سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 12
ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ﴿٪۱۲﴾
تفسیر سرسید :
بارہویں آیت سے صحیح اور واقعی قصہ اصحاب کہف کا شروع ہوتا ہے۔ تفسیر کبیر میں یہ لکھا ہے کہ پہلی آیتوں میں اس قصہ کا ایک ٹکڑا بیان کیا ہے اور اس کی بعد کی آیتوں میں ضورا قصہ ہے مگر کوئی وجہ نہیں بیان کی ہے کہ کیوں ان دونوں مقاموں میں اس طرح پر تفریق کی ہے کہ پہلے تو اس کی وحی ہونے کی بابت کچھ ذکر نہیں کیا اور پھر جہاں سے وہ قصہ شروع ہوا ہے وہاں فرمایا ہے ” لخق نقص علیک نبنا ھم بالحق “ یعنی ہم ان کا سچا تجھ پر بیان کرتے ہیں۔ اور کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی کہ اس اخیر جملہ میں ” بالحق “ کے لفظ سے کیوں تاکید کی گئی پس صاف ظاہر ہے کہ پہلی آیتوں میں وہ بیان ہے جو لوگوں نے اس قصہ میں عجائبات ملاوے تھے اور اس کی نفی کی ” ام حسبت “ سے اور پھر کہا کہ صحیح اور سچا قصہ ہم بیان کرتے ہیں۔ جو صاف دلل اس بات کی ہے کہ سچا اور صحیح قصہ اس آیت سے شروع ہوا ہے نہ پہلی آیتوں سے۔
قبل اس کے کہ ہم اصحاب کہف کی قصہ کی آیتوں کی تفسیر شروع کریں ہم کو ضرور ہے کہ اصحاب کہف کے کچھ حالات بیان کریں اور ان کے مذہب کا بھی کچھ ذکر کریں کیونکہ خدا نے فرمایا ہے ” انہم فتبۃ امنوا ربھم وزدنا ھم ھدی “ یعنی وہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو زیادہ ہدایت کی تھی زیادہ ہدایت کرنے سے یہ اشارہ ہے کہ جب وہ بادشاہ ظالم کے سامنے پکڑے گئے تو وہ اپنے سچے مذہب پر قائم رہے جیسا کہ ان کے قصہ میں بیان ہوا پس اس استقامت کو زیادتی ہدایت سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان خدا پرست تھے اور اس لیے ان کے مذہب کی تحقیق کرنی بہت ضروری ہے۔
اصحاب الکہف والرقیم
سب سے اول اس امر کا تصفیہ کرنا چاہیے کہ اصحاب کہف در قیم کا ایک ہی گروہ پر اطلاق ہوا ہے یا وہ مختلف گروہوں پر یعنی جن لوگوں پر اصحاب کہف کا اطلاق ہوا ہے انھیں پر رقیم یعنی اصحاب رقیم کا اطلاق ہوا ہے یا اصحاب کہف ایک جدا گروہ تھا اور اصحاب رقیم جدا گروہ۔
جو کچھ بحث ہوسکتی ہے وہ رقیم کے لفظ پر ہوسکتی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے جیسا کہ تفسیر بیضاوی اور کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ اصحاب الرقیم ایک جدا گروہ تھے اور ہو تین شخص تھے کہیں جانے تھے رستہ میں مینھ آیا ایک پھاڑ کے غار میں ہو بیٹھے اوپر سے پہاڑ گرا اور غار کا منہ بند ہوگیا ان لوگوں نے خدا کے سامنے عاجزی کی اور اس مصیبت سے نکلنے کی دعا مانگی کچھ عرصہ کے بعد جو پتھر پہاڑ کا اوپر سے پھسل گرا تھا اور جس نے غار کا منہ بند کردیا تھا وہ اور نیچے کو پھسل گیا اور غار کا منہ کھل گیا۔
یہ قصہ امام محمد اسماعیل بخاری نے بھی اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کیا ہے۔ مگر کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس مقام پر لفظ رقیم سے ان لوگوں کے قصہ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔
اول تو اس لیے کہ اس گروہ پر اصحاب الرقیم کا اطلاق نہیں ہوا۔ دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے اس مقام پر دو گروہ کے قصے نہیں بیان کئے بلکہ صرف ایک گروہ کا قصہ بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب کہف ورقیم ایک ہی گروہ کا لقب تھا۔
ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جہاں خدا نے اصحاب کہف کی تعداد میں لوگوں کا اختلاف بیان کیا ہے کہ کوئی تو کہتا ہے کہ وہ تین شخص تھے کوئی کہتا ہے کہ پانچ تھے کوئی کہتا ہے سات تھے۔ پس بعض لوگوں نے تین کی تعداد پر خیال کرکے رقیم کے لفظ سے اس گروہ کا اشارہ سمجھا جن کی تعداد تین تھی اور وہ بھی پہاڑ کے غار میں اوپر سے پتھر گرنے کے سبب بند ہوگئے تھے۔ مگر جیسا کہ ہم نے بیان کیا نہ کوئی وجہ پائی جاتی ہے اور نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ ان لوگوں پر اصحاب الرقیم کا اطلاق ہوا ہو البتہ قسطلانی شرح صحیح بخاری میں شہاب الدین احمد بن محمد الخطیب نے اصحاب الغار کا ان پر اطلاق کیا ہے مگر اصحاب الرقیم کا کسی نے اطلاق نہیں کیا۔
پس اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کا لقب ہے۔ اصحاب کہف تو ان کو اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک ظالم بت پرست بادشاہ کے ظلم سے ایک پہاڑ کی کہ وہ میں جا چھپے تھے عربی زبان میں پہاڑ کی کہ وہ کو کہف کہتے ہیں اس لیے ان کا لقب اصحاب کہف ہوگیا ہے۔
بیضاوی اور نیز اور مورخوں اور مفسروں نے رقیم کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رقیم اس شہر کا نام ہے جس میں اصحاب کہف رہتے تھے بعضوں کا قول ہے کہ پہاڑ کی کہ وہ کا نام ہے جس میں اصحاب کہف چھپے تھے ۔ بعضوں نے کہا کہ جس جنگل میں وہ پہاڑ تھا اس جنگل کا نام ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کے کتے کا نام ہے جو ان کے ساتھ تھا اس لیے ان کو اصحاب الرقیم کہنے لگے اور اس کی سند میں امیہ بن ابی الصلت شاعر جاہلی کا شعر لایا جاتا ہے جس میں اس نے کہا ہے ” ولیس بہا الاالرقیم مجاوراً “ مگر ان میں سے کوئی بات اعتبار کے قابل نہیں ہے ” عربی کتابوں میں ان کے کتے کا نام قطمیر لکھا ہے اور انگریزی کتابوں میں کر اٹیم یا کر اٹیمر اور یہ نام ملتے جلتے ہیں صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے میں جو فرق لہجہ اور تلفظ میں ہوجاتا ہے وہی کر اٹیمر اور قطمیر میں ہوگیا ہے۔
رقیم کے معنی زروے بغت کے لکھے ہوئے کے ہیں محمد اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں رقیم کی تفسیر میں لکھا ہے الرقیم الکتاب مرقوم مکتوب من الرقم اور اس میں سعید ابن جبیر کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اصحاب کہف کا حال اور نام ایک زمانہ میں جست کے پترے پر کندہ کر کر اور بعض روایتوں کے مطابق پتھر پر کھود کر رکھا گیا تھا اور اس سبب سے انہی لوگوں کا لقب اضحاب الرقیم بھی ہوگیا ہے۔ پانچویں صدی کے اخیر میں یا چھٹی صدی عیسوی کے شروع میں یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیشتر ایشیا مانر کے بشپ نے اس قصہ کو بطور عیسائی مذہب کے متبرک قصہ کے تحریر کیا تھا پس ہر صورت سے اصحاب کہف پر اصحاب الرقیم کا اطلاق صحیح اور درست ہوتا ہے اور رقیم عطف تفسیری ہے اصحاب کہف کی وہو الصحیح عندنا۔
اس بات میں نہایت اختلاف ہے اور آج تک تحقیق نہیں ہوا کہ یہ لوگ تعداد میں کتنے تھے غالب رائے یہ ہے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا جو ان کے ساتھ تھا۔
ان کے ناموں میں بھی بہت اختلاف ہے مگر وہ اختلاف زیادہ تر ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے اور الفاظ کے تلفظ کے اختلاف سے علاقہ رکھتا ہے اور کاتبوں نے زیادہ تر تحریف کردیا ہے بہرحال ہم اس مقام پر ان کے ناموں کو جس طرح کہ مختلف کتابوں میں لکھے ہیں لکھتے ہیں۔
تفسیر معالم التنزیل اور اس میں ان کی تعداد لکھی ہے
منسلمینا یحشلمینا کلیخا مرطونس کشتونس ویرونس بطیوس۔ ویموس قالوس کلبھم قطمیر
تفسیر بضاوی و کشاف و تفسیر کبیر و تفسیر مسدارک
یملیخا مکشلینیا مشلینیا مرنوش دیرنوش شاذنورش والراعے کلبھم قطمیر
تاریخ کامل لابن اثیر
