• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تردید صداقت مرزاقادیانی ( تحریف نمبر: ۳ فقد بثت فیکم)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تردید صداقت مرزاقادیانی ( تحریف نمبر: ۳ فقد بثت فیکم)
فقد بثت فیکم
تحریف نمبر: ۳… ’’فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون (یونس :۱۶)‘‘
جواب نمبر:۱… مرزاقادیانی کے دعویٔ مسیحیت ومجددیت وغیرہ کے بعد بجائے دیانت داری، تقویٰ وطہارت کے، کذب بیانی، وعدہ خلافی، خیانت، تحریف قرآنی، انکار معجزات، انکار از نزول ملائکہ، ترک حج، دنیا پرستی، سب وشتم وغیرہ عیوب اس میں نظر آتے ہیں۔ عیاں راچہ بیان!
دعویٰ سے قبل
۱… مرزاقادیانی کے بچپن کے حالات میں گذر چکا ہے کہ وہ گھر سے چوری کرتا تھا۔
۲… جوانی میں دادا کی پنشن وصول کر کے کھا گیا۔
۳… لوگوں سے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدوں کے پیسے لے کر پانچ جلدیں لکھیں۔ پینتالیس جلدوں کے پیسے کھا گیا۔ حرام کھایا۔
۴… حکیم نورالدین کے ساتھ مل کر فراڈ کرتا تھا۔ نورالدین کی مرزاقادیانی کے دعویٰ سے قبل کی شناسائی تھی۔
مرزاقادیانی کے (مکتوبات ج۵ حصہ دوم ص۳۵، مکتوب نمبر۲۵) پر نظر ڈالیں تو ایک نئی بات کا انکشاف ہوگا۔ فریب، دھوکہ، حب مال کا شاخسانہ ہے۔ میرے خیال میں آج تک شاید کسی بڑے سے بڑے فریبی وفراڈی دنیا دار نے یہ چال نہ چلی ہوگی جو ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ اور حکیم نورالدین نے چلی۔ عقل حیران رہ گئی۔ ششد ررہ گیا کہ یا اﷲ! اس طرح کا مکروفریب تو کسی کمینے دنیا دار کو بھی شیطان نے نہ سکھلایا ہوگا۔ بلکہ میرے خیال میں شیطان کو خود یہ تدبیر نہ سوجھی ہوگی جو مرزا غلام احمد قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی کو سوجھی۔ ایسی چال چلی کہ فراڈ کا نیا ریکارڈ قائم کردیا۔
قارئین کرام! انگریز کے زمانہ میں اور اس وقت بھی محفوظ ذرائع سے رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ بھجوانے کے دو طریقے ہیں۔ بینک سے رقم بھجوانا یا ڈاک خانہ سے منی آرڈر وغیرہ کے ذریعہ سے۔ بینک سے رقم بھجوائیں تو ڈرافٹ وغیرہ! اس پر سرچارج اور سروس چارجز ادا کرنے کے علاوہ ڈرافٹ رجسٹرڈ ڈاک سے بھجوانا ہوگا۔ رقم زیادہ ہوتو اس پر خاصہ خرچ آتا ہے۔ منی آرڈر یا تارمنی پر بھی خرچ آتا ہے۔ اب مرزا قادیانی کے پاس حکیم نورالدین اس زمانہ میں کشمیر سے پنجاب قادیان رقم بھجوانا چاہتا ہے۔ رقم بھی خاصی ہے۔ یعنی اس زمانہ میں پانچ سو روپیہ بھارتی جموں وکشمیر سے بھارتی پنجاب قادیان بھجوانی ہے جس زمانہ میں مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر ایم اے کی (سیرت المہدی ج اوّل ص۱۸۲) کے مطابق :’’ایک آنہ کا سیر گوشت ملتا تھا۔‘‘ حساب لگائیں کہ:
۱… ایک روپیہ کے سولہ آنے۔ ایک آنہ کا ایک کلو گوشت۔ تو پانچ سو روپے کا گوشت آٹھ ہزار کلو۔ اس زمانہ میں ملتا تھا۔ آج کل گوشت کی قیمت عموماً چار سو روپے کلو ہے۔ آٹھ ہزار کلو گوشت آج خریدنا چاہیں تو آٹھ ہزار کو چار سو سے ضرب دیں۔ یہ بتیس لاکھ روپیہ بنتا ہے۔
۲… یا یوں حساب لگائیں کہ اس زمانہ کا ایک گلو گوشت ایک آنہ میں جو آج کل چار سو روپے کے برابر ہے۔ سولہ آنہ کو چار سو سے ضرب دیں تو چونسٹھ سو روپیہ بنتا ہے۔ گویا اس زمانہ کا ایک روپیہ آج کل کے چونسٹھ سو روپیہ کے برابر ہے۔ اس زمانہ کے پانچ صد روپیہ کی رقم آج کل کے حساب سے لگانی ہو تو چونسٹھ صد کو پانچ صد سے ضرب دیں۔ تو نتیجہ وہی بتیس لاکھ روپیہ ہوتا ہے۔
