• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 14 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ربما : سورۃ الحجر : آیت 16

وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾

تفسیر سرسید :

( فی السماء بروجا) بروج صیغہ جمع کا ہے اور برج اس کا واحد ہے برج کے معنی اس شے کے ہیں جو ظاہر اور اپنے ہم مثل چیزوں سے ممتاز ہو۔ عمارت کا وہ حصہ جو ایک خاص صورت پر بنایا جاتا ہے گو وہ جزو اس عمارت کا ہوتا ہے مگر عمارت کے اور جزوں سے ممتاز اور نمایاں ہوتا ہے اس کو برج کہتے ہیں۔
اہل ہیئت نے جب ستاروں پر غور کی اور ان کو دیکھا کہ کچھ ستارے ایسی خرح پر متصل واقع ہوئے ہیں کہ باوجودیکہ وہ آوروں سے بڑے اور اوروں سے کچھ زیادہ روشن نہیں ہیں مگر ایک خاص طرح پر واقع ہونے سے وہ اور سب سے علیحدہ دکھائی دیتے ہیں اور نمایاں ہیں۔ پھر ان کے نمایاں ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ انھوں نے دیکھا کہ سورج دو لاپی چال پر چلتا ہوا نہیں معلوم ہوتا بلکہ حمائلی طور پر چلتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہ اس کا چلنا انھیں ستاروں کے نیچے نیچے معلوم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ستارے اور ستاروں سے زیادہ ممتاز و نمایاں ہوگئے۔
اس کے بعد اہل ہیئت نے دیکھا کہ اس طرح پر اور ایسے موقع سے جو اوروں سے ممتاز ہوں متعدد مجھے ستاروں کے واقع ہیں مگر ان میں بارہ مجمعوں کو اس طرح پر پایا کہ وہ ایسی ترتیب سے واقع ہیں کہ اگر ان سب پر ایک دائرہ فرض کیا جاوے تو کرہ پر دائرہ عظیمہ ہوگا ۔ پھر ان کو سورج بھی اس طرح پر چلتا ہوا دکھائی دیا اور اسی طرح پر سورج کے چلنے سے اختلاف فصول ان کو متحقق ہوا۔ پس انھوں نے ان ستاروں کے ایک ایک مجمعے کے لیے قرار دیا اور ہر حصہ کا نام برج رکھا کیونکہ اپنے ستاروں کے خاص مجمع سے وہ علیحدہ ممتاز اور نمایاں تھا۔
اس کے بعد اہل ہیئت نے چاہا کہ ہر ایک برج کے جدے جدے نام رکھے جاویں تاکہ اس نام سے اس حضر اور ستاروں کے مجمع کو بتاسکیں انھوں نے خیال کیا کہ اگر ان ستاروں کے مجمع میں سے جو ستارے کناروں پر واقع ہیں اگر ان کو خطوط سے ملا ہوا فرض کریں تو کیا صورت پیدا ہوتی ہے اس طرح خیال کرنے سے کسی کی صورت انسان کی بن گئی کسی کی کسی جانور کی وغیرہ وغیرہ اس لیے انہی ناموں سے انھوں نے اس حصے کو اور اس مجمع ستاروں کو موسوم کیا اور اس کے یہ نام قرار دیئے۔
حمل۔ ثور۔ جوز۔ سرطان۔ اسد۔ سنبلہ۔ میزان ۔ عقرب ۔ قوس۔ جذی ۔ دلو۔ حوت
غالباً یہ تفتیش اولاً مصریوں نے کی ہوگی جن کا آسمان ہمیشہ ابرو وغیرہ سے صاف رہتا تھا اور ہمیشہ ان کو ستاروں کے دیکھنے کا اور ان کو پہچاننے کا بخوبی موقع ملتا تھا مگر یہ نام اور یہ تقسیم تمام قوموں میں اور بہت قدیم زمانہ کے عرب جاہلیت میں عام ہوگئے تھے اور آسمان کے اس حصہ کو برج سے اور اس کے کل حصوں کو جو تعداد میں بارہ تھے بروج سے نامزد کرتے تھے اس کی نسبت خدا نے فرمایا ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزینھا للنا ظرین۔ مفسرین نے بروجا کی تفسیر قصو و اسے کی ہے بلاشبہ یہ ان کا قصور ہے خدا نے نو اسی چیز کو بروج کہا ہے جس کو اہل عرب بکر، تام قومیں بروج سمجھتی تھیں۔ اور نہایت نادانی ہے اگر ان بروج کی تفسیر میں سورة نساء کی یہ آیت پیش کی جاوے کہ۔ این ماتکونوایدرککم الموت ولوکنی برج مشیدۃ۔
