک خیال ہے ۔۔۔۔۔میرے نزدیک ایک ایسا آئیڈیا جو سچ تو ہوگا لیکن چونکہ وہ آئیڈیا ہے اس لیے ضروری نہیں کہ ابھی سچ ہوجائے دوسرے کی موت کی حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔ اپنی آئیڈیا ہے ۔۔۔۔ واہ سبحان اللہ کیا بات ہے اس عیار اور مکار نفس کی ۔۔۔۔۔!
اپنی اور اپنے اردگرد موجودہ زندگیوں کا جائزہ لیجیے اپ کو یہ طلسم ہر ایک پر چھایا نظر آئے گا ۔۔۔۔۔ کاوروبار سیٹ ہوجائے پھر حج کریں گے ۔۔۔۔ حج تک اپنی زندگی کا یقین دلایا جارہا ہے ۔۔۔۔ حج کے بعد بچیوں کی شادی تک جینا ہے پھر اپنے بچوں کے بچوں کی خوشیاں دیکھنے تک جینا ہے ۔۔۔ جب سب ہوچکا تو پھر۔۔۔۔۔مسجد کا راستہ پکڑ کر اللہ کا نیک بندہ بننے تک جینا ہے ۔۔۔۔ کوئی بھی مرنے کو تیار نہیں ۔۔۔۔ ایک فانی ایک ہلاک ہونے والا انسان اپنے آپ کو عارضی مہلت دیکر دھوکہ دے رہا ہے ۔۔۔۔ جبکہ خالق کائنات کہہ رہا ہے ہرگز نہ کہنا کہ کل یہ کام کروں گا مگر ان شاء اللہ ۔۔۔۔۔
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَىْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا (23)
اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّـٰهُ ۚ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ وَقُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّىْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا (24)
اور کسی چیز کے متعلق یہ ہرگز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا۔مگر یہ کہ اللہ چاہے، اور اپنے رب کو یاد کرلے جب بھول جائے اور کہہ دو امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی بہتر راستہ دکھائے۔
(سورہ الکہف ۔۔۔ 23 تا 24)
اور ہم نے رسم بنا لیا ۔۔۔۔ کبھی دیانتداری سے غور کیا ہے کہ اصل میں ہر کام کرنے سے پہلے ان شاء اللہ کہنے سے مراد کیا واقعی ای وہ ہے جو اللہ چاہتا ہے ؟؟ کیا ہم اس بات کو مان چکے ہیں کہ ہم کبھی بھی کسی بھی وقت مرسکتے ہیں ؟؟؟ نہیں کبھی نہیں ۔۔۔ انسان کبھی تیار نہیں ہوتا ۔۔۔۔ ہاں مگر وہ جس کو اللہ جان بخل سے نجات دے ۔۔۔۔ وہ خواہش بخل کا طلسم توڑسکتا ہے ۔۔۔۔۔
خواہش کی دوسری پر layer تاثر یعنی expression ہے نفس کی مصیبت ہے کہ اسے کبھی خواہش کی مناسبت کا تاثر نہیں مل پاتا ۔۔۔۔۔ ہر خواہش جب پوری ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو ادھوری ہے ۔۔۔ چھوٹی کار تک پہنچنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اصل خواہش تو بڑی کار تھی ۔۔۔۔ یہ لامتناہی چکر ساری سندگی انسان کو ایک ایسا گدھا بنا دیتا ہے جس پر بیٹھنے والے نے ایک چھڑی کے سرے پر سبز گھاس کا گھٹا باندھ کر اسے گدھے کے منہ کے پاس اس کی رسائی سے زرا دور تھام رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔ بھوکا گدھا اس گھاس کے گھٹے میں منہ مارنے کے چکر میں چلتا جاتا ہو مگر وہ کبھی اس گھاس تک پہنچنے والا نہیں کیونکہ گھاس اس پر سوار آدمی کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ ہی آگے بڑھ جاتی ہے ۔۔۔۔۔