چلیں حساب ہوگیا۔ بتیس لاکھ آج بینک سے یا ڈاکخانہ سے بھجوانے ہوں تو جتنا خرچہ آئے گا اتنا خرچہ ’’نورالدین قادیانی‘‘ کو پانچ صد روپیہ پر اس زمانہ میں خرچ کرنا پڑتا۔ آج کل مہنگائی کے چکر کو قادیانی نہ روئیں۔ حکیم نورالدین کے چکر کو دیکھیں کہ اس زمانہ میں پانچ صد روپیہ بھجوانے پر دس بارہ روپے بھی اس دور میں خرچ ہوتے تو روپے کے حساب کو سامنے رکھیں تو اس زمانہ کے دس بارہ روپے بھی آج کل کے حساب سے خاصی رقم تھی۔ ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین قادیانی‘‘ اس خاصی رقم سے بچنے کے لئے کیا چال چلتے ہیں؟۔
سوچا کہ اگر پانچ صد روپیہ کا نوٹ لفافہ میں ڈال کر بھیج دیں۔ ظاہر ہے کہ اس دور میں بھی آج کل کی طرح لفافہ میں نوٹ ڈال کر بھیجنا خلاف قانون تھا۔ اور یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں لفافہ سنسر ہوگیا یا کسی نے کھول کر پانچ صد روپیہ کا نوٹ نکال لیا تو ’’مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین‘‘ دنیا داربنئے کی طرح جو دس بارہ روپے خرچ نہیں کرتے وہ پانچ صد روپے ضائع ہونے یا نکال لینے پر ویسے ہی آنجہانی ہوجاتے۔
حکیم نورالدین نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے (اس باہمی مشورہ کے لفظ کو یاد رکھیں۔اس کی خبر بعد میں لیں گے۔ پہلے مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کی خبر قادیانی لے لیں!) نورالدین نے پانچ صد روپے کے نوٹ کے دو ٹکڑے کئے۔ ایک ٹکڑا بیکار ہے۔ اسے بھیجنا قانون کی خلاف ورزی نہیں۔ اس لئے کہ ردی کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ کوئی کھولے بھی تو ردی کاغذ کا ٹکڑا اس کے کس کام کا؟۔ پہنچ گیا آدھا ٹکڑا نوٹ کا، قادیان۔ اب مرزا قادیانی نے اسے محفوظ کرکے ’’حکیم نورالدین‘‘ کو خط سے اطلاع دی کہ پانچ صد روپیہ کے نوٹ کا ایک قطعہ مل گیا ہے۔ اب دوسرا بھیج دیں۔ لیکن احتیاط کریں۔ بارشیں ہیں۔ بارش میں بھیگ کر ضائع نہ ہوجائے۔ اس لئے کہ آج کل کی طرح ڈاکئے اس زمانہ میں بھی عام ڈاک کی زیادہ احتیاط نہ کرتے تھے۔ اب کے دوسرا ٹکڑا بھیج دیں۔ لیکن رجسٹرڈ ڈاک سے۔ قادیان پہنچ گیا دوسرا ٹکڑا۔ اب پانچ صد روپیہ کا نوٹ جوڑ کر مرزا قادیانی قادیان میں اور حکیم نورالدین کشمیر میں اس کامیاب ’’انوکھے فراڈ‘‘ پر جشن منائیں اور صدارت کرے اس جشن کی ابلیس، اور مبارک باد دے۔ باپ، بیٹے، مرزا قادیانی اور حکیم نورالدین کو کہ آپ نے وہ کر دکھایا جو آج تک میرے کسی چیلے کو کیا خود مجھے بھی نہ سوجھی تھی۔قارئین کرام! انتظار کی زحمت کو معاف فرمائیں اور پڑھیں مرزا قادیانی کے مکتوب کو:
مخدومی ومکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘
’’آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سوروپیہ پہنچ گیا۔ چونکہ موسم برسات کا ہے۔ اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑہ رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرمائیں تو انشاء اﷲ روپیہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے۔‘‘ خاکسار غلام احمد از قادیان۱۱جولائی۱۸۸۷ء
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ دوم ص۳۵مطبوعہ راست گفتار پریس امرتسر)
اب قادیانیوں سے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول علیہ السلام کے نام پر۔ نہیں تو شرف انسانیت کے نام پر (ان سے) اپیل ہے کہ وہ ہماری تمہیدات اور مرزا قادیانی کے خط کے مندرجات کو بار بار ٹھنڈے دل سے پڑھیں کہ ایسے فراڈ ئے مذہبی رہنما تھے؟۔ یا فراڈ کے چمپئن اور شیطان کے کان کترنے والے ٹھگ اور مکار؟۔
