ربما : سورۃ الحجر : آیت 16
وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾
تفسیر سرسید :
( فی السماء بروجا) بروج صیغہ جمع کا ہے اور برج اس کا واحد ہے برج کے معنی اس شے کے ہیں جو ظاہر اور اپنے ہم مثل چیزوں سے ممتاز ہو۔ عمارت کا وہ حصہ جو ایک خاص صورت پر بنایا جاتا ہے گو وہ جزو اس عمارت کا ہوتا ہے مگر عمارت کے اور جزوں سے ممتاز اور نمایاں ہوتا ہے اس کو برج کہتے ہیں۔
اہل ہیئت نے جب ستاروں پر غور کی اور ان کو دیکھا کہ کچھ ستارے ایسی خرح پر متصل واقع ہوئے ہیں کہ باوجودیکہ وہ آوروں سے بڑے اور اوروں سے کچھ زیادہ روشن نہیں ہیں مگر ایک خاص طرح پر واقع ہونے سے وہ اور سب سے علیحدہ دکھائی دیتے ہیں اور نمایاں ہیں۔ پھر ان کے نمایاں ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ انھوں نے دیکھا کہ سورج دو لاپی چال پر چلتا ہوا نہیں معلوم ہوتا بلکہ حمائلی طور پر چلتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہ اس کا چلنا انھیں ستاروں کے نیچے نیچے معلوم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ستارے اور ستاروں سے زیادہ ممتاز و نمایاں ہوگئے۔
اس کے بعد اہل ہیئت نے دیکھا کہ اس طرح پر اور ایسے موقع سے جو اوروں سے ممتاز ہوں متعدد مجھے ستاروں کے واقع ہیں مگر ان میں بارہ مجمعوں کو اس طرح پر پایا کہ وہ ایسی ترتیب سے واقع ہیں کہ اگر ان سب پر ایک دائرہ فرض کیا جاوے تو کرہ پر دائرہ عظیمہ ہوگا ۔ پھر ان کو سورج بھی اس طرح پر چلتا ہوا دکھائی دیا اور اسی طرح پر سورج کے چلنے سے اختلاف فصول ان کو متحقق ہوا۔ پس انھوں نے ان ستاروں کے ایک ایک مجمعے کے لیے قرار دیا اور ہر حصہ کا نام برج رکھا کیونکہ اپنے ستاروں کے خاص مجمع سے وہ علیحدہ ممتاز اور نمایاں تھا۔
اس کے بعد اہل ہیئت نے چاہا کہ ہر ایک برج کے جدے جدے نام رکھے جاویں تاکہ اس نام سے اس حضر اور ستاروں کے مجمع کو بتاسکیں انھوں نے خیال کیا کہ اگر ان ستاروں کے مجمع میں سے جو ستارے کناروں پر واقع ہیں اگر ان کو خطوط سے ملا ہوا فرض کریں تو کیا صورت پیدا ہوتی ہے اس طرح خیال کرنے سے کسی کی صورت انسان کی بن گئی کسی کی کسی جانور کی وغیرہ وغیرہ اس لیے انہی ناموں سے انھوں نے اس حصے کو اور اس مجمع ستاروں کو موسوم کیا اور اس کے یہ نام قرار دیئے۔
حمل۔ ثور۔ جوز۔ سرطان۔ اسد۔ سنبلہ۔ میزان ۔ عقرب ۔ قوس۔ جذی ۔ دلو۔ حوت
غالباً یہ تفتیش اولاً مصریوں نے کی ہوگی جن کا آسمان ہمیشہ ابرو وغیرہ سے صاف رہتا تھا اور ہمیشہ ان کو ستاروں کے دیکھنے کا اور ان کو پہچاننے کا بخوبی موقع ملتا تھا مگر یہ نام اور یہ تقسیم تمام قوموں میں اور بہت قدیم زمانہ کے عرب جاہلیت میں عام ہوگئے تھے اور آسمان کے اس حصہ کو برج سے اور اس کے کل حصوں کو جو تعداد میں بارہ تھے بروج سے نامزد کرتے تھے اس کی نسبت خدا نے فرمایا ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزینھا للنا ظرین۔ مفسرین نے بروجا کی تفسیر قصو و اسے کی ہے بلاشبہ یہ ان کا قصور ہے خدا نے نو اسی چیز کو بروج کہا ہے جس کو اہل عرب بکر، تام قومیں بروج سمجھتی تھیں۔ اور نہایت نادانی ہے اگر ان بروج کی تفسیر میں سورة نساء کی یہ آیت پیش کی جاوے کہ۔ این ماتکونوایدرککم الموت ولوکنی برج مشیدۃ۔
