سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا ﴿۶۱﴾
تفسیر سرسید :
( 61 تا 63) تا، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مجمع البحرین سے آگے چلے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی جوان سے مچھلی کا پھر دریا میں چلا جانا سنا تو کہا ” ذلک ماکنا نبغ “ جو کہ مفسرین نے ان روایات یہود سے بعض حدیثوں میں بھی مذکور ہیں یہ سمجھا تھا کہ موسیٰ کو خبر دی گئی تھی کہ جہاں تم مچھلی بھول جاؤ گے وہاں تم کو خضر ملیں گے۔ اس لیے انھوں نے ذلک کا مشارالیہ مچھلی کا چلا جانا قرار دیا اور اس کے معنی یہ سمجھے کہ مچھلی کا چلا جانا وہ امر ہے جس کو ہم چاہتے تھے۔ مگر ” ذلک ماکنا نبغ “ کے معنی صاف ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی جو ان سے کہا کہ ” اتناغداء نا “ یعنی ہمارا صبح کا کھانا لا اس نے کہا مچھلی تو دریا میں چلی گئی یعنی صبح کا کھانا جو تم مانگتے ہو نہیں رہا موسیٰ نے کہا کہ ” ذلک “ اس غدآء نا ای ماکنا نبغ من غداء نا یعنی صیح کا کھانا یہ ہے جس کو ہم چاہتے تھے ذلک کا اشارہ صاف غداء نا کی طرف ہے اس کا مشاراً الیہ ایک امر ذہنی بلکہ خیال کو قرار دینا جس کا ذکر نہ صراحتاً نہ کنایتاً قرآن مجید میں موجود ہے صحیح نہیں ہوسکتا۔
اس آیت میں جو یہ لفظ ہیں ” فوجد اعبدا من عبادنا ایتناہ رحمۃ مبن عبدنا وعلمناہ من لدنا علما “ یعنی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا ساتھی جو ان پھر کر مجمع البحرین پر پہنچے تو انھوں نے ایک بندہ کو خدا کے بندوں میں سے پایا جس کو ہم نے اپنی رحمت دی تھی اور ہم نے اس کو اپنے پاس سے علم سکھایا تھا مفسرین اور محدثین کہتے ہیں کہ عبد سے خضر مراد ہیں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر کے ملنے کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی قوم نے پوچھا کہ سب سے زیادہ کون اعلم ہے موسیٰ نے کہا کہ میں سب سے زیادہ اعلم ہوں اس پر خدا خفا ہوا اور خدا نے وحی بھیجی کہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ اعلم ہے، مگر اس کا قرآن مجید میں کہیں ذکر نہیں اور کس قدر عجیب بات ہے کہ اس واقعہ کا نہ قرآن مجید میں ذکر ہے اور نہ کہیں خضر کا نام آیا ہے البتہ یہودیوں میں خضر کا نام اور ان کے قصے تھے۔
قرآن مجید سے صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لوٹ کر پھر مجمع البحرین آئے تو وہاں ایک اور شخص ان کو ملا۔ ظاہر ہے کہ جس رستہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین جانے کا ارادہ کیا تھا وہ نہایت اجنبی پہاڑوں اور جنگل کا رستہ تھا جس کو طے کرنا بغیر کسی ایسے شخص کے جو رستہ سے واقف نہ ہو نہایت دشوار تھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جو ملا وہ رستہ کا اور اس نواح کے حالات کا واقف کار تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ کیا میں تیری پیروی کروں بشرطیکہ جو بھلائی تجھ کو سکھائی گئی ہے مجھ کو بھی سکھا دے یعنی رستہ بتاتا ہوا لے چلے۔
واضح ہو کہ اب اس مقام سے قرآن مجید میں صرف انہی دو شخصوں کا ذکر ہے اس جوان کا جو پہلی اسیحضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا کچھ ذکر نہیں آیا تو وہ ساتھ نہیں رہا یا آئندہ کے حالات میں اس کے ذکر کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوئی۔
یہ شخص جو ملا صاحب موسیٰ کہلاتا ہے اس کی نسبت علمائے متقد میں نے بہت اختلاف کیا ہے اکثر تو کہتے ہیں کہ یہ خضر پیغمبر تھے جو اب تک جیتے ہیں اور جیتے رہیں گے اور قیامت کے بورنے سمیٹے گے مگر لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ کبھی کسی بھولے بسرے کو راہ بتا دیتے ہیں اور کبھی کسی کو علم لدنی سکھا دیتے ہیں۔
جو لوگ صاحب موسیٰ کو نبی بتاتے ہیں وہ اس آیت پر استدلال کرتے ہیں ” اتیناہ رحمۃ من عندنا وعلمناہ من لدنا علما “ یعنی جس پر ہم نے اپنی رحمت کی تھی اور ہم ہی ہنے اپنے پاس سے علم سکھایا تھا مگر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ نبوت بلا شک رحمت ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر رحمت نبوت ہو۔
اور تفسیر کبیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ” علمتاہ من لدنا “ کے الفاظ سے بھی نبوت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ علوم ضروریہ ابتدا میں خدا ہی سے ملتے ہیں۔ پس یہ دلیل نبوت کی نہیں ہے۔
اور تفسیر کبیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ الفاظ جو قرآن میں ہیں ” وما فعلتہ عن امری “ ان الفاظ سے نبوت پر استدلال کرنا نہایت ضعیف ہے۔ اس کا نہایت ضعیف ہونا ظاہر ہے اس لیے کہ یہ کہنا کہ میں نے خدا کی مرضی سے یہ کام کیا ہے یا اپنی مرضی و خواہش سے نہیں کیا عام محاورہ بول چال کا ہے اس سے اس شخص کا نبی اور پیغمبر ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
بخاری کی تین حدیثوں میں جن میں سے ایک عبداللہ بن محمد المسندی سے اور ایک ابراہیم بن موسیٰ سے اور ایک قتیبہ بن سعید سے مروی ہے ان حدیثوں میں اس شخص کا نام جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مجمع البحرین پر ملا خضر لکھا ہے مگر وہ ان وجوہ سے جو آگے بیان ہوں گے قابل تسلیم نہیں ہے۔
بخاری میں متعدد جگہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کا ذکر ہے مگر چار حدیثیں بہت بڑی ہیں جن میں قریباً یہ تمام قصہ مذکور ہے۔
پہلی حدیث میں عبداللہ بن احمد المسندی ۔ سفیان۔ عمرو۔ سعید ابن جبیر۔ ابن عباس۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