اگر نفس اللہ کی مہربانی سے علم حاصل کرلے تو اس میں خدا کو پانے کی خواہش بیدار ہوجاتی ہے یہ خواہش سب سے بڑی ہے اس سے بڑی دوسری کوئی خواہش نہیں جب نفس اس خواہش کو پورا کرنے کی دھن میں لگتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ اللہ لامحدود ہے اسے کبھی کوئی مکمل نہیں پاسکتا ۔۔۔۔ اللہ عزوجل ساکن نہیں ۔۔۔۔ سامنے کی بات ہے کہ اللہ کو کسی میتھڈ یا فارمولے سے نہیں پاسکتے کہ کہیں رکھا ہوا ہے مل جائے گا۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہے ۔۔۔ اس کو پانے کے لیے جب خواہش تڑپ کا روپ اختیار کرتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔ بجلی کے کوندے کی طرح لپک کر آنے والا ایک ایسا احساسجس کی روشنی میں نفس دیکھتا ہے کہ اللہ لامحدود ہے ۔۔۔۔ اسی لمحے نفس کی خواہش کو پہلی بار اس کاتاثر مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔ سکون آجاتا ہے ۔۔۔۔ ایک لامحدود ۔۔۔۔ دوسرے لامحدود سے جاملتا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ وہ مقام ہے جسے عرفان کہتے ہیں۔۔۔۔۔ جہاں خواہش کو قرار ملتا ہے ۔۔۔۔
اب خواہش کبھی ناآسودہ ہوکر واپس نہیں پلٹے گی ۔۔۔۔۔ کبھی مایوس نامید نہ ہوگی کہ اسے اس کا ماخذ مل گیا ہے ۔۔۔۔۔ خواہش یہی چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ خواہش کو پیدا کرنے والے کی بھی یہی رضا و منشاء ہے ۔۔۔۔۔ جو اس کو سمجھ گیا ۔۔۔۔ الھکم التکاثر کی سمجھ آگئی۔۔۔۔ یہ قرآن کی ایک آیت کے علم کا حال ہے ۔۔۔۔۔ پوری سورہ مبارکہ پر بات کروں تو اپ بے حال ہوجائیں ۔۔۔۔ اور پورے قرآن میں کتنا علم ہے یہ مالک ہی بہتر جاتنا ہے ۔۔۔
اپنی بے قرار خواہش کو راستہ دکھاو ۔۔۔۔ یہ بھٹک رہی ہے ۔۔۔۔ یہ زات کے مندروں میں ماتم کررہی ہے ۔۔۔۔ اسے اس کا کعبہ دکھاو ۔۔۔۔ اپنی خواہش کو جانے کا راستہ دو ۔۔۔۔ اسے جانا ہے ۔۔۔۔۔ اس کے پاس جس نے اسے پیدا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی وما علینا الاالبلاغ ۔۔۔۔۔۔
فقیر مدینہ غلام نبی قادری نوری
قسط نمبر 9
اپنا تجزیہ اور پوری نہ ہونے والی خواہشات
بسم اللہ الرحمن الرحیم معزز قارئین زی وقار جیسا کہ گزشتہ اقساط میں اپ نفس اور اسکی خصوصیات و جبلیات سے اگاہ ہوچکے ہیں ۔۔۔ جنہوں نے باقائدگی سے اقساط پڑھی ہیں ان شاء اللہ وہ اس سلسلے کو سہی انداز میں سمجھ پائیں گے ۔۔۔۔
زندگی کے ہر موڑ پر ہر لمحے ہمیں فیصلہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیا ٹھیک ہے کیا غلط ہے کی تلاش میں ہم اپنے ہر مسلے کو ایک موضوع یا object کے طور پر لیتے ہوئے اپنے زہن میں موجود ماضی کے تمام ڈیٹا کو استمال کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں جس پر یقینی طور پر ہمارے مستقبل کا تمام تر انحصار ہوتا ہے ۔۔۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم درست فیصلہ کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم حقائق کو نظر انداز کرکے زندگی کے تمام تر فیصلے اپنی فطرت اور پسند نا پسند کے حوالے سے کررہے ہیں ؟؟؟
