ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(اوکالذی مر علی قریۃ) قبل اس کے کہ اس آیت کی تفسیر بیان کی جاوے لفظ ” کالذی “ میں جو حرف کا ف ہے اس پر جو بحث ہے وہ بیان کرنی چاہیے ۔ علماء نحو میں سے کسائی اور فرا اور ابوعلی فارسی کا یہ قول ہے کہ اس سے پہلے آیت میں جہا فرمایا ہے کہ ” الم ترالی الذی حاج ابراھیم “ وہاں بھی ” الذی “ کی جگہ ” کالذی “ مراد ہے اور پھر اس آیت میں جو ” اوکالذی “ آیا ہے اس کا عطف پہلی آیت کے معنوں پر ہے نہ لفظ پر۔ یہ بحث تو صرف سیاق عبارت سے اور ایک نحوی قاعدہ سے متعلق ہے، اس بحث سے یہ مطلب حل نہیں ہوتا کہ الذی پر کاف تشبیہ لانے سے جو یہ معنی ہوگئے ہیں کہ، اس شخص کی مانند، لو تانند کے کہنے سے کیا مطلب ہے۔ اخفش نے اس بحث کو نہایت مختصر کرلیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہاں کاف زائد ہے، حمر کا ف زائد لانے کی اور اس کے زائد ہونے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی صاف بات تھی کہ پہلی آیت میں بتایا تھا کہ ” کیا تونے نہیں دیکھا اس شخص کو جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا، اور دوسری آیت میں فرمایا کہ ” کیا تونے نہیں دیکھا اس شخص کو جو ایک قربہ میں گزرا، پھر دوسری جگہ کاف زائد لانے کی اور مانند اس شخص کے جو ایک قریہ میں گزرا کہنے کی کیا حاجت تھی۔ مبرونحوی دوسری آیت میں چند لفظ محذوف مانتا ہے اور اس کا قول ہے کہ تقدیر آیت کی یوں ہے ” والم ترالی من کان کالذی مر علی قریۃ “ یعنی تونے کیا نہیں دیکھا اس شخص کو تھا مثل اس شخص کے جو ایک قریہ پر گزرا ، مگر اس سے بھی آیت کا مطلب نہیں کھلتا اور یہی سوال باقی رہتا ہے کہ مثل اس شخص سے کیا مطلب ہے۔
صاحب بیضاوی نے غالباً ان مشکلات کو خیال کیا ہے اور ایک اور قول بیان کرنے سے اپنی دانست میں اس مشکل کو حل کیا ہے اور لکھا ہے کہ ” اوکالذی مر علی قریۃ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے اور سوال مقدر کا جواب ہے ، یعنی جب نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ میں زندہ کرتا ہوں، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تو زندہ کرتا ہے تو اس طرح زندہ کر جس طرح کہ خدا نے اس شخص کو زندہ کیا تھا جو ایک قریہ پر گزرا تھا ، اس تفسیر کے مطابق تقدیر آیت کی یہ ہوتی ہے کہ ” ان کنت تحیی فاحی کا حیاء اللہ الذی مر علی قریۃ “ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ لفظ کا ف سے اس شخص کی مانند مراد نہیں، بلکہ جس طرح وہ زندہ ہوا تھا اس طرح زندہ کرنے کی مانند مراد ہے۔ اور پھر قاضی بیضاوی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو زندہ ہوا تھا یا تو عزیز تھے یہ خضر تھے یا کوئی کافر منکر بعث تھا ۔ عزیز تو ہو نہیں سکتے کیونکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ کے بہت بعد ہوئے ہیں۔ اور یہ معلوم نہیں کہ قاضی صاحب نے خضر سے مراد کس سے لی ہے اور یہ واقعہ خضر پر کب گزرا تھا۔ اور نہ یہ معلوم کہ وہ کافر منکر بعث کون تھا رجماً بالغیب جو کچھ جی میں آیا یا سنا لکھ دیا، راوی کی روایت (گو وہ کیسی ہی صریح البطلان ہو) تفسیروں میں قصوں کے لکھ دینے کو کافی ہے ، پس یہ قول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کسی طرح نہیں ہوسکتا۔
اگر قرآن مجید کا ٹھیک ٹھیک ادب کیا جاوے اور اس کو دیووپری کا قصہ نہ قرار دیا جاوے جیسا کہ عجائب پسند مسلمان قرار دیتے ہیں تو آیت کے معنی نہایت صاف ہیں۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ کاف حرف تشبیہ کا ہے اور ، کان بھی اسی کاف تشبیہ سے بنا ہے اور کاف تشبیہ کو بسبب کسی ضرورت کے مثلاً بغرض اہتمام تشبیہ یا تبدیل سیاق کلام یا کسی اور ضرورت کے مشبہ بہ سے جدا کرکے مقدم کردینا جائز ہے مثلا ” زید کا لاسد “ سے جب کاف تشبیہ کو کسی سبب سے جدا کرکے مقدم کریں تو یوں کہینگے ” کان زیدن الاسد “ اس مقام پر بھی الذی مشبہ بہ نہیں ہے بلکہ اس سے اس شخص کے مرور کی تشبیہ یا تمثیل مراد ہے پس تقدیر آیت کی یہ ہے کہ ” الم ترالی الذی کانہ مر علی قریۃ “ یعنی کیا نہیں دیکھا تو نے اس شخص کو جو گویا کہ گزرا تھا ایک قریہ پر، درحقیقت وہ شخص گزرا نہیں تھا بلکہ اس نے رویا میں دیکھا تھا کہ میں ایک قریہ پر گزرا ہوں جو ویران پڑا ہے اور جو تقدیر آیت کے ہم نے بیان کی ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس شخص کا حال بیان کیا جاتا ہے جو یہ سمجھا تھا کہ گویا میں ایک قریہ میں گیا ہوں اور اس طرح کا بیان صریح دلالت کرتا ہے کہ وہ رویا کا واقعہ ہے۔ مگر نحوی قاعدے کے موافق ” کان “ کا لفظ الذی موصول کے صلہ میں واقع نہیں ہوسکتا اس ضرورت سے
حرف تشبیہ یعنی لفظ کان کو مقدم لانا پڑتا تھا اور وہ مقدم نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس کی اسم و خبر صل کے جزو تھے اس لیے حرف کاف جو اصل لفظ تشبیہ کا تھا وہ اس کی جگہ مقدم کیا گیا۔
قرآن مجید میں اس شخص کا جس کا رویا یہاں بیان ہوا ہے ذکر نہیں ہے اور نہ اس قریہ کا ذکر ہے جس میں گزرنا اس شخص نے رویا میں دیکھا تھا، غالباً اس قریہ کے تعین کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ اس شخص نے رویا میں دیکھا ہوگا کہ میں ایک قریہ میں گزرا ہوں جو ویران پڑا ہے البتہ اس شخص کی جس نے یہ رویا دیکھا اس کی تعیین کرنی چاہیے غالباً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اس شخص کے نام کو ہر کوئی جانتا ہوگا مگر اب ہمارے پاس اس شخص کا نام متعین کرنے کو بجز روایات اور تاریخی واقعات کے اور کچھ نہیں ہے تاریخی واقعات سے جہاں تک کہ تحقیق ہوسکتے ہیں اور جن پر اعتماد ہوسکتا ہے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص حضرت نحمیاہ نبی تھے۔
توریت میں جو واقعات بیت المقدس کی ویرانی کے لکھے ہیں اور جو زمانہ اس کا قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخت نصر نے قبل مسیح میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اورء قبل مسیح میں بیت المقدس کو فتح کرلیا اور معبد کو جلا دیا اور بیت المقدس کو ویران کردیا مگر کنجیرد بادشاہ ایران نے غلبہ پاکر یہودیوں کو قید بابل سے آزاد کیا اور قبل مسیح کے انھوں نے بیت المقدس میں واپس آکر قربانیاں کیں اس کے بعد کسی بادشاہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی تعمیر کی اجازت دی اور کسی نے پھر منع کردیا پھر قبل مسیح میں دارانے بیت المقدس کی تعمیر کی اجازت دے دی مگر ہامان کی دشمنی سے جرح پڑتا رہا۔
قبل مسیح کے عز یز پیغمبر بیت المقدس میں گئے اور یہودیوں کی بھلائی کا زمانہ شروع ہوا مگر بیت المقدس اسی طرح جلا ہوا اور ڈھیا ہوا پڑا تھا حضرت نحمیا نبی کو اس کا نہایت رنج تھا انھوں نے خدا سے بہت التجا اور دعا کی کہ وہ کسی طرح پھر تعمیر ہو، ایک دفعہ ارتحشتتائی بادشاہ کے حضور میں حاضر تھے بادشاہ نے پوچھا کہ تم کیوں رنجیدہ ہو انھوں نے کہا کہ میں کیونکر رنجیدہ نہ ہوں کہ وہ شہر جس میں ہمارے بزرگوں کے مزار ہیں ویران پڑا ہے اور اس کے دروازے آگ سے جلے پڑے ہیں، بادشاہ نے پوچھا کہ پھر تو کیا چاہتا ہے حضرت نحمیا نے کہا کہ آپ مجھ کو وہاں جانے دیں تاکہ میں اس کو پھر تعمیر کروں، بادشاہ نے اجازت دی اور ایک میعاد مقرر کی کہ اس عرصہ میں تعمیر کرکے واپس آجانا۔
جب حضرت نحمیا بیت المقدس کی تعمیر میں مصروف تھے تو لوگ ان پر ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ کیا وہ بیت المقدس کو بنالینگے اور اس کے پتھروں کو جو جلے ہوئے اور خاک کے ڈھیروں کے تلے جمع ہیں نکال لینگے، کتاب نحمیا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نحمیا کو بیت المقدس کی تعمیر کی بڑی فکر تھی اور خدا کے سامنے ہمیشہ التجا اور دعا کیا کرتے تھے، بلاشبہ ان کے دل میں یہ بات گزری ہوگی کہ اس شہر کے مرجانے یعنی ویران ہوجانے کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اس کو زندہ یعنی آباد کرے گا۔ انھیں ترددات اور خدا سے التجا کرنے کے زمانہ میں جیسا کہ مقتضائے فطرت انسانی ہے حضرت نحمیا نے رویا میں دیکھا اور ان کو تسلی ہوئی کہ بیت المقدس آباد اور تعمیر ہوجائے گا اسی رویا کا ذکر اس آیت میں ہے اور وہ رویا یہ ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ میں ایک قریہ میں گیا ہوں جو بالکل ڈھیا ہوا اور ویران پڑا ہے رویا ہی میں انھوں نے کہا کہ اس قریہ کے اس طرح مرجانے یعنی ویران ہوجانے کے بعد کس طرح خدا اس کو زندہ یعنی آباد کرے گا اسی حالت میں انھوں نے دیکھا کہ میں مرگیا ہوں اور پھر جی اٹھا ہوں رویا میں ان سے کسی نے کہا کہ کتنی دیر تک تم پڑے رہے انھوں نے کہا کہ ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم اس نے کہا کہ تم سو برس تک پڑے رہے اپنے کھانے اور اپنے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ وہ نہیں بگڑیں اور اپنے گدھے کو دیکھ کہ اس کا کیا حال ہوگیا ہے اور دیکھ کہ پھر اس کی ہڈیاں کس طرح ہلتی ہیں اور کس طرح ان کے اوپر گوشت چڑھتا ہے اس عجیب رویا سے ان کو تسلی ہوئی کہ بیت المقدس ضرور تعمیر ہوجاوئے گا پس یہی قصہ جو خدا کی قدرت اور حکمت اور عظمت کو جتاتا ہے اس آیت میں بیان ہوا ہے۔
ہمارے مفسروں کی عادت ہے کہ سیدھی بات کو بھی ایک عجوبہ بات بنا کر بیان کرتے ہیں اور سنی سنائی باتیں نا تحقیق اور قصے اور کہانیاں اس میں شامل کردیتے ہیں اسی طرح اس میں بھی کیا ہے، بااینہمہ جب ان تمام باتوں پر غور کیا جاتا ہے تو جو اصل بات ہے وہ بھی اس میں سے نکل سکتی ہے، چنانچہ اس مقام پر بھی جو روایت ابن عباس (رض) کے نام سے تفسیر کبیر میں بیان کی ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ یہ تمام واقعہ جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے وہ ایک رویا تھا اس روایت میں بجائے حضرت نحمیا کے حضرت عزیز کا نام لکھا ہے ممکن ہے کہ وہ خواب دیکھنے والے حضرت عزیز ہی ہوں مگر تاریخ سے مطابقت کرنے سے حضرت نحمیا کا ہونا زیادہ تر قرین قیاس معلوم ہوتا ہے اسی روایت میں لکھا ہے کہ جب وہ بیت المقدس میں پہنچے تو وہاں انجیر اور انگور پھل رہے تھے انھوں نے انجیر اور انگور کھائے اور انگوروں کو نچوڑ کر ان کا شیرہ پیا اور سو رہے اور سونے ہی کی حالت میں خدا تعالیٰ نے ان کو مردہ کردیا اور سو برس تک مرے پڑے رہے ان لفظوں سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ علماء متقدمین کی بھی یہ رائے تھی کہ یہ واقعہ حالت نوم میں گزرا تھا جس کو ہم نے سیدھی طرح رویا سے تعبیر کیا ہے باقی قصہ جو اس روایت میں لکھا ہے محض بےاصل ہے جس کے لیے کوئی سند نہیں ہے۔
قرآن مجید کا سیاق کلام اس طرح پر واقع ہوا ہے کہ جو قصے اس میں بیان کیے گئے ہیں ان کا مقصد بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت یوسف کے خواب کا جہاں ذکر ہے وہاں بھی اسی طرح بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا کہ میں نے گیارہ ستاروں اور چاند اور سورج کو اپنے تئیں سجدہ کرتے دیکھا، اور یوں نہیں بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ چاند اور سورج مجھ کو سجدہ کرتے ہیں، کیونکہ خواب میں دیکھنا قرینہ مقام سے علانیہ روشن تھا، اسی طرح اس مقام پر بھی حضرت نحمیا کے خواب کا مقصد بیان کیا گیا ہے اور ” فلما تبین “ کے لفظ سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ تمام واقعات جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں رویا میں واقع ہوئے تھے۔