مکسلمینا تملیخا مرطوس نیرونس کسطومس دینموش ریطوفس فالوس فحسلمینا کلبھم قطمیر
معجم البلدان یاقوت حموی
یملیخا مکسملینا مشلینیا مرطونس دبریوس سراپیون افستیطیوس کلبھم قطمیر
تاریخ طبری
مکسملینا فخسملینا یمنیخ یا یملخا مرطوس لسوطونس بیرونس دوسمونس بطونس قالوس
تاریخ احمد ابی یعقوب العروف بالیعقوبی
مکسلمینا مراطوس شاہ نونیوس بطرنوش ذولس یوانس کینفرطونیوطوا ملیخا الراعی کلبھم قطمیر
کیورس متہس مولفہ بارنگ گولڈ
میکنی میں مالکس مارشین ڈائیونی سس جان سیرا پین کا نسطین ٹاین
کلبھم کر اٹیم یا کر اٹیم شہر جس میں اصحاب کہف رہتے تھے
اکثر مورخین و مفسرین کا قول ہے جو ہر طرح پر صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جس شہر میں اصحاب کہف رہتے تھے اس کا نام افسوس تھا یا قوت حموی نے اپنی کتاب معجم البلدان میں اس کے اعراب کو بھی ضبط کیا ہے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس متہیس میں اس شہر کا نام ایفی سس لکھا ہے اور یقین ہوتا ہے کہ عربی تاریخوں میں یہی نام متغیر ہو کر افسوس ہوگیا ہے۔
لانگ میں گرین کمپنی نےء میں بمقام لندن قدیم رومیوں کے زمانہ کا نقشہ جغرافیہ چھاپا ہے جس میں شہروں کے وہی قدیم نام ہیں جو اس زمانہ میں تھے اس میں جو نقشہ ایشا مینیر کا ہی اس میں ایفی سس شہر کا نام درجہ وقیقہ عرض شمالی اور درجہ دقیقہ طول شرقی پر عین دریاے ایجین کے کنارہ پر مثبت ہے اس کے قریب پہاڑ بھی واقع ہیں اور کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس جگہ ایفی سس شہر تھا جس میں اصحاب کہف رہتے تھے۔
بعضوں نے کہا ہے کہ اصحاب کہف کے شہر کا نام رقیم تھا اور بعضوں نے کہا کہ اس پہاڑ کی کہ وہ کا نام تھا جس میں اصحاب کہف جاکر رہے تھے مگر یہ صحیح نہیں یاقوت حموی نے بھی لکھا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ اہل روم کی سلطنت میں جو شہر افسوس تھا وہی شہر اصحاب کہف کا تھا محمد بن محمود القردینی نے اپنی کتاب آثار البلاد و اخبار العباد میں افسوس ہی کو اصحاب کہف کا شہر قرار دیا ہے۔ شاید لوگوں نے اس خیال سے کہ اصحاب کہف کے نام جست کی تختی پر کہود کر شہر میں رکھے گئے تھے اس شہر کو اور بعضوں نے اس خیال سے کہ اس پہاڑ پر جس میں وہ کہ وہ تھی ان کے نام کندہ ہوئے تھے اس پہاڑ کو یا اس کہ وہ کو رقیم کے نام سے موسوم کردیا ہو۔
اصحاب کہف کس زمانہ اور کس بادشاہ کی عہد میں تھے
ابوالفرج مالطہیاے عیسائی مورخ نے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ آخر کو مسلمان ہوگیا تھا اپنی کتاب مختصر الدول میں لکھا ہے کہ اصحاب کہف ذوقیوس قیصر کے عہد میں ہے جو عیسائیوں کا نہایت دشمن تھا اور ان کو قتل کرنا تھا۔ تاریخ طبری میں اس بادشاہ کا نام دقینوس لکھا ہے۔
اتاریخ کامل ابن اشیر میں اس کا نام دقیوس لکھا ہے اور یہی لکھا ہے کہ بعض آدمی اس کا نام دقیانوس کہتے ہیں۔
ابوالفدا اسماعیل نے اپنی تاریخ میں بھی یہی نام بیان کئے ہیں اور کلھا ہے کہ وہ اسکندری میں بادشاہ ہوا تھا اور میں مرگیا ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب آثار الباقیہ عن قرون الخالیہ میں اس بادشاہ کا نام داقیاوس لکھا ہے اور مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس متہس میں اس بادشاہ کا نام دی سس لکھا ہے۔
اسی مصنف نے لکھا ہے کہ روم میں ویکٹورم کے عجائب خانہ میں گچ سے اصحاب کہف کی تصویریں بنی ہوئی ہیں ان تصویروں سے بعضوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہء میں دی سس بادشاہ کے عہد میں مارے گئے تھے۔
عموماً مسلمان مورخ اور مفسرین اس بادشاہ کا نام جس کے عہد میں اصحاب کہف تھے دقیانوس لکھتے ہیں اور ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ تمام اختلافات ایک زبان کے ناموں کو دوسری زبان میں تلفظ کرنے سے پیدا ہوئے ہیں اور سب کے ملانے سے یقین ہوتا ہے کہ وہ رومی بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔
جو زمانہ کہ اصحاب کہف کا ابوالفدا نے بیان کیا ہے وہ قریباً صحیح و درست معلوم ہوتا ہے۔ اسکندر تین سو چھتیس برس قبل حضرت مسیح کے تخت پر بیٹھا تھا اور اصحاب کہف پانسو چالیس سنہ سکندری میں تھے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ 540 ء میں تھے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے ان کا تخمینہ انداز سےء قرار دیا ہے معندا جو بادشاہ کہ زمانہ سکندر سے دقیوس تک گزرے ان کے زمانہ سلطنت میں بھی کسی قدر اختلاف ہے اور یہ بھی ایک سبب ہے کہ اصحاب کہف کے زمانہ میں کسی قدر اختلاف پیدا ہوتا ہے مگر عام طور پر خیال کرنے سے جو زمانہ قرار دیا گیا ہے قریباً صحیح معلوم ہوتا ہے۔
بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ اصحاب کہف حضرت عیسیٰ کے زمانہ سے بہت پیشتر تھے اور حضرت عیسیٰ نے ان کی خبر دی تھی اور بعد حضرت عیسیٰ کے زمانہ فترت میں یعنی جبکہ کوئی پیغمبر نہ تھا وہ زندہ ہوئے تھے یا اپنی نیند سے جو اخ الموت تھی اٹھے تھے مگر اس کی صحت کا انجیلوں یا حواریوں کے ناموں یا کسی معتبر یا مظنون طریقہ سے کوئی ثبوت نہیں پایا جاتا۔
اصحاب کہف کا مذہب
کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اصحاب کہف عیسائی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں تھے تمام کتابوں اور مختلف روایتوں سے یہی امر ثابت ہوتا ہے اور خود ان کا واقعہ کہ ایک ظالم اور بت پرست بادشاہ کے خوف سے جو عیسائیوں کو قتل کرتا تھا جان اور ایمان بچا کر بھاگے تھے ان کے عیسائی ہونے کا کافی ثبوت ہے۔
البتہ جیسا ان کا تقدس اور خدا پرستی تاریخوں اور تفسیروں میں لکھی ہے اور جس کی نسبت قرآن مجید سے بھی اشارہ پایا جاتا ہے اس کی نسبت شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ صلیب کو اور حضرت عیسیٰ کی تصویر کو پوجتے تھے اور کم سے کم یہ کہ تثلیث کے فائل تھے تو کیونکر ان کو خدا پرست اور موحد مسلمان یا مومن خیال کیا جاسکتا ہے مگر ان میں سے کسی بات کا ثبوت نہیں ہے۔ اس زمانہ کے عیسائیوں میں عقائد مذہبی بہت کم قرار پائے تھے اور مجھ کو عیسائی مذہب کی اکلریا سٹیکل ہسٹری پر غور کرنے سے نہایت شبد ہے۔ کہ جو عقائد بعد عیسائی ہوجانے قسطنطین کے رومی اور یونانی چرچ میں قائم ہوگئے وہی عقائد عام طور پر اس زمانہ کے تمام عیسائیوں کے تھے۔
دقیوس ہی کے زمانہ کے قریب جس زمانہ میں اصحاب کہف کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے ایک فرقہ تہا جس کا ابوانصرح عیسائی مالطیائی نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ وہ اقانیم ثلاثہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کو نہیں تسلیم کرتا تھا بلکہ وجود اور کلمہ اور حیات کو اقانیم ثلاثہ جانتا تھا اور کہتا تھا کہ ان اقانیم سے کوئی زیادتی ذات باری پر نہیں ہوتی جبکہ یہ صفات اعتباری ہیں کوئی شے اس کا مسمی موجود فی المخارج نہیں ہے اور کہتا تھا کہ ذات باری موجود ہے لا بوجود اور حکیم ہے لا بحکمۃ اور حی ہی لا بجیوۃ اور انبیذ وقلس کا بھی یہی مذہب تھا اس کے بعد مصنف مذکور لکھتا ہے کہ اس مذہب کو ایک گروہ مسلمانوں نے جو صفات کے نفی کرنے والے ہیں (یعنی صفات باری سے کچھ زیادتی ذات باری پر نہیں سمجھتے) اختیار کیا ہے۔
