وماابرئ : سورۃ یوسف : آیت 84
وَ تَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰی عَلٰی یُوۡسُفَ وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿۸۴﴾
تفسیر سرسید :
اب تمام سورة میں صرف دو تین مقام قابل غور باقی رہے گئے ہیں ایک یہ ” وابیضت عیناہ من الحزن فھوکظیم “۔ دوسرے یہ کہ ” اذھبوالمقمیصی ھذ فالقوہ علی وجہ ابی یات بصیرا۔ فلما ان جاء البشیر القاہ علی وجھہ فارتدبصیرا “۔ تیسرے یہ کہ ” ولما فصلیت العیرقال ابوھم انی لا جدریح یوسف لولا ان تفندون “ پس اب ہم تینوں مقاموں کی تفسیر بیان کرنی چاہتے ہیں ۔
ابیضت عیناہ ، سے زوال بصارت یعنی اندھا ہوجانا مراد لینا صحیح نہیں ہے غم سے اور زیادہ رونے سے انسان کی آنکھوں میں اس کی بینائی میں ضعف آجاتا ہے اور آنکھوں کے ڈھیلوں میں جو سفیدی ہے اس کی رنگت اصلی سفید رنگ میں اور پررونق نہیں رہتیں بلکہ بےرونق اور اصلی رنگ سے زیادہ سفید ہوجاتی ہیں اور تراوت کی بجائے خشکی آجاتی ہے یہاں تک کہ آنسو نکلتے بھی موقوف ہوجاتے ہیں اور آنکھیں ڈگرڈگر کرنے لگتی ہیں پس یہی حال حضرت یعقوب کی آکھوں کا ہوگیا تھا قرآن مجید کے یہ الفاظ کہ من الحزن فھو کقیم صاف اسی مطلب کو ظاہر کرتے ہیں۔
لیکن یہ حالت دفعۃً بدل جاتی ہے جب کہ وہ غم دور ہوجاوے دل میں طاقت اور دماغ میں قوت آجاتی ہے خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے اور ان سب باتوں سے آنکھوں پر رونق ہوجاتی ہے ضعف بصر جاتا رہتا ہے اور اصلی بصارت پھر آجاتی ہے اسی حالت کی نسبت یا ” بصیرا اور فارتد بصیرا کہا گیا ہے۔ یہ سب امور طبعی ہیں جو انسان پر ایسی حالت میں گزرتے ہیں پس کوئی ضرورت نہیں کہ ہم ان طبعی واقعات کو بیہودہ اور بےسروپا روایتوں کی بنا پر دور ازکار قصے بناویں اور جھوٹے قصوں کو قرآن مجید کی تفسیر میں داخل کرکے کلام الٰہی کے ساتھ بےادبی کریں۔
تفسیر کبیر میں بھی بعض اقوال ایسے لکھے ہیں جو بہت کچھ اس تفسیر سے جو ہم نے بیان کی ہے مناسبت رکھتے ہیں اس مقام پر ان کا نقل کرنا خالی ازلطف نہ ہوگا۔
انہ ماقال یا اسفی علی یوسف غلبہ ایلبکاء وعندغلبۃ البکایکز الماء فی العین نتصیر العین کانھا ابیضت من بیاض ذک المزہ وقولہ ابیضت عیبناہ من الحزن کنایۃ عن غلبۃ ہکاء والدنیل علی صحۃ ھذا القول ان تاثیر الحزن فی غلبۃ بھولا فی حصول العمی فلوحملنا الا بیضاض علی غلبۃ بکاء کان ھذا التعلیرا حسنا ولن حملناہ علی العمی لا یحسن ھذا التعلیل فکان ماذ کرنا اول وھذا التفسیر مع الدلیل رواہ الواحدی فی البسیط عن ابن عباس (رض) عنھما۔ (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ جب حضرت یعقوب نے کہا کہ ہائے افسوس یوسف پر۔ تو ان پر رونے نے غلبہ کیا اور رونے کے وقت آنکھ میں پانی بہت ہوجاتا ہے اور آنکھ ایسی ہوجاتی ہے کہ گویا سپید ہوگئی ہے اس پانی سے۔ اور خدا کا یہ قول کہ یعقوب کی آنکھیں غم سے سپید ہوگئیں رونے کے غلبہ سے کنایہ ہے اور اس قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ غم کا اثر رونے کا غلبہ ہے نہ اندھا ہوجانا پس اگر ہم سپیدی کو غلبہ بکا پر محمول کریں تو یہ تعلیل معقول ہوگی اور اگر اندھے پن پر محمول کریں تو یہ تعلیل موزوں نہ ہوگی۔ اس لیے ہم نے جو ذکر کیا وہی بہتر ہے۔ اور یہ تفسیر باوجود اس دلیل کے حضرت ابن عباس سے روی بھی ہے جیسا کہ واحدی نے بسیط روایت کیا ہے پس اس روایت سے جو حضرت ابن عباس سے بیان ہوتی ہے صاف ظاہر ہے کہ ابیضت عیبناہ سے حضرت یعقوب کا اندھا ہوجانا مراد نہیں ہے۔