(واذقال ابراھیم) جس طرح کہ پہلی آیت کے سیاق کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا قصہ ایک رویا کا واقعہ تھا اسی طرح اس قصہ کا بھی رویا میں واقع ہونا پایا جاتا ہے اول تو اس وجہ سے کہ سب سے اول جو قصہ ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ بیان ہوا اور واقعی قصہ تھا اس سے ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قصہ کو علیحدہ کرکے اس قصہ کے بعد بیان کیا ہے ، جو رویا میں واقع ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ کیفیت احیاء موتیٰ امر مشاہد بالعین نہیں ہے اگر کوئی شخص کسی مردہ کو زندہ کردے یا بیمار کو اچھا کردے تو اس قدر مشاہدہ ہوسکتا ہے کہ مردہ زندہ یا بیمار اچھا ہوگیا مگر اس کی کیفیت احیا و کیفیت صحت امر مشاہد نہیں ہے اور اس لیے لفظ ارنی سے کسی ایسے امر سے مراد نہیں ہے جو وقوع فی المشاہدہ ہو بلکہ رائت قلبی مراد ہے پس گویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ کہنا ہے کہ ” اے رب میرے دل کو بتادے کہ مردے کس طرح زندہ ہوں گے “۔ تیسرے یہ کہ اس قسم کے ترددات جو بزرگوں کو اور اہل دل کو واقع ہوتے ہیں ان کا رفع اور تسلی اسی طریق سے ہوتی ہے جس کو مشاہدات یا مکاشفات یارویا سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو فطرت انسانی کے بالکلیہ مطابق ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اور ان سے پیشتر کسی نے اس دنیا میں مردوں کا زندہ ہونا دیکھا تھا اور اس لیے کوئی ذی عقل خدا سے ایسا سوال نہیں کرسکتا تھا، پس صاف پایا جاتا ہے کہ جو تعجب احیاء اموات کی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں پیدا ہوا تھا اسی کا رفع ہونا چاہا تھا اور اس کا رفع ہونا نہ دنیاوی مشاہدہ اور نہ ان ظاہری آنکھوں کے دیکھنے سے علاقہ رکھتا تھا پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ جو یہاں مذکورہوا ہے وہ ایک رویا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے۔ انھوں نے رویا میں خدا سے کہا کہ مجھ کو دکھلایا بتا کہ تو کس طرح مردہ زندہ کرے گا پھر خواب ہی میں خدا کے بتلانے سے انھوں نے چار پرندہ جانور لیے اور ان کا قیمہ کرکے ملا دیا اور پہاڑوں پر رکھ دیا پھر بلایا تو وہ سب جانور الگ الگ زندہ ہو کر چلے آئے اور ان کے دل کو مردوں کے زندہ ہونے سے جن کے اجزا بعد مرنے کے عالم میں مخلوط و منتشر ہوجاتے ہیں طمانیت ہوگئی۔
کل مسلمان عالموں اور قدیم مفسروں کو بھی اس بات پر یقین نہیں تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سچ مچ جانوروں کا قیمہ کرکے پہاڑوں پر رکھ دیا تھا اور اس لیے اس آیت کی نسبت مفسرین کی تین رائیں قائم ہوئی ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جن کی یہ رائے ہے کہ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جانوروں کا قیمہ کرکے پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر جب بلایا تو وہ زندہ ہو کر چلے آئے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرھن کے معنی قیمہ کرنے کے نہیں لیتے بلکہ اپنے سے ہلا لینے کے لیتے ہیں اور جزء کے معنی ہر ایک جانور کے جزء کے نہیں لیتے بلکہ مجموعہ جانوروں میں سے بعض مراد لیتے ہیں جس سے آیت کا مطلب صرف یہ رہ جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چند جانور اپنے سے ہلائے اور پھر کوئی جانور کسی پہاڑ پر اور کوئی کسی پہاڑ پر چھوڑ دیا اور پھر جب بلایا تو سب چلے آئے۔ لیکن اگر ایسا کیا ہو تو یہ تو لڑکوں کا کھیل ہوا اس سے احیاء اموات سے کیونکر طمانیت ہوسکتی ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جانوروں کا قیمہ کرنا اور پہاڑوں پر رکھنا واقع نہیں ہوا بلکہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایسا کرنے کا حکم دیا تو اس حکم سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کو طمانیت ہوگئی پھر انھوں نے نہ جانور پکڑے نہ ان کا قیمہ کیا نہ پہاڑوں پر رکھا۔ گو کہ یہ پچھلے گروہ مفسرین کے بھی اس امر کے واقع ہونے سے یعنی جانوروں کے قیمہ کرنے اور پھر ان کے زندہ ہونے سے انکار کرتے ہیں مگر ہماری سمجھ میں ان تینوں گروہ نے رویا کے واقعات کو ظاہری واقعات سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
عیسائی بحث کرنے والوں نے ہمارے مفسرین کے لغواقوال کو غنیمت سمجھا اور بلا تحقیق اصل مطلب کے قرآن مجید پر اعتراض کرنے کو موجود ہوئے ۔ کتاب خرقیل میں حضرت خرقیل کے رویا کا ذکر ہے کہ وہ جنگل میں جس میں آدمیوں کی بہت سی ہڈیاں پڑی تھیں پہنچے خدا نے کہا کہ کیا یہ ہڈیاں زندہ ہوسکتی ہیں پھر خرقیل نے ان ہڈیوں سے خدا کے حکم سے کہا کہ تم زندہ ہوگی تم پر رگ اور گوشت آجاوے گا اور جان پڑجاوے گی اور تم زندہ ہوجاؤ گے چنانچہ وہ ہڈیاں ہلیں اور گوشت و چمرہ پیدا ہوا پھر وہ سب اسی طرح زندہ ہوگئیں۔ اور توراۃ کتاب پیدائش باب پندرھویں میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹا پیدا ہونے کی بشارت کے وقت خدا نے کہا تھا کہ چار جانور لے اور ان کے دو دو ٹکڑے کرکے ہر ایک ٹکڑے کو اس کے مقابل رکھ دے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چارپایوں کے تو ٹکڑے کیے مگر پرندوں کے ٹکڑے نہیں کیے اور پھر اس کو نیند آگئی اور وہ سو گیا۔ پس عیسائیوں نے مفسرین کی لغو اور نا تحقیق روایتوں کو دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ دونوں قصے جو قرآن مجید میں موجود ہیں اور جن ساتھ مفسرین نے روایتیں ملائی ہیں وہ ان دونوں قصوں سے جو توراۃ میں مذکور ہیں بنائی گئی ہیں۔ مگر ہم اس وقت ان ناقابل فہم قصوں پر جو توراۃ میں اور کتاب خرقیل میں مذکور ہیں بحث نہیں کرتے بلکہ صرف اس قدر بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو یہ دونوں قصے مذکور ہیں ان سے توراۃ و کتاب خرقیل کے مندرجہ قصوں سے کچھ تعلق نہیں ہے۔
( واحل اللہ البیع وحرم الربوا) حضرت عمر (رض) نے کہا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتقال فرمایا اور با کی تفسیر ہم سے نہیں فرمائی۔ یعنی ہم کو اس بات کے دریافت کرنے کا موقع نہیں ملا کہ ربا جس کو خدا نے حرام فرمایا وہ کیا ہے اور کون سا ربا ہے جو حرام ہوا ہے اور جس پر ایسی سخت وعید نازل ہوئی ہے، پس جبکہ اتنے بڑے خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ربا کی حقیقت پر تسلی نہ تھی تو ضرور تھا کہ صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین اور علماء امت میں اختلاف رائے ہو اور ہر ایک اپنے اجتہاد کے موافق اس کی نسبت مسائل قرار دے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہوتا ہے اور ہوگا اور اس چودہویں صدی نبوی میں جس کا یہ دسواں برس ہے میں بھی بقدر اپنے فہم کے علماء امت سے اس مسئلہ میں مختلف رائے ہوں۔
علماء امت اور فقہاء اسلام نے ربا کی دو قسمیں کی ہیں ایک ربا الفضل اور دوسری ربا النسید۔ ربا الفضل سے ایسی بڑھوتڑی مراد ہے کہ ہم جنس چیز کے دست بدست مبادلہ کرنے میں لیوی جاوے۔ اس قسم کے ربا کی حرمت زیادہ تر حدیثوں پر مبنی ہے اور اسباب میں کہ کون سی ہم جنس چیزوں کے مبادلہ میں بڑھوتڑی لینا ربا ہے ائمہ مجتہدین میں اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس ہم جنس مال کے مبادلہ میں بڑھوتڑی ربا ہے جو پیمانہ سے نپتا یا وزن سے تلتا ہو۔
امام شافعی کے نزدیک وہ مال یا خود قیمتی ہو جیسے چاندی سونا یا شے خوردنی ہو۔
امام مالک کے نزدیک وہ مال یا خود چاندی و سونا ہو یا ایسا ہو جس سے انسان کا قوت ہوتا ہو یا جو اس کی اصلاح کرتا ہو جیسے کہ نمک۔
ان اختلافات کا نتیجہ یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک چاندی اور سونے کے سوا باقی ایسی چیزوں کے مبادلہ کی بڑھوتری پر جو کھانے میں نہیں آتیں جیسے لوھا اور چونا وغیرہ ربا کا حکم نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک ربا کا حکم ہے۔
اور جب کہ قلیل مقدار کا غلہ جو ایک صاع سے کم ہو مبادلہ کیا جاوے تو اس کی بڑھوتری پر امام ابوحنیفہ کے نزدیک ربا کا حکم نہیں ہے اور امام شافعی کے نزدیک ربا کا حکم ہے۔
اور جو پھل وغیرہ اشیاء خوردنی پیمانے یا وزن سے نہیں بکتی تھیں ان کی بڑھوتری پر بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک ربا کا حکم نہیں ہے اور امام شافعی کے نزدیک ربا کا حکم ہے۔
امام مالک کے نزدیک جیسا کہ ان کتاب موطا میں مذکور ہے چاندی اور سونے کے سوا اور چیزوں پر جو وزن سے بکتی ہیں جیسے تانبا سیسہ چونا لوہا کسم وغیرہ یا ایسا میوہ جو تازہ کھانے میں آتا ہے اور سکھلا کر ذخیرہ نہیں کیا جاتا اس کے مبادلہ میں بڑھوتری پر ربا کا حکم نہیں ہے۔
ہم جنس ہونے میں اچھے اور بڑے یا کھرے اور کھوٹے ہونے میں کچھ فرق نہیں ہے، کھرا سونا کھوٹے سونے سے اور کھری چاندی کھوٹی چاندی سے اور اچھی کھجوریں بری کھجوروں سے یا سفید گیہوں لال گیہوں سے اگر بدلے جاویں تو ضرور ہے کہ برابر کے برابر بدلے جاویں اگر ان کے مبادلہ میں بڑھوتری لیجاوے تو وہ بھی ربا میں داخل ہے۔
مجھ کو جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس قسم کے مبادلہ کو جو اس ربا میں داخل کیا ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے یہ علانیہ غلطی ہے اس قسم کے م بادلوں کی بڑھوتری سے اس آیت کو کچھ تعلق نہیں ہے بلاشبہ حدیثوں میں اس قسم کے م بادلوں کی بڑھوتری پر بھی ربا کا اطلاق کیا گیا ہے مگر اس ربا سے یہ ربا جس کا ذکر اس آیت میں ہے مراد نہیں ہے۔ ربا کا اطلاق اس فائدہ پر بھی ہوتا ہے جو بیع فاسد کے ذریعہ سے کوئی شخص حاصل کرے جیسے کہ حدیث میں آیا ہے ” من اجبی فقد ادبی “ اجبا کے معنی کسی درخت کے پھل کو پھلوں کے آنے سے پیشتر بیچ ڈالنے کے ہیں جیسے کہ ہندوستان میں آم کے درختوں کا پھل صرف مور آنے پر قبل اس کے کہ آم پیدا ہوں بےچڈالا جاتا ہے ایسی خرید فروخت میں یا تو بایع ایسا فائدہ اٹھاتا ہے جس کے مقابلہ میں درحقیقت اس نے کوئی جنس نہیں دی یا مشتری ایسا فائدہ اٹھاتا ہے جس کے مقابلہ میں درحقیقت اس نے کوئی مال نہیں دیا اور اسی لیے اس معاملہ پر ربا کا اطلاق کیا گیا ہے مگر درحقیقت یہ معاملہ بیع فاسد کا ہے اور اس ربا کی تفسیر میں داخل نہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
بخاری و مسلم نے اسامہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” الوبوا فی النسیۃ “ یعنی ربا ادھار میں ہے اور ایک روایت میں ہے کہ ” لاربوا فیما کان یدا بید “ یعنی جو چیز کہ دست بدست لی دی جاوے اس میں ربا نہیں ہے، یعنی وہ ربا جو اس آیت کی رو سے حرام ہوا ہے، الحدیث میں اس بات کی بڑی دلیل ہے کہ دست بدست معاملہ میں جو ربا ہے وہ ربا بیع فاسد کا ہے نہ وہ ربا جو اس آیت میں حرام ہوا۔
امام مالک نے اپنی کتاب موطا میں اس قسم کے معاملہ کو ربا سے تعبیر ہی نہیں کیا بلکہ ہر جگہ بیع سے تعبیر کیا ہے اور درحقیقت یہ معاملہ بیع کا ہے اور جو کہ اس قسم کے معاملہ میں اکثر یا بایع مغبون ہوتا ہے یا مشتری اور اسی لیے بیع فاظد میں شمار ہوسکتا ہے۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات سے منع فرمایا کہ زیادہ مقدار کی ناقص کھجوروں کے بدلے کم مقدار کی اچھی کھجوروں کا مبادلہ مت کرو کیونکہ وہ ربا ہے یعنی بیع فاسد کا فائدہ ہے اس لیے کہ دونوں قسم کی کھجوروں کا مبادلہ مت کرو کیونکہ وہ ربا ہے یعنی بیع فاسد کا فائدہ ہے اس لیے کہ دونوں قسم کی کھجوروں کی واقعی قیمت درحقیقت ننیقح نہیں ہوئی پس یا مشتری کا نقصان ہے یا بایع کا نقصان اور اس لیے یہ فرمایا کہ اگر ایسا کرنا منظور ہے تو بری کھجوروں کی قیمت مقرر کرکے علیحدہ و بیچڈالو اور اچھی کھجوروں کی قیمت مقرر کرکے علیحدہ خرید لو۔
