ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
پچھلی تفسیر کا بقیہ
پانچویں دلیل بھی نہایت بودی ہے۔ وہ دلیل اس امر پر مبنی ہے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں جانا خواب کی حالت میں بیان کرتے تو قریش اس سے انکار نہ کرتے اور جھگڑے کے لیے مستعد نہ ہوتے۔ ان کا جھگڑا صرف اسی لیے تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیت المقدس بجسدہ جانا خیال کیا گیا تھا۔ اس دلیل کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قریش کی مخالفت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی وجہ سے تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعویٰ نبوت و رسالت کیا تھا۔ اور واقعات معراج جو کچھ ہوئے ہوں وہ نبوت اور رسالت کے شعبوں میں سے تھے اور اس لیے ضروری تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان واقعات کا سوتے میں دیکھنا فرمایا ہو یا جاگنے کی حالت میں۔ قریش اس سے انکار کرتے اور نعوذ باللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے کیونکہ وہ اصل نبوت و رسالت سے منکر تھے پھر جو امور کہ شعبہ نبوت تھے ان سے بھی انکار کرنا ان کو لازم تھا۔
قریش خواب کو بھی شعبہ نبوت سمجھتے تھے اور جو خواب کو ان کے مقصد کے برخلاف ہوتا تھا۔ اس سے گھبراہٹ اور ناراضی ان میں پیدا ہوتی تھی۔ اس کی مثال میں عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک لمبا چوڑا خواب ہے۔
وکانت عاتکۃ بنت عبدالمطلب قدر ات قبل قدومہ ضمضم مکۃ بثلاث لیال رویا افزعنھا فقص تھا علیٰ اخیہ العباس واستکتمہ خبرھا۔ قالت رایت را کیا علی بعیر لہ و اقفا بالا بطح شدہ صرخ با علی صوتہ ان انفرولیاہل قدرالمصارعکم فے ثلاث قالت فاری الناس قد اجتمعوا الیہ ثم دخل المسجد فمثل بعیرہ علی الکعبۃ ثم صرخ مثلھا ثم مثل بعیرہ علی راس ابی قیس فصرخ مثلھا ثم اخذ صخرۃ عظیمۃ و ارلھا فلما کانت باسفل الوادی ار فضبت فما بقی تیت من مکۃ الا دخلہ فلقہ مربا فخرج العباس فلقی الولید بن عتنبہ بن ربیعہ وکان فدیقہ فان کرھا لہ واستکتمہ ذلک فذکر ھا الولید لا بیہ عتبہ ففنا الخبر فلقی ابوجھل العباس فقال لہ یا ابا الفصل اقبل الینا قال فلما فرغت من طوافی اقبلت الیہ فقال لی متی حدثنا فیکم ھذہ النبیۃ وذکر رویا عاتکۃ ثم قال ما رضیتم ان نبنا و جالکم حتی حجانساؤ کم (صیحہ جلد دوئم تاریخ کامل ابن اثیر)
عاتکہ نے جو عبدالمطلب کی بیٹی تھیں ضمضم کے مکہ میں آنے سے تین دن پہلے ایک ہول ناک خواب دیکھا تھا۔ اور اس کو اپنے بھائی عباس سے بیان کیا اور چاہا کہ وہ اس خاب کو پوشیدہ رکھیں۔ عاتکہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک شتر سوار دیکھا جو وادی بطی میں کھڑا ہے۔ اس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکارو اپنے مقتل کی طرف تین دن میں بھاگو۔ عاتکہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور وہ مسجد میں داخل ہوا اور کعبہ کے سامنے اپنا اونٹ کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر اپنے اونٹ کو کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر پتھر کی ایک بڑی چٹان لے کر ہاتھ سے چھوڑی چونکہ مکہ وادی کے نشیب میں بسا ہوا تھا چٹان کے ٹکڑے بکھرگئے اور کوئی مکان مکہ کا نہیں بچا جس میں پتھر کا ٹکڑا نہ گرا ہو۔ اس خواب کو سن کر عباس نکلے اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے جو ان کا دوست تھا ملے اور اس خواب کا اس سے ذکر کیا۔ اور اس سے اس خواب کے چھپانے کی خواہش کی ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس خواب کو بیان کیا اور چرچا پھیل گیا۔ پھر ابوجہل کی ملاقات عباس سے ہوئی۔ اس نے ان سے کہا اے ابوالفضل میرے پاس آؤ۔ عباس کہتے ہیں کہ کعبہ کے طواف سے فارغ ہو کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ تم میں یہ پیغمبر ی کب سے پیدا ہوگئی اور اس نے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا۔ پھر کہا اس سے تمہاری تسلی نہیں ہوئی کہ تمہارے مردوں نے نبوت کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ تمہاری عورتیں بھی پیغمبری دعویٰ کرنے لگیں۔
اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی بہت سی باتیں جو خواب میں دیکھی ہونگی لوگوں سے بیان کی ہونگی منجملہ ان کے بیت المقدس میں جانا اور اس کو دیکھنا بھی بیان فرمایا ہوگا۔ قریش سوائے بیت المقدس کے اور کسی حال سے واقف نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے امتحاناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیت المقدس کے حالات دریافت کئے۔ چونکہ انبیاء کے خواب صحیح اور سچے ہوتے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ بیت المقدس کا حال خواب میں دیکھا تھا بیان کیا جس کو رایوں نے ” فجعلی اللہ لی بیت المقدس، فرفعہ اللہ لی انظر الیہ “ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے پس اس مخاصمت سے جو قریش نے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بجسدہ اور بیداری کی حالت میں بیت المقدس جانا ثابت نہیں ہوسکتا۔
چھٹی دلیل طبرانی اور بیہقی کی احادیث پر مبنی ہے۔ ان دونوں کتابوں کا ایسا درجہ نہیں ہے جن کی حدیثوں سے رداً و قبولاً بحث ہوسکتی ہے۔ اس کا کچھ ذکر نہ ہو۔ باایں ہمہ امہانی کی حدیث سے تو کوئی امر ثابت نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس حدیث میں ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء یہاں پڑھی اور ہمارے پاس سو رہے۔ پھر صبح کو ہم کو جگایا اور صبح کی نماز ہمارے ساتھ پڑھی۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عشاء کی نماز تو میں نے تمہارے ساتھ پڑھی اور پھر میں بیت المقدس میں گیا اور وہہاں نماز پڑھی پھر صبح کی نماز تمہارے ساتھ پڑھی۔
اس حدیث میں یہ لفظ ہیں ” ثم جئت بیت المقدس “ اور اسی پر قاضی عیاض نے استدلال کیا ہے کہ اسراء بجسدہ تھی حالانکہ صرف ” جئت “ کے لفظ سے جس کے ساتھ کچھ بیان نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جانا یہ روحانی طور پر تھا یا جسمانی طور پر ۔ بجسدہ جانے پر استدلال نہیں ہوسکتا خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس کی تشریح اس مقام پر ہونی ضروری تھی۔
دوسری حدیث۔ شداد بن اوس کی ایسی رکاکت لفظ و معنی پر مشتمل ہے اور جو طرز کہ حدیث بیان کرنے کا ہے۔ اس سے اس قدر بعید ہے کہ کسی طرح قابل اعتماد نہیں۔
صورت دوم یعنی اسراء کا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ و بحالت بیداری ہونا
اور معراج کا اس کے بعد بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک بروحہ ہونا
ایک قلل گروہ علما اور محدثین کا یہ مذہب ہے کہ اسرا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ و بحالت بیداری ہوئی اور اس کے بعد بروحہ ۔ جن لوگوں کا یہ مذہب ہے وہ مکہ سے بیت المقدس تک جانے کا نام اسرا رکھتے ہیں اور بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا معراج۔
وذھب بعضھمالی ان الا سراء کان فی الیقظۃ والمعراج کان فی النوم۔ قال اللہ سبحانہ و تعالیٰ قال ” سبحان الذی اسرے بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الا قصیٰ “ فلووقع المعراج فی الیقظۃ کان ذلک ابلغ فی الذکوالی اخرہ۔ (فتح الباری جلد صفحہ )
ان کی اس رائے کی تائید میں نہ قرآن مجید میں کچھ تصریح ہے اور نہ احادیث سے اس کی تصریح معلوم ہوتی ہے مگر فتح الباری شرح بخاری میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ اسرا بیداری کی حالت میں ہوئی اور معراج سونے کی حالت میں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک “ اور اگر معراج جاگنے میں ہوتی تو اس کا ذکر کرنا زیادہ بلیغ ہوتا۔
اگرچہ اس بیان میں اسرا کے بجسدہ ہونے کا کچھ ذکر نہیں مگر لفظ فی الیقظۃ اسرا ہونے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ بجسدہ فی الیقظۃ ہوئی تھی۔
مگر اس دلیل کے ناکافی ہونے کے لیے اسی بات کا کہنا کافی ہے کہ بلاشبہ خدا نے فرمایا ہے کہ ” سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد والحرام الی المسجد الاقصیٰ “ مگر اس میں کچھ ذکر یا اشارہ اس بات کا کہ اسرا بحالت بیداری اور بجسدہ ہوئی تھی نہیں ہے پس اس آیت سے اس بات پر کہ معراج بحالت بیداری ہوئی تھی استدلال نہیں ہوسکتا۔
اس بیان سے جو فتح الباری میں ہے لازم آتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں پہنچنے کے بعد سو رہے تھے اور اس کے بعد معراج یعنی عروج الی السموات سونے کی حالت میں ہوا تھا حالانکہ کسی حدیث سے نہیں پایا جاتا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں پہنچ کر سو رہے ہوں۔
علاوہ اس کے ہم نے صورت اول کی بحث میں ظاہر کیا ہے کہ کوئی دلیل اس بات پر نہیں ہے کہ اسرایا معراج بحالت بیداری وبجسد ہوئی تھی اور جو کہ اسرا بھی اسی کا ایک جزو ہے اس لیے اسرا کا بھی بحالت بیداری اور بجسدہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور اس کے لیے جداگانہ دلیلوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
تیسری صورت یعنی معراج کا جس میں اسرا بھی داخل ہے ابتدا سے
انتہا تک بروحہ اور سونے کی حالت میں یعنی خواب میں ہونا
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک قلیل گروہ علماء محدثین کا یہ مذہب ہے کہ معراج ابتدا سے انتہا تک سونے کی حالت میں ہوئی تھی یعنی وہ ایک خواب تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا مگر اس کی دلیلیں ایسی قوی ہیں کہ جو شخص ان پر غور کرے گا وہ یقین کرے گا کہ تمام واقعات معراج سونے کی حالت یعنی خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھے تھے اور اس کے لیے یہ دلیلیں ہیں۔
اول۔ دلالت النص یعنی خدا کا یہ فرمانا کہ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا یعنی رات کو خدا اپنے بندہ کو لے گیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خواب میں یہ امر واقع ہوئے تھے جو وقت عام طور پر انسانوں کے سونے کا ورنہ ” لیلا “ کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی۔ اور ہم اس کی مثالیں بیان کرینگے کہ خواب کے واقعات بلا بیان اس بات کے کہ وہ خواب ہی بیان ہوئے ہیں کیونکہ خود وہ واقعات دلیل اس بات کی ہوتے ہیں کہ خواب کا وہ بیان ہے۔
دوم : خود اسی سورة میں خدا نے معراج کی نسبت فرمایا ہے ” وما جعلنا الوڈیا اللتی اینک الا فتنۃ للناس “ یعنی ہم نے نہیں کیا اس خواب کو جو تجھے دکھایا مگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔ بخاری میں عبداللہ ابن عباس سے دو حدیثیں ہیں کہ اس آیت میں جس میں رویا کا ذکر ہے اس سے معراج میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دیکھا وہ مراد ہے مگر اس مقام پر لفظ رویا کی نسبت جو قرآن مجید میں ہے اور لفظ عین کی نسبت جو عبداللہ ابن عباس کی روایت میں ہے بحث ہے جس کو ہم آئندہ بیان کرینگے اور ثابت کرینگے کہ رویا سے خواب ہی مراد ہے اور لفظ عین سے جو عبداللہ ابن عباس کی حدیث میں آیا ہے ان معنوں میں کچھ تغیر نہیں ہوتا۔
حدثناعلی ابن عبداللہ قال حدثنا سفیان عن عمرو عن عکرمہ عن ابن عباس و ما جعلنا الرویا اللتی ادیناک الا فتنۃ للناس قالھی رویا عین ارنھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسری بہ الخ۔ (بخاری صفحہ )
پہلی حدیث بخاری کی یہ ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے علی بن عبداللہ نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے عمر سے اس نے عکرمہ سے اس نے ابن عباس سے کہ آیت ” وماجعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ میں لفظ رویا سے آنکھ کو دیکھنا مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء کی رات دکھایا گیا ۔
حدثنا
دوسری حدیث بخاری کی یہ ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے حمیدی نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے عمر نے عکرمہ سے اس نے ابن عباس سے کہ آیت ” وما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ میں لفظ رویا سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھایا گیا اس رات جب کہ بیت المقدس لے جائے گئے۔
سوم : مالک بن صعصعہ اور انس بن مالک کی حدیثیں جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہیں ان سے پایا جاتا ہے کہ معراج کے وقت آپ سوتے تھے اور ان حدیثوں کے مندرجہ ذیل الفاظ ہیں۔
مالک بن صعصعہ کی حدیثوں میں ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” بینا انا عند البعیت بین النائم والیقظان “
ان یہ مالک بن صعصعہ کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” بینما انافی الحطیم وربما قال فی الحجر مضطجعا “
انس بن مالک کی حدیثوں میں ہے ” فیما یری قلبہ وتنامہ عینہ ولا بنا مرقلبہ “ اور اسی حدیث کے آخر میں ہے ”
فاستیقظ وھو فی المسجد الحرام “
صحاح کی اور کسی حدیث میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کسی وقت معراج کے اوقات میں آپ جاگتے تھے۔
چہارم : معاویہ ۔ حسن۔ حذیفہ بن الیمان اور حضرت عائشہ کا مذہب تھا کہ اسراء یا معراج خواب میں ہوئی ہے۔
مگر قاضی عیاض نے جو قول نقل کئے ہیں ان کے اوپر کچھ اعتراض بھی وارد کئے ہیں۔ خصوصاً حضرت عائشہ کے قول پر۔ مگر جب ہم اس وجہ کی تشریح کرینگے تو بیان کرینگے کہ وہ اعتراض صحیح نہیں ہے اور اس قدر ہم اب بھی یاد دلا دیتے ہیں کہ شفاء قاضی عیاض میں حضرت عائشہ کا قول مذکور ہے اور جس میں ” مافقدت “ کا لفظ بصیغہ متکلم آیا ہے وہ صحیح نہیں بلکہ صحیح لفظ ہے ” مافقد “ بصیغہ مجہول۔ چنانچہ ہم اس کا اشارہ اوپر بھی کرچکے ہیں۔ اور بیان کرچکے ہیں کہ عینی شرح بخاری میں بجائے لفظ ” مافقدت “ کے لفظ ” ما فقد “ چھایا ہوا ہے اور مصحیح شفا نے ” مافقد “ کے لفظ کو اختیار کیا ہے۔ دیکھو ہماری تفسیر کا صفحہ ۔
بہرحال جن روایتوں سے معاویہ اور حسن اور حذیفہ بن الیمان اور حضرت عائشہ کا مذہب پایا جاتا ہے ان کو ہم بعینہ نقل کرتے ہیں۔
واختلف فی انہ کان فی الیقظۃ ارفی المنام فعن عائشہ (رض) انھا قالت واللہ ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولا کن عرج بروحہ وعن معاویۃ انما عرج بروحہ وعن الحسن کان فی المنام رویاواھا و اکثر الا قاویل بخلاف ذلک۔ (کشاف صفحہ )
کشاف میں ہے کہ اس بات میں اختلاف ہے کہ معراج جاگتے میں ہوئی یا سوتے میں۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا خدا کی قسم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم غائب نہیں ہوا بلکہ ان کو روح کو معراج ہوئی اور معاویہ کا قول ہے کہ معراج بروحہ ہوئی۔ اور حسن سے منقول ہے کہ معراج ایک واقعہ تھا جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا۔ اور اکثر قول اس کے برخلاف ہیں۔
وفی التفسیرالکبیر حکی عن محمد بن جریر الطبری فی تفسیر عن حذیفۃ ان قال ذلک رویا وانہ ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و انما اسری بروحہ وحکی ھذا القول عن عائشۃ وعن معاویہ ۔ (تفسیر کبیر جلد چھارم صفحہ )
اور تفسیر کبیر میں ہے کہ محمد بن جربر طبری نے اپنی تفسیر میں حذیفہ بن الیمان کا یہ قول لکھا ہے کہ واقعہ معراج ایک خواب تھا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم غائب نہیں ہوا۔ بلکہ ان کی روح کو معراج ہوئی اور یہی قول حضرت عائشہ اور معاویہ سے منقول ہے۔
قال ابن اسحاق وحدثنی بعض ال ابی بکر ان عائشۃ کانت تقول ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولکن اللہ اسری بروحہ وسال ابن اسحاق وحدثنی یعقوب بن عتبہ بن المغیرۃ بن الاخنس ان معاویۃ بن سفیان کان اذا سئل عن سری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال کانت رویا من اللہ صاقۃ فلمہ یکنکر ذلک من تولھما لقول الحسن ان ھذہ الا یہ نزلت فی ذلک قول اللہ عزوجل وما جعلناالرویا اللتی اریناک الا فتنۃ الناس ولقول اللہ عزوجل فی الخبر عن ابراھیم (علیہ السلام) اذا قال لا بنہ یا بنی انی
اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ سے آل ابوبکر میں سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی تھیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا بلکہ خدا ان کی روح مبارک کو معراج میں لے گیا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ سے یعقوب بن عتبہ بن مغیرہ بن اخنس نے بیان کیا ہے کہ معاویہ بن سفیان سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج کا حال پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ تمام واقعہ خدا کی طرف سے ایک سچا خواب تھا۔ دونوں کے اس قول کا کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔
اری فی المنام انی اذبحک ” ثم مضی علیٰ ذلک فعرفت ان الوی من اللہ یاتی الانبیاء ایقاظاً ونیاما قال ابن اسحق وکان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیما بلغنی یقول تنامہ عینی وقلبی یقطان نا اللہ اعلم ای ذلک کان قدجاہ عاین فیہ ماعا ین من امر اللہ علیٰ ای حالیہ کا نائما اویقظان کل ذلک و حق وصدق۔ (سیرۃ اعن ہشام جلد اول صفحات - مطبوعہ لندن)
کیونکہ حسن کا قول ہے کہ اسی معراج کے باب میں یہ آیت نازل ہوئی ” وما جعلنا الرویا اللتی ایرناک الا فتنۃ للناس “ اور خدا نے ابراہیم (علیہ السلام) کا خواب بھی حکایتاً بیان کیا ہے ” اذ قال لابنہ یا بنی انی اری فی المنام انی ذبحک “ پھر اس پر عمل کیا اس لیے میں نے جان لیا کہ خدا کی طرف سے انبیاء پر خواب و بیداری دونوں میں وحی آتی ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔ پس خدا ہی جانتا ہے کہ کس حالت میں وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کس حالت میں دونوں حالتوں میں سے جو کچھ خدا کے حکم سے دیکھنا تھا دیکھاجاگتے میں با سوتے میں اور یہ سب کچھ حق اور سچ ہے۔
ثم اختلف السلف والعلماء ھل کان الاسراء بروحہ اوجسدہ علی ثلاث مقالات فذھبت طائفۃ الی انہ اسری بروحہ وانہ رویامنام مع القافھم ان رویا الا بنیاء وحی حق والی ھذاذھب معاویہ و حکی عن الحسن والمشہور عنہ خلافہ والیہ اشار محمد بن اسحاق و حجتھم قولہ تعالیٰ ” ووما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ وما حکوا عن عائشۃ مافتدت جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتولہ بنیا انا نائم وقول انس وھو نائم فی المسجد احرام وذکر القضۃ ثم قال فی اخر فاستیقظت وانا بالمسجد الحرام الخ (شفا ھاضی غیاض صفحہ )
شفا قاضی عیاض میں ہے کہ اگلے لوگوں اور عالموں کے اسراء کے روحانی یا جسمانی ہونے میں تین مختلف قول ہیں۔ ایک گروہ اسراء کے روح کے ساتھ خواب میں ہونے کا قائل ہے اور وہ اس پر بھی متفق ہیں کہ پیغمبروں کا خوب وحی اور حق ہوتا ہے معاویہ کا مذہب بھی یہی ہے۔ حسن بصری کو بھی اسی کا قائل بتاتے ہیں لیکن ان کا مشہور قول اس کے برخلاف ہے اور محمد ابن اسحاق نے اس طرف اشارہ کیا ہے ان کی دلیل ہے خدا کا یہ فرمانا کہ ” نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو دکھایا تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے “ اور حضرت عائشہ کا یہ قول کہ نہیں کھویا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم کو یعنی آپ کا جسم مبارک معراج میں نہیں گیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ اس حالت میں کہ میں سوتا تھا اور انس کا یہ قول کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مسجد حرام میں سوتے تھے پھر معراج کا قصہ بیان کرکے آخر میں کہا کہ میں جاگا اور اس وقت مسجد حرام میں تھا۔ الخ