( وحفظنا ھا من کل شیطان رجیم) اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم نے اس کو یعنی آسمان کو یا ان کو یعنی برجوں کو محفوظ رکھا شیطان پھٹکارے گئے سے۔ انا زینا السماء الدنیا بزینۃ الککب وحنفا من کل شیطان مارد (صافات۔ )
اور سورة صافات میں اسی کی مانند ایک آیت ہے جس کے معنی ہیں کہ ۔ ہم نے خوشنما کیا دنیا کے آسمان کو ستاروں کی خوشنمائی سے اور محفوظ کیا ہر شیطان سرکش سے۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے حفظا کو جو سورة صافات میں ہے۔ مفعول لاہ قرار دیا ہے زینا کا اور اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ واسطے حفاظت کے ہر شیطان سرکش سے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ ستاروں سے آسمان کو محفوظ کیا ہے۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے اور ابن عباس کے نام سے جو تفسیر مشہور ہے اس میں حفظا کی تفسیر کی ہے کہ ” حفظت بالنجوم “ یعنی میں نے آسمان کی حفاظت کی ستاروں سے۔ اس تفسیر سے بھی حفظا مفعول لہ پایا جاتا ہے یہ تفسیر بھی صحیح نہیں ہے حفظا کہ پہلے واو عاطفہ ہے اور عطف جملہ کا جملہ پر ہے مگر باجود موجود ہونے واو کے حفظا کو مفعول لہ قرار دینا در حالیکہ اس کے ماقبل کوئی مفعول لہ جس پر اس کا عطف ہوسکے نہیں ہے۔ صحیح نہیں ہوسکتا پس صاف بات ہے کہ یہ جملہ علیحدہ ہے اور بقرینہ علیحدہ ہونے جملہ کے حفظا مفعول ہے فعل محذوف حفظنا کا۔ پس شاہ ولی اللہ صاحب نے جو قاری ترجمہ کیا ہے وہ صحیح ہے کہ ” ونگادواشتیم از ہر شیطان سرکش “ مگر انھوں نے اس کے مفعول کو ظاہر نہیں کیا کہ ” کر انگاہ واشتیم ۔ پس اگر اس کا مفعول بتادیا جاوے تو مطلب صاف ہوجاتا ہے۔ یعنی دنگا دواشتیم آسمان رایا کواکب را۔ مگر جب ہم قرآن مجید کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کریں تو صاف یہ تفسیر ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورة حجر کی آیت میں صاف فرمایا ہے کہ ” وحفظنا ھا “ پس سورة صافات میں جو الفاظ حفظا آنے ہیں ان کی تفسیر اسی کی مطابق یہ ہے کہ وحفظنا ھا حفظا من کل شیطان مارد۔ یعنی ہم نے آسمان یا ستاروں کو ہر طرح کی حفاظت میں شیطان سرکش سے محفوظ رکھا ہے۔
سورة ملک میں جو خدا نے یہ فرمایا ہے کہ ” وزینا السماء الدنیا بمصابیح وجعلنا ھاء جو ما للشیاطین “ رجوما کے معنی مارنے یا پتھر مارنے کے اور شیاطین سے جن یا اور کوئی وجود غیر مرئی سمجھنا رجماً با لغیب بات کہنی ہے صاف بات یہ ہے کہ شیاطین سے شیاطین الانس مراد اور رجوما سے ان شیاطین کا رجما بالغیب یعنی ان کی اٹکل بچو باتیں بتانا مراد ہے چنانچہ مفسرین نے بھی کہا ہے کہ شیاطین سے مراد شیاطین الانس ہیں جو کہتے تھے کہ ہم کو آسمانی چیزیں مل جاتی ہیں اور ستاروں کے حساب سے ان کو معدد نحس ٹھہرا کر پیشین گوئی کرتے تھے۔ تفسیر کبیر میں بھی اسی کے مطابق ایک رجوما للشیاطین ای انا جعلنا ھا ظنونا ورجوما للغیب لشیاطین الانس وھم الاحکامیون من المنجمین۔ تفسیر کبیر متعلق سورة الملک صفحہ
