• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 11 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
یعتذرون : سورۃ التوبہ : آیت 111

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾

تفسیر سرسید :

( ان اللہ اشتری) اس آیت میں خدا تعالیٰ نے دو چیزیں جنت کے بدلے میں مول لینی فرمائی ہیں۔ ایک مسلمانوں کی جان کو جب کہ خدا کی راہ میں کافروں سے لڑتے ہیں اور ان کو مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں۔ گویا انھوں نے اپنی جان خدا کے ہاتھ بیچ ڈالی۔ دوسرے مسلمانوں کے مال کو جب کہ وہ اپنا مال خدا کی راہ میں دیتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ یہی وعدہ توراۃ اور انجیل اور قرآن میں ہے اور سب سے اخیر قرآن کا نام لیا اس لیے کہ پہلے امر کی نسبت یعنی دشمنوں کے مقابلہ میں جان دینے کے عوض میں اس کی جزا ملنے کا وعدہ توراۃ میں ہے اور دوسرے امر یعنی خدا کی راہ میں مال دے دینے یا خیرات کرنے کے عوض میں اس کی جزا ملنے کا وعدہ انجیل میں ہے۔ اور مجموعاً دونوں امر کی نسبت جزا ملنے کا وعدہ قرآن مجید میں ہے پس جس ترتیب سے وہ دونوں کام بیان کئے ہیں اسی
ترتیب سے ان کتابوں کو بھی بتایا جن میں ان کاموں کی جزا بیان ہوئی ہے۔
حضرت موسیٰ جب بحراحمر سے عبور کرکے اس ملک کو چلے جس کے دینے کا خدا نے وعدہ کیا تھا تو تمام کفار سے خدا کے حکم کے مطابق لڑتے رہے اور خدا کے حکم کے مطابق لڑنے اور مرنے اور مارے جاتے ہیں جو اجر تھا اور جن الفاظ میں خدا کے احکام بجا لانے کے اجر کا توراۃ میں بیان ہوتا تھا انہی الفاظ میں اس طرح پر لڑنے اور مارنے اور مارے جانے کا اجر بیان ہوا ہے جس کو قرآن مجید میں مختصرالفاظ ” بان لھم الجنہ “ سے تعبیر کیا ہے چنانچہ کافروں سے لڑنے کے جو احکام خدا نے دیئے تھے اور جس طرح حضرت موسیٰ کافروں سے لڑے اور ان کو قتل کیا وہ بالتفصیل توراۃ کی کتاب خروج میں مندرج ہیں۔ قرآن مجید میں بھی خدا تعالیٰ نے کافروں سے لڑنے کا حکم دیا اور مسلمانوں کی جانوں کے بدلے جنت یعنی آخرت میں جزا کا وعدہ کیا اور فرمایا ” وعداعلیہ حقانی التورئۃ “ یعنی توراۃ میں بھی اس طرح جان دینے پر جزا کا وعدہ ہے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے خدا کے واسطے مال دے دینے پر زیادہ توجہ فرمائی اور بہت بڑا حصہ ان کی نصیحت کا مال خیرات کردینا تھا چنانچہ انھوں نے اس شخص سے جو ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہونا چاہتا تھا فرمایا کہ ” جا اور جو کچھ تیرا ہو، بیچ کر غریبوں کو دے تو آسمان پر دولت پاویگا “ مگر جب اس نے اس کو قبول نہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ ” خدا کی بادشاہت میں دولتمند کا داخل ہونا کیا ہی مشکل ہے “ (مارک باب درس لغایت ) قرآن مجید میں بھی خدا تعالیٰ نے خیرات کرنے میں جنت یعنی آخرت میں جزا کا وعدہ کیا اور فرمایا ” وعداعلیہ حقانی الا بخیل “ یعنی انجیل میں بھی خیرات کرنے پر جزا کا وعدہ ہے۔
قرآن مجید میں ان دونوں کاموں پر جزا کا متعدد جگہ وعدہ ہے اس لیے اخیر کو فرمایا۔ ” وعدعلیہ حقانی القرآن “ اور پھر فرمایا کہ خدا سے زیادہ کون اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے پس تم خوش ہو اپنی چیز کو اس کے بدلے بیچنے سے جس کے بدلے تم نے بیچا۔
توریت و انجیل و قرآن میں جزاے آخرت کے بیان میں الفاظ مصطلحہ جدا جدا طرز پر بیان ہوئے ہیں مگر سب کا مقصد آخرت کی جزا سے ہے خواہ آسمان کی دولت سے اس کو تعبیر کیا جاوے خواہ لفظ جنت سے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
یعتذرون : سورۃ التوبہ : آیت 113

مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرۡبٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۱۳﴾

تفسیر سرسید :

( ماکان للنبی) ۔ ( او ماکان استغفار ابراھیم لا بیہ) قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی دعائے مغفرت کا چار جگہ ذکر ہے ایک سورة ابراہیم میں۔ جہاں حضرت ابراہیم نے مکہ کے لیے اور حضرت اسماعیل و حضرت اسحق کے لیے برکت کی دعا مانگی ہے اسی دعا کے ساتھ یہ بھی دعا کی ہے کہ ” ربنا اغفرلی ولوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب “ یعنی اے ہمارے پروردگار بخش دے مجھ کو اور میرے والد اور والدہ کو اور سب ایمان والوں کو جس دن کہ قائم ہو حساب۔
اس آیت کو ان دونوں آیتوں سے جن کی ہم تفسیر لکھ رہے ہیں کچھ تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ اس امر کے لیے بہت سی دلیلیں ہیں کہ حضرت ابراہیم کے والد اور والدہ مشرک نہ تھے چنانچہ اس آیت سے بھی اس کا اشارہ نکلتا ہے جہاں حضرت ابراہیم نے کہا ہے ” ولوالدی وللمومنین “ جس سے پایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم اپنے والدین کو بھی مومنین میں شمار فرماتے تھے پس اگر یہ تسلیم کرلیا جاوے تو سورة ابراہیم کی آیت میں مشرکین کے حق میں دعا مغفرت نہ تھی۔
دوسرا مقام سورة مریم میں ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے چچا آذر کو باپ کہہ کر بت پرستی چھوڑنے اور خدا پر ایمان لانے کی نصیحت کی ہے مگر ان کے چچا نے نہ مانا اور خفا ہو کر کہا اگر تو بس نہیں کرتا تو میں تجھ کو سنگسار کردونگا اور تو میرے پاس سے چلا جا اس وقت حضرت ابراہیم نے کہا ” سلام علیک ما ستغفرلک ربی “ چنانچہ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور کلدانیان سے جو ان کا وطن تھا جلا وطن ہوگئے۔ یہ وہ آیت ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے چچا آذر کے حق میں دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔
تیسرا مقام سورة شعراء میں ہے جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے چچا کو باپ کہہ کر اور نیز اس کو گمراہ قرار دے کر اس کے لیے دعائے مغفرت کی اور کہا ” واعفر لا بی اقاء کان من الظالمین “۔
چوتھا مقام سور ممتنحہ میں ہے جہاں خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کی بت پرستی کے برا جاننے میں تائید کرکے فرمایا کہ ” الا قول ابراھیم لا ستغفرلک وما املک لک من اللہ من شیء “ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کی پیروی نہیں چاہیے جو انھوں نے اپنے چچا سے ان کی مغفرت کی دعا کی نسبت کرنا تھا اور اسی وعدہ کے مطابق انھوں نے دعاء بھی کی تھی۔
اس اخیر آیت کا اور سورة توبہ کی آیت کا ایک ہی مطلب ہے۔ سورة ممتنحہ کی آیت سے بطور دلالت النص ظاہر ہوتا ہے کہ مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنی نہیں چاہیے اور سورة توبہ کی آیت میں یہ نص صرفح بیان ہوا ہے کہ مشرکین کے لیے گو وہ کیسے ہی قریب کے قرابت مند ہوں دعائے مغفرت نہ کی جاوے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے چچا کے لیے اس لیے دعائے مغفرت کی تھی کہ ان کو اپنے چچا کے ایمان لانے کی توقع تھی مگر جب ان کو یقین ہوگیا کہ وہ ایمان نہیں لانے کا تو انھوں نے اس سے اپنی بیزاری ظار کی جیسے کہ اسی آیت میں بیان ہوا ہے کہ ” فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرامنہ ابراھیم لا ن حلیم “۔
بعض مخالفین اسلام نے ان آیتوں سے اسلام پر بےرحمی کا الزام لگایا ہے کہ اسلام نے نہایت بےرحمی سے مشرک والدین کے لیے دعائے مغفرت کی ممانعت کی ہے مگر یہ ان کی غلطی ہے اس لیے کہ اسلام نے جس قدر والدین کے ادب کی گو وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں اور مشرکوں کے ساتھ بھی صلہ رحم کی تاکید فرمائی ہے جس کی بنا محض رحم اور انسانیت پر ہے شاید اور کسی مذہب میں نہیں ہے مگر مغفرت یا عدم مغفرت کو رحم یا عدم رحم سے کچھ تعلق نہیں ہے اس لیے کہ مغفرت کا مدار ایمان پر ہے اگر کوئی بیٹا اپنے باپ پر جو ایمان نہیں لایا کیسا ہی رنج و غم و افسوس و رحم کیا کرے اور دعا مانگا کرے اس سے کیا ہوتا ہے اس کی مغفرت نہیں ہوسکتی اور جب کہ یہ بات محقق قرار پاچکی کہ مشرکین کی مغفرت نہیں ہونے کی تو انبیاء کو اور نیز تمام مسلمانوں کو نہیں چاہیے کہ مشرکین کے لیے وہ زندہ ہوں یا مردہ دعائے مغفرت کریں کیونکہ ایسا کرنے میں اس بات کا شبہ ہوتا ہے کہ ان کو خدا کے اس وعدہ پر کہ مشرکین کو نجات نہیں دینے کا پورا پورا یقین نہیں ہے باقی رہی مشرکین کے لیے دعائے خیر کہ وہ ایمان لے آویں اور کفر و شرک سے نجات پاویں جو ان کے ساتھ اصلی محبت و رحم ہے اس کی ممانعت نہیں ہے خود انبیاء نے ایسا کیا ہے اور ہر ایک مسلمان کو ایسا کرنا چاہیے بلکہ مشرکین سے جو زیادہ تر قرابت قریبہ رکھتا ہو ان کے لیے اور زیادہ اور دلی اضطرار اور رنج و غم سے ایسی دعا کرنی لازم ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
یعتذرون : سورۃ التوبہ : آیت 118

وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَ ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّاۤ اِلَیۡہِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ لِیَتُوۡبُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾٪

تفسیر سرسید :

( وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا) یعنی اللہ مہربان ہوا ان تین شخصوں پر بھی جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے۔ تمام مفسرین اور اہل تاریخ لکھتے ہیں کہ وہ تین شخص کعب ابن مالک۔ ہلال ابن امیہ۔ مرارۃ ابن الربیع تھے ان کے پیچھے رہ جانے کی نسبت مختلف روایتیں ہیں مگر بلحاظ الفاظ قرآن مجید کے یہ قول درست معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں کی نیت یہ نہ تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی میں نہ جائیں بلکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کوچ فرمانے کے وقت ان کا سامان سفر درست نہیں ہوا تھا اور کوچ عوئی اور یہ تینوں اس لیے پیچھے چھوڑے گنے کہ سامان سفر درست کرکے لشکر میں آملیں مگر بدبختی سے کچھ ایسے اسباب پیش آگئے کہ وہ نہ جاسکے۔ اس پر ان کو نہایت رناج تھا دنیا ان پر تنگ ہوگئی تھی جیسے کہ کمال رنج و غم کی حالت میں انسان کا ایسا ہی حال ہوجاتا ہے اور ان کی زندگی بھی ان پر دوبھر ہوگئی تھی اس رنج و غم میں وہ یقین کرتے تھے کہ پیغمبر خدا کے سوا ان کے لیے کہیں پناہ نہیں ہے۔ ان کے اس سچے ایمان اور سچی ندامت کے سبب خدا تعالیٰ نے ان کو بھی معاف کیا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
یعتذرون : سورۃ یونس : آیت 18

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ اَتُنَبِّـُٔوۡنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۸﴾

تفسیر سرسید :