پنجم : اگر کسی حدیث میں ایسے امور بیان ہوں جو ایک طرح پر بداہت عقل کے برخلاف ہوں اور ایک طرح پر نہیں اور اگلے علما اور صحابہ کی رائیں مختلف ہوں کہ کوئی اس طرف گیا ہو اور کوئی اس طرف تو بموجب اصول علم حدیث کے لازم ہے کہ اس صورت کو اختیار کیا جاوے جو بداہت عقل کے مخالف نہیں ہے۔
تصریح پہلی دلیل کی
اب ہم پہلی دلیل کی تصریح کرتے ہیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن مجید اور نیز احادیث میں جب کوئی امر خواب کا بیان کیا جاتا ہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس سے پہلے یہ بھی بیان کیا جاوے کہ یہ خواب ہے کیونکہ قرینہ اور سیاق کلام اور نیز وہ بیان خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ بیان خواب کا تھا مثلاً حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اپنا خواب بیان کرتے وقت بغیر اس بات کے کہتے کے میں نے خواب دیکھا ہے یوں کہا ” یا ابت انی رایت احد عشر کو کہ کہا والشمس والقمر رایتم لی سجدین “ لیکن فرینہ اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ خواب ہے اس لیے ان کے باپ نے کہا ” یا بنی لا تعصرو یاک علی اخوتک فیکید والک کیدا “ پس معراج کے واقعات خود اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ کہ وہ ایک خواب ہے اس لیے اس بات کا کہنا کہ وہ خواب ہے ضروری نہیں تھا بلکہ صرف یہ کہنا کہ رات کو اپنے بندہ کو لے گیا صاف قرینہ ہے کہ وہ سب کچھ خواب میں ہوا تھا۔
اسی طرح چار حدیثیں عبداللہ ابن عمر کی روایت سے مسلم میں موجود ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کعبہ کے پاس حضرت مسیح (علیہ السلام) اور مسیح دجال کے دیکھنے کا ذکر ہے ان حدیثوں کے لفظ جیسا کہ روایت بالمعنی میں راویوں کے بیان میں ہوتا ہے کسی قدر مختلف ہیں مگر سب میں مسیح (علیہ السلام) اور مسیح دجال کے دیکھنے کا ایک ہی قصہ بیان ہوا ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو خواب میں دیکھا تھا ان حدیثوں میں سے ایک حدیث کے ابتدا میں یہ لفظ ہیں ” رایت عندالکعبۃ رجلا “ یعنی میں نے دیکھا کعبہ کے پاس ایک شخص کو۔ پس اس میں سے کوئی اشارہ لفظی اس بات کا نہیں ہے کہ خواب میں دیکھا تھا مگر خود مضمون اس قصہ کا دلالت کرتا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا اس لیے کسی ایسے لفظ کے لانے کی جس سے خواب کا اظہار ہو ضرورت نہ تھی۔
دوسری حدیث کے شروع میں سے ” ارانی لیلۃ عند الکعبۃ “ اس میں صرف لیلۃ کا لفظ اس بات کا مطلب ادا کرنے کو کو افی سمجھا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا تھا اسی طرح معراج کے قصہ میں خدا کا یہ فرمانا ” اسری بعبدہ لیلا “ اس بات کے اسارہ کے لیے کہ وہ خواب ہی کافی ہے اور بطور دلالت النٹ کے معراج کا روحانی یعنی خواب میں ہونا پایا جاتا ہے۔
تیسری حدیث کے شروع میں یہ الفاظ ہیں ” بینما انا نائم ایتنی اطوف بالکعبۃ “ یعنی جب کہ میں سوتا تھا میں نے دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کرتا ہوں۔ انہی الفاظ کے مثل وہ الفاظ ہیں جو بعض حدیثوں میں جن کو ہم لکھ چکے ہیں معراج کی نسبت آئے ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کو خواب نہ سمجھیں۔
تفسیر سرسید :۲
چوتھی حدیث کے شروع میں یہ الفاظ ہیں ” ارانی لیلۃ فی المنام عند الکعبۃ “ یعنی ایک رات مجھ کو کعبہ کے پاس خواب میں دکھائی دیا۔ اس حدیث میں بالکل تصریح خواب کی اس واقعہ کی نسبت موجود ہے جس سے کسی کو اس میں کلام نہیں رہتا کہ وہ قصہ خواب میں دیکھا تھا پس ہم کو اس باب میں شک کرنے کی کہ معراج کا واقعہ خواب میں ہوا تھا کوئی وجہ نہیں ہے۔
تشریح دوسری دلیل کی
اس دلیل میں جو ہم نے لکھا ہے ” وما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ یہ آیت متعلق ہے معراج سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ معراج سے متعلق نہیں ہے۔ مگر ادنیٰ تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیت خاص اسی سورة میں ہے جس میں معراج کا ذکر ہے تو اس کو معراج سے متعلق نہ سمجھنے کی کوئی وجہ معقول نہیں ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ خود ابن عباس نے اس آیت کو اسراء سے متعلق سمجھا ہے۔
سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت بطور اظہار شکریہ اس نعمت کے ہے جو خدا تعالیٰ نے معراج کے سبب قلب مبارک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انکشاف فرمائی تھی اس کے بعد بنی اسرائیل کا اور ان قوموں کا ذکر کیا ہے جن کے لیے بطور امتحان و اطاعت فرمان باری تعالیٰ کچھ نشانیاں مقرر کی گئیں تھیں اور باوصف اس کے انھوں نے رسولوں سے انکار کیا۔ اور خدا کی نافرمانی کی۔ اسی موقع پر خدا نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ہم نے جو خواب تجھ کو دکھلایا ہے وہ بھی لوگوں کے امتحان کے لیے ہے کیونکہ وہ بھی نبوت کے شبہ میں سے ہے۔ تاکہ امتحان ہو کہ کون اس سے انکار کرتا ہے اور کون اس کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ اس سے انکار کرنا بمنزلہ انکار رسالت اور تسلیم کرنا بمنزلہ تسلیم رسالت کے ہے۔
سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرا الی المسجد الاقصی الذی بارکت حولہ لنریہ من ایتنا اندھوالسمیع البصیر۔ وما جعلنا الرویا اللتی اویناک الا فتنۃ للناس۔
پس سیاق قرآن مجید پر نظر کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلی آیت اور وہ دوسری آیت متصل اور پیوستہ ہیں یعنی خدا نے یوں فرمایا ہے۔ پاک ہے جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تاکہ دکھائیں ہم اس کو کچھ اپنی نشانیاں بیشک وہ سننے والا ہے اور دیکھنے والا۔ اور نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو دکھایا تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔
وفی ذلک ورد لمن قال المراد بالرویا فی ھذہ الایۃ رویاہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ دخل المسجد الحرام المشار الہ بابقول تعالیٰ ” لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق لتد خلن المسجد الحرام “ قال ھذا القائل والمراد بقولہ فتنۃ الناس ماوقع من صدالمشرکین لہ فی الحدبیۃ عن دغررالمسجد الحرام انتہی ھذا وان کان یتکن ان یکون مراد الایۃ لا کن الا عتماد فی تفسیر ھا علی ترجمان القرآن اولی واللہ اعلم۔ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
اور جن لوگوں نے اس آیت کو اس رویا سے متعلق کیا تھا جس کا اشارہ سورة فتح کی اس آیت میں ہے ” لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق “ اس کی تردید فتح الباری میں خود علامہ ابن حجر نے کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابن عباس کی اس حدیث میں اس شخص کا رد ہے جو اس آیت کے خواب سے رسول خدا کا مسجد حرام میں داخل ہونے کا خواب مراد لیتا ہے جس کا اشارہ آیت ” لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق لقد خلن المسجد الحرام “ میں ہے اور کہتا ہے کہ ” فتنۃ للناس “ سے حدیبہ میں رسول خدا کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے مشرکین کا روکنا مراد ہے اگرچہ ممکن ہے کہ اس آیت سے یہی مراد ہو مگر قرآن کی تفسیر میں ترجمان القرآن (حدیث) پر اعتماد کرنا اولے ہے۔
مگر ہم کہتے ہیں کہ اس آیت کو سو رہ فتح کی آیت مذکورہو سے کسی طرح کا بھی تعلق نہیں ہے۔ مگر ہم کو اس پر زیادہ بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اکثر مفسرین نے بھی اس آیت کو معراج سے متعلق سمجھا ہے۔ جو کچھ اختلاف کیا ہے وہ رویا کے معنوں میں کیا ہے۔ جس پر ہم بحث کرینگے۔
والقولالرابع وھوا الا سح وھو قول اکثر المفسرین الن الراد بھا ماراہ اللہ لیلۃ الا سراء واختلفوا فی معنی ھذہ الرویا۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ )
چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ چوتھا قول جو صحیح تر اور اکثر مفسرین اس کے قائل ہیں یہ ہے کہ رویا سے مراد وہ رویا ہے جو معراج کی رات خدا نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھایا ۔ اور اس رویا کے معنی میں انھوں نے اختلاف کیا ہے۔
رویا کے اصلی لغوی معنی کسی چیزکو خواب میں دیکھنے کے ہیں۔ لسان العرب میں ہے ” الرویا مارایتہ فی منامک “ مگر کہا جاتا ہے کہ رویا کا اطلاق رویت یعنی جاگنے میں دیکھنے پر بھی آتا ہے چنانچہ لسان العرب میں ہے ” وقد جاء رویانی الیقظۃ “ اور اس پر راعی شاعر جاہلی کا یہ شعر سند میں پیش کیا ہے۔
فکبرللرویا وھش فوادہ
اس نظارہ کو دیکھ کر اس نے (تعجب سے) اللہ اکبر کہا اور اس کا دل خوش ہوا۔
وبشر نفسا کان قبل یلومھا
اور اس نے اپنے نفس کو خوشخبری دی جس کو پہلے ملامت کرتا تھا۔
اور مت نبی کے شعر کے اس مصرعہ کو بھی سند میں پیش کیا ہے۔
ورویاک احلی فی العیون من الغمض
تیرا دیدار آنکھوں میں نیند میں اونگھنے سے زیادہ لذیذ ہے۔
حریری نے رویا کو بمعنی ” رویت فی الیقظۃ “ استعمال کرنا غلط بتایا ہے اور مت نبی کے شعر پر اعتراض کیا ہے۔ اور درحقیقت مت نبی کا ایسا درجہ نہیں ہے کہ اس کے کلام کو کلام جاہلیت کی طرح مستند مانا جائے۔
ویقولون ” سورت برویا قلان “ اشارۃ الی مراہ فیوھمون فیہ کماوھم برلطیب فی قولہ لبدر بن عما روتد سامرہ ذات لیلۃ الی قطع ھن اللیل۔
حریری نے لکھا ہے۔ کہ لوگ کہتے ہیں میں فلاں کے رویا سے خوش ہوا اور اس سے اس کا دیکھنا مراد لیتے ہیں۔ وہ اس محاورہ میں غلطی کرتے ہیں جیسے کہ ابوالطیب مت نبی شاعر نے اپنے اس قول میں غلطی کی ہے جو بدر بن عمار سے کہا تھا اور اس نے ایک رات کچھ دیر تک اس سے باتیں کی تھیں اور اس شعر کا یہ ترجمہ ہے :۔
معنی اللیل والقص الذی لک لا یمضی
ورویاک اھلی فی العیون من الغمض
رات تمام ہو چلی ہے اور تیرے علم و فضل (کی داستان) تمام نہیں ہوتی ہے۔ اور تیرا دیدار آنکھوں میں اونگھنے سے زیادہ لذیذ ہے۔
والصحیح ان یقال سورت برویتک لان العرب تجعل الرویۃ لمایری فے الیقظۃ والرویا لما یری فی اللنامہ کا قال سبحانہ اخباراعن یوسف (علیہ السلام) ” ھذا تاویل رویای من قبل “
صحیح یہ ہے کہ اس محاورہ میں رویا کی جگہ رویت کا لفظ بولا جائے کیونکہ اہل عرب رویت کو جاگنے کی حالت میں دیکھنے پر اور رویا کو خواب دیکھنے کے موقع پر استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ خدا نے حکایۃً یوسف (علیہ السلام) کا یہ قول بیان کیا ہے ” ھذا تاویل رویای من قبل “
وفیہ ثلاثۃ اقوال لا ھل الغۃ احدھا ماذکرہ المصنف والثانی ایھا بمعنی فیکونان یقظۃ وبنا ماوثالث ان الرویۃ عامۃ والرویا مختص لما یکون فے الیل وتویقظۃ نقول المتنبی۔۔۔ محتاج الی التاویل۔ (شرح درۃ الفواص صفحہ )
علامہ خفاجی ورۃ الغوا نص کی شرح میں لکھتے ہیں کہ رویا کے معنی میں اہل لغت کے تین قول ہیں۔ ایک تو وہ جس کا ذکر مصنف نے کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ دونوں لفظوں (رویت اور رویا) کے ایک ہی معنی ہیں۔ جاگنے کی حالت پر بولے جائیں یا سونے پر۔ تیسرا قول ی ہے کہ رویت عام ہے اور دو یا رات کے دیکھنے سے اگرچہ حالت بیماری میں ہو مخصوص ہے۔ پس مت نبی شاعر کا قول ۔۔۔ تاویل کا محتاج ہے۔
وقال ابن البری الرویا وان کانت فی النام فالعرب استعمل تھا فی الیقضۃ کثیر افھو مجاز مشہور کقول الراعی۔
و مستنبح تھوی مساقط راسہ
علی الرحل فی مخنیاء حمس نجومھا
رفعت لہ مشبوبۃ عصفت لھا
صبا تزد ھیا مرۃ و تقیمھا
فکبر للرویا وھش فوادہ
وبشر نفساً کان قبل یلومھا
وعلیہ اکثر المفسرین فی قولہ تعالیٰ ” وما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ یعنی ماں ہ لیلۃ المعراج یقظۃ علی الصحیح۔ (شرح درۃ الغوامن خفاجی صفحہ )
علامہ خفاجی نے راعی کے تین شعر نقل کئے ہیں کہ جن سے پورا مطلب معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابن بری نے کہا ہے کہ رویا اگرچہ خاب کے معنوں میں ہے مگر اہل عرب اکثر جاگنے کی حالت میں دیکھنے پر بھی بولتے ہیں۔ اور یہ استعمال بطور مجاز کے مشہور ہے جیسا کہ راعی کا قول ہے۔ کتے کی آواز پر کان لگانے والا مسافر جس کا سر (نیند کی حالت میں) بار بار کجاوہ پر گرتا ہے اندھیری رات میں جس کے تارے دھندلے ہیں۔ میں نے اس کے لیے آگ جلائی جس پر مشرق کی ہوا چلی جو کبھی اس کو ہلاتی ہے اور کبھی اس کو بھڑکاتی ہے۔ اس نے نظارہ کو دیکھ کر (تعجب سے) اللہ اکبر کہا اور اس کا دل خوش ہوا ۔ اور اس نے اپنے نفس کو خوشخبری دی ہے جس کو پہلے ملامت کرتا تھا۔ اور اسی پر اکثر مفسرین نے آیت ” وما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ میں رویا کی تفسیر کی ہے یعنی جو کچھ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات جاگتے میں دیکھا ۔ اور یہی معنی صحیح ہیں۔
واستدل بہ علی اطلاق لفظ الرویا علی مایری بالمص فی الیقظۃ وقدانکرھا اللحریری تبعا لغیرہ و قالوا انما یقال رویانی المنام واما اللتی فی الیقظۃ
اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ لفظ رویا کے اس چیز پر جو جاگنے کی حالت میں آنکھ سے دیکھی جائے۔ بولنے پر اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ حریری نے اس استعمال کا اوروں کی طرح انکار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رویا سوتے میں اور رویت جاگتے فیقال رویۃ وممن استعمال الرویافی الیقظۃ لمنتبی فی قولہ ۔ ورویاک احلی فی العیون من الغمض وھذا التفسیر یروعلی من خطاہ۔ (فتح الباری جلد ھشتم صفحہ )
میں کچھ دیکھنے پر بولا جاتا ہے۔ مت نبی شاعر ان میں سے ہے جو رویا کو جاگتے میں دیکھنے پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کا قول ہے کہ تیرا رویا (دیدار) آنکھوں میں نیند کے اونگھنے سے زیادہ لذیذ ہے اور اس تفسیر سے ان پر اعتراض آتا ہے جو اس کی خطا پکڑتے ہیں۔
اس تمام بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی معنی رویا کے خواب میں دیکھنے کے ہیں اور رویت فی الیقظۃ پر مجازاً بولا جاتا ہے۔ جس کے لیے کوئی قرینہ لفظی یا عقلی یا حالی ایسا موجود ہو جس کے سبب مجازاً رویا کا استعمال رویت پر پایا جاتا ہو جیسا کہ راعی کے اول اشعار سے پایا جاتا ہے اور جو کہ مستنج نیند میں غرق تھا اور اسی حالت میں اس نے آگ کا شعلہ دیکھا تھا تو لفظ رویا کا استعمال مجازاً رویت کے معنوں میں نہایت عمدہ تھا۔ مگر قرآن مجید میں حو لفظ رویا کا آیت ” وجعلنا الرویا اللتی دیناک الا فتنۃ للناس “ میں آیا ہے اس کا یہ حال نہیں ہے۔ پس اگر ہم تسلیم کرلیں کہ رویا کا اطلاق رویت فی الیقظۃ پر بھی ہوتا ہے تو یہ بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی درکار ہے کہ اس آیت میں جو لفظ رویا آیا ہے۔ اس سے بھی رویت فی الیقظۃ مراد ہے۔ آیت مذکورہ میں کوئی اشارہ یا کوئی قرینہ اس بات کا نہیں ہے کہ رویا سے رویت فی الیقظۃ مراد لی جائے بلکہ جب اس آیت کو پہلی آیت سے ملایا جاتا ہے جس میں ” اسری بعبدہ لیلا “ یعنی رات کا لفظ ہے تو قرینہ اس بات کا ہوتا ہے کہ رویا سے خواب ہی مراد ہے نہ رویت فی الیقظۃ ۔ خصوصاً اس صورت میں کہ قرآن مجید میں کسی جگہ رویا کا اطلاق رویت فی الیقظۃ پر نہیں آیا۔
رویا عین قید بہ للا شعار بان الرویا بمعنی الرویۃ فی الیقظۃ لا رویا النائم۔ (حاشیہ بخاری صفحہ )
علما نے ابن عباس کی حدیث میں جو ” رویا عین “ کا لفظ آیا ہے تو لفظ عین پر بحث کی ہے اور اس کے سبب رویا کو رویت فی الیقظۃ قرار دیا ہے چنانچہ کرمانی شارح بخاری نے ابن عباس کی حدیث کی نسبت لکھا ہے کہ رویا کے ساتھ لفظ عین کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ معلوم ہو کہ رویا سے رویت فی الیقظۃ مراد ہے۔ نہ رویا بمعنی خواب۔
انما قید الرویا بالعین اشارۃ الی انہافے الیقظۃ والی انھا لیست بمعنی العلم۔ (حاشیہ بخاری صفحہ )
اور پھر کرمانی نے لکھا ہے کہ عین کی قید سے جو رویا کے ساتھ ہے اس بات کا اشارہ ہے کہ اس سے جاگتے میں دیکھنا مراد ہے۔ اور وہ علم کے معنی میں نہیں ہے۔
قال ابن عباس ہے رویا عین راھا النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا رویامنام (شفا صفحہ)
اور شفا قاضی عیاض میں لکھا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رویا سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا نہ خواب کا دیکھنا۔
واضح
ہو کہ ابن عباس کی حدیث میں الفاظ ” لا رویا منامہ “ کے نہیں ہیں۔ جن کے معنی یہ ہیں کہ وہ دیکھنا سونے کی حالت میں نہیں ہے “۔
اگر اس امر کے ثبوت کا مدار کہ حضرت ابن عباس کے نزدیک معراج ” فی الیقظۃ “ ہوئی۔ صرف اسی حدیث پر ہے تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ان کا مذہب یہ تھا کہ معراج ” فی الیقظۃ “ ہوئی کیونکہ اگر حضرت ابن عباس کا یہ مذہب تھا جیسا کہ قاضی عیاض نے قرار دیا ہے کہ اسرا یا معراج بحالت یقظہ ہوئی تھی تو صاف فرماتے ” ھی رویا فی الیقظۃ “ یا ” رویہ فی الیقظۃ اریھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسرے بہ الی بیت المقدس “ اس صاف لفظ کو چھوڑ کر ایک ایسے لفظ کو اختیار کرنے کی جس کے معنی یقظۃ کے نہیں ہیں اور اگر بہت کوشش کی جائے تو اس سے بطور دلالت التزامی کے یہ معنی کے یہ معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ سلف سے علما اور صحابہ کو اس میں اختلاف ہے کہ واقعات معراج بحالت بیداری ہوئے تھے یا خواب میں۔ لیکن اگر قید لفظ ” عین “ کی جو ابن عباس کی حدیث میں ہے۔ ایسی صاف ہوتی جس سے ” رویت فی الیقظۃ “ سمجھی جاتی تو علما میں اختلاف نہ ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ قید لفظ ” عین “ سے ” رویت فی الیقظۃ “ کا سمجھنا ایسا صاف نہیں ہے جیسا کہ بعض نے سمجھا ہے۔
العین عندا العربہ حقیقۃ الشی نھال جاء بالامر
عین کے معنی لغت میں ” حقیقۃ الثی “ کے ہیں۔ لسان العرب میں لکھا ہے اہل عرب کے نزدیک یھن کسی چیز کی حقیقت پر بولا جاتا ہے۔
من عین صافیہ ای من فصہ و حقیقتۃ وجاء بالحق بعینہ ای خالصا واضحا ۔ (لسان العرب جلد صفحہ )
کہتے ہیں کہ وہ اس کام کو عین صافی سے لایا یعنی اس کام کی اصلیت اور حقیقت سے اور حق کو بعینہ لایا یعنی خالص اور روشن حق کو لایا۔
پس حضرت ابن عباس کا یہ فرمانا کہ رویا عین۔ اس کے معنی ہیں ” رویا حقیقۃ لان رویا الا بحیاء حق ووحی “ اور اس لیے ہمارے نزدیک ابن عباس کی حدیث میں رویا کے ساتھ جو عین کے لفظ کی قید لگانی ہے اس سے رویا کے معنوں کو تبدیل کرنا اور لفظ رویا کو جو قرآن مجید میں آیا ہے بلا کسی قرینہ کے جو قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ مجازی معنوں میں لینا مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے رویا کے صحیح اور واقعی اور حق ہونے کی تاکید مراد ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خواب وہم و خیال یا اضعاث احلام میں سے نہیں ہے۔ بلکہ درحقیقت خواب میں جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا وہ سچ اور حق ہے۔ کیونکہ انبیاء کے تمام خواب حق اور سچ ہوتے ہیں پس لفظ عین کی قید سے لازم نہیں آتا کہ حالت بیداری میں دیکھا ہو۔
واختلف الصحابۃ ھل راعوبۃ تلک اللیسلۃ ام لا فصح عن ابن عباس انہ دای ربہ وصح فسانہ قال راہ بفوادہ۔ (زاد المعاد جلد اول صفحہ )
ہمارے اس قول کی تائید میں ابن قیم کا یہ قول زاد المعاد میں ہے کہ صحابہ میں اختلاف ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات میں خدا کو دیکھا تھا یا نہیں ابن عباس کی روایت ہے کہ دیکھا تھا مگر صحیح یہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کو اپنے دل سے دیکھا تھا یعنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور پوری دلیل ہے کہ ان کی روایت میں لفظ عین سے آنکھ کا دیکھنا مراد نہیں ہے۔
