• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 12 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ ھود : آیت 37

وَ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ ﴿۳۷﴾

تفسیر سرسید :

واصنع الفلک) اس مقام سے طوفان آنے کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ مگر قبل اس کے کہ طوفان کی نسبت ذکر کیا جاوے یہ امر بتانا ضرور ہے کہ حضرت نوح اور ان کی قوم کہاں رہتی تھی۔
اس بات کے دریافت کرنے کے لیے بجز توراۃ کے اور قدیم جغرافیہ کی تحقیقات کے اور کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم یا یوں کہو کہ حضرت نوح کے اجداد اس قصع زمین میں رہتے تھے جہاں چار دریا پشیون ۔ جیحون۔ حدقل۔ فرات بہتے تھے۔ ان دریاؤں کے ناموں اور مخرجوں پر اس مقام پر بحث کی چنداں ضرورت نہیں ہے صرف یہ بیان کرنا کافی ہے کہ جو ٹکڑا زمین کا بلیک سی یعنی بحرا سود اور بحرکاسپین اور پر شین (خلیج فارس) گلف اور مذی ٹرینین کی یعنی بحرہ روم میں واقع ہے اور آئر مسنیا کہلاتا ہے وہی قطعہ زمین کا حضرت نوح کے اجداد کا مسکن تھا۔
کوئی ثبوت اس بات کا نہیں ہے کہ نوح نے یا اجداد نوح نے اس ملک کو چھوڑ کر دوسری جگہ سکونت اختیار کی ہو اور اس لیے اس بات کے باور کرنے کو کوئی امر مانع نہیں ہے کہ حضرت نوح کا بھی یہ ملک مسکن تھا۔
اسی قطع زمین میں وہ ملک بھی واقع ہے جو ارارات کے نام سے مشہور تھا اور اسی ملک کے پہاڑ ارارات کی پہاڑ مشہور ہیں جن کو کا لڈی زبان میں فرود اور عربی میں جودی کہتے ہیں۔
یہ ملک دریاؤں سے اور دریاؤں کی بہت سی شاخوں سے اور چھوٹی ندیوں سے ایسا پر تھا کہ انسان کو اس بات کا خیال آناقرین قیاس ہے کہ ان کے عبور کرنے اور ان کی طغیانی کی حالت میں بچاؤ کی کوئی تدبیر ہونی چاہیے خدا تعالیٰ نے حضرت نوح کے دل میں وحی ڈالی کہ وہ ان مصیبتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کشتی بنائیں۔ کچھ شبہ نہیں ہے کہ یہ کشتی سب سے پہلی کشتی ہوگی جو دنیا میں بنی اس وقت ایسی چیز جس سے پانی پر چلیں کچھ عجیب نہیں معلوم ہوتی لیکن اول اول جب اس کے بنانے کا خیال حضرت نوح کو ہوا ہوگا اور اس کے ذریعے سے پانی پر چلنے اور دریاؤں کے وار پار جانے اور چلی آنے کا ارادہ معلوم ہوا ہوگا تو لوگوں نے اس کو اس قدر عجیب اور ناممکن سمجھا ہوگا کہ ان سے مسخرا پن کرتے ہوں گے ان کو دیوانہ سمجھتے ہوں گے جیسے کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔
حضرت نوح لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اور خدائے واحد کی پرستش کرنے کی ہدایت کرتے تھے اور لوگ نہیں مانتے تھے حضرت نوح ان پر خدا کا عذاب نازل ہونے کی پشین گوئی کرتے تھے۔ تمام قوموں پر جو عذاب نازل ہوئے ہیں وہ عذاب انہی اسباب سے واقع ہوئے ہیں جن کا واقع ہونا امور طبعی سے متعلق ہے۔ پس ملکی حالات کے خیال سے ضرور حضرت نوح کے دل میں خدا نے ڈالا ہوگا کہ ان لوگوں کی نافرمانی بدکاری و گنہگاری سے ایک دن خدا ان کو ڈبو دیگا۔ غرضیکہ حضرت نوح نے ان لوگوں کی امداد سے جو ان کو مانتے تھے اور ان پر ایمان لائے تھے وہ کشتی تیار کرلی طوفان کا آنا بذریعہ ان اسباب کے جو طوفان آنے سے متعلق ہیں خدا نے مقدر کیا تھا ۔ چنانچہ بےانتہا مینہ کے برسنے پر زمین سے پانی کے چشمے کھل جانے اور دریاؤں و ندیوں کے ابل پڑنے سے اس ملک میں طوفان آیا حضرت نوح اور ان کے ساتھی کشتی پر بیٹھ کر بچ گئے اور تمام ملک کے لوگ جس میں طوفان آیا تھا ڈوب کر مرگئے اس قسم کے طبعی واقعوں کو خدا تعالیٰ ہمیشہ بندوں کے گناہوں اور ان کی نافرمانی سے منسوب کرتا ہے جس کی نسبت ہم پہلی بحث کرچکے ہیں۔ حضرت نوح کے زمانہ کا بہت بڑا طوفان ہوگا مگر اس زمانہ میں بھی جن ملکوں میں طوفان آتا ہے وہاں بھی اسی طرح لوگ ڈوب کر مرجاتے ہیں۔ البتہ حضرت نوح کے طوفان میں چند امور ایسے ہیں جن پر بالتخصیص بحث کرنی ضرور ہے۔
اول یہ کہ طوفان خاص اس ملک میں آیا تھا جہاں حضرت نوح کی قوم رہتی تھی۔ یا تمام دنیا یہودی اور عیسائی اس بات کے قائل ہیں کہ طوفان تمام دنیا میں عام تھا۔ ہمارے علمائے مفسرین کی عادت ہے کہ بغیر اس بات کے کہ قرآن مجید کے الفاظ پر غور کریں ایسے امور میں یہودیوں کی روایتوں کی تقلید کرتے ہیں اور اس لیے وہ بھی اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ طوفان تمام دنیا میں عام تھا۔ مگر طوفان کا عام ہونا محض غلط ہے اور قرآن مجید سے اس کا تمام دنیا میں عام ہونا ہرگز ثابت نہیں ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پہاڑوں پر دریائی جانوروں کی ہڈیاں ملنے سے اور سرد ملکوں میں گرم ملکوں کے جانوروں کی ہڈیاں زمین میں دبی ہوئی نکلنے سے طوفان کے عام ہونے کا اور تمام دنیا کے پہاڑوں کا طوفان نوح میں ڈوب جانے کا یقین ہوتا تھا مگر علم جیالوجی کی ترقی سے ثابت ہوگیا کہ وہ خیال غلط تھا اس کو مفصل طور پر میں نے اپنی کتاب مبنین الکلام فی تفسیر التورۃ علے ملۃ الاسلام میں بیان کیا ہے اس مقام پر اس کی بحث کچھ ضروری نہیں ہے کیونکہ اس وقت ہم قرآن مجید کی تفسیر لکھتے ہیں اور ہم کو صر یہ بتلانا چاہیے کہ قرآن مجید سے طوفان کا تمام دنیا میں عام ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
گو ہم بالتخصیص یہ نہ بتاسکیں کہ آدم یا انسان کے پیدا ہونے کی کس قدر مدت کے بعد طوفان آیا تھا مگر توراۃ کے مطابق جو قلیل زمانہ تسلیم کیا گیا ہے ہم اسی کو تسلیم کرکے کہتے ہیں کہ بموجب حساب توراۃ عبری کے طوفان آیا ( ) برس بعد پیدا ہونے حضرت آدم کے اور بموجب سپٹوایجنٹ توراۃ کے جس پر ایشیا کے تمام مورخ اور یورپ کے اکثر قدیم مورخ اعتماد رکھتے ہیں طوفان آیا ( ) برس بعد پیدا ہونے حضرت آدم کے اور بلاشبہ اس عرصہ میں انسان کی نسل پھیل گئی ہوگی اور کل پرانی دنیا یا اس کا بہت بڑا حصہ آباد ہوگیا ہوگا۔ یہ بات ناممکن ہے اور قرآن مجید کے بھی برخلاف ہے کہ حضرت نوح تمام دنیا کے لوگوں کو وعظ سنانے اور ہدایت کرنے کو بھیجے گئے ہوں۔ اور امکان سے باہر ہے کہ تمام دنیا میں جو اس وقت تک آباد ہوچکی تھی حضرت قرآن مجید سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے نوح کو تمام دنیا کے لوگوں کے پاس بھیجا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس کی قوم کے پاس بھیجا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں اور قومیں بھی موجود تھیں پس جس قوم کے پاس نوح بھیجے گئے تھے اسی قوم پر طوفان کا عذاب بھی آیا تھا۔ اور یہی امر قرآن مجید کی ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے جن کو ہم ابھی بیان کرتے ہیں۔
ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ فقال یاقولم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ افلا تتقون۔ (سورة مومنین )
قرآن مجید میں خدا نے فرمایا ہے کہ ہم نے نوح کو بھیجا اس کی قوم کی طرف نوح نے کہا اے میری قوم بندگی کرو اللہ کی نہیں ہے تمہارے لیے کوئی معبود سوائے خدا کے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ایک خاص قوم کے پاس بھیجے گئے تھے پس وہ عذاب بھی اسی قوم کے لیے آیا تھا جس کے لیے حضرت نوح بھیجے گئے تھے۔
ونوحا اذ تادی من قبل فاستجبت الہ فنجینہ اھلہ من اتکون العظیم و نصرناہ من القوم الذین کذبوا بایتنا انھم کامن قوم سوء فاغرقنا ھم اجمعین (سورة انبیاء -)
پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے مدد کی نوح کی اس قوم پر جس نے جھٹلایا ہماری نشانیوں کو بیشک وہ قوم تھی بری پس ڈبودیا ہم نے ان سب کو اکٹھا۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ قوم ڈبوئی گئی تھی جس نے حضرت نوح کا انکار کیا تھا۔
ولا تخاطبنی فی بالذین ظلموا انھم مغرقون۔ (سورة ھود آیت، سورة مومنین )
اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ تو مت کہہ مجھ سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے نافرمانی کی کیونکہ وہ ڈوبنے والے ہیں پس اس آیت سے بھی صرف انھیں لوگوں کا ڈوبنا معلوم ہوتا ہے جنہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی ہدایت کو نہیں مانا۔
اناارسلنا نوحا الی قومہ ان انذر قومک من قبل ان یاتیھم عذاب الیم (سورة نوح )
پھر خدا نے فرمایا کہ ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف کہ ڈرا اپنی قوم کو پہلے اس سے کہ آوے ان پر عذاب دکھ دیتا۔ اور جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی نصیحت انھوں نے نہ مانی تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا مانگی کہ ان پر طوفان کا عذاب آوے اس سے بھی اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ صرف قوم نوح پر عذاب آیا تھا نہ تمام دنیا پر۔
وقال نوح رب لا تذر علی الارض من الکافرین ویارا (نوح )
جو لوگ کہ قرآن مجید سے طوفان کا تمام دنیا میں آنا بیان کرتے ہیں وہ صرف دو آیتوں پر استدلال کرتے ہیں اول وہ آیت ہے کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے پروردگار مت چھوڑ زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی بسا ہوا۔ حالانکہ اس آیت سے کسی طرح عام ہونا طوفان کا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس آیت میں جو ارض کا لفظ ہے اس پر بھی الف لام ہے اور کافروں کا جو لفظ ہے اس پر بھی القلام ہے پس اس سے صاف ثابت ہے کہ زمین سے وہی زمین مراد ہے جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم رہتی تھی اور کافروں سے وہی کافر مراد ہیں جنہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کا انکار کیا چنانچہ اسی امر کی تائید ان تمام آیتوں سے پائی جاتی ہے جو اوپر مذکور ہوئیں۔
لوگوں نے حضرت نوح سے کہا کہ اے نوح تم ہم سے بہت کچھ جھگڑ چکے پھر اگر تم سچے ہو تو اب اس کو لاؤ جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو یعنی عذاب کا ۔ حضرت نوح نے کہا کہ اگر خدا چاہیے گا تو عذاب لاویگا تم اس کو مجبور کرنے والے نہیں ہو
کشتی کا بنانا اور خصوصاً پہلے پہل اور بالتخصیص اتنی بڑی کا جتنی کہ نوح کی کشتی تھی۔ اور ایسی مضبوط کا چو طوفان کی موجوں کو سہار سکے کچھ آسان کام نہ تھا اور خدا ہی کی القائے وحی سے وہ بن سکتی تھی مگر لوگوں کی امداد اور سعی کی بھی ضرورت تھی جو لوگ حضرت نوح پر ایمان نہیں لائے تھے بکلہ ان کے اس کام پر تمسخر کرتے تھے یقیناً وہ لوگ اس میں شریک نہ تھے انہی کی نسبت خدا نے فرمایا کہ تو ہماری ہدایت سے کشتی بنائے جا ظالموں کا ہم سے ذکر مت کر وہ سب ڈوبنے والے ہیں۔
نوح نے وعظ کیا ہو اور تمام دنیا کے لوگوں نے ان کا وعظ سن کر ان کے ماننے سے انکار کیا ہو بلکہ بہت سے وسیع ملک ایسے ہوں گے جہاں کے باشندوں نے حضرت نوح کے نبی ہونے کی اور ان کے وعظ کرنے کی اور خدا کی راہ کی ہدایت کرنے کی خبر بھی نہ سنی ہوگی۔
وجعلنا ذریتہ ھم الباقین (سورة صافات )
وجعلنا ھم خلائف (سورة یونس )
دوسری آیت وہ ہے جہاں خدا نے فرمایا اور کیا ہم نے نوح ہی کی ذریت کو بچی ہوئی ، اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ کیا ہم نے ان کو جانشین۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان آیتوں سے کس طرح تمام دنیا میں طوفان آنے کا استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ اس آیت کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جن لوگوں پر طوفان آیا تھا ان میں سے بجز نوح کی ذریت کے اور کوئی نہیں بچا پھر اس سے تمام دنیا پر طوفان کا آنا کیونکر ثابت ہوسکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے علما نے صرف یہودیوں کی پیروی کرکے طوفان کا عام ہونا قرآن مجید سے نکالنا چاہا تھا ورنہ ہمارے قرآن مجید سے عام ہونا طوفان کا نہیں پایا جاتا۔ فتدبر۔
ففتحنا ابوب السماء بماء منہمر وفجرنا الا (رض) عیونا فالتقی الماء علی امر (سورة قمر - )
واذ جاء امرناوفار التنور۔ (سورة مومنین )
قرآن مجید میں یہ بیان نہیں ہے کہ طوفان کا پانی اس قدر اونچا ہوگیا تھا کہ اونچے پہاڑ بھی چھپ گئے تھے بلکہ سورة قمر میں صرف یہ آیا ہے کہ ہم نے موسلا دھار مینہ پڑنے سے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور ہم نے زمین کے چشموں کو پھاڑ دیا پھر ایک پانی دوسرے پانی سے مل گیا مقرر کئے ہوئے کام پر۔ سورة مومنین میں۔ فجرنا الارض ۔ کی جگہ۔ فارالتنور۔ کا لفظ آیا ہے اس کے معنی روٹی پکانے کے تنور کے لیے صریح غلطی ہے کیونکہ خود قرآن مجید کی دوسری آیت سے اس کی تفسیر ہوتی ہے یعنی جو معنی فجرنا الارض کے ہیں وہی معنی فارالتنور کے ہیں۔ قاموس میں لکھا ہے التنور کل مفجر ماء۔ یعنی جہاں سے زمین میں پانی پھوٹ نکلے اور چشمہ جاری ہوجاوے اس کو تنور کہتے ہیں۔ اور یہ معنی بالکل قرآن مجید کی پہلی آیت کے مطابق ہیں جس سے دوسری آیت کی تفسیر ہوتی ہے پس قرآن مجید سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مینہ نہایت زور سے برسا زمین میں سے چشمے جاری ہوگئے اور ایک پانی دوسرے پانی سے مل گیا اور تمام ملک سطح آب ہوگیا اور اس قدر پانی چڑھا کہ کشتی تیرنے لگی اور جو لوگ کشتی میں نہ تھے وہ ڈوب گئے۔
اس پر یہ شبہ وارد ہوسکتا ہے کہ اگر پانی اس قدر نہیں چڑھا تھا کہ پہاڑ بھی ڈوب گئے تھے تو لوگوں اور جانوروں نے پہاڑوں پر کیوں نے پناہ لی جیسے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے نے کہا تھا کہ میں پہاڑ پر پناہ لے لونگا۔ مگر غور کرنا چاہیے کہ ایسے شدید طوفان میں جس میں اس قدر زور سے مینہ برستا ہو دریا ابل گئے ہوں زمین سے پانی پھوٹ نکلا ہو کسی جاندار کو کسی مامن تک پہنچنے کی فرصت نہیں مل سکتی اور یہ بات ہم ادنے سے ادنے طغیانی پانی میں دیکھتے ہیں کہ ہزاروں آدمی ڈوب کر مرجاتے ہیں اور کسی طرح جان بچا نہیں سکتے۔ پھر ایسے بڑے طوفان میں جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا تھا اور بہت دنوں تک برابر پانی برستا رہا لوگوں کا اور جانوروں کا اس سے بچنا اور جان بچانا ناممکن تھا۔
علاوہ اس کے میری رائے میں توراۃ مقدس سے بھی طوفان کا عام ہونا اور پانی کا اس قدر چڑھ جانا جس نے اونچے اونچے دنیا کے پہاڑوں کو بھی چھپالیا ہو ہرگز ثابت نہیں ہوتا چنانچہ میں نے اپنی کتاب تبیین الکلام میں اس پر پوری بحث کی ہے مگر جو کہ اس تفسیر میں توراۃ کی آیتوں پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے اس لیے ان پر بحث نہیں کی جاتی ہے البتہ ان واقعات کی نسبت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور توراۃ میں ان کا ذکر نہیں ہے کچھ لکھنا مناسب ہے۔
سورة ہود میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اور پکارا نوح نے اپنے بیٹے کو اور وہ ہورہا ونادی توبہ بندوکان فی معزل یبنی رکب معناولا تن معرالکافرین قال شاوفالی جبل یعصمنی مرج قال الا عاصم الیوم من امرخہ الا من رحم وحال بینھما لا لموج فکان من سغرتین (سورة ہود - )
تھا کنارے اے بیٹے سوار ہو ساتھ ہمارے اور مت ہو ساتھ کافروں کے کہا اس نے میں چڑھ جاؤں گا پہاڑ پر بچاویگا مجھ کو پانی سے۔ نوح نے کہا کہ کوئی بچانے والا نہیں ہے آج کے دن اللہ کے حکم سے مگر جس پر وہ رحم کرے اور آگئی ان دونوں میں موج پھر ہوگیا ڈوبنے والوں میں۔
ونادی نوح رب فقال رب ان ابنی من علی ثبان وعدک الحق وانت حکمالحنین قال ینوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صحہ فلا تسئلن ما لیس لک بہ عمرتی اعفک ان تکون من الجامنین قل رب انی عرد بک ان اسئلک والیں ذبۃ علم ولا تغفری وترحمنی اکن من الخسرین۔ (سورة ھود - )
اور اسی سورة میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہے۔ اور پکارا نوح نے اپنے رب کو پھر کہا اے رب میرا بیٹا ہے میرے گھر والوں میں سے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو حاکموں کا حاکم ہے فرمایا اے نوح وہ نہیں تیرے گھر والوں میں سے اس کے کام ہیں ناکارہ تو مت پوچھ مجھ سے جو تجھ کو معلوم نہیں ، میں بچاتا ہوں تجھ کو جاہلوں میں ہنے سے کہا اے رب میرے میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے یہ کہ چاہوں میں تجھ سے جو معلوم نہیں مجھ کو اور اگر تو نہ بخشے گا مجھ کو اور نہ رحم کرے گا تو ہونگا میں ٹوٹے والوں میں سے۔
ان آیتوں سے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ سوائے ان تین بیٹوں کے جن کا ذکر توراۃ مقدس میں ہے حضرت نوح کے ایک اور بیٹا جو کافروں کے ساتھ ڈوب گیا۔ مگر یہ خیال غلط ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے کوئی اور بیٹا سوائے ان تین بیٹوں کے نہ تھا اور ہر بیٹا جس کا یہاں ذکر ہے حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا نہ تھا بلکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا بیٹا پہلے خاوند سے تھا اور قاین کی نسل سے تھا اور غالباً یہ بیٹا لغمہ کا تھا جس کا نام کتاب پیدائش باب درس میں آیا ہے۔
یہ جو میں نے بیان کیا یہ میری رائے نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاں کے مفسر بھی یہی لکھتے ہیں ۔
انہ کان ابن اموتہ وھو قول محمد الباقر (علیہ السلام) وقول الحسن البصری ویروی ان علیا (رض) بیان کرتے ہیں : اللہ عنہ قراو نادی نوح ابنہ ابنھا والضمیر لامرتہ وقرا محمد بن علی الباقروعروۃ ابن زبیر ابنہ بفتح الھایرید انہ بنھا الا انھما اکتفیا بالفتح عن الا لف و قال قتادہ سالت الحسن من ابنہ فقال واللہ ماکان ابنا لہر فقال قلت لہ ان اللہ حکی عندانہ قال ان ابنی من ھلی وانت تقول ماکان بنالہ فقال انہ لم یقل انہ ابنی ومکنہ قال من اھلی وھذا یدل علی قولی۔ (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں ہے کہ وہ جس کو حضرت نوح (علیہ السلام) نے بیٹا کہا حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا نہ تھا بلکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا بیٹا تھا اور یہ قول ہے جناب محمد باقر (علیہ السلام) کا اور حسن بصری کا اور یہ روایت ہے حضرت علی مرتضیٰ (رض) بیان کرتے ہیں : اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت محمد بن علی الباقر اور عروہ ابن زبیر نے اس آیت میں جو مذکر کی ضمیر ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف پھرتی ہے مونث کی ضمیر پڑھی تھی تاکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کی طرف پھرے اور قتادہ نے کہا کہ میں نے حسن بصری سے حضرت نوح کے بیٹے کا حال پوچھا انھوں نے کہا قسم بخدا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے کوئی بیٹا جو طوفان میں ڈوبا نہ تھا قتادہ نے کہا خدا نے تو قول نوح کا یوں بیان کیا ہے کہ نوح نے اس بیٹے کو جو ڈوب گیا کہا کہ میرا بیٹا میرے خاندان میں سے ہے اور تم کہتے ہو کہ اس کے کوئی بیٹا جو طوفان میں ڈوبا نہ تھا۔ حسن بصری نے کہا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا کہ میرا سگا بیٹا بلکہ یہ کہاں کہ میرے خاندان کا بیٹا اور یہ ان کا کہنا اس بات پر دلالت کرتا ہے جو میں کہتا ہوں، پس ان روایتوں سے ثابت ہوا کہ یہ شخص حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا نہ تھا اور اسی سبب سے توراۃ مقدس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں کے ساتھ اس کا ذکر نہیں ہے۔
ضرب اللہ مثلا للذین کفروا امرۃ نوح وامرۃ لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا ھما فلم یغنیا عنما من اللہ شیئا وقیل ادخلا النار مع الداخلین۔ (سورة تحریم )
جس آیت سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا طوفان میں ڈوبنا خیال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے اللہ نے بتائی ایک کہاوت منکروں کے واسطے عورت نوح کی اور عورت لوط کی گھر میں تھیں دونوں دو نیک بندوں کے ہمارے بندوں میں سے پھر نافرمانی کی انھوں نے ان کی پھر نہ دفع کیا انھوں نے ان سے تھوڑا سا بھی عذاب اللہ کا اور حکم ہوا کہ جاؤ دوزخ میں ساتھ جانے والوں کے۔
اس آیت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی بھی کافروں میں تھی اور وہ بھی غرق ہوئی اور توراۃ مقدس سے پایا جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کشتی میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ تھی اور انھوں نے ڈوبنے سے نجات پائی۔
مگر سمجھنا چاہیے کہ باوجودیکہ اس آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا ڈوبنا صاف صاف بیان نہیں ہوا لیکن اگر اس پر بھی ان کا ڈوبنا ہی سمجھیں تو اس کے ساتھ ہی ہم کو یہ بات بھی کہنی چاہیے کہ ہمارے ہاں کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دوبیویاں تھیں ان میں سے ایک بیوی ڈوبی اور ایک حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں گئی چنانچہ تفسیر کبیر میں ابن عباس سے روایت لکھی ہے کہ کشتی میں نوح اور ان کی بیوی بھی تھی سوائے اس بیوی کے جو ڈوب گئی بعض علمائے یہود کہتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی ایک بیوی نعمہ نسل قاین سے تھی اور ایک بیوی اولاد حضرت ادریس سے پس کچھ عجیب نہیں کہ نعمہ کافر ہو اور وہ ڈوب گئی ہو اور اسی سبب سے توراۃ مقدس میں اس کا ذکر نہ کیا ہو مگر جب یہ بات ثابت ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی ایک بیوی براشبہ کشتی میں تھی تو اگر اس آیت سے ایک بیوی کا غرق ہونا ہی مراد لیا جاوے تو بھی کچھ اختلاف نہیں رہتا۔
فاذاجاء امرناوفارالتنور فاسلک فیہ من کل زوجین ثنین (سورة مومنین - )
سورة مومنین میں خدا نے یہ فرمایا ہے کہ جب ہمارا حکم آوے اور زمین کے چشمے پھوٹ نکلیں تو بٹھا لے اس میں یعنی کشتی میں ہر جوڑے سے دو۔ توراۃ میں اس مضمون کو بہت زیادہ وسیع کردیا ہے جس سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے جانوروں کے جوڑے کشتی میں بٹھائے گئے تھے اور پھر اس کے غیر ممکن ہونے پر بہت سی دلیلیں لائی گئی ہیں۔ مگر قرآن مجید ان تمام مشکلات سے مبرا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید سے صرف یہ بات کہ جو جانور حضرت نوح (علیہ السلام) کی دست رس میں موجود تھے ان کے جوڑے کشتی میں بیٹھائے گئے تھے کچھ تو اس خیال سے کہ کھانے کے کام آوینگے اور کچھ اس خیال سے کہ طوفان کے بعد ان سے نسل چلے گی کیونکہ ملک کی بربادی کے بعد سردست ان جانوروں کا بہم پہنچنا اور دوسرے ملکوں سے لانا علے الخصوص اس زمانہ میں کہ اس کام کے لیے وسائل ناپید تھے نہایت وقت طلب امر تھا۔
اما قولہ فاسلک فیھا ای ادخل فیھا بقال سلک فیہ ای دخل فیہ وسلک غیرہ واسل کہ من کل زوجین اثنین ای کل زوجین من الحیوان الذی یحضرہ فی الوفت اثنین الذکر قالا نثی لکی لاینقضع نسل ذلک الیحون (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے کہ خدا کے اس قول کے فاسلک فیھا یہ معنی ہیں کہ داخل کر یعنی بٹھا لے اس میں یعنی کشتی میں عرب کے محاورہ میں کہا جاتا ہے۔ سلک فیہ یعنی داخل ہوا اس میں اور اسل کہ من کل زوجین اثنین کا یہ مطلب ہے کہ جو جانور اس وقت پر موجود ہوں ان کے جوڑے نر و مادہ کشتی میں بٹھا لے تاکہ ان جانوروں کی نسل منقطع نہ ہوجاوے۔
باقی قصہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے بہت صاف ہے اخیر قصہ پر خدا نے فرمایا کہ ” یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے کہ ہم نے اس کی تجھ پر وحی کی ہے نہ تو اس کو جانتا تھا اور نہ تیری قوم اس سے پہلے پس صبر کر (اے محمد کافروں کے ایذا دینے اور جھٹلانے پر) بیشک آخر کو (کامیابی) پرہیزگاروں کے لیے ہے (ہود )
اس آیت پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیا اس سے پہلے طوفان نوح کا قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور عرب کے لوگوں کو جن میں کثرت سے یہودی آبا د ہوگئے تھے اور کچھ عیسائی بھی آباد تھے معلوم نہ تھا۔ مگر یہ بات نہیں ہے زیادہ تر قرین قیاس یہ ہے کہ یہ قصہ عام طور پر مشہور تھا مگر اس کے ساتھ ہی بہت سی غلط باتیں بھی مشہور تھیں صحیح صحیح قصہ لوگوں کو معلوم نہ تھا جس کو خدا نے بذریعہ وحی کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ سے بتایا پس عدم علم کا جو ذکر اس آیت میں ہے وہ صحیح قصہ کے جاننے سے متعلق ہے نہ کہ عام طور پر اس قصہ سے۔ قرآن مجید میں جس قدر اگلے قصے بیان ہوئے ہیں اگرچہ دراصل ان سے عبرت دلانی مقصود ہوتی ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ قصہ کو صحیح صحیح بیان کیا جاتا ہے تاکہ جو غلطیان مشہور ہورہی ہیں ان کی صحت ہوجاوے۔
قریباً تمام دنیا کی قوموں میں طوفان کا قصہ بطور ایک مذہبی قصہ کے مشہور تھا اور اس کے بیانات اور واقعات اس قدر مختلف اور عجیب طور پر مشہور ہورہے تھے کہ ایک میں بھی پوری پوری سچائی نہ تھی۔ چند یورپ کے لوگوں مثل مسٹر ٹرینٹ اور ریورنڈایل ڈی ہار کورٹ وغیرہ نے کتابیں لکھی ہیں جن میں ان قصوں کو جمع کیا ہے جو طوفان کی بات بطور مذہبی قصہ کے تمام دنیا میں مشہور ہیں پس وحی نے جو کچھ بتایا اور جو لوگوں کو معلوم نہ تھا وہ یہی ہے کہ صحیح قصہ طوفان کا کیا ہے۔
یہودی اور عیسائیوں نے جو مذہبی طور پر سب سے بڑی غلطی اس قصہ میں ڈال رکھی تھی وہ یہ تھی کہ تمام دنیا میں طوفان آیا تھا اور کل کرہ زمین پانی میں ڈوب گیا تھا اور طوفان کا پانی دنیا کے بڑے بڑے پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اونچا ہوگیا تھا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے تمام دنیا کے ہر قسم کے جانداروں کا جوڑا جوڑا کشتی میں بٹھا لیا تھا۔ اور تمام دنیا کے تمام جانور انسان اور چرند و پرند وحشرات الارض سب کے سب مرگئے تھے اور بجز ان کے جو کشتی میں تھے کوئی جاندار تمام دنیا میں زندہ نہیں رہا تھا۔ یہ ایک بڑی غلطی تھی جس کو قرآن مجید نے صحیح کیا ہے مگر افسوس اور نہایت افسوس کہ ہمارے مفسروں نے قرآن مجید کی اس برکت کو حاصل نہیں کیا اور وہ خود یہودیوں اور عیسائیوں کی تقلید سے اسی غلطی میں پڑگئے جس غلطی سے قرآن مجید نے ان کو نکالنا چاہا تھا۔
ولقد ارسلنا نوحا الی قوم ثلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین عاما (سورة عنکبوت )
ایک اور امر غور طلب ہے متعلق حضرت نوح (علیہ السلام) کے یعنی تعداد ان کی عمر کی، خدا تعالیٰ نے سورة عنکبوت میں فرمایا ہے کہ ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف پھر وہ رہا ان میں پچاس برس کم ایک ہزار برس۔
توریت میں لکھا ہے کہ نوح چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا (کتاب پیدائش بابدرس) اور پھر لکھا ہے کہ بعد طوفان کے نوح تین سو پچاس برس زندہ رہا اور اس کی عمر نو سو پچاس برس کی تھی (کتاب پیدائش باب درس - ) لیکن جب کہ انسان کی نسل بڑھنی شروع ہوئی تھی اور ابھی طوفان بھی نہیں آیا تھا اس وقت خدا نے کہا تھا کہ بسبب بودن ایشاں یشر ضالہ نہایت مدت ایام ایشاں یکصدوبست سال خواہد شد (توریت کتاب پیدائش باب درس)
مگر یہ ایک بہت طولانی بحث ہے دن اور برس جو توراۃ میں مندرج ہیں وہ نہایت بحث طلب ہیں دنیا کے ظہور اور انسان کے وجود کی جو مدت توراۃ میں لکھی ہے وہ بھی بحث بڑی بحث کے قابل ہے۔
اس میں بھی کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ برس کی مدت ہر ایک زمانہ میں مختلف رہی ہے اور جس واقعہ یا انسان کی عمر کی تعداد اس زمانہ کے حساب سے کی گئی ہے وہی تعداد بیان ہوتی رہی ہے جیسے کہ قرآن مجید اور توراۃ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر ساڑھے نو سو برس کی بیان ہوئی ہے۔
علاوہ اس کے قدیم زمانہ کا یہ رواج بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس خاندان کا کوئی پٹیر یاٹک ہوا ہے جب تک کہ اس خاندان میں دوسرا پٹیر یا ٹک نام آور نہ ہوا ہو پہلے پٹیرپاٹک ہی کا نام چلا جاتا ہے۔ پس جب تک کہ ان سب باتوں پر بحث نہ ہو اس وقت تک ” فلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین ھماما “ کی حقیقت بیان نہیں کی جاسکتی ۔ اس تفسیر میں ان تمام امور پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے اگر خدا کی مرضی ہے تو ایک مستقل کتاب میں اس پر بالاستیعاب بحث کی جاویگی (اس پر بحث نہی کرنے پائے کہ فوت ہوگئے۔ افسوس ہا افسوس) اور تمام سلسلہ مدت پیدائش دنیا کا اور لوگوں کی عمروں کا جو توراۃ میں مذکور ہے الٹ پلٹ ہوجاویگا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ ھود : آیت 69

