ومامن دآبۃ : سورۃ یوسف : آیت 30
وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ ۚ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۳۰﴾
تفسیر سرسید :
ان آیتوں میں ہے کہ جب شہر کی عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ عزیز مصر کی عورت کے عشق کا چرچا کیا اور کہا کہ وہ علانیہ گمراہی میں ہے اور جب عزیز مصر کی عورت نے ان کا چرچا کرنا سنا تو ان کو دعوت میں بلایا جس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی موجود ہوئے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ چار پانچ عورتیں تھیں ایک عزیز مصر کے شراب پلانے والی کی عورت۔ دوسری اس کی روٹی پکانے والے یعنی داروغہ باورچی خانہ کی عورت۔ تیسری جیل خانہ کی عورت چوتھی داروغہ اصطبل کی عورت۔ پانچویں حاجب یعنی افسر منتظم دربار کی عورت۔
ان آیتوں میں جو الفاظ قابل غور ہیں منجملہ ان کے ایک لفظ بکرھن ہے یعنی جب عزیز مصر کی عورت نے ان عورتوں کا چرچا کرنا سنا تو اس کو بلفظ بکرھن سے تعبیر کیا۔ پس غور کرنے کی بات ہے کہ ان کے اس چرچے کو کیوں اس لفظ سے تعبیر کیا۔ تفسیر کبیر میں اور اس وح اور تفسیروں میں لفظ ’ یمکرھن ‘ کی تفسیر بقولھن کی ہے پھر اس پر بحث کی ہے کہ ان کے قول کو مکر کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا ہے۔ تفسیر کبیر میں اس کی تین وجہیں لکھی ہیں جو صحیح نہیں معلوم ہوتیں۔
اول یہ کہ اس چرچہ سے ان کا مطلب یہ تھا کہ عزیز مصر کی عورت ہم کو بھی یوسف دکھاوے مگر یہ کسی قدر بعید از عقل ہے کہ ان عورتوں نے جو عزیز مصر کے محل میں آنے جانے والی اور اس کے افسروں کی عورتیں تھیں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی وہیں رہتے تھے اور انھوں نے ان کو کبھی نہ دیکھا ہو۔
دوسرے یہ کہ عزیز مصر کی عورت کے عشق کا راز ان کو معلوم تھا مگر اس کے چھپانے کو کہا تھا جب انھوں نے اس کا چرچا کیا تو یہ دغا بازی دھوکا ہوا ۔ تسلیم کرو کہ دغا بازی اور خلاف وعدگی ہوئی رازداری نہ ہوئی مگر اس میں مکر کیا ہوا۔
تیسرے یہ کہ انھوں نے عزیز مصر کی عورت کی پوشیدہ پوشیدہ غیبت کی جو مکر کے مشابہ تھی اس توجیہ کا بودا پن خود اس سے ظاہر ہے اب ہم قرآن مجید ہی سے تلاش کرتے ہیں کہ ان عورتوں نے جو چرچا کیا اس پر مکر کا کیوں اطلاق کیا۔ قرآن مجید کی اور آیتوں سے جن کا ہم ذکر کرینگے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورتیں خود حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عشق میں مبتلا تھیں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی طرف ملتفت کرنا چاہتی تھیں اور ظاہری میں عزیز مصر کی عورت کو یسف کے عشق پر ملامت کرتی تھیں۔ اور اس لیے ان کے اس چرچے اور ملامت کرنے کو ان کے مکر سے تعبیر کیا ہے۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورتیں مصر عزیز مصر کی عورت کے اس عشق بازی میں شریک تھیں اور ایک کو دوسری کا حال معلوم تھا اور اسی سبب سے عزیز مصر کی عورت نے ان کی بات چیت کو مکر سے تعبیر کیا اور بسبب ازوار ہوتے کے یوسف کی دعوت میں ان کو بلایا اور سب نے بلکہ حضرت یوسف کو فحش کے ارتکاب پر مجبور کرنا یا ان کو کسی جرم کے حیلہ میں پھنسانا چاہا تھا کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پہلے جرم کے اتہام سے بری ہوچکے تھے۔ اور وہ مجلس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور وہ عورتیں بلائی گئی تھیں دعوت کی تھی جس میں متعدد قسم کے کھانے تھے اور ان کے کاٹنے کے لیے ہر ایک کو چھری دی گئی تھی۔