اگر ہماری یہ رائے صحیح نہ ہو اور ابن عباس کے عین کا لفظ رویا کے ساتھ اسی مقصد سے بولا ہو کہ رویا سے روایت بالعین فی الیقظۃ مراد ہے۔ تو وہ بھی منجملہ اس گروہ کے ہوں گے جو معراج فی الیقظۃ کے قائل ہوئے ہیں۔ مگر ہم اس گروہ میں ہیں جو واقعہ معراج کو حالت خواب میں تسلیم کرتے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک خواب ہی میں ماننا لازم ہے جس کی وجہ ہم پانچویں دلیل کی تصریح میں بیان کرینگے۔
شاہ ولی اللہ صاحب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معراج میں جانا ” بجسد برزخی میں المثال والشھادۃ “ بیان کیا تھا۔ اور ہم نے کہا تھا کہ ہم اس کا مطلب نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح ابن قیم نے زاد المعاد میں بیان کیا ہے کہ صرف روح رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج میں گئی تھی۔ اور جسد نہیں گیا۔ اور اسی طرح پر روح گئی تھی جس طرح پر انسان کی روح مرنے کے بعد جاتی ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ انسان کی روح نکلنے کے بعدانسان مرجاتا ہے مگر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح جانے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت نہیں ہوئے تھے۔ اگرچہ یہ رمز بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی لیکن اس کا نتیجہ بھی یہ ہے کہ ابن قیم بھی بجسدہ معراج کا قائل نہیں ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب کی رائے کا ماخذ بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال جو کچھ ابن قیم کی رائے ہے۔ ہم اس کو اس مقام پر بجنسہ نقل کرتے ہیں۔
وقد فقل این اسحاق عن عائشہ و معاویہ افھما قال انما کا قال اسراء بروحہ ولم نعقد جسد ہ ونقل عن الحسن البصری نحوذ لک ولکن ینبغی ان یعلم الفرق بین زیقائی کان الا سراء منا ماوبین ان یقال کان بروحسدون جسدہ و بینھما فوق عظیم و عئشۃ و معاویۃ لم یقولا کان منا ما وانما قالا اسری بروحہ ولم یفقد جسدہ و فرق بین الا سرین فانما یراہ النائم قصیکون امثالا مضر وبتۃ للمعلوم فی الصور المحس سۃ فیری کانک قد عرج بہ الی السماء وذھب بہ الی مکۃ واقصار لارض وروحہ لم تصھعدو لم تذھب بہ الی مکۃ واقصار لارض ورحہ لم تصھعدو لم تذھب و انما ملک الرویا ضرب لاالمثال والذین قانوا عرج برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائفتان طائفۃ قالت عرج بروحہ وبدہ وطائفتہ قالت عرب بروحہ ولم یفقد بدتہ وھو لا ولم یرید وان المعراج کان مناما وانما اراوحہ ان الروح ذا تھا اسرے بھا وعرج بھا حقیقۃ وما شرت من جنس ما تبا شریعد للفارقۃ وکان حالھانفی ذلک کحالھا بعدالمفارقۃ فی صعودھا
ابن اسحاق نے حضرت عائشہ اور معاویہ کا مذہب یہ بتایا ہے کہ معراج میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح گئی تھی اور جسم غائب نہیں ہوا اور حسن بصری کا مذہب بھی یہی بتایا ہے لیکن اس قول میں کہ اسراء خواب میں ہوئی تھی اور اس قول میں کہ اسرا روح کے ساتھ ہوئی تھی نہ جسم کے ساتھ فرق جاننا چاہیے۔ اور دونوں میں بڑا فرق ہے۔ حضرت عائشہ اور معاویہ نے یہ نہیں کہا کہ اسرا خواب میں ہوئی تھی بلکہ انھوں نے کہا کہ اسرا روح کے ساتھ ہوئی تھی اور رسول خدا کا جسم اسرا میں نہیں گیا اور دونوں میں فرق ہے کیونکہ سونے والا جو کچھ خواب میں دیکھتا ہے وہ حقیقت میں ایک معلوم چیز کی مثالیں ہیں جو محسوس شکلوں میں اس کو دکھائی دیتی ہیں وہ دیکھتا ہے کہ گویا آسمان پر چڑھ گیا الی السموات سماء سماء حتی ینتھی بھا الی السماء السابعۃ تفف بین یدی اللہ عزوجل فیا مرفیھا بما یشاء ثم تنزل الارض فالذی کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ الا سراء ا اکمل ھمایحصل الروح عندالمفلرقۃ و معلوم ان ھذا امرلون مایراہ النامم لکن لما کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی مقامہ خرق العوائد حتی شق بعنہ وھو حی لا یتالم بذلک عرج بذات روح المقدسۃ حقیقۃ من غیراماتۃ و ومن سواہ لا ینال بذات روحہ الصعود الی السماء الا بعد للقارقۃ فالانبیاء ابنا الستقرت ارواحھم ھناک بعد صفارقۃ الا بدان وروح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صعدت الی ھناک فی حال الحیوۃ ثم عادت وبعد وفاتہ استرت فی الرفیق الا علے مع ارواح الانبیاء ومع ھذا فلھا اشراف علی البدن و اشراق وتعلق بہ بحیث یردالسلام علی من سلم علیہ وبھذا لتعلق عای موسیٰ قائما یصلی فی قبرواسراء فی السماء لساد ستو معلوم انہ لم یعرج بموسی من قبرہ ثمردالیہ وانما ذلک مقام روحہ واستقوار ھا وقبرہ مقام بدنہ واستقرارہ الی یوم معاد الاروح الی اجساد مافراہ یصلی فی تبرہ وراہ فی السماء السادسۃ کا انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی ارفع مکان فی الرفیق الا علے مستقر ھناک وبدنہا فرج عبر مسود۔ سلم علیہ المسلم رادا اللہ علیہ روحہ حتی یرد (علیہ السلام) و لم یقارق لللاء الا علی ومن کشف ادراکہ و غلظت طباعہ عن ادراک ھذا فلنظر الی الشمس فے علو محلھا وتعلقھا و تاثیر ھانی الارض وحیوۃ النبات والحیوان بما ھذا وشان الروح فوق ھذا فلھا شان وللا بدان شان وھذہ النار تکون فی محلھا وحرار تھا توثر فی الجسم البعید عنھا مع ان الا رتباط والتعلق الذی بین لروح والھد لی قری واکمل من ذلک واتم
اور مکہ اور دنیا کے اور اطراف میں چلا گیا ہے۔ حالانکہ اس کی روح نہ چڑھی نہ کہیں گئی۔ بلکہ خواب کے غلبہ نے اس کی نظر میں ایک صورت بنادی۔ جو لوگ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معراج کے قائل ہیں۔ ان کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح اور بدن دونوں کو معراج ہوئی۔ دوسرا کہتا ہے کہ معراج میں ان کی روح گئی تھی بدن نہیں گیا۔ اور اس سے ان کی یہ مراد نہیں ہے کہ معراج خواب میں ہوئی بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح اسرا میں گئی اور حقیقت میں اسی کو معراج ہوئی۔ اور اس نے وہی کام کیا جو بدن سے جدا ہونے کے بعد روح کرتی ہے اور اس واقعہ میں اس کا حال ایسا ہواجیسا کہ بدن سے جدا ہونے کے بعد روح ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر جاتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی اور خدا کے سامنے ٹھہر جاتی ہے۔ پھر خدا جو چاہتا ہے اس کو حکم کرتا ہے پھر زیر زمین پر اترتی ہے۔ پس جو حال رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معراج میں ہوا وہ اس سے زیادہ کامل تھا جو روح کو بدن چھوڑنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ حال اس کیفیت سے جو سونے والا خواب میں دیکھتا ہے بالاتر ہے لیکن چونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے (بلند) مرتبہ کے سبب بہت سے فطرت کے
نشان الروح اعلی من ذلک والطف
فقل العیون الرمذ ایاک ان تری
سنا الشمس استغثی ظلام اللیالیا
(زاد للماد ابن قیم جلد اول صفحہ - -)
قاعدوں کو توڑا یہاں تک کہ زندگی میں ان کا پیٹ چاک کیا گیا اور ان کو تکلیف نہ ہوئی۔ اس لیے حقیقت میں بدون مرنے کے خود ان کی روح مقدس کو معراج ہوئی۔ اور جو ان کے سوا ہیں ان میں سے کسی کی روح بدون مرنے اور بدن چھوڑنے کے آسمان پر صعود نہیں کرتی۔ انبیاء کی رو میں اس مقام پر بدن سے جدا ہونے کے بعد پہنچتی ہیں۔ اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح زندگی ہی میں اس مقام تک گئی اور واپس آگئی۔ اور بعدوفات کے دیگر انبیاء کی روحوں کے ساتھ مقام ” رفیق اعلیٰ “ میں ہے اور باوجود اس کے بدن پر اس کا پر تو اور اس کی اطلاع اور اس کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اور اسی تعلق کے سبب سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موسیٰ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور پھر ان کو چھٹے آسمان پر بھی دیکھا۔ اور یہ سب کو معلوم ہے کہ نہ موسیٰ نے قبر سے صعود کیا نہ واپس آئے۔ بلکہ وہ ان کی روح کا مقام اور اس کے ٹھہرنے کی جگہ ہے اور قبر ان کے بدن کا مقام اور اس کے ٹھہرنے کی جگہ ہے جب تک کہ روحیں دوبارہ بدنوں میں آئینگی۔ اسی لیے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور پھر چھٹے آسمان پر دیکھا۔ جیسا کہ خود رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی روح) ” رفیق اعلیٰ “ میں ایک بلند مقام پر ہے۔ اور ان کا بدن قبر میں موجود ہے اور جب کوئی مسلمان ان پر درود و سلام بھیجتا ہے خدا ان کی روح کو بدن میں واپس بھیجتا ہے تاکہ اس کے سلام کا جواب دیں حالانکہ پھر بھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح ملاء اعلیٰ سے جدا نہیں ہوتی۔ اور جس شخص ک کی عقل تاریک اور طبیعت اس بات کے سمجھنے سے عاجز ہے۔ وہ دیکھے کہ آفتاب بہت بلندی پر ہے اور اس کا تعلق اور تاثیر زمین میں اور فرات اور حیوان کی زندگی میں ہے۔ اور روح کا حال تو اس سے بالاتر ہے۔ کیونکہ روح کا حال اور ہے اور اجسام کا حال اور۔ یہی آگ اپنی جگہ میں ہوتی ہے اور اس کی گرمی اس جسم میں سرایت کرتی ہے جو اس سے دور ہے حالانکہ جو ربطہ اور تعلق روح اور بدن کے درمیان ہے وہ اس سے زیادہ لطیف اور بالاتر ہے۔ درد بھری آنکھوں سے کہہ دے کہ آفتاب کی روشنی کو دیکھنے سے بچو۔ ورنہ راتوں کا اندھیرا چھا جائے گا ۔
تصریح تیسری دلیل کی
جو الفاظ کی مالک بن صعصعہ کی حدیثوں میں ہیں ” انا عند البیت میں التائم والیقظان “ اور ایک حدیث میں ہے ” فی الحجر مضطجعا “ اور انس بن مالک کی حدیث میں ہے ” تنامہ عینہ ولا ینامہ قلبہ “ اور اس حدیث کے آخر میں ہے ” فاستیقظ وھو فی المسجد الحرام “ یہ صاف دلیلیں اس بات کی ہیں کہ اسرا اور معراج سونے کی حالت میں ہوئی تھیں۔
مالک بن صعصعہ کی حدیثوں پر تو کسی شخص نے اعتراض نہیں کیا مگر انس بن مالک کی حدیث پر جس کے راویوں میں سے ایک راوی شریک بھی ہے اعتراض کیا ہے۔ اور اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ تین فرشتے وحی آنے سے پہلے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور وہ مسجد حرام میں سوتے تھے۔ اس کے بعد بیان کیا ہے کہ ایک دوسری رات کو فرشتے آئے ایسی حالت میں جب کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل دیکھتا تھا اور آنکھیں سوتی تھیں اور دل جاگتا تھا۔ پس اس حدیث میں دو نقص ہیں اول تو تزلزل ہے بیان میں۔ دوسرے یہ کہ وحی آنے سے پہلے فرشتوں کا آنا بیان ہوا ہے۔ مگر یہ اعتراض صحیح نہیں ہے کیونکہ پہلا جملہ ایک الگ واقعہ کا بیان ہے اور دوسرا جملہ جس میں ” فیما یری قلبہ وتنامہ عینہ “ آیا ہے وہ بیان ہے اسرا اور معراج کا۔ چنانچہ عینی شرح بخاری میں لکھا ہے۔
قال النوی جاء فی روایۃ شریک اوھام انکرھا العلماء من حمل تھا انہ قال ذلک قبل ان یوحی الیہ وھو غلط لھایوافق علیہ وایضا العلماء احمص اعلی ان فرضل الصلوۃ کان لیلۃ الا سراء فکیف یکون قیل الوحی۔۔۔ وانکوھا الخطابی وابن حرم و عبدالحق والقاضی عیاض والنودی۔۔۔ وقد صرح ھولاء المذکورون بان شریکا متفرد ون لک۔۔۔ قولہ فلم یرحم ان بعد ذلک حتی اترہ لیلۃ اخری لم یعین الدۃ التی بین المجیئین فیحل علی ان نکجئی الشافی کان بعد
امام نووی کہتے ہیں کہ شریک کی روایت میں چند غلطیاں ہیں جن کا علما نے انکار کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے کہا ہے کہ معراج وحی آنے سے پہلے ہوئی اور یہ غلط ہے کسی نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔ اور علما باہم اس پر بھی متفق ہیں کہ نماز کا فرض ہوتا معراج کی رات میں ہوا۔ پس معراج کیونکر وحی آنے سے پہلے ہوسکتی ہے۔۔۔ خطائی ۔ ابن حزم۔ جسدالحق الوحی الیہ وجینئذ وقع الاسراء والمعراج واذا کان بین المجیئبین عدۃ فلا فرق بین ان تکون تلک المدۃ لیلۃ واحدۃ اولیالی کثیرۃ اوعدۃ سنابن وبھذا یرتنیع الا شکال عن رولیۃ شویک ویحصل الوفاق ان لا سلء کان فی البقظۃ بعد البعثۃ وقبل الھجرۃ فیسقط تشنبیع الخظابی وابن حزم و غیر ھما یان شریکا خالف الا جماع فی دعواہ ان المعراج کان قبل البعثۃ۔ (عینی جلد صفحہ -)
قاضی عیاض اور امام نووی نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور انھوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ شریک اس بات میں اکیلا ہے۔۔ راوی کا یہ قول کہ اس کے بعد ان کو کسی نے نہیں دیکھا یہاں تک کہ وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دوسری رات آئے۔ اس میں اس نے دونوں دفعہ آنے میں جو مدت گزری اس کو بیان نہیں کیا ہے۔ پس خیال کیا جائے گا کہ دوسری دفعہ کا آنا وحی آنے کے بعد ہوا۔ اور اس وقت اسرا اور معراج واقع ہوئی۔ اور اگر دونوں دفعہ کے آنے میں کوئی مدت ہے تو کوئی فرق نہیں ہے اس میں کہ وہ مدت ایک رات ہو یا بہت سی راتیں ہوں یا چند سال ہوں۔ اور اس سے شریک کی روایت میں جو اشکال پیدا ہوتا ہے۔ وہ اٹھ جاتا ہے۔ اور اس بات پر اتفاق کا ہونا نکلتا ہے کہ اسرا جاگتے میں بعد نبوت کے اور قبل ہجرت کے ہوئی ۔ پس خطابی ۔ ابن حزم اور دیگر معترضین کی۔ ملامت دور ہوجاتی ہے کہ شریک نے اجماع امت کو اپنے اس دعویٰ سے توڑا ہے کہ معراج نبوت سے پہلے ہوئی۔
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ پہلا واقعہ ایک رات کا ہے جس میں نہ معراج ہوئی ہے نہ کچھ اور واقعہ ہوا ہے۔ اور اس رات فرشتے آئے اور صرف دیکھ کر چلے گئے اور اسی کی نسبت شریک نے بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ قبل وحی کا ہے۔ دوسرا جملہ متعلق ہے اسرا اور معراج سے جیسا کہ عینی نے بیان کیا ہے اس صورت میں شریک کی حدیث میں اور او قولوں میں کہ اسرا بعد نبوت ہوئی تھی کچھ اختلاف باقی نہیں رہتا لیکن عینی نے جو یہ بیان کیا ہے کہ ” ویحصل الوفاق ان الاسراء کان فی الیقظۃ بعد البعثۃ “ اس جملہ کا پہلا حصہ غلط ہے اس لیے کہ اس بات میں اتفاق نہیں ہوا کہ اسرا فی الیقظۃ تھی بلکہ اس دوسرے جملہ بھی صاف بیان کیا گیا ہے۔ ”
تفسیر سرسید :۳
فیمایری قلبہ ولاتنام عینہ ولا ینام قلبہ “ اور تمام قصہ معراج کا بیان کرنے کے بعد حدیث کے اخیر میں بیان کیا ہے ” فاستقیظ وھو فی المسجد الحرام “ یعنی ان تمام واقعات کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاگے اور وہ مسجدحرام میں تھے۔ پس کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ ان حدیثوں سے صاف ثابت ہوسکتا ہے کہ اسرا اور معراج ابتدا سے انتہا تک سونے کی حالت میں ہوئی تھی اور وہ ایک خواب تھا جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا۔
فیمکن ان یقال کان فی اول الا سرواخرہ فی النوم ولیس ففیہ مایدل علی کوندنا ئما فی القصۃ کلھا۔ (عینی جلد صفحہ )
اور عینی میں جو یہ بات لکھی ہے کہ ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ آنحضرت فیمکن شروع معراج اور آخر معراج میں سوتے تھے اور اس حدیث میں کوئی دلیل اس بات پر نہیں ہے کہ رسول خدا فیمکنکل قصہ میں سوتے رہے۔
ایسی بودی اور ضعیف ہے کہ کوئی شخص بھی اس پر کان نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ درمیان معراج کے کسی وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاگ اٹھے تھے بلکہ کسی حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاگتے ہونے کا اشارہ بھی نہیں ہے۔
مالک بن صعصعہ کی حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں ” بین النائم والیقظان “ اس کی نہایت عمدہ تشریح انس بن مالک کی حدیث سے ہوتی ہے جس میں بیان ہے ” فیما یری قلبہ وتنام عینہ ولا ینام قلبہ “ اور تمام انبیاء کا سونے میں یہی حال ہوتا ہے۔ ظاہر میں آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے۔
تصریح چوتھی دلیل کی
ہم سمجھتے ہیں کہ اس دلیل کی زیادہ تصریح کرنے کی ہم کو چنداں ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ جن صحابہ کا مذہب یہ تھا کہ جسم مبارک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معراج میں نہیں گیا تھا بلکہ معراج سونے کی حالت میں بالروح ہوئی تھی ان کے نام مع ان کی اقوال کی سند کے ہم نے لکھ دیئے ہیں اور اس لیے زیادہ تشریح کی ضرورت نہیں ہے مگر شفا قاضی عیاض نے مندرجہ حاشیہ نام ان لوگوں کے لکھے ہیں جن کا مذہب یہ ہے کہ معراج بجسدہ فے الیقظۃ ہوئی تھی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ
عبداللہ ابن عباس۔ جبار بن عبداللہ۔ انس بن مالک ۔ حذیفہ بن الیمان۔ عمر بن اخلطاب۔ ابوہریرہ۔ مالک بن صعصعہ۔ ابوحبۃ البدوی۔ عبداللہ ابن مسعود۔ ضحاک۔ سعید ابن جبیر۔ قتادہ۔ ابن لمسیب۔ ابن شہاب۔ ابن زید ۔ حسن ۔ ابراھیم۔ مسروق ۔ مجاہد۔ عکرمہ۔ ابن جریح۔ (شفاقاضی عیاض صفحہ )
اسامہ بن زید۔ انس بن مالک۔ جابر بن عبداللہ۔ حذیفہ بن الیمان۔ عبداللہ بن عباس۔ عبداللہ بن مسعود۔ عمر بن الخطاب۔ مالک بن صعصعہ اور ابوہریرہ تو صحابی ہیں اور باقی تابعی وغیرہ۔
مگر ہم کو نہیں معلوم کہ قاضی عیاض نے جو ان کا مذہب قرار دیا ہے۔ اس کی کیا سند ہے اور کہاں سے اس نے استنباط کیا ہے۔
انس بن مالک اور مالک بن صعصعہ دو صحابیوں کی حدیثیں ہم نے اوپر نقل کی ہیں۔ جن کی حدیثوں میں خود الفاظ ” انا نائم “ اور ” بین النائمووالیقظان “ اور ” فی الحجر مضطجعا “ اور ” فیما یری قلبہ وتنام عینہ ولا ینام قلبہ “ اور ” ثم استیقظ وھوفی المسجد الحرام “ موجود ہیں۔ جن سے صاف پایا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک معراج بحالت نوم ہوئی تھی پس معلوم نہیں ہوتا کہ ان دونوں صحابیوں کے نام قاضی عیاض نے ان لوگوں کی فہرست میں کیوں داخل کئے ہیں جن کا مذہب بجسدہ اور نی لیقظۃ ہونے کا ہے۔
مالک بن صعصعہ اور انس بن مالک کی حدیثوں میں قتادہ بھی ایک راوی ہیں۔ پھر وہ کسی طرح ان لوگوں کی فہرست میں داخل نہیں ہوسکتے۔ جو معراج کے بجسدہ اور فی الیقظۃ ہونے کے قائل ہیں۔
سوائے صحاح کے اور کتب حدیث میں جو حدیثیں ہیں ان پر بھی ہم نے سرسری طور سے نظر ڈالی ہے سوائے ایک حدیث کے جو بیہقی میں ہے اور جس میں یہ الفاظ ہیں ” بینما انا نائم عشاء فی المسجد الحرام اذا تانی ات فایقظنی فاستیقطت “ یعنی میں عشاء کے وقت مسجد الحرام میں سوتا تھا کہ ایک آنے والا آیا اس نے مجھ کو جگایا اور میں جاگا۔ اور کسی حدیث میں جاگتے یا سوتے ہونے کا کچھ ذکر نہیں۔ پس ایسی حدیثوں سے اس بات پر استدلال کرنا کہ ان کے راویوں کا مذہب یہ ہے کہ معراج بجسدہ اور فی الیقظۃ ہوئی تھی ۔ کسی طرح پر صحیح نہیں ہے۔ علاوہ اس کے بیہقی اور دیگر کتب کی حدیثیں جو صحاح میں داخل نہیں ہیں لائق وثوق اور قابل احتجاج نہیں ہیں۔ پس قاضی عیاض نے جو فہرست لکھی ہے اس کا ماخذ ایسا نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے۔
تصریح پانچویں دلیل کی
یہ دلیل اس امر سے علاقہ رکھتی ہے کہ اگر عقل اور نقل میں بظاہر اختلاف پایا جاتا ہو تو نقل کے معنی اس طرح پر بیان کرنے چاہئیں جو عقل کے مطابق ہوں۔ مگر اس کی تصریح بیان کرنے سے پہلے ہم کو یہ بات بیان کرنی چاہیے کہ حدیثیں جو کتابوں میں جمع ہوئی ہیں ان کے الفاظ وہ نہیں ہیں جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کئے تھے۔ بلکہ راویوں کے لفظ ہیں جو انھوں نے اپنی سمجھ کے موافق بیان کئے ہیں۔
اس باب میں کہ حدیث بلفظہ روایت کرنی لازم ہے یا بالمعنی بھی۔ وایت کرنا جائز ہے محدثین میں اختلاف رہا ہے ایک گروہ محدثین کا حدیث کو بالمعنی روایت کرنا جائز نہیں سمجھتا بلکہ بلفظہ روایت کرنا ضروری سمجھتا تھا چنانچہ فتح المغیث شرح الفیتہ الحدیث میں جو حافظ زیا الدین عراقی کی تصنیف ہے لکھا ہے۔