ہماری تلخ نوائی کو قادیانی معاف کریں۔ ہم جب مرزا قادیانی کے ان بیہودہ افعال اور کفریہ اقوال کو دیکھتے ہیں اور پھر آپ لوگوں کی سادگی، تو یہ امر ہمیں تلخ نوائی پر مجبور کردیتے ہیں۔ ’’باہمی مشورہ‘‘ کا لفظ اس لئے لکھا کہ مرزا قادیانی نے لفافہ کھولتے ہی پانچ صد روپیہ کے ایک ٹکڑا کو دیکھتے ہی کوئی تعجب نہیں کیا۔ بلکہ جھٹ سے اس کے ملنے کی اطلاع یابی کے لئے خط لکھ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام دونوں نے ’’باہمی مشورہ‘‘ سے کیا۔ فرمائیے آپ کی کیا رائے ہے؟۔
ایک اور امر رہ جاتا ہے کہ کیا وہ دوسرا ٹکڑا پانچ صد روپیہ کا نورالدین نے ’’کشمیر‘‘ سے ’’قادیان‘‘ مرزا قادیانی کوبھیجا اس کا جواب اسی کتاب کے اسی صفحہ پر موجود ہے کہ مرزا قادیانی نے دوسرے مکتوب (نمبر۲۶)میں لکھا ہے کہ: ’’آج نصف قطعہ (دوسرا) نوٹ پانچ سو روپیہ بذریعہ رجسٹری شدہ پہنچ گیا۔‘‘ اس دوسرے ٹکڑا نوٹ پانچ صد ملنے کی اطلاع یابی کے خط پر ۲۶؍جولائی۱۸۸۷ء ہے۔ گویا پندرہ دنوں میں دونوں کامیاب فراڈ کرکے فارغ ہوگئے۔ اس فراڈ کو اب ’’مرزا قادیانی اور نورالدین‘‘ نے کاروبار بنالیا۔ چنانچہ نورالدین نے دوصد چالیس روپے اس کے بعد مرزا قادیانی کو بھجوائے۔ لیکن نوٹوں کے آدھے آدھے حصے تھے۔ جب وہ مل گئے تو پھر اسی دو صد چالیس کے نوٹوں کے دوسرے باقیماندہ ٹکڑے بھجوادئیے۔ چنانچہ ۳۱؍اکتوبر ۱۸۸۷ء کے ’’مکتوب بنام نورالدین‘‘ میں مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’بقیہ نصف نوٹ دوصد چالیس روپیہ بھی پہنچ گئے۔‘‘ (مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
قارئین کرام! اس سے کہیں زیادہ درد ناک پہلو یہ ہے کہ اس کارستانی ’’کارشیطانی‘‘ پر مرزا قادیانی، حکیم نورالدین کو لکھتا ہے کہ:’’ اور میں نہایت ممنون ہوں کہ آںمکرم بروش صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دل سے اور پورے جوش سے نصرت اسلام میں مشغول ہیں۔‘‘
(مکتوبات ج۵ نمبر۲ص۴۵)
لیجئے! اب حکیم نورالدین صحابی بن گیا اور مرزا غلام احمد قادیانی نبی بن گیا۔ (معاذاﷲ) کیا قادیانیوں میں کوئی اﷲ کا بندہ ایسا ہے جو اس انوکھے فراڈ کے کیس پر توجہ کرکے فراڈ نرا فراڈ یعنی قادیانیت سے تائب ہوجائے؟۔
مرزاقادیانی کے بیس برس مرید خاص رہے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم خان، انہوں نے کہا کہ مرزامسرف وکذاب ہے۔ الٰہی بخش، میر عباس سب کا یہی حال تھا۔ اس زمانہ کے وہ لوگ جو مرزاقادیانی کے حالات جانتے تھے۔ جیسا کہ گذرچکا انہوں نے مرزاقادیانی کو رشوت وحرام مال کھانے والا کہا۔ مرزاقادیانی شراب منگواتا تھا۔ جیسا کہ ’’خطوط امام بنام غلام‘‘ سے ظاہر ہے۔ مرزاقادیانی غیرمحرم عورتوں سے اختلاط رکھتا تھا۔
صدق نبوت کی ایک دلیل
ایسی زاہدانہ زندگی جس میں اوّل سے آخر تک کوئی تفاوت نہ ہو۔ غربت اور امارت کے زمانہ میں یکساں طرز عمل، اور دولت دنیا سے بے تعلقی بے اثری خود مرزاقادیانی کے نزدیک نبوت محمدی کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ وہ لکھتا ہے اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبۂ اسلام کا ہوا تو ان دولت واقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی، کوئی یادگار تیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت تجویز نہ کیاگیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبرگیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر کھانا نہ کھایا۔