قول نقل کیا ہے کہ ہم نے آسمان کے ستاروں کو ایک ظن اور غیب کی اٹکل پچو بات کہنے کو آدمیوں کے شیطانوں کے لیے بنایا ہے اور وہ لوگ ہیں جو نجوم سے احکام بتاتے ہیں۔
پس خدا تعالیٰ کے اس کلام ” وحفظناھالمن کل شیطان رجیم وحفظا من شیطان مارد “ کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آسمان کے برجوں کو یا آسمان کے ستاروں کو شیاطین الانس سے محفوظ رکھا ہے اور اسی لیے وہ ان سے کوئی سچی یا صحیح پیشین گوئی حاصل نہیں کرسکتے۔ بجز ظن اور رجما الغیب کے۔
لا یسمعون الی الملاء الا علی وقذفون من کل جانب دحوراولھم عذاب واھب الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شہاب ثاقب۔ (صافات۔ )
یہ اعتقاد جو کفار عرب کا تھا کہ جن آسمانوں پر جاکر ملاء اعلے کی باتیں سن آتے ہیں اور کاہنوں کو خبر کردیتے ہیں اس کی نفی خدا تعالیٰ نے سورة صافات میں فرمائی ہے جہاں کہا ہے نہیں سن سکتے ہیں ملاء اعلیٰ کو اور ڈالا جاتا ہے ان پر شہاب ہر طرف سے مردود ہونے کو مگر جس نے اچک لیا اچک لینا اس کے پیچھے پڑتا ہے شہاب روشن۔
اور اس سورة میں فرمایا ہے الا من استرق السمع فاتبعہ شہاب مبین یعنی ہم نے محفوظ کیا ہے آسمان کے برجوں کے ہر ایک شیطان رحیم سے مگر جو چوایسوے سننے کو پھر پیچھے پڑتا ہے اس کے شہاب روشن۔ اس آیت کے مطلب میں اور سورة صفات کی آیت کے مطلب میں کچھ فرق نہیں ہے سورة صافات میں آیا ہے خطف نغطفۃ یعنی اچک لیا اچک لینا اور یہ نہیں بتایا کہ کیا اچکا اس سے معمع کا اچک لینا تو نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس کی نفی کی گئی ہے نہایت شدت سے سمع کا سین اور میم کو مشددکرکے پس کسی لورا امر کا اچک لینا سوائے وسمع کے مراد ہے۔
مگر سورة حجر میں استراق سمع بیان کیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس جگہ لفظ سمع کا کفار کے خیال کی مناسبت سے بولا گیا ہے نہ حقیقی معنوں میں اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ مثلاً لوگ کسی کی نسبت کہیں کہ فلاں شخص بادشاہ کے دربار کی باتیں سن سن کر لوگوں کو بتادیا کرتا ہے اس کے جواب میں کہا جاوے کہ نہیں وہ بادشاہ کے دربار تک کب پہنچ سکتا ہے یوں ہی ادھر ادھر سے کوئی بات اڑا لیتا ہے یا سن لیتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص درحقیقت دربار کی باتیں سن لیتا ہے اسی طرح ان دونوں آیتوں میں الفاظ خطف الخطفۃ اور استرق السمع کے واقع ہوئے ہیں جو کسی طرح واقعی سننے پر دلالت نہیں کرتے خصوصاً ایسی حالت میں کہ سمع سے بتاکید نفی آئی ہے۔ بات یہ ہے کہ کفار پیشین گوئی کرنے کے دو حیلے کرتے تھے ایک یہ کہ جن ملاء اعلیٰ کی باتوں کو سن کر ان کی خبر کردیتے ہیں دوسرے ستاروں کی حرکت اور ہبوط و عروج اور منازل بروج اور کواکب کے سعد ونحس ہونے سے احکام دیتے تھے وہ سب غلط اور جھوٹ تھے مگر بعض صحیح بھی ہوتے تھے مثلاً کسوف و خسوف کی پیشین گوئی یا کواکب کے افتران اور ہبوط و عروج کی پیشین گوئی اسی امر کو جو درحقیقت ایک حسابی امر مطابق علم ہئیت کے ہے خدا تعالیٰ نے دو جگہ ایک جگہ بلفظ استرق السمع اور دوسری جگہ بلفظ خطف الخطفۃ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کے ساتھ فاتبعہ شہاب ثاقب سے۔ اس سے زیادہ کی پیشین گوئی کو معدوم کردیا ہے۔