قیل یا یجوزلدالروایۃ بالمعنی مطلقاقال طائفۃ من الحدیکن والفھاء والا صولیین من الشافعیۃ وغیرہھم قال القرطبی وھو الصحیح من مذہب مالک حق ان بعض من ذھب لھذا شدد فیہ اکثر التشدید فلم یجوز تقد یم کلمۃ علی کالمۃ ولا حرف علی آخر ولا ابدال حرف باخرولا زیادۃ جرف ولا حذفہ فضلا عن اکثر ولا تخفیف ثقیل ولا تثقیل خفیف ولا رفع منصوب ولا نصیا مجرورا اومرفوع ولو لم یتغیر المعنی ذلک کلہ بل اقتصر بعضھم علی القظ ولو خالف اللغۃ الفصیحۃ کذالو کان لحنا کما یین تفصیل ھذا کلہ الخطیب فی الکفایہ۔ (فتح المغیث صفحہ )
محدثین ۔ یقہا اور اصولیین شافعیہ وغیرہ کا ایک گروہ روایت بالمعنی کو مطلقا روا نہیں رکھتا۔ قرطبی نے کہا ہے کہ امام مالک کا اصلی مذہب بھی یہی ہے۔ یہاں تک کہ جو اس طرف گئے ہیں ان میں سے بعض نے اس باب میں بہت سختی کی ہے۔ پس ان کے نزدیک ایک کلمہ کا دوسرے کلمہ پر یا ایک حرف کا دوسرے حرف پر مقدم لانا جائز نہیں ہے۔ نہ ایک حرف کا دوسرے حرف کی جگہ بدلنا۔ نہ ایک حرف کو زیادہ یا کم کرنا چہ جائیکہ بہت سے حرفوں کو نہ ثقیل کو خفیف کرنا اور نہ خفیف کو ثقیل کرنا۔ نہ منصوب کو رفع دینا۔ نہ مجردر یا مرفوع کو نصب دینا اگرچہ ان تمام صورتوں میں معنی نہ بدلتے ہوں۔ بلکہ انھوں نے لفظ ہی پر بس کی ہے چاہے لغت فصیح کے برخلاف ہی ہو۔ اور ایسا ہی چاہے غلط ہو ۔ خطیب نے کفایہ میں اس کو مفصل بیان کیا ہے۔
وقیل لا یجوز لغیرا الصحابۃ خامسۃ لظہور اخلل فی اللسان بالنسبۃ لمن قبلھم بخلاف الصحابۃ فھم ارباب اللسان واعلم الخلق بالکلام حت ہ الماوردی والو ویانی فی باب القضابل جزما بانہ
اس تشدد میں جو بلفظہ حدیث کے بیان کرنے کی نسبت تھا بعض بزرگوں نے نرمی کی اور کہا کہ صرف صحابہ اور تابعین کو بالمعنی روایت کرنی جائز ہے اور کو نہیں چنانچہ فتح المغیث میں لکھا ہے کہ اور کہا گیا ہے کہ صحابہ کے دوسروں کرلئے روایت بالمعنی کرنا روا نہیں ہے۔ کیونکہ زبان میں لایجوز لغیر الصحابی وجعل الخلاف فی الصحابی دون غیرہ وقیل لا یجوز لغیر الصحابۃ والتابعین بخلاف من کان منھم وبہ جزم بعض معامر الخطیب وھو حمید القاضی ابی بکر فی ادب الروایۃ قال لان الحدیث اذا قیدہ بالا سناد وجب ان لا یختلف لفظہ فیدخلہ الکذب (فتح المغیث صفحہ - )
بنسبت ان کے جو پہلے تھے۔ خلل آگیا ہے۔ برخلاف صحابہ کے اس لیے کہ اہل زبان اور کلام کو خوب سمجھنے والے تھے۔ ماوردی اور رویانی نے باب القضا میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ اس بات کو زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ صحابی کے سوا دوسرے کو روایت بالمعنی جائز نہیں۔ مگر یہ ان کا اختلاف صرف صحابی میں ہے نہ اوروں میں اور بعض کہتے کہ صحابہ اور تابعین کے سوا دوسروں کی روایت بالمعنی جائز نہیں ہے۔ اور خطیب کے ایک معاصر یعنی قاضی ابوبکر کے پوتے نے ادب الروایۃ میں اس کو زور کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جب حدیث میں اسناد کی قید لگائی تو یہ واجب ہے کہ لفظ نہ بدلیں تاکہ جھوٹ داخل نہ ہوجائے باوجود اس قید کے بھی یہ بات کہی گئی کہ روایت کرنے کے بعد راوی کو ایسے الفاظ کا کہہ دینا ضرور ہے جن سے معلوم ہو وے کہ حدیث کے بعینہ وہی لفظ نہیں ہیں جو پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائے تھے چنانچہ فتح المغیث میں لکھا
ولیقل الوادی حقب ایراد ہ الحدیث بمعنی ای بالمعنی لفظ ادا کمال فقد کان انس (رض) کما عندا لخطیب فی باب المعقود لمن اجانا الروایۃ بالمعنی اقولھا عقبا الحدیث ومخوہ من الا لفاظ کقولسا ونحو ھذا اوشبھہ اوشکلہ فقد روی الخطیب ایضاً عن ابن مسعود انہ قال سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثم ارعد دارعدت یثابہ وقال او شبہ ذا او نحوذا وعن ابی الدرداء انہ کان اذا فرغ من الحدیث عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال ھنا اور تحر ھذا اوشکلہ ورواھا کلھا الدارمی فی مسندہ بنجوھا ولفظہ فی ابن مسعود وقال او مثلہ اونحوہ اوشبیہ بہ وفی لفظ اخرلغیرہ ان عمر بن میموں سمع یوما ابن مسعود یحدث عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقد علاہ کرب وجعل العرق یخد رمنہ عن جبینہ وھو یقول مافوق ذلک واما دون ذلک واما قریب من ذلک وھذا کشک
ہے کہ راوی کو حدیث بالمعنی بیان کرنے کے بعد کہنا چاہیے ” اوکما قال “ خطیب نے ایک باب میں جس میں ان کا بیان ہے جن کو روایت بالمعنی کی اجازت ہے۔ کہا ہے کہ انس (رض) حدیث کے بعد کہتے تھے اس کے قول کی مانند یا ایسا یا اس جیسا یا اس سے ملتا جلتا خطیب نے ابن مسعود سے روایت کی ہے انھوں نے کہا کہ میں نے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنا ہے پھر کانپے اور ان کا کپڑا ہلنے لگا اور کہا۔ اس کی مانند یا اس کی مثل ابودردا سے روایت ہے کہ جب وہ حدیث بیان کر چکتے تو کہتے کہ یہ کیا تھا اس کی مثل یا اس جیسا۔ دارمی نے اپنس مسند میں یہ سب الفاظ بیان کئے ہیں ابن مسعود کے الفاظ اس میں یہ ہیں اس کی مثل یا اس کی مانند یا اس کے مشابہ اور من الحدث والقاری ابھما علیہ الا مربہ قانہ یحسن ان یقول اور کما قال۔ (فتح المغیث صفحہ )
دوسرے راوی نے اور الفاظ بیان کئے ہیں۔ چنانچہ عمر بن میموں نے کہا کہ میں نے ایک روز ابن مسعود کو حدیث بیان کرتے سنا اور ان کو تکلیف ہونے لگی اور پسینہ ان کی پیشانی سے ٹپکتا تھا۔ اور وہ کہتے تھے کہ اس سے زیادہ یا اس سے کم یا اس کے قریب۔ غرضیکہ ایسا لفظ کہے جس سے قاری اور محدث کا شک ظاہر ہو۔
باوجود اس کے صحابہ اور تابعین برابر حدیث کو بالمعنی روایت کرتے تھے۔ جیسا کہ فتح المغیث کی مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہوتا ہے۔
وعنبعض التابعین قال لقیت اناسا من الصحابۃ فاجتمعوا فی بلعنی واختلفوا علی فی اللفظ فقلت ذلک وبعضھم فقال لا باس بہ مالم یحل معناہ حکاہ المشافعی وقال حذیفۃ انا قوم عرب نورو الاحادیث فقکدم ونو محو وقال ابن سیرین کنت اسمع الحدیث من عشرۃ المعنی واحد اللفظ مختلف و ممن کان یروی بالمعنی من التابعین الحسن والشعبی والنخعی بل قال ابن الصلاح انہ الذی شھدیہ احوال الصحابۃ والسلف الاولین فکثیر ماکانوا ینقلون معنی واعتابا فی امواحد بالفظ مختلفۃ وما ذاک لان معولھم کان علی المعنی دون اللفظ۔ (فتح المغیث صفحہ )
ایک تابعی کہتے ہیں کہ میں بہت سے صحابیوں سے ملا ہوں۔ جو معنی میں متفق اور الفاظ میں مختلف تھے میں نے ایک صحابی سے کہا تو کہنے لگے کیا مضائقہ ہے اگر معنی نہ بدلیں یہ شافعی کا بیان ہے۔ اور حذیفہ کہتے تھے ہم قوم عرب ہیں جب حدیث بیان کرتے ہیں الفاظ آگے پیچھے کردیتے ہیں ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں دس آدمیوں سے حدیث سنتا تھا۔ معنی یکساں اور الفاظ جدا جدا ہوتے تھے۔ تابعین میں سے حسن شعبی اور نخعی روایت بالمعنی کرتے تھے۔ ابن صلاح کہتے ہیں کہ صحابہ اور سلف اولین کے حالات اس پر شاہد ہیں کہ وہ اکثر ایک مطلب کو مختلف الفاظ میں بیان کرتے تھے۔ کیونکہ ان کا زیادہ تر خیال مضمون پر ہوتا تھا نہ الفاظ پر۔
قال الحسنلولا المعنی ماحدثنا وقال الثوری لواردتا ان نحدثکم بالحدیث کما سمعناہ ماحدثنا کم بحرت واحد۔ (فتح المغیث صفہ )
حسن (رض) کہتے ہیں کہ اگر روایت بالمعنی کی اجازت نہ ہوتی تو ہم حدیث نہ بیان کرسکتے۔ اور ثوری کہتے ہیں کہ اگر ہم حدیث اسی طرح تم سے بیان کرنا چاہیں جس طرح سنی ہے تو ایک حرب بھی نہیں بیان کرسکتے۔
ولیروبالا لفاظ اللتیلفظ اللتی سمع بھا مقتصرا علیھا بدولی تقدیم ولا آخیر ولا زیادۃ ولا نقص لحرف فاکثرولا ابدالی حرف و اکثر بغیر ولا مشدد بمثقل ماوعک من لا ھلمصد لولھا ای الفاظ فی اللسان ومقاصدھا وما یحل معنا ماو المحتمل من غیر والمرادف منھا و ذلک علیٰ وجہ الوجوب بالاخلاف بین العلماء۔ (فتح المغیث صفحہ )
بالآخر حدیثوں کا بعض شرطوں سے بالمعنی روایت کرنا محدثین کے نزدیک جائز قرار پایا۔ چنانچہ امام سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں کہ ا سبات میں سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص عربی زبان کے الفاظ کے مدلول اور ان کے مقاصد اور معنی کے متغیر ہونے اور محتمل اور غیر محتمل معنی اور مرادف کو نہیں جانتا اس کے لیے ضروری ہے کہ انہی الفاظ سے روایت کرے جو اس نے سنے ہیں بغیر تقدیم و تاخیر کے اور بغیر ایک حرف کی بھی زیادتی یا کمی کے۔ اور بغیر ایک حرف کے بھی بدلنے کے اور مشدد کی جگہ ثقیل اور ثقیل کی جگہ مشدد لانے کے۔
واما غیرہلمن یعلم ذلک و یحققہ فاختلف فیہ السلف واصحاب الحدیث وارباب الفقہوالا صول فالمعظم منھا اجازلہ الروایۃ بالمعنی ان کان قاطعا یا نہ ادی معنی اللفظ الذی بلغہ سواء فی ذلک المرفوع او یرہ کان من جبہ العلم اوالعمل وقع من الصحابی او التابعی اور غیرھما حفظ اللفظ ام لا صدرفی الا فتاء والمناظرہ اوالروایۃ اقی بلفظ مرادف لہ ام لا کان مناہ غامضا اوظھارا حیث لم یحتمل اللفظ غیر ذلک المعنی وغلب علی ظنہ ادادۃ الثارع لھذا للفظ ماھو موضوع لہ دون التحو زفیہ والا ستعارۃ (فتح المغیث صفحہ )
اور کچھ لوگ ان لوگوں کے سوا ہیں جو ان سب باتوں کو جانتے ہیں ان کے روایت بالمعنی کرنے میں اہل حدیث۔ اہل فقہ اور اہل اصول میں اختلاف ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان کو بالمعنی روایت کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگر روایت کرنے والا قطعنا سمجھتا ہو کہ جو لفظ اس نے سنا اس کے معنی پورے پورے ادا کردیئے ہیں اور روایت مرفوع ہو یا غیر مرقوع علم پر دلالت کرتی ہو یا عمل پر صحابی سے ہو یا تابعی سے یا ان کے سوا کسی اور سے منقول ہو۔ راوی نے الفاظ یاد رکھے ہوں یا نہیں افتا اور مناظرہ میں ہو یا روایت میں اس کا مرادف لفظ بیان کیا ہو یا نہیں۔ اس کے معنی مبہم ہوں یا ایسے ظاہر کہ اس لفظ سے دوسرے معنی کا احتمال نہ نکلے۔ اور اس لفظ سے جو کچھ شارع نے مراد لی ہے۔ راوی کا ظن غالب بھی اسی طرف گیا ہو ۔ اور اس معنی مراد لینے میں نہ مجاز ہو نہ استعار۔
ان روایتوں سے بخوبی ظاہر ہے کہ ابتہ ا یعنی صحابہ و تابعین کے زمانہ حدیث کی روایت بالمعنی کرنے کا دستور تھا اور جو حدیثیں صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث میں لکھی ہیں سوائے شاذو نادر چھوٹی حدیثوں کے وہ سب لامعنی روایت کی گئی ہیں یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بات جن لفظوں سے فرمائی تھی وہ لفظ بعینہ و بجنسہ نہیں ہیں بلکہ رایوں نے جو مطلب سمجھا اس کو ان لفظوں میں جن میں وہ بیان کرسکتے تھے بیان کیا۔ پھر اسی طرح دوسرے راوی نے پہلے راوی کے اور تیسرے راوی نے دوسرے راوی کے اور چوتھے راوی نے تیسرے راوی کے بیان کو اپنے لفظوں میں بیان کیا اور علیٰ ہذا لقیاس پس حدیث کی کتابوں میں جو حدیثیں لکھی گئی ہیں وہ اخیر راوی کے لفظ ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ اس درمیان میں اصلی الفاظ سے کس قدر لفظ دل بدل اور الٹ پلٹ ہوگئے اور کچھ عجب نہیں کہ کسی نے حدیث کے اصل مطلب سمجھنے میں بھی غلطی کی ہو اور اصلی حدیث کا مطلب بھی بدل گیا ہو اور اس کے یعنی غلط مطلب سمجھنے کی مثال میں متعدد حدیثیں بھی موجود ہیں۔ خود صحابہ نے حدیث سماع موتیٰ اور حدیث تعذیب المیت بیکاء اھلہ کا مطلب سمجھا تھا۔
اسی باعت سے کہ حدیثوں کی روایت کے جو الفاظ ہیں وہ اخیرراویوں کے ہیں جب کہ اصلی زبان عرب میں کسی قدر تبدیلی ہوگئی تھی علمائے علم ادب نے حدیثوں کو بلحاظ علم ادب کے قابل سند نہیں سمجھا۔ چنانچہ
واما کلامہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیستدل منہ بما ثبت اندق لہ علی اللفظ المروں و ذلک نادر جدا اضایوجدنی الا حادیث القصہ علی قلۃ ایضا فان غالب الاحادیث مروی بالمعنی و قد تداول تھا الاعا جم والمولدون قبل تد وبینھا فردوھا بما ادت لیہ عبارتم فزادوا ونقصوا وقدموا اخروا وابدلوا الفان بالقاء ولھذا تری الحدیث الواحد فی القصۃ الوعدۃ موایہ اعلے اوجہ شتی بعبازت مختطۃ ومن ثم انکر علی ابن مالک اشباتہ القواعد النحویہ یا لا لفاظ الواردۃ فی الحدیث قال ابن حیان فی شرح التسھیل قدا کثر ھذا المصنف من الاستدلال ما وقع فی الحادیث علی اثبات القواعد الکلیۃ فی سان العرب و مارایت احدا من للتقدمین ونتا خرین سلاک ھذہ الطریقۃ غیرہ علی ا الزضعین الاولین لعلم الحق المستقرئین للا لکم من لسان العرب
جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الاقتراح میں لکھا ہے پیغمبر خدا کی اس کلام سے استدلال کیا جاتا ہے جس کی نسبت ثابت ہوچکا ہے کہ یہی الفاظ جو روایت کئے گئے ہیں۔ ان کی زبان مبارک سے نکلے ہیں۔ اور یہ بہت ہی کم ہے۔ صرف چھوٹی چھوٹی حدیثوں میں ہے ورنہ اکثر حدیثیں بالمعنی روایت ہوئی ہیں اور عجمیوں اور مولدین نے حدیثوں کو ان کے جمع ہونے سے پہلے استعمال کیا ہے۔ پھر خود ان کی عبارت حدیثوں کے مطلب کو جہاں کھینچ کرلے گئے وہیں پہنچا دیا۔ بڑھایا۔ گھٹایا۔ تقدیم و تاخیر کی کا بی عمرو بن العلا ویسیٰ بن عمرو الخلیل وسیبویہ من انئۃ البصریین والکسائی والفراء وعلی بن مبارک الا حمرو ہشام الضریر من اتمۃ الکونین لم یفعلوا ذلک وتبعھم علی ھذا المسلک المتاخرون من لفریقین وغیرھم عن نحاۃ الا قالیم کنحاۃ بغدد واھل الا ندلس وتدجری الکلام فی ذلک مع بعض المتاخرین الا ذکیاء فقال انما ترک العلماء ذلک لعدوثوقیم ان ذلک لفظ الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذوثقوا بذلک لجری مجری القرآن فی اثبات القواعد الکلیۃ وانسا کان ذلک لا مرین احدھما ان الروا ۃ جو زو النقل بالمعنی فتجد قصعۃ واحدہ تذجرت فی زمانہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لم تنقل بتلک الا لفاظ جمیعا نحو ماروی من قولہ زوجتہا بما معک من القرآن ملکتکہا بما مع خذھا بما معک وغیر ذلک من الا لفاظ الواردۃ فی ھذہ القضۃ فنعلم یقیناً انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لم یلفظ بجمیع ھذہ الا لفاظ بل لا یخزم یا نہ قال بعضھا ذیحتمل انہ قال لفظا مراد فالھذہ الالفاظ غیر ھا فاتت الرواۃ بالمرادف ولم تات بلفظہ اذا لمعنی ھو مطلوب ولا سیما مع تفادم السماع وعدم حنبطہ بالکتابۃ والا تکال علی الحفظ فالضابطہ منھم من ضبیط المعنی واما فبط اللفظ فبعید جدہا لا سیمافی الاحادیث الطوال وقد قال سفیان الثوری ان قلت لکھما فی احدثکم کما سمعت فلا تصدقولی انماھوا المعنی ومن نظرنی الحدیث ادنی نظر علم عم الیقین انھم انما یرودن بالمعنی۔۔۔ وقال ابوحیان انما امعنت الکلام فی ھذہ المسئلۃ لئلا یقول المبتدی ما بال التحویین یستدلون بقول العرب وفیھم المسلم الکافر ولا یستدلون بما روی فی الحدیث ینقل العدول کا لبخاری و مسلم واضرا بھما فمن طالع ما ذکرناہ
اور الفاظ بدل دیئے۔ اسی لیے ایک حدیث ایک ہی مضمون کی مختلف طور پر جدا جدا عبارتوں میں بیان ہوئی ہے۔ اور اسی لیے ابن مالک پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس نے الفاظ حدیث سے قوعد نحویہ کو ثابت کیا ہے۔ ابوحیان شرح تسیل میں لکھتا ہے کہ اس مصنف نے عربی زبان کے قواعد کلیہ کو اکثر الفاظ حدیث سے ثابت کیا ہے اور اس کے سوا مقتدمین اور متاخرین میں سے کوئی اس طریقہ پر نہیں چلا۔ علم نحو کے اول بانیوں اور زبان عربی کے قواعد کے محققوں جیسے ابو عمر ابن علا۔ عیسیٰ بن عمر اور رسیبویہ نے بصرف نحویوں میں سے اور کسائی۔ فرا۔ علی بن مبارک احمر اور ہشام الضریر نے کوئی نحویوں میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ اور دونوں قسم کے نحوی متاخرین میں سے اور بغداد اور اندلس وغیرہ مختلف ملکوں کے نحوی بھی اسی طریق پر چلے ہیں۔ متاخرین میں سے ایک عالم کے سامنے اس کا تذکرہ آیا تو اس نے کہا کہ علما نے اس طریقہ کو اس لیے ترک کیا ہے کہ ان کو ہرگز اعتماد نہیں ہے کہ یہ الفاظ بعینہ پیغمبر خدا کے ہیں۔ اگر وہ اعتماد کرتے تو قواعد کلیہ کے ثبوت میں حدیث بھی بمنزلہ قرآن کے ہوتی۔ اور یہ دو باعث سے ہوا ایک تو یہ کہ راویوں نے روایت بالمعنی کو ادرک السبب الذی لا جلہ لم یستدل النحاۃ بالحدیث انتیہی کلام ابن حیان فلفظۃ۔۔۔ وقال ابوالحسن ابن الصائع فی شرح الجمل تجویز الروایۃ بالمعنی ھوالسبب عندی فی ترک الا ممۃ کییویہ وغیرہ الا ستشھا وعلی اثبات اللغۃ بالحدیث واعتمد وانیذلک علی القرآن و صریح النقل عن العرب ولو لا تصریح العنماء بجواء العقل للعنی فی الحدیث لکان الاولی فی اثبات فصیح للغۃ کلاء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سزا فصح العرب (لا فتراح للسیوطی ص - - )
ومکذا فی خزانۃ الادب للعلامۃ عبدالقادر البغدادی ناقلاعن السیوطی ومصححالہ۔
جائز سمجھا اور تم دیکھو گے کہ ایک واقعہ جو پیغمبر خدا کے زمانہ میں ہوا تھا۔ انہی تمام الفاظ میں منقول نہیں ہوا ہے۔ جیسے ایک قصہ میں کہیں تو ” زوجتکھا بما معک “ اور کہیں ” ملکتکہا بما معک “ اور کہیں ” خذھا بما معک “ الفاظ بیان ہوئے ہیں۔ اور ہم یقیناً جانتے ہیں کہ پیغمبر خدا نے یہ تمام الفاظ نہیں کہے بلکہ ہمیں اس کا بھی یقین نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی لفظ کہا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ پیغمبر خدا نے ان الفاظ کا کوئی اور مرادف لفظ فرمایا ہو۔ پھر راویوں نے وہ لفظ نہ بیان کیا ہو اور اس کا مرادف لفظ کہہ دیا ہو اس لیے کہ مطلب تو معنی سے ہے۔ اور خاص کر جب بار بار سنا گیا اور لکھا نہ گیا اور حفاظہ پر بھروسا کیا گیا۔ پس ضابطہ وہی ہے جس نے مضمون یاد رکھا اور لفظ یاد رکھنا تو مشکل ہے خاص کر لمبی حدیثوں میں ۔ اور سفیان ثوری نے کہا ہے کہ اگر میں تم سے کہوں کہ میں نے جس طرح یہ حدیث سنی ہے اسی طرح تم سے بیان کرتا ہوں تو ہرگز یقین نہ کرنا بلکہ وہ صرف حدیث کا مضمون ہے۔ اور جو شخص ذرا بھی حدیث پر غور کرے گا اس کو یقین ہوجائے گا کہ سب بالمعنی روایت کرتے ہیں۔ ابوحیان کہتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ میں زیادہ گفتگو اس لیے کہ مبتدی یہ نہ کہہ دے کہ نحوی عرب کے قول سے جن میں مسلم اور کافر دونوں ہیں استدلال کرتے ہیں۔ اور الفاظ حدیث سے جو بخاری اور مسلم وغیرہ ثقہ اور معتمد لوگوں سے روایت ہوئی ہیں۔ استدلال نہیں کرتے۔ پس جو شخص ہمارے پچھلے بیان کو غور سے پڑھے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ نحویوں نے حدیث سے کیوں استدلال نہیں کیا۔۔۔ اور ابوالحسن ابن ضائغ شرح جمل میں کہتے ہیں کہ روایت بالمعنی کا جائز رکھنا ہی میرے نزدیک اس بات کا سبب ہے کہ سیبویہ جیسے نحویوں نے زیان کے کلیہ قواعد ثابت کرنے میں حدیث سے سند نہیں لی۔ اور اس باب میں قرآن اور عرب کے کلام پر اعتماد کیا ہے۔ اور اگر علما حدیث میں روایت بالمعنی کو جائز نہ رکھتے تو پیغمبر خدا کا کلام زبان فصیح کے ثابت کرنے میں زیادہ قابل اعتماد تھا کیونکہ پیغمبر خدا تمام عرب سے زیادہ فصیح تھے۔
علامہ عبدالقادر بغدادی نے خزانۃ الادب میں سیوطی کے قول کو نقل کرکے اس کی تصدیق کی ہے۔
علمائے علم حدیث نے جس قدر حدیثوں پر کوشش کی ” شکراللہ سعیھم “ ان کی کوشش صرف راویوں کے ثقہ اور معتمد ہونے کے دریافت کرنے میں ہوئی۔ مگر ہم کو نہیں معلوم ہوتا کہ جو حدیثیں معتبر سمجھی گئی ہیں ان کے مضمون کی صحت اور عدم صحت دریافت کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ حدیثوں کی تقسیم مرفوع۔ متصل۔ مسند وغیرہ پر کی گئی ہے۔ مگر وہ تقسیم بھی بلحاظ اسناد راویوں کے ہے۔ نہ بلحاظ درایت یعنی بلحاظ صحت یا عدم صحت یا مشتبہ ہونے مضمون حدیث کے۔ بقیہ تفسیر اگلی آیت میں