دین کا داعی یا سیاسی قائد؟
اب ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر جو خود مرزاقادیانی نے ہم کو دیا ہے اور جو مزاج نبوت کے عین مطابق ہے۔ ہم خود مرزاقادیانی کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم کو اس مطالعہ میں نظر آتا ہے کہ جب ان کی تحریک پھیل گئی، اور وہ ایک بڑے فرقہ کے روحانی پیشوا اور اس کی عقیدتوں اور فیاضانہ اولوالعزمیوں کا مرکز بن گئے، تو ان کی ابتدائی اور اس آخری زندگی میں بڑا فرق نمایاں ہوا۔ ہمیں اس موقع پر ان کے حالات دین کے داعیوں اور مبلغوں اور درس گاہ نبوت کے فیض یافتہ نفوس قدسیہ سے الگ سیاسی قائدین اور غیردینی تحریکوں کے بانیوں سے ملتے جلتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ چیز ان کے مخلص ومقرب ساتھیوں کے لئے بھی اضطراب کا باعث ہوئی اور دل کی بات زبانوں پر آنے لگی۔
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی جس ترفہ اور جیسے تجمل اور تنعم کی تھی۔ وہ راسخ الاعتقاد متبعین کے لئے بھی ایک شبہ اور اعتراض کا موجب بن گئی تھی۔ ’’خواجہ کمال الدین صاحب‘‘ نے ایک روز اپنے مخصوص دوستوں کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا کہ ان کے گھر کی جوبیبیاں مرزاقادیانی کے گھر کی رہائش اور معیار زندگی دیکھ چکی ہیں۔ وہ کس طرح سے ایثار وقناعت اور سلسلہ کی اشاعت وترقی کے لئے اپنی ضرورتوں سے پس انداز کر کے روپیہ بھیجنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ مولوی محمد علی (امیر جماعت احمدیہ لاہور) اور قادیانی جماعت کے مشہور عالم مولوی سرور شاہ قادیانی سے کہا: ’’میرا ایک سوال ہے جس کا جواب مجھے نہیں آتا۔ میں اسے پیش کرتا ہوں۔ آپ اس کا جواب دیں۔ پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیائo وصحابہe والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم وخشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اﷲ کی راہ میں دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے۔ لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا، تو واپس آکر ہمارے سر پر چڑھ گئیں، کہ تم تو بڑے جھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جاکر خود انبیاء وصحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے، اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ کمایا ہوا ہوتا ہے، اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے، وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے۔ لہٰذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر اس عرصۂ دراز تک ہم کو دھوکا دیتے رہے، اور آئندہ ہرگز ہم تمہارے دھوکے میں نہ آویں گی۔ پس وہ اب ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں۔‘‘
خواجہ صاحب نے یہ بھی فرمایا: ’’ایک جواب تم لوگوں کو یاد کرتے ہو۔ پھر تمہارا وہ جواب میرے آگے نہیں چل سکتا۔ کیونکہ میں خود واقف ہوں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۳)
اور پھر بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا۔
مالی اعتراضات