وضمنصن قال اماعمی لکنہ ھمار بحیث یدرک ادراکا ضعیف۔ (تفسیر کبیر)
ایک اور قول اسی مقام پر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بعضوں نے کہا ہے کہ وہ اندھے نہیں ہوگئے تھے بلکہ ان کو نظر آتا تھا لیکن کم نظر آتا تھا۔
فارتد بصیرازی رجع بصیرا و عنی الارتداد انقلاب اشی اوحالۃ قد کان علیھا وقولہ فارتد بصیرای صیرہ اللہ بصیرا کما یقال طالت النخلۃ واللہ تعالیٰ اطالھا ونختلو فیہ فقال بعضھم انہ کان قدعمی بالکلیۃ فاللہ تعالیٰ جعنہ بصیرا فی ھذالوقت وقال اخرون بل کان قد ضعف عمرہ من کثرۃ الباء وکثرۃ الاسنوان فلما القوا القمیص وجھرو بشریجیاۃ یوسف (علیہ السلام) عظم فرحہ وانشرح صدرہ وزالت احزنہ فض ذلک فوق بصرہ والنقصان عنہ ۔ (تفسیر کبیر)
اس کے بعد تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” پھر وہ بصیر ہوگئے۔ اور ارتداد کے معنی کسی شے کا اس حالت پر واپس آجانا ہے جو پہلی تھی در خدا کا یہ قول فارتد بصیرا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے ان کو بصیر کردیا جیسا کہ محاورہ میں کہتے ہیں کہ کھجور لمبی ہوگئی اور خدا نے اس کو لمبی کردیا۔ اور اس میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے سو بعضوں نے کہا کہ وہ بالکل اندھے ہوگئے تھے اور اللہ نے ان کو اس وقت بصیر کردیا۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کی نگاہ زیادہ رونے سے اور غم سے ضعیف ہوگئی تھی پس جب ان پر کرتہ ڈالا اور یوسف کی زندگی کی خوشخبری دی تو ان کو بہت خوشی حاصل ہوئی اور ان کا سینہ کھل گیا اور غم جاتا رہا۔ پس ان کی نگاہ ہوگئی اور جو نقصان تھا جاتا رہا۔
اب الاجدریج یوسف، پر غور کرنی باقی ہے۔ یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب کو اس باپ پر کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑیا کھا گیا ہرگز یقین نہیں تھا اور وہ بلاشبہ ان کو زندہ سمجھتے تھے اور ایسے موقع پر ہی خیالات ہوتے ہیں کہ وہ کہیں چلا گیا ہوگا اور اسی نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا ہوگا یا بطور غلام کے بیچ ڈالا ہوگا اور اس زمانہ کی حالت کے موافق یہ اخیر خیال زیادہ قوی ہوگا انہی وجوہات سے ان کو ہمیشہ یوسف کی تلاش رہتی تھی اور ہمیشہ اس کے ملنے کی توقع رکھتے تھے اور ان کی تلاش کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ یہ ایسا امر ہے جو ہمیشہ ہوتا ہے اس زمانہ میں بھی اگر کسی کا لڑکا گم ہوجاتا ہے یا کہیں نکل جاتا ہے تو ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتا ہے اور اس سے ملنے یا اس کے مل جانے کی توقع رکھتا ہے۔
قال یعقوب (علیہ السلام) واغنم من اللہ ما تعلمون ای اعلم من رحمتہ و احسانہ ما لا تعلمون ھوانہ تعالیٰ یاتینی بالفرح من حیث لا احتسب فھوا اشارۃ الی انہ کان یتوقع وصوبہ یوسف الیہ وذکرو السبب ھذا المتوقع امورا احدھم ملک الموت اتاہ فقال الیا ملکوت ھل تبضت روح ابنی یوسف قال لا یا نبی اللہ ثم اشاد الی جانب مصر وقال طلبہ ھھنا ۔ تفسیر کبیر