( وحفظنا ھا من کل شیطان رجیم) اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم نے اس کو یعنی آسمان کو یا ان کو یعنی برجوں کو محفوظ رکھا شیطان پھٹکارے گئے سے۔ انا زینا السماء الدنیا بزینۃ الککب وحنفا من کل شیطان مارد (صافات۔ )
اور سورة صافات میں اسی کی مانند ایک آیت ہے جس کے معنی ہیں کہ ۔ ہم نے خوشنما کیا دنیا کے آسمان کو ستاروں کی خوشنمائی سے اور محفوظ کیا ہر شیطان سرکش سے۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے حفظا کو جو سورة صافات میں ہے۔ مفعول لاہ قرار دیا ہے زینا کا اور اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ واسطے حفاظت کے ہر شیطان سرکش سے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ ستاروں سے آسمان کو محفوظ کیا ہے۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے اور ابن عباس کے نام سے جو تفسیر مشہور ہے اس میں حفظا کی تفسیر کی ہے کہ ” حفظت بالنجوم “ یعنی میں نے آسمان کی حفاظت کی ستاروں سے۔ اس تفسیر سے بھی حفظا مفعول لہ پایا جاتا ہے یہ تفسیر بھی صحیح نہیں ہے حفظا کہ پہلے واو عاطفہ ہے اور عطف جملہ کا جملہ پر ہے مگر باجود موجود ہونے واو کے حفظا کو مفعول لہ قرار دینا در حالیکہ اس کے ماقبل کوئی مفعول لہ جس پر اس کا عطف ہوسکے نہیں ہے۔ صحیح نہیں ہوسکتا پس صاف بات ہے کہ یہ جملہ علیحدہ ہے اور بقرینہ علیحدہ ہونے جملہ کے حفظا مفعول ہے فعل محذوف حفظنا کا۔ پس شاہ ولی اللہ صاحب نے جو قاری ترجمہ کیا ہے وہ صحیح ہے کہ ” ونگادواشتیم از ہر شیطان سرکش “ مگر انھوں نے اس کے مفعول کو ظاہر نہیں کیا کہ ” کر انگاہ واشتیم ۔ پس اگر اس کا مفعول بتادیا جاوے تو مطلب صاف ہوجاتا ہے۔ یعنی دنگا دواشتیم آسمان رایا کواکب را۔ مگر جب ہم قرآن مجید کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کریں تو صاف یہ تفسیر ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورة حجر کی آیت میں صاف فرمایا ہے کہ ” وحفظنا ھا “ پس سورة صافات میں جو الفاظ حفظا آنے ہیں ان کی تفسیر اسی کی مطابق یہ ہے کہ وحفظنا ھا حفظا من کل شیطان مارد۔ یعنی ہم نے آسمان یا ستاروں کو ہر طرح کی حفاظت میں شیطان سرکش سے محفوظ رکھا ہے۔
سورة ملک میں جو خدا نے یہ فرمایا ہے کہ ” وزینا السماء الدنیا بمصابیح وجعلنا ھاء جو ما للشیاطین “ رجوما کے معنی مارنے یا پتھر مارنے کے اور شیاطین سے جن یا اور کوئی وجود غیر مرئی سمجھنا رجماً با لغیب بات کہنی ہے صاف بات یہ ہے کہ شیاطین سے شیاطین الانس مراد اور رجوما سے ان شیاطین کا رجما بالغیب یعنی ان کی اٹکل بچو باتیں بتانا مراد ہے چنانچہ مفسرین نے بھی کہا ہے کہ شیاطین سے مراد شیاطین الانس ہیں جو کہتے تھے کہ ہم کو آسمانی چیزیں مل جاتی ہیں اور ستاروں کے حساب سے ان کو معدد نحس ٹھہرا کر پیشین گوئی کرتے تھے۔ تفسیر کبیر میں بھی اسی کے مطابق ایک رجوما للشیاطین ای انا جعلنا ھا ظنونا ورجوما للغیب لشیاطین الانس وھم الاحکامیون من المنجمین۔ تفسیر کبیر متعلق سورة الملک صفحہ
قول نقل کیا ہے کہ ہم نے آسمان کے ستاروں کو ایک ظن اور غیب کی اٹکل پچو بات کہنے کو آدمیوں کے شیطانوں کے لیے بنایا ہے اور وہ لوگ ہیں جو نجوم سے احکام بتاتے ہیں۔
پس خدا تعالیٰ کے اس کلام ” وحفظناھالمن کل شیطان رجیم وحفظا من شیطان مارد “ کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آسمان کے برجوں کو یا آسمان کے ستاروں کو شیاطین الانس سے محفوظ رکھا ہے اور اسی لیے وہ ان سے کوئی سچی یا صحیح پیشین گوئی حاصل نہیں کرسکتے۔ بجز ظن اور رجما الغیب کے۔