پچھلی تفسیر کا بقیہ پانچویں دلیل بھی نہایت بودی ہے۔ وہ دلیل اس امر پر مبنی ہے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں جانا خواب کی حالت میں بیان کرتے تو قریش اس سے انکار نہ کرتے اور جھگڑے کے لیے مستعد نہ ہوتے۔ ان کا جھگڑا صرف اسی لیے تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیت المقدس بجسدہ جانا خیال کیا گیا تھا۔ اس دلیل کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قریش کی مخالفت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی وجہ سے تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعویٰ نبوت و رسالت کیا تھا۔ اور واقعات معراج جو کچھ ہوئے ہوں وہ نبوت اور رسالت کے شعبوں میں سے تھے اور اس لیے ضروری تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان واقعات کا سوتے میں دیکھنا فرمایا ہو یا جاگنے کی حالت میں۔ قریش اس سے انکار کرتے اور نعوذ باللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے کیونکہ وہ اصل نبوت و رسالت سے منکر تھے پھر جو امور کہ شعبہ نبوت تھے ان سے بھی انکار کرنا ان کو لازم تھا۔
قریش خواب کو بھی شعبہ نبوت سمجھتے تھے اور جو خواب کو ان کے مقصد کے برخلاف ہوتا تھا۔ اس سے گھبراہٹ اور ناراضی ان میں پیدا ہوتی تھی۔ اس کی مثال میں عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک لمبا چوڑا خواب ہے۔ پہلی حدیث وکانت عاتکۃ بنت عبدالمطلب قدر ات قبل قدومہ ضمضم مکۃ بثلاث لیال رویا افزعنھا فقص تھا علیٰ اخیہ العباس واستکتمہ خبرھا۔ قالت رایت را کیا علی بعیر لہ و اقفا بالا بطح شدہ صرخ با علی صوتہ ان انفرولیاہل قدرالمصارعکم فے ثلاث قالت فاری الناس قد اجتمعوا الیہ ثم دخل المسجد فمثل بعیرہ علی الکعبۃ ثم صرخ مثلھا ثم مثل بعیرہ علی راس ابی قیس فصرخ مثلھا ثم اخذ صخرۃ عظیمۃ و ارلھا فلما کانت باسفل الوادی ار فضبت فما بقی تیت من مکۃ الا دخلہ فلقہ مربا فخرج العباس فلقی الولید بن عتنبہ بن ربیعہ وکان فدیقہ فان کرھا لہ واستکتمہ ذلک فذکر ھا الولید لا بیہ عتبہ ففنا الخبر فلقی ابوجھل العباس فقال لہ یا ابا الفصل اقبل الینا قال فلما فرغت من طوافی اقبلت الیہ فقال لی متی حدثنا فیکم ھذہ النبیۃ وذکر رویا عاتکۃ ثم قال ما رضیتم ان نبنا و جالکم حتی حجانساؤ کم (صیحہ جلد دوئم تاریخ کامل ابن اثیر)
عاتکہ نے جو عبدالمطلب کی بیٹی تھیں ضمضم کے مکہ میں آنے سے تین دن پہلے ایک ہول ناک خواب دیکھا تھا۔ اور اس کو اپنے بھائی عباس سے بیان کیا اور چاہا کہ وہ اس خاب کو پوشیدہ رکھیں۔ عاتکہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک شتر سوار دیکھا جو وادی بطی میں کھڑا ہے۔ اس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکارو اپنے مقتل کی طرف تین دن میں بھاگو۔ عاتکہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور وہ مسجد میں داخل ہوا اور کعبہ کے سامنے اپنا اونٹ کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر اپنے اونٹ کو کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر پتھر کی ایک بڑی چٹان لے کر ہاتھ سے چھوڑی چونکہ مکہ وادی کے نشیب میں بسا ہوا تھا چٹان کے ٹکڑے بکھرگئے اور کوئی مکان مکہ کا نہیں بچا جس میں پتھر کا ٹکڑا نہ گرا ہو۔ اس خواب کو سن کر عباس نکلے اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے جو ان کا دوست تھا ملے اور اس خواب کا اس سے ذکر کیا۔ اور اس سے اس خواب کے چھپانے کی خواہش کی ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس خواب کو بیان کیا اور چرچا پھیل گیا۔ پھر ابوجہل کی ملاقات عباس سے ہوئی۔ اس نے ان سے کہا اے ابوالفضل میرے پاس آؤ۔ عباس کہتے ہیں کہ کعبہ کے طواف سے فارغ ہو کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ تم میں یہ پیغمبر ی کب سے پیدا ہوگئی اور اس نے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا۔ پھر کہا اس سے تمہاری تسلی نہیں ہوئی کہ تمہارے مردوں نے نبوت کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ تمہاری عورتیں بھی پیغمبری دعویٰ کرنے لگیں۔
اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی بہت سی باتیں جو خواب میں دیکھی ہونگی لوگوں سے بیان کی ہونگی منجملہ ان کے بیت المقدس میں جانا اور اس کو دیکھنا بھی بیان فرمایا ہوگا۔ قریش سوائے بیت المقدس کے اور کسی حال سے واقف نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے امتحاناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیت المقدس کے حالات دریافت کئے۔ چونکہ انبیاء کے خواب صحیح اور سچے ہوتے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ بیت المقدس کا حال خواب میں دیکھا تھا بیان کیا جس کو رایوں نے ” فجعلی اللہ لی بیت المقدس، فرفعہ اللہ لی انظر الیہ “ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے پس اس مخاصمت سے جو قریش نے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بجسدہ اور بیداری کی حالت میں بیت المقدس جانا ثابت نہیں ہوسکتا۔
چھٹی دلیل طبرانی اور بیہقی کی احادیث پر مبنی ہے۔ ان دونوں کتابوں کا ایسا درجہ نہیں ہے جن کی حدیثوں سے رداً و قبولاً بحث ہوسکتی ہے۔ اس کا کچھ ذکر نہ ہو۔ باایں ہمہ امہانی کی حدیث سے تو کوئی امر ثابت نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس حدیث میں ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء یہاں پڑھی اور ہمارے پاس سو رہے۔ پھر صبح کو ہم کو جگایا اور صبح کی نماز ہمارے ساتھ پڑھی۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عشاء کی نماز تو میں نے تمہارے ساتھ پڑھی اور پھر میں بیت المقدس میں گیا اور وہہاں نماز پڑھی پھر صبح کی نماز تمہارے ساتھ پڑھی۔
اس حدیث میں یہ لفظ ہیں
” ثم جئت بیت المقدس “
اور اسی پر قاضی عیاض نے استدلال کیا ہے کہ اسراء بجسدہ تھی حالانکہ صرف
” جئت “
کے لفظ سے جس کے ساتھ کچھ بیان نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جانا یہ روحانی طور پر تھا یا جسمانی طور پر ۔ بجسدہ جانے پر استدلال نہیں ہوسکتا خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس کی تشریح اس مقام پر ہونی ضروری تھی۔
دوسری حدیث۔ شداد بن اوس کی ایسی رکاکت لفظ و معنی پر مشتمل ہے اور جو طرز کہ حدیث بیان کرنے کا ہے۔ اس سے اس قدر بعید ہے کہ کسی طرح قابل اعتماد نہیں۔
صورت دوم یعنی اسراء کا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ و بحالت بیداری ہونا اور معراج کا اس کے بعد بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک بروحہ ہونا
پچھلی تفسیر کا بقیہ
ہاں بلاشبہ موضوع حدیثوں کے پہچاننے کے لیے محدثین نے چند قواعد بنائے ہیں جن کے مطابق مضمون حدیث پر لحاظ کرکے اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ صحاح سبعہ یا حدیث کی اور معتبر کتابوں میں کوئی موضوع حدیث ہے۔ مگر جب کہ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ روایت حدیثوں کی باللفظ نہیں ہے بلکہ بالمعنی ہے اور الفاظ حدیث کے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ نہیں ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان حدیثوں کے مضامین کی صحت نہ جانچی جاوے۔ تاکہ ظاہر ہو کہ جو مضمون اس حدیث میں بیان ہوا ہے اس کے بیان کرنے میں راوی سے تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ اور ہمارے نزدیک یہ بات کہنی کافی نہیں ہے کہ جب وہ حدیثیں معتبر کتابوں میں لکھی گئی ہیں تو یہ تصور کرلینا چاہیے، کہ ان کے مضمونوں کی صحت بھی جانچ لی گئی ہے۔ خصوصاً اس صورت میں کہ خود علمائے اسلام ان حدیثوں میں سے جو حدیث کی معتبر کتابوں میں لکھی گئی ہیں متعدد حدیثوں کو صحیح نہیں قرار دیتے۔
تمام علما اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی حدیث میں مندرجہ ذیل نقصوں میں سے کوئی نقص پایا جاوے تو وہو حدیث معتبر نہیں ہے بلکہ موضوع ہے۔ چنانچہ شاہ عبدالعزیزصاحب عجالہ نافعہ میں لکھتے ہیں کہ ” علامات وضع حدیث و کذب راوی چند چیز است “۔
اول : آنکہ خلاف تاریخ مشہور روایت کند۔
دوم : آنکہ راوی رافضی باشد وحدیث درطعن صحابہ روایت کنددیا ناصبی باشدوحدیث درمطاعن اہلیت باشد وعلیٰ ہذا القیاس۔
سوم : آنکہ چیزے روایت کند کہ برجمیع مکلفین معرفت آں و عمل براں فرض باشد واومنفرد بودبروایت۔
چہارم : آنکہ وقت وحال قرینہ باشد برکذب او۔
پنجم : آنکہ مخالف مقتضائے عقل وشرع باشد وقواعد شرعیہ آنرا تکذیب نمایند۔
ششم : آنکہ رحدیث قصہ باشداز امر حسی واقعی کہ اگر بالحقیقت متحقق می شد ہزاراں کس آنر انقل می کروند۔
ہفتم : رکاکت لفظ ومعنی۔ مثلا لفظے روایت کند کہ برقواعد عربیہ درست نشودیا معنی کہ مناسب شاں نبوت ووقار نباشد۔
ھشتم : افراط وروعید شدید بر گناہ صغیرہ یا افراط دروند و خظیم برفعل قلیل۔
نہم : آنکہ رعمل قلیل ثواب حج و عمرہ ذکر نماید۔
دھم : آنکہ کسی را از عاملان خیر ثواب انبیاء موعود کند۔
یازدھم : خود افرار کرددء باشدبوضع احادیث۔
امام سخاوی نے فتح المغیث میں ابن جوزی سے حدیث کے موضوع ہونے کی یہ نشانیاں لکھی ہیں۔
اول : جو حدیث کہ عقل اس کے مخالف ہو اور اصول کے متناقض ہو۔
دوم : ایسی حدیث کہ س اور شاہدہ اس کو غلط قرار دیتا ہو۔
سوم : وہ حدیث جو کہ مخالف ہو قرآن یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے۔
چہارم : جس میں تھوڑے کام پر وعید شدید یا اجر عظیم کا وعدہ ہو۔
پنجم : رکت معنی اس روایت کی جو بیان کی گئی ہے۔
ششم : رکت یعنی سخافت راوی کی۔
ھفتم : منفرد ہوناراوی کا۔
ھشتم : منفرد ہونا ایسی روایت میں جو تمام مکلفین سے متعلق ہو۔
نہم : یا ایسی بڑی بات ہو جس کے نقل کرنے کی بہت سی ضرورتیں ہوں۔
دھم : جس کے جھوٹ ہونے پر لیک گروہ کثیر متفق ہو۔
یہ جو کچھ ہم نے بیان کیا یہ خلاصہ ہے اس کا جو ابن جوزی نے بیان کیا ہے۔ لیکن ہم اس مقام پر ابن جوزی کی عبادت بعینہ جو فتح المغیث میں نقل کی گئی ہے نقل کرتے ہیں۔
قال ابن الجوزی وکل حدیث رایتہ یخالفہ العقول اوینا قض الاصول فاعلم انہ موضوع فلا یتکاف اعتبارہ ای لا تعتبر رواتہ ولا تنظر فی جرحم۔ اویکون ما یدفعہ الحس والمشاھدۃ۔ اومباینا لنص الکتاب اوالننۃ المتواترۃ اوالا جماع القطعی حیث لا یقبل شیء من ذلک التاویل۔ اویتضمن الا فراط بالوعید الشدید علی الا مرالعیسیر اوبالوعد العظیم علی الفعل الیسیر و ھذا لا خیر کثیر موجں و فی حدیث القصاص والطرقیۃ۔ ومن رکۃ المعنی لا تاکلوا القرعۃ حتی تذبحوالذا جعل بعض ذلک دلیلا علی کذب راویہ وکل ھذ من القرائن فی المروی۔ وتد تکون فی الراوی کفضۃ غیاث مع المھدی وحکایۃ سعد بن طریف للاضی ذکر ھما واختلاف المامون بن احمد الھروی حیر قیل لہ الا تری الشافعی ومن یتعہ بخرا سان ذاک الکلام القبیح حکاہ الحاکم فی للدخل قال بعض المتاخرین وقدرایت رجلا قام یوم جمعۃ قبل الصلوۃ فایتدالیوردہ فسقط من قامتہ مغشیا علیہ ۔ اوانفرادہ عمن احدید و کہ بمالم یوجد عند غیر ھما اوانفرادہ بشیء مع کونہ فیما یلزم الملکفین علمہ وقطع العذرفیہ کما تزرہ الخطیب فی اول الکفایۃ او بامرجسیم یتو فرالدواعی علی نقلہ کحضرالعدد للحاج عن البیت اوبھا صرح بتکذیبہ فیہ جمع کثیر یمتنع فی العادۃ قواطئھم علی الکذب و تقلید بعضھم بعضا۔ (فتح المغیث صفحہ )
ابن جوزی نے کہا ہے کہ جو حدیث عقل کے مخالف ہے یا اصول کے برخلاف ہے اس کو موضوع جانو اس کے راویوں کی جرح و تعدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یا حدیث میں ایسا بیان ہو جو حس و مشاہدہ کے برخلاف ہے۔ یا قرآن یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے برخلاف ہے۔ جن میں سے ایک کی بھی تاویل نہیں ہوسکتی۔ یا تھوڑے سے کام پر بہت سے عذاب یا ثواب کا ذکر ہو ۔ اور یہ اخیر مضمون قصہ گویوں اور بازاریوں کی حدیثوں میں بہت کثرت سے پایا جاتا ہے یا معنی رکیک و نحیف ہوں جیسے اس حدیث میں کہ رکت معنی کو بعض نے راوی کے کذب پر دلیل گردانا ہے۔ اور ر یہ سب قرینے تو روایت میں ہوتے ہیں اور کبھی راوی میں ایسا قرینہ ہوتا ہے جیسے غیاث کا قصہ مہدی کے ساتھ اور سعد بن طریف کی حکایت جن کا ذکر ہوچکا ہے اور ابن احمد سروی کا وہ بیہودہ کلام (نسبت امام شافعی کے) گھر لینا جب اس سے کہا گیا کہ کیا تو شافعی کو نہیں دیکھتا اور ان کو جو اس کے تابع ہیں خراسان میں۔ حاکم نے اس کو مدئل میں بیان کیا ہے۔ اور متاخرین میں سے ایک نے کہا ہے کہ میں نے ایک مرد کو دیکھا کہ جمعہ کے دن نماز سے پہلے کھڑا ہوا اور چاہا کہ اس کو بیان کرے پھر بےہوش ہو کر گرپڑا۔ یا راوی کا منفرد ہونا ایسی حدیث میں جو اوروں کے پاس نہیں ہے۔ ان لوگوں سے جنہوں نے اس حدیث کو نہیں سنا۔ یا اس کا منفرد ہونا ایسی حدیث میں جس کے مضمون کا جاننا تمام مکلفین کو نہایت ضروری ہے۔ یا ایسے عظیم الشان واقعہ کا بیان جس کے نقل کرنے کی بہت سے لوگوں کو ضرورت ہے۔ جیسے کعبہ سے حاجیوں کے ایک گروہ کا روکا جانا یا ایسا بیان جس کو اتنی بڑی جماعت نے جھٹلا دیا ہے جن کا جھوٹ پر اتفاق کرنا اور ایک دوسرے کی تقلید کرنا عادۃ ناممکن ہے۔
وقیل لمامون بن احمد الھروی الا تری الی الشافعی ومن تبعہ نجرا سان فقال حدثنا احمد بن عبدالبر حدثنا عبداللہ بن معدان الازدی عن انس مرفوعاً یکون فی امتی رجل یقال لہ محمد بن ادریس اضرعلی امتی من بلیسر۔ (تدریب الراوی صفحہ )
اور جو قبیح الفاظ حضرت امام شافعی کی نسبت کہے گئے تھے وہ یہ ہیں۔ کہ ماموں بن احمد ہروی سے کہا گیا کہ کیا تونے شافعی کو نہیں دیکھا اور ان کو جو خراسان میں اس کے تابع ہیں تو اس نے کہا ہم سے احمد بن عبدالبر نے اور اس سے عبداللہ بن معدان ازوی نے انس سے رفوعاً حدیث بیان کی ہے کہ میری امت میں ایک شخص ہوگا جس کو محمد بن ادریس (امام شافعی) کہینگے۔ وہ میری امت کو شیطان سے زیادہ نقصان پہنچائیگا۔
ومماید خل فی قوینۃ حال المروی مانقل عن الخطیب عن ابی بکربن الطیب ان من جملۃ ولائل الوضع ان یکون مخالفا للعقل بحیث لا یقبل التاویل ویتحق بہ ما یدلعہ۔ لحس والمشاھدۃ اویکون منافیا لا الہ لۃ الکتاب القطعیۃ اوالسئۃ المتواترۃ اوالا جماع القصعی۔ (تدریب الراوی صفحہ )
اور تدریب الراوی میں لکھا ہے کہ موضوع ہونے کے ان قرینوں میں سے جو خود روایت کے دیکھنے سے معلوم ہوتے ہیں وہ قول ہے جو خطب سے منقول ہے اور اس نے ابوبکر بن الطیب سے نقل کیا ہے۔ کہ موضوع ہونے کے تمام دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ حدیث اس طرح عقل کے مخالف ہو کہ اس کی تاویل نہ ہوسکتی ہو اور اسی ذیل میں وہ حدیث ہے جس کا مضمون حس و مشاہدہ کے برخلاف ہو۔ یا کتاب اللہ یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے خلاف ہو۔
ومن المخالف لعقل مارواہ ابن الجوزی من طریق عبدالرحمن بن زید بن سالم عن ابیہ عن جدہ مرفوعاً ان سفینۃ نوح طاقت بالبیت سبعا وصلت عند للقام رکعتین۔ (تدریب الراوی صفحہ )
اور اسی کتاب میں درباب مخالفت عقل و نقل یہ لکھا ہے کہ ان حدیثوں میں سے جو عقل کے مخالف ہیں۔ ایک وہ ہے۔ جو ابن جوزی نے عبدالرحمن سے اور اس نے اپنے باپ زید سے اور اس نے اپنے باپ سالم سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ نوح کی کشتی نے کعبہ کے گرد سات دفعہ طواف کیا اور مقام ابراہیم کے نزدیک دو رکعت نماز پڑھی۔
وقال ابن الجوزی ما الحسن قول القائل اذا بایت الحدیث یبامن المعقول اویخالف المنقول و بنا قض الا صول فاعلم انہ موضوع و معنی مناقضۃ للا صول ان یکون خارجا عن دواوین الاسلام من السمائید والکتب المشھورۃ۔ (تدریب الراوی صفحہ )
اور اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ابن جوزی کہتے ہیں کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ جب تو حدیث کو عقل یا نقل کے خلاف پائے۔ سمجھ لے کہ وہ موضوع ہے۔ اور اصول سے مخالف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ حدیث دو اوین اسلام سے یعنی مسائید اور حدیث کی مشہور کتابوں سے خارج ہو۔
ابن جوزی نے جو مناقضۃ للاصول کے معنی میں لکھا ہے کہ وہ حدیث دو اوین اسلام یعنی کتب حدیث اور کتب مشہورہ میں نہ ہو اس قید کو ہم صحیح نہیں قرار دیتے۔ کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ صحابہ کرام (رض) یا ان کے بعد جو حدیث کے راوی ہیں معصوم نہ تھے۔ اور یہ بھی تسلیم ہے کہ احادیث کی روایت بالمعنی ہے بلقغلہ نہیں ہے۔ پس اگر ان حدیثوں میں جو حدیت کی مروجہ کتابوں میں مندرج ہیں منجملہ مذکورہ بالا نقصوں کے کوئی نقص پایا جاوے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس حدیث کی نسبت یہ نہ خیال کریں کہ راوی سے بیان کرنے میں یا مضمون کے سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہے اور اس بات کو فرض کرلینا کہ جب وہ حدیث کتب حدیث میں مندرج ہوگئی ہے تو اس میں کچھ غلطی نہیں ہے ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اور راویوں کو معصومیت کا درجہ دینا ہے۔
نقل اور عقل میں مخالفت
جب کہ نقل اور عقل میں مخالفت ہو تو ابن تمیمہ کی یہ رائے ہے کہ نقل کو عقل پر مقدم کیا جاوے۔ کیونکہ دلیل عقلی کا نقل کے خلاف ہونا محال سمجھتا ہے اور ابن رشد کا یہ خیال ہے کہ اگر نقل پر بخوبی غور کیا جاوے اور اس کے ماسبق اور مالحق پر لحاظ کیا جاوے تو خود نقل سے ظاہر ہوگا کہ وہ ماول ہے اور اس کے بعد عقل اور نقل میں مخالفت نہیں رہیگی اور وہ اقوال یہ ہیں۔
قول ابن تممیہ
فلو قال قائل اذا قام الدلیل العقلی القطعی علی مناقضۃ ھذا (السمعی) فلابد من تقدیم احدھما فلو قدم ھذا السمعی قدح فی اصلہ و ان قدم العقلی لزم تکذیب الرسول فیما علم بالا ضطراوانہ جاء بہ وھذا ھوالکفر الصریح فلا بدلھم من جواب عن ھذا والجواب عنہ انہ یمتنع ان یقول عقلی قطعی یناقض ھذا فقبین بن کلما قام علیہ دلیل قطعی سمعی یمتنع ان یعارضہ قطعی عقلی (کتاب العقل والنقل لا بل تمیمہ صفحہ نسخہ قلمی)
پس اگر کوئی کہے کہ جب یقینی دلیل عقلی سمعی دلیل کے خلاف ہو تو دونوں میں سے ایک کو مقدم کرنا ناگزیر ہوگا پس اگر سمعی دلیل مقدم کی جاوے تو اصل کے خلاف ہوگا اور عقلی دلیل مقدم کی جاوے تو رسول کو جھٹلانا لازم آویگا ایسی بات میں جس کی نسبت اضطراری علم ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اور یہ کہ ملاہوا کفر ہے پس اس بات کا ان کو جواب دینا چاہیے اور جواب یہ ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی یقینی عقلی دلیل سمعی دلیل کے خلاف ہو پس ظاہر ہوگیا کہ جس بات پر یقینی سمعی دلیل قائم ہو محال ہے کہ یقینی عقلی دلیل اس کے خلاف ہو۔
قول ابن رشد
ونحن نقطع قطعا ان کل ماادی الیہ البرھان وخالفہ ظاھرالشرع ان ذلک الظاھر یقبل التاویل علی قانون التاویل العربی وھذہ اقضیۃ لا شک فیھا مسلم ولا یرتاب بھا مومن وما اعظم ازدیاوالیقین بھا عند من زاول ھذا المعنی وجویہ وقصد ھذا المقصد من الجمع بین للعقول والمنقول بل نقول انہ ما من منطوق بہ فی الشرع نحالف بظاھرہ لما ادی الیہ البرھان الا اذا اعتبر اشرع وتصفحت سائر اجزایہ ووجد فی الفاظ الشرع ما یشھد بظاھرہ
لما ادی الیہ البرھان الا اذا اعتبر اشرع وتصفحت سائر اجزایہ ووجد فی الفاظ الشرع ما یشھد بظاھرہ لذلک التاویل اویقارب ان یشھد۔ (کتاب فصل المقل وتقریرما بین الشریعۃ والحکمۃ من الا تصال لابن الرشد)
اور ہم کو پورا یقین ہے کہ جس بات پر دلیل ہو اور ظاہر شرع اس کے خلاف ہو تو وہ ظاہر عربی کے قانون تاویل کے موافق قابل تاویل ہوگا اور یہ قضیہ ہے جس میں کسی مسلم اور مومن کو شک نہیں ہوسکتا اور اس شخص کو اس قضیہ کا یقین کتنا بڑھ جاتا ہے جس نے اس کی مشق اور تجربہ کیا ہو اور معقول اور منقول میں جمع کرنا چاہا ہو۔ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ جب کوئی ظاہر شرع اس بات کے خلاف ہو جس پر دلیل قائم ہوچکی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ جب شرع کا لحاظ کیا جاوے اور اس کے تمام حصوں میں تلاش ہو تو شرع کے لفظوں میں ایسا ظاہر نہ ملے کہ اس تاویل کے موافق ہو جو ظاہر شرع کی تاویل کے ہو اگر بعینہ ایسا نہ ہوگا تو اس کے قریب ہوگا۔