دوسری حدیث میں علی ابن عبداللہ۔ سفیان۔ عمرو بن دینار۔ سعید ابن جبیر۔ ابن عباس۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
تیسری حدیث میں ابراہیم بن موسیٰ ہشام ابن یوسف۔ ابن جریح۔ یعلی بن مسلم ۔ عمرو بن دینار ۔ سعید بن جبیر۔ ابن عباس۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
چوتھی حدیث میں قتیسبہ بن سعید۔ سفیان۔ ابن عینیہ۔ عمروابن دینار۔ سعیدبن جبیر۔ ابن عبسا۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
ان چاروں حدیثوں میں ابی ابن کعب اخیرراوی ہیں اور عمرو بن دینار۔ سعید ابن جبیر۔ ابن عباس چاروں حدیثوں میں راوی ہیں اور سفیان صرف پہلی اور دوسری اور چوتھی حدیث میں اور چاروں حدیثوں میں ابن عباس نے ابی ابن کعب سے روایت کی ہے۔
مگر ان حدیثوں میں جو تفاوت الفاظ اور طرز بیان اور بعض جگہ مضمون میں ہے اس کو بیان کرنا مناسب ہے۔
پہلی حدیث میں ہے ” موسیٰ نبی “ دوسری میں ہے صرف ” موسیٰ “ تیسری میں ہے ” موسیٰ رسول اللہ “ چوتھی میں ہے صرف ” موسیٰ “
پہلی اور دوسری حدیث میں ہے ” قام موسیٰ النبی خطیبا فی بنی اسرائیل فسئل ای الناس اعد فقال انا “
اور چوتھی حدیث میں بجائے ” فسئل “ کے ” فقیل لہ “ ہے۔
اور تیسری حدیث میں ہے ” ذکر الناس بوما حتے اذا فاضت العیون ورقت القلوب ولی فا درکہ رجل فقال ای رسول اللہ ھل فی الارض احد اعلم منک قال لا “
یعنی پہلی اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وعظ کرنے کو بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے پوچھا گیا کہ کون شخص سب سے زیادہ عالم ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں ہوں “۔
اور چوتھی میں بجائے ” فسئل “ کے ” فقیل لہ “ ہے یعنی موسیٰ سے کہا گیا۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو نصیحت کی یہاں تک کہ لوگ روئے اور ان کے دل نرما گئے۔ جب وعظ کہہ کر چلے تو ایک شخص ملا اور اس نے کہا کہ اے رسول خدا دنیا میں تم سے زیادہ کوئی عالم ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا نہیں “۔
پہلی حدیث میں ہے ” فاوحی اللہ الیہ ان عبدامن عبادی جمیع البحرین اعلم منک “
اور دوسری حدیث میں ہے ” قال لہ بل لی عبد بمجمع البحرین ھو اعلم منک “
اور تیسری حدیث میں ہے ” قیل بلے قال ای رب واین قال بمجمع البحرین “۔
چوتھی حدیث میں ہے ” واوحیٰ الیہ بلی عبد من عبادی بمجمع البحرین ھواعلم منک “
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” خدا نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ مجمع البحرین میں ایک میرا بندہ تجھ سے زیادہ عالم ہے “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” خدا نے موسیٰ سے کہا کہ نہیں بلکہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے تجھ سے زیادہ عالم ہے “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” کہا گیا ہاں موسیٰ نے کہا اے خدا کہاں ؟ خدا نے کہا مجمع البحرین میں ‘
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” خدا نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ ہاں میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ عالم ہے “۔
پہلی حدیث میں ہے ” قال یارب وکیف بہ “
دوسری حدیث میں ہے ” قال ای رب و من لی بہ وربما قال سفیان لی رب فکیف بہ “
تیسری حدیث میں ہے ” قال ای رب اجعل لی علما اعلم ذلک منہ “
چوتھی حدیث میں ہے ” قال ای رب کیف السبیل الیہ “۔
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا میں کیونکر اس تک پہنچو گا “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا کون مجھے اس تک پہنچائے گا اور کبھی سفیان نے کہا اے خدا میں کیونکر اس تک پہنچونگا “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا مجھے کوئی نشانی بتا جس سے میں اس کو پہچانوں “
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا میں کیونکر اس تک رستہ پاؤں “۔
پہلی حدیث میں ہے ” فقیل لہ احمل حوتافی مکتل فاذافقدتہ فھوثم “۔
دوسری حدیث میں ہے ” قال تاخذ حوتا فتجعلہ فی مکتل حیث مافقدت الحوت قھوثم وربما قال فھوثمہ “
تیسری حدیث میں ہے ” فقال لی عمر وقال حبث یفارقک الحوت وقال لی یعلی قال خذنونا میتا حیث ینفخ فیہ الروح “
چوتھی حدیث میں ہے ” قال تاخذ حوتافی مکتل فحیث ما فقدت الحوت فاتبعہ “
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ سے کہا گیا کہ زنبیل میں ایک مچھلی اٹھالے جہاں وہ وہ گم ہو وہ اسی جگہ ہوگا “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” خدا نے کہا ایک مچھلی لے اور زنبیل میں رکھ جہاں مچھلی گم ہوجائے وہ اسی جگہ ہوگا “
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” عمر وبن دینار نے مجھ سے کہا کہ خدا نے کہا جہاں مچھلی تجھ سے جدا ہو اور یعلی نے مجھ سے کہا کہ خدا نے کہا ایک مردہ مچھلی لے جہان اس میں جان پڑجائے “۔
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” خدا نے کہا زنبیل میں ایک مچھلی رکھ لے جہاں مچھلی گم ہوجائے اس کے پیچھے پیچھے چلا جائیو “۔
پہلی حدیث میں ہے ” و حمل حوتافی مکتل حتی کا ناعندا الصخرۃ وضعاروسھما فنا مسافانسل الحوت من المکنل فاتخذ سبیلہ فی البحرسربا “
دوسری حدیث میں ہے ” فاخذ حوتافی مکتل ثم انطلق ھو وفتا ح یوشع بن نون حتے اذا اتیا الصخرۃ وضعار وسھما فرقد موسیٰ واضطرت الحوت فخرج فسقط فی البحر فاتخذ سبیلہ فی البحر مھا “ ۔
تیسری حدیث میں ہے ” فاخذ حوتا فجعلہ فی مکتل فقال لفتاہ لا اکلفک الا ان تخبرنی بحیث یفارقک الحوت۔۔۔ فینما ھو فی ظلل صخرۃ فی مکان ثریان اذ تضرب الحوت۔۔۔ حتی دخل البحر “۔
