ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
( 83 تا 98) ان آیتوں میں یا جوج ماجوج کا اور اس سد کا ذکر ہے جو ان کے روکنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ لیکن اگر ہم ہر ایک مطلب کو علیحدہ علیحدہ ہر ایک آیت کے ساتھ بیان کریں تو پورا قصہ اور وہ دلیلیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سدکہان ہے بخوبی سمجھ میں نہیں آنے کی اس لیے ان آیتوں کی تفسیر ایک ساتھ بیان کرتے ہیں۔
یسئلونک عن ذی القرنین
خدا نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ ” تجھ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کا حال “ اب مسلمان مورخوں اور مفسروں نے اس بات پر غور کرنی شروع کی کہ ذوالقرنین کون تھا۔
قرآن مجید میں یہ لفظ آتا تھا ” انا مکنالہ فی الارض “ یعنی ہم نے اس کو قدرت دی تھی زمین میں اس لیے اکثر مفسرین نے تسلیم کیا کہ وہ کوئی بہت بڑا بادشاہ تھا۔ اب یہ سوچ ہوئی کہ ایسا بڑا بادشاہ جس نے تمام دنیا کو مشرق سے مغرب تک لے لیا ہو کون تھا۔ غالباً ایسا بادشاہ تو ان کو کوئی نہیں ملا اس لیے انھوں نے تلاش کیا کہ سب سے بڑا بادشاہ کون ہوا ہے۔ تاریخ کی کتابوں کو ٹٹولا اور یہ قرار دیا کہ سکندر اعظم بن فیلقوس یونانی سب بادشاہوں میں بڑا بادشاہ تھا۔ کیونکہ جب اس کا باپ فیلقوس مرا تو مملکت روم میں جو طوائف الملوکی تھی ان سب کو مغلوب کرکے ایک سلطنت بنالی پھر مغرب کے بادشاہوں کو مغلوب کیا اور بحرا خضر تک جا پہنچا پھر وہاں سے پھرا اور مصر میں پہنچا اور وہاں اپنے نام ضر اسکندریہ بنایا پھر شام میں پہنچا اور بنی اسرائیل پر حملہ کیا اور بیت المقدس میں پہنچ کر قربانی کی پھر آرینیہہ اور باب الابواب میں آیا اور اہل عراق اور قبطی اور اہل بربر تم پہنچا پہردار پر حملہ کیا اور اس کو شکست دی اور فارش کے ملک پر قبضہ کرلیا پہر ہندوستان اور چین پر چڑھائی کی اور دور دور کے ملکوں کو فتح کرتا ہوا خراسان میں آیا اور بہت سے شہر آباد کئے اور پھر عراق میں آیا اور شہر زور میں بیمار ہو کر مرگیا۔
اب امام رازی صاحب فرماتے ہیں کہ جب قرآن سے ثابت ہوا کہ ذوالقرنین ایک ایسا شخص تھا کہ جس نے تمام زمین پر یا قریباً کل پر بادشاہت کی تھی اور علم تواریخ سے ثابت ہوا کہ ایسا بادشاہ سوائے سکندر کے اور کوئی نہیں ہوا تو اب بالیقین قرار پایا کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر بن فیلقوس یونانی ہے۔ ھکذا فی تفسیر الکبیر۔
اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جب قرآن مجید میں اس بادشاہ کا نام نہیں بتایا بلکہ صرف اس کے چند پتے بتائے ہیں تو ہر شخص کو اس پہلی کے بوجھنے کا خیال پیدا ہوگا مگر ہم کو افسوس ہے کہ امام صاحب نے اس کو ٹھیک ٹھیک نہیں بوجھانہ سکندر کے زمانہ کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ تمام دنیا پر مشرق سے مغرب تک بادشاہ ہوگیا تھا اور نہ وہ دہان تک جہاں آفتاب طلوع اور غروب ہوتا ہے پہنچا تھا اور نہ دنیا کا جغرافیہ ان باتوں کی جن کا ذکر امام صاحب نے اپنی تفسیر میں کیا ہے تصدیق کرتا ہے اس لیے ہم کو جرات ہوئی ہے کہ اپنے یقین سے یہ بات کہیں کہ امام صاحب نے جو ذوالقرنین سے اسکندر یونانی مراد لیا ہے محض غلط ہے۔ اب امام صاحب اس بات پر متوجہ ہوئی ہیں کہ سکندر کو ذوالقرنین کیوں کہا ہے اور اس کی کئی وجہیں بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ قرنی الشمس تک یعنی مشرق و مغرب تک پہنچا تھا اور ایک جھوٹی حدیث کسی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بنائی ہے کہ ممی بذی القرنین لانہ ظاف قرنی الدنیا یعنی شہر قہاد غربہا غالباً اسی وجہ کے بیان کرتے وقت امام صاحب کا خیال ہے کہ زمین مربع ہے اور اس کا ایک کنارہ مشرق ہے اور ایک کنارہ مغرب اور ان کناروں سے آفتاب طلوع و غروب ہوتا ہے لیکن اگر درحقیقت زمین گول ہے تو انسان مشرق و مغرب تک کیونکر پہنچ سکتا ہے کیونکہ آفتاب کا طلوع و غروب باعتبار افق کے کہا جاتا ہے پس انسان جہاں تک چلا جاوے افق بدلتا جاویگا اور مشرق و مغرب کی یکساں حالت رہیگی۔ اور کبھی بھی مشرق و مغرب تک نہ پہنچ سکے گا اور اگر ہم بالفرض باعتبار کسی ملک کی افق کے یا بالتخصیص مالک روم کی افق کے جہاں سکندر کا دارالسلطنت تھا زمین کے نصف کرہ فوقانی کے ایک نقطہ کو مشرق اور ایک کو مغرب قراردیں تو بھی سکندر وہاں تک نہیں پہنچا تھا پس یہ دلیل جو وجہ تسمیہ کی بیان کی ہے سرتاپا غلط ہے۔
ایک دلیل یہ بیان کی ہے کہ سکندر دار کا بیٹا ہے نہ فیلقوس کا ۔ فیلقوس نے اپنی بیٹی کی شادی دارا سے کردی تھی مگر دارا نے اس کو نکال دیا اور اس کے باپ کے گھربھیج دیا لیکن وہ حاملہ ہوچکی تھی اپنے باپ کے گھر بیٹا جنی فیلقوس نے اس کو اپنا بیٹا بنا لیا اس کے ثبوت میں یہ دلیل بیان کی ہے کہ جب دارازخمی ہوا اور سکندر اس کا سرگود میں لے کر بیٹھا تو سکندر نے دارا سے کہا کہ اے ابا جان تم کو کس نے زخمی کیا پھر سکندراگردار کا بیٹا نہ ہوتا تو اس کو ابا جان کیوں کہتا پس سکندر کا باپ تو دار اتھا اور اس کی ماں رومی تھی دو نسلیں مل گئیں اس لیے اس کو ذوالقرنین کہا گیا۔
ایک یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس کے وقت میں انسانوں کے دوقرن گزرے تھے مگر نہیں بتایا کہ انسانوں کے دو قرن گزرنے سے کیا مراد ہے۔
ایک یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس کے سر کی دو طرفین تانبے کی تہیں کان صفحتا راستہ من النحاس مگر اس کی کچھ تشریح نہیں کہ کان صفحتا راسہ من النحاس سے کیا مراد ہے۔
ایک یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس کے سر پر پیدائشی کوئی ایسی چیز تھی جو دو سینگوں کے مشابہ تھی غالباً اسی خیال سے لوگوں میں یہ بات مشہور ہوئی ہے کہ سکندر کے سر پر دو سینگ تھے۔
ایک یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس کے تاج میں دو سینگ بنے ہوئے تھے۔
ایک یہ کہی ہے کہ اس کی دو زلفیں تھیں ان ہی کو دو سینگ کہا ہے۔
سب سے بڑی دلچسپ یہ وجہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نور وظلمت دونوں کو اس کا مسخر کیا تھا اس لیے اس کو ذوالقرنین کہتے تھے۔
ایک یہ وجہ لکھی ہے کہ بسبب شجاعت کے اس کو ذوالقرنین کہتے تھے جیسے کہ شجاع آدمی کو مینڈھے سے تشبیہہ دیتے ہیں جس کے دو سینگ ہوتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ وجہ لکھی ہے کہ سکندر نے خواب میں دیکھا کہ وہ آسمان پر چڑھ گیا ہے اور آفتاب کے دونوں کنارے یا دونوں سینگ (بہتر یہ کہنا ہے کہ دونوں کان) پکڑ کر لٹک گیا تھا اس لیے ذوالقرنین کہتے ہیں۔
یا اک یہ وجہ لکھی ہے کہ اس نے نور میں اور ظلمات میں دونوں میں سفر کیا تھا۔ پس ذوالقرنین ہوگیا۔
ابو ریحان بیرونی نے اپنی کتاب اثار الباقیہ عن قرون الخالیہ میں حمیری خاندان کے بادشاہوں میں سے ابوکرب شمس بن عیبربن افریقس کو ذوالقرنین قرار دیا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا ملک مشرق و مغرب تک پہنچ گیا تھا اور اس پر بڑا قرینہ یہ قائم کیا ہے کہ ذوکا لفظ حمیری خاندان کے بادشاہوں کے نام کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے جیسے ذی نواس وغیرہ۔
مگر یہ دلیل بھی ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ اول یہ ثابت ہونا چاہیے کہ ذوالقرنین اسی ملک کی زبان کا لفظ ہے جس ملک کا وہ بادشاہ تھا حالانکہ یہ امر تحقیق طلب سے معہذا جس قدر اعترضات سکندر کی سلطنت اور قرآن مجید کی آیات کو اس کی مملکت کی حالت کے مطابق ہونے پر ہیں وہی سب اعتراضات ابوکرب کی سلطنت و مملکت پر بھی وارد ہوتے ہیں۔