اعلم ان المعولفیما یعتقد علی ماتدل الادلۃ علیہ من نقی و اثبات فاذا دلت الا دلۃ علی امر من الامور وجب ان نبنی کل واردمن الاخبار اذاکان ظاھرہ بخلا فہ علیہ ونسوتہ الید ونطابق بینہ وبینہ وتخلی ظاھرا ان کان لدونشط ان کان مطلقا و نخمہ ان کان عاماو نقصلہ ان کان مجملا وتوفق بینہ وبین الا دلۃ من کل طریق اقتضی الموافقۃ وال الی المطالقۃ واذا کنا نفعل ذلک ولا لحتشمہ فی ظواھرا القرآن المقطوع علی صحتہ مالمعلوم وردہ فکیف نتوقف عن ذلک فی اخباراحاد لا تو جب علما ولا تثمر یقیناً فمتی وردت علیک اخبارفاھر ضھا علی ھذہ الجملۃ وابنھا علیھا وافعل فیھا ماحکمت بہ الا دلۃ واوجبت الحج الفقلیۃ وان تعذر فیھا بناء و تاویل و تخریح وتنزیل فلیس غیر الا طراح لھا وترک انضریح علیھا ولو اقتصرنا علی ھذہ الجملۃ لا کتفینا فیمن بیتدبروتیفکر۔ (درد غرد شریف مرتضی لم الھدی)
اور شریف مرتضیٰ علم الہدے کا جو شیعوں کا ایک بہت بڑا عالم ہے اس باب میں یہ قول ہے کہ اعتقادات میں بس انہی باتوں پر اعتماد کرنا چاہیے جو دلیلیں اثباتاً یا نفیاً ثابت ہوں پس جب دلیلیں کسی بات پر دلالت کریں پس واجب ہے کہ جو خبریں ظاہر میں اس بات کے خلاف ہوں ان خبروں کو ہم اس بات کی طرف کھینچ لاویں اور اس سے مطابق کردیں اور ان خبروں کے ظاہر کو چھوڑ دیں اور مطلق ہو تو شرط لگا دیں اور عام ہوں تو خاص کردیں اور مجمل ہوں تو تفصیل کردیں اور جس راہ سے ہو ان خبروں میں اور دلیلوں میں مطابقت کردیں۔
اور جب ہم قرآن کعے ظوام کی نسبت جن کی صحت یقینی ہے اور جن کا نازل ہونا قطعی ہے ایسا کرتے ہیں تو اخبار اعاد کی بابت جو علم اور یقین کا موجب نہیں ہوتیں ایسا کرنے میں کیوں رکینگے پس جب تجھ پر خبریں وارد ہوں تو ان کی دلیلوں سے مقابلہ کر اور جو مقتضا دلیلوں کا ہو ان خبروں کی نسبت وہی برتاؤ کر اور اگر ان کی تاویل اور نکالنا اور اتارنا نہ ہوسکے تو سوائے گرادینے خبروں اور ان کی تصریح چھوڑ دینے کے کیا چارہ ہے اور اگر ہم ان باتوں پر اقتصار کریں تو ان لوگوں کے لیے جو تامل اور فکر کرتے ہیں کافی ہوگا۔
اس بیان سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں اول یہ کہ الفاظ احادیث کے اور خصوصاً احادیث طوال کے جیسے کہ معراج کی حدیثیں ہیں راویوں کے الفاظ ہیں اور وہ لفظ بعینہ نہیں ہیں۔ جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائے تھے۔
دوم یہ کہ جب نقل صحیح اور عقل قطعی میں مخالفت ہو (ابن تمیمہ کے نزدیک تو مخالفت ہو ہی نہیں سکتی اور ابن رشد کے نزدیک نقل پر غور کرنے سے ضرور ایسی بات نکلے گی جس سے مخالفت دور ہوجائیگی) اور نہ ابن تمیمہ کے یقین کے مطابق اور نہ ابن رسد کے قول کے موافق ان میں تطبیق ہوسکے تو اس کے راوی اگر نامتعمد ہیں تو وہ حدیث موضوع سمجھی جاویگی اور اگر معتمد ہیں تو یقین اس بات کا ہوگا کہ وہ قول رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نہیں ہے
تفسیر سرسید : ۲
اور اس کے بیان میں راویوں سے کچھ سہو و غلطی ہوئی ہے اور اگر وہ قول پیغمبر مانا جاوے تو ضرور اس کے معنی اور مقصد سمجھنے میں کچھ غلطی ہے۔
مگر ہم کو یہ بیان کرنا چاہیے کہ کن امور کو ہم عقل قطعی کے مخالف قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک تو ممتنعات عقلی ہیں اور دوسرے ممتنعات استقرائی جو کلیہ کی حد تک پہنچ گئے ہوں اور جو قانون فطرت سے موسم ہوتے ہیں۔
مثلاً جز کا کل کے برابر ہونا یا مساوی کے مساوی کا مساوی نہ ہونا یا موجود بالذات غیر مخلوق کا کسی کو اپنے مثل پیدا کرنا ممتنعات عقلی سے ہیں۔
استقرا جس میں تجربہ اور امور بھی داخل ہیں جو تحقیقات علمی سے ثابت ہوئے ہیں جب کلی ہونے کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور جس سے قانون فطرت ثابت ہوتا ہے اس کی مخالفت ہونا ممتنعات استقرائی سے ہے اور اس کو بھی طروالباب ممتنعات عقلی سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً انسان کا مستقیم القامت بادی البشرہ عریض الا ظفار ہونا استقرا کلی سے ثابت ہوتا ہے۔
اسی استقرا سے جو امور ثابت ہوئے ہیں وہی قانون فطرت کہلاتا ہیں اور ان میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا اور جیسا کہ ان میں تغیر و تبدیل ہونا ممتنعات عقلی سے ہے اسی طرح مذہب اسلام میں ازروے نقل کے بھی ان میں تغیر و تبدیل ہونا ممتنعات سے ہے قرآن مجید میں جابجا فرمایا ہے ” لا تبدیل لخلق اللہ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا “ پس قانون فطرت کے برخلاف ہونا ممتنعات عقلی میں سے ہے۔
اسی بنا پر حدیث صلوٰۃ سفینہ نوح عندالمقام اور حدیث رو الشمس ان کان مرادہ حقیقۃً روہا اور حدیث شق القمر تسلیم نہیں کی جاتی خواہ ان کو موضوع کہا جاوے اگر ان کے راوی کا ذب البیان ہوں یا ناسمجھی اور غلط فہمی راویوں سے تعبیر کیا جاوے اگر ان کے راوی عادل ہوں۔
معراج کے متعلق جس قدر حدیثیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بجسدہ جبرائیل کا ہاتھ پکڑ کر خواہ براق پر سوار ہو کر یا پرند جانور کے گھونسلے میں بیٹھ کر جو درخت میں لٹکا ہوا تھا بیت المقدس تک جانا اور وہاں سے بجسدہ آسمانوں پر تشریف لے جانا یا بذریعہ ایک سیڑھی کے جو آسمانوں تک لگی ہوئی تھی چڑھ جانا خلاف قانون فطرت ہے۔ اور اس لیے ممتنعات عقلی میں داخل ہے اگر ہم ان کے راویوں کو ثقہ اور معبتر تصور کرلیں تو بھی یہ قرار پائیگا کہ ان کو اصل مطلب کے سمجھنے اور بیان کرنے میں غلطی ہوئی مگر اس واقعہ کی صحت تسلیم نہیں ہوسکتے کہ اس لیے کہ ایسا ہوناممتنعات عقلی میں سے ہے۔ اور یہ کہہ دینا کہ خدا میں سب قدرت ہے اس نے ایسا ہی کردیا ہوگا جہاں اور ناسمجھ بلکہ مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے نہ ان کا جو دل سے اسلام پر یقین کرتے ہیں اور دوسروں کو اس مقام پر یقین دلانا اور اعلائے کلمۃ اللہ چاہتے ہیں۔
واقعات خلاف قانون فطرت کے وقوع کا ثبوت اگر گواہان روایت بھی گواہی دیں تو محالات سے ہے اس لیے کہ وہ اس وقت دو دلیلیں جو ایک ہی حیثیت پر مبنی ہیں سامنے ہوتی ہیں ایک قانون فطرت جو ہزاروں لاکھوں تجربوں سے جیلاً بعد جیل وزماناً بعد زمان ثابت ہے۔ اور گواہان رویت جن کا عادل ہونا بھی تجربہ سے ثابت ہوا ہے پس اس کا تصفیہ کرنا ہوتا ہے کہ دونوں تجربوں میں کونسا تجربہ ترجیح کے قابل ہے قانون فطرت کو غلط سمجھنا یا راوی کی سمجھ اور بیان میں سہود غلطی کا ہونا۔ کوئی ذی عقل تو قانون فطرت پر راوی کے بیان کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ قول پیغمبر بلا حجت قابل تسلیم ہے مگر کلام تو اسی میں ہے کہ قول پیغمبر ہے یا نہیں۔
اب ہم غور کرتے ہیں احادیث معراج پر جن میں صاف پایا جاتا ہے کہ وہ ایک واقعہ ہے جو سوتے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا اور دلالت النص سے بھی پایا جاتا ہے اور صحاح کی کسی حدیث سے نہیں پایا جاتا کہ حالت بیداری میں آتے دیکھا اور بجسدہ آپ بیت المقدس اور آسمانوں پر تشریف لے گئے بلکہ بر خلاف اس کے چند حدیثوں میں سونے کی حالت پائی جاتی ہے تو ہمارا اور ہر ذی عقل کا بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کو ایک واقعہ خواب کا تسلیم کرے اور ابن رشد کے قول کو صحیح سمجھے کہ اگر نقل میں کوئی بات خلاف عقل معلوم ہوتی ہے تو خود نقل اور اس کے ماسبق و مالحق پر غور کرنے سے وہ مخالفت دور ہوجاتی ہے۔ نہ یہ کہ تاویل بعیدہ اور رکیکہ اور دلائل فرضی دوراز کار سے اس کو ایسا واقعہ بنادے جو حقیقت کے بھی ایسا ہی مخالف ہو جیسا کہ عقل کے اور مذہب اسلام کی بنیاد مستحکم کو توڑ کر ریت پر بلکہ پانی پر اس کی بنیاد رکھے واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔
شق صدر
منجملہ واقعات معراج کے شق صدر کا بھی واقعہ ہے جس کو ہم بالتخصیص بیان کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس کی نسبت ایسی بھی حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ معراج کے اور دفعہ بھی شق صدر ہوا تھا۔
بخاری میں تین حدیثیں ابوذر سے اور دو حدیثیں مالک ابن صعصعہ سے اور ایک حدیث مسلم میں اور ایک نسائی میں مالک ابن صعصعہ سے اور بخاری میں ایک حدیث انس بن مالک سے اور مسلم میں دو حدیثیں انس ابن مالک سے مروی ہیں جن میں شق صدر کا واقعہ معراج کے واقعات کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
علاوہ اس کے اور روایتوں سے جن میں مسلم کی بھی ایک حدیث ہے جو انس ابن مالک سے مروی ہے معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ معراج کے چار دفعہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شق صدر ہوا ہے اور یہ اختلاف روایات اس امر کا باعث ہوا ہے کہ ان کی تطبیق کے خیال سے گو وں نے متعدد دفعہ شق صدر کا ہونا قرار دیا ہے مگر یہ محض غلطی ہے۔
وکل ھذا خبط وھذہ طریقۃ ضعفاء الظاھریۃ من ارباب التقبل الذین اذاروا فی القضۃ لفظۃ تخالف سیاق بعض الروایات جملوہ مرۃ اخری فکلما اختلف علیھم الروایات عددوا الوقایع۔ (زاد المعاد ابن قیم صفحہ )
ابن قیم نے معراج کی مختلف روایات کے سبب جن لوگوں نے تعدو معراج کو مانا ہے ان کی نسبت لکھا ہے کہ مختلف روایات سے تعدد واقعہ کا ماننا بالکل محبط ہے اور یہ طریقہ ظاہری المذہب ضعیف رایوں کا ہے جو سارے قصہ میں روایت کے ایک لفظ کو دوسری روایت کے مخالف پاکر ایک جدا واقعہ ٹھہراتے ہیں اور جتنی مختلف روایتیں ملتی جاتی ہیں اتنے ہی جدا واقعات خیال کرتے ہیں پس مناسب ہے کہ اول ہم ان حدیثوں اور روایتوں کو اس مقام پر نقل کردیں۔
شق صدر عند حلیمۃ فی بنی اللیث عن انس بن مالک (رض) ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتاہ جبرائیل وھو یعلب مع الغلمان فاخذہ فصرہ فشق عنہ قلبہ فاستخرج القلب ناستخرج منہ علقۃ فقال ھذا احظا الشیطان منک ثم غسلہ فی طعمت من ذھب بما وزمزم ثم لائمہ ثما عادہ فی یکانہ رجاء القلمان یسعون الی امہ یعنی ظئرہ فقالوان محمد اقدقتل فاستقبلوہ وھو منتفع اللون قال انس فکنت ارے اثر المخیط فی صدرہ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
انس ابن مالک کہتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے جبرائیل آئے اور آپ کو پکڑ کر زمین پر پچھاڑا اور آپ کے دل کو چیر کر نکالا اور اس میں سے ایک پھٹکی نکالی اور کہا کہ یہ تجھ میں شیطان کا حصہ تھا پھر دل کو سونے کے لگن میں آب زمزم سے دھویا اور زخم اچھا کرکے وہیں رکھ دیا جہاں تھا۔ لڑکے دوڑتے ہوئے آپ کی ماں یعنی دودھ پلائی کے پاس آئے اور کہا کہ محمد مارے گئے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دوڑے دیکھا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہے۔ انس کہتے ہیں کہ میں حضرت کے سینہ پر ٹانکوں کے نشان دیکھتا تھا۔
واخرج البیہقی وابن عساکر و غیر عم عن ابن عباس (فی قصبۃ علیمۃ) قواللہ انہ لمد مقدمنا بشھرین اور ثلاثۃ معراخیہ من الرضاعۃ لفی بھم لنا خلف بیوتنا جاوا اخوہ یشتد فقال ذاک اخی القریشی فذجاء ہ رجلان علیھا ثیاب بیض فاضجعاہ وشقا بطمنہ فخرحت انا رابوہ تشتد نحوہ فنجدہ قائما منتقعا لونہ فاعنقہ ابولا وقال ای بنی ماشانک قال قد جاءنی رجلان علیھما ثباب بیض فاضحجانتی فشقابطنی شد استخرجامہ شیرافطرحاثم رداہ کما کان (مواھب لدنیہ نسخہ قلمی صفحہ )
بیہقی اور ابن عساکر وغیرہ نے حلیمہ کے قصہ میں ابن عباس کی یہ روایت بیان کی ہے کہ خدا کی قسم ہمارے آنے کے دو تین مہینے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر کے پیچھے جہاں ہمارے جانور چرتے تھے اپنے دودھ شریک بھائی کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آپ کا رضاعی بھائی دوڑتا آیا اور اس نے کہا کہ دو شخص سفید کپڑے پہنے ہوئے آئے اور انھوں نے میرے قریشی بھائی کو زمین پر لٹا کر اس کا پیٹ چیر ڈالا۔ میں اور اس کا باپ دونوں ان کے ڈھونڈنے کو دوڑے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کھڑے ہیں اور چہرے کا رنگ متغیر ہے۔ باپ نے ان کو گلے سے لگا لیا اور پوچھا بیٹا ! تمہارا کیا حال ہے۔ کہا دو سفید پوش آدمی آئے اور انھوں نے مجھ کو زمین پر لٹایا اور پیٹ چیر ڈالا پھر پیٹ میں سے کوئی چیز نکال کر پھینک دی اور اس کو ویسا ہی کردیا جیسا تھا۔
ونی حدیث شداد ابن اوس عن رجل من بنی عامر عند یعلی وابی نعیم وابن عساکر ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال کنت مسترضعافی بنی لیث
ابویعلی۔ ابونعیم اور ابن عساکر نے شداد بن اوس کی حدیث میں جو بنی عامر کے ایک شخص سے مروی ہے بیان کیا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب میں قبیلہ بنی لیث میں دودھ بن بکر فبینما انا ذات یوم فے بطن وادمع اتراب من الصبیان اذا انا برھط ثلاثۃ معھم طست من ذھب ملی نالجا فاخذونی من بین اصحابی وانطلق الصبیان ھرایا مسرعین الی الحی نعمد احدھم فاضبعنی الی الارض اضجا اضحجا ما لطیفا ثم شق مابین مفرق صدری الی منتہیٰ عانتی وانا انظر الیہ لم اجد لذلک مساثم اخرج احشاء بطنی ثمفسلھا بذلک الثلج فانعم غسلھا ثما عادھا مکانھا ثم قام الثانی فقال لصاحبہ تنح ثم ادخل یدہ لی جونی فاخرج قلبی دانا انظر الیہ نصدعہ ثم اخرج منہ مضغۃ سوداء فرحی بھا ثم قال بیدہ یمنۃ ویسرۃ کانہ ینتاول شیئا فاذا یخاتم من نوریجادرالنالظر دونہ فختم بہ قلبی فامسلاء تربا وذلک نورا الغبوۃ والحکمۃ ثما عادہ مکانہ فوجدت بردذلک الخاتم فی قلبی دھرا ثم قال الثالث لصاحبہ تنح قامریدہ بین مفرق صدری الی منتہی عانتی ۔ فالتام ذلک الشق باذن اللہ تعالیٰ ثما خذبیدی فالھمتی من مکانی انھا ضا لطیفا ثم قال الاول زنہ بعشرۃ من امتہ فوذنرنی بہھ فرحجتم ثم قال زنہ بما یۃ من امتہ فرجحتھم ثم علمونی الی صدررھم وقبلو راسی و ما بین عینی ثم قالوا یا حبیب لم نزع انک لوتدری مایراد بک من الخیر لقرت عیناک۔ (ھواھب لدنیہ قلمی صفحہ۔ )
پیتا تھا ایک دن لڑکوں کے ساتھ میدان میں کھیل رہا تھا کہ تین شخص آئے جن کے پاس سونے کا گن برف سے بھرا ہوا تھا۔ انھوں نے لڑکوں کے درمیان سے مجھ کو اٹھا لیا اور سب لڑکے بھاگ کر قبیلہ کی طرف چلے گئے۔ ان شخصوں میں سے ایک نے مجھ کو آہسہ زمین پر لٹا دیا۔ اور میرے پیٹ کو سینہ کے سرے سے پیڑو تک چیر ڈالا۔ میں دیکھ رہا تھا اور مجھ کو کوئی تکلیف معلوم نہیں ہوتی تھی۔ پھر اس نے میرے پیٹ کی آنتوں کو نکال کر برف میں اچھی طرح دھویا۔ اور ان کو اسی جگہ رکھ دیا۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے اپنے ساتھی سے کہا تو ہٹ جا پھر اس نے میرے پیٹ میں ہاتھ ڈال کر میرا دل نکالا اور میں دیکھتا تھا پھر اس کو چیر کر ایک کالی پھٹکی اس میں سے نکال کر پھینک دی۔ پھر اس نے ہاتھ سے دائیں بائیں اشارہ کیا گویا کسی چیز کو لیٹنا چاہتا ہے۔ پھر ایک نور کی مہر سے جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیائیں میرے دل پر مہر کی اور اس کو نور سے بھر دیا وہ نور نبوت اور حکمت کا تھا پھر دل کو اسی جگہ رکھ دیا۔ اس مہر کی ٹھنڈک ایک مدت تک میرے دل میں محسوس ہوتی رہی پھر تیسرے شخص نے اپنے رفیق سے کہا تو ہٹ جا پھر اس نے میرے سینہ کے سرے سے پیڑو تک ہاتھ پھیرا خدا کے حکم سے زخم بھر آیا۔ پھر آہستہ پکڑ کر مجھ کو اٹھایا۔ پہلے شخص نے کہا کہ اس کی امت کے دس آدمیوں کے ساتھ اس کو تولو۔ انھوں نے مجھ کو تولا تو میں وزن میں ان سے زیادہ نکلا پھر اس نے کہا اب کے سو آدمیوں کے ساتھ تولو۔ میں وزن میں ان سے بھی زیادہ نکلا۔
اس نے کہا ان کو چھوڑ دو اگر ساری امت کے ساتھ ان کو تولو گے تو پھر بھی یہ وزن میں زیادہ نکلے گے پھر انھوں نے مجھ کو چھاتی سے لگایا اور میرے سر اور آنکھوں کے درمیان بوسہ دے کر کہا اے عزیز اندیشہ نہ کرو اگر تم کو معلوم ہوتا کہ خدا تم سے کیا بھلائی کرنی چاہتا ہے تو تم ضرور خوش ہوتے۔
لی روایۃ
بیہقی میں ابن عباس کی روایت میں ہے کہ حلیمہ کہتی ہیں ناگاہ میرا بیٹا ضمرو دوڑتا ہوا خوف زدہ اور روتا ہوا آیا اس کے ماتھے سے پسینہ ٹپکتا تھا۔ اور پکارتا تھا اے باپ اے ماں جاؤ محمد سے ملو تم ان کو مردہ پاؤ گے۔ خدا ان کو پناہ میں رکھے ایک شخص ان کے پاس آیا اور ہمارے درمیان سے ان کو اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا اور ان کے سینہ کو پیڑو تک چیر ڈالا اور اسی روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین شخص آئے ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا اور دوسرے کے زمرد سبز کا لگن تھا۔
شق صدرہ فی غار حرا
روی ابو النعیم ان جبرائیل و میکائیل شقا صدرۃ و غلاہ ثم قال اقرابا سم ربک۔ وکذاو وی شق صدرہ الشریف ھھما الطیالسی والحارث فی مسند یھما۔ (مواھب لدنیہ نسخہ قلمی صفحہ - )
ابوالنعیم نے بیان کیا ہے کہ جبرائیل اور میکائیل دونوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک کو چیرا اور دھویا پھر کہا پڑھ خدا کے نام سے اور ایسا ہی طیالسی اور حارث نے اپنی مسندوں میں (غار حرا میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شق صدر کا) ذکر کیا ہے۔
شق صدرہ وہوا بن عشر
وروی شق ایضا وھو ابن عشرو نحو ھاسع قصۃ لہ مع عبدالمطلب ابو نعیم فی الدلائل۔ (ھواھب لدنیہ نسخہ قلمی صفحہ )
اور ابونعیم نے دلائل النبوت میں ایک اور شق صدر کا بیان کیا ہے جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس برس کی عمر تھی اور عبدالمطلب کے ساتھ ان کا ایک قصہ بیان کیا ہے۔
شق صدرہ مرۃ خامسۃ
وروی خامسۃ (اعی مع شق صدرہ فی المعراج) و لا یثبت ۔ (مواھب لدنیہ نسخہ قلمی صفحہ )
پانچویں دفعہ بھی شق صدر بیان کیا گیا ہے مگر ثابت نہیں ہے۔
جو اختلافات کہ ان روایتوں میں ہیں وہ خود ان سے ظاہر ہیں۔ مگر منجملہ ان روایتوں کے ابن عساکر ۔ شداد ابن اوس۔ ابن عباس۔ انس کی روایتیں ایسی ہیں جن میں خاص ایک وقت اور ایک مقام اور ایک زمانہ کا قصہ شق صدر مذکور ہے۔ یعنی جب کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی لیث میں حلیمہ کے گھر تشریف رکھتے تھے۔ یہ چاروں روایتیں باوجودیکہ ایک وقت اور ایک زمانہ اور ایک مقام کی ہیں ایسی مختلف ہیں کہ کسی طرح ان میں تطبیق نہیں ہوسکتی۔ اور اس لیے ان میں سے کوئی روایت بھی قابل احتجاج کے نہیں۔
۔ اختلاف اس باب میں کہ کتنے شخص یا فرشتے شق صدر کے لیے آئے
ابن عساکر کی حدیث میں ہے۔ کہ دو آدمی سفید کپڑے پہنے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔
شداد ابن اوس کی حدیث میں ہے۔ کہ ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔
ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ ایک آدمی آیا اور آنحضرت کو اٹھالے گئے۔ اور یہ بھی ہے کہ تین شخص آئے۔
انس کی حدیث میں ہے کہ جبرائیل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے
۔ جو چیزیں کہ ان شخصوں کے پاس تھیں ان میں اختلاف
شداد ابن اوس کی حدیث میں ہے کہ ان کے پاس ایک طشت تھا سونے کا برف سے بھرا ہوا۔
ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ ایک ہاتھ میں چاندی کی چھاگل تھی اور دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت۔
ابن عساکر اور انس کی حدیث میں ان چیزوں میں سے کسی کا ذکر نہیں ہے۔
۔ اختلاف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمین پر لٹانے کی نسبت
ابن عساکر اور شداد ابن اوس کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زمین پر لٹایا (یعنی حلیمہ کے گھر کے پیچھے جو میدان تھا اس میں) ۔
ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اٹھا کر پہاڑ کی چوٹی پر لے گئی اور وہاں لٹایا۔
انس کی حدیث میں اس کا کچھ ذکر نہیں ہے۔
تفسیر سرسید : ۳
اختلاف نسبت شق صدر و غسل قلب وغیرہ
ابن عساکر کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیٹ چیرا اور اس میں سے کچھ نکال کر پھینک دیا۔ اور پھر ویسا ہی کردیا اور اس میں کسی چیز کا کسی چیز سے دھونے کا ذکر نہیں ہے۔
ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ پیڑو تک چیرا اور کسی چیز کے نکال کر پھینکنے کا ذکر نہیں ہے۔
انس کی حدیث میں ہے کہ ان کا دل چیرا اور اس میں سے کوئی کالی چیز نکال کر پھینک دی۔ اور کہا کہ یہ حصہ ہے شیطان کا۔ اور ان کے دل کو زمزم کے پانی سے دھویا۔ اور جہاں تھا وہیں رکھ دیا۔
شداد ابن اوس کی حدیث میں ہے کہ حلقوم سے پیڑو تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ چیرا۔
مندرجہ ذیل امور صرف شداد ابن اوس کی حدیث میں ہیں
اور کسی حدیث میں نہیں
( ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیٹ کی انتٹریاں نکالیں۔
ان کو برف سے دھویا اور جہاں تھیں وہیں رکھ دیں۔
، پھر دوسرے شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیٹ میں ہاتھ ڈالا۔
اور ایک کالا ٹکڑا نکال کر پھینک دیا۔
پھر ایک نور کی مہر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر مہر کی۔ اور جہاں تھا وہاں رکھ دیا۔
، پھر پہلے شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی امت سے توالا۔
، پھر ان تینوں شخصوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھاتی سے لگایا اور پیشانی کو بوسہ دیا۔
۔ اختلاف درباب اطلاع واقعات بحلیمہ
ابن عشاکر کی حدیث میں اس کا کچھ ذکر نہیں۔
شداد ابن اوس کی حدیث میں ہے کہ قبل شق صدر جو لڑکے وہاں تھے وہ بھاگ گئے۔
انس کی حدیث میں ہے کہ بعد شق صدر لڑکے دوڑتے ہوئے حلیمہ کے پاس آئے اور کہا کہ محمد مارے گئے۔
ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ میرا بیٹا ضمرہ میرے پاس دوڑتا ہوا آیا۔
۔ اختلاف نسبت صحت پانے شق صدر کے
شداد ابن اوس کی حدیث میں ہے کہ تین شخص جو آئے تھے ان میں سے ایک نے حلقوم سے پیڑو تک ہاتھ پھیرا اور زخم اچھا ہوگیا۔
انس کہتے ہیں کہ میں ٹانکے لگانے کا نشان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ پر دیکھتا ہوں (یعنی بعد شق صدر ٹانکے لگائے گئے) ۔
باقی دو حدیثوں میں اس کا کچھ ذکر نہیں ہے۔
غرضیکہ یہ روایتیں ایسی مختلف ہیں کہ ان میں تطبیق غیر ممکن ہے۔ جو کہ شق صدر کا ہونا نہ امر عادی ہے نہ امر عقلی اس لیے بسبب اختلاف روایات کے اس کا متعدد دفعہ واقعہ ہونا تسلیم نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے اختلاف کے سبب سے یہ حدیثیں قابل احتجاج نہیں۔
اصل یہ ہے کہ قرآن مجید میں وارد ہوا ہے ” الم نشرح لک صدرک “ اس کے ٹھیک معنی یہ ہیں ” شرح اللہ صدرہ للاسلام “ جیسا کہ بخاری کی حدیث میں ابن عباس سے مروی ہے (بخاری صفحہ ) لیکن مسلم میں جو حدیث مالک بن صعصعہ کی معراج کے متعلق آئی ہے اس میں بجائے شق صدر کے لفظ شرح صدر کا آیا ہے اس لیے مفسرین نے سورة الم نشرح میں جو لفظ شرح صدر کا ہے۔ اس کو شق صدر سے تعبیر کیا ہے حالانکہ وہاں شق صدر سے تعبیر کرنا محض غلط ہے۔ اور ترمذی نے بھی غلطی سے حدیث معراج کے اس ٹکڑے کو جس میں لفظ شرح صدر آیا ہے سورة الم نشرح کی تفسیر میں لکھ دیا ہے اسی بنا پر راویوں نے شق صدر کی مختلف حدیثیں پیدا کرلی ہیں۔ جن میں اختلاف کثیر واقع ہوگیا ہے۔ مگر ہم ان روایتوں میں سے کسی روایت کو بھی قابل احتجاج نہیں سمجھتے۔
علاوہو معراج کے صحاح کی کسی حدیث میں بجز مسلم کے شق صدر کا ذکر نہیں ہے اور اس حدیث کو جو انس بن مالک سے مروی ہے ہم ابھی لکھ آئے ہیں لیکن وہ حدیث بھی قابل احتجاج نہیں ہے کیونکہ خود اس حدیث سے تعارض ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک پر ٹانکے لگانے کا نشان میں دیکھتا ہوں یعنی شق صدر کے بعد جبرائیل نے آپ کے سینہ پر جیسے جراح زخم پر ٹانکے لگاتا ہے ٹانکے لگائے تھے۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک پر اس زمانہ تک کہ انس مسلمان ہوئے ہوں ٹانکوں کے نشان موجود تھے اور حضرت انس ان کو دیکھتے تھے۔ العجب ثم العجب۔
ایسی حدیثوں پر احتجاج نہیں ہوسکتا۔ مولانا شاہ عبدالعزیز نے عجالہ تافعہ میں علامات وضع حدیث میں لکھا ہے کہ ” مخالف مقتضائے عقل و شرع باشد و قواعد شرعیہ آنرا تکذیب نماید “ اس حدیث کا خلاف عقل ہونا تو ظاہر ہے اور مخالف شرع اس لیے ہے کہ اگر شق صدر رسول خدا کا ہوا ہو تو وہ بطور معجزہ کے ہوا ہوگا اور پھر اس کا اندمال بھی بطور معجزہ کے ہونا ہوگا۔ اس پر مثل جراحوں کے ٹانکے لگائے جانے اور ان کے نشانوں کو حضرت انس کا دیکھنا خود اعجاز کے مخالف ہے۔ جس پر اس واقعہ کی بنا ہے اور اس لیے اس حدیث پر احتجاج نہیں ہوسکتا۔
چند حدیثیں ایسی ہیں جن میں شق صدر کا ہونا معراج کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ایسا ہونا البتہ تسلیم ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ ہماری تحقیق میں واقعہ معراج کا ایک خواب تھا جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا اسی خواب میں یہ بھی دیکھنا کہ جبرائیل نے آپ کا سینہ چیرا اور اس کو آب زمزم سے دھویا قابل انکار نہیں ہے۔ اور نہ کوئی اس سے انکار کرنے کی کوئی وجہ ہے۔
بعض کتابیں حدیث کی جیسے کہ بیہقی اور دارقطنی اور مثل ان کے ہیں اور کتب سیرو تواریخ جیسے کہ مواہب لدنیہ اور سیرۃ ابن ہشام وغیرہ ہیں وہ جب تک ان کے صحیح ہونے یا غلط نہ ہونے کی کوئی وجہ نہ ہو مطلقاً قابل التفات نہیں ہیں اور ان کی اکثر حدیثیں اور روایتیں نا معتبر اور موضوع ہیں ان پر استدلال کرنے سے زیادہ کوئی کام نادانی و مفاہت وبلاوت کا نہیں ہے کیا یہ کچھ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ابونعیم کی روایت میں ہے کہ جبرائیل و میکائیل شق صدر کرنے کو آئے تھے۔
وفی روایتہ ناقبل الی طیران ابیضان کانھما نسوان وفی روایۃ غریبۃ نزل علیہ کو کی ان و قدیقال ان الطیرین تارۃ شبھا بالنسرین و تارۃ لاکرکیین وفی کون مجئی جبرائیل و میکائیل (علیہما السلام) علی صورۃ النسر لطیفۃ لان النسر سیدالطیور۔ (صفحہ سیرۃ محمدیہ)
ایک راوی نے اس پر یہ طرہ اضافہ کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے پاس دو سفید پرند آئے گویا کہ وہ نسراں یعنی دو گد تھے اور ایک شاذروایت میں ہے کہ دو کر کی یعنی دو کلنگ جانور آئے تھے کہا جاتا ہے کہ وہ دونوں جانور کبھی تو گد کے مشابہ ہوجاتے تھے اور کبھی کلنگ کے (اور وہ جبرائیل و میکائیل فرشتے تھے) اور جبرائیل و میکائیل کے گدوں کی صورت بن کر آنے میں یہ حکمت تھی کہ گد پرندوں میں سردار ہے۔ کیا کوئی باایمان مسلمان جس کو اپنے ایمان کی کچھ بھی قدر ہوگی ایسی لغو اور بیہودہ روایتوں پر جن کے راوی ” فلیتبوء مقعدہ من النار “ کے مصداق ہیں۔ التفات کرسکتا ہے۔ حاشاو کلا۔
اس سے پہلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نے کافروں کے عقیدوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اور خدا بھی ٹھہراتے تھے اور حشر کو اور قیامت کو نہیں مانتے تھے۔ پھر ان کے اس عقیدہ کا ذکر کیا ہے کہ سختی اور مصیبت دور ہونے کے لیے خدا کے سوا اوروں کو وسیلہ ٹھہراتے تھے اور ان کے وسیلہ سے خدا کی مہرونی چاہتے تھے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ ہر شہر و قریہ کی حفاظت خدا کے سوا کسی دوسرے کے سپرد ہوتی ہے۔ اور اس شہر اور قریہ کے لوگ اس کو پوجتے تھے جیسے کہ اس زمانہ کے مشرکین بھی کسی دیوی یا دیوتا کو اس کا محافظ سمجھتے ہیں یا جیسے جاہل مسلمان کسی ولی یا شہید کو اس جگہ کا صاحب ولایت قرار دے کر افعال نہ شرکیہ اس کی قبر کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس عقیدہ کی تردید میں خدا نے فرمایا کہ جن قریوں کو ہم ہلاک کرتے ہیں یا کوئی عذاب ان پر نازل کرتے ہیں وہ پہلے سے مقدر ہوچکا ہے۔ اور مشرکین جن کو ان قریوں کا محافظ سمجھ کر ان کی پرستش کرتے ہیں۔ بےفائدہ ہے۔
ثمود کی قوم جو الحجر میں رہتی تھی اور جس کی ہدایت کے لیے حضرت صالح پیغمبر مبعوث ہوئے تھے۔ بت پرست تھی اور ان کے بھی اسی قسم کے اعتقادات تھے۔ جب انھوں نے حضرت صالح سے نشانی چاہی اور حضرت صالح (علیہ السلام) نے خدا کے حکم سے ایک اونٹنی خدا کے نام پر چھوڑ دی جس طرح کہ اس ملک میں دیوتاؤں کے نام پر سانڈ چھوڑا جاتا ہے اور عرب والے اونٹنی چھوڑتے تھے مگر انھوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور اس کے بعد سخت بھونچال آنے سے وہ قوم تباہ ہوگئی۔
عرب کے لوگ جو نشانیاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاہتے تھے اس کی نسبت خدا نے ثمود کے قصہ پر اشارہ کرکے بتلایا کہ اگلوں نے نشانی مانگی اور پھر جھٹلایا۔ اس لیے ان کی خواہش سے کوئی نشانی مقرر کرنا بےفائدہ ہے پس یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم کو کسی نشانی یا احکام خاص کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کسی چیز نے منع نہیں کیا کہ باوجودیکہ اگلوں کے مانگنے پر جو نشان دیئے گئے تھے اس کو بھی انھوں نے نہیں مانا۔ پس ایسی خواہشیں لغو اور بےفائدہ ہیں۔ اور نشانیوں یا احکام خاص کا بھیجنا صرف ڈرانے کے لیے ہے وہ کوئی ایسا امر نہیں ہے جو ذریعہ ایمان لانے کا ہو۔
آیت اور آیات کا لفظ جو اس آیت میں ہے اس کے معنی احکام کے بھی ہوسکتے ہیں جو اس اونٹنی کے متعلق حضرت صالح نے بتائے تھے اور نشانی کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر معجزہ یا معجزات کے معنی نہیں ہوسکتے اور اس پر بحث ہم پہلے کر آئے ہیں۔
مفسرین نے اور نیز تفسیر ابن عباس میں لکھا ہے کہ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ تفسیر ابن عباس میں تقدیم و تاخیر کو اس طرح بیان کیا ہے : ” اذ فلنا لک ان ربک واحاط بالناس وما جعلنا الرویا التی اریناک والشجرۃ الملعونۃ فی القرآن الا فتنۃ للناس۔ ونخونھم فلا یزید ھم الا طغیاناکبیرا۔
اس آیت سے پہلے خدا نے فرمایا تھا کہ نشانیوں کا بھیجنا صرف ڈرانے کے لیے ہے۔ اسی کے ساتھ خدا نے فرما دیا کہ ہم نے تجھ سے کہہ دیا ہے کہ بیشک تیرے پروردگار نے سب سب آدمیوں کو گھیر لیا ہے۔ پس نشانیوں کا بھیجنا نہ بھیجنا برابر ہے۔ اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ جو خواب ہم نے تجھ کو معراج میں دکھایا تھا اور شجرہ ملعونہ یعنی زقوم کا جو ذکر قرآن میں ہے وہ لوگوں کی آزمائش کے لیے ہے کہ کون معراج کی تصدیق کرتا ہے اور کون زقوم سے خوف کھاتا ہے مگر ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے اس کے دوسرے معنی لے کر زقوم کی ہنسی اڑائی اور کہا وہ تو کھجور کو مکھن سے ملا کر کھانا ہے جو نہایت مزیدار ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو اس سے کیا ڈراتا ہے۔ اس پر خدا نے فرمایا کہ ہم تو ان کو زقوم سے ڈراتے ہیں۔ ان کو ڈر تو نہیں ہوتا بلکہ سرکشی بڑھ جاتی ہے۔
لما نزلت ایۃ الزقوم ان شجرۃ الزقوم طعام لا ثیم لم یعرفہ قریش فقال ابوجھل ان ھذا الشجر مابینبت فی بلا دنا فمن منکم من یعرف الزقوم فقال رجل قدم علیھم من افریقۃ الزقوم بلغۃ افریقیۃ الزبد بالتمر یقال ابوجھل باجاریۃ ھاتی لنا تمرا وزبدا نزوقم فجعلوایا کلون منہ و یقولون افبھذا یخونھا محمد فی الاخرۃ (لسان العرب مادہ زتم)
لسان العرب میں لکھا ہے کہ جب زقوم کی آیت نازل ہوئی کہ زقوم گنہگاروں کا کھانا ہے۔ قریش نے زقوم کے معنی نہیں سمجھتے اور ابوجہل نے کہا یہ درخت تو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا۔ کیا تم میں سے کوئی زقوم کو جانتا ہے۔ ایک شخص نے جو افریقہ سے قریش کے ہاں آیا ہوا تھا۔ کہا کہ افریقہ کی زبان میں زقوم کھجور کے ساتھ مکھن ملا کر کھانے کو کہتے ہیں۔ ابوجہل نے اپنی کنیز سے کہا کہ مکھن اور کھجور لے آ تاکہ ہم کھائیں۔ اور وہ سب مل کر کھاتے تھے اور کہتے تھے کیا آخرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو اسی چیز سے ڈراتا ہے۔ اسی ہنسی اڑانے پر جو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے زقوم کی نسبت اڑائی خدا تعالیٰ نے سورة صفات میں زقوم کا پھر ذکر کیا اور فرمایا کہ انا جعلنا ھافتنۃ للظالمین انھا شجرۃ تخرج فی اصل الجحیم طلعھا کانہ روس الشیاطین فانھم لاکلون منھا فما لؤن منھا البطون ثم ان لھم علیہا لشوبامن حمیم۔
ہم نے اس کو (یعنی زقوم کو) ظالموں کے واسطے فتنہ بنایا ہے۔ وہ ایک درخت ہے جو قعر دوزخ سے پیدا ہوگا اس کے خوشے شیطانوں کے سروں کی مانند ہیں وہ اس میں سے کھائینگے ۔ اور اس سے اپنا پیٹ بھرینگے۔ پھر اس کے اوپر گرم پانی ملا کر ان کو دیا جائے گا ۔
اور اس آیت سے خدا نے بتایا کہ زقوم کا وہ مطلب نہیں ہے جو کفار عرب نے بتایا ہے بلکہ وہ منجملہ عذبہائے آخرت کے ایک قسم کا عذاب ہے۔ اور جو کہ تمام عذاب دوزخ کے ان چیزوں کی تمثیل میں بیان کئے جاتے ہیں جو دنیا میں تکلیف وہ پائی جاتی ہیں اس لیے اس عذاب کو بھی زقوم سے استعارہ میں بیان کیا ہے۔
زقوم حقیقت میں ایک درخت ہے جس کی نسبت حاشیہ تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ تہامہ میں ہوتا ہے اور لسان العرب میں لکھا ہے کہ قال ابوحنیفۃ اخبرنی اعربی من انردالسراۃ قال الزقوم شجرۃ غبراہ صغیرۃ الورق مدور تھا لا شوک لھا ذکرۃ مرۃ لھا کیا برفی موقھا کثیرۃ ولھا ورید ضعیف جدا یجرسہا النحل ونورقھا بیضاء ور اس ورقھا قبیح جدا۔ (لسان العرب مادہ زقم)
ابوحنیفہ (دینوری) کہتے ہیں کہ قبیلہ ازد کے ایک اعرابی نے مجھ سے بیان کیا کہ زقوم ایک خاکی درخت ہے۔ اس کے چھوئے چھوئے گول اور بےخار پتے ہوتے ہیں۔ بوتیز۔ مزہ کڑوا۔ اور اس کی ٹہنیوں میں بہت سی گرہیں ہوتی ہیں اور پھول بہت نازک اور نرم ہوتا ہے جس کو شہد کی مکھی چاٹتی ہے۔ اس کو شگوفہ سفید ہوتا ہے اور پتوں کے کنارے بہت بدصورت ہوتے ہیں پس عذاب دوزخ کو اسی خبیث ترین درخت کے ساتھ جو دنیا میں پایا جاتا ہے تشبیہ دے کر بیان کیا ہے۔
، خدا نے اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ جب ہم انسان پر نعمت بھیجتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور جب اس کو برائی پہنچتی ہے تو ناامید ہوتا ہے۔ اس کے بعد خدا نے فرمایا ہے کہ اے پیغمبر تو کہہ دے کہ ہر ایک اپنی جبلت یا خلقت پر کام کرتا ہے۔
اشاکلۃ الناحیۃ والطریقۃ والجد سیلۃ و شاکلۃ الانسان شکلہ و ناحیتہ و طریقہ و فی التنزیل العزیز قل کل یعمل علی شاکلتہ۔ ای علے طریقتہ وجدیلتہ ومذھبہ وقال الاخفش علی شاکلتہ ای علے تاحیتہ وجھتہ وخلیقتہ
جس لفظ کا ہم نے ” جبلت یا خلقت “ ترجمہ کیا ہے وہ لفظ ” شاکلہ “ ہے۔ لسان العرب میں لکھا ہے لسان العرب میں لکھا ہے کہ شاکلہ کے معنی ہیں طرف۔ طور و طریقہ اور انسان کے شاکلہ سے اس کی شکل۔ اس کی طبیعت کا میلان جس طرف ہو اور اس کا طریقہ مراد ہے۔ قرآن میں ہے
کہ اے پیغمبر کہہ دے ہر شخص اپنی ” شاکلہ “ پر کام کرتا ہے یعنی اپنے طور و طریقہ پر اور اپنے مذہب پر اور اخفش نے یہ معنی لیے ہیں کہ اپنی طبیعت کے میلان پر جس طرف ہو اور اپنی خلقت پر۔
الشاکلۃ۔ الشکل یقال ھذا علی شاکلۃ ابیہ ای شیھہ والشاکلۃ التاحیۃ والجھۃ وبہ فسرت الایہ۔ قل کل یعمل علی شاکلتہ عن الا خفش وایضا النیۃ قال قتادۃ فی تفسیر الایۃ ای علی جانبہ و علی ماینوی وایضاً الطریقۃ والجد یلۃ وبہ فسرت
تاج العروس شرح قاموس میں لکھا ہے کہ شاکلۃ کے معنی شکل و صورت کے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے باپ کی شاکلہ پر ہے یعنی اس کا ہم شکل ہے اور شاکلہ میلان کی سمت اور جہت کو بھی کہتے ہیں۔ اخفش نے آیت قل کل یعمل الخ کی تفسیر میں شاکلہ کے الا یۃ وایضھا المذھب والخلیقۃ و بہ فسرت الایۃ عن ابن عرفہ وقال الراغب فی تفسیر الایۃ ای علے سجیتہ التی قیدتہ وذلک ان سلظان السبیحۃ علے الانسان قاصر بجستا یثبت فی الذیعۃ الی مکارم الشریقہ و ھذا کما قال (علیہ السلام) ” کل میسولیا خلقہ “ (تاج العروس مادہ شکل)
یہی معنی لیے ہیں۔ شاکلہ کے معنی نیت کے بھی ہیں۔ قتادہ نے آیت مذکور کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر شخص اپنی طبیعت کی رخ اور نیت پر عمل کرتا ہے شاکلہ کے ایک معنی طور و طریقہ کے بھی ہیں۔
آیت مذکورہ بالا کی تفسیر ان معنوں پر بھی کی گئی ہے۔ ایک معنی شاکلہ کے مذہب اور خلقت کے ہیں ابن عرفہ نے اسی معنی پر آیت کی تفسیر کی ہے۔ اور راغب نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ ہر شخص اپنی سجیہ یعنی طبیعت پر عمل کرتا ہے جس کا وہ مقید ہے۔ سجیہ ہی انسان پر ایسا حاکم غالب ہے جو مکارم شریعت تک لے جانے میں وسیلہ ہوجاتا ہے۔ اور یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کے مطابق ہے کہ ہر شخص آسانی دیا گیا ہے اس کام کے لیے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے۔
الشاکلۃ ۔ الشکل والناحیۃ والخاصرۃ والنیۃ والطریقۃ والمذھب ونی فی سورة بنی اسرائیل ” قل کل یعمل علی شاکلتہ “ ای علی سجیتہ وخلقتہ۔ (محیط المحیط مادہ شکل)
محیط المیحط میں ہے کہ شاکلہ کے معنی ہیں۔ شکل ۔ طرف۔ گوشہ ران۔ نیت ۔ طریقہ اور مذہب اور سورة بنی اسرائیل میں آیت قل کل یعمل الخ کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص اپنی سجیہ یعنی طبیعت اور خلقت پر عمل کرتا ہے۔۔
قولہ علی شاکلتہ ای علی طریقتہ وجھتہ وقیل علے خلیقتہ و طبیعتہ و تمام الایۃ یفیدا القول الاول۔ وعلی حاشیۃ الکتاب نسخۃ ای ” علی جبلتہ “
نعات القرآن مصنفہ علامہ محمد بن ابی بکر رازی میں ہے کہ ” علی شاکلۃ “ کے معنی ہیں اپنے طریقہ اور میلان طبعی کے رخ پر۔ اور بعض کے نزدیک اس کے معنی ہیں اپنی خلقت اور طبیعت پر۔ اور پوری آیت سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔
قل کل یعمل علی شاکلتہ ” ای خلیقتہ و ملکۃ الغالبۃ علیہ من مقامہ فمن کان مقام النفس و شاکلتہ مقتضی طبا عھا عمل ما ذکرنا من الاعراض والیاس ومن کان مقامہ القلب و شاکلتہ السجیۃ الفاضلہ عمل بمقتضاھا الشکر والبصر۔ (تفسیر ابن العربی جلد اول صفحہ )
اور امام محی الدین ابن العربی کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ہر شخص اپنی شاکلہ پر عمل کرتا ہے یعنی اپنی خلقت اور ملکہ پر جو اس کے مقام اور مرتبہ کے موافق اس پر غالب ہوتا ہے۔ پس جس کا مقام نفس ہے اور ملکہ وہ ہے جو نفس کے اقتضا کے موافق ہے۔ وہ خدا سے منہ پھیرتا ہے اور ناامید ہوتا ہے اور جس کا مقام قلب ہے اور ملکہ نیک عادت ہے وہ اس کے مقتضا کے موافق شکر و صبر کرتا ہے۔
معالم التنزیل میں علامہ بغوی نے لکھا ہے کہ آیت قل کل یعمل الخ کی تفسیر میں ” قل کل یعمل علی شاکلۃ “ قال ابن عباس علے تاحیتہ قال الحسن و قتادہ علی نیتہ قال المقاتل علے جدیلتہ قال الفراء علی طریقتہ التی جبل علیھا وقال القیتی علی طبیعتہ وخلیقتہ۔ (معالم التنزیل جلد ثانی صفہ )
ابن عباس نے شاکلہ کے معنی لیے ہیں طبیعت کا میلان جس طرف ہو اور حسن بصری اور قتادہ نے نیت کے معنی لیے ہیں۔ اور مقاتل نے طور و طریقہ کے معنی قرار دیئے ہیں اور قراء نحوی نے وہ طریقہ مراد لیا ہے جس پر انسان مجہول ہے اور قیتی نے طبیعت اور خلقت کے معنی بیان کئے ہیں۔
” قل کل یعمل علی شاکلۃ “ قل کل احد یعمل علی طریقتہ التی تشاکل حالدنی الھدیٰ والضلالتہ او جو ھرروحہ والحوالہ التابعۃ لمزاج بدنہ۔۔۔ و قدر فسرت الشاکلتہ بالطبعیۃ والعادۃ والدین۔ (بیضاوی جلد اول صفحہ )
تفسیر بیضاوی میں۔ آیت مذکور بالا کی تفسیر میں لکھا ہے۔ اے پیغمبر کہہ دے کہ ہر شخص ایسے طریقہ پر عمل کرتا ہے جو ہدایت اور گمراہی میں اس کے حال کے مشابہ ہو یا اس کے جو ہر روح اور ان حالات کے موافق ہو جو اس کے مزاج بدنی کے تابع ہیں۔ اور شاکلہ کی تفسیر میں طبیعت عادت اور مذہب کے معنی بھی لیے گئے ہیں۔