چوتھی حدیث میں ہے ” قال فخرج موسیٰ و معہ فتاہ یوشع بن نون ومعھما الحوت حتی انتھیا الی الصخرۃ فنزلا عندھا قال فوضع موسیٰ راسہ فنام قال سفیان وفی حدیث غیرعمر وقال وفی اصل الصخرۃ عین یقال لہ الحیاۃ لا بصیب من مائھا شیء الا حیی فاصاب الحوت من ماء تلک العین قال فتحرک وانسل من المکتل قد خل البحر “۔
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی یہاں تک کہ دونوں ایک چٹان کے پاس پہنچے اور دونوں اس پر سر رکھ کر سوگئے ۔ مچھلی زنبیل نے نکل پڑی اور اس نے سمندر میں رستہ لیا “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے زنبیل میں مچھلی لی پھر وہ اور ان کا جوان ساتھی یوشع بن نون دونوں چلے اور ایک چٹان کے پاس پہنچے دونوں نے اس پر اپنا سر رکھا اور موسیٰ سو گئے اور مچھلی تڑپ کر نکل پڑی اور سمندر میں جاپڑی اور اس نے سمندر میں اپنا رستہ لیا “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے مچھلی لی اور اس کو زنبیل میں رکھا پھر اپنے جوان ساتھی سے کہا میں تم کو اس کے سوا اور تکلیف نہیں دیتا کہ جہاں مچھلی تم سے جدا ہو مجھے خبر کردیا۔۔۔ اسی اثنا میں کہ موسیٰ ایک چٹان کی پناہ میں تر زمین پر تھے کہ مچھلی تڑپی۔۔۔ یہاں تک کہ وہ سمندر میں چلی گئی “۔
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” راوی نے کہا کہ موسیٰ چلے اور ان کے ساتھ یوشع بن نون تھے اور دونوں کے ساتھ مچھلی تھی یہاں تک کہ ایک چٹان کے پاس پہنچے اور اس کے قریب اتر پڑی راوی نے کہا ہے کہ موسیٰ نے اپنا سر (اس پر) رکھا اور سمو گئے۔ سفیان کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار کی روایت کی سو اور روایت میں ہے کہ چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا جس کو چشمہ آب حیات کہتے ہیں۔ اس کا پانی جس کو لگتا تھا وہ زندہ ہوجاتا تھا اس مچھلی کو بھی وہ پانی لگا اور اس میں جنبش پیدا ہوئی اور زنبیل سے نکل کر سمندر میں چلی گئی “۔
پہلی حدیث میں ہے ” فلما انتھیا الی الصخرۃ اذا رجل مسیحی بثوب او قال لسجی بتوبہ “۔
دوسری حدیث میں ہے ” حتے انتھیا الی الصخرۃ فاذارجل مسیحی بتوب “۔
تیسری حدیث میں ہے ” فرجعا فوجد اخضر اقال لی عثمان بن ابی سلیمان علی طنسفۃ خضراء علے کبدالبحر قال سعید ابن جبیر مسیحی بثوبہ “۔
چوتھی حدیث میں ہے ” فال فلما انتھیا الی الصخرۃ اذاھما برجل مسیحی بثوب “
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو یکایک ایک شخص نظر پڑا جو ایک کپڑا اوڑھے ہوئے تھا۔ “
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو ناگاہ ایک شخص ملا جو کپڑا اوڑھے ہوئے تھا “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” جب دونوں الٹے پھرے تو انھوں نے خضر کو پایا عثمان بن ابی سلیمان نے مجھ سے کہا سمندر کے بیچ میں ایک سبز و صلچہ پر۔ سعید بن جبیر نے کہا کپڑا اوڑھے ہوئے “۔
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” راوی نے کہا جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو یکایک دونوں نے ایک شخص کو دیکھا کپڑا اوڑھے ہوئے “۔
پہلی اور تیسری اور چوتھی حدیث میں اس شخص کا نام جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مجمع البحرین پر ملا خضر لکھا ہے۔ اور دوسری حدی میں نام نہیں ہے بلکہ ” رجل مسجے بثوب “ لکھا ہے یعنی ایک شخص ملا جو چادر اوڑھے ہوئے کہتا۔
یہ تفاوت الفاظ اور طرز بیان اور زیادتی و کمی مضامین کو بطور نمونہ کے ہم نے دکھایا ہے اور اسی طرح کا ان حدیثوں میں جو موسیٰ کے قصہ سے متعلق ہیں بہت جگہ تفاوت الفاظ اور طرز بیان اور مضامین کا ہے۔ اس سے ہم کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ان حدیثوں کے جو الفاظ ہیں وہ وہ نہیں ہیں جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائے بلکہ یہ الفاظ اخیر رایوں کے ہیں جنہوں نے ان حدیثوں کو مثل دیگر احادیث طوال کے بالمعنی روایت کیا ہے اور اس لیے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ تصور نہیں ہوسکتے۔
دوسرے یہ امر قابل غور ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ ” حدثوا عن بنی اسرائیل ولاحوج “۔ (بخاری کتاب الانبیاء)
یعنی بنی اسرائیل جو روایتیں بیان کرتے ہیں اس کے بیان کرنے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ اس بنا پر صحابہ اور تابعین یہودیوں کی روایت کو بیان کرتے تھے۔
اخیر کے راویوں نے یہ خیال کرکے کہ پہلے راوی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہوگا ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مستند کردیا پس جس قدر یہودیوں کے قصے حدیثوں میں پائے جاتے ہیں ان کی نسبت یقین نہیں ہوسکتا کہ درحقیقت وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مستند ہیں گو کہ وہ حدیثوں میں مستند کئے گئے ہوں اس لیے ضروری ہے کہ ان قصوں کا جس قدر ذکر قرآن مجید میں آیا ہے انھیں پر ہم منحصر رہیں اور حدیثوں میں جو قصے ہیں ان کو بنظر روایت دیکھیں اور جانچیں اور جہاں تک ان میں کوئی نقص نہ پایا جاوے اور قرآن مجید سے اس کی تائید ہوتی ہو ان کو تسلیم کریں اور جن میں ازروے روایت کے کچھ نقص پاویں ان کو متروک کریں۔
قرآن مجید میں یہ قصہ دوسورتوں میں آیا ہے سورة قصص میں صرف وہاں تک بیان ہوا ہے جہاں تک کہ حضرت موسیٰ ایک شخص کو قتل کرکے شہر سے بھاگے اس کے بعد بھاگنے کی حالت میں جو واقعات پیش آئے ان کا بیان سورة کہف میں آیا ہے اور کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ وہ ایک ہی قصہ اور حضرت موسیٰ ہی کا قصہ ہے جو آدھا ایک سورة میں اور آدھا دوسری سورت میں آیا ہے۔