وَ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ ﴿۶۹﴾

تفسیر سرسید :

(ولقد جاءت رسلنا ابراھیم) یعنی البتہ آئے ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس۔
سورة عنکبوت میں یہ لفظ ہیں ” سلما جاءت رسلنا ابراھیم “ یعنی جب کہ آئے ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس۔
سورة حجر میں بجائے رسلنا کے ضعیف کا لفظ ہے خدا نے فرمایا ۔ ” ونبھم عزضیف ابراھیم۔ یعنی ان کو خبر دے ابراہیم کے مہمانوں کی۔
اور سورة ذاریات میں ہے ” ھل اتاک حدیث ضیف ابراہیم المکرمین “ کیا تیرے پاس ابراہیم کے مکرم مہمانوں کی خبر پہنچی ہے۔
پس امر بحث طلب یہ ہے کہ یہ بھیجے ہوئے یا حنیف ابراہیم کون تھے ؟ توراۃ باب درس میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ تین آدمی اس کے برابر کھڑے ہیں خبری میں لفظ شلاشہ النشیم ہے یعنی ثلاثہ انسانین (افسانین کا لفظ دانستہ خلاف قاعدہ عربی لکھا گیا ہے) اور پھر درس و میں اور باب درس و و میں بھی ان کو انسان کہا ہے مگر باب کے پہلے درس میں ان کو ملاخیم یعنی ملائکین (مکین کا لفظ دانستہ خلاف قاعدہ زبان عربی لکھا گیا ہے) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اس لیے یہودی ان تینوں کو فرشتے اعتقاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جبرائیل و میکائیل و اسرافیل تھے۔
عیسائی بھی ان کو فرشتے مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پہلی ہی دفعہ تھی کہ فرشتے انسان کی صورت بن کر دنیا میں آئے تھے۔ تفسیر ڈائلی اینڈ مانٹ میں لکھا ہے کہ ان میں کا تیسرا بنسبت باقی دو کے اعلیٰ درجہ کا تھا اور اس لیے ابراہیم نے اس کو بطور ایک سردار کے خطاب کیا یعنی ” دنای “ کہہ کر جس کو موسیٰ ” جہوہ “ کہتا ہے اور یہودی اور عیسائی اس کو خدا کا نام سمجھتے ہیں اور اس لیے بہت سے عیسائی تصور کرتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا تھا جو اس صورت میں آیا تھا۔ متوسط زمانہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کی شان میں ایک فرشتہ تھا جس نے گفتگو کی تھی اور بلحاظ اس کی مقتدرانہ گفتگو کے یہ غالب رائے ہے کہ وہ خود حضرت مسیح تھے جو انصاف کرنے کو آئے تھے۔
قرآن مجید میں صرف لفظ ” رسلنا “ یعنی ہمارے بھیجے ہوئے کا ہے۔ مسلمان مفسروں نے صرف یہودیوں کی روایتوں سے جن کی وہ ہمیشہ ایسے مقاموں میں پیروی کرتے ہیں ان کو فرشتے تسلیم کیا ہے مگر قرآن مجید سے ان کا فرشتہ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ یہ تو ظاہر ہے قرآن مجید میں ان کے فرشتے ہونے پر کوئی نص صریح نہیں ہے باقی رہا طرز کلام یا الفاظ واردہ پر استدلال قطع نظر اس کے کہ وہ مفید یقین نہیں ہوسکتا ان سے بھی وہ استدلال پورا نہیں ہوتا۔ علمائے مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن مجید پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔
واعلم ان الاضیاف انما امتنعوا من الطعام لانھم ملائکۃ واملائکۃ لایا کلون ولا یشربون وانما اتوہ فی صورت الاضیافیکونوا علی صفۃ یحیھا وھو کان مشغولا بالضیافۃ (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ابراہیم کے مہمانوں نے جو کھانا نہ کھایا اس کا سبب یہ تھا کہ وہ فرشتے تھے اور فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ وہ مہمانوں کی صورت بن کر اس لیے آئے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کے آنے کو دوست رکھتے تھے اور وہ مہمانوں کی ضیافت میں مشغول رہتے تھے۔ مگر کھانے سے انکار کرنا ان کے فرشتے ہونے کی جو علانیہ انسان تھے اور انسانوں کی طرح آنے تھے دلیل نہیں ہوسکتا۔
قال الدی قال ابراھیم (علیہ السلام) ھم تاکلون قالوا لا تاکل طعاما الا بالثمن فقال ثمتہ ان تذکروا اسم اللہ تعالیٰ علیٰ لہ وتحمدوہ علے اخرہ فقال جبرائیل المیکائیل (علیہ السلام) حق لمثل ھذا الرجل ان یتخذہ ربہ خلیلا (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں سدی کا یہ قول لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ کھانا کھاؤ گے انھوں نے کہا کہ ہم بغیر قیمت دیئے کھانا نہیں کھاتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اس کی قیمت یہ ہے کہ کھانے سے پہلے خدا کا نام لو اور کھانے کے بعد خدا کا شکر کرو۔ اس پر جبرائیل نے میکائیل سے کہا کہ ایسے آدمی کا حق ہے کہ اس کا پروردگار اس کو اپنا خلیل یعنی دوست قبول کرے۔ مگر کلام سے بھی یہ بات غیر معلوم رہی کہ بعد اس کے انھوں نے کھانا کھایا یا نہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ ھود : آیت 70

فَلَمَّا رَاٰۤ اَیۡدِیَہُمۡ لَا تَصِلُ اِلَیۡہِ نَکِرَہُمۡ وَ اَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۰﴾

تفسیر سرسید :