( ؎) یعنی تمہارا یہ کہنا کہ یہ ہیں ہمارے شفیع اللہ کے پاس غلط ہے کیونکہ اللہ اس کو نہیں جاتا اگر یہ امر ہوتا تو اللہ ضرور جانتا۔ یہ ایک محاورہ عرب کا ہے جب اپنے آپ کو کسی علت سے بری کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ” ما علم اللہ ھذا صفی “ یعنی اللہ کو میری اس بات سے خبر نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ میں اس بات سے بری ہوں سلام کرتا ہو تو اللہ جانتا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
یعتذرون : سورۃ یونس : آیت 31

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۳۱﴾

تفسیر سرسید :

( ؎) المراد منہ انہ یخرج المومن من الکافر والکافر من المومن (تفسیر کبیر)
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
یعتذرون : سورۃ یونس : آیت 94

فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَقَدۡ جَآءَکَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿ۙ۹۴﴾

تفسیر سرسید :

( فان کنت فی شک) اس سورة میں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ” جو لوگ افترا کرتے ہیں اللہ پر جھوٹ فلاح نہیں پانے کے “ اور اس کی تصدیق کے لیے خدا نے حضرت نوح اور ان کی امت کا اور موسیٰ و ہارون و فرعون کا قصہ بیان فرمایا تھا کہ کس طرح ان کی امت خدا کے رسولوں کی بات نہ ماننے سے عذاب میں مبتلا ہوئی۔ ان کا قصہ بیان کرنے کے بعد خدا نے فرمایا ” فان کنت فی شک “ یعنی اے خدا پر افترا کرنے والے گر تجھ کو اس قصہ میں جو ہم نے بذریعہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تجھ پر نازل کیا ہے کچھ شک ہو تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو تجھ سے بہت پہلے سے کتاب کو پڑھتے آئے ہیں۔ تقدیر کلام اس طرح پر ہے ” فان کنت ایھا المفتری فی شک مما انزلنا الیک یلسان محمد من قصص الانبیاء واممھم فبئل الذین یقرؤن الکتاب من قبلک ای قبل زمانک وعھدک۔
ثم خاطب اللہ ھذا المفتری وقال ۔ لقد جاء ک الحق من ربک بالوحی علے محمد فلا تکونن من الممترین ولا تکونن من الذین کذبو بایت اللہ فتکون من الخسرین کما خسروا امۃ الانبیاء السابقین بالتکذیب بایات اللہ۔
یعنی اس کے بعد خدا نے پھر سای کو جو خدا پر افترا کرتا ہے مخاطب کرکے فرمایا ” بیشک آیا ہے تیرے پاس سچ تیرے پروردگار کے پاس سے بذریعہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھر تو نہ ہو شک کرنے والوں میں سے اور نہ ہو ان لوگوں میں سے جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی نشانیوں کو پھر تو ہوجاوے نقصان پانے والوں میں سے ” جس طرح کہ نقصان پایا اگلے نبیوں کی امت نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلانے سے۔ غرضیکہ ان دونوں آیتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف خطاب نہیں ہے بلکہ اس شخص کی طرف خطاب ہے جو خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا کی نشانیوں کو جھٹلاتا ہے۔
اس آیت کی تفسیر جس طرح ہم نے بیان کی ہے اس کی مثال سورة انبیاء سورة نحل کی آیت میں موجود ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے۔ وما ارسلنا من قبلک الا رجالاً نوحی الیھم فسئلوا ھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (سورة نحل آیت سورة انبیاء)