جس وقت تک کہ حضرت موسیٰ اس شہر سے بھاگے ہیں جس میں انھوں نے ایک قبطی کو ماڑڈالا تھا اس وقت تک وہ نبی پیغمبر یارسول نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کو رسالت اس کے بہت بعد ہوئی ہے جبکہ وہ فرعون کی ہدایت اور بنی اسرائیل کو آزاد کرنے پر مامور ہوئے اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے مگر بخاری کی مذکورہ بالاحدیثوں میں ان کو نبی اور رسول اللہ کرکے تعبیر کیا ہے اور لکھا ہے کہ خدا نے ان پر وحی بھیجی تھی کہ مجمع البحرین میں جو میرا بندہ ہے وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے اور ان تمام حدیثوں میں پایا جاتا ہے کہ اس واقعہ کی بابت خدا برابر ان پر ہدایتیں بھیجتا رہتا تھا پس یہ امر جو خلاف تاریخ محققہ و مثبۃ ہے مطابق اصول حدیث کے تسلیم نہیں ہوسکتا۔
بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ اس چٹان کے نیچے جس پر مچھلی رکھی تھی آب حیات کا چشمہ تھا اس کا پانی جس کو لگتا تھا وہ زندہ ہوجاتا تھا اس مری مچھلی کو بھی وہ پانی لگا اور وہ زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی۔ یہ بیان نہ قرآن مجید سے مطابقت رکھتا ہے نہ عقل سے اور اس لیے مطابق اصول حدیث تسلیم نہیں ہوسکتا اور نہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمودہ قرار پاسکتا ہے۔ اسی طرح خضر کا سمندر کے بیچ میں ایک سبز وصلچہ بچھائے بیٹھا ہونا جو بخاری کی حدیث میں ہے قابل تسلیم نہیں ہے اور نہ یہ بات تسلیم ہوسکتی ہے کہ جس سوکھی گھانس پر وہ بیٹھتے تھے وہ ہری ہوجاتی تھی۔ انہی قصوں کی مناسبت سے اس شخص کا نام خضر رکھ دیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ کے مقدس لوگوں میں ایک عام رواج تھا کہ لوگوں کو نصیحت کرنے اور ان کے دل میں خدا کا ڈر بٹھانے اور اس کی قدرت کی شان جتانے کے لیے اس قسم کے قصے بنالیتے تھے اور بزرگوں کے واقعی اور سچے حالات میں ایسی باتیں ملا دیتے تھے جن سے خدا کی قدرت عظیم ظاہر ہوتی تھی اور وہ لوگوں کے دلوں پر زیادہ موثر ہوتے تھے اسی قسم کے بہت سے قصے نہایت قدیم زمانہ کے لیٹن زبان میں موجود ہیں، حکایات لقمان بھی اسی قسم کی کتاب ہے حضرت مولانا روم کی مثنوی بھی اسی قسم کے قصوں سے مملو ہے، اسی طرح یہودیوں کے عالموں اور واعظوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شہر سے نکلنے اور مدین تک پہنچنے کے سفر میں جو واقعات پیش آئے اس میں بھی اعجوبہ باتیں ملادیں اور اس سفر میں ایک فرضی شخص خضر کا ملنا شامل کیا جس کو ایک نہایت ہی بزرگ شخص اور مقدس خدا رسیدہ صاحب کشف و کرامات قراردیا۔ وہ قصہ یہودیوں میں مشہور تھا اسی قصہ کو بطور قصہ ہائے یہود صحابہ و تابعین نے بیان کیا ہوگا اور اخیر رایوں نے اس خیال سے کہ ان لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہوگا ان قصوں کو حدیثوں میں شامل کردیا اور مفسرین نے اپنی تفسیروں میں داخل کیا، مگر قرآن مجید میں جہاں تک اس قصہ کا بیان ہے وہ سیدھا اور صاف ہے اور ان باتوں میں سے جو ان روایتوں اور تفسیروں میں بیان ہوئی ہیں ایک حرف بھی قرآن میں شامل نہیں ہے۔
آج تک علماء یہی نہیں بتاسکے کہ خضر کون تھے اور کس کے بیٹے تھے دارقطنی کی روایت یہ ہے کہ وہ حضرت آدم کے بیٹے ہیں یہ روایت ابن عباس سے ہے اور اس روایت میں مقاتل اور ضحاک بھی راوی ہیں۔ اصابہ میں لکھا ہے کہ مقاتل کی روایت تو لینے کے قابل نہیں ہے اور ضحاک نے ابن عباس سے کوئی روایت نہیں سنی۔
ابوحاتم سجستانی ان کو قابیل کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کا نام خضرون ہے، اور بعضوں نے کہا عامر، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا نام بلیا ہے اور وہ بیٹے ہیں ملکان کے جو نوح کی اولاد میں سے تھے اور بعضوں نے کہا ان کا نام معمر ہے اور وہ بیٹے ہیں مالک بن عبداللہ بن نصر بن ازد کے اور بعضوں نے کہا کہ وہ عمائیل بن نور بن عبص بن اسحاق کے بیٹے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ موسیٰ کے بھائی ہارون کے نواسے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا نام ایمنیا بن خلقیا ہے اور بعضوں نے کہا کہ وہ فرعون کے نواسے ہیں اور بعضوں نے کہا کہ وہ فرعون کے بیٹے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ الیسع ہیں اور انہی کو خضر کہتے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ فارسی النسل ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ ان میں سے کسی شخص کی اولاد میں ہیں جو حضرت ابراہیم پر ایمان لائے تھے، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا باپ تو ایک فارسی شخص تھا اور ان کی ماں رومی تھی، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا باپ رومی تھا اور ماں فارسی تھی، اور بعضوں نے کہا وہ فرشتے تھے جو آدمی کی صورت بن جاتے تھے۔ یہ تمام اختلاف جو نسب سے علاقہ رکھتے ہیں علامہ ابن حجر نے اصابہ میں بیان کئے ہیں۔
اور اصابہ میں سہیلی کی کتاب التعریف والا علام سے لکھا ہے کہ خضر کا نام عامیل بن سماطین بن ارمابن خلفا بن عیصوبن اسحاق ہے اور ان کے باپ بادشاہ تھے اور ماں فارسی تھی جس کا نام الھار تھا وہ ایک جنگل میں پیدا ہوئے اور ایک شخص کی بکری تھی جو ان کو آکر دودھ پلا جاتی تھی اس شخص نے ان کو اٹھا لیا اور پرورش کی۔ ایسی حالت میں اور خصوصاً جبکہ بعض نے ان کو فرشتہ قرار دیا ہو جو آدمی کی صورت بن جاتے تھے کیونکر ایک واقعی شخص اور نہ صرف شخص بلکہ نبی رسول قرار دیا جاسکتا ہے اور کچھ شبہ نہیں رہ تاکہ یہ پرانے قصوں میں کا ایک فرضی نام ہے اور اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اصل واقعات کے ساتھ شامل کردیا ہے۔
فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا ﴿۶۱﴾