فلما را ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم فاوجس منھم خیفۃ۔ (سورة ھود)
قرآن مجید میں آیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو نہ جانا کہ یہ کون ہیں یعنی دوست مہمان ہیں یا دشمن اور ابراہیم کے جی میں ان سے خوف ہوا۔ یہ اس زمانہ کا طریقہ تھا کہ دشمن اس کے ماں جس سے دشمنی ہو کھانا نہیں کھاتے تھے۔ مگر اس آیت سے بھی یہ نہیں پایا جاتا کہ اس کے بعد بھی انھوں نے کھانا نہیں کھایا۔
توریت میں لکھا ہے کہ انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بھی کھانا کھایا اور جب وہ حضرت لوط کے پاس گئے تو وہاں بھی کھانا کھایا۔ توراۃ فارسی کے ترجمہ کی یہ عبارت ہے۔
خداوند ویرا (یعنی ابراہیم را) ور بلوبلستان ممری ظاہر شددر حالت یکہ یردر چادر بگرمی روز می نشست چشپمان خودر ا کشادہ نگریست کہ اینک سہ شخص درمقابلش ایستادہ اندد ہنگامے کہ ایشاں رواید از براے استقبال ایشاں مازور چادر دو یدوبسوے زمین خم شد وگفت اے آقا یم حال اگر درنظرت التفات فا فتم تمنا این کہ ازنزد وبندہ خود نگدری وحال اندک آبے آور وہ شود تاآنکہ پاہ اے خودراشست شود اوہ درزیرایں درخت استراحت فرمائید ولقمہ نافے خواہم آوارہ تاکہ دل خودرا تقویت نمائیدد بعدازاں بگذر یدزیرا کہ ازیں۔ سبب نیز دہندہ خود المحبور تمودیدیس گفتنہ بنجوے کہ گفتی عمل تما پس ابراہیم بہ چادر نزد سارا شتافت و گفت تعجیل نمودہ سہ پیمانہ آرودرقیق خمیر کردہ گردہار اجاق پزپس ابراہیم بگلہ گاؤ شتافت وگوسالہ ترو تازہ حو بےگرفتہ یجوانے دا و کہ آں رابسرعت حاضر ساخت وکرہ شیراباگوسالئ یکہ حاضر کردہ بود گرفت اور حضور ایشاں گزاشت ونزد ایشاں یزیدآں درخت ایستادتاخوردند کتاب پیدائش باب درس لغایت۔
پس آں دو ملک بوقت شام بسدوم درآمدندو لوط بدرواتزہ سدوم مے نشست و ہنگامے کہ لوط ملاحظہ کرداز براے استقبال ایشاں برخاست وبرزمین خم شدو گفت اینک حال اے آقا یا نم تمنا این کہ نجانہ بندہ خود تاں بیائیدوبیتوتہ نمودہ پاہ اے خود راشست وشونمائید۔ وسحرخیزی نمودء براہ خود روانہ شویدپس ایشاں گفتند کہ نے بلکہ درجہارسوبیتوتہ مینما یم پس چونکہ ایشاں رابسیارابرام نمود با اور آمدہ نجانہ اش دال شدند واوضیافتے بحہست ایشاں برپانمودہ گردہائے فطیری پخت کہ خورند۔ کتاب پیدائش باب درس لغایت۔
تفسیر میں ایک یہ بحث پیش کی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان تینوں کو انسان جانا یا فرشتہ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو انسان جانا تھا ان کی یہ دلیلیں ہیں کہ اگر وہ ان کو فرشتہ جانتے تو کھانے کی تیاری نہ کرتے۔ اور جب انھوں نے کھانے پر ہاتھ نہ ڈالا تھا تو اس سے خوف نہ کرتے۔ علاوہ اس کے جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو انسان کی صورت میں دیکھا تھا تو ان کو فرشتہ کیونکر سمجھ سکتے تھے۔
اور جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو فرشتہ جانا تھا ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے کہنے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو فرشتہ جانا تھا مگر ایک لفظ قرآن میں ایسا نہیں ہے کہ ان تین شخصوں میں سے کسی نے کہا ہو کہ ہم انسان نہیں ہیں بلکہ فرشتے ہیں اور انسان کی صورت بن کر آئے ہیں۔
ان الملائکۃ لما اخبروا ابراھیم (علیہ السلام) انھم من الملائکۃ لا من البشر واھم انما جاوا الا ھلاک قوم لوط طلب ابراھیم (علیہ السلام) منھم معجزۃ مثالۃ علی انھم رملائکۃ فدعوار بھم باحیاء العجل الشوی فطفر ذلک العجل المشوی من الموضع الذی وضع فیہ الی مرعاہ۔ (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں ایک اور عجیب و غریب روایت لکھی ہے کہ جب ان فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتلادیا کہ وہ فرشتوں میں سے ہیں اور انسان نہیں ہیں اور وہ صرف قوم لوط کے ہلاک کرنے کو آئے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے معجزہ طلب کیا کہ ان کے فرشتے ہونے پر دلالت کرے۔ پھر انھوں نے اپنے پروردگار سے اس بھنے ہوئے بچھڑے کے زندہ ہوجانے کی دعا مانگی۔ بچھڑا جہاں رکھا ہوا تھا وہاں سے کو دا اور اپنے چراگاہ میں چلا گیا۔ ہم کو افسوس ہے کہ ہمارے علما نے ایسی بےسروپا اور بےسند مہمل روایتیں اپنی تفسیروں میں لکھی ہیں خدا ان پر رحم کرے۔
اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے جیسا کہ خود انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا۔ لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط۔ (سورة ھود) اور دوسری جگہ کہا۔ انا ارسلنا الی قوم مجرمین (سورة حجر) ایک اور جگہ کہا۔ انا ارسلنا الی قوم مجرمین لنرسل علیھم حجارۃ من طین مسومۃ عند ربک للمسرفین (سورة الذاریات) ۔
بالجشری۔ یعنی ساتھ خوشخبری کے۔ اور وہ خوشخبری حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حضرت سارا سے بیٹا اور پوتا یعنی اسحق اور اسحق سے یعقوب کے پیدا ہونے کی تھی جس کا بیان آگے آویگا۔
فلمارا ایدیھم لا تصبل الیہ نکرھم واوحس ستھم حیفہ (سورة ھود)
یعنی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کا ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھا تو نہ جانا کہ یہ کون ہیں اور ابراہیم کے دل میں ان سے خوف پیدا ہوا۔
فلما امتنعوا من الا کر خاف ان یرید وابہ مکروھا ان لا یعرف اذا حضر وقدم الیہ طعام فان کل حصل لا من وان لمایاکل حصل الخوف۔ (تفسیر کبیر)
تفسیرکبیر میں لکھا ہے کہ جب انھوں نے کھانے سے اپنے تئیں روکا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوف ہوا کہ وہ کچھ مکر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب کوئی انجان آدمی آوے اور اس کے سامنے کھانا لایا جاوے پھر اگر وہ کھا لیوے تو اس سے اطمینان ہوجاتا ہے اور اگر وہ نہ کھاوے تو اس سے خوف پیدا ہوتا ہے۔
فقربہ الیہم قال الا تاکلون فاوجس منھم خیفہ۔ (سورة ذاریات)
یہی مضمون سورة الذاریات میں ان لفظوں سے آیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھنا ہوا بچھڑا ان کے پاس لائے کہا کہ کیا تم نہیں کھاتے یعنی جب انھوں نے اس پر ہاتھ نہ بڑھایا جیسا کہ سورة ہود میں مذکور ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تم نہیں کھاتے۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں ان سے خوف پیدا ہوا۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس کہنے کے بعد الاتاکلون ان لوگوں نے کھایا ہو اس لیے کہ کھانے کی نفی اس سے نہیں پائی جاتی۔ اذدخلو علیہ قالوا سلام۔ قال انہ منکم وجلون۔ (سورة الحجر)
سورة الحجر میں اس واقعہ کو زیادہ اختصار سے بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جب وہ تینوں شخص ابراہیم کے پاس آئے تو انھوں نے کہا سلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہا کہ ہم تم سے خوف کرتے ہیں۔
پورا واقعہ یوں ہے کہ جب وہ تینوں شخص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انھوں نے کہا سلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی کہا سلام پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھنا ہوا بچھڑا ان کے لیے کھانے کو لائے جب انھوں نے کھانے کے لیے ہاتھ نہ بڑھایا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں خوف پیدا ہوا اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تم نہیں کھاتے اور یہ بھی کہا کہ ہم تم سے (نہ کھانے کی سبب ) خوف کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم سے خوف نہ کرو ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے ہیں اور تم کو بھی بشارت دیتے ہیں۔ پس ان تمام حالات سے نہ تو ان تینوں شخصوں کا فرشتہ ہونا پایا جاتا ہے اور نہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انھوں نے کھانا نہیں کھایا بلکہ اس طرف قرینہ قیاس زیادہ ہے کہ ان اصراروں کے بعد انھوں نے کھانا کھایا ہو اور خدا تعالیٰ نے جو ان کو دو جگہ حنیف ابراھیم کرکے بیان کیا ہے یہ قرینہ قوی ہے کہ انھوں نے کھانا بھی کھایا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ضیافت قبول کی۔
ولمراتہ قائمۃ فضحکت فبشرانا ھا باسحق ومن وراء اسحق یعقوب۔ (سورة ھود)
پھر خدا نے فرمایا کہ اس کی بیوی کھڑی تھی پھر ہنس پڑی پھر ہم نے اس کی خوشخبری دی اسحق کے پیدا ہونے کی اور اس کے پیچھے یعنی اسحق سے یعقوب کے پیدا ہونے کی۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کے ہنسنے کی علت بیٹا ہونے کی بشارت تھی مگر جو کہ ان کا ہنس پڑنا ایک مقدم امر اور زیادہ تر توجہ کے قابل تھا اس لیے معلول کو علت پر مقدم کردیا ہے۔
ان ھذا علی التقدیم ولاتاخیروا لتقدیر وامرتہ قائمۃ فبشر نام یا سحق فضحکت سروایسبب تلک البشارۃ فقدم الصحک ومعناہ التاخیر۔ (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے کہ یہاں تقدیم و تاخیر ہے تقدیر کلام الٰہی کی یہ ہے کہ اس کی بیوی کھڑی تھی پھر ہم نے اس کو بشارت دی اسحق کے پیدا ہونے کی اس کی بیوی خوشی سے ہنسی بسبب اس خوشخبری کے پس ہنسنے کو مقدم کردیا ہے اور ۔ معنا دو موخر ہے۔
ایک امر غور طلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے فرمایا کہ لقد جاءت رسلنا ابراھیم بالبشری یعنی وہ رسل بشارت لے کر آتے تھے اور پھر فرمایا فبشرناھا باسحق یعنی ہم نے بشارت دی ابراہیم کی بیوی کو اسحق کے پیدا ہونے کی اس جگہ بشارت کو خاص اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اور سورة الحجر میں حنیف ابراھیم کا قول بیان کیا ہے کہ ” انا نبشرک بغلام علیم “ یعنی حنیف ابراھیم نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ ہم تجھ کو بشارت دیتے ہیں دانا لڑکے کے پیدا ہونے کی اور سورة الذاریات میں ہے ” وبشروہ بغلام علیم “ یعنی حنیف ابراہیم حضرت کو دانا لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دی۔
اور اسی طرح سورة ہود میں ہے ” قالت یاویلتی عالدوانا عجوز وھذا یعلی شیخاً “ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی نے کہا کہ ” افسوس مجھ کو کیا میں جنوں گی اور میں بڑھیا ہوں اور یہ مرا خصم بڈھا ہے “۔
فاقتلت امراتہ فی صرۃ فصکت وجھہا وقالت عجوز عقیم (سورة الذاریات)
اور سورة الذاریات میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حیرت میں ہو کر آگے بڑھی اور منہ پیٹ لیا اور کہا کہ بانجھ بڑھیا۔ یعنی کیا بانجھ بڑھیا بیٹا جنے گی۔
قالا بشر تمونی علی ان مسنی الکبر فبم تبشرون (سورة الحجر)
اور سورة الحجر میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ” کیا تم مجھ کو بشارت دیتے ہو باجودیکہ مجھ پر بڑھاپا آگیا ہے پھر کس طرح تم مجھ کو بشارت دیتے ہو۔
مگر وہ تینوں شخص خدا کے بھیجے ہوئے تھے انھوں نے بذریعہ الہام یا وحی کے جو ان پر خدا نے بھیجی تھی یہ بشارت دی تھی۔ قرآن مجید کا طرز کلام بہت جگہ اس طرح پر ہے کہ خدا تعالیٰ علۃ العلل ہونے کی وجہ سے بندوں کے کاموں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اس لیے سورة ہود میں اس بشارت کو اپنی طرف نسبت کیا ہے کہ ہم نے بشارت دی اور مقاموں پر اپنے رسل کی طرف منسوب کیا ہے جن کے ذریعہ سے وہ بشارت دی گئی تھی مگر درحقیقت بشارت دینے والا خدا ہے۔
یہ بشارت جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حضرت سارا سے بیٹا ہونے کی تھی دونوں معاً بشارت تھی یعنی ایک بشارت دونوں کے لیے تھے اور دونوں نے اس کو سنا تھا اور اس لیے کبھی اس بشارت کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اور کبھی ان کی بیوی سے منسوب کیا ہے جو ضمناً اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں کے لیے یکساں بشارت ہے اور اسی سبب سے کہیں حضرت سارا کا قول نقل کیا ہے کہ ” انا عجوز وھذا بعلی شیخا “ اور کہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول نقل کیا ہے کہ ” البشر تمونی علی ان مسنی الکبر “ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بشارت سن کر دونوں نے یہ بات کہی تھی۔
بشرناک یالحق فلاتکن من القانطین قال ومن یقنط من رحمۃ ربہ الاالضالون۔ (سورة الحجر)
ان تینوں رسولوں نے جب حضرت سارا کا اس بشارت پر تعجب سنا تو انھوں نے کہا ” اتعجبین من امر اللہ “ یعنی کیا تو تعجب کرتی ہے خدا کے حکم سے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعجب سن کر انھوں نے کہا کہ ہم نے تجھ کو خوشخبری دی ہے ٹھیک بس تو ناامیدوں میں سے مت ہو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ کون شخص خدا کی رحمت سے ناامید ہوتا ہے بجز گمراہوں کے۔
یہ خیال کرنا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت سارا کی اولاد مافوق الفطرت ہونی تھی اس پر قرآن مجید سے کوئی دلیل نہیں ہے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت لفظ شیخ آیا ہے اور لفظ شیخ ایسا نہیں ہے کہ اس سے یہ سمجھا جاوے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس حد سے جس میں موافق قانون قدرت کے اولاد ہوسکتی ہے گز چکے تھے۔
حضرت سارا کی نسبت لفظ عجوز آیا ہے عجوز کا لفظ اور شیخۃ کا لفظ دونوں مرادف ہیں بلکہ کبھی جو ان عورت پر بھی اطلاق ہوتا ہے قاموس میں لکھا ہے والعجوز۔۔۔ المراۃ شابۃ کانت اوشیخۃ اور یہی عجوز کا لفظ سورة شعرا میں حضرت لوط کی بیوی کی نسبت آیا ہے پس اس لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت سارا ایسی حد پر پہنچ گئی تھی جو موافق قانون قدرت کے ان سے اولاد ہونی ناممکن ہو۔
دوسرا لفظ حضرت سارا کی نسبت عقیم یعنی بانجھ کا آیا ہے۔ جن عورتوں کے ہاں ایک زمانہ تک جو بنسبت عاد عادت کے زیادہ ہو اولاد نہیں ہوتی ان پر عادۃً عقیم کا لفظ اطلاق کیا جاتا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ وہ اولاد جننے کے ناقابل ہوتی ہیں کیونکہ بعض عورتیں اب بھی ایسی موجود ہیں جن کے مدت تک اولاد نہیں ہوئی اور وہ عقیم تصور ہونے لگیں لیکن بڑی عمر میں جب کہ وہ شیخۃ ہوگئیں ان کے اولاد ہوئی ایک شوہر دار عورت کو میں جانتا ہوں کہ قریب چالیس برس کی عمر تک اس کے اولاد نہیں ہوئی بعد اس کے وہ حاملہ ہوئی اور بیٹی جنی بلاشبہ لوگوں کو اس کے حاملہ ہونے اور بیٹی جنے پر تعجب ہوا تھا۔
مسلمان مفسر جو بغیر غور کے یہودیوں کی روایتوں کی پیروی کرنے کے عادی ہوگئے اس لیے انھوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سارا کی عمر اس قدر بڑی ہوگئی تھی کہ ان سے اولاد کا ہونا ناممکن تھا اور اس لیے انھوں نے اس واقعہ کو بطور ایک معجزہ کے مافوق الفطرت قرار دیا ہے۔
توریت میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ننانوے برس کی عمر تھی جب ان کا فتنہ ہوا (کتاب پیدائش باب درس ) اور ایک برس بعد وہ تین شخص بشارت دینے کو آئے تھے۔ پس اس وقت ان کی عمر سو برس کی تھی۔
اور سارا کی نسبت لکھا ہے کہ وہ سال خوردہ ہوگئی تھیں اور عورتوں کی عادت بند ہوگئی تھی (کتاب پیدائش باب درس )
غرض کہ عبری توراۃ کے حساب سے بشارت کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو برس کی تھی اور حضرت سارا کی نوے برس کی تھی۔ مسلمانوں نے ان روایتوں کی پیروی کی اور حضرت اسحق کا پیدا ہونا مافوق الفطرت بطور معجزہ کے قرار دیا باوجودیکہ توراۃ ہی سے پایا جاتا ہے کہ اس عمر میں بھی لوگوں کے بغیر کسی معجزہ تسلیم کنے اولاد ہوئی ہے چنانچہ توراۃ کے حساب کے موافق جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر چھیاسی برس کی تھی اور جب حضرت یعقوب کے حضرت یوسف پیدا ہوئے تو مطابق حساب توراۃ عبری کے حضرت یعقوب کی عمر نوے برس کی تھی اور جب بنیامین یوسف کے بھائی پیدا ہوئے ہیں تو حضرت یعقوب کی عمر ایک سو ایک برس کی تھی۔
مسلمان مفسروں نے جو اس باب میں یہودیوں کی روایتوں کی پیروی کی ہے صریح غلطی کی ہے کیونکہ ان زمانوں کی صحت پر جو توراۃ سے نکلتے ہیں نہایت شبہ ہے۔
مثلا عبری توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سنہ دنیوی میں یعنی سنہ قبل مسیح کے پیدا ہوئے تھے اور یونانی توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ دنیوی میں پیدا ہوئے تھے اور سامری کی توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ دنیوی میں پیدا ہوئے تھے۔
سارا موافق توراۃ عبری کے سنہ دنیوی میں پیدا ہوئی تھیں یعنی دس برس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چھوٹی تھیں اور سنہ دنیوی میں بشارت ہوئی تھی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ننانوے برس کے تھے اور حضرت سارا نواسی برس کی۔
مگر جب کہ توراۃ کے نسخوں میں اس قدر اختلاف ہے تو جو زمانہ ان سے نکلتا ہے بطور تخمینہ و اندازہ کے تصور ہوسکتا ہے نہ بطور ایسے یقین کے جس پر کوئی امر مافوق الفطرت بطور یقین کے مبنی ہوسکے۔
علاوہ اس کے جو زمانے توراۃ سے تسلیم کئے گئے ہیں ان میں بھی بدیہی غلطیاں ہیں جس کو مفصل بیان کرنے کی اس تفسیر میں گنجائش نہیں ہے علاوہ اس کے ایک نہایت بڑی بحث یہ ہے کہ برس جو توراۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن پر اس زمانہ کے لوگوں کی عمر کا حساب بتلایا ہے ان کی مقدار کیا تھی کچھ شبہ نہیں ہے کہ مختلف زمانوں میں برس کی مقدار نہایت ہی مختلف رہی ہے اور اسی مقدار سے جس زمانہ میں جس کی عمر جتنے برسوں کی گنی جاتی تھی وہی تعداد توراۃ میں اور نیز بعض جگہ قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے اور یہ امر نہایت غور اور تحقیقات اور بیان کا محتاج ہے کیا عجب ہے کہ اگر خدا نے مدد کی اور توفیق دی تو اسی تفسیر کے کسی مناسب مقام میں یا ایک جداگانہ رسالہ میں ہم اس کو بیان کرینگے اس مقام پر صرف اس قدر بیان کرنا کافی ہے کہ ہر گاہ قرآن مجید سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سارا کی وہ حالت جس میں مطابق قانون قدرت کے اولاد کا ہونا ناممکن ہو ثابت نہیں ہے تو صرف یہودیوں کی روایتوں یا توراۃ کی استدلال پر اس کو ایک واقعہ مافوق الفطرت یقین کرنا صحیح نہیں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ ھود : آیت 74

فَلَمَّا ذَہَبَ عَنۡ اِبۡرٰہِیۡمَ الرَّوۡعُ وَ جَآءَتۡہُ الۡبُشۡرٰی یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوۡمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾

تفسیر سرسید :

(یجادلنا) یعنی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ڈر جاتا رہا اور ان کو خوشخبری مل گئی اور ان کو حضرت لوط کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے اس میں جھگڑنا شروع کیا۔
اول یہ بحث ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قوم لوط پر عذاب نازل ہونا کس طرح معلوم ہوا۔ توراۃ باب درس و و میں لکھا ہے کہ خداوند گفت چوں فریاد سدوم و عموراہ زیادہ دگنا ہاں ایشاں بسیار سنگین است پس نمرود آمدہ خواہم دید کہ آیا باسکیہ مثل فریادے کہ یمن رسیدہ است عمل نمودماندوا اگر چنیں نہ باشد خواہم دانست وآں اشخاص توجہ نمود دبسوئے روم روانہ شدند ۔ جس لفظ کا ترجمہ خداوند کیا گیا ہے وہ لفظ یہود یا جمود ہے جو خدا کا نام ہے پس توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس سے خبر دی تھی۔ مگر قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی تین شخصوں نے جو بھیجے گئے تھے خبر دی تھی۔
قال فما خطبکم ایہا المرسلون قالوا انا اوسد الی قوم مجرمین (سورة الحجر)
سورة الحجر میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا پھر کیا ہے تمہارا کام اے بھیجے ہوؤ انھوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گناہ گار قوم کی طرف۔
قال فما خطبکم ایہا المرسلون قالوا انا ارسلنا الی قوم مجرمین لنرسل حلیھم حجارۃ من طین مسومۃ عند ربک المسرفین (سورة الذاریات)
اور سورة الذاریات میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا پھر تمہارا کیا کام ہے اے بھیجے ہوؤ انھوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گناہ گار قوم کی طرف تاکہ ہم ڈالیں ان پر پتھر مٹی سے نشان کئے گئے ہیں تیرے پروردگار کے نزدیک حد سے بڑھ جانے والوں کے لئے۔
دوسری اس پر یہ بحث ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کس سے بحث شروع کی اس آیت میں ” نا “ کی ضمیر خدا کی طرف ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے بحث بمعنی التجا شروع کی۔ توراۃ باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بحث خدا ہی سے ہوئی تھی کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ ان اشخاص کے سدوم کو چلے جانے کے بعد ” در حالیکہ ابراہیم درحضور خداوند مے ایستاد پس ابراہیم تقرب جستہ گفت الخ “۔
مگر ہمارے علمائے مفسرین لکھتے ہیں کہ یجادلنا سے مراد ہے یجادل رسلنا سے لیکن قرآن مجید میں جو بحث لکھی ہے وہ نہایت مختصر اور ایک امر کی نسبت ہے اور توراۃ میں جو لکھی ہے وہ نہایت لمبی ہے ممکن ہے کہ جو بات قرآن مجید میں ہے وہ ان تین شخصوں سے ہوئی ہو، اور جس مجادلہ کا ذکر سورة ہود میں ہے اور یجادلنا کے لفظ سے بیان ہوا ہے وہ التجا خدا ہی سے ہو۔
قالوا انا ارسلنا الی قوم مجرمین الا ال لوط انا لمنجوھم اجمعین الا امراتہ قدرنا انھا لمن الغابرین (سورة ھود)
سورة ہود میں تو مجادلہ کا کچھ بیان نہیں ہے اور سورة الحجر میں صرف اس قدر ہے کہ ان تین شخصوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گناہ گار قوم کی طرف۔ بجزآل لوط کے یعنی وہ گناہ گار قوم میں نہیں ہیں۔ ہم بیشک ان سب کو بچانے والے ہیں بجز اس کی جورو کے ۔ ہم نے ٹھہرا دیا کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہے۔
قالوانا مھلکوا ھذہ القریۃ ان اھلہا کانوا ظالمین قال ان فیھا الرطاقالوا نحر۔ اعلم لمن فیھا الننجینہ واھلہ الا امراتہ کانت من الغابرین (سورة عنکبوت)
اور سورة عنکبوت میں ہے کہ ان تین شخصوں نے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے تھے کہا کہ ہم بیشک اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس بستی کے رہنے والے ظالم ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اس میں تو لوط بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں اس کو جو اس میں سے البتہ بچا دینگے ہم اس کو اور اس کے لوگوں کو بجز اس کی جورو کے وہ ہے پیچھے رہنے والوں میں سے۔
قالوا انا ارسلنا قول قوم مجرمین لنرسل علیھم حجارۃ من طین مسرمۃ عندربک المسرفین فاخرجنا فیھا من المومنین فما وجدنا فیھا غیریت المسلمین و ترکنا یھا ایۃ الذین یخافون العذاب الالیم۔ (سورة الذریات)
اور سورة الذاریات میں ہے کہ ان تین شخصوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گناہ گار قوم کی طرف تاکہ ہم ڈالیں ان پر پتھر مٹی سے نشان کئے گئے تیرے پروردگار کے نزدیک حد سے بڑھ جانے والوں کے لئے۔ پھر ہم نے اس کو نکال لیا جو اس میں ایمان والوں میں ہے پھر ہم نے اس میں نہیں پایا سوائے ایک گھر کے مسلمانوں میں سے۔ اور ہم نے اس میں ایک نشانی چھوڑ دی ان لوگوں کے لیے جو دکھ دینے والے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
ان آیتوں میں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا صرف حضرت لوط کی نسبت سوال کرنا معلوم ہوتا ہے۔ مگر ان آیتوں میں جو ایک مشکل ہے وہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں جو الفاظ۔ انا لمنجوھم۔ یعنی بیشک ہم ان سب کو بچانے والے ہیں۔ انا مھنکو ھذہ القریۃ۔ یعنی ہم بیشک اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ لنرسل علیم حجارۃ۔ یعنی تاکہ ہم ڈالیں ان پر پتھر۔ فاخرجنا پھر ہم نے لوط کو نکال لیا۔ فما وجدنا فیا۔ یعنی ہم نے بجز ایک گھر مسلمان کے اور نہ پایا۔ وترکنا فیھا۔ اور چھوڑی ہم نے اس میں نشانی اور مثل اس کے اور چند الفاظ ہیں کہ اس پر مقتدارانہ کہنا نہ رسولوں کے اختیار میں ہے نہ فرشتوں کے بلکہ یہ مقتدارا نہ کام صرف خدا کی قدرت میں ہیں نہ کسی بندے کے خواہ رسول ہوں یا انسان یا فرشتے۔
اسنادھم ایاہ الی نفسھم وھو فعل اللہ تعالیٰ الماھم من القرب والا فحتصاص بہ۔ (تفسیر بیضاوی)
اس کی نسبت تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ ان تمام مقتدارانہ کاموں کو جو ان تین شخصوں نے اپنی طرف نسبت کیا ہے جو خدا کے کام ہیں اس لیے کیا ہے کہ خدا سے ان کو تقرب و خصوصیت حاصل تھی۔
مگر میں اس توجیہ کو تسلیم نہیں کرتا کوئی بندہ ایسے مقتدارانہ کام اپنی نسبت منسوب نہیں کرسکتا اس قصہ کو خدا نے حکایۃً بیان کیا ہے جس میں ان تین شخصوں کے اقوال اور خدا کے مقتدرانہ افعال دونوں شامل بیان ہوئے ہیں پس تمام وہ ضمیریں اور مقتدارانہ الفاظ خدا کی طرف منسوب ہیں نہ ان تین شخصوں کی طرف۔
کذبت قوم لوط بالنذرانا ارسلنا علیھم حاصبا الا ال نودا نجینا ھم بسحر نعمۃ من عندنا کذلک نجزی من شکر ولقدانذرھم بطشتنا فتما روابا لمنذر ولقدر راودوہ عن ضیفہ فطمسنا ایعنھم غذوقواعدائے ونذر ولقد صبحرھ بکرۃ عذاب مستقرنذوقوا عذابی ونذر (سورة قمر)
اس کا ثبوت خود قرآن مجید کی ایک آیت سے ہوتا ہے جس میں بلا ذکر ان تین شخصوں کے ان مقتدرانہ مور کو خدا نے خاص اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ سورة قمر میں خدا نے فرمایا ہے۔ یعنی جھٹلایا لوط کی قوم نے ڈرانے والوں کو بیشک ہم نے پہنچائی ان پر پتھروں کی بوچھاڑ بجز لوط کے لوگوں کے ہم نے
ان کو بچایا صبح کے وقت اپنے پاس سے انعام کرکے اسی طرح ہم بدلا دیتے ہیں اس کو جو شکر کرتا ہے اور بیشک ان کو ڈرایا تھا ہمارے عذاب سے پھر انھوں نے تکرار کی ڈرانے والوں سے اور بیشک انھوں نے دند مچائی اس کے یعنی لوط کے مہمانوں سے پھر بیکار کردیں ہم نے ان کی آنکھیں پھر وہ چکھیں میرا عذاب اور میرے ڈرانے والوں کا اور بےشبہ گھیر لیا ان کو بہت سویرے جگہ پر قائم رہنے والے عذاب نے پھر چکھیں میرا عذاب اور میرے ڈرانے والوں کا۔
توریت میں ایک اور مجادلہ کا یعنی التجا کا ذکر لکھا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا سے کی تھی اور سورة ہود میں جو یجادلنافی قوم لوط آیا ہے اور وہ مجادلہ بیان نہیں کیا۔ کیا عجب ہے کہ اس سے وہی مجادلہ یا التجا مراد ہو جس کا ذکر توراۃ میں ہے مفسرین بھی اس لفظ سے یہی مجادلہ بمعنی التجا سمجھتے ہیں چنانچہ ہم فارسی ترجمہ توراۃ کا اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔
وآں اشخاص از انجاتوجہ نمودہ بسوے سدوم روانہ شدند درحالت یکہ ابراہیم در حضور خداوند مے ایستا دپس ابراہیم تقرب جستہ گفت کہ آیا حقیقۃً صالح رابا طالح ہلاک خواہی ساخت احتمال دار و کہ دراندرون شہر پنجاہ نفر صالح باشند آیا میشود کہ آں مکان را ہلاک سازی و بسبب آں پنجاہ نقرصالحے کہ دراند رونش مے باشند نجات ندہی حاشا انہ تو کہ مثل اچھا کا رے کنی و صالحاں را باطانحاں ہلاک سازی و صالح باطالح مساوی باشد حاشا از تو آیا میشود کہ حاکم تمامی زمین عدالت نکندپس خداوند گفت اگر درمیان شہر سدوم پنجاہ نفر صالح پیدا بکنم تمامی اہل آں مکاں رابسبب ایشاں نجات خواہم دادوابراہیم درجواب گفت اینک حال من کہ خاک و خاکستر ہستم آغاز تکلم نمودن با آقایم مے نما یم بلکہ از پنجاہ نفر صالح پنج نضر کمی نمایند آیا میشود کہ تمامی اہل شہر را بسبب آں پنج نفر ہلاک سازی پس گفت اگر درانجا چہل و پنج نفریا بہم ہلاک نخواہم کر دوباردگربا اومتکلم شدہ گفت بکعداں چہل نفر یافتہ شود پس اوگفت کہ بہ بسبب چہل نضرآں عمل نخواہم نمودوا اوگفت تمنا این کہ آقا یم غضبناک نشود کہ تکلم نما یم بلکہ دراں سی نفر یافتہ شوند اوگفت اگر درانجاسی نضر پیدبکنم آں عمل نخواہم نمود دیگر گفت انیک حال آغاز تکلم باآقا یم نمودہ ام بلکہ درانجابست تفر یافتہ شود اوگفت کہ بہ سبب بست نضر ہلاک آں نخواہم کردودیگر گفت تمنا این کہ آقا یم غضبناک نشود تاآنکہ یکباردیگر تکلم نما یم بلکہ درانجادہ نفر پیدا شود اوگفت کہ بسبب وہ نفرہلاک شاں نخواہم گرد و خداوند ہنگامے کہ کلام رابا ابراہیم انجام رساندہ بودروانہ شددا ابراہیم بمکانس رجعت نمود۔ کتاب پیدائش باب درس لغایت ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ ھود : آیت 77