بعض مورخون کا قول ہے کہ ذوالقرنین ایک نیک بندہ تھا خدا کی عبادت میں اسی کے دائیں فرن میں مارا گیا وہ مرگیا خدا نے اس کو پھر زندہ کیا پھر مائیں قرن پر مارا گیا پھر مرگیا پھر خدا نے اس کو زندہ کیا اور ذوالقرنین اس کا نام ہوا اور بادشاہ ہوگیا ہے۔ کیا یہ کچہہ کم افسوس کی بات ہے جب کہ ایسی بی مروپا باتیں قرآن مجید کی تفسیروں میں لکھی ہوئی دیکھتے ہیں۔
بعض مورخوں نے کہا ہے کہ ذوالقرنین فرشتوں میں سے ایک فرشتہ تھا۔ یہ تمام اقوال جو ہم نے بیان کئے ہیں تفسیر کبیر میں منقول ہیں۔
اب ہمارے مفسروں نے اس بات کی تحقیق شروع کی کہ ذوالقرنین نبی یعنی پیغمبر تھا
یا نہیں بعضوں نے کہا ہے کہ نبی تھا بعضوں نے کہا کہ نبی نہیں تھا۔ جو لوگ اس کے نبی ہونے کے قائل ہوئے انھوں نے یہ دلیل پکڑی کہ خدا نے فرمایا ہے کہ انا مکنا لہ فی الارض بعنی ہم نے اس کو قدرت دی زمین میں تو قدرت کے لفظ سے قدرت فی الدین قرار دینا اولیٰ ہے اور پوری قدرت دین میں نبوت ہے اس لیے ذوالقرنین نبی تھا۔
دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے واتیناہ من کل شیء سببا یعنی ہم نے دیا اس کو ہر ایک چیز کا سامان اور ہر چیز کے لفظ میں نبوت بھی داخل ہے اور اس لیے ذوالقرنین کو نبوت بھی دی گئی تھی۔
تیسری جگہ خدا نے کہا قلنا یا ذا القرنین یعنی ہم نے کہا اے ذوالقرنین اور خدا جس سے بات کرتا ہے وہ نبی ہوتا ہے پس ذوالقرنین بھی نبی تھا۔
بعضوں نے کہا کہ ذوالقرنین نبی نہیں تھا مرد صالح تھا اور مکنا لہ فی الارض سے اس کی قوت سلطنت اور من کل شیء سببا سے ذریعہ حصول تسلط ملک پر مراد لینی چاہیے مگر امام رازی صاحب ان الفاظ سے ذوالقرنین کے نبی ہونے کو تقویت دیتے ہیں۔
مفسرین کو جو اس قدر غلطیاں یا مشکلیں ان آیتوں کی تفسیر میں پڑیں اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ انھوں نے واقعات کی تحقیق میں الٹی راہ اختیار کی ہے یعنی اول اس بات کی تحقیق شروع کی ہے کہ ذوالقرنین کون تھا حالانکہ اول اس بات کو دریافت کرنا تھا کہ وہ سدجس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور ایسی مستحکم و مضبوط بنائی گئی ہے کہ مفسرین اور مورخین کے زمانہ تک اس کا معدوم ہوجانا غیر ممکن ہے۔ فی الحقیقت کس جگہ واقعہ ہے صرف قباسا یہ کہہ دینا کہ شمال میں بنی ہوگی کافی نہیں صاف طور پر اور بالتحقیق بتانا چاہیے کہ وہ سدفلان مقام پر موجود ہے۔
اس کے بعد تحقیق کرنا چاہیے کہ اس کو کس بادشاہ نے بنایا تھا جس بادشاہ نے بنایا ہو اسی پر قرآن مجید میں ذوالقرنین کا اطلاق ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ اس بادشاہ کو ذوالقرنین کہنے کی وجہ نہ معلوم ہو یا مشتبہ رہے مگر اس کے نہ معلوم ہونے یا مشتبہ رہنے سے کوئی اصل واقع کے ثابت ہونے میں نہیں ہوتا کیونکہ واقعہ جس کا ثبوت درکا رہے وہ صرف اس قدر ہے کہ وہ سد نبی اور فلان مقام پر موجود ہے اور فلان بادشاہ نے اس کو بنایا۔
اس کے بعد اس بادشاہ کی مملکت اور اس کی سلطنت پر غور کرنا ہے کہ وہ حالات ان باتوں کے مطابق ہیں جو قرآن مجید میں اس بادشاہ کی سلطنت یا مملکت کی نسبت بیان ہوئے ہیں یا نہیں کیونکہ اگر وہ مطابق ہوں تو کافی یقین ہوگا کہ اسی بادشاہ کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور اسی پر ذوالقرنین کا اطلاق ہوا ہے۔
انا مکنا لہ فی الارض میں جو لفظ فی الارض کا آیا ہے اس سے تمام دنیا یا از مشرق یا مغرب افقی مراد لینا جبکہ وہ لفظ ایک بادشاہ کی بادشاہت کے حال میں آیا ہے اس مشاعرانہ خیال سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ قرآن مجید میں متعدد جگہ لفظ الارض کا خاص ملک پر بلکہ خاص زمین پر اطلاق ہوا ہے۔ جن لوگوں نے مکہ سے ہجرت نہیں کی تھی اور وہیں کافر مرے ان سے فرشتے پوچھیں گے فلم کنتم یعنی تم کس حال میں تھے وہ کہیں گے مستضعفین فی الارض یعنی ہم لاچار تھے زمین میں یعنی مکہ میں لاچار و مغلوب تھے فرشتے کہیں گے الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھا جروافیھا یعنی کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی تاکہ تم اس میں ہجرت کرجاتے۔
یہ تو ایک مثال ہے بیسیوں جگہ قرآن مجید میں الارض کا لفظ خاص ملک پر اطلاق ہوا ہے پس مکنا لہ فی الارض سے صاف مراد یہ ہے کہ ہم نے اس کو ایک ملک پر بادشاہت دی تھی۔
سلطنت چین کی ایک بہت وسیع سلطنت تھی تبت اور تمام ملک جو اس کے قریب واقع تھے جیسے برہما انام سیام و ملایا سب اس میں شامل اور فغفور چین کے باجگزار تھے۔ چین کی تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ چوسی انگ فغفور کے وقت میں اکثر صوبے اور باجگزار ملک باغی ہوگئے تھے ای چن جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس نے بعض کو شکست دی مگر کل ملک پر تسلط نہ کرسکا۔
چی وانگ ٹی جو کہ بانی سد کا ہے جب بادشاہ ہوا اور اس کا پہلا قرن یا پہلا زمانہ سازو سامان اور اسباب قوت اور سطوت سلطنت کے جمع کرنے کا ختم ہوگیا اور اس کی سلطنت کا دوسرا قرن یا دوسرا زمانہ شروع ہوا تو اس نے ملک میں فتوحات شروع کیں۔
خدا نے فرمایا حتی اذابلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمئۃ ووجد عندھا قوما یعنی جب وہ وہاں تک پہنچا جہاں آفتاب ڈوبتا ہے تو اس کو پایا کہ وہ ایک گدلے پانی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے اور وہاں اس نے ایک قوم کو پایا۔
مغرب الشمس کے یہ معنی لینے کہ جس جگہ آفتاب ڈوبتا ہے کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتے کیونکہ آفتاب کہیں نہیں ڈوبتا مگر آدمی ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کو آفتاب غروب ہوتا معلوم ہوتا ہے۔
امام رازی صاحب نے بھی اس امر پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ دلیل سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ زمین گول ہے اور آسمان اس پر محیط ہے اور کچھ شک نہیں کہ آفتاب آسمان میں ہے اور یہ بھی خدا نے کہا ہے کہ اس کے پاس اس نے قوم کو پایا اور یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی قوم آفتاب کے پاس موجود نہیں ہے اور یہ بات بھی ہے کہ آفتاب کئی مرتبہ زمین سے بڑا ہے پھر کس طرح اس کا زمین کے چشموں میں سے کسی چشمہ میں ڈوبنا عقل میں آسکتا ہے اور جب یہ بات ثابت ہے تو ہم خدا کے اس قول کی کہ تغرب فی عین حمئۃ کی کئی وجہ سے تاویل کرینگے۔
اول یہ کہ جب ذوالقرنین مغرب میں ایک جگہ پہنچا اور اس کے بعد کوئی معمورہ باقی نہ رہا تو اس نے آفتاب کو پایا کہ گویا وہ پانی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے گو کہ درحقیقت ایسا نہ ہو جس طرح کہ سمندر میں سفر کرنے والا جبکہ اس کو کنارہ نہ دکھائی دیتا ہو آفتاب کو دیکھتا ہے کہ سمندر میں ڈوبتا ہے حالانکہ وہ سمندر سے بہت دور ڈوبتا ہے یہ وہ تاویل ہے جس کو ابوعلی الجبائی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔
دوسرے یہ کہ زمین کی جانب غرب آبادی ہے جو سمندر سے گھری ہوئی ہے تو دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ آفتاب اس سمندر میں ڈوبتا ہے۔