تفسیر سرسید :
( 61 تا 63) تا، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مجمع البحرین سے آگے چلے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی جوان سے مچھلی کا پھر دریا میں چلا جانا سنا تو کہا ” ذلک ماکنا نبغ “ جو کہ مفسرین نے ان روایات یہود سے بعض حدیثوں میں بھی مذکور ہیں یہ سمجھا تھا کہ موسیٰ کو خبر دی گئی تھی کہ جہاں تم مچھلی بھول جاؤ گے وہاں تم کو خضر ملیں گے۔ اس لیے انھوں نے ذلک کا مشارالیہ مچھلی کا چلا جانا قرار دیا اور اس کے معنی یہ سمجھے کہ مچھلی کا چلا جانا وہ امر ہے جس کو ہم چاہتے تھے۔ مگر ” ذلک ماکنا نبغ “ کے معنی صاف ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی جو ان سے کہا کہ ” اتناغداء نا “ یعنی ہمارا صبح کا کھانا لا اس نے کہا مچھلی تو دریا میں چلی گئی یعنی صبح کا کھانا جو تم مانگتے ہو نہیں رہا موسیٰ نے کہا کہ ” ذلک “ اس غدآء نا ای ماکنا نبغ من غداء نا یعنی صیح کا کھانا یہ ہے جس کو ہم چاہتے تھے ذلک کا اشارہ صاف غداء نا کی طرف ہے اس کا مشاراً الیہ ایک امر ذہنی بلکہ خیال کو قرار دینا جس کا ذکر نہ صراحتاً نہ کنایتاً قرآن مجید میں موجود ہے صحیح نہیں ہوسکتا۔
اس آیت میں جو یہ لفظ ہیں ” فوجد اعبدا من عبادنا ایتناہ رحمۃ مبن عبدنا وعلمناہ من لدنا علما “ یعنی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا ساتھی جو ان پھر کر مجمع البحرین پر پہنچے تو انھوں نے ایک بندہ کو خدا کے بندوں میں سے پایا جس کو ہم نے اپنی رحمت دی تھی اور ہم نے اس کو اپنے پاس سے علم سکھایا تھا مفسرین اور محدثین کہتے ہیں کہ عبد سے خضر مراد ہیں۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خضر کے ملنے کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی قوم نے پوچھا کہ سب سے زیادہ کون اعلم ہے موسیٰ نے کہا کہ میں سب سے زیادہ اعلم ہوں اس پر خدا خفا ہوا اور خدا نے وحی بھیجی کہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ اعلم ہے، مگر اس کا قرآن مجید میں کہیں ذکر نہیں اور کس قدر عجیب بات ہے کہ اس واقعہ کا نہ قرآن مجید میں ذکر ہے اور نہ کہیں خضر کا نام آیا ہے البتہ یہودیوں میں خضر کا نام اور ان کے قصے تھے۔
قرآن مجید سے صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لوٹ کر پھر مجمع البحرین آئے تو وہاں ایک اور شخص ان کو ملا۔ ظاہر ہے کہ جس رستہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین جانے کا ارادہ کیا تھا وہ نہایت اجنبی پہاڑوں اور جنگل کا رستہ تھا جس کو طے کرنا بغیر کسی ایسے شخص کے جو رستہ سے واقف نہ ہو نہایت دشوار تھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جو ملا وہ رستہ کا اور اس نواح کے حالات کا واقف کار تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ کیا میں تیری پیروی کروں بشرطیکہ جو بھلائی تجھ کو سکھائی گئی ہے مجھ کو بھی سکھا دے یعنی رستہ بتاتا ہوا لے چلے۔
واضح ہو کہ اب اس مقام سے قرآن مجید میں صرف انہی دو شخصوں کا ذکر ہے اس جوان کا جو پہلی اسیحضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا کچھ ذکر نہیں آیا تو وہ ساتھ نہیں رہا یا آئندہ کے حالات میں اس کے ذکر کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوئی۔
یہ شخص جو ملا صاحب موسیٰ کہلاتا ہے اس کی نسبت علمائے متقد میں نے بہت اختلاف کیا ہے اکثر تو کہتے ہیں کہ یہ خضر پیغمبر تھے جو اب تک جیتے ہیں اور جیتے رہیں گے اور قیامت کے بورنے سمیٹے گے مگر لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے۔ کبھی کسی بھولے بسرے کو راہ بتا دیتے ہیں اور کبھی کسی کو علم لدنی سکھا دیتے ہیں۔
جو لوگ صاحب موسیٰ کو نبی بتاتے ہیں وہ اس آیت پر استدلال کرتے ہیں ” اتیناہ رحمۃ من عندنا وعلمناہ من لدنا علما “ یعنی جس پر ہم نے اپنی رحمت کی تھی اور ہم ہی ہنے اپنے پاس سے علم سکھایا تھا مگر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ نبوت بلا شک رحمت ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر رحمت نبوت ہو۔
اور تفسیر کبیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ” علمتاہ من لدنا “ کے الفاظ سے بھی نبوت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ علوم ضروریہ ابتدا میں خدا ہی سے ملتے ہیں۔ پس یہ دلیل نبوت کی نہیں ہے۔
اور تفسیر کبیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ الفاظ جو قرآن میں ہیں ” وما فعلتہ عن امری “ ان الفاظ سے نبوت پر استدلال کرنا نہایت ضعیف ہے۔ اس کا نہایت ضعیف ہونا ظاہر ہے اس لیے کہ یہ کہنا کہ میں نے خدا کی مرضی سے یہ کام کیا ہے یا اپنی مرضی و خواہش سے نہیں کیا عام محاورہ بول چال کا ہے اس سے اس شخص کا نبی اور پیغمبر ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
بخاری کی تین حدیثوں میں جن میں سے ایک عبداللہ بن محمد المسندی سے اور ایک ابراہیم بن موسیٰ سے اور ایک قتیبہ بن سعید سے مروی ہے ان حدیثوں میں اس شخص کا نام جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مجمع البحرین پر ملا خضر لکھا ہے مگر وہ ان وجوہ سے جو آگے بیان ہوں گے قابل تسلیم نہیں ہے۔
بخاری میں متعدد جگہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کا ذکر ہے مگر چار حدیثیں بہت بڑی ہیں جن میں قریباً یہ تمام قصہ مذکور ہے۔
پہلی حدیث میں عبداللہ بن احمد المسندی ۔ سفیان۔ عمرو۔ سعید ابن جبیر۔ ابن عباس۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
دوسری حدیث میں علی ابن عبداللہ۔ سفیان۔ عمرو بن دینار۔ سعید ابن جبیر۔ ابن عباس۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