اس زمانہ میں مصر کی ایسی حالت تھی کہ لڑکے اور لڑکیوں کو پکڑ لیجا کر وہاں بیچ ڈالنا زیادہ قرین قیاس تھا اور کچھ تعجب نہیں ہے کہ حضرت یعقوب کو بھی یہ خیال ہو کہ کسی شخص نے یوسف کو پکڑ لیا ہو اور مصر میں لے جا کر بیچ ڈالا ہو۔ تفسیر کبیر میں ایک روایت لکھی ہے گو اس روایت کا طرز بیان کیسا ہی فضول ہو مگر اس کی فضولیات چھوڑ کر دو نتیجے اس سے نکالے جاسکتے ہیں ایک یہ کہ حضرت یعقوب کو یوسف کے زندہ ہونے کا یقین تھا دوسرے یہ کہ ان کو یوسف کے مصر میں ہونے کا احتمال تھا اور وہ روایت یہ ہے کہ ” حضرت یعقوب نے کہا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی میں خدا کا وہ احسان اور رحمت جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ یہ ہے کہ خدا میرے لیے خوشی لائے گا اور مجھے پہلے سے اس کی کچھ خبر نہ ہوگی پس یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت یعقوب یوسف کے ملنے کی امید رکھتے تھے اور لوگوں نے اس امید کے مختلف وجوہ بیان کئے ہیں ایک یہ کہ ملک الموت ان کے پاس آئے تو ان سے یعقوب نے پوچھا کہ تم نے میرے بیٹے کی روح قبض کرلی انھوں نے کہا اے خدا کے پیغمبر نہیں ۔ پھر ملک الموت نے مصر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر تلاش کیجئے۔
بلاشبہ حضرت یعقوب نے مصر میں بھی تلاش کی ہوگی مگر وہ عزیز مصر کے ہاتھ بیچے گئے تھے اور محلوں میں داخل تھے اور ایک مدت تک قید رہے ان کا پتا نہیں لگ سکتا ہوگا مگر جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی مصر میں گئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی اس زمانہ میں عروج کی حالت میں تھے اور رعایت اور سلوک کہ انھوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا اور پھر اپنے حقیقی بھائی کے آنے کی بھی تاکید کی تھی اور کچھ حالات بھی ان کے سنے ہوں گے تو ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے دل میں ضرور شبہ پیدا ہوا ہوگا کہ کہیں یہ یوسف ہی نہ ہو مگر جس درجہ شاہی پر اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) تھے یہ شبہ پختہ نہ ہوتا ہوگا اور دل سے نکل جاتا ہوگا۔
اس بات کا ثبوت کہ یوسف کے بھائیوں کے دل میں بھی شبہ تھا کہ وہ یوسف ہی نہ ہو خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کیونکہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ ” تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا۔ تو بغیر اس کے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کہیں کہ میں یوسف ہوں ان کے بھائی بول اٹھے کہء انک لانت یوسف یعنی کیا سچ مچ تم یوسف ہو۔ اسی طرح حضرت یعقوب کے بیٹوں کے مصر میں آنے جانے اور حالات سننے سے یوسف کی نسبت مصر میں ہونے بلکہ یوسف کے یوسف ہونے کا شبہ قوی ہوجاتا تھا اس امر کی تقویت کے علاوہ اس پہلی روایت کی موید چند اور ر روایتیں تفسیر کبیر میں موجود ہیں۔
قال السدی لما خبرہ نبو بسیرۃ الملک و کمال حالہ فی اقوالہ و افعال حمع ان یکون ھو یوسف وقال یعبد ان یظاھر فی الکفا مثلہ۔ (تفسیر کبیر)
ایک روایت یہ ہے کہ ” سدی کا قول ہے کہ جب حضرت یعقوب کو ان کے بیٹوں نے عزیز مصر کے صفات اور ان کے اقوال و افعال کے کمال سے مطلع کیا تو ان کو امید ہوئی کہ وہ یوسف ہی ہوں گے اور یہ کہا کہ کافروں میں تو ایسا شخص پیدا نہیں ہوسکتا۔
علم قطعا ان بینامین لا یسرق وسمع ان الملک مااذاہ وما ضربہ نقاب علی شنہ ان ذلک الملک ھو یوسف ۔ (تفسیر کبیر)
ایک یہ کہ ” انھوں قطعان جان لیا کہ بنیامین چوری نہیں کرسکتا اور یہ سنا کہ بادشاہ نے اس کو نہ ستایا نہ مارا پس ان کو گمان غالب ہوا کہ یہ بادشاہ یوسف ہی ہوگا۔
انہ رجع الیٰ ولا دہ ونکم معھم علی سبیل اللطف وھو قولہ یا بنی اذھبو افتحسو من یوسف واخیہ۔ واعلم انہ (علیہ السلام) لما طمع فی وجدنہ یوسف بناء علی الا مارات المذکورۃ قال لینیہ ۔ تحسوا من یوسف۔ (تفسیر کبیر)