یہی حالاچھی یا بری کھری یا کھوٹی چاندی اور سونے کے مبادلہ میں ہے کہ اس طرح کا مبادلہ کرنے میں دونوں قسم میں کسی قسم کی صحیح قیمت منقح نہیں ہوتی لیکن اگر یہ قاعدہ قرار دیا جاوے کہ دو ہم جنس چیزوں کا مبادلہ برابر برابر سے کیا جاوے تو اس میں کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں رہتا کیونکہ اگر درحقیقت وہ دونوں ایک سے ہیں تو اس وقت مبادلہ میں کسی کا نقصان نہیں اور اگر وہ اچھی اور بری ہیں تو کوئی شخص برابر برابر پر مبادلہ کرنا پسند نہیں کرنے کا اور ناقص چیز والے کو ضرور ہوگا کہ وہ اپنی چیز واجبی قیمت پر فروخت کردے اور اچھی چیزکو واجبی قیمت پر خریدے۔
ابن عباس (رض) اس قسم کے معاملہ کو اس ربا میں جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور جو اس آیت کی رو سے حرام ہوا ہے داخل نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا قول تھا ” لا ربا الا فی النسیتہ و کان یجوز ربا النقد “ یعنی وہ کہتے تھے کہ ربا ادھار کے سوا اور کسی میں نہیں ہے اور دست بدست مبادلہ میں جو ربا ہوتا تھا اس کو وہ جائز سمجھتے تھے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ان کی دلیل یہ تھی کہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اس میں ایک درہم کو دو درہموں کے بدلے دست بدست بیچنا بھی داخل ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ربا کو حرام کیا ہے اس میں اس طرح کا بیچنا داخل نہیں ہے کیونکہ ربا کے معنی بڑھوتری کے ہیں اور ہر ایک بڑھوتری حرام نہیں ہے بلکہ وہی خاص بڑھوتری حرام ہے جو آپس میں عرب کے لوگوں میں ربا کے نام سے موسوم تھی اور وہ بڑھوتری ادھار کے معاملہ میں ہوتی تھی پس خدا نے جو فرمایا ” وحرم الربا “ اس سے وہ ادھار والی بڑھوتری حرام ہوئی اور بیع کے حلال کرنے سے وہ بڑھوتری جو نقد ادست بدست ہو حرام نہیں ہوئی اور نہ ربا کے حرام ہونے میں داخل ہوئی اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی حرمت حدیث کی رد سے ہوئی ہے کیونکہ ایسا کہنے میں ظاہر قرآن کی تخصیص خبر واحد سے ہوجاوے گی اور یہ جائز نہیں۔
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے ابن عباس (رض) نے اپنے اس قول سے رجوع کی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ عکرمہ جوان کے خاص شاگرد رشید تھے اور انھیں پاس رہتے تھے اور انھیں سے تربیت پائی تھی ان کو ابن عباس کے رجوع کی خبر نہ تھی اور اس سبب سے روایت جس میں ابن عباس کا رجوع بیان کیا گیا ہے نہایت مشتبہ ہوجائی ہے بہرحال اگر ابن عباس کا رجوع کرنا بھی تسلیم کیا جائے تو اس کا صرف یہ نتیجہ ہوگا کہ بیع فاسد سے جو ربا ہواسکو ابن عباس پہلے جائز سمجھتے ہوں گے پھر انھوں نے اس کو ناجائز سمجھا نہ یہ کہ انھوں نے اس معاملہ کو اس ربا میں داخل کیا جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
ربا النسیتہ وہی جو عرب کے لوگوں میں زمانہ جاہلیت میں مشہور اور معروف تھا اور وہ یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کو کچھ مال دیتا تھا اس قرار پر کہ مدیوں ہر مہینہ ایک مقدار معین اس کو دے اور اس اعمال بدستور مدیون کے ذمہ باقی رہے جب وعدہ ادائے راس المال کا گزر جاتا تھا تو دائن پورا روپیہ اپنا طلب کرتا تھا اور اگر وہ نہ دے سکتا تھا تو میعاد بڑھا دیتا تھا اور اس المال کو بھی بڑھا دیتا تھا اور اس پر ہر مہینہ ایک مقدار معین لیتا تھا پس جو مقدار کہ ماہواری لے جاتی تھی یا جو اضافہ کہ راس المال میں کیا جاتا تھا اسی پر عرب جاہلیت ربا کا اطلاق کرتے تھے اور اسی کی حرمت اس آیت میں آئی ہے اور لفظ ” حرم الربا “ سے یہی خاص ربا حرام ہوا ہے۔
یہ طریقہ ربا کا جو عرب جاہلیت میں جاری تھا بعینہ ہندوستان کے سود خواروں میں جاری ہے کہ وہ ایک شخص کو روپیہ قرض دیتے ہیں اور اس پر ماہواری یا ششماہی سود لیتے ہیں اور اگر وہ میعاد پر ادا نہیں ہوتا تو اس سود کو بھی اصل میں داخل کردیتے ہیں اور مجموع اصل و سود پر پھر سود لیتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میعاد ادا متقضی ہونے پر دوسری میعاد بڑھا دیتے ہیں اس طرح پر کہ میعاد بڑھانے کی عرض کبھی کچھ نقد روپہ لے لیتے ہیں اور کبھی مقدار اصل کو زیادہ کردیتے ہیں اور ایسا بھی کرتے ہیں کہ غلہ ایک میعاد معین کے لیے قرض دیتے ہیں اور یہ اقرار کرتے ہیں کہ جتنا دیا ہے اس کا ڈیورھا یا دگنا لینگے اور جب میعاد پر ادا نہیں ہوتا ہے تو اس اضافہ کو بھی اصل میں شامل کرکے میعاد بڑھا دیتے ہیں اور اس مجموع پر ڈیورھا یا دگنا لینے کا اقرار کرتے ہیں یہ سب صورتیں اس ربا کی ہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور بلاشبہ یہ ربا حرام ہے۔
ربا النیۃ کے اب یہ معنی ٹھہرے کہ مدیوں سے علاوہ زر اصل کے کچھ روپیہ یا مال بطور فائدہ کے لینا مگر ایک بحث اور باقی ہے جاتی ہے کہ عموماً ایسا کرنا حرام اور ممنوع ہے اور اس کا کرنے والا ہر حالت میں انھیں وعیدوں کا مستحق ہے جو قرآن مجید میں مذکور ہیں یا کسی اور قسم کی بھی قید یا تخصیص قرآن مجید سے پائی جاتی ہے علمائے اسلام کی یہ رائے ہے کہ اس میں کسی قسم کی قید یا تخصیص نہیں ہے مگر میں قرآن مجید کی رو سے ایسا نہیں سمجھتا بلکہ میری یہ سمجھ ہے کہ قرآن مجید کی رو سے اس قسم کے ربا کے حرام ہونے میں بھی ایک تخصیص پائی جاتی ہے جو آئندہ بیان ہوگی۔
ربا درحقیقت ایک نہایت بری چیز ہے اور انسانی اخلاق اور تمدن کے لیے بعض حالتوں میں نہایت مضر ہے۔ ربا جب کہ ایک پیشہ کرلیا جاتا ہے جیسا کہ سود خور آڑھتیے اور مہاجن بطور پیشہ کے اس کو برتتے ہیں تو تمدن کے لیے نہایت مضر ہوتا ہے، ذی مقدور شخص اس روپیہ کو ملک کی ترقی اور تجارت کی افزونی میں صرف نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی ملک کے لوگوں سے ان کا مال لے لینے میں صرف کرتا ہے، وہ اپنی محنت اور مشقت سے معیشت پیدا کرنے میں بالکل سست ہوجاتا ہے اور لوگوں نے جو محنت اور مشقت سے کمایا ہے اس کے لیے لینے پر راغب ہوتا ہے، اس کے مال و دولت سے کوئی صنعت یا کوئی ایسا کارخانہ جس سے لوگوں کو معیشت میں مدد پہنچے اور ملک کی دولت کو ترقی ہو نہیں قائم ہوتا بجز اس کے کہ غریبوں سے ان کی محنت اور مشقت کے حاصلات کے چھین لینے کا اس کے قابو ملتا ہے، اور کچھ شبہ نہیں کہ ایسا ربا اخلاق و معاشرت و متدن کے برخلاف ہے۔
ایک اور صورت ربا کی ہے جو اس سے بھی زیادہ اخلاق انسانی اور روحانی نیکی کے برخلاف ہے اور بلاشبہ حرب میں اللہ اور رسول کے برابر ہے اور وہ یہ ہے کہ جو جول غریب و محتاج و مفلس ہیں اور نہ کسی عیش و آرام کے لیے بلکہ صرف اپنی زندگی کے لیے قول لایموت بہم پہنچانے کو روپیہ یا غلہ قرض لیتے ہیں اور ذی مقدور سودی قرض ان کو دیتے ہیں اور سود لیتے ہیں۔ ایسا کرنا انسانی ہمدردی اور غریبوں کے ساتھ سلوک کرنے کے بالکل برخلاف ہے حالانکہ قرآن مجید میں ان کے ساتھ سلوک کرنے کا جا بجا حکم ہے۔ ایسے لوگوں سے سود لینا شقاوت قلبی اور بدترین اخلاق ہونے کے سوا قرآن مجید کی مستحکم ہدایتوں کے بہی بر خلاف ہے اور کوئی شخص شبہ نہیں کرسکتا کہ ایسا ربا نہایت بد اور ناپاک ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ ایسے ہی ربا کا اس آیت میں ذکر ہے جس کو خدا نے منع فرمایا اور حرام کیا ہے اور کوئی انسانی دل جو ذرا بھی روحانی اخلاق کی طرف مائل ہوگا، ایسا نہ ہوگا جو اس قسم کے ربا کو حرام و ناپاک نہ سمجھتا ہو۔
میری اس سمجھ پر جو کچھ شبہ ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ” حرم اللہ الربوا “ جو ایک عام حکم تھا اس کو میں نے خاص کردیا ہے اور اسی ربا پر منحصر کردیا ہے جو ایسے لوگوں سے لیا جاوے جن کے ساتھ سلوک کرنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا قرآن مجید میں ہدایت ہوئی ہے مگر میرے دل کو یقین ہے کہ قرآن مجید کے تمام سیاق و سباق کلام سے یہی ہدایت پائی جاتی ہے۔
ربا کی آیت سے پہلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نے خدا کے راہ میں مال خرچ کرنے والوں کی خوبیوں کو بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی مثال ایک دانہ کی ہے جو اوگے اور اس میں سات خوشہ لگیں اور ہر خوشہ میں سو سو دانے ہوں۔ پھر ان کو نصیحت کی کہ غریب و محتاجوں کے ساتھ جو تم سلوک کرتے ہو اس کے احسان جتانے سے اور ان کا دل دکھانے سے برباد مت کرو اور اس کی مثال ایسی شخص کی بتائی جس کا ہرا بھراباغ آگ سے جل گیا ہو۔ پھر ان کو سمجھایا کہ غریبوں اور مسکینوں کو جو خدا کے لیے دیتے ہو وہ اپنے ہی لیے دیتے ہو اور وہ تمہیں پہنچے گا۔
اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو غریب اور مسکین لوگوں پر مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے ثواب کا بیان کیا اور اسی کے ساتھ ان لوگوں کا ذکر کیا جو بعوض سلوک و ہمدردی کرنے کے سود لیتے ہیں پس قرینہ مقام و طرز کلام سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس آیت میں انھیں لوگوں کا ذکر ہے جو غریب مسکین لوگوں سے سود لیتے تھے اور اسی سود کو جو ایسے لوگوں سے لیا جاتا تھا جو قابل رحم اور ہمدردی اور سلوک کرنے کے تھی خدا نے حرام کیا اور فرمایا کہ ” حرم الربوا “ اور پھر فرمایا کہ ” یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات “ اور پھر فرمایا کہ اے ایمان والو جو کچھ سود کا لینا باقی رہے گیا ہے اس کو چھوڑ دو اور اگر نہیں چھوڑتے تو خدا اور رسول سے لڑنے کو تیار ہو کیونکہ خدا اور رسول نے تو اس کے ساتھ سلوک کرنے کی ہدایت کی ہے اور تم اس کے برعکس ان سے سود لیتے ہو، خدا کے حکم کے برخلاف کرنا خدا سے خدا سے لڑائی کرنی ہے۔
پس تم کو چاہیے کہ ان سے اپنا اصل مال لے لو اور اگر کوئی ایسا محتاج ہو کہ اصل دینے کا بھی مقدور نہ رکھتا ہو تو اس کو مہلت دو تاکہ جب اس کو فراغت ہوادا کرے اور اگر اصل بھی چھوڑ دو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ پس جس قدر آیتیں کہ قبل آیت ربا کے ہیں اور جس قدر کہ اس کے بعد میں ان سب کو ملانے اور سباق و سیاق کلام پر نظر کرنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہی ربا حرام کیا گیا ہے جو ایسے غریب و محتاج آدمیوں سے لیا جاتا تھا جو کھانے کو محتاج تھی اور غلہ یا کھجوریں یا اور کچھ قرض لے کر قوت لایموت بہم پہنچاتے تھے اور جن کی نسبت قرآن مجید میں جا بجا سلوک و ہمدردی کرنے کی ہدایت تھی۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص کو کہ وہ کوئی مذہب رکھتا ہو ایسے ربا کو ناپاک و حرام نہ سمجھتا ہو۔
ان کے سوا وہ لوگ ہیں جو ذی مقدور اور صاحب دولت و جاہ و حشمت ہیں اور اپنے عیش و آرام کے لیے روپیہ قرض لیتے ہیں جائیدادیں مول لیتے ہیں مکان بناتے ہیں اور قرض روپہ لے لے کر چین اڑاتے ہیں گو ان کو قرض دینا بعض حالتوں میں خلاف اخلاق ہو مگر ان سے سود لینے کی حرمت کی کوئی وجہ قرآن مجید کی رو سے مجھ کو نہیں معلوم ہوتی۔
اسی طرح بہت سے معاملات قرضہ کے میں جو تجارت کے کاروبار میں پیش آتے ہیں اور ایسے بینکوں کے قائم ہونے سے سودبر تجارت کے مقاصد کے لیے روپیہ قرض دیتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ پہنچا دیتے ہیں اور ہر قسم کے آڑہتوں کے کام کرتے ہیں اور جن سے تجارت کو اور ترقی ملک کو اور افزونی آبادی کو نہایت امداد پہنچتی ہے ، ان معاملات میں جو سود کہ لیا و دیا جاتا ہے مجھ کو قرآن مجید کی رو سے اس کے ایسا ربا ہونے کے جس کو اس آیت میں حرام کیا ہے کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی پس حکم ربا جو قرآن مجید میں ہے وہ نہایت اخلاق و نیکی پر مبنی ہے اور کسی طرح ترقی جارت و ترقی ملک و دولت کا مانع نہیں ہے۔ فقہا نے بلاشبہ اپنے اجتہاد اور قیاس سے ایسی قیدیں بڑھا دی ہیں جن سے ربا کا حکم تجارت کی ترقی کا مانع قوی ہوگیا ہے، مگر قرآن مجید سے ایسا نہیں پایا جاتا مفتی شرف الدین رامپوری اور مولوی برہان الدین صاحب نے اپنی رسالوں میں ربا کو صرف جنس کے دست بدست مبادلہ میں منحصر کیا تھا جس کو رباء الفضل کہتے ہیں اور نسیہ یعنی قرضہ میں ربا نہیں قرار دیا گیا، مگر میری رائے اس کے برخلاف ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔
اب میں اپنی رائے سے قطع نظر کرتا ہوں اور کتب فقہ اور مسائل مسلمہ فقہ کو تسلیم کرکے مندرجہ ذیل معاملات پر جو اس زمانہ میں اکثر پیش آتے ہیں نظر ڈالتا ہوں کہ اگر فقہ ہی کی روایتوں پر عمل کیا جاوے توفقہ کی رو سے بھی معاملات مندرجہ ذیل کے سود پر ربا ناجائز کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اول گورنمنٹ پرائمری نوٹ۔ اگرچہ مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب نے گورنمنٹ پرائمری نوٹ کے سود کے باح ہونے کا فتویٰ دیا ہے مگر جس اصول پر وہ فتویٰ دیا گیا ہے میری رائے میں وہ اصول صحیح نہیں بلکہ فقہ مسلمہ کی رو سے پرائمری نوٹ کے سود کے جائز ہونے کی اور وجہ ہے۔
فقہ کے اس مسئلہ کو کہ ” کل قرض جو منفعتا فھو ربوا “ تسیم کرلو تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جس قرضہ میں برھوتڑی ملے وہ ربا ہے۔ قرضہ کے مستحق ہونے کو تین رکن ضروری ہیں اگر ایک رکن بھی اس میں موجود نہ ہو تو اس پر قرضہ کا اطلاق نہ ہوگا اور اس کی برہوتڑی ربا ناجائز نہ ہوگی اور وہ رکن یہ ہیں، اول۔ دائن یا دائنان کا محقق و مشخص ہونا۔ دوم۔ مدیوں کا محقق و دمشخص ہونا۔ سوم دائن کو حق طلب باقی ہونا۔ گورنمنٹ پرائمری نوٹ میں جس میں زمانہ ادا موعود نہیں ہے ان ارکان ثلاثہ میں سے دو رکن مفقود ہیں ایک مدیون کیونکہ اس میں کوئی شخص معین و مشخص مدیون نہیں ہے بلکہ صرف ایک مفہوم جس کو گورنمنٹ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں مدیون ہے جو فقہ کی رو سے صلاحیت مدیون قرار پانے کی نہیں رکھتے۔ دوسری حق طلب، اس لیے کہ دائن کو اس قرضہ کے طلب کا حق نہیں ہے۔ اور جن پرائمری نوٹوں میں میعاد ادا موعود ہے ان میں حق طلب ساقط نہیں الا مدیون بدستور غیر متعین وغیر مشخص ہے، پس جو بڑھوتری کہ ان پرامیسری نوٹوں کے ذریعہ حاصل ہو وہ فقہ کی رو سے ربا نہیں قرار پاسکتی۔
ہمارے زمانہ کے علماء پرامیسری نوٹوں کی بڑھوتری پر ربا ہونے یا نہ ہونے کا حکم دیں یا نہ دیں مگر ہمارے زمانہ میں دھلی میں بعینہ مثل پرامیسری نوٹ کے ایک معاملہ پیش آیا تھا اور تمام علماء دھلی نے جو اس زمانہ تک بڑے بڑے مقدس لوگ موجود تھے اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا اور وہ واقعہ یہ تھا کہ بہادر شاہ بادشاہ نے یہ قاعدہ نکالا تھا کہ جو کوئی شخص بادشاہ کو کچھ روپیہ بطور نذرانہ کے دے تو اس شخص کی تنخواہ اس روپیہ کے سود کے برابر مقرر ہوجاوے جس شخص نے روپیہ دیا اس کو روپیہ کے واپس مانگنے کا اختیار نہ رہتا تھا اور نہ بادشاہ کو تنخواہ معینہ کے بند کردینے کا، ہاں یہ بات بادشاہ کی مرضی پر منحصر تھی کہ اگر وہ تنخواہ معینہ بند کرنی چاہیں تو وہ روپیہ جو بنام نہاد نذرانہ لیا ہے اس شخص کو واپس کردیں۔
اکثر ایسا اتفاق ہوا ہے کہ مثلاً ایک شخص نے بادشاہ کو ہزار روپیہ نذرانہ اس شرط پر دیا کہ دس روپیہ مہینے کی تنخواہ اس کی مقرر ہوجاوے بادشاہ نے منظور کیا اور تنخواہ مقرر کردی۔ دوسرا ایسا شخص آن موجود ہوا کہ ہزار روپبہ نذرانہ اس شرط پر دینے کو راضی تھا کہ بادشاہ پانچ روپیہ ماہواری اس کا مقرر کردیں بادشاہ نے ہزار روپیہ اس سے لیا اور پہلے شخص کا روپیہ واپس کردیا اور دس روپیہ تنخواہ اس کی بند کردی اور اس میں سے پانچ روپیہ اس دوسرے شخص کی تنخواہ مقرر کردی اور وہ پانچ روپیہ جو بچے اس کی بھی کسی تیسرے شخص سے نذرانہ لے کر اس کی تنخواہ میں مقرر کردیئے۔
یہ معاملہ پرامیسری نوٹ کے معاملہ سے بھی زیادہ مشتبہ ہے کیونکہ جو حالت بادشاہ کی مثل ایک پیشین دار شخص کی تھی اس کے لحاظ سے بادشاہ بذات خود مدیون متصور ہوتے تھے اور اس لیے اس معاملہ میں دو رکن موجود تھے یعنی دائن و مدیون البتہ صرف تیسرا رکن حق طلب معدوم تھا پس اس معاملہ کی بڑھوتری کو تمام علمائے دھلی ربا نہیں سمجھتے تھے اور اگر میری یاد میں غلطی نہ ہو تو بڑے بڑے مقدس مولویوں نے اس قسم کا نذرانہ دے کر تنخواہیں اپنی اور اپنے قرابت مندوں کی مقرر کرائیں تھیں پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر یہ بڑھوتری سودناجائز نہ تھی تو پرامیسری نوٹ کی بڑھوتری کیوں سود ناجائز قرار پاسکتی ہے۔
دویم معاملات ترقی ملک۔ مثلاً گورنمنٹ یا کوئی جماعت محدود اس غرض سے روپیہ قرض لے کر اس روپیہ سے ایک نہر آبپاشی کے لیے یا آہنی سڑک آمدورفت کے لیے جاری کرے اور دائن کو اس قرضہ کی بابت سود دینا قبول کرے تو وہ بھی رباے ممنوع میں جس کا ذکر آیت میں ہے داخل نہیں ہے کیونکہ وہ اس قسم کا قرضہ نہیں ہے جس پر ربا ممنوع ہے۔
سوم معاملات رفاہ عام۔ فرض کرو کہ کسی شخص یا جماعت نے ایک سرمای ہ اس غرض سے جمع کیا ہے کہ اس کے محاصل سے عام رفاہ کے کام کئے جاویں گے وہ سرمایہ فقہ کی رو سے وقف ہے اور وہ شخص یا جماعت صرف ا میں یا متولی وقف ہے اس سرمایہ کی ملکیت نہیں رکھتے پس اگر وہ سرمایہ بالفرض کسی کو سودی قرض دیا جاوے تو وہ بھی ربائے ممنوع سبب اس کا یہ ہے کہ جو اصول و قواد جماعت محدود کے لیے اس زمانہ میں مروج ہیں ان کی رو سے دو جماعت محدود اپنی ذات سے اس قرضہ کی مدیوں نہیں ہوتی اور نہ ان کی ذات دائن ہوتی ہے اور یہی حال اس شخص یا جماعت کا ہے جو کسی سرمایہ وقف کا متوالی یا امین ہے پس ان دونوں صورتوں میں یا دائن مشخص و معین نہیں ہے یا مدیون مشخص و معین نہیں ہے اور اس لیے اس پر ایسے قرضہ کا ہونا جس پر سود لینا ممنوع ہے صادق نہیں آتا اور اس لیے اس پر ربا ربائے ممنوع نہیں ہے ۔
تمت تمام شد
( اٰیات محکمات ھن ام الکتاب والحر متشابھات) محکمات اور متشابہات کی بحث بہت دقیق اور طویل ہے، علما نے اس کے بیان میں بہت بڑی علمیت خرچ کی ہے۔ مگر مختصریات یہ ہے کہ عربی زبان کے محاورہ میں محکم اس بات کو کہتے ہیں جو ایسی صاف ہو جس سے ایک ہی مطلب سمجھ میں آوے اور دوسرے مطلب کو نہ آنے دے، اور متشابہ اس بات کو کہتے ہیں جس کے کئی مطلب سمجھ میں آتے ہوں اور بخوبی تمیز نہ ہوسکتی ہو کہ کون سا مطلب مقصود ہے، یا جو معنی اس کے الفاظ سے متبادر ہوتے ہوں وہ مقصود نہ ہوں، بلکہ وہ الفاظ بطور تمثیل یا بطور مجازو استعارہ کے آئے ہوں۔
اس پر لوگوں نے بہت بحث کی ہے قرآن مجید میں آیات متشابہات کیوں لائی گئی ہیں، مگر ہر ایک سمجھ دار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جب قرآن مجید انسانوں کی زبان میں نازل ہوا ہے اور اس سے عوام و خواص سب کی ہدایت مقصود ہے تو اس میں آیات متشابہات کا نہ ہونا ناممکن ہے۔ قرآن مجید میں بہت سی ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں جن کو انسان کے حواس خمسہ ظاہری و باطنی نے محسوس نہیں کیا ہے اور نہ ان کی کیفیات کو جانا ہے، پس امکان نہیں وہ کہ وہ مطلب آیات محکمات میں بیان ہوسکے اور اس لیے ضروری ہے کہ وہ تمثیل کے پیرایہ میں آیات متشابہات کے ذریعہ بیان کیا جاوے ، علاوہ اس کے قرآن مجید تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، اس کا مقصود یہ ہے کہ جس طرح ذی علم دانشمند اس سے ہدایت پاویں اسی طرح جاہل نادان عوام بھیڑوں اور بکریوں اور اونٹوں کے چرانے والے بھی ویسی ہی ہدایت پاویں ۔ عوام اکثر حقائق امور کے سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے، بلکہ بلحاظ زمانہ اور بلحاظ اس قدر ترقی علم و معلومات کے جو اس زمانہ میں ہوئی ہوتی ہے اکثر ذی علم بھی حقائق اشیا یا حقیقۃ الامر کے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں۔ صاحب مذہب گویا یوں کہو کہ روحانی ہادی یا پیغمبر کو ان امور سے چنداں بحث نہیں ہوتی، اس لیے وہ روحانی اصلاح و تربیت کو مدنظر رکھ کر ان مطالب کو ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جن پر آیات متشابہات کا اطلاق ہوتا ہے، اگر اس کے ایک پہلو پر خیال کرو تو اس سے وہ مطلب پایا جاتا ہے جو عوام کے خیالات یا اس زمانہ کے اہل علم کی معلومات کے مناسب ہوتا ہے، لیکن اس میں ایک دوسرا پہلو بھی مخفی ہوتا ہے، اور جب علم کی اور معلومات کی ترقی ہوتی جاتی ہے جب سمجھ میں آتا ہے۔ پس ایک ایسی کتاب میں جیسا کہ قرآن مجید ہے آیات متشابہات کا ہونا امر لازمی و ضروری ہے، بلکہ ان کا ہونا ہی دلیل اس کی صداقت اور متنزل من اللہ ہونے کی ہے، اور قرآن مجید کا یہی بہت بڑا معجزہ ہے۔ اسی کے ساتھ بعض امور ایسے بھی ہوتے ہیں جو اصل اصول اور دارومدار اس روحانی تربیت کے ہیں جن کے بغیر روحانی تربیت کا ہونا جو مقصود اصلی ہے ناممکن ہے۔ وہ اسوربالضرور اس طرح بیان ہونے چاہئیں جن کا ایک ہی مطلب ہو اور نہایت صفائی سے سمجھ میں آسکے، اور دوسرے مطلب کو اس میں آنے کی گنجائش نہ ہو، اور یہی مطالب وہ ہیں جن پر آیات محکمات کا اطلاق ہوا ہے۔
سب سے بڑا اصول مسلمانی مذہب کا توحید ہے، اور اس کے بعد اعمال حسنہ، وہ اس خوبی و عمدگی اور صفائی سے قرآن مجید کی آیات محکمات میں بیان ہوئے ہیں جن میں کسی طرح دوسرا احتمال ہو ہی نہیں سکتا۔ سورة انعام میں فرمایا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبودہی نہیں، ہر چیز کا وہی خالق ہے اسی کی عبادت کرو۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اے محمد کہہ دے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہی خدائے واحد ہے، ایک اور جگہ فرمایا کہ خدا کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا مت بناؤ۔ سورة بفرہ میں کس صفائی سے بتلایا کہ جو شخص خدا پر ایمان لایا بیشک اس نے مضبوط ذریعہ پکڑ لیا جس کے لیے ٹوٹنا ہے ہی نہیں۔ سورة نساء میں فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک مت کرو، ماں باپ کے ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں کے ساتھ، غریبوں کے ساتھ ہمسایہ میں جو رشتہ مند مہتے ہوں ان کے ساتھ، ہمسایہ میں جو اور لوگ رہتے ہوں ان کے ساتھ، جو غیر لوگ ساتھی ہوں ان کے ساتھ، مسافر غریب الوطن کے ساتھ احسان کرو، اور ایک جگہ سورة بقرہ میں فرمایا کہ غلاموں کے آزاد کرانے میں مال خرچ کرو۔ سورة نساء میں کتنا صاف طور پر بیان کردیا ہے کہ خدا صرف شرک کو نہیں بخشنے کا، اور اس کے سوا جتنے گناہ ہیں اگر چاہیے گا ان کو بخش دے گا۔ ایک اور جگہ کس خوبی سے کلیہ قاعدہ بتایا ہے کہ جس نے تابعداری سے اپنا منہ خدا کے سامنے کیا اور وہ نیکی کرنے والا ہے، تو اس کا ثواب اس کے پروردگار کے پاس ہے، ان کو کچھ خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ پس یہ تمام آیات اور ان کی مانند اور ر بہت سی آیتیں آیات محکمات ہیں جن کا مطلب سوائے ایک کے کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔
ذات باری کی تعبیر بجز اس کے کہ ” موجود واحد لا ندولاشریک لہ ولیس کمثلہ شیء “ نہ آیات محکمات سے ہوسکتی ہے اور نہ آیات تشابہات سے، اس لیے قرآن مجید میں جا بجا اس کی صفات کو بیان کیا ہے، مگر جہاں جہاں صفات باری بیان ہوئی ہیں وہ سب ازقبیل آیات متشابہات کے ہیں ” حی لا ینوت “ کے الفاظ سے ہم کو اس زندگی اور موت کا خیال آتا ہے جو ہم انسانوں اور حیوانوں میں دیکھتے ہیں، حالانکہ ذات باری اس حیات و ممات سے جس کو ہم جانتے ہیں بری ہے۔ سمیع و بصیر و علیم ہونے کی صفات کو بجز اس توت اور حس کے جو ہم کو بذریعہ کانوں اور آنکھوں اور بعدوجود معلومات کے ان کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے اور کچھ نہیں جانتے۔ حالانکہ ذات باری اس قسم کی صفات سے بری ہے۔ رحم اور غضب و قہر سے ہم انھیں صفات کو سمجھتے ہیں جو ہمارے دل کو کسی کی حالت زار دیکھ کر لاحق ہوتی ہیں اور ہمارا اول اس سے متاثر ہو کر مضطر و رقیق ہوجاتا ہے، یا کسی مخالف کی مخالفت یا خلاف بلغ سرزد ہونے کے سبب ہمارے دل میں ایک جوش انتقام لینے کا اور ایسے فعل کے کرنے کا جس سے ہمارے جوش قلب کو تسکین ہو پیدا ہوتا ہے، مگر ذات باری اس قسم کی صفات رحم و قہر سے پاک و مبرا ہے۔ خدا کی نسبت عرش پر بیٹھنا اس کے ہاتھ ہونے اس کا منہ ہونا بیان ہوا ہے، ان الفاظ سے بجز ایسے تخت کے جس کو ہم نے دیکھا ہے، اور بجز ان ہاتوں کے جو ہمارے بدن میں ہیں، اور بجز اس منہ کے جو زیادہ سے زیادہ شان و شوکت والا ہم نے دیکھا ہے اور کوئی معنی ہمارے خیال میں نہیں آسکتے، مگر خدا تعالیٰ اس طرح سے تخت پر بیٹھنے اور ایسے ہاتھوں اور ایسے منہ کے ہونے سے مبرا ہے۔ شر اجساد، نعیم جنت، عذاب دوزخ کا جن آیتوں میں بیان ہوا ہے وہ سب آیتیں متشابہات میں سے ہیں۔ جسد کے موجود ہونے کا خیال بجز اس طریقہ کے جس کو ہم دیکھتے ہیں اور طرح پر آہی نہیں سکتا، اور اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ حشر اجساد سے اسی معمولی و عرفی طریقہ پر محشور ہونا مقصود نہیں ہے، اور نہ مودہ اجسام کا بعینہا محشور ہونا مراد ہے۔ نعیم جنت و عذاب دوزخ کے لذائذ و آلام جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان کی کیفیت بجز اس کے جو ہم اپنی جسمانی حالت میں پاتے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں سکتے۔ اور اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ حالت اس جسمانی حالت میں جسمانی حالت سے مغائر ہوگی۔ پس وہ تمام آیات متشابہات ہیں جن کے کئی مطلب سمجھ میں آتے ہیں اور اصلی مقصود و متعین نہیں ہوسکتا، یا ان میں ایسے مطالب ہیں جو انسان کی حس سے خارج ہیں اور بطور تمثیل کے بذریعہ آیات متشابہات بیان ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ خرابی ڈالنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، اور ان کی غلط تاویل کرتے ہیں، اور جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب خدا کے پاس سے آیا ہے، اس لیے وہ اس قسم کی تاویلوں کے درپے نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ :
وہ علۃ العلل جس کو خدا کہتے ہیں وحدہ لاشریک ہے، وہی علۃ العلل تمام چیزوں کی خالق ہے، ایسی علۃ العلل کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ایسی چیز بھی ہو جس کو ہم زندگی کہتے ہیں، ایسی چیز نہ ہو جس کو ہم موت کہتے ہیں، اس میں کوئی ایسی چیز بھی ہونی ضروری ہے جس کو ہم لفظ سمع و بصروعلم رحم و غضب و قہر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس میں کوئی ایسا امر بھی ہونا ضروری ہے کہ جن کاموں کو ہم ہاتھ پاؤں منہ وغیرہ کے ساتھ منسوب کرتے ہیں اس میں بھی منسوب کرسکیں، کیونکہ اس کے علۃ العلل و خالق جمیع اشیا کے ہونے کو ایسی چیزوں کا اس میں ہونا لازم ہے، اس لیے
رسم اس کے حی لایموت ، سمیع، بصیر، علیم، رحمان ورحیم، قہار و جبار ہونے پر یقین کرتے ہیں، مگر اس امر کی کہ اس کی حیات کیا ہے اور عدم موت کیا ہے، اس کا سمیع و بصیر و علیم و رحمان ( کقولہ تعالیٰ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثمہ یحیکم) و رحیم و جبار و قہار ہونا کیا ہے اور کیسا ہے کچھ تاویل نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ لا یعلم تاویلہ الا اللہ ہاں اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سا نہیں۔ پس ہمارے نزدیک آیات متشابہات پر ایمان لانے کے یہی معنی ہیں اور فطرت انسانی کا یہ مقتضی ہے۔
( لا یتخذ المومنون) اس آیت کی نسبت مسلمان عالموں نے بہت بحث کی ہے اور متعدد و محمل نکالے ہیں، مگر تمام آیت پر غور کرنے سے ظاہر ہے کہ اس میں کافروں کے ساتھ محبت یا دوستی فی الدین ممنوع ہے، یعنی کافروں سے اس وجہ سے دوستی و محبت کرنی کہ ان کا دین اچھا ہے منع بلکہ کفر ہے، اور اس کے سوا اور قسم کی دوستی و محبت ممنوع نہیں ہے۔
یہ تخصیص خود اس آیت سے ظاہر ہے کیونکہ اسی میں فرمایا ہے ” ومن یفعل ذل فلیس من اللہ فی شیء “ جس سے دوستی کرنے والے کا کفر لازم آتا ہے، اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک کہ وہ محبت متحیر بکفرنہ ہو، اور وہ منجر بکفر نہیں ہوسکتی جب تک کہ تحسین فی الدین نہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ جب مسلمان کافران مکہ کے پنجے میں پھنس جاتے تھے تو وہ ان کو ایذا دیتے تھے اور اسلام سے پھیر کر پھر اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے تھے، اس مصیبت کے سبب سے یہ حکم نازل ہوا ہے جس میں یہ ہدایت ہے کہ کافروں سے دوستی و محبت فی الدین مت کرو لیکن اگر ان کے سر سے بچنے کے لیے بچاؤ کرلو تو کچھ گناہ نہیں ہے کیونکہ دل کی بات اور ظاہر کی بات سب خدا جانتا ہے۔ یہ آیت مثل سورة نمل کی آیت کی ہے جہاں کافروں کے عذاب کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ ” الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان “ یعنی جس شخص نے جبر سے کفر کی بات کہہ دی ہے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے تو اس کو کچھ عذاب نہ ہوگا۔
علمائے مفسرین نے اگرچہ متعدد تاولیں اس آیت کی ہیں مگر دو مطلب بھی جو ہم نے بیان کیا ہے انھوں نے تسلیم کیا ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے، کہ چند یہودیوں نے مسلمانوں سے میل جول اس غرض سے شروع کیا کہ ان کو ان کے دین سے پھیردیں۔ رفاعۃ بن المنذر اور عبدالرحمن بن جبیرو سعد بن خشیمہ نے ان مسلمانوں سے کہا کہ تم ان سے بچے رہو کہ تم کو تمہارے دین سے نہ پھیر دیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اسی تفسیر میں ” الاان تنقوا منھم تقاہ “ کے ذیل میں ایک قصہ لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو صحابیوں کو مسیلمہ کذاب نے پکڑ لیا مسیلمہ کہتا تھا کہ قوم قریش کے لیے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر ہیں اور بنی حنیفہ کے لیے میں پیغمبر ہوں، اس نے ایک صحابی سے پوچھا کہ محمد پیغمبر ہیں انھوں نے جواب دیا کہ ہاں ہاں ہاں، پھر اس نے پوچھا کہ میں بھی پیغمبر ہوں انھوں نے کہا ہاں۔ جب دوسرے صحابی سے پوچھا کہ محمد پیغمبر ہیں انھوں نے کہا کہ ہاں، اور جب یہ پوچھا کہ میں بھی پیغمبر ہوں تو انھوں نے کہا کہ میں بہرا ہوں، اس پر مسیلمہ نے ان کو مروا ڈالا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو اپنے یقین پر مارا گیا اور اس نے رخصت پر عمل کیا۔
اسی تفسیر میں لکھا ہے کہ کافروں کی دوستی میں طرحپر ہوسکتی ہے۔ ایک یہ کہ اس کے کفر کو پسند کرتا ہو اور اس کے کفر کے سبب اس سے دوستی رکھتا ہو، ایسی دوستی تو منع بلکہ کفر ہے۔ دوسرے یہ کہ دنیاوی امور میں بحسبب ظاہر معاشرت جمیلہ یعنی اچھا میل جول ہو اور یہ ممنوع نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ کافروں کے ساتھ میلان ہونا اور ان کی امانت اور مدد اور نصرت کرنا بسبب قرابت کے یا محبت کے اس اعتقاد کے ساتھ کہ ان کا مذہب باطل ہے ممنوع ہے مگر کفر نہیں۔ مگر ممنوع ہونے کی جو وجہ لکھی ہے وہ محض ناکافی ہے یعنی اس میں لکھا ہے کہ ممنوع اس لیے ہے کہ اس طرح کا برتاؤ کبھی ان کے کفر کی پسندیدگی پر متبر ہوجاتا ہے، گو یہ بات محض لغو اور خود اپنے خیال سے دلیل پیدا کی ہوئی ہے جو مذہبی مسئلہ کی بنیاد نہیں ہوسکتی۔
پس ان تمام روایتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کفار سے محبت اور دوستی من حیث الدین ممنوع ہے اس کے سوا کسی قسم کی دوستی اور معاشرت و محبت و وفاداری اور امداد اور کسی طرح کی راہ و رسم مذہب اسلام کے رو سے ممنوع نہیں ہے۔
(ال عمران) مفرسین نے اس بات پر بحث کی ہے کہ یہ عمران کون ہیں، حضرت موسیٰ و ہارون کے باپ یا حضرت مریم کے باپ، اور اس امر کے قرار دینے میں اختلاف کیا ہے، مگر جب تمام آیت پر غور کیا جاوے جس میں یہ بھی ذکر ہے کہ ان کی ذریت میں سے بعضے بعض کی ذریت میں تو کچھ شبہ نہیں رہتا کہ اس مقام پر عمران سے موسیٰ و ہارون کے باپ مراد ہے۔
( اذ قالت امرۃ عمران) یہ نام حضرت مریم کے باپ کا ہے، عیسائی مذہب کی کتابوں سے ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت مریم کے باپ کا کیا نام تھا، بعضے گمان کرتے ہیں کہ ہیلی یا عیلی ان کے باپ کا نام تھا، اگر وہ صحیح بھی ہو تو ممکن ہے کہ ایک شخص کے دو نام ہوں۔
یہودیوں کے ہاں رواج تھا کہ اپنے کسی بیٹے کو خدا کے نام پر وقف کردیتے تھے ، شموئیل بنی پسر القاناء کو بھی ان کی ماں حناہ نے اسی طرح خدا کی نذر کیا تھا اور منت مانی تھی کہ اگر اس کے بیٹا ہو تو وہ اس کو عمر بھر کے لیے خدا کے نام پر وقف کردیگی اور اس کے سر پر استرا نہیں لگانے کی (دیکھو کتاب اول شموئیل باب اول) اسی طرح حضرت مریم کی ماں نے اپنے پیٹ کے بچے کو خدا کی نذر کیا تھا، مگر اتفاق سے بیٹا نہ ہوا بیٹی ہوئی۔ یہ نذر کئے ہوئے لڑکے معبد کی خدمت کیا کرتے تھے، دودھ چھوٹنے کے بعد جب کسی قدر ہوشیار ہوتے تھے تو معبد میں بھیج دیئے جاتے تھے، تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ وہ بالغ ہوتے تھے تو ان کو اختیار ہوتا تھا کہ چاہیں اپنے تئیں خدا کے کاموں کے لیے وقف رکھیں چاہیں معبد سے چلے جاویں، بیٹی اس طرح پر معبد کی خدمت گزاری پر مامور نہیں ہوسکتی تھی اس لیے جب لڑی پیدا ہوئی تو حضرت مریم کی ماں نے افسوس کیا اور کہا کہ ” مالیس الذکر کالا نثی “۔
جب حضرت مریم کسی قدر ہوشیار ہوگئیں جیسے کہ ان لفظوں سے پایا جاتا ہے ” وانبتھا نباتا حسنا “ اس وقت حضرت زکریا نبی کے سپرد ہوئیں، معبد کی خدمت پر تو مامور نہیں ہوسکتی تھیں مگر ایک بالا خانہ میں یا حجرہ میں ان کو رکھا جو عابدہ زاہد عورتوں کے لیے معین ہوں گے ، ( ۔ تفسیر کبیر میں ابو مسلم کا قول لکھا ہے۔ لا تکلم الناس کا مطلب یہ ہے کہ تو مامور ہوا ہے کہ تین دن تک بات نہ کرے اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ بمعنی سے کیا ہے قول مذکور یہ ہے ” ان المعی ایتک ان لا تکلم تصیر مامور ایان لا فلم ثنثۃ ایام انتہی ملخصا۔ ) اس میں حضرت مریم خدا کی عبادت کرتی تھیں جیسے کہ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے ” یا مریم اقنتی لو بک واسجدی وارکعی مع الراکعین “
( وقالت ھو من عنداللہ) اس امر نسبت کہ جب حضرت زکریا حضرت مریم کے پاس جاتے تھے تو ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز دیکھتے تھے مفسرین نے عجیب عجیب روایتیں نقل کی ہیں، حالانکہ اس بات کے کہنے میں کہ اللہ کے پاس سے آیا ہے یا اللہ نے بھیجا ہے کوئی ایسی عجیب بات نہیں ہے، یہ تو ایک روز مرد کے محاورہ کی بات ہے۔ ابوعلی جبانی نے گو کہ وہ معتزل ہو اپنی تفسیر میں ٹھیک بات لکھی ہے جس کو تفسیر کبیر میں نقل کیا ہے، کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ ایمان والوں کے ہاتھ سے جو زاہد و عابد عورتوں کی خبرگیری کرتے تھے حضرت مریم کو رزق پہنچاتا تھا، جب حضرت زکریا حضرت مریم کے پاس کوئی کھانے کی چیز دیکھتے تو پوچھتے تھے کہ کہاں سے آئی ہے۔ اس تفسیر پر جو ابوعلی جبائی (رح) نے کی حضرت مریم کا یہ جواب کہ ” ھو من عنداللہ ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب “ بالکل صحیح و درست اور روزمرہ کے محاورہ کے مطابق ہوتا ہے۔
( بکلمۃ من اللہ) یہودی حضرت یحییٰ کو پیغمبر نہیں مانتے مگر عیسائی مذہب میں یہ امر تسلیم ہوا ہے کہ حضرت یحییٰ پیغمبر تھے اور وہ حضرت مسیح کی بشارت دینے کے لیے پیغمبر ہوئے تھے، علمائے اسلام کی عادت ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی ایسی باتوں کو جو ان کے خیال کے مخالف نہ ہوں بلا عذر تسلیم کرلیتے ہیں۔ اس آیت میں کلمہ کا لفظ آیا ہے اور حضرت مسیح کی نسبت بھی کلمہ کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے، پس مفسرین نے لکھ دیا کہ ” مصدقا بکلمہ من اللہ “ سے یہ مراد ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی بشارت دینگے یا حضرت عیسیٰ کی تصدیق کرینگے، حالانکہ حضرت عیسیٰ خود اس زمانہ میں موجود تھے اور صرف چھ مہینے حضرت یحییٰ سے چھوٹے تھے، اور خود حضرت عیسیٰ نے ان سے اصطباغ لیا تھا۔ ممکن ہے کہ حضرت یحییٰ نے کہا ہو کہ میرے بعد جو ہونے والا ہے یعنی حضرت عیسیٰ جن کو غالباً وہ اپنا جانشین تصور کرتے ہوں گے مجھ سے بھی برتر ہے، مگر اس امر کو اس آیت سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔
” مصدقا بکلمہ من اللہ “ کے صاف معنی یہ ہیں کہ اللہ کے حکم کی یا اللہ کی کتاب کی تصدیق کریگا۔ تمام قرآن کا محاورہ یہی ہے کہ انبیاء کی نسبت کتب سابقہ کی تصدیق کا اشارہ کیا جاتا ہے نہ کسی شخص معین کی تصدیق کا۔ تفسیر کبیر میں کلمۃ اللہ کی نسبت ابی عبیدہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد کتاب من اللہ ہے، اور اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اہل عرب بولتے ہیں کہ ” انشد فلان کلمۃ “ اور اس سے مراد طویل طویل قصیدہ کے پڑھنے کی ہوتی ہے۔
( قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر) حضرت عیسیٰ کی نسبت جو امور قرآن مجید میں مذکور ہیں بلاشبہ نہایت غور کے لائق ہیں، ان میں سے چند اس سورة میں بیان ہوئے ہیں اور سورة مائدہ میں مجموعاً مذکور ہیں،
اور اس لیے ہم سورة مائدہ کی تفسیر میں ان سب سے بحث کرینگے ۔ اس مقام پر صرف ولادت حضرت عیسیٰ پر غور کرتے ہیں۔
عیسائی اور مسلمان دونوں خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ صرف خدا کے حکم سے عام انسانی پیدائش کے برخلاف بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اگر ایسا ہی ہونا فرض کیا جاوے تو اول اس بات پر غور کرنی ہوگی کہ بن باپ کے پیدا کرنے میں حکمت الٰہی کیا ہوسکتی ہے۔ ایسے واقعات جو خلاف عادت یا مافوق الفطرت تسلیم کیے جاتے ہیں ان سے یا تو قدرت کاملہ پروردگار کا اظہار مقصود ہونا چاہیے یا ان کا وقوع بطور معجزہ مانا جاوے۔ جب کہ خدا تعالیٰ اقسام حیوانات کو بغیر ت والدہ تناسل کے عادۃً پیدا کرتا رہتا ہے اور خود انسان کو بھی بلکہ تمام حیوانات کو ابتداء اس نے اسی طرح پیدا کیا ہے، یا یوں کہو کہ حضرت آدم کو بےماں و بےباپ کے پیدا کیا تھا تو حضرت عیسیٰ کے صرف بےباپ کے پیدا کرنے میں اس سے زیادہ قدرت کاملہ کا اظہار نہ تھا۔ اگر یہ خیال کیا جاوے کہ صرف ماں سے پیدا کرنا دوسری طرح پر اظہار قدرت کاملہ تھا تو یہ بھی صحیح نہیں ہوتا، اس لیے کہ اظہار قدرت کاملہ کے لیے ایک اور میں اور ایسا ظاہر ہونا چاہیے کہ جس میں کسی کو شبہ نہ رہے ، بن باپ کے مولود کا ہونا ایک ایسا امر مخفی ہے جس کی نسبت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اظہار قدرت کاملہ کے لیے کیا گیا ہے۔
بطریق اعجاز حضرت عیسیٰ کے بن باپ کے پیدا ہونے پر معجزہ کا بھی اطلاق نہیں ہوسکتا معجزہ بمقابلہ منکران نبوت صادر ہوتا ہے، قبل ولادت حضرت مسیح بلکہ اداعائے نبوت یا الوہینت کوئی شخص منکر نہیں ہوسکتا تھا، پھر معجزہ کیونکر کہا جاسکتا ہے معیندا اگر وہ امعجزہ ہوتا تو حضرت مریم کا معجزہ ہوتا نہ حضرت مسیح کا۔ علاوہ اس کے جب کہ ان کی ولادت ٹھیک اسی طرح پر واقع ہوئی تھی جس طرح کہ عموماً بچوں کی ہوتی ہے کہ اس کے یعنی مریم کے جننے کے دن پورے ہوئے اور وہ اپنا پہلوتا بیٹا جنی (لوک باب درس) فاجاء المخاض الی جذع النخلۃ (سورة مریم) قول بن عباس (رض) عنھما انماکانت (مدۃ حملہا) تسعتہ اشھر کمافی سائر الخساء (تفسیر کبیر) نو مہینے تک حمل میں رہے اور بروقت ولادت حضرت مریم پردہ تمام حالات طاری ہوئے جو عموماً عورتوں پر بچہ پیدا ہونے میں طاری ہوتے ہیں تو کسی طرح اعجازاً ان کے پیدا ہونے کا کسی کو احتمال بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
عیسائی حضرت مسیح کے بن باپ کے پیدا ہونے کو ایک اور حکمت الٰہی پر منسوب کرسکتے ہیں کہ وہ گناہ گار انسان کی آمیزش سے پاک اور بےگناہ ہوں تاکہ گناہ گار انسانوں کی طرف سے فدیہ کئے جاویں ۔ مگر جب ماں کی شرکت سے وہ بری نہ تھے تو انسانی آمیزش سے پاک نہیں ہوسکتے تھے۔ لاطینی کلیسیا نے کونسل ٹرینٹ میں تسلیم کیا کہ حضرت مریم بھی بن باپ کے پیدا ہوئی تھیں، اگر یہ بھی مانا جاوے تو وہ بھی ماں کی شرکت سے بری نہ تھیں۔ انجام کار عیسائی کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے حضرت مریم کو انسانی خاصیت یعنی گناہ گار ہونے کی قابلیت سے اس لیے پاک کردیا تھا کہ ان سے فدیہ ہونے کے لائق مولود پیدا ہو تو خدا اس طرح حضرت عیسیٰ کے باپ کو بھی پاک کرسکتا تھا، اور بن باپ کے پیدا کرنے میں کوئی خاص حکمت نہیں ہوسکتی تھی۔
ابتدا میں عیسائیوں کو یہ خیال نہیں تھا کہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہونے ہیں یا بن باپ کے پیدا ہوں گے ، کیونکہ مسیح کی نسبت یقین کیا جاتا تھا کہ وہ داؤد کی نسل سے ہوں گے ۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو مسیح موعود نہیں مانا، مگر جنہوں نے ان کو مسیح موعود مانا اور عیسائی یا نصاریٰ کہلائے ان سب کو کامل یقین تھا کہ وہ حضرت داؤد کی اولاد میں ہیں، چنانچہ انجیلمتیٰ میں لکھا ہے ” یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابراہیم “ اور لوگ کی انجیل کے باب درس اور متیٰ کی انجیل باب درس سے پایا جاتا ہے کہ یوسف حضرت مریم کا شوہر داؤد کی نسل سے تھا۔ مسلمان بھی قرآن کے رو سے جیسے کہ سورة انعام میں لکھا ہے حضرت عیسیٰ کو حضرت ابراہیم کی ذریت یعنی اولاد سمجھتے ہیں، پس اگر حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے ہوں تو وہ نسل داؤد یا اولاد ابراہیم سے کیونکر قرار پاسکتے ہیں۔
اگر یہ کہا جاوے کہ ماں کے سبب سے ان کو داؤد کی نسل سے قرار دیا گیا ہے تو یہ بات دو وجہ سے غلط ہے۔ اول اس لیے کہ یہودی شریعت میں عورت کی طرف سے نسب قائم نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ حضرت مریم یہ کہ حضرت مریم کا داؤد کی نسل سے ہونا ثابت نہیں کیٹوسیکلوپیڈیا میں میں لکھا ہے کہ ” یوسیبیس جو قدیمی مذہبی مورخ ہے گو حضرت عیسیٰ کے نام پر اس نے طول طویل بحث کی ہے مگر اس کے بیان سے اور نیز متیٰ اور لوک کی انجیلوں سے مریم کی پیدائش اور نسب پر کوئی نئی روشنی نہیں پڑتی۔ اینی جو مریم کی ماں بیان کی گئی ہیں ان کی نسبت جس قدر قصے ہیں وہ محض افسانے ہیں اور ان کا کچھ ثبوت و شہادت نہیں ہے “۔ انجیل لوک باب درسو سے پایا جاتا ہے کہ حضرت مریم حضرت زکریا کی بیوی الیشیع کی رشتہ دار تھیں، اور الیشیع ہارون کی بیٹی تھیں ، مگر نہ یہ معلوم ہے کہ مریم والیشیع میں کیا رشتہ تھا اور نہ یہ معلوم ہے کہ ہارون کس کی اولاد میں تھے۔ قرآن مجید میں حضرت مریم کے باپ کا نام عمران لکھا ہے اس پر استدلال کرنے سے بھی داؤد کی نسل سے حضرت مریم کا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
عیسائی مفسر جب کہ حضرت عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تسلیم کر کرکے نسل داؤد سے ثابت کرنے میں عاجز ہوئے تو انھوں نے کہا کہ سینٹ لوک کی انجیل میں جو نسب نامہ یوسف کا لکھا ہے۔ درحقیقت وہ مریم کا نسب نامہ ہے تاکہ مریم کا داؤد کی نسل سے ہونا ثابت کریں۔ دو انجیلوں میں حضرت عیسیٰ کے نسب نامے ہیں متی کی انجیل میں حضرت عیسیٰ کے باپ کا نام یوسف اور ان کے باپ کا نام یعقوب لکھا ہے۔ اور لوک کی انجیل میں یوسف کے باپ کا نام ہیلی لکھا ہے پہلا نسب نامہ بذریعہ سلیمان کے داؤد تک پہنچتا ہے اور دوسرا نسب نامہ بذریہ ناثان کے۔ یہ دوکنوں نسب نامے بلاشبہ مختلف ہیں مگر عیسائی مفسر کہتے ہیں جیسے کہ تفسیر بنری اسکاٹ میں مندرج ہے کہ یوسف نے ہیلی کی دختر سے یعنی حضرت مریم سے شادی کی تھی، اور شاید اس نے یوسف کو مت نبی بھی کیا تھا، اور یوسف ہیلی کا بیٹا کہلاتا تھا، اور یہودیوں میں رواج تھا کہ نسب ناموں میں صرف مردوں کا نام لکھتے تھے نہ عورتوں کا اس لیے سینٹ لوک نے اس نسب نامہ میں جو درحقیقت مریم کا ہے بجائے مریم کے یوسف کا نام لکھ دیا ہے۔
اس بیان پر بعض عیسائی علما نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ نسب نامہ داؤد تک بذریعہ ناثان کے پہنچتا ہے اور حضرت مسیح کا بذریعہ سلیمان کے داؤد کی نسل میں ہونا چاہیے اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ سلیمان کی اولاد میں ہونے والے تھے بلکہ صرف یہ بیان ہوا ہے کہ وہ داؤد کے بیٹے اور یشی کی نسل سے ہوں گے اور سلیمان بطور ایک عمدہ نمونہ حضرت مسیح کے بیان ہوئے ہیں۔
اگر یہ بات فرض بھی کرلی جائے کہ اس پچھلے نسب نامہ میں بجائے حضرت مریم کے یوسف کا نام لکھا گیا ہے، اور یہ بھی فرض کرلیاجاوے کہ یوسف ہیلی کے مت نبی اور داماد تھے، اور یہ بھی فرض کیا جاوے کہ حضرت عیسیٰ کا سلیمان کے ذریعہ سے داؤد کی اولاد میں ہونا کچھ ضروری نہ تھا، تو بھی اس بات کا جواب نہیں ہوسکتا کہ یہودی شریعت میں ماں کی طرف سے نسب نہ معتبر گنا جاتا تھا اور نہ بیان کیا جاتا تھا یہاں تک کہ عورتوں کا نام بھی نسب ناموں میں داخل نہ ہوتا تھا، پس حضرت عیسیٰ مسیح کی نسبت جو پیشین گوئی تھی کہ وہ داؤد کی نسل میں سے ہوں گے کسی طرح ماں کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی، بلکہ بموجب اس پیشین گوئی کے ضرور ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح ایسے باپ کی اولاد ہوں جو داؤد کی نسل سے ہو۔
پادری رچارڈ واٹسن نے تفسیر انجیل لوک میں لکھا ہے کہ ” یہ عام یقین تھا کہ حضرت عیسیٰ یوسف کے بیٹے ہیں اور ان کا معجزہ کے طور سے پیدا ہونا مشہور نہیں کیا گیا تھا بلکہ یوسف اور مریم کے دلوں ہی میں مخفی تھا، یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بات کب پہلے پہل ظاہر کی گئی۔ چونکہ انجیل کے حالات میں اس پر کچھ اشارہ نہیں پایا جاتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات حواریوں کو بھی ظاہر نہیں کی گئی تھی، اس لیے وہ اور نیز اور بھی ان کو یوسف اور مریم کا بیٹا سمجھتے تھے اور یہ امر منجملہ ان امور کے تھا جن کو مریم نے خدا کی ہدایت سے حضرت عیسیٰ کے مردوں سے جی اٹھنے کے بعد تک اپنے دل میں چھپا رکھا۔ اگر پیشتر سے یہ بات مشہور ہوجاتی تو حضرت عیسیٰ کی تبلیغ رسالت کے بعد لوگ اکثر حضرت مریم کو تنگ کیا کرتے اور اہانت کی باتیں ان سے پوچھا کرتے۔ اور جب کہ اس قدر اختلاف رائے عیسیٰ کی نسبت ان کے دشمنوں میں ہوتا تو مریم کو خطرہ پہنچنے کا اندیشہ تھا، کم سے کم یہ ہوتا کہ وہ بہت وقت و تکلیف میں مبتلا ہوجاتیں۔ ان امور کے لحاظ سے فلن قوی ہوتا ہے
کہ یہ بات حضرت عیسیٰ کی زندگی بھر کسی کو معلوم نہیں ہوئی تھی، مگر سینٹ لوک کے اس فقرہ سے کہ، جیسا کہ وہ یوسف کا بیٹا خیال کیا جاتا تھا، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعد عروج مسیح یہ امر منجملہ ان باتوں کے تھا جو پہلے پہل معلوم ہوگئی تھیں، اور بغیر کسی شبہ کے وہ مان لیا گیا تھا، اور اسی وجہ سے یہ بات انجیل متیٰ اور انجیل لوک میں داخل ہوئی ہے “۔
اس بات کو خود حواری حضرت عیسیٰ کے اور تمام عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مریم کا خطبہ یوسف سے ہوا تھا ۔ یہودیوں کے ہاں خطبہ کا یہ دستور تھا جیسے کہ کیٹوسیکلرپیڈیا میں لکھا ہے کہ شوہر اور زوجہ میں اقرار ہوجاتا تھا کہ اس قدر میعاد کے بعد شادی کرینگے۔ یہ اقرار یا تو ایک باقاعدہ تحریر یا معاہدہ کے ذریعہ سے گواہوں کی موجودگی میں ہوتا تھا جس طرح کہ ہم مسلمانوں کے ہاں نکاح خط لکھا جاتا ہے، یا بغیر تحریر کے اس طرح پر ہوتا تھا کہ مرد عورت کو گواہوں کے سامنے ایک ٹکڑا چاندی کا دے دیتا تھا اور یہ لفظ کہتا تھا کہ یہ چاندی کا ٹکڑا اس امر کی کفالت میں قبول کر کہ اتنے دنوں بعد تو میری زوجہ ہوجاویگی۔