وَ لَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَا لُوۡطًا سِیۡٓءَ بِہِمۡ وَ ضَاقَ بِہِمۡ ذَرۡعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ ﴿۷۷﴾

تفسیر سرسید :

(ولما جاءت رسلنا لوط) اب یہاں سے حضرت لوط کا قصہ شروع ہوا مگر یہاں اس قصہ کے اخیر کا بیان ہے شروع قصہ اور سورتوں میں بیان ہوا ہے۔ توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط جب مصر سے واپس آئے تو علیحدہ علیحدہ ہوگئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کنعان میں رہے اور حضرت لوط (علیہ السلام) اردن کے میدان میں جو نہایت سرسبز و شادات و زرخیز خطہ تھا اور جہاں سدوم و عموراہ وادماد زبوئیم کی بستیاں تھیں چلے گئے۔
اس زمانہ میں ان تمام ملکوں میں طوائف الملوکی تھی اور آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں الک لڑائی میں حضرت لوط قید ہوگئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فوج جمع کرکے پانچ بادشاہوں سے مقابلہ کیا اور حضرت لوط کو اور سدوم والوں کو چھڑایا یہ واقعہ عبری توراۃ کے حساب سے دنیوی میں یا قبل مسیح کے ہوا تھا۔
غرض کہ حضرت لوط سدوم میں رہتے تھے جہاں کے لوگ نہایت بدکار تھے حضرت لوط نے ان سے کہا کہ میں خدا کا رسول ہوں میری اطاعت کرو اور جو بد باتیں ان میں تھیں ان کے چھوڑنے کی نصیحت کی۔
کذبت قوم لوط المرسلین اذ قال لھم اخوھم لوطا لاتتقون انی لکم رسول امین فانقوا اللہ واطیعون وما اسئلکم علیہ من اجران اجری الا علی رب العالمین۔ اتاتون القا کو ان من العالمین و تذرون ما خلق لکم ربکم من ازوا جکم بل انتم قوم عادون قالوا لئن لم تنتہ یالوط لتکونن من المخرجین قال انی لعملکم من القالین رب نجنی واھلی مما یعملون فنجیناہ واھلہ اجمعین الا عجوبناء فی الغابرین ثم ومن الاخرین وامطرنا علیھم مصر افساء مطر المنذرین۔ (الشعرا)
سورة شعرا میں خدا فرماتا ہے کہ جھٹلایا لوط کی قوم نے رسولوں کو جب کہ ان سے کہا کے بھائی لوط نے کہ کیا تم نہیں ڈرتے بیشک میں تمہارے لیے رسول ہوں رسالت مجھے سپرد ہے پھر ڈرو اللہ سے اور میری اطاعت کرو اور میں تم سے اس پر کچھ بدلا نہیں مانگتا میرا بدلا دینا کسی پر نہیں ہے بجز عالموں کے پروردگار پر کیا تم مردوں کے پاس آتے ہو جو دنیا میں ہیں اور چھوڑتے ہو اس کو جسے پیدا کیا ہے تمہارے لیے تمہارے پروردگار نے تمہاری جوروں میں سے بلکہ تم ایک قوم ہو حد سے بڑھ جانے والی انھوں نے کہا کہ اے لوط اگر تو بس نہ کرے گا تو بیشک نکالے گیوں میں سے ہوگا۔ لوط نے کہا کہ بیشک میں تمہارے کام کے دشمنوں میں سے ہوں۔ اے پروردگار مجھ کو اور میرے لوگوں کو اس کام سے جو وہ کرتے ہیں (یعنی اس کے وبال سے) نجات دے۔
پھر نجات دی ہم نے اس کو اور اس کے لوگوں کو بجز ایک ادھیڑ عورت یعنی لوط کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ پھر ہلاک کردیا ہم نے اوروں کو اور برسایا ہم نے ان پر مینہ ایک قسم کا پھر ڈرائے گیوں پر مینہ برا ہے۔
ولوطا اذقال لقومہ اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون، انکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النساء بل انتم قوم تجھلون فاکان جواب قومہ الا ان قالوا اخرجوا ال لوط من قریتکم انھم اناس بتطھرون۔ نانجینا واھلہ الا امراتہ قدرنا ھامن الغابرین وامطرنا علیھم مطرانساء مطرالمنذرین۔ (نمل لغایت )
اسی طرح سورة نمل میں خدا نے فرمایا ہے کہ ہم نے لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بےحیائی کا کام کرتے ہو اور تم دیکھتے ہو کیا تم بری خواہش سے عورتوں کے سوا مردوے کے پاس آتے ہو بلکہ تم جاہل قوم ہو پھر کچھ نہ تھا اس کی قوم کا جواب بجز اس کے کہ انھوں نے کہا کہ لوط کے لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں پھر بچا دیا ہم نے اس کو اور اس کے لوگوں کو بجز اس کی جورو کے ہم نے اس کے لیے ٹھہرا دیا تھا کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہے اور برسایا ہم نے ان پر ایک قسم کا مینہ پھر ڈرائے گیوں پر کا مینہ برا ہے۔
ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشۃ ما سبقکم بھا من احد من العالمین۔ انکم لتاتون الرجال شہوۃ من دون النساء بلا انتم قوم مسرفون۔ وما کان جواب قوم الا ان قالوا اخرجوھم من قربتکم انہم اناس یتطھرون نانجیناہ واھلہ الا امراتہ کانت من الغابرین وامطرناعلیھم مطرا فانظر کیف کان عاقبۃ المجرمین۔ (الاعرافلغایت )
اور سورة اعراف میں ہے۔ اور بھیجا ہم نے لوط کو جس وقت کہ اس نے کہا اپنی قوم کو کیا تم فحش کام کرتے ہو کہ اس کو تم سے پہلے کسی ایک نے بھی جہان کے لوگوں سے نہیں کیا۔ بیشک تم مردوں کے پاس آتے ہو شہوت رانی کو عورتوں کے سوا ہاں تم ایک قوم ہو حد سے گزری ہوئی اور نہ تھا ان لوگوں کا جواب بجز اس کے کہ انھوں نے کہا نکال دو ان کو اپنی بستی سے بیشک وہ آدمی ہیں اپنے تئیں پاک بنانے والے۔ پھر نجات دی ہم نے اس کو اور اس کے لوگوں کو بجز اس کی عورت کے کہ وہ تھی پیچھے رہنے والوں میں ۔ اور برسایا ہم نے ان پر برسانا پھر دیکھ کیا ہوا انجام گنہگاروں کا۔
ولوطا اذقال لقومہ انکم لتاتون الفاحشۃ ما سبقکم بھا من احد من العالمین وانکم ستاتون الرجال وتقطعون السمل وتاتون فی نا دیکم المنکر فما کان جواب قومہ الا ان قالوا امنت بالعذاب اللہ ان کنت من صادقین قال رب انصرنی علے القوم المفسدین۔ (سورة عنکبوت)
اسی طرح سورة عنکبوت میں خدا نے فرمایا ہے کہ بھیجا ہم نے لوط کو جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ البتہ تم بےحیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے کسی نے دنیا کے لوگوں میں سے نہیں کیا۔ کیا یہ ٹھیک بات ہے کہ تم مردوں کے پاس آتے ہو اور رستہ لوٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو۔ پھر اس کی قوم کا جواب کچھ نہ تھا بجز اس کے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے خدا کا عذاب لا اگر تو سچا ہے لوط نے کہا اے پروردگار میری مدد کر ظالم قوم پر۔
غرض کہ حضرت لوط ان کو بری باتوں کے چھوڑنے کی نصیحت کرتے تھے اس عرصہ میں یہ تینوں رسول جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے تھے وہاں پہنچے حضرت لوط ان کے آنے سے کبیدہ خاطر اور ان کے سبب سے دل تنگ ہوئے اور کہا کہ آج کا دن نہایت سخت ہے۔
ویلسئن جلعت رسلنا لوطا سیء بھم وضاق بھم ذرخاد قالوا الا تخف ولافخراک انا مفجرک واھلک الا امرانک وکانت من الغابرین۔ انا منزلون علی اھل ھذہ القریۃ نجوا من السماء بما کانوا یفسمون ولقد ترکت منھا ایۃ بینۃ لقوم یعقلون (عنکبوت)
یہی مضمون سورة عنکبوت میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ جب آئے ہمارے رسول لوط کے پاس تو ان کے آنے سے کبیدہ خاطر اور ان کے سبب سے دل تنگ ہوا انھوں نے کہا کہ مت ڈرا اور غمگین مت ہو بیشک ہم تجھ کو اور تیرے لوگوں کو بچاوینگے بجز تیری جورو کے کہ وہ پیچھے رہے جانے والوں میں سے ہے اور ہم اتارنے والے ہیں اس بستی کے لوگوں پر عذاب آسمان سے اس لیے کہ وہ بدکاری کرتے ہیں اور بیشک ہم نے چھوڑا اس بستی کا نشان ظاہر واسطے ان لوگوں کے جو سمجھتے ہیں۔
فلما جاء لوط المرسلین قال انکم قوم منکودت فالق ایل جئناک بما کانوا فیہ یمترون واتیناک بالحق وانا لصاقون۔ (سورة الحجر)
یہی مضمون سورة حجر میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ جب لوط کے لوگوں کے پاس وہ رسول آئے تو کہا تم انجان لوگ ہو انھوں نے کہا کہ ہاں ہم تیرے پاس وہ لائے ہیں جس میں وہ شبہ کرتے تھے اور ہم تیرے پاس سچائی سے آئے ہیں اور بیشک ہم سچے ہیں۔
ان تینوں شخصوں یا رسولوں کے آنے کی خبر پاکر حضرت لوط کی قوم کے لوگ دوڑ پڑے یعنی حضرت لوط کا مکان گھیر لیا۔
وجاعاھل المدینۃ یستشرون قال ان ھؤلاء ضیفی فلا تفضحون واتقوا اللہ ولا تخزون۔ قالولا ولم تھک عن العالمین۔ قال ھؤلاء بناتی ان کنتم فاعلین۔ لعمرک انھم لنی سکرۃ یعمھون۔ فاخذتھم الصیحۃ مشرقین فجعلنا عالیھا سا فلھاوا مطرنا علیھم حجارۃ من سجیل ان فی ذلک لایات للمتوسمین۔ (سورة الحجر)
یہی مضمون مگر اس سے کسی قدر زیادہ تفصیل کے ساتھ سورة حجر میں آیا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ اس شہر کے لوگ خوشی کرتے ہوئے آئے (یعنی لوط کے گھر پر اس کا گھر گھیر کر جو لوگ اس کے گھر میں آئے تھے ان کے گرفتار کرلینے کے لئے) حضرت لوط نے کہا کہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں پھر ان کو فضیحت مت کرو اور خدا سے ڈرو اور مجھ کو ذلیل مت کرو۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہم نے تجھ کو منع نہیں کیا تھا دنیا کے لوگوں سے (یعنی دوسرے ملک کے لوگوں سے ملنے اور بلانے اور اپنے ناں رکھنے سے) لوط نے کہا یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو (یعنی اگر تم میرے مہمانوں کو پکڑنا چاہتے ہو) قسم ہے تیری زندگی کی کہ بیشک وہ اپنی گمراہی میں اندھے ہورہے تھے۔ پھر جالیا ان کو ہول ناک آواز نے سورج نکلتے ہوئے۔ پھر ہم نے اس شہر کی بلندی کو نیچان میں ڈال دیا۔ اور ہم نے ان پر آگ میں پکے ہوئے مقدر کئے ہوئے پتھر برسائے۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں عبرت پکڑنے والوں کو۔
کذبت قوم لوط بالنذر انا ارسلنا علیھم حاصبا الا ہل لوط نجینا ھم بسحر نعمۃ من عندنا کذالک نجزی من شکرولقد انذرھم بطشتنا فتما روا بالنذر۔ ولقدرا اودوہ عن ضیفعہ نعمسنا اعینھم فذوقوا ا عذابی ونذر۔ (القمرلغایت)
اور سورة قمر میں فرمایا ہے کہ جھٹلایا لوط کی قوم نے ڈرانے والوں کو بیشک ہم نے بھیجی ان پر پتھروں کی بوچھاڑ بجز لوط کے لوگوں کے ہم نے ان کو بچایا صبح کے وقت اپنے پاس سے انعام کرکے سہی طرح ہم بدلا دیتے ہیں اس کو جو شکر کرتا ہے اور بیشک ان کو ڈرایا تھا ہمارے عذاب سے پھر انھوں نے تکرار کی ڈرانے والوں سے اور بیشک انھوں نے دند مچائی اس کے یعنی لوط کے مہمانوں سے پھر بیکار کردیں ہم نے ان کی آنکھیں پھر وہ چکھیں میرے عذاب اور میرے ڈرانے والوں کا اور بےشبہ گھیر لیا ان کو بہت سویرے جگہ پر قائم رہنے والے عذاب نے پھر چکھیں میرا عذاب اور میرے ڈرانے والوں کا۔
سورة ہود کی اور ان سورتوں کی جن کا ہم نے ذکر کیا تمام آیتوں پر غور کرنے کے بعد تین امور بحث طلب معلوم ہوتے ہیں۔
اول : سدوم والوں نے کیوں حضرت لوط کا گھر گھیرا اور مہمانوں کو پکڑنا چاہا۔
دوم : ھولاء بناتی ان کتنم فاعلین سے کیا مطلب ہے۔
سوم : جو عذاب نازل ہوا وہ کیا تھا اور کیونکر تھا اور سورة قمر میں جو فتطسنا اعینھم ہے اس کا کیا مطلب ہے۔
انہم کانوا غبا یا مرد احسان الوجوہ لخاف ان بھیھم قومہ علیہ بسبب طلبھم (تفسیر کبیر سورة الحجر) فلما دخلت للائکۃ دارلوط (علیہ السلام) مضمت امراتہ عجوز الموء فقالت لقومہ دخل دار تاقوم مارایت احسن وجوھا ولا انظف ثبا باولا اطیب وایحۃ منھم فجاء قوم یعرعون الیہ ای یسرعون و بین تعالیٰ ان اسراعھم ربما کان بطلب الخبیث بقولہ ومن قبل کانوا یعملون السیئات۔ (تفسیر کبیر سورة ھود)
امر اول کی نسبت علمائے مفسرین کا یہ خیال ہے کہ وہ رسول جن کو انھوں نے فرشتے قرار دیا ہے نہایت خوبصورت امرو بن کر آئے تھے اور جب وہ حضرت لوط کے گھر میں آئے تو ان کی بیوی نے لوگوں سے جاکر کہہ دیا کہ ہمارے گھر میں ایسے خوبصورت لوگ آئے ہیں کہ ان سے زیادہ خوبصورت دیکھنے میں نہیں آئے ان سے زیادہ اچھے کپڑے پہنے کوئی نہیں ہے اور نہ زیادہ خوشبو والا ہے۔ یہ سن کر لوط کی قوم ان پر دوڑ پڑی اور خدا کے اس کلام سے کہ وہ بدکاری کیا کرتے تھے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا دوڑ پڑنا بدکاری کے لیے تھا۔
مگر میرے نزدیک یہ تفسیر صحیح نہیں ہے اور نہ اس تفسیر کی بنیاد کسی معتبر روایت پر ہے بلکہ صرف یہودی روایت پر مبنی ہے۔ خدا کے اس کلام پر کہ ” ومن قبل یعملون السیئات “ وہی ایک عمل خاص مراد لینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ بہت سے اور بھی گناہ کرتے تھے لوٹ مار کرتے تھے اپنی مجلسوں میں خراب کام کرتے تھے جیسا کہ سورة عنکبوت میں بیان ہوا ہے پس ” ومن قبل یعملون السیات “ کے عام معنی ہوسکتے ہیں کہ حضرت لوط کا گھر گھیر لینا اور شورہ پشتی کرنا ان سے کوئی عجیب بات نہیں تھی کیونکہ وہ پہلے ہی شریر و بدذات وبرے کام کرنے والے تھے۔
وجاء اھل المدینۃ یستبشرون قال ان ھولاء ضیفی فلا تفضحون واتقوا اللہ ولاتخزون قالوا اولم ننہک عن العالمین۔ (سورة الحجر)
اس باب میں ہم گو قیاسات وظنیات پر گھر گھیر لینے کا سبب بیان کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ خود قرآن مجید میں اس کی تصریح موجود ہے سورة الحجر میں خدا نے فرمایا ہے کہ جب اس شہر کے لوگ خوشی خوشی دوڑے آئے تو لوط نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں ان کو فضیحت مت کرو تو شہر کے لوگوں نے کہا کہ کیا ہم نے تجھ کو منع نہیں کیا تھا دنیا کے لوگوں سے۔
جس زمانہ میں حضرت لوط (علیہ السلام) سدوم میں جاکر رہے ہیں اس زمانہ میں طوائف الملوکی تھی۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا حاکم یا بادشاہ جدا جدا تھا سدوم کی بھی ایک چھوٹی سی سلطنت دخا تھی صاف صاف قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) واں جاکر رہے تو وہاں کے لوگوں نے منع کردیا تھا کہ تم اور لوگوں سے راہ و رسم و آمیزش نہ رکھنا پس جب کہ یہ اجنبی شخص حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں آگے ان لوگوں نے آکر گھر گھیر لیا کہ یہ اجنبی شخص کون ہیں اور ان کا گرفتار کرلینا چاہا حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں ان کو مت پکڑو۔ مفسرین کی عادت یہودیوں کی تقلید کرنے کی ہوگئی ہے انھوں نے قرآن مجید کے الفاظ اولم ننھک عن العالمین پر خیال نہیں کیا اور جو کچھ یہودیوں کی روایتوں میں تھا اسی کو قرآن مجید کی تفسیر میں لکھ دیا۔
دوسرے امر کو بھی مفسرین نے اپنے خیال کے موید سمجھا ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت لوط نے کہا کہ جس بدخیال سے تم میرے مہمانوں کو لینا چاہتے ہو ان کے بدلے میں میری بیٹیاں لے لو اور جو کرنا چاہتے ہو ان کے ساتھ کرو۔ پھر مفسرین کو اس تفسیر کے قرار دینے کے بعد مشکل پیش آئی بعضوں نے کہا کہ بناتی سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی اصلی بیٹیاں ہیں اس پر یہ مشکل پیش ہوئی کہ وہ کیونکر ان کو ایسا کام کرنے کے لیے دیتے تھے اس پر یہ قرار دیا کہ مطلب یہ تھا کہ بعد نکاح کے ان کے ساتھ جو چاہو کرو۔ بعضوں نے کہا کہ بناتی سے لوط کی امت کی بیٹیاں مراد ہیں کیونکہ پیغمبر بمنزلہ باپ کے ہے اور اس کی امت کی عورتیں بمنزلہ اس کی بیٹیوں کے ہیں۔
مگر یہ تفسیر محض غلط ہے جس کی بنا توراۃ کی متزلزل روایتوں پر مبنی ہے حالانکہ خود توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں غلطی ہے۔ غالباً یہ بات صحیح ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی دوبیٹیاں تھیں توراۃ میں بھی مذکور ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے جنہوں نے گھر گھیر لیا تھا یہ کہا کہ ۔ حال اینک مرا دودختر یست کہ مروے راندا نستہ اند تمنا این کہ ایشاں رابہ شمابیروں آورم و باایشاں آنچہ در نظر شمار پسند است بکنید (کتاب پیدائش باب درس)
حالانکہ توراۃ ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی اور ان کے شوہر موجود تھے چنانچہ توراۃ میں اسی قصہ کے بیان میں لکھا ہے کہ۔ پس لوط بیروں رفتہ وبہ واماد ہائش کہ دختر انش ابنکاح آوردہ بودند متکلم شدہ گفت (کتاب پیدائش باب درس ) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن عورتوں کو حضرت لوط (علیہ السلام) نے بیٹیاں کہا وہ ان کی صلبی بیٹیاں نہ تھیں۔