لا یسمعون الی الملاء الا علی وقذفون من کل جانب دحوراولھم عذاب واھب الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شہاب ثاقب۔ (صافات۔ )
یہ اعتقاد جو کفار عرب کا تھا کہ جن آسمانوں پر جاکر ملاء اعلے کی باتیں سن آتے ہیں اور کاہنوں کو خبر کردیتے ہیں اس کی نفی خدا تعالیٰ نے سورة صافات میں فرمائی ہے جہاں کہا ہے نہیں سن سکتے ہیں ملاء اعلیٰ کو اور ڈالا جاتا ہے ان پر شہاب ہر طرف سے مردود ہونے کو مگر جس نے اچک لیا اچک لینا اس کے پیچھے پڑتا ہے شہاب روشن۔
اور اس سورة میں فرمایا ہے الا من استرق السمع فاتبعہ شہاب مبین یعنی ہم نے محفوظ کیا ہے آسمان کے برجوں کے ہر ایک شیطان رحیم سے مگر جو چوایسوے سننے کو پھر پیچھے پڑتا ہے اس کے شہاب روشن۔ اس آیت کے مطلب میں اور سورة صفات کی آیت کے مطلب میں کچھ فرق نہیں ہے سورة صافات میں آیا ہے خطف نغطفۃ یعنی اچک لیا اچک لینا اور یہ نہیں بتایا کہ کیا اچکا اس سے معمع کا اچک لینا تو نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس کی نفی کی گئی ہے نہایت شدت سے سمع کا سین اور میم کو مشددکرکے پس کسی لورا امر کا اچک لینا سوائے وسمع کے مراد ہے۔
مگر سورة حجر میں استراق سمع بیان کیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس جگہ لفظ سمع کا کفار کے خیال کی مناسبت سے بولا گیا ہے نہ حقیقی معنوں میں اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ مثلاً لوگ کسی کی نسبت کہیں کہ فلاں شخص بادشاہ کے دربار کی باتیں سن سن کر لوگوں کو بتادیا کرتا ہے اس کے جواب میں کہا جاوے کہ نہیں وہ بادشاہ کے دربار تک کب پہنچ سکتا ہے یوں ہی ادھر ادھر سے کوئی بات اڑا لیتا ہے یا سن لیتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص درحقیقت دربار کی باتیں سن لیتا ہے اسی طرح ان دونوں آیتوں میں الفاظ خطف الخطفۃ اور استرق السمع کے واقع ہوئے ہیں جو کسی طرح واقعی سننے پر دلالت نہیں کرتے خصوصاً ایسی حالت میں کہ سمع سے بتاکید نفی آئی ہے۔ بات یہ ہے کہ کفار پیشین گوئی کرنے کے دو حیلے کرتے تھے ایک یہ کہ جن ملاء اعلیٰ کی باتوں کو سن کر ان کی خبر کردیتے ہیں دوسرے ستاروں کی حرکت اور ہبوط و عروج اور منازل بروج اور کواکب کے سعد ونحس ہونے سے احکام دیتے تھے وہ سب غلط اور جھوٹ تھے مگر بعض صحیح بھی ہوتے تھے مثلاً کسوف و خسوف کی پیشین گوئی یا کواکب کے افتران اور ہبوط و عروج کی پیشین گوئی اسی امر کو جو درحقیقت ایک حسابی امر مطابق علم ہئیت کے ہے خدا تعالیٰ نے دو جگہ ایک جگہ بلفظ استرق السمع اور دوسری جگہ بلفظ خطف الخطفۃ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کے ساتھ فاتبعہ شہاب ثاقب سے۔ اس سے زیادہ کی پیشین گوئی کو معدوم کردیا ہے۔
ماجھۃ شہاب ثاقت صفات اذقال موسیٰ لا ھلہ انی انست تارا سایتکم منھا بخیر اواتیکم شھاب قبس لعلکم تصطنون۔ نمل وانا کنا نقعد منھا مقاعد السمع فمن یستمع الان یجدلہ شہاہا رصدا سورة جن والنا لمسناء السماء فوجدنا ھاملکت حرشاشدیدا وشہابا۔ جن
فاتبعہ شہاب مبین۔ شہاب کے معنی ہیں شعلہ آتش کے اور اس انگارے کو جو بھڑکتا ہوا ہو اس کو خدا نے شہاب مبین سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ سورة نمل میں بیان ہوا ہے۔