اسی زمانہ کے قریب ایک فرقہ خولی الشمیشاطی کا پیرو تھا جو کہتا تھا کہ تمام معلولات باری تعالیٰ کے ارادے ہیں اور اس کا کوئی معلول ذاتی نہیں ہے اور اسی لیے وہ لم یلدولم یولد ہے اور اس لیے مسیح نہ کلمۃ اللہ ہے اور نہ جس طرح کہ ظاہر مذہب عیسائی میں ہے وہ کو اری سے پیدا ہوا ہے۔
پس جبکہ اس زمانہ کے عقائد و مذہب کا یہ حال تھا تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ اصحاب کہف تثلیث کے قائل تھے بلکہ مسلمانوں کو جو قرآن مجید کو برحق سمجھتے ہیں اس بات کے یقین کرنے کے لیے کہ اصحاب کہف عیسائی اور موحد خدا کو واحد اور حضرت عیسیٰ کو پیغمبر برحق مانتے تھے ثبوت کافی ہے۔ فھم کانوا مومنین مسلمین موحدین قائلین بان لا الہ الا اللہ عیسیٰ رسول اللہ۔
اس قدر بیان کرنے کے بعد ہم کو ضروری ہے کہ قرآن مجید کی ان آیتوں کی جو اصحاب کہف کے قصہ سے متعلق ہیں تفسیر لکھیں مگر مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم اصحاب کہف کا قصہ صحیح صحیح بلا تعرض آیات کے لکھ دیں اور پھر آیات کی تفسیر بیان کریں۔ اس طریقہ کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آیات کی تفسیر بخوبی لوگوں کی سمجھ میں آئیگی۔
اصحاب کہف کا قصہ یعنی وہ واقعات جو ان پر گزرے
مذکورہ بالا حالات سے ظاہر ہے کہ اصحاب کہف تاریخی اشخصا ص ہیں فرض قرار دیئے ہوئے نہیں ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو سید ہے ساد ہے واقعی حالات ان پر گزرے تھے ان میں بہت لغو اور بیہودہ اور خلاف قیاس باتیں اور عجائبات شامل کرلیے گئے ہیں اور یہ ایک معمولی بات ہے کہ نیک اور بزرگ لوگوں پر جو ظلم اور سختی ظالموں کے ہاتھ سے گزر جاتی ہے بعد کو ان کی نسبت بہت سے زائد اور عجیب باتیں بڑھا دی جاتی ہیں اسی طرح اصحاب کہف پر جو حالات اور واقعات گزرے اس کو بطور تعجب انگیز کہانی کے بنا لیا ہے اور بےسروپا اور محض بیہودہ روایتیں مشہور ہوگئی ہیں ہمارا کام یہ ہے کہ ان روایتوں میں سے جو قابل طمانیت ہیں ان پر لحاظ کرکے صحیح قصہ اصحاب کہف کا اول بیان کریں اور پھر قرآن مجید کی آیتوں سے تطبیق دے کر دکھلادیں کہ کس قدر قصہ اس میں کا قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور مفسرین کو جو اس قصہ کے بیان میں اور آیتوں کی تفسیر میں دھوکا ہوا ہے حتی المقدور اس کو ظاہر کریں۔
ابو الفرج مسیحی نے اپنی تاریخ مختصروں میں اور اسماعیل ابوالفدا نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ غور ذیانوس رومی قیصر عیسائی ہو کیا تھا اور عیسائیوں پر مہربانی کرتا تھا اس پر دقیوس نے جس کو دقیانوس بھی کہتے ہیں اور جو بت پرست اور عیسائیوں کا دشمن تھا چڑھائی کی اور سکندری میں اس کو مار ڈالا اور خود بادشاہ ہوا اور عیسائیوں کو قتل کرنا یا بت پرستی پر مجبور کرنا شروع کیا۔
اسی کے عہد میں اصحاب کہف عیسوی مذہب پر تھے ان کے عیسائی ہوجانے کی مختلف کہانیاں مشہور ہیں جن کی نسبت ہم کو بحث کرنا محض فضول معلوم ہوتا ہے وہ کسی طرح عیسائی ہوئے ہوں اس امر کا مسلم ہونا کہ وہ عیسائی تھے ان کے اصلی واقعات کے بتانے کو کافی ہے۔
تمام روایتیں اور تاریخیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس ظالم بادشاہ نے ان لوگوں کو جو تعداد میں اس وقت چھ تھے بلا یا اور مذہب عیسوی چھوڑنے اور بت پرستی کرنے کو کہا مگر ان سب نے انکار کیا اس پر بادشاہ نے ان کو مہلت دی اور اس مہلت میں وہ شہر سے بھاگے اور ایک چرواہا معہ کتے کے ان کے ساتھ ہولیا اور وہ سب ایک پہاڑ کی کہ وہ میں جو شہر افسوس سے کچھ فاصلہ پر تھے جاکر چھپ رہے۔ یہاں تک روایتوں میں چند ان اختلاف نہیں ہے لیکن اس کے بعد کے واقعات میں اختلاف شروع ہوتا ہے یعنی پہاڑ کی کہ وہ میں چھپنے کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو شہر بھیجا کہ چپکے سے کھانا خرید لاوے اکثر مورخین اور اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ وہ لوگ پہاڑ کی کہ وہ میں جاکر سو رہے اور زمانہ دراز تین سو یا تین سو نو برس سونے کے بعد جب اٹھے تو انھوں نے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو شہر میں بھیجا۔ بعض مورخین نے پہلی دفعہ اسی دن جب وہ کہ وہ میں گئے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو بھیجنا اور پھر دوسری دفعہ کئی سو برس سو کر اٹھنے کے بعد ایک شخص کا بھیجنا لکھا ہے جو محض غلط ہے اور صرف بنایا ہوا قصہ ہے ان پر پہاڑ کی کہ وہ میں سوتے ہونے کے خیال سے یہ قصہ گڑھ لیا گیا ہے مگر اصلیت اس کی جیسے کہ محققانہ نظر سے پائی جاتی ہے صرف اس قدر ہے۔ کہ وہ لوگ رات کے وقت شہر سے بھاگے تھے جیسے کہ فروینی نے لکھا ہے کہ ” انھوں نے رات کو بھاگنے کا قصد کیا جب رات کا اندھیرا ہوگیا تو ہر ایک شخص اپنے گھر سے کچھ مال لے کر چل کھڑا ہوا “۔
صبح ہوتے وقت وہ لوگ پہاڑ کی کہو پر پہنچے جیسا کہ قرہونی نے بھی لکھا ہے پس وہ کہ وہ میں گئے رات کے جاگے رستہ چلے تھکے ہوئے تھے کہ کہ وہ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا سو رہے۔ کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تین پہر سو نیکے بعد وہ اٹھے اور آپس میں پوچھنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے کسی نے کہا دن بھر کسی نے کہا کچھ کم کیونکہ کہ وہ کی اندھیری میں وہ دن کا اندازہ ٹھیک ٹھیک نہیں کرسکتے تھے۔
جب وہ اٹھے تو انھوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو کھانا لانے کو بھیجا قرذینی نے صاف لکھا ہے کہ جس دن وہو کہ وہ میں گئے اسی دن انھوں نے کھانا لینے کو بھیجا تھا۔ تفسیر معا الم التنزیل میں بھی محمد بن اسحاق کی روایت سے لکھا ہے کہ جب وہ کہ وہ میں گئے تو تملینی ان کے لیے شہر سے کھانا خرید لایا کرتا تھا اور چند روز تک جس کی تعداد نہیں بیان کی مگر معلوم ہوتا ہے کہ دو تین روز تک یعنی دقیانوس کے دوبارہ شہر میں آنے تک اسی طرح خرید کر لاتا رہا۔
جب وہ بادشاہ جو ان کو مہلت دے کر شہر سے باہر چلا گیا تھا پھر شہر میں آیا جیسا کہ قرذبنی نے بالتصریح بیان کیا ہے تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ شہر سے بھاگ گئے ہیں اس نے ان کی تلاش شروع کی اور پہاڑ کہ وہ میں ان کا پنالگا اور اس نے پہاڑ کی کہ وہ کا منہ بند کروادیا تاکہ اسی میں بہو کے پیاسے مرر ہیں تفسیر معالم التنزیل میں محمد بن اسحاق کی روایت میں بھی بالتصریح یہ امر مذکور ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پہاڑ کی کہ وہ کا مونہہ بند ہونے کے بعد وہ وہیں بند ہوگئے اور وہیں مر کر رہ گئے اگرچہ بعض مورخوں اور مفسروں نے لکھا ہے کہ کہ وہ میں پڑے سوتے ہیں یعنی مرے نہیں ہیں اور معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو وفات دی جس طرح سونے میں روحوں کو وفات دیتا ہے۔ مگر اگلے بیان سے اور ان روایتوں سے جو بیان ہونگی صاف ثابت ہوگا کہ درحقیقت وہ مرگئے تھے۔
اکثر مورخین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس واقعہ پر ایک زمانہ گزر نے کے بعد اس کہ وہ کا منہہ کہولا گیا اور اصحاب کہف کا اس کہ وہ میں ہونا معلوم ہوا اور شہر میں اس کا چرچا ہوگیا اور بادشاہ اور شہر کے تمام لوگ اس کہ وہ میں ان کے دیکھنے کو گئے۔
ابوالفرج مسیحی کی تاریخ کے بموجب یہ زمانہ سادذوسیوس قیصر الصغیر کی سلطنت کا تھا اور اصحاب کہف کے کہ وہ میں جا چھپنے کے دو سو چالیس برس بعد وہ ظاہر ہوئے تھے۔