تیسری حدیث میں ابراہیم بن موسیٰ ہشام ابن یوسف۔ ابن جریح۔ یعلی بن مسلم ۔ عمرو بن دینار ۔ سعید بن جبیر۔ ابن عباس۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
چوتھی حدیث میں قتیسبہ بن سعید۔ سفیان۔ ابن عینیہ۔ عمروابن دینار۔ سعیدبن جبیر۔ ابن عبسا۔ ابی ابن کعب راوی ہیں۔
ان چاروں حدیثوں میں ابی ابن کعب اخیرراوی ہیں اور عمرو بن دینار۔ سعید ابن جبیر۔ ابن عباس چاروں حدیثوں میں راوی ہیں اور سفیان صرف پہلی اور دوسری اور چوتھی حدیث میں اور چاروں حدیثوں میں ابن عباس نے ابی ابن کعب سے روایت کی ہے۔
مگر ان حدیثوں میں جو تفاوت الفاظ اور طرز بیان اور بعض جگہ مضمون میں ہے اس کو بیان کرنا مناسب ہے۔
پہلی حدیث میں ہے ” موسیٰ نبی “ دوسری میں ہے صرف ” موسیٰ “ تیسری میں ہے ” موسیٰ رسول اللہ “ چوتھی میں ہے صرف ” موسیٰ “
پہلی اور دوسری حدیث میں ہے ” قام موسیٰ النبی خطیبا فی بنی اسرائیل فسئل ای الناس اعد فقال انا “
اور چوتھی حدیث میں بجائے ” فسئل “ کے ” فقیل لہ “ ہے۔
اور تیسری حدیث میں ہے ” ذکر الناس بوما حتے اذا فاضت العیون ورقت القلوب ولی فا درکہ رجل فقال ای رسول اللہ ھل فی الارض احد اعلم منک قال لا “
یعنی پہلی اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وعظ کرنے کو بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے پوچھا گیا کہ کون شخص سب سے زیادہ عالم ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں ہوں “۔
اور چوتھی میں بجائے ” فسئل “ کے ” فقیل لہ “ ہے یعنی موسیٰ سے کہا گیا۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” ایک دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو نصیحت کی یہاں تک کہ لوگ روئے اور ان کے دل نرما گئے۔ جب وعظ کہہ کر چلے تو ایک شخص ملا اور اس نے کہا کہ اے رسول خدا دنیا میں تم سے زیادہ کوئی عالم ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا نہیں “۔
پہلی حدیث میں ہے ” فاوحی اللہ الیہ ان عبدامن عبادی جمیع البحرین اعلم منک “
اور دوسری حدیث میں ہے ” قال لہ بل لی عبد بمجمع البحرین ھو اعلم منک “
اور تیسری حدیث میں ہے ” قیل بلے قال ای رب واین قال بمجمع البحرین “۔
چوتھی حدیث میں ہے ” واوحیٰ الیہ بلی عبد من عبادی بمجمع البحرین ھواعلم منک “
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” خدا نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ مجمع البحرین میں ایک میرا بندہ تجھ سے زیادہ عالم ہے “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” خدا نے موسیٰ سے کہا کہ نہیں بلکہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے تجھ سے زیادہ عالم ہے “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” کہا گیا ہاں موسیٰ نے کہا اے خدا کہاں ؟ خدا نے کہا مجمع البحرین میں ‘
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” خدا نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ ہاں میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ عالم ہے “۔
پہلی حدیث میں ہے ” قال یارب وکیف بہ “
دوسری حدیث میں ہے ” قال ای رب و من لی بہ وربما قال سفیان لی رب فکیف بہ “
تیسری حدیث میں ہے ” قال ای رب اجعل لی علما اعلم ذلک منہ “
چوتھی حدیث میں ہے ” قال ای رب کیف السبیل الیہ “۔
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا میں کیونکر اس تک پہنچو گا “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا کون مجھے اس تک پہنچائے گا اور کبھی سفیان نے کہا اے خدا میں کیونکر اس تک پہنچونگا “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا مجھے کوئی نشانی بتا جس سے میں اس کو پہچانوں “
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے کہا اے خدا میں کیونکر اس تک رستہ پاؤں “۔
پہلی حدیث میں ہے ” فقیل لہ احمل حوتافی مکتل فاذافقدتہ فھوثم “۔
دوسری حدیث میں ہے ” قال تاخذ حوتا فتجعلہ فی مکتل حیث مافقدت الحوت قھوثم وربما قال فھوثمہ “
تیسری حدیث میں ہے ” فقال لی عمر وقال حبث یفارقک الحوت وقال لی یعلی قال خذنونا میتا حیث ینفخ فیہ الروح “
چوتھی حدیث میں ہے ” قال تاخذ حوتافی مکتل فحیث ما فقدت الحوت فاتبعہ “
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ سے کہا گیا کہ زنبیل میں ایک مچھلی اٹھالے جہاں وہ وہ گم ہو وہ اسی جگہ ہوگا “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” خدا نے کہا ایک مچھلی لے اور زنبیل میں رکھ جہاں مچھلی گم ہوجائے وہ اسی جگہ ہوگا “
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” عمر وبن دینار نے مجھ سے کہا کہ خدا نے کہا جہاں مچھلی تجھ سے جدا ہو اور یعلی نے مجھ سے کہا کہ خدا نے کہا ایک مردہ مچھلی لے جہان اس میں جان پڑجائے “۔
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” خدا نے کہا زنبیل میں ایک مچھلی رکھ لے جہاں مچھلی گم ہوجائے اس کے پیچھے پیچھے چلا جائیو “۔
پہلی حدیث میں ہے ” و حمل حوتافی مکتل حتی کا ناعندا الصخرۃ وضعاروسھما فنا مسافانسل الحوت من المکنل فاتخذ سبیلہ فی البحرسربا “
دوسری حدیث میں ہے ” فاخذ حوتافی مکتل ثم انطلق ھو وفتا ح یوشع بن نون حتے اذا اتیا الصخرۃ وضعار وسھما فرقد موسیٰ واضطرت الحوت فخرج فسقط فی البحر فاتخذ سبیلہ فی البحر مھا “ ۔
تیسری حدیث میں ہے ” فاخذ حوتا فجعلہ فی مکتل فقال لفتاہ لا اکلفک الا ان تخبرنی بحیث یفارقک الحوت۔۔۔ فینما ھو فی ظلل صخرۃ فی مکان ثریان اذ تضرب الحوت۔۔۔ حتی دخل البحر “۔