انسان کے ساتھ ایک بڑا مسلہ یہ ہے کہ اسے زندگی آئیڈیل صورتحال میں نہیں بلکہ ہمیشہ دی گئی صورتحال میں گزارنی پڑتی ہے عام لفظوں میں کہا جائے تو انسان کے لیے قانون قدرت ہے کہ وہ حقیقت پسندی پر زندگی گزارے ۔۔۔۔۔ خیالاتی زندگی نہیں۔۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ عظیم اکثیریت ساری زندگی دی گئی صورتحال کو پسند یا آئڈیل صورتحال میں تبدیل کرنے میں گزار دیتی ہے ۔۔۔۔ یہ سب کم علمی کا نتیجہ ہے اور اس کی بہت بھیانک قیسمت انسان کو ادا کرنا پڑتی ہے ۔۔۔
نفس کی فطرت ہے کہ یہ اپنا تجزیہ خود کرنے میں ماہر خود کو ماہر سمجھتا ہے ۔۔۔۔ خود کو analytical expert سمجھتا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔۔ تجزیہ چونکہ کم تربیت یافتہ نفس کے ندیک صرف سوچنے سے ہی ممکن ہے اس لیے ہوتا کچھ یوں ہے کہ سوچ اپنے آپ کو دوحصوں میں تقسیم کرلیتی ہے ۔۔۔ ایک حصہ مسلہ بن جاتا ہے اور دوسرا تجزیہ کار ۔۔۔۔ خود چوچئے غور کیجیے اگر دو انسانوں کے درمیاں کوئی اختلاف ہوجائے تو کیا ان دونوں میں سے کوی ایک فرد جو خود فریق ہے وہ درست فیصلہ کرسکتا ہے ؟؟ انصاف کرسکتا ہے ؟؟ ایسا ممکن ہی نہیں ۔۔۔۔ کسی تیسرے کی ضرورت پڑتی ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ غیر جانبداری سے ہی درست فیصلہ ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ غیر تربیت یافتہ نفس کے ساتھ سب سے بڑا مسلہ یہی ہے کہ یہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ کیونکہ اسے خود اپنی زات سے بلا کی ہمدردی ہوتی ہے۔۔۔۔ ایسی ہمدرد سوچ کے ساتھ کوئی خود سے کیسے انصاف کرسکتا ہے ۔۔۔۔
درست تجزیہ کرنے پر ہی اچھے فیصلے کا تمام دارومدار ہوتا ہے ۔ اور درست غیر جانبدار تجزیہ کم علم کم عقل یعنی محدود سوچ و خیالات سے ہرگز ممکن نہیں ۔۔۔ اس کے لیے بصیرت درکار ہے ۔۔۔۔ بے پناہ تیز ترین بصیرت۔۔۔۔ اگر اپ اپنی سوچ پر اعتبار کیے بغیر سامنے موجود حل طلب صورت حال یا کسی مسلے پر گہری نظر ڈالیں ۔۔۔۔۔ ایک ایسی نظر ڈالیں جس میں آپ کی زات اور اپ کے کردار کی کوئی جھلک نہ ہو کوئی (میں) نہ ہو صرف معاملہ ہو اور معاملے کا مشاہدہ ہو تو اپ کو معاملے کا اس صورت حال کا اس مسلے کا وہ چہرہ وہ خدو خال بھی دکھائی دیں گے جو اپ کی سوچ اپ کے وہم و گمان میں بھی نہہیں آسکتے ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہسے پہنچا جاسکتا ہے اس کے لیے اگلی اقساط میں ایک باب باندھیں گے مشاہدہ حق کے نام سے ۔۔۔۔۔ ابھی صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ سوچ اپنا تجزیہ خود نہیں کرسکتی ۔۔۔۔ اس موضوع کے ساتھ منسلک پوری نہ ہونے والی خواہشات پر گفتگو کرکے مضمون کو ختم کرتے ہیں ۔۔۔
یہ تمنا بڑی چیز ہے ازل سے ابد تک انسان خواہشات میں جیتا چلا آرہا ہے ۔۔۔۔ لاکھوں اربوں قسم کی خواہشات میں انسان کی روئے زمین پر آنے کے بعد سے اب تک اور روز قیامت تک کی سب سے بڑی خواہش خدا کی پہچان ہے ۔