حاصل الکلام : نہادعت اولئک النسوۃ اعتدت لکل واحدۃ منھن سکینا اما لا جل اکل الفاکھۃ اولا جل قطع الحم (تفسیر کبیر) واتت (اعظت) کل واحدۃ منھن سکینا ۔ تقطع بھا اللحم لا نھم کانوا لا یاکلون الا ما یقصعون بکا کینھم (تفسیر ابن عباس) ۔
چنانچہ تفسیر کبیر اور نیز تفسیر موسوم ابن عباس میں لکھا ہے کہ وہ عورتیں دعوت میں بلائی گئی تھیں اور پھل کاٹنے یاگوشت کاٹنے کو چھریاں ان کو دی تھیں اور وہ گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھاتی تھے مگر ان عورتوں نے صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جرم میں پھنسانے کے اے خودوانستہ اپنے ہاٹھ کاٹ لیے اور اسی جرم کے اتہام میں ان کو قید خلتہ میں بھیجا۔
اب اس مطلب کو ہم قرآن مجید کی آیتوں سے ثابت کرتے ہیں۔ جب بادشاہ نے خواب کی تعبیروں کو جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دی تھیں سن کر کہا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قید خانہ سے لاؤ تو جو شخص لینے آیا تھا۔ اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ تو پھر جا اپنے مالک کے پاس اور اس سے پوچھ کہ کیا حال ہے۔
فارجع الیم بک فسئلہ مابال النبوۃ اتتی قصعن اینیا مرمن ان ربی بکیدھن علیم ۔
ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے بیشک میرا رب یعنی وہ جس نے میری پرورش کی ہے ان کے مکر کو جانتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں اپنے ہاتھ خود مکر کرنے کے لیے کاٹے تھے۔
قال ماخطبکن اذرا ودتن یوسف عن نفسہ قلن حاش للہ ما علمنا علیہ من سوء۔
اس پر بادشاہ نے یا عزیز مصر نے ان سے پوچھا کہ تمہاری کیا حالت تھی جب کہ تم نے لگاوٹ کی یوسف سے اس کو اپنے آپے کی حفاظت سے ڈگمگا دینے کو ان عورتوں نے کہا دہائی خدا کی ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں جانی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح عزیز مصر کی عورت نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے لگاوٹ کی باتیں کی تھیں وہی حال ان عورتوں کا تھا جنہوں نے دانستہ مکر کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔
ان قولہ ذراودتن یوسف عن نفسہ وان کانت صیفۃ الجمع فاگز دمنھا انراحدۃ کقولہ تعالیٰ الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم (والشانی) ان المراد منہ خطاب الجماعۃ ثم ھھنا وجھان (الادل) ان کر نواحدۃ منھن روادت یوسف عن نفسھا (والثانی) ان کل واحدۃ منھن راودت یوسف لاجل امراۃ العزیز۔ تفسیر کبیر
تفسیر کبیر میں بادشاہ کے اس قول کی نسبت ” ذرودتن یوسف عن نفسہ “ اور احتمال لکھے ہیں یک یہ کہ اگرچہ راودتن صیغہ جمع کا ہے لیکن اس سے مراد واحد ہے یعنی وہی عورت عزیزمصر کی۔ مگر یہ احتمال محض غلط ہے اول تو اس لیے کہ صیغہ تبع سے واحد مراد لینے کی کوئی وجہ نہیں دوسرے یہ کہ بادشاہ نے یوسف کے پیغام پر یہ سوال کیا تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے صاف کہا تھا کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے پس انہی عورتوں سے بادشاہ نے ، اذرودتن یوسف عن نفسہ، کہہ کر سوال کیا پس تحقیق معلوم ہوا کہ وہ صیغہ جمع کا ان عورتوں کی نسبت بولا گیا ہے جو تعداد میں چار پانچ تھیں پھر اس سے واحد مراد لینا خلاف واقع اور خلاف حقیقت ہے۔ دوسرا احتمال یہ لکھا ہے کہ اس سے گروہ عورتوں کا مراد ہے خواہ ان میں سے ہر ایک نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خود اپنے ساتھ فحش کرنے کی لگاوٹ کی ہو خواہ عزیز مصر کی عورت کے ساتھ مگر گویہ احتمال اس تفسیر کا موید ہے جو ہم نے بیان کی ہے مگر اس احتمال میں بھی جو دو شقیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ہم پہلی شق کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر الفاظ قرآن کے مناسب ہے۔