ایک یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی طرف مخاطب ہوئے اور ان کے ساتھ مہربانی سے باتیں کیں جیسا کہ خدا نے کہا یا بنی اذھبوا فتحسوا من یوسف واخیہ۔ اور جان تو کہ حضرت یعقوب کو جب ان نشانیوں کی امید بندھی تو انھوں نے بیٹوں سے کہا کہ یوسف کا پتہ لگاؤ۔
پس جب کہ حضرت یعقوب کا شبہ اس قدر قوی ہوگیا اور جو مہربانی یوسف نے اپنے بھائی کے ساتھ کی تھی اس کو سن کر ان کو گمان غالب ہوگیا تھا کہ وہ بنیامین کا بھائی یوسف ہے تو ان کو یقین کامل ہوا کہ اب کے جو قافلہ واپس آویگا تو ٹھیک خبر یوسف کی لاویگا جب کہ تیسری دفعہ یہ لوگ مصر میں گئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے سب کے سامنے کہہ دیا تھا کہ میں یوسف ہوں اور حضرت یعقوب کہ معہ تمام کنبہ کے بلانے کے لیے کہا تھا اور ان کے لیے بہت سا سامان مہیا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے لیے کچھ عرصہ لگا ہوگا اس عرصہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مصر میں موجود ہونے کی خبرافواہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پہنچ گئی ہوگی اس افواہ پر ان کو یقین ہوا اور انھوں نے فرمایا کہ ” انی لاجد ریح یوسف لو لا ان تفنذون “ یعنی میں پاتا ہوں خبر یوسف کی اگر تم مجھ کو بہکا ہوا نہ کہنے لگو۔
ہم کو نہیں معلوم ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ریح کا لفظ بمعنی لو کے آیا ہوا اس مقام پر ریح کا لفظ یوسف کی طرف مضاف ہے تو اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اور کہیں بھی ریح کا لفظ کسی شخص یا اشخاص کی نسبت مضاف ہو کر آیا ہے یا نہیں اگر آیا ہے تو اس کے کیا معنی ہیں تلاش کے بعد ہم کو یہ آیت ملی واطیعواللہ ورسولہ وکاتنازعو انقفثلوا وتذھب ریحکم (سورة انفال ) یعنی جاتی رہیگی ہوا تمہاری یعنی قوت و اتفاق کی جو خبر مشہور ہے اس کی شہرت جاتی رہیگی۔
علاوہ اس کے خود ریاح کو بشر یعنی خبر دینے والی خدا نے کہا ہے ” ھوالذی یرسل مالریاح بشرابین یدی رحمتہ “ (سورة اعراف ) اور ریاح کو مبشرات بھی کہا ہے یعنی خبر دینے والیاں ” ومان ایاتہ ان یرسل الراح مبشرات “ (سورة لقمان ) پس ریح یوسف سے صاف مراد اس افواہی خبر سے ہے جس سے یوسف کا ہونا حضرت یعقوب نے سنا تھا۔
مفسرین کے دل میں یہ کہانی بسی ہوئی تھی کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا ہے تو حضرت جبرائیل نے بہشت سے ایک قمیص لاکر حضرت ابراہیم کو پہنا دیا تھا جس کے سبب سے وہ آگ میں نہیں جلے۔ وہ قمیص حضرت اسحق اور ان کے بعد حضرت یعقوب پاس آیا حضرت یعقوب نے اس کو بطور تعویذ کے چاندی میں مندھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے گلے میں لٹکا دیا۔ جب ان کو اندھے کنوئیں میں ڈالا ہے تو وہ تعویذ ان کے گلے میں رہ گیا تھا۔ وہی قمیص انھوں نے بھیجا تھا جب وہ نکلا تو ہوا لگ کر تمام دنیا میں بہشت کی قمیص کی خوشبو پھیل گئی اوروں نے تو نہ جانا کہ کا ہے کی بو ہے مگر حضرت یعقوب نے پو کو پہچان لیا اور جان گئے کہ بہشت کی یا یوسف کی قمیص کی ہے پس اس خیال پر قرآن مجید میں بھی ریح کے معنی بو قرار دیدیئے ۔ یہ قصہ تفسیر کبیر میں بھی مندرج ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اس پر یقین نہیں کرسکتے۔ جو اپنا کرتا کہ انھوں نے بھیجا تھا بلاشبہ وہ ایک شاہانہ کرتا ہوگا اور صرف بطور نشانی کے بھیجا تھا کوئی اور عجیب بات اس کرتے میں نہ تھی بجز اس کے کہ اس سے حضرت یعقوب کے پورا یقین اور ان کے دل کو تسلی ہوجاوے کہ یوسف زندہ ہے اور ایسے عالی درجہ پر خدا نے اس کو پہنچا دیا ہے۔