ابوالفدا اسماعیل بھی اسی بادشاہ کے زمانہ میں اصحاب کہف کا متنبہ ہونا لکھتا ہے۔ یہ بادشاہء سکندری میں بادشاہ ہوا تھا اورء سکندری میں فوت ہوا۔ اس سبب سے کہ بموجب ابوالفدا کے دقیوس جس کے زمانہ میں اصحاب کہف تھےء سکندری میں تھے زمانہ ظاہر ہونے اصحاب کہف کا دو سو برس کے قریب ہوتا ہے نہ دو سو پچاس برس جیسا کہ ابوالفرج نے بیان کیا ہے۔
تاریخ یعقوبی میں اس بادشاہ کا نام دسیوس لکھا ہے اور صاف لکھا ہے کہ اس کے زمانہ میں اصحاب کہف جو مرگئے تھے زمانہ طویل کے بعد ظاہر ہوئے۔ اس میں مطلق اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ وہ سوتے تھے اور اس کے زمانہ میں جاگے یا مرے ہوئے تھے اور زندہ ہوئے بلکہ صاف لکھا ہے کہ ظاہر ہوئے یعنی اس کہ وہ میں ان کا ہونا معلوم ہوا۔
علاوہ اس کے جتنی روایتیں ہیں سب سے یہی امر ماخوذ ہوتا ہے کہ درحقیقت اصحاب کہف جب معلوم ہوئے تو وہ مرئے ہوئے تھے اور مرے ہوئے رہے۔
بعض تفسیر کی کتابوں میں جیسے تفسیر کبیر ومارک و بیضاوی ہیں یہ لکھا ہے کہ جب بادشاہ اور لوگوں ان کو دیکھنے اور ان سے ملنے کو گئے تو وہ زندہ ملے بادشاہ کو دعا بھی دی اور پہر فی الفور مرگئے۔
اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا زندہ ملنا اور بادشاہ کو دعا دینا سب ایک کہانی ہے ورنہ درحقیقت وہ مرے ہوئے تھے اور طبری اور کالم ابن اشیر اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ زندہ ہوئے مگر جو روایتیں بیان کی ہیں ان سے صاف پایا جاتا ہے کہ کسی شخص نے جو ان کے دیکھنے کو گئے تھے ان کو زندہ نہیں دیکھا۔
طبری کی ایک روایت میں ہے کہ وہ زندہ ہوگئے تھے مگر جب لوگ ان کے دیکھنے کو کہف کے قریب پہنچے تو خدا نے ان کو پہر مردہ کردیا یا پر سلا دیا اور لوگ اندر جانے سے ڈر گئے اور اندر نہ جاسکے۔
دوسری روایت میں طبری نے لکھا ہے کہ بادشاہ اور لوگ کہ وہ میں گئے تو دیکھا کہ صرف ان کے جسم ہیں جو کسی طرح بگڑے نہ تھے مگر ان میں ارواح نہ تھی۔
کامل ابن اثیر میں ایک اور بات زیادہ لکھی ہے کہ وہ زندہ تو ہوگئے تھے مگر انھوں نے دعا مانگی کہ خدا ان کو مار ڈالے اور جو لوگ ان کو دیکھنے آئے ہیں ان میں سے کوئی ان کو نہ دیکھے پس وہ فی الفور مرگئی۔ اور یہ تمام روایتیں اس بات کی مثبت ہیں کہ وہ زندہ نہ تھے اور نہ کسی نے ان کو زندہ دیکھا اصل یہ ہے کہ جب لاشیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جہاں ہوا کا صدمہ نہیں پہنچتا اور لاشیں اسی طرح رکھے رکھے راکھ ہوجاتی ہیں تو وہ سوراخ میں سے ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا پورے مجسم اجسام بلا کسی نقص کے رکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح لوگوں نے ان کو دیکھا اور جانا کہ پوری مجسم بلا کسی نقصان کے لاشیں رکھی ہیں یا وہ لوگ سو رہے ہیں۔
دہلی میں اسی قسم کا ایک واقعہ گزرا تھا جہاں حضرت نظام الدین کی درگاہ ہے وہاں بہت پرانا قبرستان ہے۔ ایک اونچی جگہ پر ایک چبوترہ تھا اور اس کے اوپر تین قبروں کے نشان تھے۔ اتفاق سے اس چبوترہ کی ایک طرف کی دیوار میں سے کچھ پتھر گرپڑے اور چھید ہوگیا کہ اندر سے پیر دکھائی دینے لگے لوگوں نے اس چھید میں سے جھانکا تو ان کو معلوم ہوا کہ قبر بہت بڑی مثل ایک مربع کوٹھری کے ہے اور تین لاشیں بالکل سفید کفن پہنے ہوئے مجسم بلا کسی نقصان کے ان میں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کا چرچا ہوا اور بہت آدمی ان کے دیکھنے کو گئے اور سب نے یہی بات بیان کی۔ میرے مخدوم دوست مولوی امام بخش صاحب صہبائی مرحوم کو اس قسم کی باتوں کے دریافت کا بہت شوق تھا وہ خود ان لاشوں کے دیکھنے کو گئے۔ اول انھوں نے جہانک کر دیکھا تو ان کو بھی اسی طرح مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوئیں۔ ان کو تعجب ہوا۔ انھوں نے دیوار کے دو ایک پتھر اور نکال ڈالے اور اندر گھسے۔ ایک عجیب بات تو یہ دیکھی کہ قبر ایک مربع کو ٹھہری کے برابر بنی ہوئی تھی اور تین لاشیں اس میں رکھی ہوئی تھیں۔ مگر سب بوسیدہ اور راکھ کے طور پر ہوگئی تھیں۔ لیکن جو کہ ہوا کا صدمہ کچھ نہ تھا تو جہاں ان کے ہاتھ رکھے ہوئے تھے وہیں ان کے ہاتھ کی راکھ تھی اور جہاں سر رکھا تھا وہیں سر کی راکھ تھی ۔ جہاں پاؤں رکھا ہوا تھا وہیں پاؤں کی راکھ تھی۔ اور سب کے نشان معلوم ہوتے تھے۔
وہ لاشیں کاٹھ کے تخت پر رکھی گئی تھیں وہ تخت بھی بوسیدہ ہو کر اور گل کر زمین کے برابر ہوگیا تھا مگر اس کے نشان بھی راکھ میں جدا محسوس ہوتے تھے۔ انھوں نے انگلی سے چھوا تو معلوم ہوا کہ بالکل راکھ ہے اور ہڈیوں اور راکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر جب سوراخ میں سے دیکھا جاتا تھا تو وہ تمام نقش جو راکھ میں قائم تھے بالکل مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوتی تھیں۔ تم خیال کرو کہ اگر ہم ایک تصویر کو ایک صندوق میں رکھ دیں اور ایسی حکمت کریں کہ کسی قدر شعاع آفتاب کی اس میں پہنچی اور اس کے پہلو میں ایک چہید کرکے اس کو دیکھیں تو وہ تصویر بالکل مجسم معلوم ہوگی۔ پس اس طرح سے اس قسم کی پرانی لاشیں جو کسی پہاڑ کے نل میں سے دیکھی جاتی ہیں تو وہ مسلم معلوم ہوتی ہیں اسی طرح اصحاب کہف کی لاشوں کے دیکھنے والوں کو وہ لاشیں مجسم معلوم ہوئی ہونگی ۔ کیورس متہس کے مصنف نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کرکے مار سلیس کو بھیجی گئیں جو اب بھی سائنٹ ویکٹر کے گر جا میں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کی تصدیق تاریخ طبری سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ قتادہ نے روایت کی ہے کہ جب ابن عباس حبیب بن مسلمہ کے ساتھ جہاد پر گئے تو وہ کہف پر گزرے اور اس میں کچھ ہڈیاں تھیں۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ ان کی ہڈیاں تو تین سو برس سے زیادہ ہوا کہ یہاں نہیں رہیں۔
بہرحال جب اس ظالم بادشاہ نے اس کہ وہ کا منہ بند کرادیا تو یہ بیچارے اس میں بند ہوگئے اور مرگئے ایک زمانہ دراز کے بعد خواہ زمانہ دو سو برس کا ہوا یا ڈھائی سو برس کا یا تین سو برس کا یا تین سونو برس کا کسی شخص نے اس کہ وہ کے منہ کو کھولا جیسا کہ اکثر روایتوں میں بیان ہوا ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے پاس جو کہ وہ میں گئے تھے اس زمانہ کے سکہ کے روپے موجود تھے اور جس شخص نے اس کا منہ کہولا تھا اس نے وہ روپے پائے ہوں گے اور جب بازار میں لے گیا لوگوں نے چرچا کیا ہوگا کہ اس نے خزانہ پایا ہے حکم تک اس کو پکڑ کرلے گئے ہوں گے اور اس نے تمام قصہ پہاڑ کی کہ وہ میں لاشوں کے ہونے کا اور دہان سے روپیہ ملنے کا بیان کیا ہوگا اس پر وہاں کے حاکم اور شہر کے لوگ ان کے دبکنے کو آئے اور جانا کہ یہ ان لوگوں کی لاشیں ہیں جو دقیوس قیصر کے ظلم سے بھاگے تھے رایوں اور لوگوں نے اس اصلی واقعہ کی اس طرح پر بنا لیا کہ اصحاب کہف کئی سو برس بعد سونے سے اٹھے یا مردہ سے زندہ ہوگئے اور انھیں میں کا ایک شخص روبپہ لے کر بازار میں آیا اور چرچا ہوا اور سب لوگ پہاڑ کی کھو پر گئے۔ پھر کسی نے کہا وہ زندہ تھے ایک آیا وہ بات کہہ کر مرگئے۔ کسی نے کہا کہ مسلم بغیر کسی نقصان کے لاشیں تھیں مگر اس میں ارواح نہ تھی۔ ایسے واقعات میں اس قسم کی افواہیں دوڑا کرتی ہیں اور رفتہ رفتہ روایتیں بن جاتی ہیں اور کتابوں میں لکھی جاتی ہیں اور مذہبی لگاؤ سے لوگ اس کو مقدس سمجھتے ہیں اور معجزہ اور کرامات قرار دیتے ہیں۔
ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ﴿٪۱۲﴾
تفسیر سرسید :
بارہویں آیت سے صحیح اور واقعی قصہ اصحاب کہف کا شروع ہوتا ہے۔ تفسیر کبیر میں یہ لکھا ہے کہ پہلی آیتوں میں اس قصہ کا ایک ٹکڑا بیان کیا ہے اور اس کی بعد کی آیتوں میں ضورا قصہ ہے مگر کوئی وجہ نہیں بیان کی ہے کہ کیوں ان دونوں مقاموں میں اس طرح پر تفریق کی ہے کہ پہلے تو اس کی وحی ہونے کی بابت کچھ ذکر نہیں کیا اور پھر جہاں سے وہ قصہ شروع ہوا ہے وہاں فرمایا ہے ” لخق نقص علیک نبنا ھم بالحق “ یعنی ہم ان کا سچا تجھ پر بیان کرتے ہیں۔ اور کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی کہ اس اخیر جملہ میں ” بالحق “ کے لفظ سے کیوں تاکید کی گئی پس صاف ظاہر ہے کہ پہلی آیتوں میں وہ بیان ہے جو لوگوں نے اس قصہ میں عجائبات ملاوے تھے اور اس کی نفی کی ” ام حسبت “ سے اور پھر کہا کہ صحیح اور سچا قصہ ہم بیان کرتے ہیں۔ جو صاف دلل اس بات کی ہے کہ سچا اور صحیح قصہ اس آیت سے شروع ہوا ہے نہ پہلی آیتوں سے۔
قبل اس کے کہ ہم اصحاب کہف کی قصہ کی آیتوں کی تفسیر شروع کریں ہم کو ضرور ہے کہ اصحاب کہف کے کچھ حالات بیان کریں اور ان کے مذہب کا بھی کچھ ذکر کریں کیونکہ خدا نے فرمایا ہے ” انہم فتبۃ امنوا ربھم وزدنا ھم ھدی “ یعنی وہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو زیادہ ہدایت کی تھی زیادہ ہدایت کرنے سے یہ اشارہ ہے کہ جب وہ بادشاہ ظالم کے سامنے پکڑے گئے تو وہ اپنے سچے مذہب پر قائم رہے جیسا کہ ان کے قصہ میں بیان ہوا پس اس استقامت کو زیادتی ہدایت سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان خدا پرست تھے اور اس لیے ان کے مذہب کی تحقیق کرنی بہت ضروری ہے۔
اصحاب الکہف والرقیم
سب سے اول اس امر کا تصفیہ کرنا چاہیے کہ اصحاب کہف در قیم کا ایک ہی گروہ پر اطلاق ہوا ہے یا وہ مختلف گروہوں پر یعنی جن لوگوں پر اصحاب کہف کا اطلاق ہوا ہے انھیں پر رقیم یعنی اصحاب رقیم کا اطلاق ہوا ہے یا اصحاب کہف ایک جدا گروہ تھا اور اصحاب رقیم جدا گروہ۔
جو کچھ بحث ہوسکتی ہے وہ رقیم کے لفظ پر ہوسکتی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے جیسا کہ تفسیر بیضاوی اور کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ اصحاب الرقیم ایک جدا گروہ تھے اور ہو تین شخص تھے کہیں جانے تھے رستہ میں مینھ آیا ایک پھاڑ کے غار میں ہو بیٹھے اوپر سے پہاڑ گرا اور غار کا منہ بند ہوگیا ان لوگوں نے خدا کے سامنے عاجزی کی اور اس مصیبت سے نکلنے کی دعا مانگی کچھ عرصہ کے بعد جو پتھر پہاڑ کا اوپر سے پھسل گرا تھا اور جس نے غار کا منہ بند کردیا تھا وہ اور نیچے کو پھسل گیا اور غار کا منہ کھل گیا۔
یہ قصہ امام محمد اسماعیل بخاری نے بھی اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کیا ہے۔ مگر کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس مقام پر لفظ رقیم سے ان لوگوں کے قصہ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔
اول تو اس لیے کہ اس گروہ پر اصحاب الرقیم کا اطلاق نہیں ہوا۔ دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے اس مقام پر دو گروہ کے قصے نہیں بیان کئے بلکہ صرف ایک گروہ کا قصہ بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب کہف ورقیم ایک ہی گروہ کا لقب تھا۔
ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جہاں خدا نے اصحاب کہف کی تعداد میں لوگوں کا اختلاف بیان کیا ہے کہ کوئی تو کہتا ہے کہ وہ تین شخص تھے کوئی کہتا ہے کہ پانچ تھے کوئی کہتا ہے سات تھے۔ پس بعض لوگوں نے تین کی تعداد پر خیال کرکے رقیم کے لفظ سے اس گروہ کا اشارہ سمجھا جن کی تعداد تین تھی اور وہ بھی پہاڑ کے غار میں اوپر سے پتھر گرنے کے سبب بند ہوگئے تھے۔ مگر جیسا کہ ہم نے بیان کیا نہ کوئی وجہ پائی جاتی ہے اور نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ ان لوگوں پر اصحاب الرقیم کا اطلاق ہوا ہو البتہ قسطلانی شرح صحیح بخاری میں شہاب الدین احمد بن محمد الخطیب نے اصحاب الغار کا ان پر اطلاق کیا ہے مگر اصحاب الرقیم کا کسی نے اطلاق نہیں کیا۔
پس اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کا لقب ہے۔ اصحاب کہف تو ان کو اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک ظالم بت پرست بادشاہ کے ظلم سے ایک پہاڑ کی کہ وہ میں جا چھپے تھے عربی زبان میں پہاڑ کی کہ وہ کو کہف کہتے ہیں اس لیے ان کا لقب اصحاب کہف ہوگیا ہے۔
بیضاوی اور نیز اور مورخوں اور مفسروں نے رقیم کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رقیم اس شہر کا نام ہے جس میں اصحاب کہف رہتے تھے بعضوں کا قول ہے کہ پہاڑ کی کہ وہ کا نام ہے جس میں اصحاب کہف چھپے تھے ۔ بعضوں نے کہا کہ جس جنگل میں وہ پہاڑ تھا اس جنگل کا نام ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کے کتے کا نام ہے جو ان کے ساتھ تھا اس لیے ان کو اصحاب الرقیم کہنے لگے اور اس کی سند میں امیہ بن ابی الصلت شاعر جاہلی کا شعر لایا جاتا ہے جس میں اس نے کہا ہے ” ولیس بہا الاالرقیم مجاوراً “ مگر ان میں سے کوئی بات اعتبار کے قابل نہیں ہے ” عربی کتابوں میں ان کے کتے کا نام قطمیر لکھا ہے اور انگریزی کتابوں میں کر اٹیم یا کر اٹیمر اور یہ نام ملتے جلتے ہیں صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے میں جو فرق لہجہ اور تلفظ میں ہوجاتا ہے وہی کر اٹیمر اور قطمیر میں ہوگیا ہے۔
رقیم کے معنی زروے بغت کے لکھے ہوئے کے ہیں محمد اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں رقیم کی تفسیر میں لکھا ہے الرقیم الکتاب مرقوم مکتوب من الرقم اور اس میں سعید ابن جبیر کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اصحاب کہف کا حال اور نام ایک زمانہ میں جست کے پترے پر کندہ کر کر اور بعض روایتوں کے مطابق پتھر پر کھود کر رکھا گیا تھا اور اس سبب سے انہی لوگوں کا لقب اضحاب الرقیم بھی ہوگیا ہے۔ پانچویں صدی کے اخیر میں یا چھٹی صدی عیسوی کے شروع میں یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیشتر ایشیا مانر کے بشپ نے اس قصہ کو بطور عیسائی مذہب کے متبرک قصہ کے تحریر کیا تھا پس ہر صورت سے اصحاب کہف پر اصحاب الرقیم کا اطلاق صحیح اور درست ہوتا ہے اور رقیم عطف تفسیری ہے اصحاب کہف کی وہو الصحیح عندنا۔
اس بات میں نہایت اختلاف ہے اور آج تک تحقیق نہیں ہوا کہ یہ لوگ تعداد میں کتنے تھے غالب رائے یہ ہے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا جو ان کے ساتھ تھا۔
ان کے ناموں میں بھی بہت اختلاف ہے مگر وہ اختلاف زیادہ تر ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے اور الفاظ کے تلفظ کے اختلاف سے علاقہ رکھتا ہے اور کاتبوں نے زیادہ تر تحریف کردیا ہے بہرحال ہم اس مقام پر ان کے ناموں کو جس طرح کہ مختلف کتابوں میں لکھے ہیں لکھتے ہیں۔
تفسیر معالم التنزیل اور اس میں ان کی تعداد لکھی ہے
منسلمینا یحشلمینا کلیخا مرطونس کشتونس ویرونس بطیوس۔ ویموس قالوس کلبھم قطمیر
تفسیر بضاوی و کشاف و تفسیر کبیر و تفسیر مسدارک
یملیخا مکشلینیا مشلینیا مرنوش دیرنوش شاذنورش والراعے کلبھم قطمیر
تاریخ کامل لابن اثیر
مکسلمینا تملیخا مرطوس نیرونس کسطومس دینموش ریطوفس فالوس فحسلمینا کلبھم قطمیر