اس سب سے بڑی خواہش کو اگر انسان پانا چاہتا ہے تو اس خواہش کی ڈیمانڈ ہی یہ ہے کہ دوسری تمام خواہشات اس خواہش پر قربان کردی جائیں ۔۔۔۔ بات کو کھول کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے لیے ہمیں جاننا ہوگا کہ خواہس اہنی اصل میں کیا ہے ۔۔۔
خواہش ایک محرک ہے ۔۔۔۔ ایک motive ہے سوچ خواہش ہے یہ طلب ہے ڈیمانڈ ہے یہ یہاں سے وہاں تک جانے کی سوچ ہے ۔۔۔۔ یہ کچھ بن جانے کا خیال ہے ۔۔۔
یہ وہاں تک جانے کی سوچ ہے جو اس وقت یہاں نہیں ۔۔۔ خواہش زندگی کو حرکت دیتی ہے ۔ اگر خواہش نہ ہوتو زہن مردہ dead ہے اگر اپ کی کوئی خواہش نہیں تو اپ کی کیا سوچ ہے ؟؟؟اس میں بہت بڑا راز چھپا ہے ۔۔۔ ہر انسان کی زندگی میں خواہش ہر سانس کے ساتھ موجود ہے خواہش اپنی اصل میں وسعت کا نام ہے پھیلاو اور آگے بڑھنے کا نام ہے ۔۔۔۔۔
ہر انسان اگے بڑھ رہا ہے ۔۔۔ پھیل رہا ہے جیسے کائنات یہ کہکشائیں بڑھ رہی ہیں اور پھر ایک دن پھٹ جائیں گی اسی طرح انسان بھی آگے بڑھتا ہے ساری زندگی ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے ۔۔۔۔
اَ لْـهَـاكُمُ التَّكَاثُرُ (1)حَتّـٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2)
کثرت کی خواہشوں نے تم کو آلیا یہاں تک کہ تم قبروں میں جاپہنچے
(التکاثر 1 تا 2)
ہم اس کثرت کو سمجھنے میں اکثر مار کھاجاتے ہیں ،،، ہر انسان کی زندگی میں ایک ناسودہ ، نامکمل سلگتی لو دیتی خواہش ہر وقت موجود رہتی ہے ۔۔۔۔ یہ نامکمل خواہش ہر انسان کو بھگا رہی ہے ۔۔۔۔ عظیم اکثریت بلکہ ہم سب آج جہاں ہیں وہاں مطمئن نہیں ہم مذید آگے بڑھنا چاہتے ہیں ،،،،، اس ناتمام خواہش کو زرا کھول کر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر یہ ایسی ہوتی ہے جیسے سکول کے زمانے میں لگتا ہے کہ کالج پہنچ جائیں گے تو بات بن جائے گی ۔۔۔۔ یہی تمنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت مشقت اور انتظار سے گزرتے ہیں ۔۔۔ جس دن کالج پہنچ جاتے ہیں اس دن شعور سطحی طور پر خوش دکھائی دیتا ہے مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد نفس کو یعنی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے خواہش تو پوری ہوگئی مگر جانے کیا بات ہے یہ اچھا تو مگر ویسا نہیں جیسا ہمیں لگتا تھا جیسا ہم سوچتے تھے جیسی ہماری خواہش تھی ۔۔۔۔ نفس کی طفرت ہےکہ جس شے کو پا لیتا ہے جسے دیکھ لیتا ہے اس کی اہمیت انسان کے نزدیک انتہائی تیزی سے کم ہوتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔ rejection کا پروسیس بہت تیزی سے انسان کو پکڑ لیتا ہے خاص کب عام ہوجاتا ہے یہ خبر ہی نہیں ہوتی ۔۔۔۔ پھر ایک اور ناتمام خواہش کا دیا آنکھوں کے آگے لہرانا شروع کردیتا ہے ۔۔۔۔ اور یوں یہ ایک نارکنے والا سلسلہ ہمیں راز حیات میں گھسیٹتا ہوا لے نکلتا ہے ۔۔۔۔۔ ہر خواہش پوری ہوجانے کے بعد اگلی خواہش کو جنم دے کر خود پھیکی پڑتی جاتی ہے ۔۔۔۔ یہاں تک مشاہدہ پہنچے تو خواہش کی دو پرتیں نظر آتی ہیں ۔۔۔۔۔ ایک فنا ہے ہلاک ہے mortality ہے دوسری تاثر expression ہے ۔۔۔