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں ان کی نگرانی میں لنگر کا جو انتظام تھا۔ اس سے بہت سے مخلصین مطمئن نہیں تھے۔ ان کے نزدیک اس میں بہت سی بے عنوانیاں ہوتی تھیں۔ اس بحث نے بہت طول کھینچا۔ معترضین میں خواجہ کمال الدین پیش پیش تھے اور مولوی محمد علی بھی ان کے مؤید تھے۔ خواجہ کمال الدین نے ایک موقع پر مولوی محمد علی سے کہا: ’’یہ کیسے غضب کی بات ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ قوم کا روپیہ کس محنت سے جمع ہوتا ہے اور جن اغراض قومی کے لئے روپیہ دیتے ہیں۔ وہ روپیہ ان اغراض میں صرف نہیں ہوتا۔ بلکہ بجائے اس کے شخصی خواہشات میں صرف ہوتا ہے اور پھر وہ روپیہ بھی اس قدر کثیر ہے کہ اس وقت جس قدر قومی کام آپ نے شروع کئے ہوئے ہیں اور روپیہ کی کمی کی وجہ سے پورے نہیں ہوسکے اور ناقص حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لنگر کا روپیہ اچھی طرح سے سنبھالا جائے تو اکیلے اسی سے وہ سارے کام پورے ہوسکتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
یہ اعتراضات مرزاقادیانی کے کان تک بھی پہنچے اور انہوں نے اس پر بڑی ناگواری وناراضگی کا اظہار کیا۔ مولوی سرور شاہ لکھتا ہے: ’’مجھے پختہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے بہت اظہار رنج فرمایا ہے کہ باوجود میرے بتانے کے کہ خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جائے گا۔ مگر یہ خواجہ وغیرہ ایسے ہیں کہ باربار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا انتظام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔‘‘ (کشف الاختلاف ص۱۵)
خود مرزاقادیانی نے اپنے انتقال سے کچھ پہلے اس مالی الزام کا تذکرہ اور اس پر اپنے رنج وملال کا اظہار کیا۔ مرزابشیرالدین، مولوی حکیم نورالدین کے نام ایک خط میں لکھتا ہے: ’’حضرت صاحب نے اپنی وفات سے پہلے جس دن وفات ہوئی اس دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہا کہ خواجہ (کمال الدین) اور مولوی محمد علی وغیرہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب، مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے کہ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھر میں آکر آپ نے بہت غصہ ظاہر کیا۔ کہا: کہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں۔ ان کو اس روپیہ سے کیا تعلق۔ اگر آج میں الگ ہو جاؤں تو سب آمدن بند ہو جائے۔‘‘
پھر خواجہ صاحب نے ایک ڈیپوٹیشن کے موقع پر جو عمارت مدرسہ کا چندہ لینے گیا تھا۔ مولوی محمد علی سے کہا کہ حضرت (مرزاقادیانی) صاحب آپ تو خوب عیش وآرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خرچ گھٹا کر بھی چندہ دو، جس کا جواب مولوی محمد علی نے یہ دیا کہ ہاں اس کا انکار تو نہیں ہوسکتا۔ لیکن بشریت ہے۔ کیا ضرور کہ ہم نبی کی بشریت کی پیروی کریں۔ (حقیقت الاختلاف ص۵۰)
آمدنی کے نئے نئے ذرائع
مرزاقادیانی ہی کی زندگی میں قادیان کے ’’بہشتی مقبرہ‘‘ میں جگہ پانے کے لئے جو شرائط وضع کی گئیں اور ایک قبر کی جگہ کے لئے جو گراں قدر قیمت اور نذرانہ رکھاگیا اور اس کا جس ترغیب وتشویق کے ساتھ اعلان کیاگیا۔ اس نے قرون وسطیٰ کے ’’ارباب کلیسا‘‘ کے ’’پروانہ غفران‘‘ کے بیع وشراء اور جنت کی قبالہ فروشی کی یاد تازہ کر دی، اور مرکز قادیان کے لئے آمدنی کا ایک وسیع ومستقل سلسلہ شروع ہوگیا، اور وہ رفتہ رفتہ سلسلۂ قادیانیت کا ایک عظیم محکمہ بن گیا۔ قادیان کے ترجمان ’’الفضل‘‘ نے اپنی ایک اشاعت میں صحیح لکھا ہے کہ: ’’مقبرۂ بہشتی اس سلسلہ کا ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے اور ایسا عظیم الشان انسٹیٹیوشن یعنی محکمہ ہے جس کی اہمیت ہر دوسرے محکمہ سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۴ نمبر۲۵، مورخہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۶ئ)