معجم البلدان یاقوت حموی
یملیخا مکسملینا مشلینیا مرطونس دبریوس سراپیون افستیطیوس کلبھم قطمیر
تاریخ طبری
مکسملینا فخسملینا یمنیخ یا یملخا مرطوس لسوطونس بیرونس دوسمونس بطونس قالوس
تاریخ احمد ابی یعقوب العروف بالیعقوبی
مکسلمینا مراطوس شاہ نونیوس بطرنوش ذولس یوانس کینفرطونیوطوا ملیخا الراعی کلبھم قطمیر
کیورس متہس مولفہ بارنگ گولڈ
میکنی میں مالکس مارشین ڈائیونی سس جان سیرا پین کا نسطین ٹاین
کلبھم کر اٹیم یا کر اٹیم شہر جس میں اصحاب کہف رہتے تھے
اکثر مورخین و مفسرین کا قول ہے جو ہر طرح پر صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جس شہر میں اصحاب کہف رہتے تھے اس کا نام افسوس تھا یا قوت حموی نے اپنی کتاب معجم البلدان میں اس کے اعراب کو بھی ضبط کیا ہے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس متہیس میں اس شہر کا نام ایفی سس لکھا ہے اور یقین ہوتا ہے کہ عربی تاریخوں میں یہی نام متغیر ہو کر افسوس ہوگیا ہے۔
لانگ میں گرین کمپنی نےء میں بمقام لندن قدیم رومیوں کے زمانہ کا نقشہ جغرافیہ چھاپا ہے جس میں شہروں کے وہی قدیم نام ہیں جو اس زمانہ میں تھے اس میں جو نقشہ ایشا مینیر کا ہی اس میں ایفی سس شہر کا نام درجہ وقیقہ عرض شمالی اور درجہ دقیقہ طول شرقی پر عین دریاے ایجین کے کنارہ پر مثبت ہے اس کے قریب پہاڑ بھی واقع ہیں اور کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس جگہ ایفی سس شہر تھا جس میں اصحاب کہف رہتے تھے۔
بعضوں نے کہا ہے کہ اصحاب کہف کے شہر کا نام رقیم تھا اور بعضوں نے کہا کہ اس پہاڑ کی کہ وہ کا نام تھا جس میں اصحاب کہف جاکر رہے تھے مگر یہ صحیح نہیں یاقوت حموی نے بھی لکھا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ اہل روم کی سلطنت میں جو شہر افسوس تھا وہی شہر اصحاب کہف کا تھا محمد بن محمود القردینی نے اپنی کتاب آثار البلاد و اخبار العباد میں افسوس ہی کو اصحاب کہف کا شہر قرار دیا ہے۔ شاید لوگوں نے اس خیال سے کہ اصحاب کہف کے نام جست کی تختی پر کہود کر شہر میں رکھے گئے تھے اس شہر کو اور بعضوں نے اس خیال سے کہ اس پہاڑ پر جس میں وہ کہ وہ تھی ان کے نام کندہ ہوئے تھے اس پہاڑ کو یا اس کہ وہ کو رقیم کے نام سے موسوم کردیا ہو۔
اصحاب کہف کس زمانہ اور کس بادشاہ کی عہد میں تھے
ابوالفرج مالطہیاے عیسائی مورخ نے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ آخر کو مسلمان ہوگیا تھا اپنی کتاب مختصر الدول میں لکھا ہے کہ اصحاب کہف ذوقیوس قیصر کے عہد میں ہے جو عیسائیوں کا نہایت دشمن تھا اور ان کو قتل کرنا تھا۔ تاریخ طبری میں اس بادشاہ کا نام دقینوس لکھا ہے۔
اتاریخ کامل ابن اشیر میں اس کا نام دقیوس لکھا ہے اور یہی لکھا ہے کہ بعض آدمی اس کا نام دقیانوس کہتے ہیں۔
ابوالفدا اسماعیل نے اپنی تاریخ میں بھی یہی نام بیان کئے ہیں اور کلھا ہے کہ وہ اسکندری میں بادشاہ ہوا تھا اور میں مرگیا ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب آثار الباقیہ عن قرون الخالیہ میں اس بادشاہ کا نام داقیاوس لکھا ہے اور مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس متہس میں اس بادشاہ کا نام دی سس لکھا ہے۔
اسی مصنف نے لکھا ہے کہ روم میں ویکٹورم کے عجائب خانہ میں گچ سے اصحاب کہف کی تصویریں بنی ہوئی ہیں ان تصویروں سے بعضوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہء میں دی سس بادشاہ کے عہد میں مارے گئے تھے۔
عموماً مسلمان مورخ اور مفسرین اس بادشاہ کا نام جس کے عہد میں اصحاب کہف تھے دقیانوس لکھتے ہیں اور ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ تمام اختلافات ایک زبان کے ناموں کو دوسری زبان میں تلفظ کرنے سے پیدا ہوئے ہیں اور سب کے ملانے سے یقین ہوتا ہے کہ وہ رومی بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔
جو زمانہ کہ اصحاب کہف کا ابوالفدا نے بیان کیا ہے وہ قریباً صحیح و درست معلوم ہوتا ہے۔ اسکندر تین سو چھتیس برس قبل حضرت مسیح کے تخت پر بیٹھا تھا اور اصحاب کہف پانسو چالیس سنہ سکندری میں تھے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ 540 ء میں تھے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے ان کا تخمینہ انداز سےء قرار دیا ہے معندا جو بادشاہ کہ زمانہ سکندر سے دقیوس تک گزرے ان کے زمانہ سلطنت میں بھی کسی قدر اختلاف ہے اور یہ بھی ایک سبب ہے کہ اصحاب کہف کے زمانہ میں کسی قدر اختلاف پیدا ہوتا ہے مگر عام طور پر خیال کرنے سے جو زمانہ قرار دیا گیا ہے قریباً صحیح معلوم ہوتا ہے۔
بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ اصحاب کہف حضرت عیسیٰ کے زمانہ سے بہت پیشتر تھے اور حضرت عیسیٰ نے ان کی خبر دی تھی اور بعد حضرت عیسیٰ کے زمانہ فترت میں یعنی جبکہ کوئی پیغمبر نہ تھا وہ زندہ ہوئے تھے یا اپنی نیند سے جو اخ الموت تھی اٹھے تھے مگر اس کی صحت کا انجیلوں یا حواریوں کے ناموں یا کسی معتبر یا مظنون طریقہ سے کوئی ثبوت نہیں پایا جاتا۔
اصحاب کہف کا مذہب
کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اصحاب کہف عیسائی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں تھے تمام کتابوں اور مختلف روایتوں سے یہی امر ثابت ہوتا ہے اور خود ان کا واقعہ کہ ایک ظالم اور بت پرست بادشاہ کے خوف سے جو عیسائیوں کو قتل کرتا تھا جان اور ایمان بچا کر بھاگے تھے ان کے عیسائی ہونے کا کافی ثبوت ہے۔
البتہ جیسا ان کا تقدس اور خدا پرستی تاریخوں اور تفسیروں میں لکھی ہے اور جس کی نسبت قرآن مجید سے بھی اشارہ پایا جاتا ہے اس کی نسبت شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ صلیب کو اور حضرت عیسیٰ کی تصویر کو پوجتے تھے اور کم سے کم یہ کہ تثلیث کے فائل تھے تو کیونکر ان کو خدا پرست اور موحد مسلمان یا مومن خیال کیا جاسکتا ہے مگر ان میں سے کسی بات کا ثبوت نہیں ہے۔ اس زمانہ کے عیسائیوں میں عقائد مذہبی بہت کم قرار پائے تھے اور مجھ کو عیسائی مذہب کی اکلریا سٹیکل ہسٹری پر غور کرنے سے نہایت شبد ہے۔ کہ جو عقائد بعد عیسائی ہوجانے قسطنطین کے رومی اور یونانی چرچ میں قائم ہوگئے وہی عقائد عام طور پر اس زمانہ کے تمام عیسائیوں کے تھے۔
دقیوس ہی کے زمانہ کے قریب جس زمانہ میں اصحاب کہف کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے ایک فرقہ تہا جس کا ابوانصرح عیسائی مالطیائی نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ وہ اقانیم ثلاثہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کو نہیں تسلیم کرتا تھا بلکہ وجود اور کلمہ اور حیات کو اقانیم ثلاثہ جانتا تھا اور کہتا تھا کہ ان اقانیم سے کوئی زیادتی ذات باری پر نہیں ہوتی جبکہ یہ صفات اعتباری ہیں کوئی شے اس کا مسمی موجود فی المخارج نہیں ہے اور کہتا تھا کہ ذات باری موجود ہے لا بوجود اور حکیم ہے لا بحکمۃ اور حی ہی لا بجیوۃ اور انبیذ وقلس کا بھی یہی مذہب تھا اس کے بعد مصنف مذکور لکھتا ہے کہ اس مذہب کو ایک گروہ مسلمانوں نے جو صفات کے نفی کرنے والے ہیں (یعنی صفات باری سے کچھ زیادتی ذات باری پر نہیں سمجھتے) اختیار کیا ہے۔
اسی زمانہ کے قریب ایک فرقہ خولی الشمیشاطی کا پیرو تھا جو کہتا تھا کہ تمام معلولات باری تعالیٰ کے ارادے ہیں اور اس کا کوئی معلول ذاتی نہیں ہے اور اسی لیے وہ لم یلدولم یولد ہے اور اس لیے مسیح نہ کلمۃ اللہ ہے اور نہ جس طرح کہ ظاہر مذہب عیسائی میں ہے وہ کو اری سے پیدا ہوا ہے۔