جفس چونکہ جبلی طور پر موت سے آگاہ ہے جانتا ہے کہ وہ مرجائے گا وہ ہلاک ہونے والا ہے لیکن چونکہ اللہ سے بیزار ہے خائف ہے ۔۔۔ اس لیے ہلاکت کے دباو سے نکلنے کے لیے موت کے خوف سے فرار کے لیے خواہشات کا ایک عجب داو کھیلتا ہے جو اہل علم کے سوا کسی کو نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔
یہ خواہش کو بقا immorality کا دھوکہ تخلیق کرنے کلے لیے استمال کرنا سیکھ جاتا ہے ۔۔۔۔ میں کالج پہنچ جاوں گا تو زندگی سلجھ جائے گی ۔۔۔۔ حال میں بیٹھ کر نفس ایک عارضی مدت تخلیق کررہا ہے ۔۔۔ خود کو یقین دلا رہا ہے کہ کالج داخلے تک میرے پاس وقت ہے میں نہیں مروں گا ۔۔۔۔
خود ساختہ مہلت لے رہا ہے ۔۔۔۔ دھوکہ دے رہا ہے ۔۔۔۔ خود کو دھوکہ دیکر جی رہا ہے۔۔۔۔ کسی کا مرجانا ہمارے لیے ایک سچ ہے ایک حقیقت ہے انا للہ وانا الیہ راجعون بہت خلوص سے پڑھتے ہیں جو زندہ ہے اسے مرنا ہے میرا ایمان ہے ۔۔۔۔ لیکن میرا مرجانا؟؟ میری موت؟؟ میری نظر میں ایک خیال ہے ۔۔۔۔۔میرے نزدیک ایک ایسا آئیڈیا جو سچ تو ہوگا لیکن چونکہ وہ آئیڈیا ہے اس لیے ضروری نہیں کہ ابھی سچ ہوجائے دوسرے کی موت کی حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔ اپنی آئیڈیا ہے ۔۔۔۔ واہ سبحان اللہ کیا بات ہے اس عیار اور مکار نفس کی ۔۔۔۔۔!
اپنی اور اپنے اردگرد موجودہ زندگیوں کا جائزہ لیجیے اپ کو یہ طلسم ہر ایک پر چھایا نظر آئے گا ۔۔۔۔۔ کاوروبار سیٹ ہوجائے پھر حج کریں گے ۔۔۔۔ حج تک اپنی زندگی کا یقین دلایا جارہا ہے ۔۔۔۔ حج کے بعد بچیوں کی شادی تک جینا ہے پھر اپنے بچوں کے بچوں کی خوشیاں دیکھنے تک جینا ہے ۔۔۔ جب سب ہوچکا تو پھر۔۔۔۔۔مسجد کا راستہ پکڑ کر اللہ کا نیک بندہ بننے تک جینا ہے ۔۔۔۔ کوئی بھی مرنے کو تیار نہیں ۔۔۔۔ ایک فانی ایک ہلاک ہونے والا انسان اپنے آپ کو عارضی مہلت دیکر دھوکہ دے رہا ہے ۔۔۔۔ جبکہ خالق کائنات کہہ رہا ہے ہرگز نہ کہنا کہ کل یہ کام کروں گا مگر ان شاء اللہ ۔۔۔۔۔
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَىْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا (23)
اِلَّآ اَنْ يَّشَآءَ اللّـٰهُ ۚ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ وَقُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّىْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا (24)
اور کسی چیز کے متعلق یہ ہرگز نہ کہو کہ میں کل اسے کر ہی دوں گا۔مگر یہ کہ اللہ چاہے، اور اپنے رب کو یاد کرلے جب بھول جائے اور کہہ دو امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی بہتر راستہ دکھائے۔
(سورہ الکہف ۔۔۔ 23 تا 24)
اور ہم نے رسم بنا لیا ۔۔۔۔ کبھی دیانتداری سے غور کیا ہے کہ اصل میں ہر کام کرنے سے پہلے ان شاء اللہ کہنے سے مراد کیا واقعی ای وہ ہے جو اللہ چاہتا ہے ؟؟ کیا ہم اس بات کو مان چکے ہیں کہ ہم کبھی بھی کسی بھی وقت مرسکتے ہیں ؟؟؟ نہیں کبھی نہیں ۔۔۔ انسان کبھی تیار نہیں ہوتا ۔۔۔۔ ہاں مگر وہ جس کو اللہ جان بخل سے نجات دے ۔۔۔۔ وہ خواہش بخل کا طلسم توڑسکتا ہے ۔۔۔۔۔