تیسرے یہ کہ اہل اخبار یعنی روایتوں کو تسلیم کرنے والے کہتے ہیں کہ آفتاب گرم پانی کے چشمہ میں جس میں نہایت گرم اور بہت زیادہ پانی ہے ڈوبتا ہے یہ قول نہایت بعید ہے اس لیے کہ جب ہم کسوف قمری کو رصد کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کے رہنے والے کہتے ہیں کہ کسوف شام کے وقت ہوا ہے اور مشرق کے رہنے والے کہتے ہیں کہ صبح کے وقت ہوا ہے پس ہم نے جانا کہ مغرب کے رہنے والوں کی جو شام ہے مشرق کے رہنے والوں کے لیے وہ دوسرے دن کی صبح ہے بلکہ جو شام کا وقت ہمارے لیے ہے وہ کسی دوسرے شہر میں عصر کا وقت ہے اور ظہر کا وقت ہے دوسرے شہر میں اور چاشت کا وقت ہے کسی تیسرے شہر میں اور صبح کا وقت ہے کسی چوتھے شہر میں اور آدھی رات ہے کسی پانچویں شہر میں اور جبکہ بعد تجربہ اور استقرا کے یہ حال معلوم ہے اور اس پر اعتبار ہے اور ہم نے جان لیا کہ آفتاب ان تمام وقتوں میں نکلا ہوا رہتا ہے تو یہ کہنا کہ وہ دلدل میں ڈوب جاتا ہے ایسا کلام ہے جو خلاف یقین کے ہے اور خدا کا کلام اس تہمت سے پاک ہے بس اب کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم وہ تاویل کریں جو ہم نے بیان کی۔
اب امام صاحب کی اس تقریر پر غور کرو تو نتیجہ اس کا وہی ہے جو مختصر لفظوں میں ہم نے بیان کیا ہے کہ مغرب الشمس سے ایسی جگہ مراد ہے جہاں سے آدمی کو آفتاب ڈوبتا ہوا معلوم ہو جیسے سمندر میں سفر کرنے والے کو یا سمندر کے مشرقی کنارہ پر کھڑے رہنے والے کو سمندر میں آفتاب ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
اب ملک کے جغرافیہ پر نظر کرو جب یہ بادشاہ فتوحات کرتا ہوا برہما اور ملایا کے کنارہ پر پہنچا تو اس کے جانب غرب خلیج آف بنگالہ تھا تو اس نے وہاں ملایا قوم کو پایا اور آفتاب کو فی عین حمئۃ یعنی خلیج بنگالہ میں ڈوبتا ہوا دیکھا ۔ سمندر کا پانی خود میلا اور کیچڑ سا دکھائی دیتا ہے اور سورج کے غروب ہوتے وقت اس کی شعاعوں سے اس پر سرخی جھلکتی ہے اور اسی واسطے اس کو عین حمئۃ سے تشبیہ دی ہے۔
پھر خدا نے کہا ” فلنا یاذالقرنین اما ان تعذب واما ان تتخذ فیھم حسنا قال امامن ظلم فسوف نعذبہ ثم یردالی ربہ فیعذب عذابا نکراو امامن امن و عمل صالحا فلہ جزاء الحسنے وسنقول لہ من امرنا یسرا “۔
یعنی ہم نے کہا اے ذوالقرنین (اس قوم کو جو یہاں ملی ہے غالباً ملایا کے لوگوں کو) یا تو عذاب دے (یعنی سزا دے) یا ان پر احسان رکھ (یعنی معاف کر) اس نے کہا جس کسی نے زیادتی کی ہے اس کو ہم عذاب یعنی سزا دینگے پھر پلٹا دیا جاویگا اپنے پروردگار کے پاس (یعنی مار ڈالا جاویگا) پھر وہ اس کو عذاب دے گا عذاب سخت اور جو کوئی ایمان لایا (یعنی فرمان برداری کی) اور اچھا کام کیا تو اس کے لیے اچھا بدلہ ہے اور میں کہونگا (یعنی حکم دونگا) اس کے لیے اپنے معاملات میں سہولیت کا۔
یہ بیان اس بادشاہ کے سلوک کا ہے جو اس نے اپنی مفتوحہ قوم کے ساتھ کیا قلنا یا ذالقرنین سے یہ سمجھنا کہ خدا نے اس بادشاہ سے کلام کیا تھا صحیح نہیں ہے قرآن مجید میں ایسے مقاموں پر قلنا کا لفظ بمعنی شئنا کے آتا ہے۔ جیسے کہ خدا نے ان یہودیوں کی نسبت جنہوں نے سبت کے دن زیادتی کی تھی فرمایا ہے قلنا لھم کو نواقرد ۃ خسئین اسی طرح اس کے جواب میں قال کا لفظ آیا ہے پس اس طرح کا استعمال نہ نبوت کی نشانی ہے اور نہ خدا کے ساتھ سوال و جواب ہونے کی دلیل ہے بلکہ جو سلوک کہ اس فتحمند بادشاہ نے اس حدمفتوح قوم کے ساتھ کیا اس کا بیان ہے۔
مذکورہ بالا بیان سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اس بادشاہ پر دوزمانے ایسے گزرے جن کا اشارہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور یہ نہایت قوی قرینہ ہے کہ ان ہی مختلف دو زمانوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت ذوالقرنین کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اس فتح کے بعد اس نے مشرق کی طرف حملہ شروع کیا اور اس ملک کے مشرقی کنارہ پر پہنچا چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ” ثم اتبع سببا حتی اذابلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم من دونھا سترا کذلک وقد احطنا بما لدیہ خبرا “۔
یعنی پھر اس نے سفر کا سامان کیا یہاں تک کہ جب وہ پہنچا جہاں آفتاب نکلتا ہے تو اس نے ایسی قوم پر اس کو نکلتا ہوا پایا کہ ہم نے ان کے لیے آفتاب کے ورے کوئی اوٹ نہیں رکھی یہ حال اس جگہ کا تھا اور بیشک ہم نے جان لیا تھا جو کچھ اس کے پاس وہاں کی خبر پہنچی تھی۔
وقد احطنا بما لدیہ خبرا کی نسبت ابن عباس کی تفسیر میں لکھا ہے قداعلمنا بما کان عندہ من الخبر والبیان اسی کے مطابق ہم نے بھی ترجمہ کیا ہے جو معنی ہم نے ابھی مغرب الشمس کے بیان کئے ہیں وہی معنی مطلع الشمس کے ہیں یعنی وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں اس کو آفتا نکلتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔
یہ حال مملکت چین کے شرقی کنارہ کا ہے جو بہت بڑے سمندر سے گھرا ہوا ہے جب آفتاب نکلتا ہے اس کنارہ کے رہنے والوں میں اور آفتاب کو نکلتا ہوا دکھائی دینے میں کوئی چیز حائل نہیں ہوتی سمندر کے پانی کی صاف سطح ہوتی ہے اور آفتاب کا نکلنا بغیر کسی حجاب کے ان ہی لوگوں پر ہوتا ہے۔
اس طرف کے ملک کے لوگوں کو زیر کرنے کے بعد اس بادشاہ نے پھر سامان درست کیا چنانچہ خدا فرماتا ہے ثم اتبع سببا حتی اذابلغ بین السدین وجد من دونھما قوما لا یکادون یفھون قولا۔
یعنی پھر اس نے سامان سفر کیا یہاں تک کہ جب وہ پہنچا دوسدون یعنی دو پہاڑوں میں تو اس نے ان کے ورے ایک قوم کو پایا کہ بمشکل ان کی بات سمجھتے تھے۔
یہ مقام مملکت چین کے شمالی حد پر ہے اور جس قوم کا ذکر ہے وہ تاتاری اور قدیم ستہیا کی رہنے والی تھی جو غار نگری اور لوٹیرے پن میں مشاق اور لوٹ مار کے عادی تھے ان کی زبان چین کے رہنے والوں سے مختلف تھی۔
جب وہ بادشاہ اس مقام پر پہنچا تو لوگوں نے کہا جو قرآن مجید میں مذکور ہے چنانچہ خدا فرماتا ہے ” قالوا یاذالقرنین ان یاجوج و ماجوج مفسدوں فی الارض فھل نجعل لک خرجا علے ان تجعل بیننا وبینھم سدا قال ما مکنی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوۃ اجعل بینکم و بینھم ردما “۔
یعنی ان لوگوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین بیشک یاجوج و ماجوج فساد کرنے والے ہیں زمین یعنی ملک میں پھر کیا ہم تیرے لیے کوئی محصول (یعنی ٹیکس یا باہمہ) مقرر کریں اس بات پر کہ تو بنادی ہم میں اور ان میں سید (یعنی فصیل یا دیوار یعنی ایسی روک کہ وہ ہمارے ملک میں نہ آسکیں) اس بادشاہ نے کہا کہ خدا نے جو مقدور مجھ کو دیا ہے وہ بہت اچھا ہے (یعنی کافی ہے محصول لگا روپیہ لینے کی ضرورت نہیں) پھر تم میری مدد کرو محنت کرنے سے میں بنادونگا تمہارے اور ان کے بیچ میں مضبوط دیوار۔
پہلی بات اس آیت میں جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ قالوا یاذ ا القرنین کس کا قول ہے مفسروں کا یہ خیال ہے کہ یہ اسی قوم کا قول ہے جو اس جگہ ملی تھی اور جس کی نسبت کہا گیا ہے لا یکادون یفقھون قولا مگر یہ خیال ہرگز صحیح نہیں یہ قول ان لوگوں کا ہے جو سرحد چین کے اندر اور فغفور کے ملک میں رہتے تھے اور اسی قوم کی لوٹ مار کے بچنے سے جس کی نسبت کہا گیا ہے لایکادون یفقھون قولا دیوار بنوانا چاہتے تھے ۔
دوسری چیز جو اس بادشاہ نے علاوہ محنت کے ان سے چاہی وہ لوہا تھا چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اتولی زبر الحدید۔ حتیٰ اذا شاوے بین الصدفین قال النفخوا حتی اذا جعلہ نارا قال اتولی افرغ علیہ قطرا۔ یعنی لادو مجھ کو لوہے کے ٹکڑے ۔ یہاں تک کہ جب وہ دونوں پہاڑوں میں برابر کرچکا تو کہا دھونکو یہاں تک کہ جب اس لوہے کو آگ یعنی لال کردیا تو اس نے کہا مجھ کو لادو میں اس پر ڈال دوں پگھلی ہوئی دہات یعنی تانبا یا پیتل یا سیسہ۔
اسی کے ساتھ یاجوج اور ماجوج کا تاریخانہ طور سے حال بیان کرنا چاہیے نہ قصہ اور کہانی کے طریقہ پر اور قرآن مجید کے الفاظ کے سید ہے اور صاف معنی لینے چاہئیں نہ پیچیدہ اور دوراز کار چنانچہ اب ہم اس واقعہ کے بیان کرنے میں اسی طریقہ کی پیروی کرینگے۔
یاجوج وماجوج