یہ معاہدے حقیقت میں عقد نکاح تھے صرف زوجہ کا گھر میں لانا باقی رہ جاتا تھا، اور وہ اس میعاد پر ہوتا تھا جو اس معاہدہ میں قرار پاتی تھی۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسی کہ مسلمانوں میں فاتحہ خیر ہوتی ہے جو درحقیقت ایک شرعی نکاح ہے، لیکن زوجہ فی الفور گھر میں نہیں لائی جاتی۔ یا جیسے کہ اب بھی بعض دفعہ مسلمانوں میں نکاح بہ تحریر نکاح خط عمل میں آتا ہے اور زوجہ کا شوہر کے گھر بھیجنا کسی آئندہ وقت پر ملتوی رہتا ہے۔
یہودیوں کے ہاں اس رسم کے ادا ہونے کے بعد مرد اور عورت باہم شوہر اور زوجہ ہوجاتے تھے، اور پھر بجز اس کے کہ زوجہ اپنے سو ہر کے گھر رہنے کو اس مدت کے بعد بھیج دی جاوے اور کوئی ایسی رسم جس پر جو اترتزفی منحصر ہو عمل میں نہیں آتی تھی یہاں تک کہ اگر بعد اس رسم کے اور قبل رخصت
کرنے کے ان دونوں سے اولاد پیدا ہو تو وہ ناجائز اولاد تصور نہیں ہوتی تھی، بلکہ بےگناہ شرعی اولاد جائز تصور ہوتی تھی۔ شاید خلاف رسم بات ہونے سے معیوب گنی جاتی ہوگی اور دونوں کو ایک شرم اور خجالت کا باعث ہوتی ہوگی۔
امر مذکورہ کا ثبوت کیٹو سیکلو پیڈیا سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ جب یہ معاہدہ شادی کا یہودیوں میں ہوجاتا تھا تو زن و مرد ایک دوسرے کے دیکھنے کی مجاز ہوتے تھے جس کی ان کو پہلے اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک نسبت شدہ باکرہ کے بطن سے خدا نے اپنے بیٹے کے پیدا ہونے میں یہ حکمتیں رکھی تھیں۔ اول یہ کہ ان پر غیر مشروع اولاد ہونے کا طعنہ عائد نہ ہو۔ دوم یہ کہ ان کے والدین موافق یہودی شریعت کے سزا کے مستوجب نہ ہوں۔ سوم یہ کہ یوسف کے نسب نامہ سے جن کی رشتہ دار مریم تھیں مریم کا نسب نامہ ظاہر ہوجاوے۔ چہارم یہ کہ حضرت مسیح کا ایام طفولیت میں کوئی مربی اور سرپرست ہو۔ ان تمام بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں میں اس طرح نسبت کے بعد اولاد کا پیدا ہونا شرعاً ناجائز نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مریم پر جو بہتان باندھا تھا وہ یوسف کے ساتھ نہیں باندھا تھا، بلکہ پنتھرانالی کے ساتھ منسوب کیا تھا، کیونکہ یوسف ان کے شرعی شوہر ہر چکے تھے ۔ پس کوئی وجہ اس بات کے خیال کرنے کی نہیں ہے کہ یوسف فی الواقع حضرت مسیح کے باپ نہ تھے۔ متیٰ کی انجیل میں جو یہ لکھا ہے کہ یوسف نے جب دیکھا کہ حضرت مریم حاملہ ہیں تو ان کے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا، اگر یہ بیان تسلیم کیا جاوے تو اس کا سبب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عام رسم کے برخلاف حاملہ ہوجانے سے یوسف کو رانج و خجالت ہوئی ہوگی جس کے سبب سے ایسا خیال ہوا ہوگا، مگر جو کہ فی الحقیقت وہ پاک حل تھا اور جو کچھ حضرت مریم کے پیٹ میں تھا وہ روح القدس اور کات اللہ تھا یوسف نے خواہ خود ہی خواہ اپنے خواب کی تائید پر جس کا ذکر سینٹ متیٰ کی انجیل میں ہے وہ خیال چھوڑ دیا۔
اگرچہ ان چاروں مروج انجیلوں کے زمانہ تالیف میں نہایت اختلاف ہے، مگر جو زمانہ کہ علمائے عیسائی نے قریب صحت کے تسلیم کیا ہے اس کی رو سے پایا جاتا ہے کہ متیٰ کی انجیل حضرت عیسیٰ کے بعد دوسرے یا تیسرے سال میں، اور لوک کی انجیل اکتیسویں یا بتیسویں سال میں، اور یوحنا کی انجیل تریسٹھویں یا چونسٹھویں سال، اور مارک کی انجیل اس کے بھی بہت دنوں بعد تحریر ہوئی تھی۔ مگر متیٰ کی انجیل کی نسبت بخوبی ثابت ہے کہ وہ دراصل عبرانی میں لکھی گئی اور موجودہ یونانی انجیل اس کا ترجمہ ہے جس کے متراجم کا نام اور زمانہ ترجمہ اب تک تحقیق نہیں ہوا پس متیٰ کی موجودہ یونانی انجیل بھی قدیم نہیں ہے بلکہ اخیر زمانہ کی لکھی ہوئی ہے۔
یہ تمام انجیلیں اور حواریوں کے نامے اور اعمال جو ان انجیلوں کے اخیر میں شامل ہیں یونانی زبان میں لکھے گئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتابیں عیسائی مذہب کو ان ملکوں میں رواج دینے کے لیے لکھی گئیں تھیں جہاں یونانی زبان مروج تھی اور جہاں کے لوگ زیادہ تر یونانیوں کے سے خیالات رکھتے تھے۔
یونانیوں میں ایک عام خیال تھا کہ نہایت مقدس اور بزرگ شخص کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ ہر کیولیس۔ ڈی اس کو ری۔ رامیولس۔ فیثاغورث۔ افلاطون۔ ان سب کو یونانی خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ اور افلاطون کے حمل میں قصہ کو مثل قصہ حضرت عیسیٰ بیان کرتے تھے غرضیکہ جب حواریوں کو یونانی زبان کے ذریعہ سے دین عیسوی کا پھیلانا مدنظر ہوا تو حضرت عیسیٰ کو ایسے بزرگ لقب سے ملقب کرنا پڑا ہوگا جو ان لوگوں کے خیالات سے مناسب تھا جن کے لیے وہ انجیلیں لکھی گئی تھیں، اس لیے ہمارے نزدیک وہ انجیلیں حضرت عیسیٰ کی ولادت کی نسبت ان خالص خیالات کے ظاہر ہونے کا ذریعہ نہیں ہوسکتیں جو حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں اور ان انجیلوں کے تحریر ہونے سے پیشتر تھا، بااینہمہ ہم انہی انجیلوں میں متعدد جگہ پاتے ہیں کہ یوسف کو حضرت مریم کا شوہر اور حضرت مسیح کو ان کے باپ یوسف کا بیٹا تسلیم کیا ہے۔
انجیل متیٰ باب درس میں لکھا ہے کہ یوسف مریم کا شوہر تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ متیٰ کی انجیل میں حضرت عیسیٰ کے نسب نامہ میں اوروں کی نسبت یونانی لفظ ” اجن نسی “ بیائے معروف استعمال ہوا ہے، جس سے خاص باپ کا بیٹا ہونا پایا جاتا ہے اور حضرت عیسیٰ کی نسبت یونانی لفظ ” جنان “ آیا ہے جس سے اس درس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ” یعقوب سے پیدا ہوا یوسف شوہر مریم جس سے عیسیٰ پیدا ہوا “ مگر ویطسطین نے یونانی زبان کی سند پر ثابت کیا ہے کہ ” جنان “ کا لفظ بھی ماں اور باپ دونوں سے پیدا ہونے پر بولا جاتا ہے ، معہذا اس تغیر کا سبب وہی خیالات ہیں جو یونانیوں میں مذہب عیسوی پھیلانے کی بناء پر پیدا ہوئے تھے۔
لوک کی انجیل باب درسکے موجودہ نسخوں میں یہ لفظ ہیں ” تب یوسف اور اس کی ماں “ مگر اس مقام پر بھی اسی خیال سے تغیر کیا ہے ڈاکٹر گریسباخ کی صحیح اور مقابلہ کرکے چھاپی ہوئی انجیل مطبوعہ لیپسکء اور سندروف کی چھاپی ہوئی انجیل مطبوعہء اور رومن ولگٹ کے ترجمہ انگریزی میں یوسف کا نام نہیں ہے بلکہ ” اس کا باپ اور اس کی ماں “ لکھا ہے اور تروٹوپ نے یونانی انجیل کی شرح میں اسی کی تصحیح کی ہے جس سے یوسف کا بدر مسیح ہونا تسلیم ہوتا ہے۔
لوک کی انجیل کے اسی باب کے درس میں بھی قدیم نسخے الکزنڈریا نوس میں بھی ” گوینس “ کا لفظ ہے جس کے معنی والدین کے ہیں۔
لوک کی انجیل باب درس میں حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ سے کہا کہ ” دیکھ تیرا باپ اور میں غمگین ہو کر تجھے ڈھونڈتے تھے “۔
لوک کی انجیل باب درس و میں یوسف اور مریم کو حضرت عیسیٰ کا ماں باپ کہہ کر تعبیر کیا ہے۔
متیٰ کی انجیل باب درس میں لکھا ہے کہ لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی نسبت کہا کہ ” کیا یہ برھئی کا بیٹا نہیں کیا اس کی ماں مریم نہیں کہلاتی “۔
اور انجیل یوحنا باب درس میں ہے کہ لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت یہ کہا کہ ” کیا یہ یسوع یوسف کا بیٹا جس کے ماں باپ کو ہم پہچانتے ہی نہیں ہے “۔
انجیل یوحنا باب درس میں لکھا ہے کہ فلپ نے نتھنیل کو کہا کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توراۃ میں اور نبیوں نے کیا ہے ہم نے اسے پایا ہے وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔
اعمال حوار میں باب درسمیں تپرس حواری نے حضرت عیسیٰ کے داؤد کی نسل میں ہونے کی نسبت کہا کہ ” خدا نے اس سے (یعنی داؤد سے) قسم کرکے کہا کہ میں تیرے تخت پر بیٹھنے کے لیے جسم کے طور پر تیری کمر سے مسیح کو پیدا کرونگا “۔
سینٹ پال نے اپنے خط موسومہ رومیاں باب درس میں لکھا ہے کہ ” وہ مسیح کے حق میں داؤد کے تخم سے ہوا پر روح قدس کے حق میں جی اٹھنے کی قوی دلیل سے نہیں پیدا ہوا۔ ان تمام سندوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کے زمانہ کے سب لوگ اور خود حواری بھی جانتے تھے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ اپنے باپ یوسف کے تخم سے پیدا ہوئے ہیں نہ کہ بغیر باپ کے، مگر وہ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا روحانی اعتبار سے کہتے تھے اسی خیال سے جس سے کہ یونانی اپنے ہاں کے بزرگوں کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، اور اس بات کو نہایت صفائی سے سینٹ پال نے اپنے خط کی مذکورہ بالا آیت میں بیان کیا ہے۔ زمانہ کے گزرنے پر وہ خیال جس سے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہا محو ہوگیا اور لوگ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھنے لگے، اور اسی کے ساتھ یہ قرار دیا کہ وہ بےباپ کے پیدا ہونے تھے اور ان کی ضد سے یہودیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ نعوذ باللہ وہ ناجائز طور پر پیدا ہوئے تھے۔ یہ اتہام لسمں نے جو تیسری صدی میں تھا کیا تھا اور ظاہراً یہ وہ زمانہ ہے کہ جب عیسائیوں کو اس بات میں کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں زیادہ تر غلو ہوگیا تھا۔
قرآن مجید نے اس بات میں کہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے کچھ بحث نہیں کی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت دو فرقے مخالف موجود تھے ایک فرقہ نہایت نالائقی اور بدی سے یہ کہتا تھا کہ حضرت مسیح بطور ناجائز مولود کے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرا فرقہ یہ کہتا تھا کہ وہ خدا اور خدا کے بیٹے اور ثالث ثلاثہ ہیں۔ قرآن مجید نے ان دونوں فرقوں کے اعتقاد کو رد کردیا اور حضرت مسیح کے مقدس اور روح پاک ہونے پر اور حضرت مریم کی عصمت و طہارت پر گواہی دی، اور اس بات کو کہ وہ خدایا خدا کے بیٹے اور ثالث ثلاثہ ہیں جھٹلا دیا، اور بتلا دیا کہ وہ مثل اور انسانوں کے خدا کے بندے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں بیان ہوا کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے، جہاں تک اشارہ ہے حضرت عیسیٰ کے روح القدس اور کلمۃ اللہ ہونے کا اور حضرت مریم کی عصمت و طہارت کا اشارہ ہے ، جیسا کہ ہم آگے بیان کرتے ہیں۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ جو شخص حضرت مریم کی نسبت تہمت بدلگاوے وہ مسلمان نہیں ہے۔
سورة آل عمران میں ہے کہ جب فرشتوں نے کہا اے مریم بیشک اللہ تجھ کو خوشخبری دیتا ہے ایک کلمہ کی اپنی طرف سے اس کا نام (ہوگا) مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رویت دار دنیا میں اور آخرت میں اور (خدا کے) مقربوں سے اور کلام کرے گا لوگوں سے گہوارہ میں (یعنی بچپنے میں) اور بڑھاپے میں اور ہوگا نیکوں میں سے ۔ مریم نے کہا اے پروردگار کہاں سے ہوگا میرے بیٹا اور نہیں چھوا ہے مجھ کو کسی آدمی نے خدا نے کہا یہی ہوگا اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے جب کہ کوئی کام کرنا ٹھہرا چکتا ہے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس کو کہتا ہے کہ ہو پھر ہوجاتا ہے۔ اور سورة مریم میں ہے کہ پھر ہم نے بھیجا اس کے (یعنی مریم کے) پاس اپنی روح کو پھر وہ بن گئی اس کے لیے ٹھیک آدمی، مریم نے کہا کہ بیشک میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو (خدا سے) ڈرتا ہے، اس نے کہا کہ میں تو صرف تیرے خدا کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تجھ کو پاکیزہ لڑکا دوں، مریم نے کہا کہ کہاں سے ہوگا میرے لڑکا اور نہیں چھوا ہے مجھ کو کسی آدمی نے اور نہ میں بدکار ہوں، اس نے کہا یہی ہوگا تیرے پروردگار نے کہا ہے کہ وہ مجھ پر آسان ہے اور ہم اس کو لوگوں کے لیے نشانی اور اپنی رحمت کرنا چاہتے ہیں اور تمہی یہ بات ٹھہر چکی۔