قادیان اور ربوہ کی دینی ریاست
اس سارے آغاز کا انجام یہ ہوا کہ ’’تحریک قادیانیت‘‘ کا مرکز قادیان اور تقسیم ہند کے بعد سے اس کا جانشین ’’ربوہ‘‘ ایک اہم دینی ریاست بن گیا۔ جس میں قادیان کے خاندان نبوت اور اس کے صدر نشین ’’مرزابشیرالدین محمود‘‘ کو امارت وریاست کے وہ سب لوازم ایک مذہبی آمر اور مطلق العنان فرمانروا کے سب اختیارات اور خوش باشی وعیش کوشی کے وہ سب مواقع مہیا ہیں۔ جو اس زمانہ میں کسی بڑے سے بڑے انسان کو مہیا ہو سکتے ہیں۔ اس دینی وروحانی مرکز کی اندرونی زندگی اور اس کے امیر کی اخلاقی حالت ’’حسن بن صباح‘‘ باطنی کے ’’قلعۂ الموت‘‘ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں مذہبی استبداد اور عیش وعشرت کا ایک پراسرار مرکز تھا۔
دور حاضر کا مذہبی آمر اور انگریز
پھر اگر قادیانیوں کو مرزاقادیانی کی زندگی پیش کرنے کا شوق ہے تو مرزاقادیانی نے جو خود اپنا مقصد زندگی بیان کیا ہے۔ وہ ذیل میں ملاحظہ کیا جائے۔ مرزاقادیانی نے باربار اپنی وفاداری، اور اخلاص، اور اپنی خاندانی خدمات، اور انگریزی حکومت کی تائید وحمایت میں اپنی سرگرمی اور انہماک کا ذکر کیا ہے، اور ایک ایسے زمانے میں جب مسلمانوں میں دینی حمیت کو بیدار کرنے کی سخت ضرورت تھی۔ باربار جہاد کے حرام وممنوع ہونے کا اعلان کیا۔ یہاں پر نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند عبارتیں اور اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک جگہ مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور ’’مہدی خونی‘‘ اور ’’مسیح خونی‘‘ کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
اپنی کتاب (شہادت القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰) کے آخر میں لکھتا ہے: ’’میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں۔ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کرے۔ دوسرے اس سلطنت کی کہ جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
(اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۳، کتاب شہادۃ القرآن کے آخر میں)
ایک درخواست میں جو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء کو پیش کی گئی تھی، لکھتا ہے: ’’دوسرا امر قابل گذارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر کو پہنچا ہوں، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ تا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں۔ جو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں… اور میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں پر میری تحریروں کا بہت ہی اثر ہوا اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’میں نے بیسیوں کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہرگز جہاد درست نہیں۔ بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلام میں پہنچائیں اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی سے لبالب ہیں۔ ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لئے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لئے دلی جان نثار۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۶،۳۶۷)