ہمارے بعض علما نے یاجوج و ماجوج کو عربی زبان کا لفظ بنانا چاہا ہے۔
کسائی کا قول ہے کہ یاجوج ۔ ناجج النار سے نکلا ہے جس کے معنی شعلہ کے ٹھہرنے کے ہیں اور ماجوج ۔ موج البحر سے نکلا ہے جو کہ وہ قوم چلنے اور دوڑمارنی میں بہت تیز اور سریع الحرکت تھی اس لیے اس نام سے موسوم ہوئی بعضوں نے کہا ناجج الملح سے نکلے ہیں جس کے معنی نمک کی نمکینی کی شدید تیزی کے ہیں۔
قسیبی کا قول ہے کہ اج الظلیم سے نکلا ہے جس کے معنی دوڑ کر چلنے کے ہیں۔
خلیل کا قول ہے کہ آج مسور کی مانند دانہ ہوتا ہے اور مجرالریق بھی عرب میں بولا جاتا ہے پس یاجوج وماجوج ان لفظوں سے مشتق ہوئے ہیں۔
مگر یہ سب قول غلط ہیں صحیح قول یہ ہے جس کو تفسیر کبیر میں بھی نقل کیا ہے کہ انھما اسمان اعجمیان موضوعان بدلیل منع الصرف۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ دونوں لفظ عجمی زبان کے ہیں توراۃ کتاب پیدائش باب دہم آیت دوم میں یافث کے ایک بیٹے کا نام آیا ہے ماغوغ عبری زبان میں غین کا تلفظ گا ف کی آواز سے ہوتا ہے پس ماغوغ بولا جاتا ہے ما گوگ عربی میں گا ف کو جیم سے بدل لیتے ہیں اس لیے ماگوگ کا ماجوج ہوگیا بیبل کا عربی ترجمہ جو پوپ کے حکم سے ہوا اور - ء میں چھپا اس میں بھی ماغوغ کو ماجوج عربی میں لکھا ہے۔
یورپ کی زبانوں میں واو کا تلفظ ایسی آواز سے ہوتا ہے جو آواز مابین آواز حرف الف اور حرف واؤ یا واؤ منقلب بالف ہوا س وجہ سے جب توراۃ کا ترجمہ یونانی زبان میں ہوا تو ماغوغ کا تلفظ ماگوگ یا میگاگ لکھا گیا اور میگاگ کی نسل یعنی اس کا جو میگاگ سے نکلی گوگ یا گاگ نام ہوا اور پھر اس ملک پر بھی حبان وہ آباد تھی گاگ کا استعمال ہونے لگا۔ مگر استعمال میں یہ دونوں لفظ ساتھ ساتھ بولے جاتے تھے جیسے گاگ میگاگ اور ایک کا دوسرے پر بھی اطلاق ہوتا تھا عربی زبان میں بجائے گاگ میگاگ کے یا جوج ماجوج کا استعمال ہوا پس یہ دونوں لفظ عجمیہ ہیں اور بطور علم کے مستعمل ہوتے ہیں اور اسی لیے عربی زبان میں غیر منصرف مستعمل ہوتے ہیں۔
کتاب خرقیل نبی باب درس میں گوگ کا لفظ قوم پر اور ماگوگ کا لفظ ملک پر بولا گیا ہے۔
بعض مسلمان مورخوں نے لکھا ہے کہ یاجوج وماجوج نہایت قلیل الجثہ اور صغیر القامۃ ہیں یعنی صرف بالشت بہر کا ان کا قد ہے یعنی بالشتی ہیں اور بعضوں نے کہا کہ نہایت قوی الجثہ اور طویل القامت ہیں ان کے ناخن اور دانٹ ڈاڑہ درندہ جانوروں کے مانند ہیں وہ آدمیوں کو مار کر ان کا کچا گوشت کھا جاتے تھے اور کھیتی پکنے کے موسم میں نکل کر تمام کھیتوں کو چٹ کر جاتے تھے یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ان کے کان اتنے بڑے ہیں کہ ایک کو بچھا کر اور ایک کو اوڑھ کر سو رہتے ہیں۔
مگر یہ سب کہانیاں جھوٹ اور محض بےاصل ہیں وہ لوگ تاتاری ترک ہیں ہمارے علماء نے بھی لکھا ہے اور تفسیر کبیر میں بھی اس قول کو نقل کیا ہے کہ قیل انھما من الترک یہ قوم اب تک موجود ہے اور تمام ملک تاتار اور چینی تاتار میں آباد ہے۔
مگر جب میں نے یہ بیان کیا ہے کہ یاجوج و ماجوج ۔ گاگ۔ میگاگ سے معرب ہوگیا ہے اور ان میں سے ایک کو قوم کا اور ایک کو ملک کا نام بتایا ہے تو یاجوج و ماجوج کو دو شخص سمجھنا جیسے کہ ہمارے مورخوں اور مفسروں نے سمجھا ہے صحیح نہیں ہوگا بلکہ ان سے وہی مطلب سمجھا جاویگا جو یاجوج اور ماجوج سے سمجھا جاتا ہے۔ جو ملک کہ اب بھی تبت کے شمال میں واقع ہے
اور جو قدیم زمانہ میں سنہیا اور تاتار کہلاتا تھا اور حال کے نقشوں میں چینی ترکستان کے نام سے لکھا جاتا ہے اس قوم کے رہنے کی جگہ تھی اور تاتاری ان ہی کی نسل سے ہیں بہت سے لوگوں نے تاتاریوں کو دیکھا ہوگا وہ مثل عام انسانوں کے ہیں ان میں کوئی بھی عجیب بات نہیں ہے البتہ کہوسی ہوتے ہیں۔
سیدیا گریٹ وال
کچھ شبہ نہیں ہے کہ جس سدکاذکر قرآن مجید میں ہے وہ وہی دیوار ہے جو چشن اور تاتار یا ستہیا کی سرحد پر بنائی گئی ہے اور جس کو چی وانگ ٹی فغفورچین نے درمیان قبل مسیح میں بنایا تھا۔
یہ دیوار ھانگ ھود ریا کی غربی موڑ سے جو ایک پہاڑ کے قریب درجہ دقیقہ عرض بلد اور درجہ طول بلد پر واقع ہے بنانی شروع ہوئی اور پھر اس دریا کے دوسرے موڑ کو قریباً درجہ عرض بلد اور درجہ طول بلد پر کاٹ کر اور خنجان پہاڑوں کے جنوبی سلسلہ کے نیچے ہو کر خلیج لیوٹونگ کے کنارہ پر ٹھیک چالیس درجہ عرض بلد اور ایک سو بیس درجہ طول بلد پر ختم ہوئی ہے طول اس دیوار کا بارہ سو سے پندرہ سو میل کا بیان ہوا ہے۔
حال سلطنت چیوانگ ٹی
چین کی تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فغفور ای چن کے مرنے کے بعد تیرہ برس کی عمر میں چی وانگ ٹی قبل مسیح میں تخت پر بیٹھا اور لی زی نامی ایک عاقل شخص کو اپنا وزیر مقرر کیا ۔
اس کی سلطنت روزمانون پر منقسم ہوتی ہے پہلا زمانہ وہ ہے جبکہ اس بادشاہ نے اپنی تمام ہمت روپیہ جمع کرنے اور ہر قسم کا سامان اکٹھا کرنے میں صرف کی اور دوسرا زمانہ وہ ہے جبکہ اس نے ہر قسم کا سامان جمع کرنے کے بعد ملک گیری اور فتوحات نمایاں حاصل کیں۔ اس کی اس حالت کا صاف اشارہ قرآن مجید سے پایا جاتا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے انا مکنا لہ فی الارض و اتیناہ من کل شیء سببا فاتبع سببا۔
یعنی ہم نے دی اس کو قدرت زمین میں اور ہم نے دیا اس کو ہر چیز کا سامان پھر وہ درپے ہوا سامان کے یعنی سامان جمع کرنے کے۔ یہ فقرہ قرآن مجید کا اور خصوصاً الفاظ فاتبع سببا بالکل اس بادشاہ کے پہلے قرن یا زمانہ کی ہسٹری بتاتے ہیں۔
مکنا کے لفظ سے اور من سجل شیء کے لفظ سے قدرت فی الدین سمجھنا اور پھر قدرت فی الدین کو نبوت قرار دینا اور اس بادشاہ کی نسبت پر بحث کرنا کہ وہ نبی تھا اور پھر اس کے نبی ہونے کو ترجیح دینا ایسے دو راز کار خیالات ہیں جن کا ذرا بھی اشارہ قرآن مجید سے نہیں پایا جاتا اور جو شاعرانہ خیالات سے بھی بڑے ہوئے ہیں
یہ آیتیں نہایت صاف ہیں مگر مفسرین نے ان کو عجیب طرح پر بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں جو لفظ زبر الحدید آیا ہے اس کے معنی لوہے کی تختی یا لوہے کی اینٹیں قرار دیئے ہیں اور پہر یہ قرار دیا ہے کہ ان لوہے کی اینٹوں کو اوپر تلے رکھ کر بطور دیوار کے چنا اور اس کو پہاڑ کی چوٹی تک اونچا کردیا اور جب وہ پوری ہوگئی جس کی لمبائی پندرہ سو میل کے قریب تھی تو آگ جلا کر اس دیوار کو آگ کے مانند کردیا یعنی جیسے لوہا آگ میں جلانے سے لال مثل آگ کے ہوجاتا ہے اس طرح ساری دیوار مثل آگ کے ہوگئی۔ پھر اس دیوار پر پگھلا ہوا تانبا ڈالا اور وہ درزون میں بیٹھ کر جم گیا اور سب مل کر لوہے کی ایک ڈال دیوار یا ایک ڈال مثل لوہے کے پہاڑ کے ہوگئی۔
یہ تفسیر ایسی ہے جو نہ عقل میں آسکتی ہے اور نہ قرآن مجید کی آیتوں میں اس خارج از عقل کارستانی کا اشارہ پایا جاتا ہے کسی طرح قرآن مجید سے نہیں پایا جاتا ہے کہ وہ دیوار لوہے کی اینٹوں سے چنی گئی تھی لوہا بلاشبہ دیوار کے بنانے میں کام میں لانے کو منگوایا گیا تھا مگر یہ بات کہ اس لوہے سے دیوار چنی گئی تھی ہرگز قرآن مجید میں نہ مذکور ہے نہ اس کی طرف اشارہ ہے۔
یہ دیوار جو سد کے نام سے مشہور ہے پہاڑی ملک میں بنائی گئی تھی اور کچھ شبہ نہیں کہ پتھروں کی چٹانوں سے بنائی تھی مگر پتھروں کی چٹانوں کے مضبوط کرنے اور ایک کو دوسرے سے جوڑنے کو لوہادرکار تھا اس کی نسبت اس بادشاہ نے کہا کہ لوہے کے ٹکڑے مجھ کو لاکردو۔