ان آیتوں کے بعد کی آیت میں جو عزیز مصر کی عورت کا یہ قول ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس کی ” قالت فذلکن الذی ختننی فیہ “ بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو۔ اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان کی لامت یوسف کے ساتھ عشق رکھنے کی تھی۔ مفسرین نے اس واقعہ کی صورت اس طرح سمجھی ہے کہ ان عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کبھی نہیں دیکھا تھا اور عزیز مصر کی عورت نے ان کو دعوت میں بلایا کہ جب وہ یوسف کے حسن و جمال کو دیکھے گی تو ملامت نہیں کرنے کیں جب انھوں نے دفعۃً حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے حسن و جمال کے سبب ان کو ہوش نہ رہا انھوں نے بجدگوشت یا میوہ کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور کہا کہ یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ فرشتہ ہے۔ اس وقت عزیز مصر کی عورت نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے عشق کی بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو۔
مگر جس طرح کہ ہم نے قرآن مجید کی ایک آیت کی دوسری آیت سے تفسیر بیان کی ہے اس سے صورت واقعہ اس کے برخلاف ہے جو مفسرین نے نکالی ہے بلکہ صورت واقعہ یہ تھی کہ ان عورتوں کی ملامت اس بات پر تھی کہ عزیز کی عورت جو بہت اعلیٰ درجہ کی ہے ایک اپنے غلام پر اس طرح فریفتہ ہوجاوے اور وہ اس پر ملتفت نہ ہو۔ پس اس مجلس دعوت میں جب ان عورتوں نے بھی ہر طرح سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشامد اور ان سے لگاوٹ کی اور آخر کار ان کو دھمکانے اور ڈرانے اور مجرم ٹھہرانے کے لیے اپنے ہاتھ بھی کاٹ لیے اور جب بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) فحش کے مرتکب نہ ہوئے تو ان عورتوں نے کہا کہ یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ ایک بزرگ فرشتہ ہے کہ کسی طرح داؤ میں نہیں آیا۔ اس پر عزیز مصر کی عورت نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کی بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو کہ میں تو اس پر فریفتہ ہوں اور وہ مجھ پر ملتفت نہیں ہوتا اس کے بعد عزیز مصر کی عورت کا یہ کہنا کہ میں نے اس سے لگاوٹ کی اس کو اپنے آپے کی حفاظت سے ڈگمگانے کو مگر وہ نہیں ڈگمگایا اور بچا رہا اور اگر وہ نہ کرے گا جو میں اس کو کہتی ہوں تو وہ ولقد را ودتہ عن نفسہ ولئن لم یفعل ماامرہ لیسجنن ولیکونا من الصاغرین۔
ضرور قید کیا جاویگا اور البتہ ہوگا چھٹ بھیوں میں سے اس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ کہنا کہ دے میرے خدا قید خانہ مجھے زیادہ پیارا ہے اس بات سے جو وہ مجھ سے چاہتی ہیں۔ بالکل موید و مثبت اس واقعہ کا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے پس ان تمام آیتوں کے ملانے سے اس واقعہ کی وہی تصویر سامنے آجاتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ قال رب السجن احب الی مما تدعوننی لیہ ۔
وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ ۚ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۳۰﴾
تفسیر سرسید :
ان آیتوں میں ہے کہ جب شہر کی عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ عزیز مصر کی عورت کے عشق کا چرچا کیا اور کہا کہ وہ علانیہ گمراہی میں ہے اور جب عزیز مصر کی عورت نے ان کا چرچا کرنا سنا تو ان کو دعوت میں بلایا جس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی موجود ہوئے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ چار پانچ عورتیں تھیں ایک عزیز مصر کے شراب پلانے والی کی عورت۔ دوسری اس کی روٹی پکانے والے یعنی داروغہ باورچی خانہ کی عورت۔ تیسری جیل خانہ کی عورت چوتھی داروغہ اصطبل کی عورت۔ پانچویں حاجب یعنی افسر منتظم دربار کی عورت۔
ان آیتوں میں جو الفاظ قابل غور ہیں منجملہ ان کے ایک لفظ بکرھن ہے یعنی جب عزیز مصر کی عورت نے ان عورتوں کا چرچا کرنا سنا تو اس کو بلفظ بکرھن سے تعبیر کیا۔ پس غور کرنے کی بات ہے کہ ان کے اس چرچے کو کیوں اس لفظ سے تعبیر کیا۔ تفسیر کبیر میں اور اس وح اور تفسیروں میں لفظ ’ یمکرھن ‘ کی تفسیر بقولھن کی ہے پھر اس پر بحث کی ہے کہ ان کے قول کو مکر کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا ہے۔ تفسیر کبیر میں اس کی تین وجہیں لکھی ہیں جو صحیح نہیں معلوم ہوتیں۔
اول یہ کہ اس چرچہ سے ان کا مطلب یہ تھا کہ عزیز مصر کی عورت ہم کو بھی یوسف دکھاوے مگر یہ کسی قدر بعید از عقل ہے کہ ان عورتوں نے جو عزیز مصر کے محل میں آنے جانے والی اور اس کے افسروں کی عورتیں تھیں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی وہیں رہتے تھے اور انھوں نے ان کو کبھی نہ دیکھا ہو۔
دوسرے یہ کہ عزیز مصر کی عورت کے عشق کا راز ان کو معلوم تھا مگر اس کے چھپانے کو کہا تھا جب انھوں نے اس کا چرچا کیا تو یہ دغا بازی دھوکا ہوا ۔ تسلیم کرو کہ دغا بازی اور خلاف وعدگی ہوئی رازداری نہ ہوئی مگر اس میں مکر کیا ہوا۔
تیسرے یہ کہ انھوں نے عزیز مصر کی عورت کی پوشیدہ پوشیدہ غیبت کی جو مکر کے مشابہ تھی اس توجیہ کا بودا پن خود اس سے ظاہر ہے اب ہم قرآن مجید ہی سے تلاش کرتے ہیں کہ ان عورتوں نے جو چرچا کیا اس پر مکر کا کیوں اطلاق کیا۔ قرآن مجید کی اور آیتوں سے جن کا ہم ذکر کرینگے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورتیں خود حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عشق میں مبتلا تھیں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی طرف ملتفت کرنا چاہتی تھیں اور ظاہری میں عزیز مصر کی عورت کو یسف کے عشق پر ملامت کرتی تھیں۔ اور اس لیے ان کے اس چرچے اور ملامت کرنے کو ان کے مکر سے تعبیر کیا ہے۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورتیں مصر عزیز مصر کی عورت کے اس عشق بازی میں شریک تھیں اور ایک کو دوسری کا حال معلوم تھا اور اسی سبب سے عزیز مصر کی عورت نے ان کی بات چیت کو مکر سے تعبیر کیا اور بسبب ازوار ہوتے کے یوسف کی دعوت میں ان کو بلایا اور سب نے بلکہ حضرت یوسف کو فحش کے ارتکاب پر مجبور کرنا یا ان کو کسی جرم کے حیلہ میں پھنسانا چاہا تھا کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پہلے جرم کے اتہام سے بری ہوچکے تھے۔ اور وہ مجلس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور وہ عورتیں بلائی گئی تھیں دعوت کی تھی جس میں متعدد قسم کے کھانے تھے اور ان کے کاٹنے کے لیے ہر ایک کو چھری دی گئی تھی۔