چوتھی حدیث میں ہے ” قال فخرج موسیٰ و معہ فتاہ یوشع بن نون ومعھما الحوت حتی انتھیا الی الصخرۃ فنزلا عندھا قال فوضع موسیٰ راسہ فنام قال سفیان وفی حدیث غیرعمر وقال وفی اصل الصخرۃ عین یقال لہ الحیاۃ لا بصیب من مائھا شیء الا حیی فاصاب الحوت من ماء تلک العین قال فتحرک وانسل من المکتل قد خل البحر “۔
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی یہاں تک کہ دونوں ایک چٹان کے پاس پہنچے اور دونوں اس پر سر رکھ کر سوگئے ۔ مچھلی زنبیل نے نکل پڑی اور اس نے سمندر میں رستہ لیا “۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے زنبیل میں مچھلی لی پھر وہ اور ان کا جوان ساتھی یوشع بن نون دونوں چلے اور ایک چٹان کے پاس پہنچے دونوں نے اس پر اپنا سر رکھا اور موسیٰ سو گئے اور مچھلی تڑپ کر نکل پڑی اور سمندر میں جاپڑی اور اس نے سمندر میں اپنا رستہ لیا “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” موسیٰ نے مچھلی لی اور اس کو زنبیل میں رکھا پھر اپنے جوان ساتھی سے کہا میں تم کو اس کے سوا اور تکلیف نہیں دیتا کہ جہاں مچھلی تم سے جدا ہو مجھے خبر کردیا۔۔۔ اسی اثنا میں کہ موسیٰ ایک چٹان کی پناہ میں تر زمین پر تھے کہ مچھلی تڑپی۔۔۔ یہاں تک کہ وہ سمندر میں چلی گئی “۔
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” راوی نے کہا کہ موسیٰ چلے اور ان کے ساتھ یوشع بن نون تھے اور دونوں کے ساتھ مچھلی تھی یہاں تک کہ ایک چٹان کے پاس پہنچے اور اس کے قریب اتر پڑی راوی نے کہا ہے کہ موسیٰ نے اپنا سر (اس پر) رکھا اور سمو گئے۔ سفیان کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار کی روایت کی سو اور روایت میں ہے کہ چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا جس کو چشمہ آب حیات کہتے ہیں۔ اس کا پانی جس کو لگتا تھا وہ زندہ ہوجاتا تھا اس مچھلی کو بھی وہ پانی لگا اور اس میں جنبش پیدا ہوئی اور زنبیل سے نکل کر سمندر میں چلی گئی “۔
پہلی حدیث میں ہے ” فلما انتھیا الی الصخرۃ اذا رجل مسیحی بثوب او قال لسجی بتوبہ “۔
دوسری حدیث میں ہے ” حتے انتھیا الی الصخرۃ فاذارجل مسیحی بتوب “۔
تیسری حدیث میں ہے ” فرجعا فوجد اخضر اقال لی عثمان بن ابی سلیمان علی طنسفۃ خضراء علے کبدالبحر قال سعید ابن جبیر مسیحی بثوبہ “۔
چوتھی حدیث میں ہے ” فال فلما انتھیا الی الصخرۃ اذاھما برجل مسیحی بثوب “
یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ ” جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو یکایک ایک شخص نظر پڑا جو ایک کپڑا اوڑھے ہوئے تھا۔ “
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو ناگاہ ایک شخص ملا جو کپڑا اوڑھے ہوئے تھا “۔
اور تیسری حدیث میں ہے کہ ” جب دونوں الٹے پھرے تو انھوں نے خضر کو پایا عثمان بن ابی سلیمان نے مجھ سے کہا سمندر کے بیچ میں ایک سبز و صلچہ پر۔ سعید بن جبیر نے کہا کپڑا اوڑھے ہوئے “۔
اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ” راوی نے کہا جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو یکایک دونوں نے ایک شخص کو دیکھا کپڑا اوڑھے ہوئے “۔
پہلی اور تیسری اور چوتھی حدیث میں اس شخص کا نام جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مجمع البحرین پر ملا خضر لکھا ہے۔ اور دوسری حدی میں نام نہیں ہے بلکہ ” رجل مسجے بثوب “ لکھا ہے یعنی ایک شخص ملا جو چادر اوڑھے ہوئے کہتا۔
یہ تفاوت الفاظ اور طرز بیان اور زیادتی و کمی مضامین کو بطور نمونہ کے ہم نے دکھایا ہے اور اسی طرح کا ان حدیثوں میں جو موسیٰ کے قصہ سے متعلق ہیں بہت جگہ تفاوت الفاظ اور طرز بیان اور مضامین کا ہے۔ اس سے ہم کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ان حدیثوں کے جو الفاظ ہیں وہ وہ نہیں ہیں جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائے بلکہ یہ الفاظ اخیر رایوں کے ہیں جنہوں نے ان حدیثوں کو مثل دیگر احادیث طوال کے بالمعنی روایت کیا ہے اور اس لیے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ تصور نہیں ہوسکتے۔
دوسرے یہ امر قابل غور ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ ” حدثوا عن بنی اسرائیل ولاحوج “۔ (بخاری کتاب الانبیاء)
یعنی بنی اسرائیل جو روایتیں بیان کرتے ہیں اس کے بیان کرنے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ اس بنا پر صحابہ اور تابعین یہودیوں کی روایت کو بیان کرتے تھے۔
اخیر کے راویوں نے یہ خیال کرکے کہ پہلے راوی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہوگا ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مستند کردیا پس جس قدر یہودیوں کے قصے حدیثوں میں پائے جاتے ہیں ان کی نسبت یقین نہیں ہوسکتا کہ درحقیقت وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مستند ہیں گو کہ وہ حدیثوں میں مستند کئے گئے ہوں اس لیے ضروری ہے کہ ان قصوں کا جس قدر ذکر قرآن مجید میں آیا ہے انھیں پر ہم منحصر رہیں اور حدیثوں میں جو قصے ہیں ان کو بنظر روایت دیکھیں اور جانچیں اور جہاں تک ان میں کوئی نقص نہ پایا جاوے اور قرآن مجید سے اس کی تائید ہوتی ہو ان کو تسلیم کریں اور جن میں ازروے روایت کے کچھ نقص پاویں ان کو متروک کریں۔
قرآن مجید میں یہ قصہ دوسورتوں میں آیا ہے سورة قصص میں صرف وہاں تک بیان ہوا ہے جہاں تک کہ حضرت موسیٰ ایک شخص کو قتل کرکے شہر سے بھاگے اس کے بعد بھاگنے کی حالت میں جو واقعات پیش آئے ان کا بیان سورة کہف میں آیا ہے اور کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ وہ ایک ہی قصہ اور حضرت موسیٰ ہی کا قصہ ہے جو آدھا ایک سورة میں اور آدھا دوسری سورت میں آیا ہے۔