اس دیوار کو بنے اکیس سوبائیس سو برس گز رے ہوں گے اس زمانہ کی بہت سی عمارتوں کے نشان اور کھنڈر اب بھی موجود ہیں۔ پتھر کی چٹانوں کی دیوار بنانے کا اور اس کو مضبوط کرنے کا کہ کوئی پتھر دیوار میں سے نکالنے سے نہ نکل سکے یہ دستور ہے کہ دو چٹانوں کو برابر کہہ کر دونوں کے سروں کے پاس سوراخ کرتے ہیں اور ان میں لوہے کے پاؤں لگاتے ہیں تاکہ ایک دوسرے سے جڑ جاوے اور نکالنے سے نکل نہ سکے اور اس لوہے کے پاؤں کو جس کا ایک سرا ایک چٹاں کے چھید میں اور دوسرا سرا دوسری چٹاں کے چھید میں رہتا ہے آگ سے لال کرکے ان چھیدوں میں لگاتے ہیں اور کوئی پگھلی ہوئی دہات ان چھیدوں میں ڈال دیتے ہیں تاکہ پاؤں کے سرے چھیدوں میں جم جاویں اور پتھر نکلنے نہ پاویں اور کسی طرح بغیر دیوار کے منہدم کئے نہ دیوار میں چھید ہوسکے اور نہ کوئی پتھر ٹل سکے۔
قرآن مجید کے ان لفظوں کا کہ حتی اذا ساوری بین الصدفین یہ معنی سمجھتے کہ جب وہ دیوار دونوں پہاڑوں کی چوٹیوں کے برابر اونچی ہوگئی تھی صحیح نہیں ہے بلکہ ساوی بین الصدفین کا اطلاق دونوں پہاڑوں میں دیوار کی بنیاد کے برابر کرنے پر صادق آتا ہے اور بنیاد کو برابر کرکے اس پر وہ لگایا جاتا ہے۔ پس قرآن مجید کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اس نے دونوں پہاڑوں کے بیچ میں دیوار کو برابر یعنی موافق محاورہ عمارت لیول میں یعنی پنسال میں کیا اور اس پر جو ردہ لگایا تھا اس میں لوہے کے پاؤں لگانی کی غرض سے کہا کہ لوہے کو پھونکو اور جب وہ مثل آگ کے لال ہوجاوے اس کو لگاؤ اور اس پر پگھلی ہوئی دہاٹ ڈال دو پس یہ دیوار اسی طرح پر بنی ہے جس طرح عموماً اس قسم کی دیواریں بنتی ہیں۔ عجیب بات اس میں جو ہے وہ یہی ہے کہ پندرہ سو میل کے قریب لمبی ہے اور پہاڑوں میں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور میدانوں میں اور دریاؤں پر برابر بنتی چلی گئی ہے۔
اس دیوار کی مضبوطی ظاہر کرنے کو خدا نے فرمایا فما اسطاعوا ان یظھروہ وما استطاعوالہ نقبا قال ھذا رحمۃ من ربی فاذا جاء وعدربی جعلہ دکا وکان وعد رابی حقا۔
یعنی پھر قوم یاجوج و ماجوج اوس پر چڑھ نہ سکی اور نہ اس میں نقب لگا سکی اس بادشاہ نے کہا کہ دیوار ایک رحمت ہی میرے پروردگار کی پھر جب میرے پروردگار کا وعدہ آویگا تو اس کو ریزے ریزے کردیگا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔
ان آیتوں کی نسبت مفسرین نے محض یب سند اور افواہی کہانی آمیز روایتوں سے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یا جوج و ماجوج اس دیوار کے توڑنے کے درپے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں روپیہ برابر سوراخ کرچکے تھے جب حضرت عیسیٰ آسمان پر سے اترینگے اس وقت وہ اس کو توڑ کر نکلیں گے گویا یہ وعدہ ہے خدا کا جو اس آیت میں مذکور ہے اور جب وہ نکلیں گے تو تمام دنیا کو لڑائی سے عاجز کردیں گے آسمان پر تیر چلادینگے وہ لہو بہری آوینگے آخر کو حضرت عیسیٰ کی بددعا سے سب مرجاوینگے۔
یہ محض بےاصل کہانیاں ہیں اب اس زمانہ میں تمام تاتاپر جو یاجوج وماجوج کی قوم ہے چینیوں کی عملداری ہے جو چینی ترکستان کے نام سے موسوم ہے۔ یاجوج وماجوج یعنی تاتاری تمام دنیا میں پڑے پڑتے ہیں نہ کسی کے کان بڑے ہیں اور نہ کسی کا گوشت کھاتے ہیں خاصے بھلے چنگے آدمی ہیں۔
جس طرح کہ خدا تعالیٰ جا بجا فرماتا ہے کہ اخیر کو تمام چیزیں فنا ہوجاوینگی اسی طرح اس دیوار کی نسبت بھی فرمایا ہے جیسے کہ زمین کی نسبت فرمایا کلا اذا دکت الارض دکا دکا وجاء ربک والملک صفا صفا۔
مسٹر جمس کا رکرن نے ایک چینی تاریخ کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اس تاریخ میں اس بادشاہ اور اس دیوار کی نسبت جو کچھ لکھا ہے اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔
تاریخ چین جمس کا رکرن
ای چن کے بعد چی وانگ ٹی فغفور ہوا اور اکثر ختائی مورخوں کی روایت ہے کہ وہ ای چن کے نطفے سے نہ تھا کیونکہ اس کی مان جب ایک مرد سوداگر سے حاملہ ہوچکی تھی تب اس نے فغفور کے ہاتھ اس عورت کو سچا تھا اور اس شخص نے یہ حرکت اس امید سے کی تاکہ تمنا دل کی پوری ہو وے اور اپنی اولاد کو تخت پر دیکھے اگرچہ یہ امر بعید القیاس نہیں ہے لیکن شبہ اس نقل کی راستی پر اسی جہت سے ہوتا ہے کہ علمائے ختا بسبب ایک سانحے کے جو ذیل میں مذکور ہے اس کے نام پر ہزارہا لعنتیں کرتے ہیں اور یہ فقرہ اس کے حرام زادے ہونے کا تو ہیں کے قصد سے انھوں نے تیار کیا ہے غرض یہ تحقیق ہے کہ سودا گرنے فغفوارے چن سے یہ دوستی بڑھائی اور اپنی لیاقت اس طرح اس کے نزدیک ظاہر کی کہ ای چن نے خدمت وزیر اعظم کی اسے دی خیر جب فغفور نے انتقال کیا دہی لڑکا تیرہ برس کی عمر میں گدی پر جلوہ بخش ہوا اور ایسے بہادر اور مدبرفغفور گنتی کے دو تین ہی ہوئی ہیں اور ایسا ایسا کام اس نے کیا کہ نام اس کا قیامت تک رہ جائے گا ۔
اعیان دولت سے ایک شخص بنام لی زی غیر ملکی تھا یعنی وطن اس کا ریاست فغفور سے باہر دوسرے ایک سلطان کی حد میں واقع تھا جب فرمان اس مضمون کا نکلا کہ جتنے غیر ملکی اس سرکار کی ریاست میں آئے ہیں سب اپنے اپنے وطن کو چلے جاویں تب اس لیے زی بےایسی ایک عرضی حضور میں گزرانی اور ریاست میں اغیار کے رہنے سے جو فائدے متصور تھے۔
سب کو اس خوبی اور فضاحت کے ساتھ اس نے بیان کئے کہ فغفور نے اپنے حکم کو دوسرے ہی روز منسوخ کیا اور لی زی کو وزیراعظم بنایا اور اسی کی صلاح سے بادشاہ نے تمام سلاطین کو سر کیا اور شہنشاہ ختا اصل حقیقت میں ہوا۔ اس کی صورت اس طور سے ہوئی کہ پہلے کئی برس تک فغفور نے اپنی اخراجات کو حداعتدال پر رکھا لڑائی ٹھہرائی سے وہ باز رہا اور خزانہ کو خوب ہی معمور کیا جب دولت بامراد حاصل ہوئی فغفور نے زرپاشی شروع کی اور سلاطین میں زر کے وسیلہ سے بگاڑ ڈالوادیا اور جب ایک دوسرے سے لڑکر قریب تباہی کے پہنچا اور اس کا حریف بھی علیٰ ہذا القیاس ضعیف ہوا تب فغفور نے کوئی بہانہ کرکے دونوں سے یا ایک سے بگاڑ کیا اور آناً فاناً میں اس کا ملک چھین لیا اور ہی تدبیر سے تمام سلاطین کو اس نے بےتخت و تاج کیا اور ساری ملکت خاص کا مالک ہوا اور شہنشاہ اسی وقت سے کہلایا اور حالانکہ دولت و ملکیت خواہش سے زیادہ ہاتھ آئی تھی اور تبت بزرگ کی حد سے مشرقی سمندر تک اور ملک تاتار سے بحر جنوب تک کی حکمرانی ہوئی لیکن آرام و عیش طلبی مطلق مزاج میں نہ سمائی باوجودیکہ مکانات عالیشان اس نے بہت بنائے اور بیغایت تکلفات سے آراستہ کیا اور باغات میں بھی علی ہذا القیاس سامان بےپایاں عیش و نشاط کا مہیا کردیا اس پر بھی یہ قاعدہ تھا کہ چند آدمی کو لے پوشیدہ جاتا تھا اور احوال دھان کے حکام عدالت اور تحصیل اور محاصل زراعت کا خود دریافت کرتا تھا اور شوق اس کے دل میں یہی تھا کہ مملکت ختا کا سر نو بند و بست کرے اور قدیم فغفوروں کی رویے پر نہ چلے اور اس ارادے سے جب دس توراۃ قدیم سے اندک فرق کرتا تھا علما کا شور اٹھتا تھا کہ فلانی بات یاد اور مثن اور یو کی خلاف حکم کے ہے اس کو کرنا امتناع ہے اور یہ روک ٹوک جب فغفور کو ناگوار گزری لی زی سے اس نے مشورت کی اور وزیر نے تمام کتب قدیم کو جمع کرکے آگ لگا دینے کی صلاح دی اور یہی بات وقوع میں آئی اس سبب سے تاریخ خطا کے اکثر مقامات میں اخلاق واقع ہوا ہے اور بہت سے احوال کو مورخوں نے فقط یاد سے لکھا ہے اور یہ حرکت خطائی علما اور شعرا کو ایسی بری معلوم ہوئی کہ چی وانگ ٹی اور شیطان میں انھوں نے فرق نہیں کیا اور ولدالزنا ٹھہرانے کے علاوہ ابلیس مجسم کا لقب اس کو دیا ہے حقیقت میں ان کی ہجوبے سبب نہیں تھی کیونکہ ایک تو کتب قدیم کے نقصان کرنے اور سب فاضلوں کے گر سے کتاب جبرا منگوا کے جلا دینے کی حرکت اس نے کی ہی تھی علاوہ اس کے چار سو ساٹھ علمائے کو اسی قصور پر اس نے جیتا گڑوا دیا کہ اپنے اپنے کتف خانی کو بادشاہ کے پیادوں کے حوالہ انھوں نے نہیں کیا تھا سوائے اس کے ان سے خوف فغفور کو یہ تھا کہ اگر زندہ رہینگے تو حافظے