نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے لوگو! میں تم میں ایک عرصہ تک زندگی گزار چکا ہوں۔ کیا تم نہیں سوچتے۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاکیزہ زندگی کو اپنی نبوت کی دلیل قرار دیا ہے ایسا ہی مرزا صاحب کا حال ہے۔ کوئی شخص آپ کی پہلی زندگی میں عیب نہیں نکال سکتا بلکہ آپ کے اشد ترین مخالفوں کی شہادت موجود ہے کہ آپ بڑے پاک تھے چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ کو اعتراف پر ہے۔
جواب
بلاشبہ انبیاء کرام کی پہلی کیا ساری زندگی پاک ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا پاکیزہ زندگی کو دلیل نبوت قرار دیا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ دنیا میں ہزارہا ایسے اشخاص ملیں گے جن کی زندگی عیوب سے خالی ہے پھر کیا وہ بھی نبی مانے جائیں؟
نبی اپنی زندگی کو کئی حیثیتوں میں پیش کرسکتا ہے اول یہ کہ میں امیر ابن امیر ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو پھر کیا میں نے کسی لالچ کی بنا پر دعویٰ نبوت کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت مقصود نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک یتیم بیکس اور غریب تھے۔
دوم یہ کہ نبی کے مخالف اس کو مجنوں وغیرہ قرار دیں (جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا گیا) اور اس کے جواب میں نبی خدا انہیں متوجہ کرے کہ میں تو تم میں کافی عمر گزار چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ میں صحیح الدماغ ہوں پھر کیا تم نہیں سوچتے۔
مرزائی صاحبان کو مسلم ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت بھی مراد نہیں۔
تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ میں نے آج تک اقرار نہیں کیا پھر اب کیسے کرسکتا ہوں۔ یہ صورت بھی غیر معقول ہے کیونکہ کسی شخص کا چالیس سالہ عمر کے بعد مفتری ہو جانا محال نہیں ممکن ہے اور یوں بھی یہ غیر معقول ہے کیونکہ محض پاکیزہ زندگی دلیل نبوت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ مرزا غلام قادیانی خود راقم ہے ۔:
'' پاک ناپاک ہونا بہت کچھ دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا حال سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ پس پاک وہ ہے جس کے پاک ہونے پر خدا گواہی دے۔'' ( بدر جلد 7 نمبر9 مورخہ5؍ مارچ 108ء ص2 والحکم جلد 12 نمبر17 مورخہ 6؍ مارچ 1908 ص5 و ملفوظات مرزا ص447،ج5 )
'' ایک ظاہری راستباز کے لیے صرف یہ دعویٰ کافی نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ اس کے لیے ایک امتیازی نشان چاہیے جو اس کی راستبازی پر گواہ ہو۔ کیونکہ ایسا دعویٰ تو قریباً ہر ایک کرسکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اس کا دامن تمام اقسام کے فسق و فجور سے پاک ہے مگر ایسے دعویٰ پر تسلی کیوں کر ہو کہ فی الحقیقت ایسا ہی امر واقع ہے اگر کسی میں ماوہ سخاوت ہے تو ناموری کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے اگر کوئی عابد زاہد ہے تو ریا کاری بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اگر فسق و فجور سے بچ گیا تو تہی دستی بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض لوگوں کے لعن طعن خوف سے کوئی پارسا بن بیٹھے اور عظمت الٰہی کا کچھ بھی اس کے دل پر اثر نہ ہو پس ظاہر ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا شاید در پردہ کوئی اور اعمال ہوں۔ الخ''( روحانی ص62،ج21 )
تحریرات مرقومہ بالا شاہد ہیں کہ پاک ہونا دلیل صداقت نہیں ہوسکتا پس قرآن کی یہ منشا بھی نہیں۔
اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے جس کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ آیت زیر غور کا سیاق و سباق شاہد ہے کہ کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل دو یا اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ جس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بھلے لوگو! غور تو کرو کہ میں ایک آئی اَن پڑھ ناخواندہ محض انسان ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو کیونکہ میں عرصہ تک تم میں رہ چکا ہوں پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے یہ مجھ اَن پڑھ کی کتاب ہی نہیں ہوسکتی تو میں اسے بدل کیسے سکتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اَن پڑھ ہونا جملہ مخالفین کو مسلم ہے خود مرزا غلام قادیانی کو بھی۔
'' حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اچھا جرنیل نبی ہوتا ہے؟ تو میں کہوں گا یہ ضروری نہیں لیکن کامل نبی کے لیے اچھا جرنیل ہونا ضروری ہے اسی طرح اعلیٰ درجہ کا قاضی ضروری نہیں نبی ہو کافر بھی اچھے جج ہوتے ہیں۔ تو ہر اچھا قاضی بیشک نبی نہیں ہوسکتا۔ لیکن نبی کے لیے اچھا قاضی ہونا ضروری ہے۔'' (قول میاں محمود احمد خلیفہ قادیان الفضل مورخہ یکم اکتوبر 1931ء ص8 )
ٹھیک اسی طرح ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر نبی بیشک پاک ہوتا ہے مگر ہر ایک پاک شخص نبی نہیں ہوتا۔ پس بفرضِ محال مرزا صاحب پاک بھی ہوں تاہم ان کی پاکیزگی نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔
معیار نبوت وہ ہے جس پر تمام انبیاء ورسل برابر اتریں۔ انبیاء سابقین نے نہ تو اپنی گذشتہ زندگی بطور معیار کے پیش کی نہ اس معیار پر تمام انبیاء علیہم السلام اجمعین پورے اتر سکتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے تو اس معیار کا صاف انکار کیا ہے جب کہ فرعون نے ان کی سابقہ زندگی کو قتل قبطی اور احسان فراموشی وغیرہ سے متہم کیا تھا اور کہا تھا:
قَالَ اَلَمْ نربک فینا ولیدًا ولبثت فینا من عمرک سنین وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکفرین۔
موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:
قَالَ فَعَلْتُھَا اِذًاوّ اَنَا مِنَ الضَّآلِیْنَ فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمّا خِفْتُکُمْ۔ ( الشعراء آیت : 19 تا 22 )
مطلب یہ کہ میں اپنی صداقت میں اپنی پہلی زندگی نہیں پیش کر رہا ہوں بلکہ معجزہ عصاوید بیضا پیش کرتا ہوں
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام اہل سدوم کی طرف بھیجے گئے حالانکہ وہ چونکہ سدوم کے باشندے نہ تھے تو سدوم والے حضرت لوط علیہ السلام کی پہلی زندگی سے کیونکر واقف ہوسکتے تھے؟ پس پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت نہیں ہوسکتی۔
بفرض محال اگر پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت بھی ہوسکتی تو پھر مرزا غلام قادیانی اس پر پورا نہیں اتر سکتا کیونکہ وہ بالکل غیر معروف آدمی تھا تو وہ کیونکر اس معیار پر پورے اتر سکتا ہے وہ خود مانتا ہے:
'' پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ اس گذشتہ زمانہ میں جس کو سترہ برس گزر گئے یعنی اس زمانہ میں جبکہ یہ عاجز گوشہ گمنامی پڑا ہوا تھا اور کوئی نہ جانتا تھا کہ کون ہے اور نہ کوئی آتا تھا۔'' ( روحانی ص286، ج11 )
'' اس بات کو عرصہ قریباً بیس برس کا گزر چکا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ مجھ کو بجز قادیان کے چند آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا تھا یہ الہام ہوا۔'' ( روحانی ص254،ج15 )