بنث اور بنوث کا لفظ عبری زبان میں عام عورتوں پر بولاجاتا ہے جیسا کہ کتاب امثال سلیمان باب درس میں استعمال ہوا ہے۔ پس توراۃ میں جو لفظ بنوث اور قرآن مجید میں لفظ بناتی آیا ہے اس سے ایسی عورتیں مراد ہیں جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں کسی تعلق سے موجود تھیں اور کیا عجب ہے کہ لونڈیاں ہوں کیونکہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط (علیہ السلام) جب مصر سے واپس آئے ہیں تو متمول اور مالک مویشی و صاحب لونڈی و غلام کے تھے۔
اس بات کی تردید کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے جنہوں نے ان کا گھر گھیر لیا تھا یہ کہا تھا کہ جس خیال سے تم میرے مہمانوں کو پکڑنا چاہتے ہو اس کے بدلے میری بیٹیاں لے لو اور ان کے ساتھ جو چاہو سو کرو خود قرآن مجید سے ثابت ہوتی ہے۔
اتاتون اذکران من العالمین وتذرون ماخلق لکم ربکم من ازواجکم بل انتم قوم عاد ون۔ (سورة شعرا)
اول یہ کہ قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کہ قوم لوط عورتوں کے ساتھ بھی اسی قسم کی بدفعلی کرتی تھی جیسے کہ 11 مردوں کے ساتھ کرتی تھی قرآن مجید میں آیا ہے کہ وہ لوگ مردوں کے پاس یعنی لونڈوں کے پاس جاتے تھے اور جو رؤں میں بھی جو طریقہ کہ ان کے لیے خدا نے پیدا کیا ہے اس کو بھی چھوڑ دیا تھا یعنی خلاف فطرت انسانی اپنی جوروں کے ساتھ بھی بدفعلی کرتے تھے۔ پس کیا حضرت لوط (علیہ السلام) ان عورتوں کو خواہ وہ ان کی بیٹیاں ہوں یا اور کوئی اس لیے ان کو حوالہ کرتے تھے کہ جس طرح وہ ا مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہیں اس کے بدلے ان کے ساتھ بدفعلی کریں نعوذ باللہ حاشہ وکلا۔
لقد علمت مالنافی بناتک من حق وانک لتعلم مانرید (سورة ھود)
دوسری یہ کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ میری اچھی بیٹیاں تمہارے لیے ہیں ان کو ماخوذ کرلو اور میرے مہمانوں کو ذلیل مت کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ تو واقف ہے کہ ہم کو تیری بیٹیوں میں یعنی ان کے گرفتار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور تو جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں یعنی ان اجنبی آدمیوں کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہنا کہ ہم کو تیری بیٹیوں میں حق نہیں ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان لوگوں میں حق ہے یعنی ان کے گرفتار کرنے کا حق ہے۔ پس اگر وہ حپ ان کے ساتھ بدکاری کا سمجھا جاوے تو کیسی غلطی ہے بلکہ وہ حق صرف یہ تھا کہ جو اجنبی لوگ ان کے شہر میں آکر حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں چھپے تھے ان کو گرفتار کرلیں پس قرآن مجید سے جو امر ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) ان عورتوں کو بطور اول یا ضمانت کے ان لوگوں کو حوالہ کرنا چاہتے تھے اور یہ درخواست کرتے تھے کہ ان کے مہمانوں کو گرفتار کرکے ذلیل نہ کریں۔
اس بیان پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر حرف بطور اول یعنی بطور ضمانت عورتوں کو سپرد کرنا منظور تھا تو ” ھن اطھرلکم “ یعنی وہ پاکیزہ تر ہیں تمہارے لیے کیوں فرمایا۔
مگر یہ فرمانا اس بد خیال کا جو مفسرین نے قرار دیا ہے مثبت نہیں ہوسکتا اور نہ اس مدعا کی برخلاف ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔
اول سورة الحجر میں ھن ظھہرلکم۔ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس میں صرف یہ لفظ ہیں کہ ۔ ھؤلاء بناتی ان کنتم فاعلین۔
دوسرے یہ کہ ۔ ھن ادرلکم۔ کے ہونے سے سورة الحجر کی آیت کے مطلب پر کچھ زیادتی اور سورة الحجر کی آیت میں ان لفظوں کے نہ ہونے سے سورة ہود کی آیت مطلب سے کچھ کمی لازم نہیں آتی ھن اطھر کی دو قرائتیں ہیں مشہور قراءت میں اطھر کی ربے کا پیش ہے اور دوسری قراءت میں اطھر کی رے کا زبر ہے یعنی نصب ہے جن لوگوں نے رے کا زبر پڑھا ہے وہ اس کا حاں قرار دیتے ہیں اور زروے قواعد نحوی کے اس کی دو ترکیبیں قرار دیتے ہیں ایک صورت میں لفظ ھن حال اور ذوالحال میں فصل واقع ہوتا ہے اور اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اور دوسری صورت میں ھن فصل واقع نہیں ہوتا اور اس پر کوئی اعتراض نحوی بھی وارد نہیں ہوتا صرف اتنی بات ہے کہ اطھر کی رے کو منصوب پڑھنا مشہور قراءت کے برخلاف ہے چنانچہ اس کی بحث تفسیر کبیر و تفسیر کشاف میں مندرج ہے ہم دونوں تفسیروں کی عبارت نقل کرتے ہیں جس دوسرے ترکیب نحوی کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ تفسیر کشاف میں مذکور ہے۔
روزعن عبدالملک بن مروان والحسن و عیسیٰ بن عمر ازجہ قروا ھن اطھر لکم بالنصب علی الحیالک ذکرنانی قومہ تعالیٰ وھذا بعلی شیخا اکثر الحن یین انفقط انہ خطاء قالوا لوقوء ھولا بناتی ھن اطھر (یا لفتح) کان ھذا غیر قولہ وھذا بعلی شیخا الا ان کلمۃ ھن قدوقعت فی انبین و ذلک ینع من جعل اطھر (بالفتح) حکا وصبوائیہ (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر کی عبارت حاشیہ پر ثبت ہے اس میں لکھا ہے کہ عبدالملک بنمروان اور حسن اور عیسیٰ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے ھن اطھر لکم فتح کے ساتھ پڑھا ہے حال کی بنا پر جیسا کہ ہمنے خدا کے اس قول میں ذکر کیا ہے وھذا یعلی شیخا مگر یہ کہ اکثر نحویوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ غلطی ہے اور کہا ہے کہ اگر ھولاء بناتی ھن اطھر نھو کے ساتھ پڑھا جاوے تو خدا کے اس قول کے مشابہ ہوگا وھذا یعلی شیخا مگر یہ کہ ھن کا لفظ بیچ میں آگیا ہے اور یہ امر اس بات کو روکتا ہے کہ اطھر کو فتحہ سے پڑھا جاوے اس بحث کو لوگوں نے بہت بڑھایا ہے۔
قرائن مروان ھن اظھر لکم بالنصب وضعفہ سیہویہ وقال اجنبی ابن مروان فی الحتہ وعن ابی عم و بن الفلاء من قرا من اطھر (بالفتح) فقد تربع فی عنہ ذلت لان انتصابہ علی ان یجعل حالا قد عمل
تفسیر کشاف کی عبارت حاشیہ پر ثبت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن مروان نے ھن اطھر لکم کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے سیبویہ نے اس کو ضعیف لکھا ہے اور کہا ہے کہ ابن مروان اپنی غلطی میں جکڑ گیا ۔ اور عمرو بن علاء فیھا مافی ھولاء من معنی الفعن کقولہ ھذا بعلی شیخا اوینصب ھولاء بفعل مضمر کانہ قیل خذوا ھولاء و بناتی بدل ویعمل ھذا المضمر فی الحال وھن فصل وھذا لا یجوز لان الفصل مختص بالوقوع بین جزی الجملۃ ولا یقع بین الحال وذی الحال وقد خرج لہ وجہ لا یکون ھن فیہ فصلو ذاک ان یکون ھولاء مبتداء و بناتی ھن جملۃ فی موضع خبر المبتداء کترلک ھذا اخی ھن ویکون اطھر حالا۔ (تفسیر کشاف)
ہے کہ جس شخص نے ھن طھر کو فتحہ کے ساتھ پڑھا وہ اپنی غلطی میں چار زانو ہو کر بیٹھا۔ اور یہ اس لیے کہ اس کا فتحہ پڑھنا اس بنا پر ہوگا کہ حال قرار دیا جائے اور اس کا عامل معنی ععلیہ ہو جو ھولاء میں موجود ہے جیسے کہ خدا کے اس قول میں ھذا یعلی شیخا یا یہ کہ ھولاء کو فتحہ دیا جاوے فعل مضمر سے گویا یوں کہا گیا ہے خذواھولاء اور بناتی بدل ہو۔ اور یہ مضمر حال میں عمل کرے ھن بیچ میں فصل واقع ہوا ہے لیکن یہ جائز نہیں کیونکہ فصل صرف جملہ کی دو خبروں میں واقع ہوتا ہے حال ذوالحال میں فصل نہیں واقع ہوتا ہے۔ مگر اس کی ایک اور وجہ نکالی گئی ہے جس میں حن و فصل ماننا نہیں پڑتا وہ یہ کہ ھولاء مبتدا ہو اور بناتی ھن پورا جملہ موضع خبر میں ہے جیسے کہ تیرا قول ھذا اخی ہو۔ اور اطھر حال قرار دیا جاوے (تفسیر کشاف)
غرض کہ اس میں کچھ کلام نہیں ہے کہ چند علمائے مفسرین ونحونین نے ھن اطھر کو حال قرار دیا ہے میں بھی اس کا حال ہونا تسلیم کرتا ہوں اور ہمیشہ قراءت اشہورہ کا اختیار کرنا پسند کرتا ہوں اس لیے اطھر کو مضموم پڑھتا ہوں ، اور باایں ہمہ حال ذوالحال قرار دیتا ہوں۔
جملہ حالیہ پر سے واد حالیہ کا حذف کردینا جائز ہے پس تقدیر کلام کی یہ ہے۔ کہ ھولاء بناتی وھن اطھرلکم۔ یعنی یہ میری بیٹیاں ہیں (اور) وہ پاکیزہ ہیں تمہارے لیے مبتداء وخبر کے درمیان میں جملہ معترضہ عالیہ واقع ہوا ہے اور یہ جائز ہے پوری ترتیب یوں ہے۔ ھولاء بناتی لکم وھن اطھر۔ العتیہ ابن مالک میں لکھا ہے کہ جملہ حالیہ جب کہ فعل مضارع مثبت نہ ہو تو آتا ہے صرف واء کے ساتھ یا صرف ضمیر کے ساتھ یا دونوں کے اور اس کا شعریہ ہے :۔
وجملۃ الحال سوے ماقدما
بواد او عضمر اوبھما
اور غایت التحقیق شرح کا فیہ میں اس کی یہ مثال دی ہے۔ کلمۃ فوہ الی فی تقدیر کلام کی یہ ہے کلمتہ وفوہ الی فی مگر واو کو محذوف کردیا ہے۔
پس جب کہ حضرت لوط (علیہ السلام) ان عورتوں کو بطور اول یعنی ضمانت کے ان لوگوں کو سپرد کرنا چاہتے تھے تو ان کی عظمت ظاہر کرنے کو انھوں نے کہا کہ ھن اطھر۔ نہ اس مقصد سے جس کا خیال مفسروں نے یہودیوں کی روایتوں کی تقلید سے کیا ہے۔
قرآن مجید میں متعدد ایسے قصے بیان ہوئے ہیں جو توراۃ میں بھی مذکور ہیں مگر ان قصوں کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا ہے جس سے وہ غلطیاں جو توراۃ میں ان قصوں کی نسبت ہیں دور ہوجاتی ہیں پس ان قصوں کی تفسیر میں ہر جگہ توراۃ کی اور یہودیوں کی روایتوں کی تقلید کرنا صریح غلطی ہے بلکہ سب سے مقدم قرآن مجید کے لفظوں پر غور کرنا چاہیے کہ ان سے کیا مطلب حاصل ہوتا ہے اگر وہی مطلب حاصل ہو جو توراۃ میں ہے تو توراۃ یا یہودیوں کی روایت کو اس کی تفسیر میں بیان کرنا کچھ مضائقہ نہیں ہے مگر قرآن مجید کے الفاظ کو خواہ مخواہ توراۃ یا یہودیوں کی روایتوں کے مطابق پھیر پھاڑ کر لانا صریح غلطی ہے۔
تیسرا مرجو عذاب نازل ہونے سے متعلق ہے قدرتی قانون پر مبنی ہے۔ اور جس طرح خداے تعالیٰ ان تمام واقعات کو جو قانون قدرت کے مطابق ہوتے ہیں انسانوں کے گناہوں کی طرف نسبت کیا کرتا ہے اور جس کی وجہ ہم اپنی تفسیر میں بتا چکے ہیں۔ اسی طرح اس قدرتی واقعہ کو بھی سدوم کے لوگوں کے گناہوں سے منسوب کیا ہے۔
مفسرین نے جو لغو و بیہودہ باتیں اپنی تفسیروں میں لکھی ہیں کہ حضرت جبرائیل اس قطعہ زمین کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان تک لے گئے اور پہلے آسمان کے اس قدر قریب پہنچے کہ آسمان کے فرشتوں نے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے اذان دینے کی آواز سنی یہ سب محض غلط اور موضوع کہانیاں ہیں جن کی مذہب اسلام میں کچھ بھی اصلیت نہیں ہے۔
سدوم و عموراہ وادما و زبوئیم یہ چار شہر اور بقول استریبو کے چاریہ اور نو اور کل تیرہ شہر اس مقام پر واقع تھے جہاں اب ڈذسی یعنی سمندر مردہ۔ جس کو عربی جغرافیہ دان بحر لوط کہتے ہیں واقع ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بحر لوط کے گرد جو ملک کی حالت ہے اس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ آتش خیز پہاڑوں کے لاوہو کے نشان اب بھی پائے جاتے ہیں اور اب بھی زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔
علاوہ اس کے سدوم کی گھاٹی میں نفطہ کی کان تھی اور جا بجا نفطہ کے بہت بڑے بڑے غار تھے اور اسی وجہ سے اس شہر کا نام سدوم رکھا گیا تھا۔ توراۃ کتاب پیدائش باب درس میں لکھا ہے کہ ” سدوم از چاہ ہائے نخل چرب پر بود “ گل چرب جس کو لکھا ہے وہی نفطہ کا مادہ ہے جو پانی پر آجاتا تھا اور مٹی میں بھی ملا ہوا ہوتا تھا۔ اور یہ آتش گیر مادہ ہے جس میں حرارت سے دھواں اٹھتا ہے اور کبھی کبھی زیادہ حرارت سے بھڑ ک جاتا ہے۔
جغرافیہ کے محققوں نے لکھا ہے کہ ” اکثر اب بھی دیکھا جاتا ہے ڈذسی یعنی بحر لوط سے دھوئیں کے بادل کے بادل اٹھتے ہیں اور اس کے کنارہ پر نئے سوراخ پائے جاتے ہیں۔ آج تک بحر لوط میں ایک قسم کا مادہ جس کو انگریزی میں اسفائس کہتے ہیں اور نفطہ کی ایک قسم ہے پانی کے اوپر آجاتا ہے۔
غرضیکہ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ جہاں سدوم و عموراہ وغیرہ شہر آباد تھے وہاں آتشیں پہاڑ تھے اور نفطہ یا گندھک کی کانیں کثرت سے تھیں۔ آتشیں پہاڑ کے پھٹنے اور نفطہ یا گندھک کے مادہ میں آگ لگ جانے سے وہ تمام شہر غارت ہوئے اور زمین کی وہ موٹی تہ جو نفطہ کے مادہ سے بنی ہوئی تھی پھٹ گئی اور جل گئی اور تمام قطعہ زمین کا دھنس گیا اور پانی جو اس تہ کے نیچے تھا اوپر آگیا اور ایک بہت بڑی جھیل پیدا ہوگئی جو اب ڈوسی یا بحرلوط کے نام سے مشہور ہے اور دنیا میں عجائبات سے ہے۔
قرآن مجید سے اس حادثہ کا واقع ہونا اس طرح پر معلوم ہوتا ہے کہ غالباً اس شام کو جب کہ قول لوط نے جاکر حضرت لوط (علیہ السلام) کا گھر گھیرا اور آتش خیز پہاڑ اور نفطہ یا گندھک کی کانیں جلنی شروع ہوئیں اور کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ ان کا دھواں تمام شہر میں گھٹ گیا ہوگا اور قوم لوط جو حضرت لوط (علیہ السلام) لوط کا گھر گھیرے ہوئے تھی شہر میں دھواں گھٹ جانے کے سبب کامیاب نہ ہوسکی اندھیری کے سبب ان کو کچھ نہ دکھلائی دیتا ہوگا اور دھوئیں کے سبب ان کی آنکھیں بیکار ہوگئی ہونگی۔ جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة قمر میں فرمایا ہے کہ ولقد داؤد و عن ضیفغہ فطمسنا اعینھم (سورة قمر) بیشک انھوں نے دند مچائی لوط کے مہمانوں سے پھر بیکار کردیں ہم نے ان کی آنکھیں۔
مفسرین نے فطمسنا اعینھم کے معنی لکھے ہیں کہ ان کو اندھا کردیا اور یہ امر قرار دیا ہے کہ ان فرشتوں نے جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں آئے ہوئے تھے بطور اعجاز کے ان کو اندھا کردیا اور ان کو حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان کا دروازہ جس کو وہ توڑ کر اندر جانا چاہتے تھے نہیں ملا۔
لیکن جو روایت کہ انھوں نے بیان کی ہے اس کو کوئی معتبر سند نہیں ہے اور نہ اعجاز کی کچھ حاجت ہے جب کہ آتشیں پہاڑوں کا اور زمین کی گندھک ونفطہ میں آتش پیدا ہوئی اس کے دھوگیں کے گھٹ جانے سے ان کی آنکھیں بیکار ہوگئیں اور دکھائی دینے سے رہے گیا اسی کی نسبت خدا نے فرمایا کہ۔ فطسنا اعینھم۔
قالو یالوط نا رسرربک فھعو الیک فاسر باھلک فنفع من سیرو لا یاغت منکم احد لا امن اتک سنہ معیبا ما امالھم نہ موعدھم الیس الصبح القریب (سورة ھود)
یہ حال دیکھ کر ان تینوں شخصوں نے جو حضرت لوط کے ہاں آئے ہوئے تھے سمجھا کہ آتش فشانی زیادہ ہونے والی ہے اور کو صلاح دی کہ یہاں سے بھاگ چلو چنانچہ سورة ہود میں آیا ہے کہ ان لوگوں نے کہا اے لوط ہم تیرے خدا کے بھیجے ہیں سو تو اپنی اہل کو لے کر رات کے حصہ میں نکل جا اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے مگر تیری بیوی کہ اس کو بھی وہی پہنچنے والا ہے جو اوروں کو پہنچا ہے۔ بےشبہ ان کا وعدہ صبح کا وقت ہے کیا صبح قریب نہیں۔
باھدک بدوہ من اللیل وجر ادبارھم ولا یلتفت منکم احد و امضراحیث تومرون وقضینا الیہ ذلک الامران دابرھولا ومقطو مصبحین۔ (سورة حجر)
اور یہ سورة حجر میں یہ ہے کہ اپنے اہل کو لے کر نکل جا اور ان کے پیچھے چلا جا اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور چلے جاؤ جہاں تم کو حکم دیا جاتا ہے۔ ہم نے اس کی طرف یہ طے کردیا کہ ان کا پیچھا صبح کے وقت کٹ جائے گا ۔
ولا یلتفت منکم احد۔ یعنی کوئی مڑ کر نہ دیکھے اس سے غرض وہاں سے جلد چلے جانے کی تاکید ہے۔ جیسے کہ خدا نے حضرت آدم کی نسبت کہا تھا ولا تقرباھذہ الشجرۃ یعنی پاس نہ جانا اس درخت کے۔ مگر حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی جو ایمان والوں میں نہ تھی اس نے اس نصیحت کو نہیں مانا اور اس عذاب میں مبتلا ہو کر مرنے والوں کے ساتھ مرگئی۔
جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت لوط کی بیوی بھی ساتھ بھاگی تھی مگر اس نے بھاگتے میں جو مڑ کر دیکھا تو نمک کی ہوگئی یا مڑ کر دیکھنے کے سبب مرگئی اس کی کچھ اصل نہیں ہے اور نہ قرآن مجید سے یہ بات پائی جاتی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ ھود : آیت 82

فَلَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا جَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۬ۙ مَّنۡضُوۡدٍ ﴿ۙ۸۲﴾

تفسیر سرسید :

( ؎) سجیل کے معنی کھنگر کے بھی ہوسکتے ہیں یعنی مٹی کے جو آگ میں پک کر پتھر کی مانند ہوجاوے اور آتشیں پہاڑوں سے اس کا اچھل کر اوپر سے گرنا ٹھیک مطابق ہوتا ہے مگر لفظ مسومۃ کے سبب سے وہی معنی مناسب ہیں جو ہم نے اختیار کئے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ یوسف : آیت 4

اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾

تفسیر سرسید :

( انی رایت) یہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خواب ہے۔ خواب کی نسبت بہت کچھ کہا گیا ہے اور لکھا گیا ہے مگر اس زمانہ میں علم فزیالوجی اور سیکالوجینے بہت ترقی کی ہے اور اعضائے انسانی کے خواص و افعال کو بہت تحقیقات کے بعد منضبط کیا ہے اس لیے ہم کو دیکھنا چاہیے کہ خواب کی نسبت اس تحقیقات سے کیا امور ثابت ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں کے علما اور حکما نے اس کی نسبت کیا لکھا ہے اور درحقیقت خواب ہے کیا چیز چنانچہ ہم ان سب امور کو اس مقام پر مختصراً بیان کرتے ہیں۔
یہ امر مسلم ہے اور ہر شخص یقین کرتا ہے کہ تمام اعضائے انسانی پر دماغ حکومت کرتا ہے انسان کا سر چند ہڈیوں سے جسے کھوپڑی کہتے ہیں جڑا ہوا ہے کھوپڑی کی بناوٹ اور اس کے جوڑوں اور جوڑوں کی درزوں کی ترکیب جو ہر انسان میں کسی نہ کسی قدر مختلف ہوتی ہیں جداگانہ خاصیتیں رکھتی ہیں پھر کھوپڑی کے اندر بھیجا ہوتا ہے جسے مخ کہتے ہیں جس میں بےانتہا باریک ریشے یا رگیں ہوتی ہیں اسی میں ایک شاخ گردن سے ریڑھ کی ہڈی کے فقرات میں چلی گئی ہے اور دماغ ہی سے نکلے ہوئے پٹھے اور رگیں اور ریشے سینہ میں اور تمام اعضا میں پھیلے ہوئے ہیں تمام حس و حرکت جو انسان کرتا ہے وہ دماغ کے سبب سے کرتا ہے۔ ان پٹھوں اور ریشوں اور رگوں میں بعض تو ایسے ہیں کہ شے محسوس کا اثر دماغ پر پہنچا دیتے ہیں جب انسان اس کو حس کرتا ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے اثر نہ پہنچے تو انسان کسی شے کو حس نہ کرے نہ روشنی کو جان سکے نہ کسی شے کو دیکھ سکے نہ آواز کو سن سکے نہ ذائقہ کو پہچانے نہ کسی چیز کے چھونے کو جانے۔
جب ان محسوسات کا اثر دماغ پر پہنچتا ہے تو دماغ میں ان پٹھوں اور رگوں اور ریشوں کو تحریک ہوتی ہے جو محرک کہلاتے ہیں اور ان سے ایک قسم کا تغیر دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور جب تک وہ تغیر رہتا ہے وہ شے محسوس بھی سامنے رہتی ہے اور انہی محسوسات کے ذریعہ سے انسان کے اعضا حرکت کرتے ہیں۔ جو حرکت قصد و ارادہ سے ہو وہ حرکت ارادی ہے مگر جب وہ حرکت دفعۃً بلا قصد و بلا سوچے سمجھے ہو تو وہ حرکت طبعی کہلاتی ہے جیسے خوف کی حالت میں ہوجاتی ہے۔
علاوہ اس کے دماغ میں ایک قوت ہے جس میں تمام خارجی چیزوں کی جن کو ہم نے دیکھا ہے تصویریں بطور نقش کے محفوظ ہوتی ہیں اور اس لیے وہ سب ہم کو یاد رہتی ہیں اور یہی سبب ہے کہ باوجود موجود نہ ہونے اس شے کے اس کی صورت کا بعینہ ہم تصور کرلیتے ہیں اور اگر ان محفوظ نقشوں میں کچھ دھندلا پن آجاتا ہے تو ان چیزوں کو بھول جاتے ہیں یا یاد دلانے سے یاد آتی ہیں اور جب منقش نہیں رہتیں تو بالکل یاد نہیں آتیں۔
علاوہ اس کے دماغ میں یہ قوت بھی ہے کہ جس شے کہ ہم نے دیکھا ہے اس کے اجزا کو علیحدہ کرکے اپنے خیال کے سامنے لے آویں مثلاً ہاتھی کی صرف سونڈہی کا یا صرف اس کے کانوں ہی کا تصور خیال کے سامنے لے آویں۔ اور یہ بھی قوت ہے کہ متعدد چیزیں جو ہم نے دیکھی ہیں ان کے اجزا کا علیحدہ علیحدہ تصور کرکے ایک کے اجزا کو وہ دوسرے میں یا چند کے اجزا کو ایک میں جوڑ دیں۔ مثلاً ہم نے بکری اور مور اور انسان کو دیکھا ہے تو وہ قوت بکری کے سر کو علیحدہ اور مور کے دھڑ کو علیحدہ تصور کرکے مور کے دھڑ پر بکرث کا سر لگا ہوا تصور کرکے خیال کے روبرو لے آویگی ۔ یا انسان میں مور کے بازو لگے ہوئے تصور کرکے پر دار انسان یا پر دار فرشتہ اپنے خیال میں بنالے گی۔ اسی طرح مختلف اور عجیب عجیب صورتیں جن کا کبھی وجود دنیا میں نہیں ہوا بنا کر خیال میں جلوہ نما کرتی ہے۔
وہی قوت کبھی ایسا کرتی ہے کہ اجزائے مختلفہ کی ترکیب نو نہیں دیتی بلکہ چھوٹی چیز کو اس قدر بڑا بنا کر خیال میں لے آتی ہے کہ ایک نہایت مہیب صورت بن جاتی ہے مثلاً آدمی کے قد کو تاڑ سے بھی لمبا اس کے سر کو گنبد سے بھی بڑا اس کے ہاتھوں کو کھجور کے درخت سے بھی زیادہ اس کے دانتوں کو عجیب بےہنگم طور کی بنی ہوئی خیال کے سامنے حاضر کردیتی ہے۔
یہ تمام اعضا انسان کے اوقات معینہ تک کام کرتے رہتے ہیں اور زمانہ معینہ تک آرام کرتے ہیں یا کسی امر غیر طبعی سے معطل ہوجاتے ہیں اور انسان بےہوش ہوجاتا ہے۔ حالت مرض میں جب یہ حالت طاری ہوتی ہے تو بیہوشی اور غشی کہلاتی ہے اور حالت صحت میں اس کو نیند کہتے ہیں۔
مگر جو کہ دماغ میں تمام اور اکات کے لیے جداگانہ حصے معین ہیں اس لیے حالت غشی و نیز حالت نیند میں دماغ کے بعض حصے معطل یا آرام میں ہوتے یا سوجاتے ہیں اور بعض حصے کام کرتے یا جاگتے رہتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ بعضی دفعہ بیہوشی طبعی و غیر طبعی میں بھی انسان ایسی باتیں یا کام کرتا ہے جو حالت ہوش یا بیداری میں کرتا مگر اس کو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ اس نے کیا کیا۔ لوگوں کی باتیں سنتا ہے مگر جواب نہیں دیتا یا اور باتوں کا ادراک کرتا ہے مگر ظاہر نہیں کرسکتا اور وہ ادراکات مختلف پیرایہ میں اس کو محسوس ہوتے ہیں جن کا کچھ وجود نہیں ہوتا اور کبھی وہی خیالات اور صورتیں جو اس کے دماغ میں منقش ہیں مختلف قسم سے اس کو محسوس ہوتی ہیں اور جب یہ امور نوم طبعی میں واقع ہوتے ہیں تو ان کو خواب کہتے ہیں طبعی یا غیر طبعی بیہوشی میں بھی امورات خارجی دماغ کے اس حصہ پر جو جاگ رہا ہے اثر کرتے ہیں اور وہ اس کو عجیب پیرایہ سے خواب میں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً آدمی سوتا ہو اور سماعت کا حصہ جاگتا ہو اور سونے والے کے قریب کوئی شخص کسی چیز کو کو ٹتا ہو تو دماغی قوت جو چھوٹی چیز کو بڑھا کر پیش کرتی ہے اس آواز کو نہایت مہیب آواز بنادیتی ہے اور اس آواز کے سلسلہ سے توپوں کا خیال پیدا کردیتی ہے اور سونے والا خواب میں یہ سمجھتا ہے کہ توپیں چل رہی ہیں۔ یا مثلاً سونے والے کا بستر ٹھنڈا یا نم ہوگیا قوت حساسہ جو جاگتی تھی اس نے اس کا حس کیا اور بستر کی نمی سے پانی کے خیال کو اور اس سے دریا کے یا تالاب کے یا حوض کے خیال کو پیدا کیا اور سونے والا خواب میں دیکھ سکتا ہے کہ وہ دریا میں یا تالاب میں پڑا تیررہا ہے۔ اگر کوئی لمبی چیز اس کے بستر پر پڑی ہو یا کوئی شخص رسی کو اس طرح پر ڈالے کہ سونے والا جاگ نہ اٹھے اور قوت حساسہ جاگتی ہو تو خواب میں دیکھ سکتا ہے کہ سانپ اس کو چمٹ گیا ہے۔ اسی قسم کے بہت سے اسباب خارجی سے عجیب عجیب خواب دیکھ سکتا ہے۔
بعضے لوگ خواب دکھانے کی ایسی مشق کرلیتے ہیں کہ سونے والے کے پاس بیٹھ کر ایسی آسانی سے اور سمولیت سے کہ وہ جاگ نہ اٹھے اس کی قوت حساسہ یا سامعہ کو اس طرح پر اثر مطلوبہ پہنچاتے ہیں کہ وہ سونے والا وہی خواب دیکھ سکتا ہے جس کا دکھانا ان کو مطلوب ہو۔
جس طرح کہ یہ امورنا ۔ جیہ خواب دیکھنے پر موثر ہیں اس سے بہت زیادہ خود سونے والے کے امور ذہنی جو اس کے خیال میں بس گئے ہیں اور دماغ میں نقش پذیر ہوگئے ہیں خود اپنی طبیعت سے یا کسی واقعہ سے یا کسی کے اعتقاد کامل ہونے سے یا محبت عشقی و اعتقادی سے خواب دیکھنے پر موثر ہوتے ہیں اور وہ انہی امور ذہنی کو بعینہ یا کسی دوسرے پیرایہ میں جس کو قوت دماغی پیدا کردیتی ہے عجیب عجیب طرح سے خواب میں دیکھ سکتا ہے۔
بعض لوگوں کو ایسی مشق ہوجاتی ہے کہ جو خواب ان کو دیکھنا منظور ہو سوتے وقت اس کا ایسا قوی تصور کرتے ہیں اور دماغ میں اس کا نقش جما لیتے ہیں کہ سوتے میں وہی خواب دیکھتے ہیں۔
بعضے امور ایسے ہوتے ہیں جو بالکل بھول گئے ہیں اور کبھی ان کا خیال بھی نہیں آتا مگر وہ دماغ میں سے محو نہیں ہوئے اور سوتے وقت مطلق ان کا خیال بھی نہیں ہوتا مگر دماغ میں ایک ایسا سلسلہ خیالات کا پیدا ہوتا ہے کہ ان بھولے ہوئے امور کو پیدا کردیتا ہے اور سونے والا اسی کا خواب دیکھنے لگتا ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جاگنے میں باتوں کا سلسلہ رفتہ رفتہ اس طرح پہنچ جاتا ہے کہ بھولی باتیں یا بھولے ہوئے کام یاد آجاتے ہیں۔
بعضی دفعہ بسبب کسی مرض کے یا بسبب غلبہ کسی خلط کے دماغ پر ایسا اثر پیدا ہوتا ہے کہ سونے والا اسی حالت کے مناسب اور عجیب عجیب پیرایہ میں مختلف قسم کے خواب دیکھتا ہے۔
مگر جب تک کہ انسان کا نفس ان ظاہری باتوں سے جن سے حالت بیداری میں مشغول ہوتی ہے بسبب بیہوشی کے یا سوجانے کے یا استغراق کے بیخبر نہ ہو اس وقت تک مذکورہ بالا حالت اس پر طاری نہیں ہوتی دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ کوئی شخص ایسا خواب کبھی نہیں دیکھ سکتا یعنی ایسی چیزیں اور ایسے امور اس کو خواب میں نہیں دکھائی دیتے جن کو اس نے کبھی نہ دیکھا ہو نہ سنا ہو اور نہ کبھی اس کا خیال اس کو ہوا ہو۔ یہ باتیں جو بیان ہوئیں ایسی ہیں جن سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا اور ہر ایک شخص پر یہ حالتیں گزرتی ہیں اور جاہل اور عالم سب ان کو جانتے ہیں۔
الحسن المشترک ھولوح النقش الذی اذاتمکن سنہ مارالنقش فی حکم المشاھدۃ وربما زال المناقش الحسی عن الحس و بقیت صورتہ وھیتہ فی الحش المشترک فبقی فی حکم المشاھدون المتوھم ولیحضر ذکرک ما قبل لک فی امرا القطر النازل خطا مستقیما انشقاش النقطۃ الجوالۃ محیط دائرۃ فاذاتمثلت الصورۃ فی لوح الحس المشترک صارۃ مشاھدۃ سوا مکان فی ابتداعمال ارتما مھا فیہ من المحسوس الخارج اوبقانہا مع بتاء المحسوس اوثبا تھا بعد زوال المحسوس او وقوعہا فیہ لامن قبیل المحسوس ان امکن۔ (اشارات شیخ)
شیخ بوعلی سینا نے اشارات میں لکھا ہے کہ حس مشترک میں جو انسان کے دماغ کے ایک حصہ کا نام ہے جب کسی چیز کا نقش جم جاتا ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس چیز کو دیکھ رہا ہے گو کہ وہ چیز سامنے نہ رہی ہو مگر اس کی صورت حس مشترک میں موجود رہتی ہے اور وہ تو ہم نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے ہی کی مانند ہوتا ہے۔ بوندیں جو لگاتارابر سے گرتی ہیں وہ بوندیں نہیں معلوم ہوتی ہے یا کسی چیز کے ایک سرے کو جلا کر زور زور سے پھر اویں تو ایک گول روشن چکر معلوم ہونے لگے گا۔
عرض کہ جب کسی چیز کی صورت اس کے دیکھنے کے وقت حس مشترک میں جم جاتی ہے تو دیکھنے کی مانند ہوجاتی ہے خواہ وہ چیز سامنے موجود رہے یا نہ رہے یا یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز سامنے تو نہیں آئی کہ دکھائی دے مگر اس کی صورت جس کا آنا ممکن ہو حس مشترک میں آجاتی ہے۔
امام فخر الدین رازی شرح اشارات میں لکھتے ہیں کہ حس مشترک میں صورت جم جانے کی نسبت جو کچھ شیخ نے لکھا ہے اس کی چار صورتیں ہیں۔ اول یہ کہ اس چیز کو دیکھنے کے وقت اس کی صورت حس مشترک میں جم گئی ہے دوسرے یہ کہ اس کی صورت حس مشترک میں جمی ہوئی ہے اور وہ چیز سامنے موجود ہے۔ تیسرے یہ کہ اس کی صورت تو حس مشترک میں جمی ہوئی ہے مگر وہ چیز سامنے موجود نہیں رہی۔ چوتھے یہ کہ وہ چیز سامنے تو نہیں آئی مگر اس کی صورت حس مشترک میں جم گئی۔ پھر امام صاحب لکھتے ہیں کہ پہلی تین صورتوں کی مثال تو بوندوں کے اوپر سے گرنے اور کسی چیز کے ایک سرے کو جلا کر چکڑ دینے سے ثابت ہوتی ہے۔ مگر چوتھی صورت کی مثال اس سے ثابت نہیں ہوتی اس لیے شیخ نے اس کی مثال اس طرح پڑی ہے۔
اشارۃ قدیشاھد تموم من المرضی والمحرورین صومرا محسوسۃ ظاھرۃ حاضرۃ ولا نسبتہ لما الی محسوس خارج فیکون ما نتقاشھا اذن من سبب موثرفی سبب باطن والحس المشترک قد بنتقش ایضا من الصور الحایلۃ فی معدن التخیل والتوھم کما کانت علی ایضا یتنقش فی معدن التخیل والتوھم من لوح الحس المشترک و قریبا مما یجری یلن المرایا المتقابلۃ (اشارات شیخ)
بیمار آدمی اور جو بخار میں مبتلا ہوتے ہیں کبھی ان کو ایسی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جن کو وہ سمجھتے ہیں کہ درحقیقت موجود ہیں حالانکہ وہ چیزیں موجود نہیں ہوتیں ان چیزوں کی صورتوں کی حس مشترک میں متنقش ہونے کا کوئی اندرونی سبب ہوتا ہے یا کوئی ایسا سبب جو اندرونی سبب میں اثر کرتا ہے۔ اور کبھی حس مشترک میں وہ سورتیں جم جاتی ہیں جو خیال میں اور وہم میں ہوتی ہیں اور کبھی حس مشترک کی موجودہ صورتیں خیال و وہم میں آجاتی ہیں۔ اس کی مثال دو آئینوں کی سی ہے جو ایک دوسرے کے مقابل رکھے ہوں اور ایک میں جو عکس ہے وہ دوسرے میں پڑے ۔ غرضیکہ سب لو متفق ہیں کہ خواب دیکھنا صرف انسان کے دماغی افعال سے متعلق ہے۔
عم ان النبوۃ تحت النطرۃ کما ان الانسان قد باہئر فی صمیم قلبہ وجذر نفسہ علم وادامرکات علیھا تبنی مایغاض علیہ من رویاہ فیری الا مور مشیحۃ بما اخذتہ دون غیرھا۔ (تفہیمات الحصیہ)
اسی طرح شاہ ولی اللہ صاحب تفیہمات میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ نبوت فطرت کے ماتحت ہے جیسا کہ کبھی انسان کے دل میں بہت سے علوم اور باتیں جم کر بیٹھ جاتی ہیں اور انہی پر مبنی ہوتی ہیں وہ چیزیں جو اس کو رویا میں فایض ہوتی ہیں پھر وہ ان چیزوں کی صورتیں دیکھتا ہے جن کو اس نے پیدا کیا ہے نہ اس کے سوا اور کسی کو۔ اس سے بھی اس بات کی تشریح ہوتی ہے کہ جو انسان کے خیال اور دماغ میں ہے اس کو خواب میں دیکھتا ہے۔
وسا الرویا فھی علمی خمسۃ اقسام بشری من اللہ و تمثل یزرانی فلحما ئد والرذائل المندرحۃ فی النفس علی وجہ من کی و نحن فیہ من الشیطان و حدیث نفس من قیل الصوۃ اللتی اعتادھا النفس فے الیقظۃ یحفظھا المتنصیۃ ویظہرئے الحس المشترک ما اختزن فیھا و خیالات طبیعۃ مغلبۃ الا خلاط وتنبہ القن باذا ھافی البدن اما انبشرے من اللہ فحقیق تھا ان النفس الناطقۃ اذا انتھرت فرصۃ عن غواشی البدن باسباب خفیۃ لا یکاد یتفصرے الا بعد تامل واف استعدت لان یفیض علیھا من منبع الیخر والجق و کمال علمی قا فیض علھا شی علی حسب امنعلاد ھومادت فی العلوم المخزدنۃ مندہ وھذہ الوویا تعلیم الھی کا معرج المنافی الذی رای النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیہ ربنق احسن صورۃ فعلھا الکفامات والدرجات وکالمعرج للناحی ھذی انکشف فیہ علیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احوال للوتی اجدتکا کھم عن الحیوۃ الدنیا کما رواہ جابر ابن سمرۃ (رض) و کعلم ما سیکون بھن الوقائع الا بتۃ فی الدنیا
مگر صوفیائے کرام اور علمائے اسلام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دماغ میں سوائے ان موثرات طبعی کے اور کوئی چیز ہے جو ملاء اعلیٰ سے تعلق رکھتی ہے اور موثر ہوتی ہے اور اسی لیے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں خواب کی پانچ قسمیں قرار دی ہیں چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ ” رویا کی پانچ قسمیں ہیں ( ) بشارت خدا کی طرف سے اور نفس کی خوبیوں یا برائیوں کا نورانی تمثل ملکی طور پر شیطان کا خوف دلانا، دل کی باتیں جس طرح کی عادت بیداری کی حالت میں پڑی ہوتی ہے اس کو قوت متخیلہ یاد کرلیتی ہے اور وہ حس مشترک میں آکر ظاہر ہوتی ہیں اخلاط کے غلبہ کی وجہ سے طبعی طور پر خیالات کا آنا متنبہ ہونا نفس کا بدنی اذیتوں سے۔
واما الرویا المل کی فحقیق تھا ان فی لانسان ملکات حسنۃ منکات قبیحۃ ولکن لا یعرف حسنھا و قبیحھا الا المتجر والی الصورۃ الملکیۃ فمن تجود الیھا فتطنھرلہ حسناتہ وسیاتۃ فی صیرۃ مثالبۃ فصاحب ھذا یری اللہ تعالیٰ واصلہ الا نقیا و نلبارف ویری الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واصلہ الا نقیا دسرسول یالمرکویزفی ھمدرہ ویری الا ثرار واملھا الصاعات المکتسبہ فی صدرہ وجوائحہ تظھر فے صورۃ لانوار والصیبات کا لعسل والسمن واللین فمن دای اللہ والرسول والملائکۃ فی صورۃ بقیحۃ اوفی حورۃ الغضب فلیعرف ان فی اعتقاد خللا وضعفا وان نفسھم تیکمل وکذلک الا نوار اللتی حصلت بسبب الطھارۃ یظھر فی سورة الشمس والقمر و اما التخویف من الشیفان فوحشۃ و خوف من الحیوان الملعونۃ کا نقرد والغیو والکلابہ والمودان من الناس ناز ارادی ذلک فلیتعوذباللہ ولیتفل ثلثا عن یسارہ ولیتحول عن جنبہ للذی کان علیہ اما البشرے فلھا تمیروالعمدۃ فیہ معرفۃ الخیال ای شی مظنۃ لای معنی فقد ینتقل الذھن من المسمی الے الا سم کرویۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ کان فی دار عقبۃ بن رافع فاتی برطب ابن طلب قال علیہ الصلوٰۃ و السلام فاولت ان الرفعۃ لتانی مالدنیا والعافیۃ فی الاخرۃ وان یننا فدثاب قد نیتلل الذھن لمیض نفھن من الوصف الی جوھر مناسب لہ کمن غلبہ علیہ جنت ساراہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی صورۃ سوار من ذھب بالجملۃ فلا نتقا من شیء والی شیء صورشتی وھذہ الود نثبعۃ من النبوۃ لا تخا ضرب من نامنۃ غیبہ وتدر من حل والحق وو اصل النبوۃ واما سائر انرح الرویا تلا تعبیر لھا (حجۃ اللہ البالغہ)
لیکن بشارت الٰہی کی حقیقت یہ ہے کہ نفس ناطقہ کو جب بدنی حجابات سے فرصت ملتی ہے جس کے مخفی اسباب ہوتے ہیں اور بغیر پورے تائل کے معلوم نہیں ہوتی تو اس وقت نفس اس بات کے قابل ہوتا ہے کہ اس پر جود اور خیر کے مخزن سے یعنی ملاء اعلیٰ سے کمال علمی کا فیضان ہو پس اس پر اس کی لیاقت کے موافق جو اس کے علوم فخرونہ کا مادہ ہے کچھ فیضان ہوتا ہے اور یہ خواب تعلیم الٰہی ہے جیسے کہ معراج کا خواب جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کو نہایت عمدہ صورت میں دیکھا تھا۔ اور خدا نے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفارات اور درجات بتائے۔ یا وہ معراج کا خواب جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مردوں کا حال منکشف ہوا تھا بعد ان کے قطع تعلق کے دنیا سے جیسا کہ جابر بن سمرہ نے روایت کی ہے یا آئندہ واقعات دنیا کے علم۔ اور ملکی خواب کی یہ حقیقت ہے کہ انسان میں برے اور بھلے دونوں قسم کے نکات ہیں لیکن اس حسن وقبح کو جب پہچان سکتا ہے کہ صورت ملکیہ کی طرف تجرد حاصل ہو۔ پس جس کو نجرد ہوتا ہے اس کو بھلائیاں اور برائیاں صورت مثالیہ میں دیکھائی دیتی ہیں پس ایسا شخص خدا کو دیکھتا ہے ۔