ماجھۃ شہاب ثاقت صفات اذقال موسیٰ لا ھلہ انی انست تارا سایتکم منھا بخیر اواتیکم شھاب قبس لعلکم تصطنون۔ نمل وانا کنا نقعد منھا مقاعد السمع فمن یستمع الان یجدلہ شہاہا رصدا سورة جن والنا لمسناء السماء فوجدنا ھاملکت حرشاشدیدا وشہابا۔ جن
فاتبعہ شہاب مبین۔ شہاب کے معنی ہیں شعلہ آتش کے اور اس انگارے کو جو بھڑکتا ہوا ہو اس کو خدا نے شہاب مبین سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ سورة نمل میں بیان ہوا ہے۔
شہاب ثاقب یا شہاب مبین کا اس آتشیں شعلہ پر اطلاق ہوتا ہے جو کائنات الجو میں اسباب طبعی سے پیدا ہوتا ہے اور جو کسی جہت میں دور تک چلا جاتا ہے اور جس کو اردو زبان میں تارہ ٹوٹنا بولتے ہیں۔
اب یہ بات دیکھنی چاہیے کہ عرب جاہلیت میں تاروں کے ٹوننے سے یعنی جب کہ کائنات الجو میں کثرت سے شہاب ظاہر ہوتے تھے تو ان سے کیا فال لیتے تھے یا کس بات کی پیشین گوئی کرتے تھے ۔ کچھ شبہ نہیں کہ وہ اسے بدفالی اور کسی حادثہ عظیم کے واقع ہونے کا یقین کرتے تھے جس طرح کہ تطیر سے بدفالی سمجھتے تھے۔
روی الزھری عن علی بن الحسین عن ابن عباس (رض) عنھما بینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جائلیں ان تفرمن الانصاراذومی بنجم ناستنا وفقال ماکنتم تقولون فی مثل ھذا فی الجاھلیۃ فقالوا کنا نقول بموت عظیم ایود عظیم الحدیث الی اخرہ۔ تفسیر کبیر صفحہسورہ جن
تفسیر کبیر میں زہری سے روایت لکھی ہے کہ چند آدمی رسول خدا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک تارہ ٹوٹا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس میں کیا کہتے تھے انھوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ کوئی بڑا شخص مرجاویگا یا حادثہ عظیم پیدا ہوگا۔ غرضیکہ اس کو زمانہ جاہلیت میں فال بدیا شگون بد سمجھتے تھے۔ اس زمانہ کے لوگ بھی کثرت سے تاروں کے ٹوٹنے کو شگون بد سمجھتے ہیں۔ پس شیاطین الانس کے اعتقاد کی ناکامی کو ان کے کسی شگون بد سے تعبیر کرنے کے لیے خدا نے فرمایا کہ فاتبعہ شہاب ثاقب جو نہایت ہی فصیح استعارہ ہے منجمین کے وبال کے بیان کرنے اور جس کا مقصود یہ ہے کہ فاتبعھم شوم والخسران والحرمات فیما ملوا۔
اللمس للس فاسقیر للطلب لازلک امن طالب معترف یقال لمہ والتمہ ۔ تفسیر کبیر
سورة جن میں انا لمسنا السماء کا لفظ ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مس سے استعارہ طلب کیا جاتا ہے اور یہ قول منجمین کا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ہم نے ڈھونڈ ھا آسمان کو اس کو پایا بھرا ہوا حفاظ یعنی موافع شدید اور شہب یعنی وبال سے جن کے سبب ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہم ملاو اعلیٰ کی باتوں کے سننے یعنی دریافت کرنے کو بیٹھتے تھے مگر اب قرآن سننے کے بعد اس کے لیے جو کوئی سنے یعنی دریافت کرنا چاہے ہم اس کے لیے شہاب یعنی وبال معین چلتے ہیں۔ پس ان تمام امور کو اجنر مظنونہ اور مزعومہ سے منسوب کرنا جن کا وجود بھی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے کس قدر بےاٹکل اور جما للغیب بات ہے فتدبر۔
وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾
تفسیر سرسید :
( فی السماء بروجا) بروج صیغہ جمع کا ہے اور برج اس کا واحد ہے برج کے معنی اس شے کے ہیں جو ظاہر اور اپنے ہم مثل چیزوں سے ممتاز ہو۔ عمارت کا وہ حصہ جو ایک خاص صورت پر بنایا جاتا ہے گو وہ جزو اس عمارت کا ہوتا ہے مگر عمارت کے اور جزوں سے ممتاز اور نمایاں ہوتا ہے اس کو برج کہتے ہیں۔
اہل ہیئت نے جب ستاروں پر غور کی اور ان کو دیکھا کہ کچھ ستارے ایسی خرح پر متصل واقع ہوئے ہیں کہ باوجودیکہ وہ آوروں سے بڑے اور اوروں سے کچھ زیادہ روشن نہیں ہیں مگر ایک خاص طرح پر واقع ہونے سے وہ اور سب سے علیحدہ دکھائی دیتے ہیں اور نمایاں ہیں۔ پھر ان کے نمایاں ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ انھوں نے دیکھا کہ سورج دو لاپی چال پر چلتا ہوا نہیں معلوم ہوتا بلکہ حمائلی طور پر چلتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہ اس کا چلنا انھیں ستاروں کے نیچے نیچے معلوم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ستارے اور ستاروں سے زیادہ ممتاز و نمایاں ہوگئے۔
اس کے بعد اہل ہیئت نے دیکھا کہ اس طرح پر اور ایسے موقع سے جو اوروں سے ممتاز ہوں متعدد مجھے ستاروں کے واقع ہیں مگر ان میں بارہ مجمعوں کو اس طرح پر پایا کہ وہ ایسی ترتیب سے واقع ہیں کہ اگر ان سب پر ایک دائرہ فرض کیا جاوے تو کرہ پر دائرہ عظیمہ ہوگا ۔ پھر ان کو سورج بھی اس طرح پر چلتا ہوا دکھائی دیا اور اسی طرح پر سورج کے چلنے سے اختلاف فصول ان کو متحقق ہوا۔ پس انھوں نے ان ستاروں کے ایک ایک مجمعے کے لیے قرار دیا اور ہر حصہ کا نام برج رکھا کیونکہ اپنے ستاروں کے خاص مجمع سے وہ علیحدہ ممتاز اور نمایاں تھا۔
اس کے بعد اہل ہیئت نے چاہا کہ ہر ایک برج کے جدے جدے نام رکھے جاویں تاکہ اس نام سے اس حضر اور ستاروں کے مجمع کو بتاسکیں انھوں نے خیال کیا کہ اگر ان ستاروں کے مجمع میں سے جو ستارے کناروں پر واقع ہیں اگر ان کو خطوط سے ملا ہوا فرض کریں تو کیا صورت پیدا ہوتی ہے اس طرح خیال کرنے سے کسی کی صورت انسان کی بن گئی کسی کی کسی جانور کی وغیرہ وغیرہ اس لیے انہی ناموں سے انھوں نے اس حصے کو اور اس مجمع ستاروں کو موسوم کیا اور اس کے یہ نام قرار دیئے۔
حمل۔ ثور۔ جوز۔ سرطان۔ اسد۔ سنبلہ۔ میزان ۔ عقرب ۔ قوس۔ جذی ۔ دلو۔ حوت
غالباً یہ تفتیش اولاً مصریوں نے کی ہوگی جن کا آسمان ہمیشہ ابرو وغیرہ سے صاف رہتا تھا اور ہمیشہ ان کو ستاروں کے دیکھنے کا اور ان کو پہچاننے کا بخوبی موقع ملتا تھا مگر یہ نام اور یہ تقسیم تمام قوموں میں اور بہت قدیم زمانہ کے عرب جاہلیت میں عام ہوگئے تھے اور آسمان کے اس حصہ کو برج سے اور اس کے کل حصوں کو جو تعداد میں بارہ تھے بروج سے نامزد کرتے تھے اس کی نسبت خدا نے فرمایا ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزینھا للنا ظرین۔ مفسرین نے بروجا کی تفسیر قصو و اسے کی ہے بلاشبہ یہ ان کا قصور ہے خدا نے نو اسی چیز کو بروج کہا ہے جس کو اہل عرب بکر، تام قومیں بروج سمجھتی تھیں۔ اور نہایت نادانی ہے اگر ان بروج کی تفسیر میں سورة نساء کی یہ آیت پیش کی جاوے کہ۔ این ماتکونوایدرککم الموت ولوکنی برج مشیدۃ۔