پس جبکہ اس زمانہ کے عقائد و مذہب کا یہ حال تھا تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ اصحاب کہف تثلیث کے قائل تھے بلکہ مسلمانوں کو جو قرآن مجید کو برحق سمجھتے ہیں اس بات کے یقین کرنے کے لیے کہ اصحاب کہف عیسائی اور موحد خدا کو واحد اور حضرت عیسیٰ کو پیغمبر برحق مانتے تھے ثبوت کافی ہے۔ فھم کانوا مومنین مسلمین موحدین قائلین بان لا الہ الا اللہ عیسیٰ رسول اللہ۔
اس قدر بیان کرنے کے بعد ہم کو ضروری ہے کہ قرآن مجید کی ان آیتوں کی جو اصحاب کہف کے قصہ سے متعلق ہیں تفسیر لکھیں مگر مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم اصحاب کہف کا قصہ صحیح صحیح بلا تعرض آیات کے لکھ دیں اور پھر آیات کی تفسیر بیان کریں۔ اس طریقہ کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آیات کی تفسیر بخوبی لوگوں کی سمجھ میں آئیگی۔
اصحاب کہف کا قصہ یعنی وہ واقعات جو ان پر گزرے
مذکورہ بالا حالات سے ظاہر ہے کہ اصحاب کہف تاریخی اشخصا ص ہیں فرض قرار دیئے ہوئے نہیں ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو سید ہے ساد ہے واقعی حالات ان پر گزرے تھے ان میں بہت لغو اور بیہودہ اور خلاف قیاس باتیں اور عجائبات شامل کرلیے گئے ہیں اور یہ ایک معمولی بات ہے کہ نیک اور بزرگ لوگوں پر جو ظلم اور سختی ظالموں کے ہاتھ سے گزر جاتی ہے بعد کو ان کی نسبت بہت سے زائد اور عجیب باتیں بڑھا دی جاتی ہیں اسی طرح اصحاب کہف پر جو حالات اور واقعات گزرے اس کو بطور تعجب انگیز کہانی کے بنا لیا ہے اور بےسروپا اور محض بیہودہ روایتیں مشہور ہوگئی ہیں ہمارا کام یہ ہے کہ ان روایتوں میں سے جو قابل طمانیت ہیں ان پر لحاظ کرکے صحیح قصہ اصحاب کہف کا اول بیان کریں اور پھر قرآن مجید کی آیتوں سے تطبیق دے کر دکھلادیں کہ کس قدر قصہ اس میں کا قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور مفسرین کو جو اس قصہ کے بیان میں اور آیتوں کی تفسیر میں دھوکا ہوا ہے حتی المقدور اس کو ظاہر کریں۔
ابو الفرج مسیحی نے اپنی تاریخ مختصروں میں اور اسماعیل ابوالفدا نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ غور ذیانوس رومی قیصر عیسائی ہو کیا تھا اور عیسائیوں پر مہربانی کرتا تھا اس پر دقیوس نے جس کو دقیانوس بھی کہتے ہیں اور جو بت پرست اور عیسائیوں کا دشمن تھا چڑھائی کی اور سکندری میں اس کو مار ڈالا اور خود بادشاہ ہوا اور عیسائیوں کو قتل کرنا یا بت پرستی پر مجبور کرنا شروع کیا۔
اسی کے عہد میں اصحاب کہف عیسوی مذہب پر تھے ان کے عیسائی ہوجانے کی مختلف کہانیاں مشہور ہیں جن کی نسبت ہم کو بحث کرنا محض فضول معلوم ہوتا ہے وہ کسی طرح عیسائی ہوئے ہوں اس امر کا مسلم ہونا کہ وہ عیسائی تھے ان کے اصلی واقعات کے بتانے کو کافی ہے۔
تمام روایتیں اور تاریخیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس ظالم بادشاہ نے ان لوگوں کو جو تعداد میں اس وقت چھ تھے بلا یا اور مذہب عیسوی چھوڑنے اور بت پرستی کرنے کو کہا مگر ان سب نے انکار کیا اس پر بادشاہ نے ان کو مہلت دی اور اس مہلت میں وہ شہر سے بھاگے اور ایک چرواہا معہ کتے کے ان کے ساتھ ہولیا اور وہ سب ایک پہاڑ کی کہ وہ میں جو شہر افسوس سے کچھ فاصلہ پر تھے جاکر چھپ رہے۔ یہاں تک روایتوں میں چند ان اختلاف نہیں ہے لیکن اس کے بعد کے واقعات میں اختلاف شروع ہوتا ہے یعنی پہاڑ کی کہ وہ میں چھپنے کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو شہر بھیجا کہ چپکے سے کھانا خرید لاوے اکثر مورخین اور اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ وہ لوگ پہاڑ کی کہ وہ میں جاکر سو رہے اور زمانہ دراز تین سو یا تین سو نو برس سونے کے بعد جب اٹھے تو انھوں نے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو شہر میں بھیجا۔ بعض مورخین نے پہلی دفعہ اسی دن جب وہ کہ وہ میں گئے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو بھیجنا اور پھر دوسری دفعہ کئی سو برس سو کر اٹھنے کے بعد ایک شخص کا بھیجنا لکھا ہے جو محض غلط ہے اور صرف بنایا ہوا قصہ ہے ان پر پہاڑ کی کہ وہ میں سوتے ہونے کے خیال سے یہ قصہ گڑھ لیا گیا ہے مگر اصلیت اس کی جیسے کہ محققانہ نظر سے پائی جاتی ہے صرف اس قدر ہے۔ کہ وہ لوگ رات کے وقت شہر سے بھاگے تھے جیسے کہ فروینی نے لکھا ہے کہ ” انھوں نے رات کو بھاگنے کا قصد کیا جب رات کا اندھیرا ہوگیا تو ہر ایک شخص اپنے گھر سے کچھ مال لے کر چل کھڑا ہوا “۔
صبح ہوتے وقت وہ لوگ پہاڑ کی کہو پر پہنچے جیسا کہ قرہونی نے بھی لکھا ہے پس وہ کہ وہ میں گئے رات کے جاگے رستہ چلے تھکے ہوئے تھے کہ کہ وہ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا سو رہے۔ کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تین پہر سو نیکے بعد وہ اٹھے اور آپس میں پوچھنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے کسی نے کہا دن بھر کسی نے کہا کچھ کم کیونکہ کہ وہ کی اندھیری میں وہ دن کا اندازہ ٹھیک ٹھیک نہیں کرسکتے تھے۔
جب وہ اٹھے تو انھوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو کھانا لانے کو بھیجا قرذینی نے صاف لکھا ہے کہ جس دن وہو کہ وہ میں گئے اسی دن انھوں نے کھانا لینے کو بھیجا تھا۔ تفسیر معا الم التنزیل میں بھی محمد بن اسحاق کی روایت سے لکھا ہے کہ جب وہ کہ وہ میں گئے تو تملینی ان کے لیے شہر سے کھانا خرید لایا کرتا تھا اور چند روز تک جس کی تعداد نہیں بیان کی مگر معلوم ہوتا ہے کہ دو تین روز تک یعنی دقیانوس کے دوبارہ شہر میں آنے تک اسی طرح خرید کر لاتا رہا۔
جب وہ بادشاہ جو ان کو مہلت دے کر شہر سے باہر چلا گیا تھا پھر شہر میں آیا جیسا کہ قرذبنی نے بالتصریح بیان کیا ہے تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ شہر سے بھاگ گئے ہیں اس نے ان کی تلاش شروع کی اور پہاڑ کہ وہ میں ان کا پنالگا اور اس نے پہاڑ کی کہ وہ کا منہ بند کروادیا تاکہ اسی میں بہو کے پیاسے مرر ہیں تفسیر معالم التنزیل میں محمد بن اسحاق کی روایت میں بھی بالتصریح یہ امر مذکور ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پہاڑ کی کہ وہ کا مونہہ بند ہونے کے بعد وہ وہیں بند ہوگئے اور وہیں مر کر رہ گئے اگرچہ بعض مورخوں اور مفسروں نے لکھا ہے کہ کہ وہ میں پڑے سوتے ہیں یعنی مرے نہیں ہیں اور معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو وفات دی جس طرح سونے میں روحوں کو وفات دیتا ہے۔ مگر اگلے بیان سے اور ان روایتوں سے جو بیان ہونگی صاف ثابت ہوگا کہ درحقیقت وہ مرگئے تھے۔
اکثر مورخین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس واقعہ پر ایک زمانہ گزر نے کے بعد اس کہ وہ کا منہہ کہولا گیا اور اصحاب کہف کا اس کہ وہ میں ہونا معلوم ہوا اور شہر میں اس کا چرچا ہوگیا اور بادشاہ اور شہر کے تمام لوگ اس کہ وہ میں ان کے دیکھنے کو گئے۔
ابوالفرج مسیحی کی تاریخ کے بموجب یہ زمانہ سادذوسیوس قیصر الصغیر کی سلطنت کا تھا اور اصحاب کہف کے کہ وہ میں جا چھپنے کے دو سو چالیس برس بعد وہ ظاہر ہوئے تھے۔