انبیاء کرام شرک و کفر سے پیدائشاً پاک ہوتے ہیں بخلاف اس کے مرزا غلام قادیانی قبل از دعویٰ نبوت کے بقول خود مشرک تھا کیونکہ وہ عرصہ دراز (52 سال) تک عقیدہ حیات مسیح کے معتقد بلکہ مشتہر و مبلغ رہا اور بعد میں آپ نے کھلے الفاظ میں اس عقیدہ کو شرک قرار دیا نتیجہ صاف ہے کہ مرزا غلام قادیانی پہلے '' خود مشرک تھا۔''
باقی رہا مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور مولانا ثناء اللہ صاحب کا مرزا پر ابتداء حسن ظن رکھنا۔ سو گزارش ہے کہ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سید المرسلین کو بغیر وحی الٰہی کے معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارے اردگرد منافق بہ شکل مومنین منڈلاتے پھرتے میں وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَردُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ( التوبہ آیت : 101 )
لایہ اور اہل مدینہ سے کئی منافق ہیں جنہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نہیں جانتے ہم جانتے ہیں
تو اس کے مقابل مذکورہ بزرگوں کا مرزا غلام قادیانی کی ظاہری شکل پر دھوکہ کھا جانا کون سی بڑی بات ہے۔
اور مولانہ محمد حسین بٹالوی کا ایک خط جو مرزا غلام قادیانی نے خود اپنی کتاب میں نقل کیا اس میں مولانہ محمد حسین کہتے ہیں کہ:
" کادیانی صاحب میں قرآن اور پہلی کتابوں کو اور دین اسلام اور پہلے دینوں کو اور نبی آخر الزماں اور پہلے نبیوں کو سچا جانتا اور مانتا ہوں ۔ اور اس کا یہ لازمہ اور شرط ہے کہ آپ کو جھوٹا جانوں اور آپ کا منکر ہوں ۔ کیونکہ آپ کے عقائد آپ کی تعلیمات آپ کے اخلاق و عادات پہلی کتابوں اور دینوں اور پہلے نبیوں کے مخالف اور متناقض ہیں ، لہذا ان کتابوں ، دینوں ، نبیون کو ماننا تب ہی صحیح اور سچا ہوسکتا ہے کہ آپ کے عقائد اور تعلیمات کو جھوٹا اور آپ کو گمراہ سمجھو۔۔۔۔
اس کے بعد مزید لکھتے ہیں
" زمانہ تالیف براہین احمدیہ کے پہلے آپ کی سوانح عمری کا میں تفصیلی علم نہیں رکھتا "( خزائن جلد 5 صفحہ 310 تا آخر خط )۔۔
لہذا قادیانیوں کے دجل و فریب سے بچنے کے لئے آپ کا ان کے بارے میں مطالعہ اور لازماََ دین اسلام کا مطالعہ بہت لازمی ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس فتہ کی شر سے محفوظ رکھے ، آمین
بشکریہ حاشر احمد
جواب
بلاشبہ انبیاء کرام کی پہلی کیا ساری زندگی پاک ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا پاکیزہ زندگی کو دلیل نبوت قرار دیا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ دنیا میں ہزارہا ایسے اشخاص ملیں گے جن کی زندگی عیوب سے خالی ہے پھر کیا وہ بھی نبی مانے جائیں؟
نبی اپنی زندگی کو کئی حیثیتوں میں پیش کرسکتا ہے اول یہ کہ میں امیر ابن امیر ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو پھر کیا میں نے کسی لالچ کی بنا پر دعویٰ نبوت کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت مقصود نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک یتیم بیکس اور غریب تھے۔
دوم یہ کہ نبی کے مخالف اس کو مجنوں وغیرہ قرار دیں (جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا گیا) اور اس کے جواب میں نبی خدا انہیں متوجہ کرے کہ میں تو تم میں کافی عمر گزار چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ میں صحیح الدماغ ہوں پھر کیا تم نہیں سوچتے۔
مرزائی صاحبان کو مسلم ہے کہ اس جگہ یہ حیثیت بھی مراد نہیں۔
تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ میں نے آج تک اقرار نہیں کیا پھر اب کیسے کرسکتا ہوں۔ یہ صورت بھی غیر معقول ہے کیونکہ کسی شخص کا چالیس سالہ عمر کے بعد مفتری ہو جانا محال نہیں ممکن ہے اور یوں بھی یہ غیر معقول ہے کیونکہ محض پاکیزہ زندگی دلیل نبوت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ مرزا غلام قادیانی خود راقم ہے ۔:
'' پاک ناپاک ہونا بہت کچھ دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا حال سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ پس پاک وہ ہے جس کے پاک ہونے پر خدا گواہی دے۔'' ( بدر جلد 7 نمبر9 مورخہ5؍ مارچ 108ء ص2 والحکم جلد 12 نمبر17 مورخہ 6؍ مارچ 1908 ص5 و ملفوظات مرزا ص447،ج5 )
'' ایک ظاہری راستباز کے لیے صرف یہ دعویٰ کافی نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ اس کے لیے ایک امتیازی نشان چاہیے جو اس کی راستبازی پر گواہ ہو۔ کیونکہ ایسا دعویٰ تو قریباً ہر ایک کرسکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اس کا دامن تمام اقسام کے فسق و فجور سے پاک ہے مگر ایسے دعویٰ پر تسلی کیوں کر ہو کہ فی الحقیقت ایسا ہی امر واقع ہے اگر کسی میں ماوہ سخاوت ہے تو ناموری کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے اگر کوئی عابد زاہد ہے تو ریا کاری بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اگر فسق و فجور سے بچ گیا تو تہی دستی بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض لوگوں کے لعن طعن خوف سے کوئی پارسا بن بیٹھے اور عظمت الٰہی کا کچھ بھی اس کے دل پر اثر نہ ہو پس ظاہر ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا شاید در پردہ کوئی اور اعمال ہوں۔ الخ''( روحانی ص62،ج21 )
تحریرات مرقومہ بالا شاہد ہیں کہ پاک ہونا دلیل صداقت نہیں ہوسکتا پس قرآن کی یہ منشا بھی نہیں۔
اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے جس کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ آیت زیر غور کا سیاق و سباق شاہد ہے کہ کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل دو یا اس کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ جس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بھلے لوگو! غور تو کرو کہ میں ایک آئی اَن پڑھ ناخواندہ محض انسان ہوں اور تم بخوبی جانتے ہو کیونکہ میں عرصہ تک تم میں رہ چکا ہوں پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے یہ مجھ اَن پڑھ کی کتاب ہی نہیں ہوسکتی تو میں اسے بدل کیسے سکتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اَن پڑھ ہونا جملہ مخالفین کو مسلم ہے خود مرزا غلام قادیانی کو بھی۔
'' حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اچھا جرنیل نبی ہوتا ہے؟ تو میں کہوں گا یہ ضروری نہیں لیکن کامل نبی کے لیے اچھا جرنیل ہونا ضروری ہے اسی طرح اعلیٰ درجہ کا قاضی ضروری نہیں نبی ہو کافر بھی اچھے جج ہوتے ہیں۔ تو ہر اچھا قاضی بیشک نبی نہیں ہوسکتا۔ لیکن نبی کے لیے اچھا قاضی ہونا ضروری ہے۔'' (قول میاں محمود احمد خلیفہ قادیان الفضل مورخہ یکم اکتوبر 1931ء ص8 )
ٹھیک اسی طرح ہم مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر نبی بیشک پاک ہوتا ہے مگر ہر ایک پاک شخص نبی نہیں ہوتا۔ پس بفرضِ محال مرزا صاحب پاک بھی ہوں تاہم ان کی پاکیزگی نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔
معیار نبوت وہ ہے جس پر تمام انبیاء ورسل برابر اتریں۔ انبیاء سابقین نے نہ تو اپنی گذشتہ زندگی بطور معیار کے پیش کی نہ اس معیار پر تمام انبیاء علیہم السلام اجمعین پورے اتر سکتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے تو اس معیار کا صاف انکار کیا ہے جب کہ فرعون نے ان کی سابقہ زندگی کو قتل قبطی اور احسان فراموشی وغیرہ سے متہم کیا تھا اور کہا تھا:
قَالَ اَلَمْ نربک فینا ولیدًا ولبثت فینا من عمرک سنین وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکفرین۔
موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:
قَالَ فَعَلْتُھَا اِذًاوّ اَنَا مِنَ الضَّآلِیْنَ فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمّا خِفْتُکُمْ۔ ( الشعراء آیت : 19 تا 22 )
مطلب یہ کہ میں اپنی صداقت میں اپنی پہلی زندگی نہیں پیش کر رہا ہوں بلکہ معجزہ عصاوید بیضا پیش کرتا ہوں
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام اہل سدوم کی طرف بھیجے گئے حالانکہ وہ چونکہ سدوم کے باشندے نہ تھے تو سدوم والے حضرت لوط علیہ السلام کی پہلی زندگی سے کیونکر واقف ہوسکتے تھے؟ پس پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت نہیں ہوسکتی۔
بفرض محال اگر پیغمبر کی سابقہ زندگی معیار نبوت بھی ہوسکتی تو پھر مرزا غلام قادیانی اس پر پورا نہیں اتر سکتا کیونکہ وہ بالکل غیر معروف آدمی تھا تو وہ کیونکر اس معیار پر پورے اتر سکتا ہے وہ خود مانتا ہے:
'' پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ اس گذشتہ زمانہ میں جس کو سترہ برس گزر گئے یعنی اس زمانہ میں جبکہ یہ عاجز گوشہ گمنامی پڑا ہوا تھا اور کوئی نہ جانتا تھا کہ کون ہے اور نہ کوئی آتا تھا۔'' ( روحانی ص286، ج11 )
'' اس بات کو عرصہ قریباً بیس برس کا گزر چکا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ مجھ کو بجز قادیان کے چند آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا تھا یہ الہام ہوا۔'' ( روحانی ص254،ج15 )
انبیاء کرام شرک و کفر سے پیدائشاً پاک ہوتے ہیں بخلاف اس کے مرزا غلام قادیانی قبل از دعویٰ نبوت کے بقول خود مشرک تھا کیونکہ وہ عرصہ دراز (52 سال) تک عقیدہ حیات مسیح کے معتقد بلکہ مشتہر و مبلغ رہا اور بعد میں آپ نے کھلے الفاظ میں اس عقیدہ کو شرک قرار دیا نتیجہ صاف ہے کہ مرزا غلام قادیانی پہلے '' خود مشرک تھا۔''
باقی رہا مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور مولانا ثناء اللہ صاحب کا مرزا پر ابتداء حسن ظن رکھنا۔ سو گزارش ہے کہ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے سید المرسلین کو بغیر وحی الٰہی کے معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارے اردگرد منافق بہ شکل مومنین منڈلاتے پھرتے میں وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَردُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ( التوبہ آیت : 101 )
لایہ اور اہل مدینہ سے کئی منافق ہیں جنہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نہیں جانتے ہم جانتے ہیں
تو اس کے مقابل مذکورہ بزرگوں کا مرزا غلام قادیانی کی ظاہری شکل پر دھوکہ کھا جانا کون سی بڑی بات ہے۔
اور مولانہ محمد حسین بٹالوی کا ایک خط جو مرزا غلام قادیانی نے خود اپنی کتاب میں نقل کیا اس میں مولانہ محمد حسین کہتے ہیں کہ:
" کادیانی صاحب میں قرآن اور پہلی کتابوں کو اور دین اسلام اور پہلے دینوں کو اور نبی آخر الزماں اور پہلے نبیوں کو سچا جانتا اور مانتا ہوں ۔ اور اس کا یہ لازمہ اور شرط ہے کہ آپ کو جھوٹا جانوں اور آپ کا منکر ہوں ۔ کیونکہ آپ کے عقائد آپ کی تعلیمات آپ کے اخلاق و عادات پہلی کتابوں اور دینوں اور پہلے نبیوں کے مخالف اور متناقض ہیں ، لہذا ان کتابوں ، دینوں ، نبیون کو ماننا تب ہی صحیح اور سچا ہوسکتا ہے کہ آپ کے عقائد اور تعلیمات کو جھوٹا اور آپ کو گمراہ سمجھو۔۔۔۔
اس کے بعد مزید لکھتے ہیں
" زمانہ تالیف براہین احمدیہ کے پہلے آپ کی سوانح عمری کا میں تفصیلی علم نہیں رکھتا "( خزائن جلد 5 صفحہ 310 تا آخر خط )۔۔
لہذا قادیانیوں کے دجل و فریب سے بچنے کے لئے آپ کا ان کے بارے میں مطالعہ اور لازماََ دین اسلام کا مطالعہ بہت لازمی ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس فتہ کی شر سے محفوظ رکھے ، آمین
بشکریہ حاشر احمد