( وحفظنا ھا من کل شیطان رجیم) اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم نے اس کو یعنی آسمان کو یا ان کو یعنی برجوں کو محفوظ رکھا شیطان پھٹکارے گئے سے۔ انا زینا السماء الدنیا بزینۃ الککب وحنفا من کل شیطان مارد (صافات۔ )
اور سورة صافات میں اسی کی مانند ایک آیت ہے جس کے معنی ہیں کہ ۔ ہم نے خوشنما کیا دنیا کے آسمان کو ستاروں کی خوشنمائی سے اور محفوظ کیا ہر شیطان سرکش سے۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے حفظا کو جو سورة صافات میں ہے۔ مفعول لاہ قرار دیا ہے زینا کا اور اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ واسطے حفاظت کے ہر شیطان سرکش سے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ ستاروں سے آسمان کو محفوظ کیا ہے۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے اور ابن عباس کے نام سے جو تفسیر مشہور ہے اس میں حفظا کی تفسیر کی ہے کہ ” حفظت بالنجوم “ یعنی میں نے آسمان کی حفاظت کی ستاروں سے۔ اس تفسیر سے بھی حفظا مفعول لہ پایا جاتا ہے یہ تفسیر بھی صحیح نہیں ہے حفظا کہ پہلے واو عاطفہ ہے اور عطف جملہ کا جملہ پر ہے مگر باجود موجود ہونے واو کے حفظا کو مفعول لہ قرار دینا در حالیکہ اس کے ماقبل کوئی مفعول لہ جس پر اس کا عطف ہوسکے نہیں ہے۔ صحیح نہیں ہوسکتا پس صاف بات ہے کہ یہ جملہ علیحدہ ہے اور بقرینہ علیحدہ ہونے جملہ کے حفظا مفعول ہے فعل محذوف حفظنا کا۔ پس شاہ ولی اللہ صاحب نے جو قاری ترجمہ کیا ہے وہ صحیح ہے کہ ” ونگادواشتیم از ہر شیطان سرکش “ مگر انھوں نے اس کے مفعول کو ظاہر نہیں کیا کہ ” کر انگاہ واشتیم ۔ پس اگر اس کا مفعول بتادیا جاوے تو مطلب صاف ہوجاتا ہے۔ یعنی دنگا دواشتیم آسمان رایا کواکب را۔ مگر جب ہم قرآن مجید کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کریں تو صاف یہ تفسیر ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورة حجر کی آیت میں صاف فرمایا ہے کہ ” وحفظنا ھا “ پس سورة صافات میں جو الفاظ حفظا آنے ہیں ان کی تفسیر اسی کی مطابق یہ ہے کہ وحفظنا ھا حفظا من کل شیطان مارد۔ یعنی ہم نے آسمان یا ستاروں کو ہر طرح کی حفاظت میں شیطان سرکش سے محفوظ رکھا ہے۔
سورة ملک میں جو خدا نے یہ فرمایا ہے کہ ” وزینا السماء الدنیا بمصابیح وجعلنا ھاء جو ما للشیاطین “ رجوما کے معنی مارنے یا پتھر مارنے کے اور شیاطین سے جن یا اور کوئی وجود غیر مرئی سمجھنا رجماً با لغیب بات کہنی ہے صاف بات یہ ہے کہ شیاطین سے شیاطین الانس مراد اور رجوما سے ان شیاطین کا رجما بالغیب یعنی ان کی اٹکل بچو باتیں بتانا مراد ہے چنانچہ مفسرین نے بھی کہا ہے کہ شیاطین سے مراد شیاطین الانس ہیں جو کہتے تھے کہ ہم کو آسمانی چیزیں مل جاتی ہیں اور ستاروں کے حساب سے ان کو معدد نحس ٹھہرا کر پیشین گوئی کرتے تھے۔ تفسیر کبیر میں بھی اسی کے مطابق ایک رجوما للشیاطین ای انا جعلنا ھا ظنونا ورجوما للغیب لشیاطین الانس وھم الاحکامیون من المنجمین۔ تفسیر کبیر متعلق سورة الملک صفحہ