وَ تَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰی عَلٰی یُوۡسُفَ وَ ابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ فَہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿۸۴﴾
تفسیر سرسید :
اب تمام سورة میں صرف دو تین مقام قابل غور باقی رہے گئے ہیں ایک یہ ” وابیضت عیناہ من الحزن فھوکظیم “۔ دوسرے یہ کہ ” اذھبوالمقمیصی ھذ فالقوہ علی وجہ ابی یات بصیرا۔ فلما ان جاء البشیر القاہ علی وجھہ فارتدبصیرا “۔ تیسرے یہ کہ ” ولما فصلیت العیرقال ابوھم انی لا جدریح یوسف لولا ان تفندون “ پس اب ہم تینوں مقاموں کی تفسیر بیان کرنی چاہتے ہیں ۔
ابیضت عیناہ ، سے زوال بصارت یعنی اندھا ہوجانا مراد لینا صحیح نہیں ہے غم سے اور زیادہ رونے سے انسان کی آنکھوں میں اس کی بینائی میں ضعف آجاتا ہے اور آنکھوں کے ڈھیلوں میں جو سفیدی ہے اس کی رنگت اصلی سفید رنگ میں اور پررونق نہیں رہتیں بلکہ بےرونق اور اصلی رنگ سے زیادہ سفید ہوجاتی ہیں اور تراوت کی بجائے خشکی آجاتی ہے یہاں تک کہ آنسو نکلتے بھی موقوف ہوجاتے ہیں اور آنکھیں ڈگرڈگر کرنے لگتی ہیں پس یہی حال حضرت یعقوب کی آکھوں کا ہوگیا تھا قرآن مجید کے یہ الفاظ کہ من الحزن فھو کقیم صاف اسی مطلب کو ظاہر کرتے ہیں۔
لیکن یہ حالت دفعۃً بدل جاتی ہے جب کہ وہ غم دور ہوجاوے دل میں طاقت اور دماغ میں قوت آجاتی ہے خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے اور ان سب باتوں سے آنکھوں پر رونق ہوجاتی ہے ضعف بصر جاتا رہتا ہے اور اصلی بصارت پھر آجاتی ہے اسی حالت کی نسبت یا ” بصیرا اور فارتد بصیرا کہا گیا ہے۔ یہ سب امور طبعی ہیں جو انسان پر ایسی حالت میں گزرتے ہیں پس کوئی ضرورت نہیں کہ ہم ان طبعی واقعات کو بیہودہ اور بےسروپا روایتوں کی بنا پر دور ازکار قصے بناویں اور جھوٹے قصوں کو قرآن مجید کی تفسیر میں داخل کرکے کلام الٰہی کے ساتھ بےادبی کریں۔
تفسیر کبیر میں بھی بعض اقوال ایسے لکھے ہیں جو بہت کچھ اس تفسیر سے جو ہم نے بیان کی ہے مناسبت رکھتے ہیں اس مقام پر ان کا نقل کرنا خالی ازلطف نہ ہوگا۔
انہ ماقال یا اسفی علی یوسف غلبہ ایلبکاء وعندغلبۃ البکایکز الماء فی العین نتصیر العین کانھا ابیضت من بیاض ذک المزہ وقولہ ابیضت عیبناہ من الحزن کنایۃ عن غلبۃ ہکاء والدنیل علی صحۃ ھذا القول ان تاثیر الحزن فی غلبۃ بھولا فی حصول العمی فلوحملنا الا بیضاض علی غلبۃ بکاء کان ھذا التعلیرا حسنا ولن حملناہ علی العمی لا یحسن ھذا التعلیل فکان ماذ کرنا اول وھذا التفسیر مع الدلیل رواہ الواحدی فی البسیط عن ابن عباس (رض) عنھما۔ (تفسیر کبیر)
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ جب حضرت یعقوب نے کہا کہ ہائے افسوس یوسف پر۔ تو ان پر رونے نے غلبہ کیا اور رونے کے وقت آنکھ میں پانی بہت ہوجاتا ہے اور آنکھ ایسی ہوجاتی ہے کہ گویا سپید ہوگئی ہے اس پانی سے۔ اور خدا کا یہ قول کہ یعقوب کی آنکھیں غم سے سپید ہوگئیں رونے کے غلبہ سے کنایہ ہے اور اس قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ غم کا اثر رونے کا غلبہ ہے نہ اندھا ہوجانا پس اگر ہم سپیدی کو غلبہ بکا پر محمول کریں تو یہ تعلیل معقول ہوگی اور اگر اندھے پن پر محمول کریں تو یہ تعلیل موزوں نہ ہوگی۔ اس لیے ہم نے جو ذکر کیا وہی بہتر ہے۔ اور یہ تفسیر باوجود اس دلیل کے حضرت ابن عباس سے روی بھی ہے جیسا کہ واحدی نے بسیط روایت کیا ہے پس اس روایت سے جو حضرت ابن عباس سے بیان ہوتی ہے صاف ظاہر ہے کہ ابیضت عیبناہ سے حضرت یعقوب کا اندھا ہوجانا مراد نہیں ہے۔