شہاب ثاقب یا شہاب مبین کا اس آتشیں شعلہ پر اطلاق ہوتا ہے جو کائنات الجو میں اسباب طبعی سے پیدا ہوتا ہے اور جو کسی جہت میں دور تک چلا جاتا ہے اور جس کو اردو زبان میں تارہ ٹوٹنا بولتے ہیں۔
اب یہ بات دیکھنی چاہیے کہ عرب جاہلیت میں تاروں کے ٹوننے سے یعنی جب کہ کائنات الجو میں کثرت سے شہاب ظاہر ہوتے تھے تو ان سے کیا فال لیتے تھے یا کس بات کی پیشین گوئی کرتے تھے ۔ کچھ شبہ نہیں کہ وہ اسے بدفالی اور کسی حادثہ عظیم کے واقع ہونے کا یقین کرتے تھے جس طرح کہ تطیر سے بدفالی سمجھتے تھے۔
روی الزھری عن علی بن الحسین عن ابن عباس (رض) عنھما بینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جائلیں ان تفرمن الانصاراذومی بنجم ناستنا وفقال ماکنتم تقولون فی مثل ھذا فی الجاھلیۃ فقالوا کنا نقول بموت عظیم ایود عظیم الحدیث الی اخرہ۔ تفسیر کبیر صفحہسورہ جن
تفسیر کبیر میں زہری سے روایت لکھی ہے کہ چند آدمی رسول خدا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک تارہ ٹوٹا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس میں کیا کہتے تھے انھوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ کوئی بڑا شخص مرجاویگا یا حادثہ عظیم پیدا ہوگا۔ غرضیکہ اس کو زمانہ جاہلیت میں فال بدیا شگون بد سمجھتے تھے۔ اس زمانہ کے لوگ بھی کثرت سے تاروں کے ٹوٹنے کو شگون بد سمجھتے ہیں۔ پس شیاطین الانس کے اعتقاد کی ناکامی کو ان کے کسی شگون بد سے تعبیر کرنے کے لیے خدا نے فرمایا کہ فاتبعہ شہاب ثاقب جو نہایت ہی فصیح استعارہ ہے منجمین کے وبال کے بیان کرنے اور جس کا مقصود یہ ہے کہ فاتبعھم شوم والخسران والحرمات فیما ملوا۔
اللمس للس فاسقیر للطلب لازلک امن طالب معترف یقال لمہ والتمہ ۔ تفسیر کبیر
سورة جن میں انا لمسنا السماء کا لفظ ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مس سے استعارہ طلب کیا جاتا ہے اور یہ قول منجمین کا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ہم نے ڈھونڈ ھا آسمان کو اس کو پایا بھرا ہوا حفاظ یعنی موافع شدید اور شہب یعنی وبال سے جن کے سبب ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہم ملاو اعلیٰ کی باتوں کے سننے یعنی دریافت کرنے کو بیٹھتے تھے مگر اب قرآن سننے کے بعد اس کے لیے جو کوئی سنے یعنی دریافت کرنا چاہے ہم اس کے لیے شہاب یعنی وبال معین چلتے ہیں۔ پس ان تمام امور کو اجنر مظنونہ اور مزعومہ سے منسوب کرنا جن کا وجود بھی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے کس قدر بےاٹکل اور جما للغیب بات ہے فتدبر۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ربما : سورۃ الحجر : آیت 27

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾

تفسیر سرسید :

( والجان خلقناہ من قبل من نارالسموم) ہم سورة انعام میں لفظ جن اور جان اور ابلیس پر بحث کرچکے ہیں اور بیان کیا ہے کہ جان اور جن سے ایک ہی چیز مراد ہے اور ابلیس یعنی شیطان مغوی للانسان کو بھی جن کہا ہے پس ان تینوں لفظوں کا مفہوم واحد ہے۔
یہ بھی ہم نے تسلیم کیا ہے کہ مظنونات عرب سے یہ بات تھی کہ عرب جنوں کی ایک خلقت ہوائی نادی غیر مرئی مقابل انسان کے سمجھتے تھے اور اس مخلوق موہوم کو صاحب قدرۃ متعددو اور قادربہ تشکل باشکال مختلفہ اور انسان کو نقصان اور نفع پہنچانے والا سمجھتے تھے اور اس موہوم مخلوق کی عبادت کرتے تھے۔