خواہش کی دوسری پر layer تاثر یعنی expression ہے نفس کی مصیبت ہے کہ اسے کبھی خواہش کی مناسبت کا تاثر نہیں مل پاتا ۔۔۔۔۔ ہر خواہش جب پوری ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو ادھوری ہے ۔۔۔ چھوٹی کار تک پہنچنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اصل خواہش تو بڑی کار تھی ۔۔۔۔ یہ لامتناہی چکر ساری سندگی انسان کو ایک ایسا گدھا بنا دیتا ہے جس پر بیٹھنے والے نے ایک چھڑی کے سرے پر سبز گھاس کا گھٹا باندھ کر اسے گدھے کے منہ کے پاس اس کی رسائی سے زرا دور تھام رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔ بھوکا گدھا اس گھاس کے گھٹے میں منہ مارنے کے چکر میں چلتا جاتا ہو مگر وہ کبھی اس گھاس تک پہنچنے والا نہیں کیونکہ گھاس اس پر سوار آدمی کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ ہی آگے بڑھ جاتی ہے ۔۔۔۔۔
اگر نفس اللہ کی مہربانی سے علم حاصل کرلے تو اس میں خدا کو پانے کی خواہش بیدار ہوجاتی ہے یہ خواہش سب سے بڑی ہے اس سے بڑی دوسری کوئی خواہش نہیں جب نفس اس خواہش کو پورا کرنے کی دھن میں لگتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ اللہ لامحدود ہے اسے کبھی کوئی مکمل نہیں پاسکتا ۔۔۔۔ اللہ عزوجل ساکن نہیں ۔۔۔۔ سامنے کی بات ہے کہ اللہ کو کسی میتھڈ یا فارمولے سے نہیں پاسکتے کہ کہیں رکھا ہوا ہے مل جائے گا۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہے ۔۔۔ اس کو پانے کے لیے جب خواہش تڑپ کا روپ اختیار کرتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے ۔۔۔۔ بجلی کے کوندے کی طرح لپک کر آنے والا ایک ایسا احساسجس کی روشنی میں نفس دیکھتا ہے کہ اللہ لامحدود ہے ۔۔۔۔ اسی لمحے نفس کی خواہش کو پہلی بار اس کاتاثر مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔ سکون آجاتا ہے ۔۔۔۔ ایک لامحدود ۔۔۔۔ دوسرے لامحدود سے جاملتا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ وہ مقام ہے جسے عرفان کہتے ہیں۔۔۔۔۔ جہاں خواہش کو قرار ملتا ہے ۔۔۔۔
اب خواہش کبھی ناآسودہ ہوکر واپس نہیں پلٹے گی ۔۔۔۔۔ کبھی مایوس نامید نہ ہوگی کہ اسے اس کا ماخذ مل گیا ہے ۔۔۔۔۔ خواہش یہی چاہتی ہے ۔۔۔۔۔ خواہش کو پیدا کرنے والے کی بھی یہی رضا و منشاء ہے ۔۔۔۔۔ جو اس کو سمجھ گیا ۔۔۔۔ الھکم التکاثر کی سمجھ آگئی۔۔۔۔ یہ قرآن کی ایک آیت کے علم کا حال ہے ۔۔۔۔۔ پوری سورہ مبارکہ پر بات کروں تو اپ بے حال ہوجائیں ۔۔۔۔ اور پورے قرآن میں کتنا علم ہے یہ مالک ہی بہتر جاتنا ہے ۔۔۔
اپنی بے قرار خواہش کو راستہ دکھاو ۔۔۔۔ یہ بھٹک رہی ہے ۔۔۔۔ یہ زات کے مندروں میں ماتم کررہی ہے ۔۔۔۔ اسے اس کا کعبہ دکھاو ۔۔۔۔ اپنی خواہش کو جانے کا راستہ دو ۔۔۔۔ اسے جانا ہے ۔۔۔۔۔ اس کے پاس جس نے اسے پیدا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی وما علینا الاالبلاغ ۔۔۔۔۔۔
فقیر مدینہ غلام نبی قادری نوری