وضمنصن قال اماعمی لکنہ ھمار بحیث یدرک ادراکا ضعیف۔ (تفسیر کبیر)
ایک اور قول اسی مقام پر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بعضوں نے کہا ہے کہ وہ اندھے نہیں ہوگئے تھے بلکہ ان کو نظر آتا تھا لیکن کم نظر آتا تھا۔
فارتد بصیرازی رجع بصیرا و عنی الارتداد انقلاب اشی اوحالۃ قد کان علیھا وقولہ فارتد بصیرای صیرہ اللہ بصیرا کما یقال طالت النخلۃ واللہ تعالیٰ اطالھا ونختلو فیہ فقال بعضھم انہ کان قدعمی بالکلیۃ فاللہ تعالیٰ جعنہ بصیرا فی ھذالوقت وقال اخرون بل کان قد ضعف عمرہ من کثرۃ الباء وکثرۃ الاسنوان فلما القوا القمیص وجھرو بشریجیاۃ یوسف (علیہ السلام) عظم فرحہ وانشرح صدرہ وزالت احزنہ فض ذلک فوق بصرہ والنقصان عنہ ۔ (تفسیر کبیر)
اس کے بعد تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” پھر وہ بصیر ہوگئے۔ اور ارتداد کے معنی کسی شے کا اس حالت پر واپس آجانا ہے جو پہلی تھی در خدا کا یہ قول فارتد بصیرا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے ان کو بصیر کردیا جیسا کہ محاورہ میں کہتے ہیں کہ کھجور لمبی ہوگئی اور خدا نے اس کو لمبی کردیا۔ اور اس میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے سو بعضوں نے کہا کہ وہ بالکل اندھے ہوگئے تھے اور اللہ نے ان کو اس وقت بصیر کردیا۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کی نگاہ زیادہ رونے سے اور غم سے ضعیف ہوگئی تھی پس جب ان پر کرتہ ڈالا اور یوسف کی زندگی کی خوشخبری دی تو ان کو بہت خوشی حاصل ہوئی اور ان کا سینہ کھل گیا اور غم جاتا رہا۔ پس ان کی نگاہ ہوگئی اور جو نقصان تھا جاتا رہا۔
اب الاجدریج یوسف، پر غور کرنی باقی ہے۔ یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب کو اس باپ پر کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑیا کھا گیا ہرگز یقین نہیں تھا اور وہ بلاشبہ ان کو زندہ سمجھتے تھے اور ایسے موقع پر ہی خیالات ہوتے ہیں کہ وہ کہیں چلا گیا ہوگا اور اسی نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا ہوگا یا بطور غلام کے بیچ ڈالا ہوگا اور اس زمانہ کی حالت کے موافق یہ اخیر خیال زیادہ قوی ہوگا انہی وجوہات سے ان کو ہمیشہ یوسف کی تلاش رہتی تھی اور ہمیشہ اس کے ملنے کی توقع رکھتے تھے اور ان کی تلاش کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ یہ ایسا امر ہے جو ہمیشہ ہوتا ہے اس زمانہ میں بھی اگر کسی کا لڑکا گم ہوجاتا ہے یا کہیں نکل جاتا ہے تو ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتا ہے اور اس سے ملنے یا اس کے مل جانے کی توقع رکھتا ہے۔
قال یعقوب (علیہ السلام) واغنم من اللہ ما تعلمون ای اعلم من رحمتہ و احسانہ ما لا تعلمون ھوانہ تعالیٰ یاتینی بالفرح من حیث لا احتسب فھوا اشارۃ الی انہ کان یتوقع وصوبہ یوسف الیہ وذکرو السبب ھذا المتوقع امورا احدھم ملک الموت اتاہ فقال الیا ملکوت ھل تبضت روح ابنی یوسف قال لا یا نبی اللہ ثم اشاد الی جانب مصر وقال طلبہ ھھنا ۔ تفسیر کبیر