جس کی اصل خدا کی اطاعت ہوتی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتا ہے اور اس کی اصل پیغمبر کی اطاعت ہوتی ہے جو اس کے دل میں مرکوز ہے اور انوار دیکھتا ہے اور اس کی اصل وہ عبادتیں ہیں جو اس کے دل اور اعضا نے حاصل کی ہیں۔ یہ سب چیزیں انوار اور پاک چیزوں مثلاً شہد۔ گھی۔ دودھ کی صورت میں متمثل ہوتی ہیں۔ پس جو شخص خدا یا رسول یا فرشتوں کو بری صورت میں یا غصہ کی صورت میں دیکھتا ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ اس کے اعتقاد میں ابھی خلل اور ضعف ہے اور یہ کہ اس کا نفس ہنوز کامل بھی نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح وہ انوار جو طہارت کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں آفتاب اور ماہتاب کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور شیطان کا خوف دلانا تو یہ وحشت اور خوف ہے ملعون حیوانوں سے مثلاً بندر۔ ہاتھی کتے اور سیاہ آدمیوں سے بس جب آدمی ایسا خواب دیکھے تو چاہیے کہ خدا سے پناہ مانگے اور بائیں جانب تین بار تھو تھو تھو کردے اور اس کروٹ کو بدل دے جس پر لیٹا ہوا تھا۔ اور خوشخبری والی خواب کی تعبیر ہوتی ہے اور عمدہ طریقہ اس کا خیال کا پہچاننا ہے یعنی کسی چیز سے کیا چیز سمجھی جاسکتی ہے پس اکثر معنیٰ سے اسم کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے جیسے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عقبہ بن رافع کے گھر میں تھے اور خواب دیکھا کہ ان کے پاس ابن طاب کی کھجوریں رکھی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس کی تاویل کی کہ ہم کو دنیا میں بلندی اور قیامت میں عافیت ہوگی اور یہ کہ ہمارا دین پاکیزہ ہے۔ اور کبھی ملبوسات سے اس کے متعلقات کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے جیسے تلوار سے لڑائی کی طرف۔ اور کبھی کسی صفت سے ایک جوہر کی طرف جو اس کے مناسب ہے مثلاً ایک شخص جو مال کو بہت عزیز رکھتا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو سونے کے کنگن کی صورت میں دیکھا۔ غرض کہ ایک شے سے دوسری شے کی طرف خیال منتقل ہونے کی مختلف صورتیں ہیں اور یہ خواب نبوت کی ایک شاخ ہے کیونکہ جو فیض غیبی کی ایک قسم ہے اور حق خلق کی طرف قریب ہوتا ہے اور وہ نبوت کی مثل ہے۔ باقی خواب کی اور اقسام کی کچھ تعبیر نہیں۔
ایک جگہ تفہیمات میں شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ رویا کی حقیقت ظاہر ہونا مناسبت کا ان حقیقۃ الریۃ ھشہور مناسبۃ للنفس النا طقیۃ مبداء اعلیٰ جملخاضۃ وھیئۃ المعلومۃ یحتفی فیضان علم خوش فلینعین العلم ویتمثر بصور و شباح مخزونۃ فی خیاں فھیزتلک الصور علے لنفس حضور افینتظم وقعۃ عند ھذہ الحواس الظاھرۃ واقبال الغمسۃ عن لحواس الباطنۃ فلا یتعین علم باشباح الا بمناسبۃ یجۃ بینھما وبینہ۔ (تفیہمات الٰیہہ)
ہے نفس ناملقہ کو مبداء اعلیٰ سے خاص طرح پر اور صورت معلومہ میں کہ مقتضی ہو علم خاص کے فیضان کی پھر متعین ہوجاتا ہے یہ علم اور متمثل ہوجاتا ہے صورتوں اور شکلوں میں جو جمع ہیں خیال میں پھر یہ صورتیں نفس کے سامنے آجاتی ہیں حاضر ہو کر اور پھر منتظم ہوتا ہے واقعہ ان حواس ظاہری میں اور متوجہ ہوتی ہے روح اندرونی حواس پر پھر علم شکوں میں متعین نہیں ہوتا مگر بوجہ اس مناسبت کے جو اس علم اور شکل میں ہے۔
اذقلت الشواغن الحسیۃ وبقیت شواغل اقل لم یبعدان یکون للنفس فلتت یخلص ھن منفل التخیل لوجانب القدس فابنقش فیھا نقش من الطیب فباح الی عالم التخیل وانتقش فے حس اشترک وھذا فی حال المنوم اوفی حال مرض لم یثغل احس ویوھن التخیل فان التخیل قدر یوھنہ امرض وقدیوھنہ کثرۃ الحرکۃ لتحلل الروح الذی جو ائنۃ فیسرع الی سکون ماوفراغ ما نینجد بلد نضرائے لجانب الا علیٰ بھولۃ فاذا طرا شی لنفس نقش ازئح اتخیل الیہ و تلفاہ ایضا وذلک والتنبہ من ھلہ راری وحرکۃ التحیل بعد استراحۃ ووھنہ فارنرسویعمومثل ھذا لتبہ والا ستخذام لفس اک طفہ لہ صعا تنہ من معاونی النفس عند بمثال ھذہ السوانح فاذ قبلہ التخیل حال تزحزح النفس اشواغل منبا النقش فی لوح الحشر المشترک (اشارات شیخ)
شیخ بو علی سینا بھی اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لوگوں کو خواب کی حالت میں عالم قدس سے فیضان ہوتا ہے اور وہ فیضان ایک صورت خاص میں متشکل ہو کر خواب میں دکھائی دیتا ہے چنانچہ شیخ نے اشارات میں لکھا ہے کہ پس جب حسی اشتغال کم ہوجاتے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ نفس کو تخیل کے شغل سے فرصل ملے اور وہ قدس کی جانب جائے۔ پس اس میں غیب کا کوئی نقش منتقش ہوجائے پھر وہ تخیل کے عالم کی سیر کرے اور حس مشترک میں نقش متنقش ہوجائے۔ اور یہ خواب کی حالت میں ہوتا ہے یا مرض کی حالت میں جو حس کو غافل کردے اور تخیل کو ضعیف کردے۔ کیونکہ تخیل کو کبھی مرض سست کردیتا ہے اور کبھی زیادہ حرکت ہونی کیونکہ اس وقت روح جو تخیل کا آلہ ہے تحلیل ہوجاتی ہے پس متخیلہ کسی قدر سکون اور آرام چاہتی ہے اس لیے روح کی جانب اعلیٰ کی طرف توجہ کرنے کا آسانی سے موقع ملتا ہے پس جب نفس میں کوئی نقش آتا ہے تو تخیل دوڑ کر اس کو لے لیتا ہے اور یہ یا تو اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس امر طاری کی وجہ سے اس کو تنبہ ہوا ہے اور تخیل نے آرام حاصل کرکے حرکت کی ہے کیونکہ تخیل ایسے تنبہ کی طرف جلد مائل ہوتا ہے اور یا اس وجہ سے کہ نفس ناطقہ کی ہی قدرتی طور سے اس کی خدمت کررہا ہے کیونکہ نفس ناطقہ ایسے موقعوں پر نفس کے معاون ہوتا ہے۔ پس جب اس کو تخیل قبول کرلیتا ہے اس وقت کہ نفس اس کے شواغل کو ہٹا دیتا ہے تو حس مشترکہ کی لوح میں نقش اتر آتا ہے۔
غرضیکہ صوفیہ کرام اور علمائے اسلام اور فلاسفہ مشائین میں سے شیخ بوعلی سینا اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لوگوں کو جن کے نفس کامل ہیں یا زہد و مجاہدہ دریاضات سے ان کے نفوس میں تجرد حاصل ہوا ہے ان کو خواب میں ملاء اعلیٰ سے ایک قسم کے علم کا فیضان ہوتا ہے اور وہ فیضان ان کے صورخیالیہ میں سے کسی صورت میں جو اس فیضان علم کے مناسب ہے۔ متمثل ہوتا ہے اور وہ تمثل حس مشترک میں مفتقش ہوجاتا ہے اور اس کے مطابق ان کو خواب دکھائی دیتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ یہی ایک خواب اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی تعبیر دی جاوے اور اس کے سوا کوئی خواب تعبیر کے لائق نہیں ہوتا۔
ملاء اعلیٰ کے مفہوم کو متعدد لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کبھی تو ایک عالم مثال قرار دیا جاتا ہے جس میں اس عالم کی تمام باتیں مکان ومایکون بطور مثال کے موجود ہیں اور اس کا عکس مجملاً یا تفصیلاً خواب میں انسان کے نفس پر پڑتا ہے۔ اور کبھی نفسوس فلکی کو ما کان اور مایکون کا عالم سمجھا جاتا ہے اور اس سے نفس انسانی پر فیض پہنچنا مانا جاتا ہے اور کبھی عقول عشرہ مفروضہ حکما کو عالم ماکان وما یکون قرار دے کر اس کے فیضان کو تسلیم کیا جاتا ہے اور کبھی اس سے ملائکہ مقصود ہوتے ہیں۔
صوفیہ کرام نے چند اصطلاحات قرار دی ہیں جن کے مجموعہ پر ملا اعلیٰ یامنبع الخیر وابجود یا مبدوالا علیٰ یا حضرت القدس اطلاق ہوتا ہے اور اس کی یہ تفصیل ہے۔
تدلیات ۔ جن سے مطلب ہے ان امور متعینہ کا جو قوائے افلاک میں مکنون ہیں اور جن کو حکما نفوس فلکی سے تعبیر کرتے ہیں۔
لاہوت : اصطلاح فلاسغہ میں اس کو انانیۃ اولی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جبروت : فلاسفہ فی اس کو عقل سے تعبیر کیا ہے اور علمائے شرع نے ملائکہ سے۔
رحموت : جس کو سکما نفس کہتے ہیں۔
ناسوت : اس کو حکما ہیولیٰ قرار دیتے ہیں۔
لاہوت تو بمنز لہ ماہیت کے ہے اور جبروت بمنزلہ اس کے لوازم کے اور رحموت بمنزلہ ایک کلی کے جو فردواحد میں منحصر ہو اور ناسوت کو ایسا قرار دیا ہے جیسے نفس بدن کے لیے یا صورت یہولیٰ کے لئے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ یوسف : آیت 4
تفسیر سر سید ۲
قدثبت انہ سبحان و خلق جوھر النفس التاطقۃ بجبث یمکنھا الصعود والی عالم لا فلاک و مطالعۃ النوح ونحموظولذہ لحامن ذلک استغالحا بتدبورلبدن ونی وقت انوم یقومتہ القشاھن نققوی علے ھذہ المطالعۃ واذاوقعت روح علی حالتہ من الا حویال ترکت اثارا مخصوبۃ مناسبۃ لذلک الا درنک الروحائے الی عالم الخیال (تفسیر کبیر)
اس امر کو تفسیر کبیر میں اور زیادہ صاف طرح پر بیان کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے نفس ناطقہ کو اس طرح کا پیدا کیا ہے کہ اس کے لیے یہ بات ممکن ہے کہ عالم افلاک تک پہنچ جاوے اور لوح محفوظ کو پڑھ لے اس بات سے جو اس کو مانع ہے وہ اس کا تدبیر بدن میں مشغول رہتا ہے اور سونے کے وقت میں اس کی یہ مشغولی کم ہوجاتی ہے اور قوۃ لوح محفوظ کے پڑھ لینے کی قوی ہوجاتی ہے پس جب روح کا کوئی ایسا حال ہوجاتا ہے تو وہ انسان کے خیال میں خاص اثر جو اس ادراک روحانی کے مناسب ہوتا ہے ڈال دیتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اثران اور اکات کا خیال میں متمثل ہو کر بطور خواب کے دکھائی دیتا ہے۔
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ بلاشبہ عقل انسانی بلکلہ مشاہدہ اور تجربہ اس بات کو ضرور ثابت کرتا ہے کہ ایک واجب الوجود یا علۃ العلل خالق جمیع کائنات موجود ہے۔ ولا تعلم ماھینتہ ولا حقیقۃ صفاتہ الا ان نقول علم حی قادر خالق لا تاخذہ سنۃ ولا نوم لہ مافی السموت وما فی الارض وھو علی کل شیء قدیر۔ اور یہ تمام الفاظ صفاتی جو اس واجب الوجود کی نسبت منسوب کرتے ہیں صرف مجار ہے ” ان حقیقۃ صفاتہ غیر معلوم “ پس مفہوم علاء اعلیٰ کا یہ صوفیہ کرام اور علمائے اسلام اور فلاسفہ عالی مقام نے قرار دیا ہے یہ صرف خیال ہی خیال ہے اس کی صداقت اور واقعیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو کسی امر کو گو کہ وہ واقعات خواب ہی کیوں نہ ہوں اس پر مبنی کرنا نقش نہ برآب ہے واما الا حادیث المرویۃ فی ھذا البسب فکلھا غیر ثابت ونھاھی مقالات الصوفیہ وامن بشابھم ولیس من کلام النبی محمد صلعم۔
ہاں کہا جاتا ہے کہ بعد سلوک طریقت اور اختیار کرنے زہد و مجاہد و ریاضت کے یہ راز کھلتا ہے اور حجاب اٹھ جاتے ہیں اور حقیقت نفس وہیتہ ملاء اعلیٰ ومافیھا منکشف ہوجاتی ہے ہم قبول کرتے ہیں کہ کچھ منکشف ہوتا ہوگا مگر ہم کس طرح تمیز کریں کہ جو کچھ منکشف ہوا ہے وہ حقیقت ہے یا وہی خیالات ہیں جو متمثل ہوگئے ہیں جس طرح کہ اور خیالات متمثل ہوجاتے ہیں الا عندی کمال الانسان ان یکون متمثلا بروفاتہ ورضانہ مکنوئۃ فی محنوقاتہ وقد شرجہانی کلامہ علی لسان رسولہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھی مکتوبۃ فی کتابۃ فحسبہ اللہ ورسولہ وتابہ الذی سماء بقرآن المجید والفرقان الحمید تبارک و تعالیٰ شانہ وما اعتم برھانہ۔
پس ہمارے نزدیک بجز ان قوے کے جو نفس انسانی میں مخلوق ہیں اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں موثر نہیں ہے اور یوسف (علیہ السلام) کی خواب جن کا نفس نہایت متبرک اور پاک تھا اور ان دونوجوانوں کے خواب جو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ قید خانہ میں تھے اور کفر و ضلالت میں مبتلا تھے اور ان کے نفوس بسبب آلایش کفر پاک نہ تھے اور اسی طرح فرعون کا خواب جو خود اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا اور اس کا نفس مبداء فیاض سے کچھ مناسبت نہ رکھتا تھا اور باانہمہ سب کے خواب یکساں مطابق واقعہ کے اسی ایک قسم کے تھے اور اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بجز قوائے نفس انسانی کے اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں موثر نہیں ہے گو کہ وہ خواب کیسے ہی مطابق واقعہ کے ہوں۔
اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خوابوں کو دیکھو۔ پہلا خواب ان کا یہ ہے کہ انھوں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو اپنے تئیں سجدہ کرتے دیکھا۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ان کے سوا گیارہ بھائی اور بھی تھے اور ماں اور باپ تھے باپ اور ماں کا تقدس اور عظیم و شان اور قدرومنزلت ان کے دل میں منقش تھی بھائیوں کو بھی وہ اپنے باپ کی ذریات جانتے تھے مگر اس سبب سے کہ ان کے باپ ان کو سب سے زیادہ چاہتے تھے اور خود ان کے باپ و ماں اور ان کے سبب سے ان کے بھائی ان کی تابعداری بسبب چاؤ و محبت کے کرتے تھے اور اس لیے ان کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ماں باپ اور بھائی سب میرے تابع وفرماں بردار اور میری منزلت و قدر کرنے والے ہیں۔
یہ کیفیت جو ان کے دماغ میں منقش تھی اس کو متخیلہ نے سورج اور چاند اور ستاروں کی شکل میں جن کو وہ ہمیشہ دیکھتے تھے اور ان کا تفاوت درجات بھی ان کے خیال میں متمکن تھا متمثل کیا اور انھوں نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھ کو سجدہ کرتے ہیں پس ان کی تعبیر حالت موجودہ میں یہ تھی کہ ماں باپ اور بھائی سب ان کے فرمان بردار ہیں۔
سجدہ کے لفظ سے بعض مفسرین نے واقعی سجدہ کرنا مراد لی ہے اور بعض نے اطاعت و تواضع جیسا کہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے المراد بالسجود لغر السجود او التواضع مگر میں قول ثانی کو ترجیح دیتا ہوں گو خواب میں یہ دیکھنا کہ سورج اور چاند اور ستارے زمین پر اتر آئے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ مگر یہ روایت کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فلاں فلاں ستارے زمین پر اترے تھے محض بےاصل اور غلط بلکہ جھوٹی ہے۔
اس واقعہ کے ایک مدت بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ماں باپ بھائیوں کا مصر میں جانا اور موافق داب سلطنت کے آداب بجا لانا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا فرمانا کہ ھذا یاویل رویای من قبل قد جعلھا ربی حد ایک امر اتفاقی تھا کیونکہ یہ بات قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی جو نبی تھے اس خواب سے یہ سمجھے تھے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ایسی منزلت میں پہنچے گے کہ ماں باپ اور بھائی جاکر ان کو سجدہ کرینگے ۔ اگر قرآن مجید سے اس خواب کی کچھ تعبیر پائی جاتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ خدا تجھ کو حوادث عالم کا مآل تعلیم کرے گا اور اپنی نعمت تجھ پر اور یعقوب کی اولاد پر اسی طرح پوری کریں گا جس طرح کہ اس نے ابراہیم اور اسحق پر پوری کی ہے۔ اور یہ تعبیر ایک عام تعبیر ہے جو ایک جوان صالح کے عمدہ خواب کی تعبیر میں بیان ہوسکتی ہے۔ چاند سورج ستاروں کے سجدہ کرنے سے حوادث عالم کے علم کو تعبیر کرنا نہایت پر لطف قیاس کیا۔
دوسرا اور تیسرا خواب ان دوجوانوں کا ہے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ قید خانہ میں تھے ان میں سے ایک نے دیکھا کہ میں شراب چھان رہا ہوں دوسرے نے دیکھا کہ اس کے پر روٹی ہے اور پرند اس کو کھا رہے ہیں یہ دونوں شخص کسی جرم کے متہم ہو کر قید ہوئے تھے پہلا شخص جو غالباً ساقی تھا درحقیقت بےگناہ تھا اور اس کے دل کو یقین تھا کہ وہ بےگناہ قرار پاکر چھوٹ جاویگا وہی خیال اس کا سوتے میں شراب تیار کرنے سے جو اس کا کام تھا متمثل ہو کر خواب میں دکھلائی دیا۔
دوسرا شخص جو غالباً باورچی خانہ سے متعلق تھا درحقیقت مجرم تھا اور اس کے دل میں یقین تھا کہ وہ سولی پر چڑھایا جاویگا اور جانور اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھاوینگے وہی خیال اس کا سوتے میں روٹی سر پر رکھ کرلے جانے سے جو اس کا کام تھا اور پرندوں کا روٹی کھانے سے متمثل ہو کر خواب میں دکھائی دیا حضرت یوسف (علیہ السلام) اس مناسبت طبعی کو جو ان دونوں خوابوں میں تھی سمجھے اور اس کے مطابق دونوں کو تعبیر دی اور مطابق واقعہ کے ہوئی۔
چوتھا خواب وہ ہے جو خود بادشادہ نے دیکھا کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں سات دبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات ہری بالیں ہیں اور سوکھی۔
ملک مصر ایک ایسا ملک ہے جس میں مینہ بہت ہی کم برستا ہے دریائے نیل کے چڑھاؤ پر کھیتی ہونے یا قحط پڑنے کا مدار ہے۔ چڑھاؤ کے موسم میں اگر بائیس فیٹ چڑھ جاوے تو فصل اچھی ہوتی ہے اور چوبیس فیٹ چڑھاؤ میں غرقی ہوجاتی ہے اور اگر صرف اٹھارہ یا ساڑھے اٹھارہ فیٹ چڑھاؤ ہو تو قحط ہوجاتا ہے۔
قدیم مصریوں نے دریائے نیل کے چڑھاؤ کے جس پر اچھی فصل یا قحط کا ہونا منحصر تھا متعدد جگہ اور متعدد طرح سے پیمانے بنا رکھے تھے اور ان کو بہت زیادہ اچھی فصل ہونے یا قحط ہونے کا خیال اور ہمیشہ اسی پر چرچارہتا تھا۔
مصر میں قحط ہونے کا یہ سبب بھی ہوتا ہے کہ دریائے نیل کی طغیانی کے چڑھاؤ کی بہاؤ کا رخ اس طرح پر پڑجاوے کہ زراعت کی زمینیں پانی پھیلنے سے محروم رہے جاویں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں اور اس سے پہلے بھی دریائے نیل بےاعتدالی کے طور پر بہتا تھا یعنی ملک مصر میں اس کے مناسب اور یکساں بہنے کے لیے کوئی اتنظام نہیں کیا گیا تھا۔
اس زمانہ میں بھی جب کسی ندی یا دریا کا رخ بدلتا معلوم ہوتا ہے تو لوگ اندازہ کرتے ہیں اور آپس میں چرچا کرتے ہیں کہ اتنے دنوں میں دریا اس طرف بہنے لگے گا اور فلاں طرف کی زمینیں چھوٹ جاوینگی اسی طرح غالباً اس زمانہ میں مصر کی نسبت اور قحط پڑنے کی نسبت چرچے ہوتے ہوں گے اور بادشاہ مصر کو اس کا بہت خیال رہتا ہوگا وہی خیال پیداوار کے زمانہ کا موٹی تازی گایوں اور ہری ہری بالوں سے اور قحط کے زمانہ کا دبلی گایوں اور سوکھی بالوں سے متمثل ہو کر فرعون کو خواب میں دیکھائی دیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسی حالت کے مناسب تعبیر دی جو مطابق واقع کے ہوئی کما قال القارابی ان التعبیر ھوحدس من المعبر یستخرج بہ الا صل من الفرع۔
اگر عبری توراۃ کے حساب کو صحیح مانا جاوے تو یہ قحط سنہ دنیاوی یعنی سنہ قبل مسیح میں شروع ہوا تھا اور سنہ دنیاوی یعنی سنہ قبل مسیح میں ختم ہوا تھا۔
مصر کا قحط افریقہ کے اکثر حصوں اور بالخصوص یمن میں اور تمام فلسطین میں نہایت شدید تھا مگر یہ سمجھنا کہ ان برسوں میں ان ملکوں میں مطلق کچھ پیدا نہیں ہوا تھا صحیح نہیں ہے بلکہ جو حال عموماً قحط زدہ ملکوں کا ہوتا ہے ویسا ہی ان ملکوں کا تھا اور اسی لیے قرآن مجید میں سبعاً شددا کا لفظ آیا ہے اور شدید قحط میں یہی ہوتا ہے کہ پیداوار ان ملکوں میں نہایت قلیل ہوتی ہے اور پھر متواتر قحط ہوتا ہے اور شدید ہوجاتا ہے کیونکہ غلہ کا ذیرہ موجود نہیں رہتا۔
خوابوں کی نسبت اب صرف ایک بحث باقی ہے کہ اگر وہی چیزیں خواب میں دکھائی دیتی ہیں جو دماغ میں اور خیال میں جمع ہیں تو یہ کیوں ہوتا ہے کہ بعضی دفعہ یا اکثر دفعہ وہی امر واقع ہوتا ہے جو خواب میں دیکھا گیا ہے۔
مگر اس باب میں خواب کی حالت اور بیداری کی حالت برابر ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بیداری کی حالت میں آدمی باتیں سوچتا ہے اور اپنے دل میں قرار دیتا ہے کہ یہ ہوگا اور وہی ہوتا ہے یا کسی شخص کو یاد کرتا ہے اور وہ شخص آجاتا ہے اور بہت دفعہ اس کے مطابق نہیں ہوتا پس اس کی بیداری کے خیال کے مطابق واقعہ کا ہونا ایک امر اتفاقی ہوتا ہے۔ اسی طرح خواب میں بھی جو باتیں وہ دیکھتا ہے اور وہ وہی ہوتی ہیں جو اس کے دماغ اور خیال میں جمی ہوئی ہوتی ہیں پس کبھی ان کے مطابق بھی کوئی واقع اسی طرح واقع ہوتا ہے جس طرح کہ بیداری کی حالت میں خیالات کے مطابق واقع ہوجاتا ہے۔
ہاں اس میں شبہ نہیں کہ انبیاء اور صلحاء کے خواب بسبب اس کے کہ ان کے نفس کو تجروفطری و خلقی یا اکتسابی حاصل ہوتا ہے ان کے خواب بالکل سچے اور اصلی اور مطابق ان کی حالت نفس کے ہوتے ہیں اور ان سے ان کے نفس کا تقدس اور متبرک ہونا ثابت ہوتا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ یوسف : آیت 24