سے ان کتابوں کو پھر لکھیں گے اور ہم کو عاجز کردینگے غرض طیش میں اکرچی وانگ ٹی نے یہ خون ناحق کیا اور بےرحم اور سنگدل اور خونخوار بجا کہلایا لیکن ان عیبوں کے ساتھ اتنا تھا کہ خطا میں اگر پانچ چار فغفور متواتر اسی طرح کے ہوتے تو واللہ اعلم کیا کیا وہ نہ کرتے اور کس کس ملک کو عمل میں نہ لاتے القصہ جب کشت و خون اور لڑائی بھرائی سے فارغ ہوا اور انتظام ملک کا ترود کرچکا ہمیشہ جینے اور باقی رہنے کی ہوس اس کے دل میں از بس پیدا ہوئی اور اس خیال باطل کو خوشامد یون نے ترقی دی آخر الا مرچند نوجوان مرد اور عورتوں کو اس مشرقی سمند کی طرف روانہ کیا اس لیے کہ سن چکا تھا کہ اور دہر کے جزیروں میں ایک جزیرہ ایسا تھا کہ وہاں کے چشمے کا پانی جس نے پیا مرگ اس کے نزدیک نہیں آئی غرض وہ لوگ گئے اور پھر آئے اور ان کا بیان یہ تھا کہ مشرقی سمندر میں طوفان نے آگے بڑھنے نہ دیا لیکن ایک مردک کا جہاز چونکہ طوفان میں بحر سے الگ ہوگیا تھا اس نے چندے بعد آنکر یہ فقرہ سنایا کہ منزل مقصود تک پہنچا تھا لیکن چشمہ اس ایام میں جاری نہ تھا غرض اس کے ہاتھ ایک کتاب آئی تھی جس میں یہ بات اس نے لکھی پائی کہ چین کا گھرانا اس خاندان کے ہاتھ سے تباہ ہو ویگا جس کا نام ھو کے لفظ ہے شروع ہے اس واہیات بات کے اعتبار پر فغفور فوراً جنگ کا سامان تیار کیا اور چونکہ ایک قوم تاتار کا نام ھوانگ نو تھا اور پہلے حروف ہو تھے دفعتاً ان کے ملک پر چڑھ گیا اور چونکہ اچانک جا پہنچا اور سب کو بےفکر پایا اس سبب سے ان کو پائمال کیا والا اگر پیشتر سے خبران کو ملتی تو شاید شکست نہ ہوتی بلکہ غالب ہے کہ وہ تاتار خونخوار سب فغفور کو نہایت تنگ کرتے کیونکہ وے بڑے جنگی اور صحرا کے رہنے والے تھے اور لوٹ تاراج سے ان کی اوقات اور شکار پر ان کی گزران تھی اور ہر وقت گھوڑوں پر سوار ہاتھ میں تیر کمان تلوار لیے خونخوار بنے رہتے تھے اگرچہ وہ بھی قوم خطا سے تھے چنانچہ بعض مورخ کہتے ہیں کہ شہزادہ چن کوئی خاندان ھیا کے تباہ ہونے سے صحرا سے تاتار میں جا چھپا تھا اور بعض کا بیان ہے کہ اسی ھیا یعنی یو کے گھرانے کا وہ شہزادہ باپ سے روٹھ کر صحرا میں چند آدمیوں کو لیے چلا گیا تھا وہی جدان لوگوں کا تھا لیکن صحرا کی آب وہوا کی خاصیت اور قنات کے نیچے بودوپاش کرنے اور کچے گوشت کہا نے اور رات دن کمر بند ہے رہنے کی عادتوں نے ان کو ایسا مضبوط بنایا تھا کہ شہری خطائیوں سے اور ان سے کچھ نسبت باقی نہ رہی اور ان کے گروہ ایک دوسری قوم ہوگئی اور یہی لوگ تھے کہ کسریٰ اور سکندر بھی ان کے بہادری اور مضبوطی اور سپہ گری کے قائل ہوئے اور ان سے باج نہ لے سکی اور اسی قوم کے پہلوانوں سے رستم اور اسفند یار کا مقابلہ ہوا اور افراسیاب یہی تاتاری ہی تھا یہ لوگ تیراندازی اور تلوار کے دہنی تھے اور ان کے گھوڑے بجلی تھے اور ان سے جب کسی سے بگڑتی تھی دشمنوں کو لاکھوں گھوڑوں کی ٹاپوں سے رونڈدالتے تھے اور غنیم پر دفعتاً ایسے جاپڑتے تھے کہ ان لوگوں کو حربہ کرنے کی فرصت نہیں ملتی تھی گویا اجل سامنے موجود ہوجاتی تھی اور ان کی رکاوٹ نہ دریا نہ جنگل نہ کوہستان کسی سے ممکن تھی حاصل کلام تاتاری رسالوں میں ہر شخص ایک شہسوار خونخوار تھا اور ان لوگوں نے سینکڑوں تختوں کو الٹ دیا اور جو سامنے پڑا خواہ دشمنی کی راہ سے خواہ لوٹ تار آج سے وہ بچ کے نہیں گیا الغرض چونکہ ان کا حال اسی جلد کی تیسرے دفتر میں طوالت کے ساتھ ہے یہاں پر اتنا ہی بیان کا موقع تھا کہ نتیجہ غفلت کا معلوم ہو وے کہ غافل رہنے سے ایسے تاتار خونخوار بھی مارے پڑے القصہ چی وانگ ٹی باوجود اس شکست دینے کے خوب جانتا تھا کہ یہ قوم موقع پاکر انتقام ضرور لے گی اور تاوقتے کہ بدلہ اور عوض معقول نہ ہو وے اس شکست کی یاد ہمیشہ دل کو صدمہ پہنچائیگی اس سبب سے اس نے دیوار خطا کی بنا کی جس کا تمام احوال عاصی نے جلد اول کے دوسرے دفتر کے چودہویں باب کے چار سے صفحے میں بیان کیا ہے۔
سینتیس برس اس نے سلطنت کی اور اس کے ایام انتقال کو مورخوں نے قبل مسیح قرار دیا ہے
ذکر بنائے دیوار
یہ دیوار قریب آٹھ سو کوس کے لمبی ہے اور سرحد خطا اور تاتار پر واقع ہے اور وجہ اس کی تیاری کی یہ ہوئی کہ جب قوم تاتار نے اس طرف سے باربار یورش کرکے خطائیوں کو سخت عاجز کیا اور کوئی تدبیر ان کو ضبط کرنے کی نہیں سوجھی تب اس دیوار کی بنائی گئی اور فغفور چینگ واٹی نے دو سو چالیس برس قبل حضرت عیسیٰ کے اسے شروع کیا اور عرضہ قلیل یعنی صرف پانچ برس میں یہ تمام ہوئی اور حال اس کا یہ ہے کہ نہ پہاڑ نہ دریا کوئی رمانع اس کی ساخت کا ہوا اور آٹھ سو کوس تک جو موانع سامنے آئے سب کو دفع کرتی ہوئی یہ دیوار اپنی منزل مقصود تک پہنچی ہے اور کئی مقام پر آوہ آوہ کوس کے اونچے پہاڑوں کی چوٹی پر سے یہ دیوار کھینچی ہوئی ہے اور بعض جگہ بڑے بڑے دریا پر پلوں کے اوپر سے بہہ گئی ہے اور زیادہ تکلف یہ ہے کہ سمندر کے بیچ سے شروع اس طرح پر ہوئی ہے کہ صدہا جہاز پتھروں سے لدے ہوئے ڈبادی گئے
اور اس پر اس کی بنیاد قائم ہوئی ہے اور آٹھ سو کوس تک تیس گز اونچی اور اس قدر چوڑی ہے کہ چہہ سوار پہلو بہ پہلو فراغت سے اس پر گھوڑا دوڑا سکتے ہیں اور سو سو قدم پر دو منزلہ اور سہ منزلہ برج بنے ہوئے ہیں اور جب تک کہ تاتاریوں نے اپنی دولت کی بنا خطا میں نہیں ڈالی تھی تب تک ہزاروں توپیں ان پر چڑھی رہتی تھیں اور دس لاکھ فوجوں کی تقسیم تمام برجوں میں تھی غرض جب سے قضائے فلکی سے وہی لوگ جن کی یورش کے سبب سے یہ دیوار بنی تھی خطا کے مالک ہوئے تب سے وہاں کی فوج موقوف ہوئی اور برج اور دیوار بےمرمت رہنے لگی مگر کئی باتیں عجیب و غریب اس دیوار کی ساخت میں ہوئیں کہ خطائیوں کی حکمت اور قدرت اور مستقل مزاجی کی دلیلیں ہیں چنانچہ اول یہ کہ معماری کے سرانجام اور بڑے بڑے تختے پتھروں کے ان لوگوں نے آدھ آدھ کوس کے بلند پہاڑوں پر پہنچائے جہاں چڑھنے کا کوئی سہارا نہیں معلوم ہوتا اور کڑاری کی بلندی ایسی ہے کہ آدمی چڑھائی ناممکن نظر آتی ہے اور دوسری بات تعجب انگیز ہے کہ سمندر میں جہاں تھاہ گم اور جوش و خروش بحر ذخارکا زیادہ ہے وہاں کس طرح سے یہ ڈالی گئی کہ دو ہزار برس سے ہلی نہیں باوجودیکہ خطا کے سمندر میں ایسا طوفان دس بیس دفعہ ہر سال میں آتا ہے کہ صدہا جہاز اور تخمیناً بارہ چودہ ہزار آدمی سالانہ ان ہی طوفانوں میں ہلاک ہوتے ہیں اور زور و شور ہوا کا ایسا ہوتا ہے کہ ایک انگریز ناخدا بہت تجربہ کار اور عقلمند کا باین اس طور پر ہے کہ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ایک ہی جہاز کی گلئی پردس ہزار کرنا اور دس ہزار نقارے دفعتاً بجائے جاتے تو اسی جہاز کی پتوار پر سوا طوفان کے غل اور شور کے ان فرماؤں کی آواز کوئی شخص نہیں سن سکتا الغرض جس سمند میں ہر سال دس بیس مرتبہ یہ قیامت برپا ہو اس میں اس دیوار کا قیام عجائبات سے ہے تیسری بات یہ ہے کہ باء صف یکہ آدھی خلقت سے زیادہ اس کی تیاری میں مطابق فرمان کے ہر وقت حاضر رہتی تھی لیکن پانچ برس کے قلیل عرصہ میں اس دیوار کا تمام ہونا تعجبات سے ہے کیونکہ جب ایک انگریز سیاح نے حساب کیا تو دیکھا کہ اس دیوار کی فقط برجون کی ساخت میں اس قدر اسباب معماری کا صرف ہوا ہے کہ تمام انگلستان کی ہر طرح کی عمارتوں میں جو خرچ ہوا ہے شاید اس کے مقابلہ میں بہت کم نکلے گا اور منصفی شرط ہے کہ تمام دیوار میں کس قدر اسباب صرف ہوا ہوگا اور چوتھی بات حیرت افزا یہ ہے کہ جس ناکے پر یہ کھینچی ہے وہاں سے منزلوں تک نہ بستی نہ انسان کی نشانی تھی اور آٹھ سو کوس تک فقط صحرا اور کوہستان اور جنگل تھا اور وہاں پر اس کارخانہ کے لیے لازم ہوا ہوگا کہ سینکڑوں کوس سے مزدوروں اور کاریگروں کے لیے رسد اور دیوار کے واسطے سر انجام آدمی اور اس وجہ سے مشکلیں دگنی ہوئی ہونگی۔ لیکن خطائیوں کی حکمت اور استقلال اور ثابت قدمی سب موانع پر غالب ہوئی اور ایک نشانی ایسی رہ گئی ہے کہ روئے زمین پر کوئی یادگار انسان کی الوالعزمی کا اس کے مقابلہ میں نہیں ہے بجز اس نہر بزرگ کے جو خطا میں تین سو بیس کوس تک بنائی گئی ہے اور جس کے لیے قبلا خان چنگیز کے پوتے کی عقل اور خطائیوں کے علم اور ثابت قدمی پر لاکھ لاکھ درود بھیجنا مقتضائے انصاف ہے۔ انتہیٰ یہ بات کچھ کم تعجب کی نہیں ہے کہ سکندر کی نسبت بھی کہا گیا ہے کہ جو اس کا باپ مشہور تھا وہ اس کا بیٹا نہ تھا اسی طرح چی وانگ ٹی کی نسبت بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مشہور باپ کا بیٹا نہ تھا۔