جس وقت تک کہ حضرت موسیٰ اس شہر سے بھاگے ہیں جس میں انھوں نے ایک قبطی کو ماڑڈالا تھا اس وقت تک وہ نبی پیغمبر یارسول نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کو رسالت اس کے بہت بعد ہوئی ہے جبکہ وہ فرعون کی ہدایت اور بنی اسرائیل کو آزاد کرنے پر مامور ہوئے اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے مگر بخاری کی مذکورہ بالاحدیثوں میں ان کو نبی اور رسول اللہ کرکے تعبیر کیا ہے اور لکھا ہے کہ خدا نے ان پر وحی بھیجی تھی کہ مجمع البحرین میں جو میرا بندہ ہے وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے اور ان تمام حدیثوں میں پایا جاتا ہے کہ اس واقعہ کی بابت خدا برابر ان پر ہدایتیں بھیجتا رہتا تھا پس یہ امر جو خلاف تاریخ محققہ و مثبۃ ہے مطابق اصول حدیث کے تسلیم نہیں ہوسکتا۔
بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ اس چٹان کے نیچے جس پر مچھلی رکھی تھی آب حیات کا چشمہ تھا اس کا پانی جس کو لگتا تھا وہ زندہ ہوجاتا تھا اس مری مچھلی کو بھی وہ پانی لگا اور وہ زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی۔ یہ بیان نہ قرآن مجید سے مطابقت رکھتا ہے نہ عقل سے اور اس لیے مطابق اصول حدیث تسلیم نہیں ہوسکتا اور نہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمودہ قرار پاسکتا ہے۔ اسی طرح خضر کا سمندر کے بیچ میں ایک سبز وصلچہ بچھائے بیٹھا ہونا جو بخاری کی حدیث میں ہے قابل تسلیم نہیں ہے اور نہ یہ بات تسلیم ہوسکتی ہے کہ جس سوکھی گھانس پر وہ بیٹھتے تھے وہ ہری ہوجاتی تھی۔ انہی قصوں کی مناسبت سے اس شخص کا نام خضر رکھ دیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ کے مقدس لوگوں میں ایک عام رواج تھا کہ لوگوں کو نصیحت کرنے اور ان کے دل میں خدا کا ڈر بٹھانے اور اس کی قدرت کی شان جتانے کے لیے اس قسم کے قصے بنالیتے تھے اور بزرگوں کے واقعی اور سچے حالات میں ایسی باتیں ملا دیتے تھے جن سے خدا کی قدرت عظیم ظاہر ہوتی تھی اور وہ لوگوں کے دلوں پر زیادہ موثر ہوتے تھے اسی قسم کے بہت سے قصے نہایت قدیم زمانہ کے لیٹن زبان میں موجود ہیں، حکایات لقمان بھی اسی قسم کی کتاب ہے حضرت مولانا روم کی مثنوی بھی اسی قسم کے قصوں سے مملو ہے، اسی طرح یہودیوں کے عالموں اور واعظوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شہر سے نکلنے اور مدین تک پہنچنے کے سفر میں جو واقعات پیش آئے اس میں بھی اعجوبہ باتیں ملادیں اور اس سفر میں ایک فرضی شخص خضر کا ملنا شامل کیا جس کو ایک نہایت ہی بزرگ شخص اور مقدس خدا رسیدہ صاحب کشف و کرامات قراردیا۔ وہ قصہ یہودیوں میں مشہور تھا اسی قصہ کو بطور قصہ ہائے یہود صحابہ و تابعین نے بیان کیا ہوگا اور اخیر رایوں نے اس خیال سے کہ ان لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہوگا ان قصوں کو حدیثوں میں شامل کردیا اور مفسرین نے اپنی تفسیروں میں داخل کیا، مگر قرآن مجید میں جہاں تک اس قصہ کا بیان ہے وہ سیدھا اور صاف ہے اور ان باتوں میں سے جو ان روایتوں اور تفسیروں میں بیان ہوئی ہیں ایک حرف بھی قرآن میں شامل نہیں ہے۔
آج تک علماء یہی نہیں بتاسکے کہ خضر کون تھے اور کس کے بیٹے تھے دارقطنی کی روایت یہ ہے کہ وہ حضرت آدم کے بیٹے ہیں یہ روایت ابن عباس سے ہے اور اس روایت میں مقاتل اور ضحاک بھی راوی ہیں۔ اصابہ میں لکھا ہے کہ مقاتل کی روایت تو لینے کے قابل نہیں ہے اور ضحاک نے ابن عباس سے کوئی روایت نہیں سنی۔
ابوحاتم سجستانی ان کو قابیل کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کا نام خضرون ہے، اور بعضوں نے کہا عامر، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا نام بلیا ہے اور وہ بیٹے ہیں ملکان کے جو نوح کی اولاد میں سے تھے اور بعضوں نے کہا ان کا نام معمر ہے اور وہ بیٹے ہیں مالک بن عبداللہ بن نصر بن ازد کے اور بعضوں نے کہا کہ وہ عمائیل بن نور بن عبص بن اسحاق کے بیٹے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ موسیٰ کے بھائی ہارون کے نواسے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا نام ایمنیا بن خلقیا ہے اور بعضوں نے کہا کہ وہ فرعون کے نواسے ہیں اور بعضوں نے کہا کہ وہ فرعون کے بیٹے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ الیسع ہیں اور انہی کو خضر کہتے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ فارسی النسل ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ وہ ان میں سے کسی شخص کی اولاد میں ہیں جو حضرت ابراہیم پر ایمان لائے تھے، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا باپ تو ایک فارسی شخص تھا اور ان کی ماں رومی تھی، اور بعضوں نے کہا کہ ان کا باپ رومی تھا اور ماں فارسی تھی، اور بعضوں نے کہا وہ فرشتے تھے جو آدمی کی صورت بن جاتے تھے۔ یہ تمام اختلاف جو نسب سے علاقہ رکھتے ہیں علامہ ابن حجر نے اصابہ میں بیان کئے ہیں۔
اور اصابہ میں سہیلی کی کتاب التعریف والا علام سے لکھا ہے کہ خضر کا نام عامیل بن سماطین بن ارمابن خلفا بن عیصوبن اسحاق ہے اور ان کے باپ بادشاہ تھے اور ماں فارسی تھی جس کا نام الھار تھا وہ ایک جنگل میں پیدا ہوئے اور ایک شخص کی بکری تھی جو ان کو آکر دودھ پلا جاتی تھی اس شخص نے ان کو اٹھا لیا اور پرورش کی۔ ایسی حالت میں اور خصوصاً جبکہ بعض نے ان کو فرشتہ قرار دیا ہو جو آدمی کی صورت بن جاتے تھے کیونکر ایک واقعی شخص اور نہ صرف شخص بلکہ نبی رسول قرار دیا جاسکتا ہے اور کچھ شبہ نہیں رہ تاکہ یہ پرانے قصوں میں کا ایک فرضی نام ہے اور اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اصل واقعات کے ساتھ شامل کردیا ہے۔