یعنی ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجا مگر آدمیوں کو کہ وحی بھیجی ہم نے ان کے پاس پھر (اے منکرو) پوچھ لو علم والو یعنی توراۃ کے جاننے والوں سے اگر تم نہیں جانتے ہو۔
پس جس طرح خدا نے اس آیت میں منکروں کو توراۃ جاننے والوں سے پوچھنے کا حکم دیا اسی طرح افترا کرنے والے اور جھٹلانے والے کو اس سورة کی آیت میں حکم دیا کہ جو لوگ توراۃ کو پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے۔
ہم نے ان آیتوں میں ضمیر مخاطب کا جو مماانزلنا الیک اور الکتاب من قبلک۔ اور لقد جاء ک الحق من ربک میں اس شخص کو مخاطب قرار دیا ہے جو خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا کی نشانیوں کو جھٹلاتا ہے اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ وحی یا کتاب یا خدا کی طرف سے امر حق کے پہنچنے میں پیغمبر مخاطب ہوسکتا ہے نہ شخص منکر و مکذب تو اس مقام پر کیوں اس کو مخاطب قرار دیا ہے۔
مگر جو چیز کہ پیغمبروں کو خدا کی طرف سے دی گئی ہے وہ سب انبیاء کے ذریعہ سے ان کو بھی دی گئی ہیں جن کی ہدایت کے لیے وہ پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں مثلاً توراۃ حضرت موسیٰ پر نازل ہونی ہے اور حضرت موسیٰ کو دی گئی ہے مگر جا بجا خدا تعالیٰ توراۃ کا دیا جانا ان لوگوں کی نسبت بیان کرتا ہے جن کی ہدایت کے لیے حضرت موسیٰ یا اور پیغمبر مبعوث ہوئے تھے چنانچہ سورة بقرہ میں فرمایا ہے۔ ” ولما جاء ھم رسول من عنداللہ مصدق لما معھم نبذ فریق من الذین اوتوالکتاب کتاب اللہ وراء ظھورھم کانھم لا یعلمون “ اس آیت میں توراۃ کا دیا جانا یہودیوں کی نسبت بیان ہوا ہے اس لیے کہ گو وہ حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی مگر بذریعہ حضرت موسیٰ کے تمام یہویدوں کی دی گئی ہے اور اس نئے یہودیوں کو توراۃ کا دیا جانا فرمایا ۔
اسی طرح ایک جگہ فرمایا ” وان الذین اوتوالکتاب لیعلمون انہ الحق من سربھم۔ پھر فرمایا۔ ولئن اتیت الذین اوتوا الکتاب بکل ایۃ ماتبعوا قبلتک۔ پھر فرمایا۔
الذین اتینا ھم الکتاب یعسر شونہ کما یعرفون ایتاء ھم۔ پھر فرمایا وما اختلف نذین اوتوا الکتاب الا من بعد ماجاء ھم العلم۔ پھر فرمایا مثل والذین وتوا الکتاب ۔ پھر فرمایا فریقا من الذین اوتوا الکتاب۔ پھر فرمایا من الذین اوتو الکتاب من قبلکم ۔ پھر فرمایا۔ وافا اخذ اللہ میثاق الذین اوتوالکتاب ۔ پھر فرمایا۔ یایھا الذین اوتوا الکتاب امنوا۔ پھر فرمایا۔ ولقد وضینا الذین اوتو الکتاب من قبلکم وریاکم ۔ پھر فرمایا۔ الیوم حل لکم الطیبات وطعام الذین اوتوالکتاب حل کم۔ پھر فرمایا۔ والمحصنت من الذین وتوالکتاب من قبلکم۔ ان تمام آیتوں میں توراۃ کا دیا جانا یہودیوں کو اور انجیل کا دیا جانا عیسائیوں کو بیان ہوا ہے حالانکہ وہ موسیٰ یا انبیاء بنی اسرائیل یا حضرت عیسیٰ کی دی گئی تھی او ب واسطے ان پیغمبروں کے یہودیوں اور عیسائیوں کو اس لیے ان کا دیا جانا یہودیوں اور عیسائیوں کو کہا گیا اسی طرح ان آیتوں میں قرآن مجید کا نازل ہونا یا امر حق کا آنا بذریعہ محمد رسول اللہ کے منکر یا لکذب کی نسبت بیان کیا گیا بعض مفسرین نے بھی فان کنت اور مما انزلنا الیک۔ کا خطاب منکر یا مکذب کی طرف قرار دیا ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” ھذا الخطاب لیس مع الرسول “
اور انزلنا الیک کی تفسیر میں لکھا ہے ” مما انزلنا الیک من الھدی علی لسان محمد “ اور یہی وہ بات ہے جو ہم نے زیادہ تفصیل سے اس آیت کی تفسیر میں بیان کی ہے۔
 
Top