حاصل الکلام : نہادعت اولئک النسوۃ اعتدت لکل واحدۃ منھن سکینا اما لا جل اکل الفاکھۃ اولا جل قطع الحم (تفسیر کبیر) واتت (اعظت) کل واحدۃ منھن سکینا ۔ تقطع بھا اللحم لا نھم کانوا لا یاکلون الا ما یقصعون بکا کینھم (تفسیر ابن عباس) ۔
چنانچہ تفسیر کبیر اور نیز تفسیر موسوم ابن عباس میں لکھا ہے کہ وہ عورتیں دعوت میں بلائی گئی تھیں اور پھل کاٹنے یاگوشت کاٹنے کو چھریاں ان کو دی تھیں اور وہ گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھاتی تھے مگر ان عورتوں نے صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جرم میں پھنسانے کے اے خودوانستہ اپنے ہاٹھ کاٹ لیے اور اسی جرم کے اتہام میں ان کو قید خلتہ میں بھیجا۔
اب اس مطلب کو ہم قرآن مجید کی آیتوں سے ثابت کرتے ہیں۔ جب بادشاہ نے خواب کی تعبیروں کو جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دی تھیں سن کر کہا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قید خانہ سے لاؤ تو جو شخص لینے آیا تھا۔ اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ تو پھر جا اپنے مالک کے پاس اور اس سے پوچھ کہ کیا حال ہے۔
فارجع الیم بک فسئلہ مابال النبوۃ اتتی قصعن اینیا مرمن ان ربی بکیدھن علیم ۔
ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے بیشک میرا رب یعنی وہ جس نے میری پرورش کی ہے ان کے مکر کو جانتا ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں اپنے ہاتھ خود مکر کرنے کے لیے کاٹے تھے۔
قال ماخطبکن اذرا ودتن یوسف عن نفسہ قلن حاش للہ ما علمنا علیہ من سوء۔
اس پر بادشاہ نے یا عزیز مصر نے ان سے پوچھا کہ تمہاری کیا حالت تھی جب کہ تم نے لگاوٹ کی یوسف سے اس کو اپنے آپے کی حفاظت سے ڈگمگا دینے کو ان عورتوں نے کہا دہائی خدا کی ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں جانی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح عزیز مصر کی عورت نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے لگاوٹ کی باتیں کی تھیں وہی حال ان عورتوں کا تھا جنہوں نے دانستہ مکر کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔
ان قولہ ذراودتن یوسف عن نفسہ وان کانت صیفۃ الجمع فاگز دمنھا انراحدۃ کقولہ تعالیٰ الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم (والشانی) ان المراد منہ خطاب الجماعۃ ثم ھھنا وجھان (الادل) ان کر نواحدۃ منھن روادت یوسف عن نفسھا (والثانی) ان کل واحدۃ منھن راودت یوسف لاجل امراۃ العزیز۔ تفسیر کبیر
تفسیر کبیر میں بادشاہ کے اس قول کی نسبت ” ذرودتن یوسف عن نفسہ “ اور احتمال لکھے ہیں یک یہ کہ اگرچہ راودتن صیغہ جمع کا ہے لیکن اس سے مراد واحد ہے یعنی وہی عورت عزیزمصر کی۔ مگر یہ احتمال محض غلط ہے اول تو اس لیے کہ صیغہ تبع سے واحد مراد لینے کی کوئی وجہ نہیں دوسرے یہ کہ بادشاہ نے یوسف کے پیغام پر یہ سوال کیا تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے صاف کہا تھا کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے پس انہی عورتوں سے بادشاہ نے ، اذرودتن یوسف عن نفسہ، کہہ کر سوال کیا پس تحقیق معلوم ہوا کہ وہ صیغہ جمع کا ان عورتوں کی نسبت بولا گیا ہے جو تعداد میں چار پانچ تھیں پھر اس سے واحد مراد لینا خلاف واقع اور خلاف حقیقت ہے۔ دوسرا احتمال یہ لکھا ہے کہ اس سے گروہ عورتوں کا مراد ہے خواہ ان میں سے ہر ایک نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خود اپنے ساتھ فحش کرنے کی لگاوٹ کی ہو خواہ عزیز مصر کی عورت کے ساتھ مگر گویہ احتمال اس تفسیر کا موید ہے جو ہم نے بیان کی ہے مگر اس احتمال میں بھی جو دو شقیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ہم پہلی شق کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر الفاظ قرآن کے مناسب ہے۔