سکندر کی نسبت بھی کہا گیا ہے کہ اس نے آب حیات کی تلاش کی تھی اور چی دانگ ٹی کی نسبت بھی آپ حیات کا ڈھونڈنا مذکور ہوا ہے۔
اور اسی لیے شبہ ہوتا ہے کہ چی وانگ ٹی کے حالات کو سکندر کے حالات میں ملا دیا ہے چین ایسا ملک تھا کہ اگلے زمانہ میں بہت کم اس کی تاریخ معلوم ہوتی اور ظاہراً یہی سب ہوا ہے کہ مورخوں اور مفسروں کو سد کا مقام بتانے اور اس کے بنے کے حالات بیان کرنے میں دھوکا پڑا ہے۔
ساتویں آیت میں ہے ”
یا زکریا انا نبشرک بغلم “
اس آیت میں بشارت دینے والا کون ہے۔ سو رہو آل عمران میں صاف بیان ہوا ہے کہ بشارت دینے والا فرشتہ تھا چنانچہ اس میں ہے
فنادتہ الملائکۃ وھو قائم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک بیحیٰ
(ال عمران۔ ) حضرت زکریا جب کہ دعا میں مصروف تھے تو ہاتف غیبی نے آواز دی یعنی حضرت زکریا نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی کہ وہ بیٹا ہونے کی بشارت دیتا ہے۔ ایسے امور کا واقع ہونا فطرت انسانی سے خارج نہیں ہے مگر یہ بات قابل غور ہے کہ اس کے بعد کی آیتوں میں جو لفظ ” قال “ ہے۔ اس میں کہنے والا کون ہے۔ خدا یا فرشتہ ۔ مگر اس کا کہنے والا خدا ہو یا فرشتہ یہ کچھ بحث کے لائق نہیں ہے۔
آٹھویں آیت میں ” لہ “ کی ضمیر حضرت زکریا کی طرف راجع ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ زکریا کی خاندان میں اس سے پہلے کوئی اس نام کا نہیں ہوا۔ تفسیر ابن عباس میں ہے ”
لم نجعل لہ من قبل سمیا ای لم نجعل لزکریا من قبل یحییٰ سمیا والد اسمی یحییٰ
“ بعضی روایتوں میں جو یہ لکھا ہے کہ اس سے پہلے کسی شخص کا نام یحییٰ نہ تھا یہ صحیح نہیں ہے۔
تفسیر کبیر میں یحییٰ نام رکھنے کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت یحییٰ کی ماں (الیشع) حاملہ تھیں حضرت مریم جن کو حضرت عیسیٰ کا حمل تھا ان سے سے ملنے کو آئیں۔ الیشع نے حضرت مریم سے کہا کیا تم حاملہ ہو حضرت مریم نے کہا تم کو کس طرح معلوم ہوا کہ میں حاملہ ہوں۔ الیشع نے کہا کہ جو بچہ میرے پیٹ میں ہے وہ اس بچہ کو جو تمہارے پیٹ میں ہے سجدہ کرتا ہے۔ اس روایت کے موافق حضرت یحییٰ پہلے شخص ہیں جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے اور اس ایمان سے ان کا دل زندہ ہوا۔ اس لیے ان کو یحییٰ کہنے لگے۔
اسی کے قریب قریب سینٹ لوک کی انجیل میں قصہ بیان ہوا ہے اول تو سینٹ لوک نے اپنی انجیل کے شروع میں لکھ دیا کہ جو باتیں کہ لوگ کہتے تھے ان کو میں اپنی انجیل میں لکھتا ہوں۔ پس نہیں معلوم ہوسکتا کہ وہ قصہ جو سینٹ لوک کی انجیل میں ہے کہاں تک صحیح ہے۔ بہرحال انجیل کے اس قصہ پر ہم کو بحث ضروری نہیں۔ مگر عیسائیوں کی روایتیں ہیں جن کو تفسیر کبیر میں لکھ دیا ہے اسلام کی روایتیں نہیں ہیں اور نہ توجہ کے قابل ہیں۔
ہمارے نزدیک یحییٰ کی وجہ تسمیہ تلاش کرنے کی چند ان ضرورت نہیں ہے جب حضرت زکریا کو بیٹا ہونے کا یقین ہوا تو بطور تفاوئل کے یحییٰ اس کا نام رکھنا ان کے دل میں آیا جیسا کہ اس زمانہ میں بہت لوگ نیک تفاول سمجھ کر جینا حیاتی حیاتن اپنی اولاد کا نام رکھ دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی تفسیر میں مفصل طرح سے یہ بات ثابت کی ہے کہ آیت اور آیات کے لفظ سے حکم اور احکام جو خدا کی طرف سے ہوتے ہیں مراد ہوتے ہیں۔ پس اس آیت میں اور سورة آل عمران کی آیت میں جو لفظ آیات کا آیا ہے اس سے حکم مراد ہے۔ جب حضرت زکریا کو بیٹا ہونے کا یقین ہوگیا تو انھوں نے کہا کہ مجھ کو کوئی حکم بھی دے جس کی میں تعمیل کروں۔ خدا نے کہا کہ تیرے لیے یہ حکم ہے کہ تین رات تک جس میں دن بھی شامل ہے کسی آدمی سے پورے طور پر کلام مت کر یعنی منہ سے کچھ مت بول اور اشاروں سے جو کچھ کہنا ہو کہہ دے۔ لفظ سویا سے ہم نے کلاماً سویا کے معنی لیے ہیں ان معنوں کے اختیار کرنے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ سورة آل عمران میں خدا نے فرمایا ہے ” الا تکلم الناس ثلاثہ ایام الارمزا “ یعنی تین دن تک تو آدمیوں سے بات نہ کر مگر اشاروں سے۔ آل عمران کی آیت میں سویا کے بجائے رمز آیا ہے اور دونوں کا مطلب واحد ہے اور ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے ہوتی ہے۔
اس مقام پر خدا نے یہ بات نہیں بیان کی کہ کلام نہ کرے تو پھر کیا کرے مگر سورة آل عمران میں فرمایا ہے ”
واذکرربک کثیرا وسبح بالعشی والابکار
“ یعنی اپنے پروردگار کو بہت سا یاد کر اور اپنے پروردگار کے تقدس کا صبح و شام یعنی دن رات ذکر کر۔
پس یہ آیت نہایت صاف ہے اور کوئی مشکل اس میں نہیں ہے مگر مفسرین نے آیت کے معنی معجزہ کے قراردے کر یہ شبہ کیا ہے کہ بشارت صریح کے بعد کوئی اور معجزہ اس کی تصدیق کے لیے طلب کرنا صحیح نہیں ہے اور پھر یہ کہا ہے کہ چونکہ بشارت غیر متعین تھی کہ کب لڑکا ہوگا اس لیے معجزہ طلب کیا کہ ولادت کا زمانہ معلوم ہوجائے اور اس آیت سے یہ مطلب لینا صحیح نہیں ہے کہ وہ تین دن تک گونگے ہوگئے تھے اور بول نہیں سکتے تھے اور گویا یہ نشانی حضرت یحییٰ کی پیدا ہونے کے زمانہ کی تھی کیونکہ اس روایت کی بنیاد وسینٹ لوک کی انجیل پر ہے اور اسلامی روایت نہیں ہے۔ یا یہ سمجھنا کہ وہ صرف آدمیوں سے کلام نہیں کرسکتے تھے ایک توجیہ لا طائل اور غیر ضروری ہے۔
یہ خطاب جو خدا کی طرف سے حضرت یحییٰ کو ہوا یہ اس زمانہ کا معلوم ہوتا ہے جبکہ وہ بڑے ہوگئے تھے اور وعظ کہنا شروع کیا تھا اور اس زمانہ میں ان کی عمر برس کی تھی۔ اس بات کی تو کوئی دلیل نہیں ہے کہ نبوت چالیس برس کی عمر سے پہلے نہیں ہوتی اور حضرت یحییٰ کے حال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ 33 سال کی عمر میں مبعوث ہوئے تھے۔
اب باقی رہتا ہے ان لفظوں پر بحث کرنا کہ خدا نے جو فرمایا ہے ”
واتیناہ الحکم صبیا
“ اس کے کیا معنی ہیں جو کچھ بحث ہے وہ حکم کے لفظ پر ہے۔ مفسرین نے حکم کے معنی مختلف بیان کئے ہیں ایک معنی تو حکمت کے بتائے ہیں جس سے مراد ہے توراۃ کا سمجھنا اور مسائل فقہی کا اخذ کرنا۔ دوسرے معنی عقل کے بیان کئے ہیں۔ تیسرے معنی نبوت کے بتائے ہیں۔ مگر ہم دوسرے معنی کو تسلیم کرتے ہیں جو معمرابن عباد سلمی معتزلی نے بیان کئے ہیں کیونکہ جو شخص نبی ہوتا ہے وہ ماں کے پیٹ ہی سے عقل و ذکا لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اور اسی سبب سے حضرت یحییٰ کی نسبت کہا گیا ”
واتیناہ الحکم صبیا
“
ان آیتوں میں جو یہ لکھا ہے کہ مریم علیحدہ ہوئی اپنے لوگوں سے ایک شرقی مکان میں اور ان کی طرف سے پردہ کرلیا اس کی وجہ بیان ہونی چاہیے کہ کیوں ایسا کیا۔ مفسرین نے تو یہ لکھا ہے کہ ان کو غسل کی ضرورت ہوئی تھی اور انھوں نے غسل کرنے کے لیے ایسا کیا تھا اور اسی قسم کی اور وجہیں لکھی ہیں مگر خود امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ یہ تمام وجوہ قابل اعتبار نہیں ہیں اور آیت کی الفاظ سے کوئی ایسا اشارہ نہیں پایا جاتا جس سے ہم کسی وجہ کو بھی ترجیح دے سکیں۔ اس کے بعد ذکر آتا ہے فرشتے کے آنے کا جو آدمی کی صورت بن گیا تھا۔ ومن الناس من قال ان ذلک کان علے سبیل النفث فی الروع والا لھام والالھام والا لقاء فی القلب کما کان فی حق ام موسیٰ (علیہ السلام) فی قولہ و اوحینا الی ام موسیٰ