اس زمانہ میں مصر کی ایسی حالت تھی کہ لڑکے اور لڑکیوں کو پکڑ لیجا کر وہاں بیچ ڈالنا زیادہ قرین قیاس تھا اور کچھ تعجب نہیں ہے کہ حضرت یعقوب کو بھی یہ خیال ہو کہ کسی شخص نے یوسف کو پکڑ لیا ہو اور مصر میں لے جا کر بیچ ڈالا ہو۔ تفسیر کبیر میں ایک روایت لکھی ہے گو اس روایت کا طرز بیان کیسا ہی فضول ہو مگر اس کی فضولیات چھوڑ کر دو نتیجے اس سے نکالے جاسکتے ہیں ایک یہ کہ حضرت یعقوب کو یوسف کے زندہ ہونے کا یقین تھا دوسرے یہ کہ ان کو یوسف کے مصر میں ہونے کا احتمال تھا اور وہ روایت یہ ہے کہ ” حضرت یعقوب نے کہا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی میں خدا کا وہ احسان اور رحمت جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ یہ ہے کہ خدا میرے لیے خوشی لائے گا اور مجھے پہلے سے اس کی کچھ خبر نہ ہوگی پس یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت یعقوب یوسف کے ملنے کی امید رکھتے تھے اور لوگوں نے اس امید کے مختلف وجوہ بیان کئے ہیں ایک یہ کہ ملک الموت ان کے پاس آئے تو ان سے یعقوب نے پوچھا کہ تم نے میرے بیٹے کی روح قبض کرلی انھوں نے کہا اے خدا کے پیغمبر نہیں ۔ پھر ملک الموت نے مصر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر تلاش کیجئے۔
بلاشبہ حضرت یعقوب نے مصر میں بھی تلاش کی ہوگی مگر وہ عزیز مصر کے ہاتھ بیچے گئے تھے اور محلوں میں داخل تھے اور ایک مدت تک قید رہے ان کا پتا نہیں لگ سکتا ہوگا مگر جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی مصر میں گئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی اس زمانہ میں عروج کی حالت میں تھے اور رعایت اور سلوک کہ انھوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا اور پھر اپنے حقیقی بھائی کے آنے کی بھی تاکید کی تھی اور کچھ حالات بھی ان کے سنے ہوں گے تو ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے دل میں ضرور شبہ پیدا ہوا ہوگا کہ کہیں یہ یوسف ہی نہ ہو مگر جس درجہ شاہی پر اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) تھے یہ شبہ پختہ نہ ہوتا ہوگا اور دل سے نکل جاتا ہوگا۔
اس بات کا ثبوت کہ یوسف کے بھائیوں کے دل میں بھی شبہ تھا کہ وہ یوسف ہی نہ ہو خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کیونکہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ ” تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا۔ تو بغیر اس کے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کہیں کہ میں یوسف ہوں ان کے بھائی بول اٹھے کہء انک لانت یوسف یعنی کیا سچ مچ تم یوسف ہو۔ اسی طرح حضرت یعقوب کے بیٹوں کے مصر میں آنے جانے اور حالات سننے سے یوسف کی نسبت مصر میں ہونے بلکہ یوسف کے یوسف ہونے کا شبہ قوی ہوجاتا تھا اس امر کی تقویت کے علاوہ اس پہلی روایت کی موید چند اور ر روایتیں تفسیر کبیر میں موجود ہیں۔
قال السدی لما خبرہ نبو بسیرۃ الملک و کمال حالہ فی اقوالہ و افعال حمع ان یکون ھو یوسف وقال یعبد ان یظاھر فی الکفا مثلہ۔ (تفسیر کبیر)
ایک روایت یہ ہے کہ ” سدی کا قول ہے کہ جب حضرت یعقوب کو ان کے بیٹوں نے عزیز مصر کے صفات اور ان کے اقوال و افعال کے کمال سے مطلع کیا تو ان کو امید ہوئی کہ وہ یوسف ہی ہوں گے اور یہ کہا کہ کافروں میں تو ایسا شخص پیدا نہیں ہوسکتا۔
علم قطعا ان بینامین لا یسرق وسمع ان الملک مااذاہ وما ضربہ نقاب علی شنہ ان ذلک الملک ھو یوسف ۔ (تفسیر کبیر)
ایک یہ کہ ” انھوں قطعان جان لیا کہ بنیامین چوری نہیں کرسکتا اور یہ سنا کہ بادشاہ نے اس کو نہ ستایا نہ مارا پس ان کو گمان غالب ہوا کہ یہ بادشاہ یوسف ہی ہوگا۔
انہ رجع الیٰ ولا دہ ونکم معھم علی سبیل اللطف وھو قولہ یا بنی اذھبو افتحسو من یوسف واخیہ۔ واعلم انہ (علیہ السلام) لما طمع فی وجدنہ یوسف بناء علی الا مارات المذکورۃ قال لینیہ ۔ تحسوا من یوسف۔ (تفسیر کبیر)