یہ بھی بیان کیا ہے کہ قرآن مجید سے ایسی کسی مخلوق غیر مرئی کا پیدا ہونا جیسا کہ عزت جاہلیت کا اعتقاد تھا یا جیسا کہ اس زمانہ میں بھی مسلمانوں کا خیال ہے ثابت نہیں ہے۔
یہ بھی بیان کیا ہے قرآن مجید میں ابلیس اور اسی معنی میں شیطان کا لفظ آیا ہے اور جہاں لفظ جن یا لفظ جان جیسا کہ اس ور ہمیں بمعنی ابلیس یا شیطان کے آیا ہے اس سے اور ان لفظوں سے کوئی وجود خارج از انسان مراد نہیں ہے بلکہ بلحاظ انسان کے قواے بہیمیہ انسانیہ پر ان کا اطلاق ہوا ہے اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حکماء وفزیا لجسٹ نے خلق مخلوقات کی اصل تین چیزیں قرار دی ہیں۔ مادہ۔ حرارت۔ و حرکت۔ مادہ کی ماہئیت وہ نہیں بیان کرسکتے مگر جہاں اس کا وجود تسلیم کرتے ہیں اس میں حرارت کا پیدا ہونا مانتے ہیں اور اس کے سبب سے اجزائے مادہ کی حرکت تسلیم کرتے ہیں۔ بہرحال خدا تعالیٰ نے خلق مخلوقات کے لیے قبل اس کے کہ وہ کسی شکل میں مشتکل ہو حرارت کو جس پر نار سمومہ کا اطلاق ہوسکتا ہے پیدا کیا اور وہی شے انسان میں بھی پائی جاتی ہے جو منشا قواے بہیمیہ ہے اسی وقت کو کبھی شیطان سے اور کبھی جان سے تعبیر کیا ہے اور اس کے وجود کو قبل تشکل انسان بتایا ہے جیسا کہ اس سورت میں فرمایا ہے والجان خلقناہ من قبل من نارالسموم۔
یہ بھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ جہاں لفظ جن یا جان کا جب کسی پر اطلاق ہوا ہے اس کا دو طرح پر اطلاق کیا گیا ہے۔ ایک مظنونات عرب جاہلیت کے مطابق اور ان کو معبود یا ذی قدرت ہونے کی بطال کی غرض سے پس اس طرح کے اطلاق سے واقعی ان کا مخلوق مستقل ہونا ثابت ہیں ہوتا بلکہ اس مظنونات عرب جاہلیت کا اظہار مقصود ہوتا ہے نہ واقعی مخلوق مستقل کا ہونا۔
دوسرے یہ کہ جہاں جن کے لفظ کافی الواقع ایک مخلوق مستقل پر اطلاق ہوا ہے اس سے جنگلی اور وحشی انسان مراد ہیں جو پوری پوری تمدنی حالت میں نہیں ہیں اگلے زمانہ میں بہت سی قومیں اور ایسی ہی حالت میں تھیں جو بدویین کہلاتی تھیں بلکہ ان سے بھی زیادہ وحشی اور غیر تمدنی حالت ہیں جیسے کہ اس زمانہ میں امریکہ کے اسٹریلیا کے اصلی باشندوں کی حالت ہے۔
اور اور ملکوں میں بھی اب تک اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اور جو کہ یہ لوگ ہمیشہ پہاڑوں اور جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اس لیے ان پر جن کا اطلاق ہوا جس کا اطلاق ہر پوشیدہ اور مخفی چیز پر ہوتا ہے۔
اس کا ثبوت خود قرآن مجید کے اس بیان سے جو سورة جن میں ہوا ہے ایسی صاف طرح پر ہوتا ہے جس سے انکار نہیں ہوسکتا ہم اس کو بالتفصیل اسی مقام پر بیان کرینگے ہاں لغو اور بیہودہ گوئی کے طور پر بلا دلیل بلکہ بلا مس عقل کوئی یہ کہہ دے کہ وہ سب حال جنوں ہی کا ہے مگر ایسی بیوقوفی کے کلام سے کوئی حقیقت باطل نہیں ہوجاتی۔
عرب جاہلیت کا کلام اس قدر قلیل دستیاب ہوتا ہے کہ وہ تمام محاورات اور استعمالات اور کنایات واشارات کے جو عرب جاہلیت میں تھے دریافت یا استنباط کرنے کو کافی نہیں ہے۔ اہل لغت جنہوں نے لغت عرب کی تدوین کی ایک زمانہ کثیر کے بعد پیدا ہوئے۔ نہایت مشکل ہے اس بات پر یقین کرنا کہ اس وقت تک اہل عرب کے اصلی محاورات اور استعارات اور کنایات اور اشارات میں کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اور اس سبب سے لغت کی کتابوں میں بہت سے معنی اور اصطلاحیں وغیرہ ایسی داخل ہیں جو اس زمانہ میں عروج و مستعمل نہ تھیں۔ اور نیز اس پر بھی یقین نہیں ہوسکتا کہ موجودہ لغت کی کتابوں میں عرب جاہلیت کا کوئی بھی محاورہ اور کنایہ چھوٹا نہیں ہے۔ اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اگر قرآن مجید سے بطور قطعی کسی لفظ کے معنی یا مراد یا اس کا استعمال کسی طرح پر ثابت ہو تو قرآن ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے اور قرآن کسی لغت یا کسی دوسری سند کا محتاج نہیں۔ مگر علمائے امت نے ایسا نہیں کیا بلکہ حقیقت الامرمانی القرآن کے برخلاف اس زمانہ کے مزعومات پر اس کو محمول کیا ہے۔
اس کی مثال سورة جن کے بیانات سے بخوبی ثابت ہوتی ہے کیونکہ کوئی ذی عقل یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ جو بیان مذاہب و عقائد ان لوگوں کے جنہوں نے چھپ کر قرآن سنا تھا اس میں مذکور ہیں وہ سوائے انسانوں کے جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تھے اور مختلف ادیان رکھتے تھے اور کسی کے ہوسکتے ہیں مگر جو کہ اس سورة میں لفظ جن کا آیا ہے بسبب ان کے مخفی ہونے کی اس لیے ان سب کو جن سمجھ لیا اور وہ جن جو مزعومات اور مظنونات باطلہ عرب جاہلیت کے تھے۔
روی عاصم عن ذرقال قدم رھط زوبعۃ اصحابہ مکۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شمعوا قراۃ النبی (علیہ السلام) ثم انصرنوا فذلک قولہ واذصرفنا الیک نفر ھن مالجن۔ تفسیر کبیر جلدصفحہ
زیادہ تر لطف کی بات یہ ہے کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے چھپ کر رسول خدا کو قرآن پڑھتے سنا تھا وہ زوبعۃ کی قوم کے لوگ تھے۔ مگر جو کہ سورة جن میں لفظ جن کا تھا اہل سنت نے زوبعۃ کو بھی جن مظنونہ ومزعومہ کا نام ٹھہرای دیا ہے۔
اسی طرح جب حضرت سلیمان کے قصہ کا جو توراۃ اور قرآن مجید میں ہے مقابلہ کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ ان وحشی اور جنگلی اور پہاڑی آدمیوں پر جو حضرت سلیمان کی سرکار میں عمارت کے لیے پہاڑ سے پتھر لاتے اور جنگلوں سے لکڑی کاٹنے کا کام کرتے تھے قرآن مجید میں جن کا اطلاق ہوا ہے مگر ہمارے علما اور اہل لغت اس کے معنی بھی وہی جن مظنونہ و مزعومہ کے سوا نہ لینگے۔ لیکن میرے نزدیک قرآن مجید سے جو ثابت ہوا ہے اس کو تسلیم کرنا ضرور ہے نہ ان مظنونات اور مزعومات کو جن کی پیروی علما نے یا اہل لغت نے کی ہے۔ لغت خودنی نفسہ ظنی چیز ہے جیسا کہ قاضی ابن رشد نے بیان کیا ہے اور جس کا ذکر ہم اپنی تفسیر میں کرچکے ہیں۔
ہمارے ایک اور دوست نے ان دونوں میں ہمارے پاس جذع بن سنان الغسانی کے جو قدیم زمانہ جاہلیت کا شاعر ہے چند شعر کتاب خزانۃ الادب سے جو شیخ عبدالقادر بن عمر بغدادی کی تصنیف ہے اور جس کے مصنف کے پاس اس شاعر کا دیوان موجود تھا۔ نقل کرکے بھیجے ہیں جن سے صاف پایا جاتا ہے نص قاطع کے طور پر کہ ان اشعار میں پہاڑی آدمیوں لفظ جن کا اطلاق کیا ہے مگر اس جہالت کا کیا علاج ہوسکتا ہے اگر کوئی کہے کہ وہ سب جن ہی تھے اور قاشر جو اس میں نام ہے وہ جن ہی کا نام ہے اور بنوابیہ سے اس جن ہی کے بھائی بھتیجوں کی اولاد مراد ہے ایسا کلام بجز اس کے کہ اس کے قابل کو مجنون کہا جاوے اور کسی وقعت کے قابل نہیں ہے غرضیکہ مجھ کو ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ عرب جاہلیت جس طرح کہ جن کا اطلاق اپنے مظنونات اور مزعومات مخلوق موہوم پر کرتے تھے اسی طرح وحشی اور جنگلی آدمیوں پر بھی کرتے تھے اور کلام مجید میں اس کا اطلاق بمعنی حقیقی صرف وحشی وجنگلی آدمیوں پر ہوا ہے۔