ابوالفدا اسماعیل بھی اسی بادشاہ کے زمانہ میں اصحاب کہف کا متنبہ ہونا لکھتا ہے۔ یہ بادشاہء سکندری میں بادشاہ ہوا تھا اورء سکندری میں فوت ہوا۔ اس سبب سے کہ بموجب ابوالفدا کے دقیوس جس کے زمانہ میں اصحاب کہف تھےء سکندری میں تھے زمانہ ظاہر ہونے اصحاب کہف کا دو سو برس کے قریب ہوتا ہے نہ دو سو پچاس برس جیسا کہ ابوالفرج نے بیان کیا ہے۔
تاریخ یعقوبی میں اس بادشاہ کا نام دسیوس لکھا ہے اور صاف لکھا ہے کہ اس کے زمانہ میں اصحاب کہف جو مرگئے تھے زمانہ طویل کے بعد ظاہر ہوئے۔ اس میں مطلق اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ وہ سوتے تھے اور اس کے زمانہ میں جاگے یا مرے ہوئے تھے اور زندہ ہوئے بلکہ صاف لکھا ہے کہ ظاہر ہوئے یعنی اس کہ وہ میں ان کا ہونا معلوم ہوا۔
علاوہ اس کے جتنی روایتیں ہیں سب سے یہی امر ماخوذ ہوتا ہے کہ درحقیقت اصحاب کہف جب معلوم ہوئے تو وہ مرئے ہوئے تھے اور مرے ہوئے رہے۔
بعض تفسیر کی کتابوں میں جیسے تفسیر کبیر ومارک و بیضاوی ہیں یہ لکھا ہے کہ جب بادشاہ اور لوگوں ان کو دیکھنے اور ان سے ملنے کو گئے تو وہ زندہ ملے بادشاہ کو دعا بھی دی اور پہر فی الفور مرگئے۔
اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا زندہ ملنا اور بادشاہ کو دعا دینا سب ایک کہانی ہے ورنہ درحقیقت وہ مرے ہوئے تھے اور طبری اور کالم ابن اشیر اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ زندہ ہوئے مگر جو روایتیں بیان کی ہیں ان سے صاف پایا جاتا ہے کہ کسی شخص نے جو ان کے دیکھنے کو گئے تھے ان کو زندہ نہیں دیکھا۔
طبری کی ایک روایت میں ہے کہ وہ زندہ ہوگئے تھے مگر جب لوگ ان کے دیکھنے کو کہف کے قریب پہنچے تو خدا نے ان کو پہر مردہ کردیا یا پر سلا دیا اور لوگ اندر جانے سے ڈر گئے اور اندر نہ جاسکے۔
دوسری روایت میں طبری نے لکھا ہے کہ بادشاہ اور لوگ کہ وہ میں گئے تو دیکھا کہ صرف ان کے جسم ہیں جو کسی طرح بگڑے نہ تھے مگر ان میں ارواح نہ تھی۔
کامل ابن اثیر میں ایک اور بات زیادہ لکھی ہے کہ وہ زندہ تو ہوگئے تھے مگر انھوں نے دعا مانگی کہ خدا ان کو مار ڈالے اور جو لوگ ان کو دیکھنے آئے ہیں ان میں سے کوئی ان کو نہ دیکھے پس وہ فی الفور مرگئی۔ اور یہ تمام روایتیں اس بات کی مثبت ہیں کہ وہ زندہ نہ تھے اور نہ کسی نے ان کو زندہ دیکھا اصل یہ ہے کہ جب لاشیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جہاں ہوا کا صدمہ نہیں پہنچتا اور لاشیں اسی طرح رکھے رکھے راکھ ہوجاتی ہیں تو وہ سوراخ میں سے ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا پورے مجسم اجسام بلا کسی نقص کے رکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح لوگوں نے ان کو دیکھا اور جانا کہ پوری مجسم بلا کسی نقصان کے لاشیں رکھی ہیں یا وہ لوگ سو رہے ہیں۔
دہلی میں اسی قسم کا ایک واقعہ گزرا تھا جہاں حضرت نظام الدین کی درگاہ ہے وہاں بہت پرانا قبرستان ہے۔ ایک اونچی جگہ پر ایک چبوترہ تھا اور اس کے اوپر تین قبروں کے نشان تھے۔ اتفاق سے اس چبوترہ کی ایک طرف کی دیوار میں سے کچھ پتھر گرپڑے اور چھید ہوگیا کہ اندر سے پیر دکھائی دینے لگے لوگوں نے اس چھید میں سے جھانکا تو ان کو معلوم ہوا کہ قبر بہت بڑی مثل ایک مربع کوٹھری کے ہے اور تین لاشیں بالکل سفید کفن پہنے ہوئے مجسم بلا کسی نقصان کے ان میں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کا چرچا ہوا اور بہت آدمی ان کے دیکھنے کو گئے اور سب نے یہی بات بیان کی۔ میرے مخدوم دوست مولوی امام بخش صاحب صہبائی مرحوم کو اس قسم کی باتوں کے دریافت کا بہت شوق تھا وہ خود ان لاشوں کے دیکھنے کو گئے۔ اول انھوں نے جہانک کر دیکھا تو ان کو بھی اسی طرح مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوئیں۔ ان کو تعجب ہوا۔ انھوں نے دیوار کے دو ایک پتھر اور نکال ڈالے اور اندر گھسے۔ ایک عجیب بات تو یہ دیکھی کہ قبر ایک مربع کو ٹھہری کے برابر بنی ہوئی تھی اور تین لاشیں اس میں رکھی ہوئی تھیں۔ مگر سب بوسیدہ اور راکھ کے طور پر ہوگئی تھیں۔ لیکن جو کہ ہوا کا صدمہ کچھ نہ تھا تو جہاں ان کے ہاتھ رکھے ہوئے تھے وہیں ان کے ہاتھ کی راکھ تھی اور جہاں سر رکھا تھا وہیں سر کی راکھ تھی ۔ جہاں پاؤں رکھا ہوا تھا وہیں پاؤں کی راکھ تھی۔ اور سب کے نشان معلوم ہوتے تھے۔
وہ لاشیں کاٹھ کے تخت پر رکھی گئی تھیں وہ تخت بھی بوسیدہ ہو کر اور گل کر زمین کے برابر ہوگیا تھا مگر اس کے نشان بھی راکھ میں جدا محسوس ہوتے تھے۔ انھوں نے انگلی سے چھوا تو معلوم ہوا کہ بالکل راکھ ہے اور ہڈیوں اور راکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر جب سوراخ میں سے دیکھا جاتا تھا تو وہ تمام نقش جو راکھ میں قائم تھے بالکل مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوتی تھیں۔ تم خیال کرو کہ اگر ہم ایک تصویر کو ایک صندوق میں رکھ دیں اور ایسی حکمت کریں کہ کسی قدر شعاع آفتاب کی اس میں پہنچی اور اس کے پہلو میں ایک چہید کرکے اس کو دیکھیں تو وہ تصویر بالکل مجسم معلوم ہوگی۔ پس اس طرح سے اس قسم کی پرانی لاشیں جو کسی پہاڑ کے نل میں سے دیکھی جاتی ہیں تو وہ مسلم معلوم ہوتی ہیں اسی طرح اصحاب کہف کی لاشوں کے دیکھنے والوں کو وہ لاشیں مجسم معلوم ہوئی ہونگی ۔ کیورس متہس کے مصنف نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کرکے مار سلیس کو بھیجی گئیں جو اب بھی سائنٹ ویکٹر کے گر جا میں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کی تصدیق تاریخ طبری سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ قتادہ نے روایت کی ہے کہ جب ابن عباس حبیب بن مسلمہ کے ساتھ جہاد پر گئے تو وہ کہف پر گزرے اور اس میں کچھ ہڈیاں تھیں۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ ان کی ہڈیاں تو تین سو برس سے زیادہ ہوا کہ یہاں نہیں رہیں۔
بہرحال جب اس ظالم بادشاہ نے اس کہ وہ کا منہ بند کرادیا تو یہ بیچارے اس میں بند ہوگئے اور مرگئے ایک زمانہ دراز کے بعد خواہ زمانہ دو سو برس کا ہوا یا ڈھائی سو برس کا یا تین سو برس کا یا تین سونو برس کا کسی شخص نے اس کہ وہ کے منہ کو کھولا جیسا کہ اکثر روایتوں میں بیان ہوا ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے پاس جو کہ وہ میں گئے تھے اس زمانہ کے سکہ کے روپے موجود تھے اور جس شخص نے اس کا منہ کہولا تھا اس نے وہ روپے پائے ہوں گے اور جب بازار میں لے گیا لوگوں نے چرچا کیا ہوگا کہ اس نے خزانہ پایا ہے حکم تک اس کو پکڑ کرلے گئے ہوں گے اور اس نے تمام قصہ پہاڑ کی کہ وہ میں لاشوں کے ہونے کا اور دہان سے روپیہ ملنے کا بیان کیا ہوگا اس پر وہاں کے حاکم اور شہر کے لوگ ان کے دبکنے کو آئے اور جانا کہ یہ ان لوگوں کی لاشیں ہیں جو دقیوس قیصر کے ظلم سے بھاگے تھے رایوں اور لوگوں نے اس اصلی واقعہ کی اس طرح پر بنا لیا کہ اصحاب کہف کئی سو برس بعد سونے سے اٹھے یا مردہ سے زندہ ہوگئے اور انھیں میں کا ایک شخص روبپہ لے کر بازار میں آیا اور چرچا ہوا اور سب لوگ پہاڑ کی کھو پر گئے۔ پھر کسی نے کہا وہ زندہ تھے ایک آیا وہ بات کہہ کر مرگئے۔ کسی نے کہا کہ مسلم بغیر کسی نقصان کے لاشیں تھیں مگر اس میں ارواح نہ تھی۔ ایسے واقعات میں اس قسم کی افواہیں دوڑا کرتی ہیں اور رفتہ رفتہ روایتیں بن جاتی ہیں اور کتابوں میں لکھی جاتی ہیں اور مذہبی لگاؤ سے لوگ اس کو مقدس سمجھتے ہیں اور معجزہ اور کرامات قرار دیتے ہیں۔