وَ لَقَدۡ ہَمَّتۡ بِہٖ ۚ وَ ہَمَّ بِہَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ؕ کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ وَ الۡفَحۡشَآءَ ؕ اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۲۴﴾

تفسیر سرسید :

(ولقد ھمت بہ وھم بھا) کی نسبت مفسرین نے بہت لمبی لمبی دو رازکار بحثیں کی ہیں۔ کہیں اس پر بحث ہے کہ روایت ربان سے کیا مراد ، پھر ایک روایت کہی جاتی ہے کہ حضرت یعقوب کی صورت دانتوں میں انگلی کاٹتے ہوئے دکھائی دی ایک روایت بتائی جاتی ہے کہ مکان کی چھت پر کچھ الفاظ لکھے ہوئے دکھائی دیئے۔ اسی طرح کی بہت سی بےفائدہ اور بیہودہ باتیں تفسیروں میں لکھی ہیں اور ان پر جرح و قدح وتعدیل و تصویب کی ہے۔ مگر قرآن مجید کا مطلب بہت صاف ہے البتہ کسی قدر قواعد نحو کے مطابق اس پر بحث ہوسکتی ہے اگرچہ ہمارے نزدیک اخفش و سیبویہ با بصریئین و کو فیئن کے مستنبطہ قواعد نحو سے قرآن مجید کو جکڑنا اور اس پر جرح محض غلط ہوناواجب ہے کیونکہ کتنا ہی استقرا کیا جاوے کسی زبان کے تمام محاورات و طرز ادا اور ایڈیم (محاورہ) کا استقرا نہیں ہوسکتا لیکن ہم اول اصلی اور صاف معنی قرآن مجید کے بیان کرکے بقدر ضرورت مسئلہ نحوی پر بھی بحث کرینگے ۔
پہلی آیت میں خدا نے فرمایا تھا کہ اس عورت نے مکان کے دروازے بند کردیئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ آؤ میں تیرے لیے ہوں یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) سے فحش کی خواہش کی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا خدا کی پناہ یعنی انکار کیا۔ اور یہ دلیل پیش کی جس نے مجھ کو گھر میں رکھا ہے یعنی اس عورت کا شوہر وہ میرا رب یعنی مربی ہے اور مجھ کو عزت سے رکھا ہے اور ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔
اب دوسری آیت میں جو لفظ وھم بھا کا ہے اس کے یہ معنی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس عورت سے فحش کا قصد کیا یا ان کے دل میں اس کا ارادہ آیا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتے کیونکہ پہلی آیت میں صاف اس کام سے انکار بطور نص قطعی بیان ہوچکا ہے اور اس لیے ضرور ہے کہ ھم یھا کے معنی عدم وقوع ھم کے ہوں پس ھم بھا ، لولا کی جزا ہے اور جزا بسبب ہم اور مقصود بالذات ہونے کے شرط پر مقدم ہوگئی ہے۔ اس لیے دوسری آیت کے صاف معنی جو نص قرآنی سے پائے جاتے ہیں یہ ہیں کہ ” اگر یوسف نے دلیل اپنے رب کی نہ دیکھی ہوتی یعنی نہ سمجھی ہوتی تو یوسف نے اس کے ساتھ قصد کیا ہوتا پس قرآن مجید سے فحش کا قصہ کرنا یا اس کا ارادہ دل میں آنا حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نسبت بیان نہیں ہوا ہے۔
فالمراد بالروئۃ حصول تلک لا خلاق (یعنی تطھیر نفوس الانبیاء) وتناکیر الا حوال الرادعۃ لھم عن الا قدام علی اسنکرات۔ (تفسیر کبیر) فالھم عبادۃ عن جو اذب لصبیعہ ورئۃ البرھان عبادۃ عن جوا ذب العبودیۃ۔ (تفسیر کبیر)
روایت کا لفظ آنکھ سے ہی دیکھنے پر مخصوص نہیں ہے بلکہ دل میں جو بات یقین اور استحکام سے آجاتی ہے اس پر بھی روایت کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس آیت میں جو لفظ را کا ہے اس کی نسبت بھی تفسیر کبیر میں آنکھ سے دیکھنے کے معنی نہیں بیان ہوئے ہیں بلکہ اس روایت قلبی کے معنی لیے ہیں جو انبیاء وصلحاء کو منکرات پر اقدام کرنے سے روکتی ہے۔
اب یہ بات غور طلب ہے کہ ” برھان ربہ “ سے کیا مراد ہے۔ تعجب ہے کہ تمام مفسرین نے پہلی آیت میں جو لفظ ” رب “ ہے اس سے وہ شخص مراد لیا ہے جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید کر اپنے گھر میں رکھا تھا اور پرورش کیا تھا اور دوسری آیت میں جو لفظ ” ربہ “ سے اس سے خدا مراد لیا ہے جس کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے بلکہ بلحاظ سیاق پہلی آیت کے دوسری آیت میں بھی وہی شخص مراد ہے جو پہلی آیت میں تھا۔
اب معنی آیت کے درلفظ ” برھان “ کے بالکل صاف ہیں یعنی اگر یوسف نے دلیل نہ سمجھی ہوتی کہ جس نے مجھ کو اپنے گھر میں رکھا ہے اور میرا رب یعنی مربی یا پرورش کرنے والا ہے اس کی عورت کے ساتھ فحش ظلم ہے اور ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے تویوسف نے اس کے ساتھ قصد کیا ہوتا۔
اب رہی بحث کہ ” لولا “ جب بطور شرط کے واقع ہو تو جزا کا اس پر مقدم کرنا بموجب قواعد مستنبط نحو جائز ہے یا نہیں اس کی نسبت تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ہم اس بات لا نلم ان یوسف (علیہ السلام) ھم بھا وندسیل علیما نہ تعالیٰ قال وھم بھالولا ان راہ برھان ربہ وجراب لولا ھھنا مقدم وھوما یقال قدکنت موالھا لکین لولا ان فلانا خلصک۔ (تفسیر کبیر)
کو نہیں مانتے کہ حضرت یوسف نے اس عورت کے ساتھ قصد کیا تھا کیونکہ خدا نے کہا ہے کہ اس کے ساتھ قصد کیا ہوتا اگر نہ دیکھتا دلیل اپنے پروردگار کی۔ اس جگہ جواب لولا کا مقدم ہے اور اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی کہے کہ تو ہوتا مرے ہوؤں میں سے اگر نہ فلاں شخص تجھ کو بچاتا۔
اس پر زجاج کا اعتراض نقل کیا ہے اس کا اعتراض یہ ہے کہ ” لولا “ کا جواب پہلی لانا شاذ ہے اور کلام فصیح میں موجود نہیں ہے۔
واصبح فوادام موسیٰ فارغا ان کارت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبھا تتکون من المومنین (سورة قصص)
اس کا جواب انھوں نے یہ دیا ہے کہ جواب لولا کا موخر لانا بہتر ہے مگر مقدم لانا ناجائز نہیں ہے اور جواب ’ لولا ‘ کے مقدم آنے پر سورة قصص کی اس آیت سے سند لی ہے۔ موسیٰ کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا قریب تھا کہ اس کو ظاہر کردیوے اگر ہم نے نہ بندش رکھی ہوتی اس کے دل پر۔
اس پر زجاج کا دوسرا اعتراض نقل کیا ہے کہ ’ لولا ‘ کا جواب بغیر لام کے نہیں آتا اگر ھم بھا لولا کا جواب ہوتا تو یوں کہا جاتا۔ ولقد ھمت بہ ولھم بھالولا ان را برھان ربہ “۔
اس کا جواب یہ دیا کہ ’ لولا ‘ کا جواب لام کے ساتھ آتا ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بغیر لام کے لانا جائز نہیں ہے۔
اس کے بعد تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ’ لولا ‘ جواب چاہتا ہے اور یہ یعنی ’ وھم بھا ‘ اس کا جواب ہوسکتا ہے پھر ضرور ہے کہ وہ اس کا جواب ہو یہ بات کہنی نہیں چاہیے کہ ہم اس کے جواب کو مضمر مانینگے اور بہت جگہ قرآن میں جواب کو چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اس بات میں کہ قرآن میں جو اب چھوڑ دیا گیا ہے کچھ جھگڑا نہیں ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ جواب کا محذوف ہونا نہیں چاہیے صرف اسی جگہ اس کا حذف کرنا یا چھوڑنا بہتر ہوتا ہے جب کہ لفظ میں ایسی درست پائی جاوے کہ اس سے وہ جواب محذوف متعین ہوجاوے اور اگر اس جگہ پر جواب کو محذوف مائیں تو لفظ میں کوئی دلالت ایسی نہیں ہے جو جواب محذوف کو متعین کردے اور اس جگہ بہت سے جواب مضمر ہوسکتے ہیں اور ایک کو باقیوں سے بہتر سمجھنے کی دلیل نہیں ہے۔ انتہیٰ ۔
صاحب تفسیر کبیر نے اس بات کی کوئی مثال نہیں دی کہ ’ لولا ‘ کا جواب بغیر لام کے بھی آیا ہے مگر قرآن مجید میں متعدد اس کی مثالیں ہیں سورة نور میں ہے۔ ونرلا فضل اللہ علیکم وارحمتہ مازکی منکمک من احدا بدا (آیت ) اور سورة واقعہ میں ہے۔ فلولا ان کنتم غیر مدینین ترجعونھا ان کنتم صدقین (آیت۔ ) اور اس شعر زمانہ جاہلیت میں بھی جواب ’ لولا ‘ کا بغیر لام کے آیا ہے اور وہ شعر یہ ہے :۔
ولولا اننی رحیل حرام
حضرت فرونھا وتتمت ناھا
اگرچہ ان آیتوں اور شعروں میں ’ لولا ‘ کا جواب موخر ہے مگر جب کہ اس کا جواب بحالت موخر ہونے کے بغیر لام کے آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بحالت مقدم ہونے کے بغیر لام کے نہ آوے چنانچہ ہم اس کی مثال بھی پیش کرینگے۔
بلاشبہ صاحب تفسیر کبیر نے نہایت عمدہ طریق پر بیان کیا ہے کہ ’ وھم بھا ‘ جواب مقدم ہے ’ لولا ‘ گا لیکن ہم مختصر طور پر یہ بات کہتے ہیں کہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ’ وھم بھا “ جواب مقدم ہے ’ لولا ‘ کا کیونکہ پہلی آیت سے کسی قسم کے ’ ھم ‘ یعنی قصد سے انکار بیان ہوچکا ہے۔ تو دوسری آیت میں ہر قسم کے ’ ھم ‘ یعنی قصد سے نفی ہونی چاہیے اور اس کی نفی نہیں ہوتی جب تک کہ ’ وھم بھا ‘ کو ’ لولا ‘ کا جواب مقدم نہ قرار دیا جاوے پس نص قرآنی سے ثابت ہے کہ ’ ھم بھا ‘ جواب مقدم ’ لولا ‘ کا ہے۔
ہم اس قدر پر اکتفا کرنا نہیں چاہتے بلکہ بیان کرتے ہیں کہ عرب کے اشعار میں بغیر لام کے بھی لولا کا جواب مقدم آیا ہے امرا القیس کہتا ہے۔
یغما لین فیہ الجزء وہ ھواحیر
جتاد بھا صرعی لھن نصیص
غلوکرتیں وہ اونٹنیاں قناعت کرنے میں پانی سے چارہ پر اگر ایسی دو بھر نہ ہوتی جس میں ٹڈیاں زمین پر گر پڑی ہیں در وہ چر چر بول رہی ہیں گویا بہنے کی وہ چرچڑاہٹ ہے۔
زہیر جو بہت مشہور اور قدیم شاعر زمانہ جاہلیت کا ہے کہتا ہے :۔
المجد فی غیر ھم لو لا ماثرہ
وھیر نفسہ واتحرب تستعر
بزرگی اس کے سوا اوروں میں ہوتی ہے اگر نہ ہوتی اس کی یعنی ممدوح کی خوبیاں اور استقلال نفس ایسی حالت میں کہ لڑکی بھڑک رہی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ومامن دآبۃ : سورۃ یوسف : آیت 26

قَالَ ہِیَ رَاوَدَتۡنِیۡ عَنۡ نَّفۡسِیۡ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۲۶﴾

تفسیر سرسید :

( و شھد شاھد) ۔ شاھد کا لفظ زیادہ تر گواہ کے معنوں میں مستعمل ہے مگر ایسے گواہ پر جس نے اس واقعہ کو جس کا وہ گواہ ہے بچشم خود دیکھا ہو اس لیے قرآن مجید کے ستر جموں نے اس کا ترجمہ کیا ہے (گواہی داد گوا ہے) اور اردو میں ترجمہ کیا ہے (گواہی دی گواہ نے) مگر یہ ترجمہ صریح غلط ہے کیونکہ اگر، شھد، کے معنی گواہ کے لیے جاویں تو اس کی گواہی ” ان کان قمیصد قد من قبل الاآخرہ۔ ہوگی اور صاف ظاہر ہے کہ وہ گواہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایک واقعہ کی نسبت حکم یا فیصلہ ہ یپس خود سیاق قرآن دن معنوں سے جو مترجموں نے اختیار کئے ہیں انکار کرتا ہے اسی لیے اس تفسیر کے مصنف نے جو تفسیر ابن عباس کے نام سے مشہور ہے ” شھد شاھد “ کی تفسیر میں لکھا ہے حکم حاکم شاہد سے حاکم مراد لینا گو سیاق قرآن کے مناسب ہو مگر لفظ کی دلالت سے بہت بعید ہے۔
شھد اور شاھد کا لفظ جیسا کہ گواہ کے معنوں میں مستعمل ہے اس سے زیادہ حاضر اور موجود ہونے کے معنوں میں مستعمل ہے پس صحیح ترجمہ ان لفظوں کا وہ ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے کہ حاضر ہوا حاضر ہونے والا یعنی اس تنازع کے وقت جو اس عورت اور حضرت یوسف (علیہ السلام) میں ہوا ایک شخص آیا اور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ” ان کان قمیصہ تدا من قبل الخ۔
اے فان نما ابن عم وکان رجلاحکیما واتفقنی ذلک الوقت انہ کان مع املا بریدان یدخل علیا فقال قد تعہ الجبۃ من دوادالباب وشق لقمیص الا انا لا ندری ایکما صحبہ فان کان شق القمیص من قد امہ قالت صادقۃ والرجل کاذب ون کان من خلقہ قالر جال حسادق ونت کاذبۃ فلما نظرن الی القمیص وراؤا الشو من خلفہ قال ابن عمھا اندمن کیدکن نہ کید کن عظیم ای من عملکن ثم قال یوسف اعرض عن ھذا واکستمہ وقال بھا استغفری لذنبک وھذ قول طائفۃ عظیمۃ من الفسرین۔ (تفسیر کبیر)
اب اس بات پر بحث ہے کہ وہ شاھد کون تھا۔ تفسیر کبیر میں متعدد روایتیں اس کی نسبت لکھی ہیں جو اس قسم کی ہیں جیسے کہ بےسروپاروایتیں تفسیروں میں ہوتی ہیں۔ مگر وہ روایت جس پر ایک گروہ مفسرین کو اتفاق سے اس قابل ہے کہ اس پر اعتماد کیا جاوے اور وہ یہ ہے کہ اس عورت کا ایک چچا زاد بھائی تھا اور وہ ایک حکیم آدمی تھا اتفاق سے اس وقت وہ بادشاہ کے ساتھ تھا اور اس عورت کے پاس جانے والا تھا اس نے کہا کہ میں نے دروازے سے درے کھینچا تانی اور آواز قمیص پھٹنے کی سنی مگر میں نہیں جانتا کہ تم دونوں میں سے کون آگے تھا۔ پس اگر کرتا آگے سے پھٹا ہوا تو سچی ہے اور وہ شخص جھوٹا ہے اور اگر پیچھے سے پھٹا ہو تو وہ شخص سچا ہے اور تو جھوٹی ہے۔ پھر جب قمیص کو دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ پیچھے سے پھٹا ہے تو اس عورت کے چچازاد بھائی نے کہا کہ بیشک یہ تمہارا مکر ہے اور بیشک تمہارا مکربرا ہے۔ یعنی یہ تمہارا کام ہے۔ پھر اس نے یوسف سے کہا کہ اس سے درگزر کرو اور اس کو پوشیدہ رکھو اور اس عورت سے کہا کہ تو معافی مانگ اپنے گناہ سے۔ یہ قول ہے ایک گروہ عظیم کا مفسرین میں سے ۔ پس یہ روایت ایسی ہے کہ اس کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شھد شاھد کا لفظ بمعنی گواہ کے نہیں آیا بلکہ ایسے شخص کی نسبت آیا ہے جو وہاں حاضر تھا۔
انتیسویں اور تیسویں آیت کے اکثر الفاظ نہایت غور طلب ہیں اور مفسرین نے بلاشبہ ان پر غور کی ہے۔ اور اپنی سمجھ کے موافق ان کی تفسیر بھی بیان کی ہے مگر تشفی کے قابل نہیں ہے خصوصاً اس وجہ سے کہ وہ تفسیر نامعتمد روایتوں پر مبنی ہے ہم چاہتے ہیں کہ جہاں تک ہوسکے خود قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے ان کی تفسیر سمجھیں۔
 
Top