مذکورہ بالا اقوال سے ظاہر ہے کہ علما نے ” شاکلہ “ کے متعدد (معنی) اختیار کئے ہیں۔ اگرچہ ہر ایک معنی کا ماحصل قریب قریب ہے۔ لیکن ہم ” شاکلہ “ کے معنی خلقت اور جبلت کے اختیار کرتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے انسان کی ایک فطرت کا بیان کیا ہے جس پر تمام انسان مجہول ہیں اور اس آیت کو اسی آیت پر متفرع کیا ہے۔ اور اس لیے اس آیت میں ” شاکلہ “ کے وہی معنی لینے ضرور ہیں جو انسان کی فطرت اور جبلت پر دلالت کرتے ہوں۔ پس الفاظ جبلت یا خلقت سے ” شاکلہ “ کو تعبیر کرنا نہایت صحیح اور موافق سیاق قرآن کے ہے۔ چنانچہ ابن عرفہ نے شاکلہ کے معنی خلقت کے لیے ہیں۔ راغب نے سجیہ کے معنی لیے ہیں۔ اس کا قول ہے کہ سجیہ ہی انسان پر حاکم غالب ہے اور مکارم شریعت تک لے جانے کا وہی وسیلہ ہوتی ہے اور اسی کی نسبت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمانا ہے کہ ہر شخص معانی دیا گیا ہے اس چیز کے لیے جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ محیط المحیط میں بھی شاکلہ کے معنی سجیہ اور خلقت کے لکھے ہیں۔ اور محمد بن ابی بکر رازی نے بھی لغات قرآن میں شاکلہ کے ایک معنی طبیعت ۔ ختلقت اور جبلت کے ایک بیان کئے ہیں اور امام محی الدین ابن العربی نے اس کے معنی لیے ہیں خلقت اور ملکہ جو انسان پر غالب ہے۔ اور فراء نحوی نے جبلت ۔ خلقت اور طبیعت کے معنی لیے ہیں۔ اور صاحب بیضاوی نے اس کے معنی عادت اور طبیعت کے بیان کئے ہیں۔ پس ہم نے جو شاکلہ کے معنی خلقت اور جبلت یعنی فطرت کے قرار دیئے ہیں۔ اس کی تائید میں علمائے مذکورہ بالا کے اقوال ہیں۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک انسان ایک فطرت یا جبلت پر پیدا ہوا ہے جس کو انگریزی زبان میں نیچر کہتے ہیں اور ان الفاظ سے جو قرآن مجید میں ہیں ” قل کل یعمل علی شاکلتہ “ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو جبلت یا فطرت یا خلقت خدا نے جس انسان کی پیدا کی ہے۔ اسی کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور دوسری بات ان الفاظ سے ” فربکم اعلم یمن ھوا ھدی سھیلا “ یہ ثابت ہوتی ہے کہ جو کچھ انسان کرتا ہے یا کرے گا اچھا یا برا قبل اس کے کہ وہ کرے خدا کو اس کا علم ہے۔ اور خدا جانتا ہے کہ یہ کرے گا۔
اب ہم کو یہ دیکھنا باقی ہے کہ خدا نے انسان کو کس خلقت یا جبلت یا فطرت پر پیدا کیا ہے۔
یعنی اس کے نیچر میں کیا باتیں پیدا کی گئی ہیں۔ کیونکہ برخلاف اس فطرت کے اس سے کوئی امر ظہور میں نہیں آسکتا قرآن مجید میں بھی خدا نے یہی فرمایا ہے ” فطرت اللہ التی فطرالناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ “ اور یہ بات ظار ہے کہ خدا نے ایک حد معین تک انسان کو قدرت عطا کی ہے جس سے وہ اس حدت تک اپنے افعال کا مختار ہے اور یہ سمجھنا کہ ایسا اختیار دینے سے خدا کی قدرت میں اختیار لازم آتا ہے محض غلط ہے کیونکہ اس نے وہ قوت کسی اضطرار یا مجبور ہونے کے سبب سے نہیں دی تھی بلکہ اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے دی تھی اور وہ مختار تھا چاہے دیتا چاہے نہ دیتا اور اس قدرت کا دینا نہایت حکمت پر مبنی ہے جس کی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا ہے ” انی اعلم ما لا تعلمون “
یہ کہنا کہ خدا نے جس فطرت پر جس کو بنایا ہے اس کے تبدیل نہ کرنے سے خدا کا عجز ثابت ہوتا ہے جہلا کا کلام ہے کیونکہ صاحب قدرت اور اختیار کا اپنی بنائی ہوئی فطرت یا قانون فطرت کو قائم رکھنا اس کی قدرت کی دلیل ہے نہ اس کے عجز کی۔
خدا نے اپنی تمام مخلوقات کے پیدا کرنے میں اور ان کو ایک فطرت عطا کرنے میں ہر ایک کے ساتھ نہایت عدل کیا ہے اس کا ثبوت اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر ایک مخلوق کو ایک بھنگے سے لے کر انسان تک جس کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے جو چیزیں کہ بلحاظ اس کی خلقت کے اس کے لیے ضروری تھیں سب عطا فرمائی ہیں کوئی مخلوق ایسا نہیں ہے جس کی نسبت کہا جاسکے کہ بلحاظ اس کی خلقت کے اس کو فلاں چیز ضرور تھی اور اس کو عطا نہیں ہوئی۔ پس یہ ایسا بےنظیر عدل ہے جو خدا کے سوا اور کسی سے ہو ہی نہیں سکتا اور جو فطرت جس میں پیدا کی ہے بلحاظ اس کی خلقت کے اس فطرت کا اس میں ہونا بھی مقتضائے عدل تھا۔ انسان کو جب اس نے مکلف بنایا تو اس فطرت کا بھی جس سے وہ مکلف ہوسکے عطا کرنا عین انصاف تھا اور وہ فطرت اس کا ایک حد مناسب تک مختار ہونا ہے اور اس فطرت کا بدلنا اور اس کو بدستور مکلف رکھنا عدل و حکمت دونوں کے برخلاف تھا اسی لیے خدا نے فرمایا کہ ” لا تبدیل لخلق اللہ “ پس اس فطرت کو قائم رکھنا عین دلیل اس کے کمال قدرت اور عدل کی ہے نہ عجزو ظلم کی۔
اب ہم کو فطرت انسانی کا دریافت کرنا ہے۔ اس بات کو تو کوئی تسلیم نہیں کرنے کا کہ انسان حی کو مثل جماد بےجان کے پیدا کیا ہے اور وہ بذاتہ لا یعقل اور غیر متحرک بالا رادہ رہے کیونکہ ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ وہ ذی عقل اور متحرک بالارادہ ہے۔ جس کام کو وہ چاہتا ہے کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے نہیں کرتا۔ بعض کاموں کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور پھر ان کے کرنے سے رک جاتا ہے اور نہیں کرتا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ انسان میں دو قوتیں موجود ہیں ایک کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور دوسری اسی کام کے کرنے سے اس کو روکتی ہے اور انہی قوتوں کے مطابق وہ عمل کرتا ہے اور اسی کی نسبت خدا نے فرمایا ہے ” کل یعمل علی شاکلۃ “ اور انہی قوتوں کے سبب جو خدا نے عطا کی ہیں خدا نے فرمایا ہے ” فمن شاء فلیومن و من شاء فلیکفر “
اس غرض سے کہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاوے ہم ان دونوں قوتوں میں سے ایک کو بنام قوت تقویٰ اور ایک کو بنام قوت فجور تعبیر کرتے ہیں یہ دونوں قوتیں ہر ذیعقل انسان میں موجود ہیں اور پہلی سے دوسری کو مغلوب کرنا انسان کی سعادت ہے اور دوسری سے پہلی کو مغلوب کرنا انسان کی شہادت ہے۔
بعض انسان ایسے پیدا ہوئے ہیں کہ ان میں قوت تقویٰ قوت فجور پر فطرتا غالب ہے جس سے وہ ازروے فطرت کے قوت فجور کو مغلوب رکھتے ہیں جیسے کہ انبیائے معصومین اور ائمہ اہل بیت معصومین (علیہم السلام) اور دیگر بزرگان دین (رض) اجمعین ہیں۔
اور بعضے ایسے ہیں جن میں قوت فجور ہے مگر جس درجہ تک قوت تقوی ان میں ہے اس کا کام میں لانا ان کا فرض ہے خواہ قوت فجور مغلوب ہو اس کے یا نہیں اور اس کا کام میں نہ لانا معصیت ہے اور اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ ” التائب من نذھب کمن لا ذھب لہ “ توبہ کیا ہے اپنے فعل پر نادم اور شرمندہ ہونا اور خدا سے اسی کی معافی چاہنا اور مصمم ارادہ آئندہ اس کے مرتکب نہ ہونے کا کرنا ہے اور یہ کیا ہے اسی وقت تقویٰ کو کام میں لانا ہے۔
جس طرح کہ انسان کے اور قوے ضعیف اور قوی ہوجاتے ہیں اسی طرح قوت تقویٰ بزرگوں کی صحت اور اعمال نیک اور توجہ الے اللہ اور خوف درجا سے قوی ہوجاتی ہے اور قوت فجور نہایت ضعیف اور مضمحل کالمعدوم ہوجاتی ہے کما قیل ؎
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
اسی طرح افعال شینو کے استعال سے قوت فجور قوی اور قوت تقویٰ ضعیف اور مضمحل اور بعضی دفعہ کالمعدوم ہوجاتی ہے نعوذ باللہ منھا۔
تقویٰ اور فجور ایسے امر ہیں جو مختلف قوموں اور مختلف مذہبوں میں مختلف طرح پر قرار دیئے جاسکتے ہیں مگر ایک امر یعنی خدا کے خالق واحد ہونے کا یقین ایک ایسا امر ہے کہ ادنیٰ تامل میں ہر ذی عقل اس پر یقین کرسکتا ہے۔
دلائل اور مباحث فلسفی کو علیحدہ رکھو کیونکہ عام لوگوں کی سمجھ کے قابل نہیں بلکہ ایک سیدھے اور عام امر پر خیال کرو کہ جب کوئی شخص ایک مٹی کے برتن یا ایک مٹی کے کھلونے گویا ایک پتھر کو کسی جگہ پڑا ہوا یا پتھروں کو بہ ترتیب چنا ہوا دیکھتا ہے تو فی الفور اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ کوئی ان برتنوں اور کھلونوں کا بنانے والا اور اس پتھر کو ڈالنے والا یا پتھروں کو بہ ترتیب چننے والا ہے۔ پس جب کہ ہم اس کائنات کو عجیب خوبی اور عمدگی اور عجیب انتظام سے بنایا ہوا دیکھتے ہیں تو ممکن نہیں ہے کہ ہمارے دل میں یہ خیال نہ آوے کہ ان کا کوئی بنانے والا ہے پس احمق سے احمق ازروے فطرت کے وجود ذات باری پر یقین لاسکتا ہے اور اس کی وحدت پر بھی اس انتظام سے جو کائنات کا ہے ہر شخص یقین کرسکتا ہے۔ اسی عام سمجھ کے لائق دلیل کو خدا نے فرمایا ” لوکان فیہما الھۃ الا برلہ لفسدتا “ یعنی اگر آسمان و زمین میں کئی خدا ہوتے تو تمام انتظام بگڑ جاتا پس تمام انسان کسی فطرت پر پیدا ہوئے ہوں خدا کے وجود اور اس کے وحدہ لا شریک لہ ماننے پر مکلف ہیں۔ غرضیکہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ایک فطرت پر پیدا ہوا ہے اور اسی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
جب ہم یہاں تک پہنچتے ہیں تو ایک اور امر خدا کی ذات میں ہم کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جس کو ہم اس کی صفت علم سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ کسی صانع نے جو کسی چیز کو بنایا ہوا اس کی نسبت یہ گمان نہیں ہوسکتا کہ اس صنعت کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ اس سے کیا کیا امر ظہور میں آوینگے نہ جانتا ہو۔ کیونکہ اگر وہ نہ جانتا ہو تو اس سے اس کا بنانا غیر ممکن ہے مثلاً ایک گھڑی ساز قبل بنانے اس گھڑی کے جانتا ہے کہ اس قدر پرزے اس میں ہوں گے اور وہ پرزے فلاں فلاں کام دینگے۔ اور اس قدر عرصہ تک وہ گھڑی چلے گی اور اس قدر عرصہ کے بعد بند ہوجائیگی۔ پس وہ علتہ العفل جس نے انسان کو مع اس کے قوے اور اس کی فطرت کے پیدا کیا ہے۔ بخوبی جانتا ہے کہ یہ پتلا کیا کمایا کرے گا اور اسی جاننے کو ہم اس علۃ العلل کی صفت علم سے تعبیر کرتے ہیں اور کچھ اس کے علم میں ہے۔ ممکن نہیں کہ اس کے برخلاف وہ پتلا کرسکے۔
اس بیان سے یہ سمجھنا نہ چاہیے کہ ایسی حالت میں وہ پتلا اس بات پر مجبور ہوجاتا ہے کہ خواہ مخواہ وہی کرے یا وہی کرے گا جو اس علۃ العلل کے علم میں ہے اور اس کے برخلاف کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ بات کہ وہ پتلا کیا کیا کرے گا ایک جدا امر ہے اور اس بات کا علم کہ وہ پتلا یہ یہ کرے گا ایک جدا امر ہے اور اس کے علم سے اس پتلے کی مجبوری اس کے افعال میں لازم نہیں آتی۔ اس کی مثال اس طرح بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ فرض کرو۔ ایک نجومی ایسا کامل ہے کہ جو کچھ آئندہ کے احکام بتاتا ہے اس میں سرموفرق نہیں ہوتا اب اس نے ایک شخص کی نسبت بتایا کہ وہ ڈوب کر مرے گا۔ اس کا ڈوب کر مرنا تو ضرور ہے اس لیے کہ نجومی کا علم واقعی ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس نجومی نے اس شخص کو ڈوبنے پر مجبور کردیا تھا پس جو علم الٰہی میں ہے یایوں کہو کہ جو تقدیر میں ہے وہ ہوگا تو ضرور مگر اس کے کرنے پر خدا کی طرف سے مجبوری نہیں ہے بلکہ خدا کے علم کو اس کے جاننے میں یا تقدیر کو اس کے ہونے میں مجبوری ہے۔
وقال لعبداللہ بن عمر بعض الناس یا اباعبدالرحمن ان قوامرایزنون ویشربون الخمر ویسرقون و یقتلون النفس و یقولون کان فی علم اللہ فلا نجد بدامنہ نغضب ثم قال سبحان اللہ العظیم قد کان ذلک فی علمہ انھم یفعلولھا ولم یحملھم علم نہ علی فعلھا حدثنی ابن عمر بن خطاب انہ سمع
امام احمد بن یحییٰ المرتضیٰ زیدی نے اپنی کتاب ملل ونحل میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن عمر سے ایک شخص نے کہا اے ابوعبدالرحمن بعض قوموں کے لوگ زنا کرتے ہیں اور شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ خدا کے علم میں تھا۔ ہم کو اس سے کوئی چارہ نہیں ہے عبداللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول مثل علم اللہ فیکم کمثل السماء اللتی اظلتکم والارض التی اقلتکم فکما لا تستطیعون الخروج من السماء والارض کذلک لا نستطیعون الخروج من علم اللہ و کما لا تحملکم الارض والسماء علی الذنوب کذلک لا یحملکم علم اللہ علیھا۔
بن عمر غصہ ہوئے پھر کہا سبحان اللہ ! بیشک اس کے علم میں تھا کہ وہ ایسے کام کرینگے مگر خدا کے علم نے ان کو ان کاموں کے کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ مجھ سے میرے باپ عمر بن خطاب نے ذکر کیا کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے س ناکہ علم الٰہی کی مثال تم میں مانند آسمان کے ہے جس نے تم پر سایہ کر رکھا ہے اور مانند زمین کے ہے جس نے تم کو اٹھا رکھا ہے پس جس طرح تم آسمان و زمین سے باہر نہیں جاسکتے اسی طرح تم خدا کے علم سے باہر نہیں ہوسکتے اور جس طرح آسمان و زمین تم کو گناہوں پر مائل نہیں کرتے اسی طرح خدا کا علم بھی تم کو ان گناہوں پر مجبور نہیں کرتا۔
لوگوں نے اصحاب کہف کے قصہ کو ایک عجیب قصہ خدا کی نشانیوں کا بنا رکھا تھا حالانکہ وہ کوئی عجیب قصہ نہیں تھا بلکہ ایسا قصہ تھا جو دنیا میں واقع ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے خدا نے پیغمبر سے فرمایا کہ کیا تونے بھی اس کو ایک عجیب قصہ سمجھا ہے ” ام حسبت “ کا لفظ بطور استفہام انکاری کے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قصہ کوئی عجیب قصہ نہیں ہے۔
ان آیتوں میں خدا نے ان باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو اصحب کہف کے قصہ کی نسبت لوگوں
خدا کے نام سے جو بڑا رحم والا ہے بڑا مہربان
میں مشہور تھیں۔ اور ان میں کچھ سچ اور کچھ غلط باتیں مل گئیں تھیں اور اس کے بعد صحیح قصہ بیان کیا ہے جو بارہویں آیت سے شروع ہوتا ہے۔
ان آیتوں میں ان باتوں کی طرف اشارہ ہے جو اصحاب کہف کے قصہ کی نسبت لوگوں میں مشہور نہیں وہ باتیں مختلف تھیں اس لیے ضرور تھا کہ ان آیتوں میں ایسے لفظ لائے جائیں جو ان تمام باتوں پر حاوی ہوں۔ (اذاوی الفتیۃ الی الکہف دخل غلمۃ فی غار الکھف (تفسیر ابن عباس)
مثلاًبعض لوگ کہتے تھے کہ جب وہ لوگ کہف (بعض کہ وہ میں) گئے تو رہے تھے اور بعض کہتے تھے کہ ان پر غشی چھاگئی تھی۔ کوئی کہتا تھا کہ ہو مرگئے تھے اس لیے خدا تعالیٰ کو ایسا لفظ لانا تھا جو ان تمام مشہور قولوں پر حاوی ہوا۔ اور اس لیے فرمایا ” قضربنا علی اذانھم “ یعنی ان کے کانوں کو ایسا کردیا جس سے وہ سن نہ سکیں اور کانوں کی ایسی حالت سوجانے میں، غش آنے میں، مرجانے میں ہر حالت میں ہوتی ہے۔ پس ان لوگوں کے خیالات پر جامع ہونے کو اس سے بہتر کوئی لفظ نہ تھا اور بہت بڑی بلاغت قرآن مجید کی ہے۔
یا مثلاً لوگوں میں اختلاف تھا۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ ان کی یہ حالت تین سو برس تک رہی اور بعض کہتے تھے تین سو نو برس تک اور بعض تاریخوں سے پایا جاتا ہے کہ دو سو یا دو سو چالیس برت تک ایسا لفظ جو ان تمام اختلافات پر حاوی ہو ” سنین عددا “ سے بہتر کوئی نہیں تھا اور یہی لفظ قرآن مجید میں لایا گیا جو نہایت بلیغ ہے۔
یا مثلاً جو لوگ ان کو سوتا سمجھتے تھے یا غش آجانا سمجھتے تھے یا مرا ہوا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس حالت کے بعد وہ اٹھے تو ان تمام خیالات پر جامع ” بعثنا “ کے لفظ سے بہتر کوئی لفظ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ وہ سونے کے بعد اٹھنے پر بھی اطلاق کیا جاتا ہے اور غش کے بعد افاقہ ہونے پر بھی اور مر کر زندہ ہونے پر بھی۔
اس پر ایک شبہ ہوسکتا ہے کہ ضرب علی الآذان اور بعث کو خدا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور کہا ہے ” فضربنا علیٰ اذانھم “ ثم بعثنھم “ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس قصہ کو عجیب بنایا تھا اور وہی روایتیں ان میں چلی آتی تھیں وہ بھی ان کا سلانا یا خش میں ڈالنا یا مردہ کردینا اور پھر اٹھانا خدا ہی کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اس لیے انہی کے خیال کے موافق اس مقام پر بھی خدا نے ان سب باتوں کو نقلاً اپنی طرف منسوب کیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ وہ لوگ ان تمام باتوں کو خدا کی طرف منسوب کرتے تھے۔
پس جو عجیب چیز اس قصہ میں بنائی گئی تھی وہ اصحاب کہف کا اس قدر مدت دراز تک سوتے رہنا یا غش میں پڑا رہنا یا مردہ ہو کر زندہ ہونا تھا جبکہ خدا تعالیٰ نے پہلی آیت میں اس قصہ کے عجیب ہونے کی نفی کی تو ان کے اس قدر مدت تک سوتے رہنے یاغش میں پڑے رہنے یا مردہ رہے کر پھر زندہ ہونے کی نفی لازم آتی ہے۔
اس کی تائید خود قرآن مجید کی اگلی آیتوں سے ہوتی ہے جہاں سے خدا تعالیٰ نے خود ان کا واقعی اور سچا قصہ بیان کرنا شروع کیا ہے اور جس میں ان کے اس قدر زمانہ دراز تک سوتے رہنے یا غش میں پڑے رہنے یا مردہ رہنے کا مطلق ذکر نہیں ہے۔ نتیجہ اس بحث کا صرف اس قدر ہے کہ جو قصہ لوگوں میں مشہور تھا کہ اصحاب کہف اس قدر مدت دراز تک سو کر یا غش میں پڑے رہے کر اٹھے یامردہ رہے کر پھر زندہ ہوئے صحیح نہیں تھا۔
اس میں کچھ شعبہ نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرون سے یہ قصہ جس طرح کہ ان میں مشہور تھا سنا اور اس پر نہایت متعجب ہوئے تھے خدا تعالیٰ نے اس تعجب کے دور کرنے کو فرمایا ” کہ اے محمد کیا تونے سمجھا ہے کہ اصحاب کہف درقیم میری عجیب نشانیوں میں تھے “ یعنی وہ کچھ عجیب نہ تھے۔
علمائے مفسرین نے بھی یہ معنی اختیار کئے ہیں۔ مگر باوجود عجیب ہونے کے نفی کرنے کے اس کا عجیب ہونا قائم رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس لیے عجیب نہیں ہے کہ خدا کی تمام نشانیاں عجیب ہیں یا یہ کہ خدا کی مخلوقات مثلاً آسمان اور زمین وغیرہ اس قصہ سے بھی اعجب یعنی عجیب تر ہیں۔
مگر ان دونوں دلیلوں میں غلطی ہے بیشک خدا کی تمام مخلوقات اور اس کے تمام کام فی نفسہ عجیب ہیں مگر جو روزمرہ دیکھنے و برتنے میں آتے ہیں ان کا عجیب ہونا نہیں سمجھاجاتا بلکہ اسی کا عجیب ہونا سمجھا جاتا ہے جو معمولی باتوں سے بڑھ کر ہو پس یہ کہنا کہ قصہ اصحاب کہف عجیب تو ہے مگر جو کہ تمام کام خدا کے عجیب ہی ہیں اس لیے اس قصہ کو بالتخصیص عجیب مت سمجھو بالکل غلط اور خلاف مقصود آیت کے ہے کیونکہ آیت میں اس کے عجیب ہونے کی نفی سے یہ مراد ہے کہ وہ ایک معمولی واقعہ ہے جو انسانوں پر گزرا ہے اس میں تعجب کرنے کی کوئی بات نہیں۔
دوسرا استدلال کہ اور کام خدا کے اس سے بھی زیادہ تر عجیب ہیں اس لیے گو کہ وہ قصہ عجیب ہے مگر اس کو عجیب نہ سمجھو اور بھی زیادہ مہمل اور بےمعنی ہے آیت میں اس کے عجیب ہونے کی نفی کی گئی ہے اس میں لفظ ” عجبا “ ہے اگر ” اعجبا “ کا لفظ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ نفی زیادہ تر عجیب ہونے سے متعلق ہوتی اور قصہ کافی نسفہ عجیب ہونا باقی رہتا مگر جبکہ عجیب ہونے کی ہی نفی ہے تو بجز اس کے کہ وہ ایک عام واقعہ ہو جو دنیا میں ہوتے ہیں اور کوئی صفت تعجب اس میں باقی نہیں رہتی۔ بلاشبہ خدا تعالیٰ کی تمام نشانیاں اور اس کی تمام مخلوقات آسمان و زمین انسان و حیوان چیونٹیاں اور بہنگے سب عجیب ہیں لیکن باعتبار نفس خلقت کے فی نفسہ عجیب ہونا دوسری چیز ہے جو امور کہ موافق عادت کے ہوتے ہیں گو وہ فی نفسہ عجیب ہوں مگر عادت کے موافق ہونے سے ان پر کوئی متعجب نہیں ہوتا تعجب جب ہی ہوتا ہے جب کوئی چیز خلاف عادت وقوع میں آوے۔ پس یہ آیت جو تعجب کی نفی پر دلالت کرتی ہے وہ اسی تعجب کی نفی کرتی ہے جو کسی امر کے خلاف عادت ظہور میں آنے سے ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اصحاب کہف میں کوئی بات تعجب کرنے کے لائق نہیں ہے ان پر کوئی واقعہ خلاف عادت جس سے تعجب ہو جیسا کہ لوگوں نے مشہور کررکھا ہے نہیں گزرا۔ وہ مثل اور انسانوں کے انسان تھے اور جیسے واقعات انسانوں پر گزرتے ہیں ویسے ہی ان پر بھی گزرے تھے کوئی امر خلاف عادت جو تعجب انگیز ہو نہیں ہوا۔