ان آیتوں کے بعد کی آیت میں جو عزیز مصر کی عورت کا یہ قول ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس کی ” قالت فذلکن الذی ختننی فیہ “ بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو۔ اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان کی لامت یوسف کے ساتھ عشق رکھنے کی تھی۔ مفسرین نے اس واقعہ کی صورت اس طرح سمجھی ہے کہ ان عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کبھی نہیں دیکھا تھا اور عزیز مصر کی عورت نے ان کو دعوت میں بلایا کہ جب وہ یوسف کے حسن و جمال کو دیکھے گی تو ملامت نہیں کرنے کیں جب انھوں نے دفعۃً حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے حسن و جمال کے سبب ان کو ہوش نہ رہا انھوں نے بجدگوشت یا میوہ کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور کہا کہ یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ فرشتہ ہے۔ اس وقت عزیز مصر کی عورت نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے عشق کی بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو۔
مگر جس طرح کہ ہم نے قرآن مجید کی ایک آیت کی دوسری آیت سے تفسیر بیان کی ہے اس سے صورت واقعہ اس کے برخلاف ہے جو مفسرین نے نکالی ہے بلکہ صورت واقعہ یہ تھی کہ ان عورتوں کی ملامت اس بات پر تھی کہ عزیز کی عورت جو بہت اعلیٰ درجہ کی ہے ایک اپنے غلام پر اس طرح فریفتہ ہوجاوے اور وہ اس پر ملتفت نہ ہو۔ پس اس مجلس دعوت میں جب ان عورتوں نے بھی ہر طرح سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشامد اور ان سے لگاوٹ کی اور آخر کار ان کو دھمکانے اور ڈرانے اور مجرم ٹھہرانے کے لیے اپنے ہاتھ بھی کاٹ لیے اور جب بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) فحش کے مرتکب نہ ہوئے تو ان عورتوں نے کہا کہ یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ ایک بزرگ فرشتہ ہے کہ کسی طرح داؤ میں نہیں آیا۔ اس پر عزیز مصر کی عورت نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کی بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو کہ میں تو اس پر فریفتہ ہوں اور وہ مجھ پر ملتفت نہیں ہوتا اس کے بعد عزیز مصر کی عورت کا یہ کہنا کہ میں نے اس سے لگاوٹ کی اس کو اپنے آپے کی حفاظت سے ڈگمگانے کو مگر وہ نہیں ڈگمگایا اور بچا رہا اور اگر وہ نہ کرے گا جو میں اس کو کہتی ہوں تو وہ ولقد را ودتہ عن نفسہ ولئن لم یفعل ماامرہ لیسجنن ولیکونا من الصاغرین۔
ضرور قید کیا جاویگا اور البتہ ہوگا چھٹ بھیوں میں سے اس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ کہنا کہ دے میرے خدا قید خانہ مجھے زیادہ پیارا ہے اس بات سے جو وہ مجھ سے چاہتی ہیں۔ بالکل موید و مثبت اس واقعہ کا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے پس ان تمام آیتوں کے ملانے سے اس واقعہ کی وہی تصویر سامنے آجاتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ قال رب السجن احب الی مما تدعوننی لیہ ۔