قول نقل کیا ہے کہ ہم نے آسمان کے ستاروں کو ایک ظن اور غیب کی اٹکل پچو بات کہنے کو آدمیوں کے شیطانوں کے لیے بنایا ہے اور وہ لوگ ہیں جو نجوم سے احکام بتاتے ہیں۔
پس خدا تعالیٰ کے اس کلام ” وحفظناھالمن کل شیطان رجیم وحفظا من شیطان مارد “ کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آسمان کے برجوں کو یا آسمان کے ستاروں کو شیاطین الانس سے محفوظ رکھا ہے اور اسی لیے وہ ان سے کوئی سچی یا صحیح پیشین گوئی حاصل نہیں کرسکتے۔ بجز ظن اور رجما الغیب کے۔
لا یسمعون الی الملاء الا علی وقذفون من کل جانب دحوراولھم عذاب واھب الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شہاب ثاقب۔ (صافات۔ )
یہ اعتقاد جو کفار عرب کا تھا کہ جن آسمانوں پر جاکر ملاء اعلے کی باتیں سن آتے ہیں اور کاہنوں کو خبر کردیتے ہیں اس کی نفی خدا تعالیٰ نے سورة صافات میں فرمائی ہے جہاں کہا ہے نہیں سن سکتے ہیں ملاء اعلیٰ کو اور ڈالا جاتا ہے ان پر شہاب ہر طرف سے مردود ہونے کو مگر جس نے اچک لیا اچک لینا اس کے پیچھے پڑتا ہے شہاب روشن۔
اور اس سورة میں فرمایا ہے الا من استرق السمع فاتبعہ شہاب مبین یعنی ہم نے محفوظ کیا ہے آسمان کے برجوں کے ہر ایک شیطان رحیم سے مگر جو چوایسوے سننے کو پھر پیچھے پڑتا ہے اس کے شہاب روشن۔ اس آیت کے مطلب میں اور سورة صفات کی آیت کے مطلب میں کچھ فرق نہیں ہے سورة صافات میں آیا ہے خطف نغطفۃ یعنی اچک لیا اچک لینا اور یہ نہیں بتایا کہ کیا اچکا اس سے معمع کا اچک لینا تو نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس کی نفی کی گئی ہے نہایت شدت سے سمع کا سین اور میم کو مشددکرکے پس کسی لورا امر کا اچک لینا سوائے وسمع کے مراد ہے۔
مگر سورة حجر میں استراق سمع بیان کیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس جگہ لفظ سمع کا کفار کے خیال کی مناسبت سے بولا گیا ہے نہ حقیقی معنوں میں اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ مثلاً لوگ کسی کی نسبت کہیں کہ فلاں شخص بادشاہ کے دربار کی باتیں سن سن کر لوگوں کو بتادیا کرتا ہے اس کے جواب میں کہا جاوے کہ نہیں وہ بادشاہ کے دربار تک کب پہنچ سکتا ہے یوں ہی ادھر ادھر سے کوئی بات اڑا لیتا ہے یا سن لیتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص درحقیقت دربار کی باتیں سن لیتا ہے اسی طرح ان دونوں آیتوں میں الفاظ خطف الخطفۃ اور استرق السمع کے واقع ہوئے ہیں جو کسی طرح واقعی سننے پر دلالت نہیں کرتے خصوصاً ایسی حالت میں کہ سمع سے بتاکید نفی آئی ہے۔ بات یہ ہے کہ کفار پیشین گوئی کرنے کے دو حیلے کرتے تھے ایک یہ کہ جن ملاء اعلیٰ کی باتوں کو سن کر ان کی خبر کردیتے ہیں دوسرے ستاروں کی حرکت اور ہبوط و عروج اور منازل بروج اور کواکب کے سعد ونحس ہونے سے احکام دیتے تھے وہ سب غلط اور جھوٹ تھے مگر بعض صحیح بھی ہوتے تھے مثلاً کسوف و خسوف کی پیشین گوئی یا کواکب کے افتران اور ہبوط و عروج کی پیشین گوئی اسی امر کو جو درحقیقت ایک حسابی امر مطابق علم ہئیت کے ہے خدا تعالیٰ نے دو جگہ ایک جگہ بلفظ استرق السمع اور دوسری جگہ بلفظ خطف الخطفۃ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کے ساتھ فاتبعہ شہاب ثاقب سے۔ اس سے زیادہ کی پیشین گوئی کو معدوم کردیا ہے۔