اشعار جذع بن سنان کے یہ ہیں
اتواناری فقلت منون انتم
فقالوا الجن قلت عموا صباحا
نزلت بشعب وادی الجن لمسا
رایت الیل قد نشرالجنا حا
اتیتہم غریبا مستضیفا
راوا قتلی اذا فعلوا جناحا
اتونی سافرین فقلت اھلاً
رایت وجدھم وسما صباحا
نحرت لھم وقلت الا ھلموا
کلوا مما حہیت لکم سماحا
اتانی تاشرو بنابیہ
وقد جن الدجیٰ والیل لاحا
فنازعنی الزجاجۃ بعد وھن
من جت لھم بہا عل اور احا
ان اشعار کے معنی یہ ہیں۔ میرے الاؤ کے پاس وہ آئے تو میں نے کہا کہ تم کون ہو تو انھوں نے کہا کہ جن (یعنی پہاڑی) میں نے کہا کہ تمہاری صبح اچھی ہو۔ یہ عرب کے محاورہو میں جملہ دعا اور سلام کے طور پر بولا جاتا تھا۔
میں وادی الجن کی گھاٹی میں اترا تھا جب کہ رات نے اپنے پر پھیلا دیئے تھے یعنی رات کا اندھیرا چھا گیا تھا اور اس لیے وہیں اتر پڑا تھا۔
میں ان کے پاس گیا بطور ایک مسافر کے مہمان کے اور انھوں نے میرا مار ڈالنا اگر وہ ایسا کرتے ایک گناہ خیال کیا۔
پھر وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں نے کہا مبارکباد مجھ کو ان کے پرے شباہت میں صبح کے سے روشن معلوم ہوئے۔
میں نے ان کے لیے اونٹ ذبح کیا اور کہا کہ ہاں آؤ اور جو کچھ میں نے تمہارے لیے فراخ حوصلگی سے پکایا ہے اس کو کھاؤ۔
میرے پاس قاشر اور اس کے باپ کی اولاد آئی اور تاریکی چھا گئی تھی اور رات ظاہر ہوگئی تھی۔
اس نے ذرا ٹھہر کر شراب کے پیالے میں چھینا چھانی کی۔ اور میں نے ان کے لیے شراب میں شہد ملا دیا تھا۔
ابہ کہہ دینا کہ وہ سب جن ہے تھے اور جنوں ہی نے باتیں کی تھیں اور اونٹ کا گوشت کھایا تھا اور شراب پی تھی کسی ذی عقل کو تو کام نہیں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ربما : سورۃ النحل : آیت 101

وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ ۙ وَّ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾

تفسیر سرسید :

(واذا بدلنا آیۃ ) ہم نے اپنی تفسیر کی پہلی جلد میں جہاں ناسخ و منسوخ کی بحث ہے امام فخر الدین رازی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت ما ننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا سے قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ اور دو آیتیں ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے۔ پہلی آیت تو ” یمحوا اللہ مایشاء ویثبت عندہ ام الکتاب “ ہے۔ دوسری آیت ” اذا بدلنا ایۃ مکان ایۃ “ ہے۔ اور ہم نے لکھا تھا ۔ کہ ان دوتوں آیتوں سے بھی قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور وعدہ کیا تھا کہ ہم ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں بیان کرینگے۔ اور اس لیے اب ان پر بحث کرتے ہیں۔
ولقد ارسلنا سلامن قبلک وجعلنا لھم پہلی آیت سورة رعد کی ہے اس میں خدا فرماتا ہے۔ کہ بیشک ہم نے تجھ سے پہلے رسول بھیجے ہیں اور ان کو بیبیاں اور اولاد دی ہے ازواجا و ذریۃ وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ لکل اجل کتاب نحواللہ ما یشاء ویثت وعندہ ام الکتاب۔