(تفسیر کبیر جلد صفحہ )
جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ فرشتہ کا آنا بطور نفث فی الروح اور الہام اور القاء فی القلب کی طور پر تھا تو ہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مریم کا علیحدہ ہو کر ایک مکان میں جانا عبادت کی غرض ہی تھا اور ہماری جو یہ رائے ہے کہ فرشتے کا آنا اور انسان بن کر دکھائی دینا خواب میں واقع ہوا تھا جیسا کہ ہم نے اپنی تفسیر کی دوسری جلد صفحہ میں لکھا ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ وہ ایک علیحدہ مکان میں حسب عادت عامہ ہونے کی غرض سے گئی تھیں اور جب سوگئیں تو خواب ہی کی حالت میں فرشتہ کا انسان بن کر آنا دیکھا اور خواب ہی میں حضرت مریم اس سے ہمکلام ہوئیں اور فرشتہ نے ان سے باتیں کیں۔ اس کے بعد کی جو آیتیں ہیں ان کی نسبت مفصل بحث ہم اپنی تفسیر کی دوسری جلد میں لکھ چکے ہیں۔
آیت ( 22 -23 )”
مکانا قصیا
“ سے شاہر اشہر بیت اللحم سمجھا جاتا ہے جہاں حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے تھے مگر لوک کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ٹھہرنے کو کوئی مکان نہیں ملا اور اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی جنگل یا میدان میں ٹھہرے اور کسی درخت کے نیچے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے جس کی نسبت خدا نے فرمایا ”
فاجآء للخاض الی جذع النخلۃ
“ اور دروزہ کی شدت میں حضرت مریم نے کہا اے کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میں ملیا میٹ ہوگئی ہوتی۔ فنادھا
“ قرآن مجید سے نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت مریم کو کس نے پکارا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ” من تحتھا “ کی میم کو اگر زیر سے پڑھا جائے جیسے کہ عام قراءت ہے تو پکارنے والا فرشتہ تھا اور اگر میم کا زیر پڑھا جائے جیسا کہ بعض ق راتوں میں ہے تو اس سے خود حضرت عیسیٰ مراد ہیں جو اسی وقت پیدا ہوئے تھے۔ مگر دونوں باتوں میں سے کسی بات کی طرف قرآن مجید میں اشارہ نہیں ہے۔ ظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے جیسا کہ عکرمہ کا قول ہے کہ حضرت مریم نے ایک اونچی جگہ پر یعنی ٹیلہ پر وضع حمل کیا تھا اور اس ٹیلہ کے نیچے سے آواز آئی۔ ہمارے نزدیک آواز دینے والا نہ فرشتہ تھا نہ حضرت عیسیٰ بلکہ کوئی انسان تھا جس نے حضرت مریم کی حالت اضطرار کو معلوم کرکے کہا کہ گھبراؤ مت تمہارے نیچے یعنی اس ٹیلہ کے نیچے چشمہ جاری ہے اور کھجور پکی ہوئی ہے اس کو ہلاؤ اور کھجوریں کھا کر پانی پیو۔ اور اسی شخص نے جس نے آواز دی تھی یہ بھی سمجھایا کہ اگر کوئی آدمی تم سے ملے تو اس سے کلام نہ کرنا اور کہہ دینا خدا کے نام کا روزہ رکھا اور میں آج کسی آدمی سے کلام نہیں کرنے کی۔ اس کے بعد کی آیتوں میں
جو قصہ حضرت عیسیٰ کا ہے اس پر ہم نے مفصل بحث اپنی تفسیر کی دوسری جلد میں کرچکے ہیں۔
حضرت ادریس کا نام توراۃ میں اخنوخ لکھا ہے جن کی پیدائش یہودیوں کی روایت سے قبل مسیح میں ہوئی اور انہی کی روایت کے موافق وہ قبل مسیح میں آسمان پر زندہ چلے گئے۔ یہ حضرت نوح کے پردادا ہیں اور آدم کی چھٹی پشت میں ہیں۔ یہودی خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں سب سے اول سینا پرونا لکھنا پڑھنا انھوں نے ایجاد کیا تھا۔ اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یہی علم حساب اور علم ہیئت کے موجد ہیں۔ اور اسی لیے ان کو اخنوخ کہتے تھے جس کے معنی معلم کے ہیں اور اسی کا ترجمہ عربی میں کرکے ان کو ادریس کہا جاتا ہے۔
ان کی نسبت قرآن مجید میں آیا ہے ” ورفعناہ مکانا علیا “ اور توراۃ کی کتاب پیدائش باب آیت میں لکھا ہے کہ اخنوخ خدا کے مقرب تھے اور پھر غائب ہوگئے خدا نے ان کو اٹھا لیا۔ اس کے سبب سے مفسرین قرآن مجید نے ” ورفعنا مکانا علیا “
کے معنی قرار دے کہ خدا نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھالیا مگر قرآن مجید سے یہ مطلب کسی طرح پایا نہیں جاتا مفسرین نے صرف عیسائی روایتوں کی پیروی کرکے یہ معنی قرار دیئے ہیں۔ قرآن مجید میں اس سے پہلے صاف بیان کیا ہے کہ حضرت ادریس سچا خلوص خدا کے ساتھ رکھتے تھے اور اسی کے ساتھ بیان کیا ”
ورفعناہ مکانا علیا
“ یعنی خدا نے ان کا مرتبہ بلند کیا۔ کسی طرح اس آیت سے حضرت ادریس کو زندہ آسمان پر اٹھالینے کا مطلب نہیں نکلتا۔
سورة انبیاء میں خدا نے حضرت ادریس کی نسبت فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو اپنی رحمت میں داخل کیا کیونکہ وہ نیک بندوں میں سے تھا اس آیت سے بھی ان کا درجہ بلند ہونا پایا جاتا ہے نہ زندہ آسمان پر چڑھ جانا۔
حضرت عیسیٰ کی نسبت بھی اسی قسم کے الفاظ آئے ہیں بلکہ اس میں ایک جگہ تصریح سے فرمایا ہے کہ ”
انی متوفیک ورافعک الی
“ یعنی میں اپنے پاس تجھ کو اٹھالوں گا مگر ہم نے اپنی تفسیر کی دوسری جلد میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ رفع سے بلندی قدرومرتبہ مراد ہے نہ زندہ آسمان پر چلا جانا۔
مفسرین نے اس آیت کو پہلی آیتوں سے کچھ مربوط نہیں کیا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ قریش نے جو حقیقت روح اور قصہ ذوالقرنین اور اصحاب کہف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بیان کرنے کا وعدہ فرمایا تھا مگر اس کے ساتھ انشاء اللہ کا لفظ نہیں کہا اس سبب سے چند روز تک جبرائیل وحی نہیں لائے تھے۔ جب جبرائیل آئے تو حضرت نے ان سے پوچھا کہ تم اتنے دنوں تک کیوں نہیں آئے اس کے جواب میں جبرائیل نے کہا کہ ہم نہیں آتے بغیر خدا کے حکم کے اور خدا کچھ بھول نہیں گیا تھا بلکہ ہم کو حکم نہیں دیا تھا۔ مگر یہ سب روایتیں اور اقوال مطلق قابل اعتبار کے نہیں ہیں اور یہ آیت اوپر کی آیتوں سے بالکل مربوط ہے۔
پہلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نے جنتیوں کا حال بیان کیا ہے اور اس آیت میں جنتیوں ہی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ یعنی جنتی جنت میں کہیں گے کہ ہم جنت میں نہیں آئے بغیر خدا کے حکم کے ” بامرربک “ کے معنی وہی ہیں جو بامر اللہ کے ہیں لیکن چونکہ خدا نے جنتیوں کے قول کو پیغمبر سے نقل کیا ہے اس لیے بجائے بامر اللہ کے بامرربک فرمایا ہے اور ان دونوں لفظوں کے معنی متحد ہیں۔ وقال ابومسلم قولہ ” وما نتنزل الا بامرربک “ یجوز ان یکون قول اھل الجنۃ المراد وما نتزل الجنۃ الا بامر ربک لہ مابین ایدینا ای فی الجنۃ “ مستقبلاً وما خلقنا مما کان فی الدنیا وما بین ذلک ای ما بین الوقتین
(تفسیر کبیر جلد رابع صفحہ )
تفسیر کبیر میں ابومسلم خراسانی کا ایک قول اسی کے مطابق نقل کیا ہے اس کا قول یہ ہے کہ ” وما نتزل الا بامرربک “ ممکن ہے کہ اہل جنت کا قول ہو اور اس سے مراد یہ ہو کہ ہم جنت میں نہیں آلے مگر خدا کے حکم سے۔ جو چیز جنت میں ہمارے سامنے ہے اسی کی ہے اور جو چیز ہم دنیا میں پیچھے چھوڑ آئے ہیں وہ بھی اسی کی ہے اور دنیا اور عقبیٰ کے درمیان جو کچھ ہے وہ بھی اسی کا ہے۔
صاحب کشاف نے بھی یہ معنی بیان کئے ہیں اور لکھا ہے کہ ” وماکان ربک نسیا “ سے یہ مراد ہے کہ خدا نیک بندوں کو اور ان کے اعمال کو بھول نہیں جائے گا بلکہ ضرور ہر ایک نیک عمل کی جزا دیگا۔