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی۔ وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں، اور رسائل، اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلام میں اس مضمون کے شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اس گورنمنٹ کی سچے دل سے اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکرگزار اور دعاگو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو، فارسی، عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکے اور مدینے میں بھی بخوبی شائع کردیں اور روم کے پایۂ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی گئی۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ’’برٹش انڈیا‘‘ کے تمام مسلمانوں میں اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا۔‘‘
(ستارہ قیصریہ ص۳،۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۴)
مزید اس آیت سے متعلق جوابات ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے ’’مرزاغلام احمد قادیانی‘‘ کا کذب ودجل آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔
جواب نمبر:۲… ’’ہرقل شاہ روم‘‘ نے عرب وفد سے حضور علیہ السلام کے بارے میں جو سوال کئے۔ ان میں سے بعض آپ علیہ السلام کی بعثت سے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً کیا آپ علیہ السلام کے متبعین میں سے کوئی آپ کے دین سے ناراض ہوکر آپ سے علیحدہ ہوا ہے؟ اور کیا آپ کے متبعین بڑھتے جارہے ہیں یا کم بھی ہوتے جاتے ہیں؟
صحابہe نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ہرقل کی اس سوچ پر کسی قسم کی نکیر نہیں کی۔
جواب نمبر:۳… اس دلیل میں قادیانی مبلغ نے مرزاقادیانی کو حضور علیہ السلام پر قیاس کرنے کی گستاخی کی ہے۔ اس کے جواب میں ہم مرزاقادیانی کی یہ عبارت پیش کرنا کافی سمجھتے ہیں: ’’ماسواء اس کے جو شخص ایک نبی متبوع کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اﷲ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹، خزائن ج۵ ص۳۳۹)
لہٰذا مرزاقادیانی کو ہم حضور علیہ السلام پر قیاس نہیں کر سکتے۔
جواب نمبر:۴… مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’فلا تقیسونی علی احد ولا احد ابی پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ مت قیاس کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۲۰، خزائن ج۱۶ ص۵۲)
اس لئے مرزائیوں کو آنحضرت علیہ السلام پر مرزاقادیانی کو قیاس کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو مرزاقادیانی کی نافرمانی کے مرتکب ہوں گے۔
جواب نمبر:۵… بعثت سے قبل اور بعثت کے بعد نبی کی دونوں قسم کی زندگی پاک اور بے داغ ہوتی ہے۔ پہلی زندگی کو بے داغ ثابت کرنا اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے اگلی زندگی کو بے داغ بتایا جائے اور دعویٰ نبوت کو صحیح مانا جائے۔
بعثت کے بعد کی زندگی کو موضوع بحث بنانے سے فرار اختیار کرنا نہایت ہی کمزور بات ہے، اور یہ اس پر دال ہے کہ اس کی زندگی میں واقعی کچھ کالا ضرور ہے۔
جواب نمبر:۶… مرزاقادیانی نے اپنی پہلی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ لڑ کر کچھ مالی وراثت حاصل کی۔ حالانکہ نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا۔ ’’نحن معشر الانبیاء لا نرث ولا نورث‘‘ ہم جماعت انبیائo نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے۔