ایک یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کی طرف مخاطب ہوئے اور ان کے ساتھ مہربانی سے باتیں کیں جیسا کہ خدا نے کہا یا بنی اذھبوا فتحسوا من یوسف واخیہ۔ اور جان تو کہ حضرت یعقوب کو جب ان نشانیوں کی امید بندھی تو انھوں نے بیٹوں سے کہا کہ یوسف کا پتہ لگاؤ۔
پس جب کہ حضرت یعقوب کا شبہ اس قدر قوی ہوگیا اور جو مہربانی یوسف نے اپنے بھائی کے ساتھ کی تھی اس کو سن کر ان کو گمان غالب ہوگیا تھا کہ وہ بنیامین کا بھائی یوسف ہے تو ان کو یقین کامل ہوا کہ اب کے جو قافلہ واپس آویگا تو ٹھیک خبر یوسف کی لاویگا جب کہ تیسری دفعہ یہ لوگ مصر میں گئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے سب کے سامنے کہہ دیا تھا کہ میں یوسف ہوں اور حضرت یعقوب کہ معہ تمام کنبہ کے بلانے کے لیے کہا تھا اور ان کے لیے بہت سا سامان مہیا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے لیے کچھ عرصہ لگا ہوگا اس عرصہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مصر میں موجود ہونے کی خبرافواہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پہنچ گئی ہوگی اس افواہ پر ان کو یقین ہوا اور انھوں نے فرمایا کہ ” انی لاجد ریح یوسف لو لا ان تفنذون “ یعنی میں پاتا ہوں خبر یوسف کی اگر تم مجھ کو بہکا ہوا نہ کہنے لگو۔
ہم کو نہیں معلوم ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ریح کا لفظ بمعنی لو کے آیا ہوا اس مقام پر ریح کا لفظ یوسف کی طرف مضاف ہے تو اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اور کہیں بھی ریح کا لفظ کسی شخص یا اشخاص کی نسبت مضاف ہو کر آیا ہے یا نہیں اگر آیا ہے تو اس کے کیا معنی ہیں تلاش کے بعد ہم کو یہ آیت ملی واطیعواللہ ورسولہ وکاتنازعو انقفثلوا وتذھب ریحکم (سورة انفال ) یعنی جاتی رہیگی ہوا تمہاری یعنی قوت و اتفاق کی جو خبر مشہور ہے اس کی شہرت جاتی رہیگی۔
علاوہ اس کے خود ریاح کو بشر یعنی خبر دینے والی خدا نے کہا ہے ” ھوالذی یرسل مالریاح بشرابین یدی رحمتہ “ (سورة اعراف ) اور ریاح کو مبشرات بھی کہا ہے یعنی خبر دینے والیاں ” ومان ایاتہ ان یرسل الراح مبشرات “ (سورة لقمان ) پس ریح یوسف سے صاف مراد اس افواہی خبر سے ہے جس سے یوسف کا ہونا حضرت یعقوب نے سنا تھا۔
مفسرین کے دل میں یہ کہانی بسی ہوئی تھی کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا ہے تو حضرت جبرائیل نے بہشت سے ایک قمیص لاکر حضرت ابراہیم کو پہنا دیا تھا جس کے سبب سے وہ آگ میں نہیں جلے۔ وہ قمیص حضرت اسحق اور ان کے بعد حضرت یعقوب پاس آیا حضرت یعقوب نے اس کو بطور تعویذ کے چاندی میں مندھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے گلے میں لٹکا دیا۔ جب ان کو اندھے کنوئیں میں ڈالا ہے تو وہ تعویذ ان کے گلے میں رہ گیا تھا۔ وہی قمیص انھوں نے بھیجا تھا جب وہ نکلا تو ہوا لگ کر تمام دنیا میں بہشت کی قمیص کی خوشبو پھیل گئی اوروں نے تو نہ جانا کہ کا ہے کی بو ہے مگر حضرت یعقوب نے پو کو پہچان لیا اور جان گئے کہ بہشت کی یا یوسف کی قمیص کی ہے پس اس خیال پر قرآن مجید میں بھی ریح کے معنی بو قرار دیدیئے ۔ یہ قصہ تفسیر کبیر میں بھی مندرج ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اس پر یقین نہیں کرسکتے۔ جو اپنا کرتا کہ انھوں نے بھیجا تھا بلاشبہ وہ ایک شاہانہ کرتا ہوگا اور صرف بطور نشانی کے بھیجا تھا کوئی اور عجیب بات اس کرتے میں نہ تھی بجز اس کے کہ اس سے حضرت یعقوب کے پورا یقین اور ان کے دل کو تسلی ہوجاوے کہ یوسف زندہ ہے اور ایسے عالی درجہ پر خدا نے اس کو پہنچا دیا ہے۔