ماجھۃ شہاب ثاقت صفات اذقال موسیٰ لا ھلہ انی انست تارا سایتکم منھا بخیر اواتیکم شھاب قبس لعلکم تصطنون۔ نمل وانا کنا نقعد منھا مقاعد السمع فمن یستمع الان یجدلہ شہاہا رصدا سورة جن والنا لمسناء السماء فوجدنا ھاملکت حرشاشدیدا وشہابا۔ جن
فاتبعہ شہاب مبین۔ شہاب کے معنی ہیں شعلہ آتش کے اور اس انگارے کو جو بھڑکتا ہوا ہو اس کو خدا نے شہاب مبین سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ سورة نمل میں بیان ہوا ہے۔
شہاب ثاقب یا شہاب مبین کا اس آتشیں شعلہ پر اطلاق ہوتا ہے جو کائنات الجو میں اسباب طبعی سے پیدا ہوتا ہے اور جو کسی جہت میں دور تک چلا جاتا ہے اور جس کو اردو زبان میں تارہ ٹوٹنا بولتے ہیں۔
اب یہ بات دیکھنی چاہیے کہ عرب جاہلیت میں تاروں کے ٹوننے سے یعنی جب کہ کائنات الجو میں کثرت سے شہاب ظاہر ہوتے تھے تو ان سے کیا فال لیتے تھے یا کس بات کی پیشین گوئی کرتے تھے ۔ کچھ شبہ نہیں کہ وہ اسے بدفالی اور کسی حادثہ عظیم کے واقع ہونے کا یقین کرتے تھے جس طرح کہ تطیر سے بدفالی سمجھتے تھے۔
روی الزھری عن علی بن الحسین عن ابن عباس (رض) عنھما بینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جائلیں ان تفرمن الانصاراذومی بنجم ناستنا وفقال ماکنتم تقولون فی مثل ھذا فی الجاھلیۃ فقالوا کنا نقول بموت عظیم ایود عظیم الحدیث الی اخرہ۔ تفسیر کبیر صفحہسورہ جن
تفسیر کبیر میں زہری سے روایت لکھی ہے کہ چند آدمی رسول خدا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک تارہ ٹوٹا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس میں کیا کہتے تھے انھوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ کوئی بڑا شخص مرجاویگا یا حادثہ عظیم پیدا ہوگا۔ غرضیکہ اس کو زمانہ جاہلیت میں فال بدیا شگون بد سمجھتے تھے۔ اس زمانہ کے لوگ بھی کثرت سے تاروں کے ٹوٹنے کو شگون بد سمجھتے ہیں۔ پس شیاطین الانس کے اعتقاد کی ناکامی کو ان کے کسی شگون بد سے تعبیر کرنے کے لیے خدا نے فرمایا کہ فاتبعہ شہاب ثاقب جو نہایت ہی فصیح استعارہ ہے منجمین کے وبال کے بیان کرنے اور جس کا مقصود یہ ہے کہ فاتبعھم شوم والخسران والحرمات فیما ملوا۔
اللمس للس فاسقیر للطلب لازلک امن طالب معترف یقال لمہ والتمہ ۔ تفسیر کبیر
سورة جن میں انا لمسنا السماء کا لفظ ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مس سے استعارہ طلب کیا جاتا ہے اور یہ قول منجمین کا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ہم نے ڈھونڈ ھا آسمان کو اس کو پایا بھرا ہوا حفاظ یعنی موافع شدید اور شہب یعنی وبال سے جن کے سبب ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہم ملاو اعلیٰ کی باتوں کے سننے یعنی دریافت کرنے کو بیٹھتے تھے مگر اب قرآن سننے کے بعد اس کے لیے جو کوئی سنے یعنی دریافت کرنا چاہے ہم اس کے لیے شہاب یعنی وبال معین چلتے ہیں۔ پس ان تمام امور کو اجنر مظنونہ اور مزعومہ سے منسوب کرنا جن کا وجود بھی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے کس قدر بےاٹکل اور جما للغیب بات ہے فتدبر۔