اور کوئی رسول نہیں کرسکتا۔ کہ بغیر حکم خدا کوئی حکم لے آئے اور ہر ایک چیز کا وقت لکھا ہوا یعنی مقرر ہے۔ خدا جو چاہے مٹائے اور جو چاہے قائم رکھے اور اس کے پاس اصل کتاب ہے۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہے۔ کہ جو کچھ اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ انبیائے سابق کی شریعت سے متعلق ہے نہ قرآن مجید کی آیتوں سے ۔ نتیجہ اس تمام آیت کا یہ ہے کہ انبیائے سابق کی شریعت میں سے جن احکام کو خدا چاہتا ہے۔ قائم رکھتا ہے اور جن احکام کو چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ اور اس آیت سے کسی طرح سے یہ بات نہیں نکلتی کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوجاتی ہے۔ پس یہ آیت قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونے پر کسی طرح دلالت نہیں کرتی۔ مگر یہ بحث باقی رہتی ہے کہ ام الکتاب کیا چیز ہے۔ اور اگر ام الکتاب سے لوح محفوظ اولی جائے تو لوح محفوظ کیا چیز ہے۔ یہ ایک بہت بڑی بحث ہے۔ جس کو ہم اپنی تصنیفات میں متعدد جگہ لکھ چکے ہیں۔ مگر اس مقام میں اس کی بحث سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ صرف یہ بات ثابت کرنی تھی کہ ” یمحواللہ ما یشاء وبثیت “ سے مقصود محو ہونا یا ثابت رہنا احکام شریعت انبیاے سابق کا ہے۔ نہ محو ہونا یا ثابت رہنا قرآن مجید کی آیتوں کا۔ اس لیے ہم اسی قدر بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
واذا بدلنا ایۃ مکان ایۃ واللہ اعلم بما ینزل قالوانما انت مفترین اکثرھم لا یعلمون۔
دوسری آیت سورة نحل کی ہے جس میں خدا فرماتا ہے۔ کہ جب ہم ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم بدلتے ہیں اور خدا جو حکم نازل کرتا ہے اس کو خوب جانتا ہے تو کہتے ہیں کہ تو تو افترا ہی کرنے والا ہے۔ حالانکہ ان میں کے بہت سے نہیں جانتے ۔ اس آیت کی نسبت سوال یہ ہے کہ قالوا سے کون لوگ مراد ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ قالوا کی ضمیر سے کفار مکہ مراد ہیں مگر یہ صحیح نہیں ہوسکتا۔ اس واسطے کہ کفار مکہ نے اس پہلی آیت کو جو بدلی گئی۔ منزل من اللہ جانتے تھے اور نہ دوسری آیت کو جس نے پہلی آیت کو بدلا منزل من اللہ سمجھتے تھے۔ بلکہ صرف یہودونصار نے جو ان احکام قرآن مجید کو جو برخلاف احکام سابق توراۃ و انجیل کے تھے پیغمبر کا افرا سمجھتے تھے۔ پس قالوا کی ضمیرا نہیں ہودونصاریٰ کی طرف پھرتی ہے نہ عام کفار کی طرف جو عموماً بت پرست تھی۔ اور وہ نہ احکام سابق کو مانتے تھے نہ احکام لاحق کو پس صاف ظاہر ہے کہ بدلنا ایۃ مکان ایۃ سے تبدیل شرائع انبیاء سے سابق مراد ہے نہ تبدیل آیۃ قرآنی کی دوسری آیت سے۔
تفسیر کبیر میں بھی ابومسلم اصفہانی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ثمرائع سابق انبیاء کا تبدیل ہونا مراد ہے۔ نہ قرآن مجید کے احکام میں ایک سے دوسرے کا منسوخ ہونا ۔ اور امام صاحب نے لکھا ہے کہ ابوامام اصفہانی برخلاف دیگر مفسرین کے مذہب اسلام میں ناسخ و منسوخ کا بالکل قائل نہیں ہے۔
اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اگر ان تمام آیتوں کو جن سے مفسرین اور فقہانے قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونے کا دعویٰ پیش کیا ہے مجموعی طور پر سامنے رکھ لیا جاوے اور ان پر ور و تعمق کی نظر ڈالی جاوے اور ان کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھا جاوے تو ان سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آیتیں شرائع سابقہ انبیاء کے بعض احکام کے تبدیل ہونے سے تعلق رکھتی ہیں۔ نہ قرآن مجید کی آیتوں کے باہم ناسخ و منسوخ ہونے سے۔
 
Top