جواب نمبر:۷… یہ حقیقت ہے کہ نبی کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاک ہوتی ہے اور دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی بے داغ اور صاف ہوتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس کی پہلی زندگی پاک وصاف اور بے داغ اور بے عیب ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ جس طرح نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شاعر نہ ہو وہ کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے۔ جھوٹ نہ بولتا ہو، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی شاعر نہ ہو، کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو وہ نبی بھی ہو جائے۔ کیونکہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو آج ہزاروں ایسے ملیں گے جو اپنی پہلی زندگی کے پاک وصاف ہونے کے مدعی ہیں۔ کیا ان سب کو نبی مانا جائے گا؟
جواب نمبر:۸… مرزاقادیانی خود تسلیم کرتا ہے کہ انبیائo کے علاوہ کوئی معصوم نہیں اور نہ ہی میں معصوم ہوں اور یہ مسلم قاعدہ ہے۔ ’’المرء یؤخذ باقرارہ‘‘ کہ آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن افسوس کہ بٹالوی صاحب نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے نہ کسی انسان کو بعد انبیائo کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے۔‘‘ (کرامات الصادقین ص۵، خزائن ج۷ ص۴۷)
’’سیرت المہدی‘‘ میں سات صد روپیہ پنشن کی رقم کے کے اڑائے۔ حوالہ گذر چکا ہے۔
کیا یہ اپنے معصوم نہ ہونے کا کھلا اقرار نہیں؟ بچے تھے کہ کوئی دھوکہ دے سکتا ہے یا پھسلا سکتا ہے؟ اور پھر ادھر ادھر پھرانے کا کیا مطلب ہے؟ یہ بات تو قطعی ہے کہ کسی دینی کام یا مسجد ومدرسہ میں نہیں گئے ہوںگے اور نہ یہ رقم کسی اچھی جگہ خرچ کی ہوگی۔ ’’ادھر ادھر‘‘ سے اگر بازار حسن مراد نہیں تو اور کون سی جگہ ہوگی جو مرزاقادیانی کو پسند آئی ہوگی۔ اگر یہ کوئی شرمناک وارداتیں نہ تھیں تو مرزاقادیانی کو شرم کیوں آئی جو وہ سیالکوٹ بھاگ گئے؟
اب مرزائیوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اتنی خطیر رقم کا حساب دیں کہ کہاں کہاں خرچ ہوئی؟ بصورت دیگر مرزاقادیانی کی عصمت باقی نہیں رہتی اور یہ دعویٰ کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت سے قبل کی زندگی بالکل بے داغ تھی۔ بالکل باطل ہو جاتا ہے۔
جواب نمبر:۹… محمد عربی علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے قریب کے آدمیوں کوبلا کر ان کے سامنے اپنی صفائی کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یک زبان ہوکر اعلان کیا: ’’جربناک مرارا فما وجدنا فیک الاصدقا‘‘ کہ ہم نے باربار آپ کو آزمایا اور ہر بار ہم نے آپ علیہ السلام میں سچائی ہی پائی۔
اس کے برعکس مرزاقادیانی نے اپنی صفائی مولوی محمد حسین بٹالوی (آئینہ کمالات اسلام ص۳۱۱، خزائن ج۵ ص۳۱۱) سے پیش کروائی ہے جو کہ کچھ عرصہ ہی اس کے ساتھ رہے تھے۔ پھر وہ مرزاقادیانی کے شہر اور گاؤں کے رہنے والے بھی نہ تھے اور اس میں بھی شک نہیں ہوسکتا کہ مرزاقادیانی کی حقیقت واضح ہونے پر انہوں نے اپنی سابقہ تحریر سے رجوع کر لیا۔ (دیکھئے آئینہ کمالات اسلام حوالہ مذکورہ) اسی طرح حضور علیہ السلام کی صفائی آپ کے قبیلہ کے سردار حضرت ابوسفیانb نے ہر قل بادشاہ کے سامنے اسلام لانے سے قبل پیش کی تھی اور اسی طرح حضرت خدیجہt جو آپ علیہ السلام کی رفیقۂ حیات ہیں۔ انہوں نے آپ کی پہلی زندگی کی صفائی پیش کی۔ جب حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آپ علیہ السلام کی طرف پہلی دفعہ تشریف لائے تھے اور اسی طرح آپ علیہ السلام کی آخری اور پوری زندگی کی صفائی حضرت عائشہ صدیقہt پیش کر رہی ہیں۔ ’’کان خلقہ القراٰن‘‘ آپ علیہ السلام کا اخلاق قرآن ہے۔‘‘
 
Top