اذ قالت الملئکۃ یا مریم ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیھا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین ویکلم الناس فی المحد و کھلا و من الصلحین قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسنی بشر قال کذلک اللہ یخلق ما یشاء اذا قضی امرا فانما یقولہ کن فیکون (سورة آل عمران) فارسلنا الیھاروحنا فتمثل لھا بشرا سویا قالت انی اھوذ بالرحمن منک ان کنت تقسیا قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا قالت انی یکون لی غلا ولہ عینی بشرولماک بغیا قال کذلک قال ربک ھو علے ھین ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ مناوکان امرامقضیا (سورة مریم)
فرشتہ کا حضرت مریم کو بیٹا ہونے کی بشارت دینا اور ان کا یہ کہنا کہ مجھے مرد نے نہیں چھوا ہے سینٹ لوک کی انجیل میں بھی مذکور ہے۔ تمام یہودی یقین رکھتے تھے کہ ان میں ایک مسیح پیدا ہونے والا ہے جو یہودیوں کی بادشاہت کو پھر قائم کرے گا اس لیے یہودی اور یہودی عورتیں بیٹا ہونے کی نہایت آرزو رکھتی تھیں اور دعائیں مانگتی تھیں اور عبادتیں کرتی تھیں کہ وہ شخص ہمارا ہی بیٹا ہو۔ ایسی حالتوں میں ان کا اس قسم کی خوابوں کا دیکھنا یا بن بولنے والے کی آوازوں کا سننا یا متخیلہ میں کسی مجسم شے کا دکھلائی دینا ایسا امر ہے جو بمقتضائے فطرت انسانی واقع ہوتا ہے۔ بعض علما کا یہ قول ہے کہ اس سورة میں جو خطاب فرشتوں کا حضرت مریم سے ہے وہ بطریق الہام اور روع فی النفث اور القافی القلب کے ہے۔ مگر مجھ کو کچھ شبہ نہیں جیسے کہ سیاق کلام سے پایا جاتا ہے کہ امر بشارت جو اس سورة میں اور سورة مریم میں بیان ہوا ہے وہ ایک ہی واقعہ ہے اور رویا میں واقع ہوا تھا، اور سینٹ متیٰ کی انجیل سے بھی ایسا ہی مستنبط ہوتا ہے، کیونکہ بموجب اس انجیل کے یوسف کو بھی اس حمل کی خبر خواب میں بذریعہ فرشتہ کے دی گئی تھی۔
بیٹا ہونے کی بشارت حضرت اسحق کو اور ان کی بیوی کو اور حضرت زکریا کو بھی دی گئی تھی پس صرف بشارت سے تو بےباپ کے پیدا ہونا لازم نہیں آتا ہے، ہاں ان بشارتوں پر غور کرنا چاہیے کہ ان میں کوئی ایسا لفظ تو نہیں ہے جس سے بن باپ کے بیٹا پیدا ہونے کا اشارہ نکلے، سو ایسا بھی کوئی لفظ ان بشارتوں میں نہیں ہے۔
سب سے زیادہ غور کے لائق لفظ ” لم یمسنی بشرولم اک بغیا “ ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں کلمے نہایت صحیح ہیں، اور جس زمانہ میں بشارت ہوئی اس زمانہ میں بلاشبہ حضرت مریم کو کسی مرد نے نہیں چھوا تھا، بلکہ غالباً ان کا خطبہ بھی یوسف کے ساتھ نہ ہوا تھا، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے بعد بھی یہ امرواقع نہیں ہوا۔
جس طرح کہ حضرت مریم کو اس بشارت سے تعجب ہوا اسی طرح حضرت اسحاق اور ان کا بیوی اور حضرت زکریا کو بھی تعجب ہوا تھا، جب کہ وہ فرمانے لگیں ” یاویلتی الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا ان ھذا لشیء عجیب “ دوسری جگہ فرمایا ہے ” فاقبلت امرتہ فی صرۃ فصکت وجھہا وقالت عجوز عقیم “ اور حضرت زکریا نے فرمایا ” انی یکون لی غلام وقد بلغنی الکبروامرتی عاقر “ اور دوسری جگہ فرمایا ” وکانت امرتی عاقر وقد بلغت من الکبر عتیا “ حضرت مریم کی حالت اولاد ہونے سے مایوسی کی نہ تھی، اور اسحاق اور ان کی بیوی اور زکریا اور ان کی بیوی کی حالت مایوسی کے قریب تھی، مگر جب ان دونوں سے بیٹے کا پیدا ہونا بغیر باپ کے تسلیم نہیں کیا گیا تو حضرت مریم کے تعجب سے جو صرف اس وقت کی کیفیت پر تھا جب کہ بشارت ہوئی تھی نہ آئندہ کی ہونے والی حالت پر کیونکر حضرت عیسیٰ کے بےباپ کے پیدا ہونے پر استدلال ہوسکتا ہے، اور کیا عجب ہے کہ اس خواب کے بعد ہی حضرت مریم کو اور ان کے مربیوں کو حضرت مریم کی شادی کرنے کا خیال پیدا ہوا ہو جو آخر کار یوسف کے ساتھ عقد ہونے سے پورا ہوا۔
اس تعجب کے بعد فرشتہ نے حضرت مریم سے کہا ” کذلک اللہ یخلق مایشاء “ اسی طرح حضرت زکریا سے کہا تھا کہ ” کذلک اللہ یفعل مایشاء “ حضرت مریم سے کہا ” قال کذلک قال ربک ھو علی ھین “ اسی طرح حضرت زکریا سے کہا کہ ” قال کذلک قال ربک وھو علی ھین “ لفظ ” کن فیکون “ جو سورة آل عمران میں ہے وہ کسی امر کے ہونے پر بلا اسباب قدرتی و فطرتی کے دلالت نہیں کرتا، کیونکہ ہر شے کے ہونے کو خدا اسی طرح فرماتا ہے ” اذا اراد شیئا انما یقول لہ کن فیکون “ پس ہر شے ” کن “ کے حکم سے ہمیشہ قانون قدرت اور قاعدہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے۔ پس یہ الفاظ کسی طرح اس بات پر کہ حضرت مسیح کی ولادت فی الفور بلاقاعدہ فطرت اور بغیر باپ کے ہوئی تھی دلالت نہیں کرتے۔
” ایۃ للناس “ کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ حضرت مسیح کو بغیر باپ کے بطور ایک نشانی معجزہ کے پیدا کیا تھا محض بےجا ہے، اس لیے کہ بےباپ کے پیدا ہونا (اگر بالفرض ہوا بھی ہو) ایسا امر مخفی ہے جو کسی طرح ” ایۃ للناس “ نہیں ہوسکتا۔ ایۃ کا لفظ قرآن مجید میں، فرعون، اصحاب الکہف والرقیم ، قوم نوح، نوح اور اصحاب سفینہ پر بھی اطلاق ہوا ہے۔ حضرت مریم بوجہ اپنی عبادت اور خدا پرستی اور نیکی کے اور حضرت عیسیٰ بہ سبب اس رحم دلی کے جو انجیل سے پائی جاتی ہے خدا کی عمدہ نشانی کے لقب کے مستحق تھے۔
” بکلمۃ منہ “ کے الفاظ یا ” کلمۃ القاھا الی مریم “ کے الفاظ بھی کسی طرح بن باپ کے پیدا ہونے پر دلالت نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد جگہ لفظ ” کلمہ “ کو اپنی طرف منسوب کیا ہے سورة اعراف میں فرمایا ہے ” وتمت کلمۃ ربک الحسنی علے بنی اسرائیل “ اور سورة یونس میں فرمایا ہے ” وکذلک حقت کلمۃ ربک علی الذین نسقوا “ اسی طرح اور بہت سی جگہ آیا ہے۔ اور کلمۃ اللہ سے وہ امور محققہ مراد ہیں جو ہونے والے تھے اور ہوئے اور ہوں گے ۔ حضرت مسیح کا حضرت مریم سے پیدا ہونا ایک امر محقق اور معین تھا، یا یوں کہہ کہ موعود تھا ، پس اسی امر محقق یا موعود کو کلمہ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، اور جس طرح تمام قرآن میں کلمہ کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اسی طرح اس مقام پر بھی کیا ہے۔ ان الفاظ سے بن باپ کے پیدا ہونے پر کچھ بھی اشارہ نہیں نکلتا۔
سورة النسا میں جہاں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی نسبت فرمایا ہے کہ ” کلمۃ القاھا الی مریم “ وہاں یہ بھی فرمایا ہے ” روح منہ “ اس لفظ سے بھی بن باپ کے پیدا ہونا نہیں ثابت ہوتا۔ تمام جانداروں کی نسبت کیا حیوان اور کیا انسان ” روح منہ “ کا لفظ اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ سوائے اس کے اور کسی معنی میں حضرت عیسیٰ کی نسبت اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا، خصوصاً مسلمانوں کے مذہب کے مطابق جو خدا کے یا خدا کی روح کے یا خدا کے کلمہ کے مجسم ہونے کے قائل نہیں ہیں، اور اس کو ” لم یلد ولم یولد “ جانتے ہیں معمندا چند عدائے مفسرین نے بھی جیسا کہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” روح منہ “ سے قریباً قریباً ویسے ہی معنی مراد لیے ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔
اس میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ لوگوں کے لیے دینی زندگی کا سبب تھے، اس لیے ان کو روح سے تعبیر کیا ہے۔ خدا نے قرآن کی صفت میں فرمایا ہے ” کذلک اوحینا الیک روحامن امرنا “ اسی طرح حضرت عیسیٰ کو بھی روح کہا گیا ہے۔ اور روح کے لفظ سے ان کی بزرگی بھی ظاہر ہوتی ہے، جیسے کہ کہتے ہیں کہ یہ تو خدا کی نعمت ہے اور اس سے صرف اس نعمت کا بزرگ اور کامل ہونا مراد ہوتا ہے۔
اور یہ بھی لکھا ہے کہ روح سے رحمت مراد ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ” واید ھم بروح منہ “ کہا ہے ” ای برحمۃ منہ “ اور جب کہ حضرت عیسیٰ خلق کے لیے رحمت تھے تو ان کی نسبت ” روح منہ “ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ سورة مجادلہ میں تمام ایمان والوں کی نسبت کہا گیا ہے ” اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدھم بروح منہ “ پھر حضرت عیسیٰ کی نسبت ایسے الفاظ کا استعمال کسی طرح اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔
سورة مریم میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں ان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ان سے بن باپ کے پیدا ہونے کا اشارہ پایا جاتا ہے، مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ سورة مریم میں حضرت مریم کے رویا کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے انسان کی صورت دیکھی جس نے کہا کہ میں خدا (ماء بمعنی المصدرمع الفعل وانتقا، یرکونوا و باسین لبب کو نکم مالمین ومعلمین وبسبب ھو منکم الکتاب (تفسیر کبیر)
کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تم کو بیٹا دوں، اس کے بعد جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر فے تعقیب کی آئی جیسے کہ فحملۃ۔ فاجاء ھا المخاض، مگر اس فے سے اتصال زمانی مستبنط نہیں ہوسکتا، جیسے کہ مثال مذکورہ بالا سے ظاہر ہے، کیونکہ ان کے حاملہ ہونے اور روزہ شروع ہونے میں اتصال زمانی نہ تھا۔ لوک کی انجیل میں بھی لکھا ہے کہ ” جب مریم کے جننے کے دن پورے ہوئے وہ اپنا پہلوتا بیٹا جنی “ تفسیر کبیر میں بھی مدت حمل نو مہینے یا آٹھ مہینے یا سات مہینے لکھے ہیں۔ ابن عباس کی روایت نو مہینے کی ہے جو صحیح معلوم ہوتی ہے۔ غرضیکہ اس مقام پر جہاں تھے آئی ہے اس سے ہر جگہ خواہ مخواہ اتصال زبانی مستنبط نہیں ہوسکتا ہے۔
اس بات کے سمجھنے کے بعد آیات سورة مریم پر غور کرنا چاہیے کہ جب حضرت مریم نے اپنے رویا میں انسان کو دیکھا تو انھوں نے کہا ” انی اعوذ باللہ منک ان کنت تقیا “ اس نے کہا ” انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا “ حضرت مریم نے کہا ” انی یکون لی غلا ولم یمسنی سرولم اک بغیا “ اس نے کہا ” کذلک قال ربک ھو علی ھین ولنجعلہ ایۃ للناس و رحمۃ منا وکان مرا مقضیاء اس کے بعد ہے ” فحملہ “ پس اس حرف فے سے جو حملۃ پر ہے یہ لازم نہیں آتا کہ بھجرداس گفتگو کے حضرت مریم حاملہ ہوگئی تھیں بلکہ پایا جاتا ہے کہ اس گفتگو کے کسی زمانہ ما بعد میں وہ حاملہ ہوئیں۔ جس وقت کی یہ گفتگو ہے بلاشبہ حضرت مریم کو کسی بشر نے نہیں چھوا تھا لیکن اس کے بعد ان کا خطبہ یوسف سے ہوا اور وہ حسب قانون فطرت انسانی اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوئیں۔
اسی طرح ” فاتت بہ قومھا تحملہ “ کی فے کا حال ہے کہ وہ ولادت کے زمانہ سے متصل نہیں ہے، بلکہ امر مذکورہ ولادت کے بعد کسی زمانہ میں واقع ہوا ہے۔ تفسیر ابن عباس میں لکھا ہے کہ ولادت کے چالیس دن بعد یہ واقعہ ہوا ہے۔ اور تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ یعنی قوم کے پاس لانے کا اور حضرت عیسیٰ کے کلام کرنے کا حضرت عیسیٰ کی صغر سنی میں واقع ہوا تھا، اور ابوالقاسم بلخی کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ جوان ہونے کے قریب تھے جب یہ واقعہ ہوا تھا، چنانچہ تفسیر کبیر کی یہ عبارت ہے ” اختلف الناس فیہ فالجمھو و علی انہ قال ھذالکلام حال صغرہ وقال ابوالقاسم البلخی انہ کما قال ذلک ھین کان کا المراھق الذی یفھم و ان لم یبلغ جدالتکلیف “ (تفسیر کبیر) غرضیکہ علمائے مفسرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تکلم حضرت عیسیٰ ولادت کے متصل نہ تھا۔
قرآن مجید سے صاف پایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں واقعہ ہوا تھا جب حضرت عیسیٰ نبی ہوچکے تھے، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ ” انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا “ تاریخ پر اور انجیلوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی بارہ برس کی عمر تھی (دیکھو انجیل لوک باب ) جب انھوں نے بیت المقدس میں یہودی عالموں سے گفتگو کی، اسی بات پر یہودی عالم ناراض ہوئے اور انھوں نے آکر حضرت مریم سے کہا کہ تیرے ماں باپ تو بڑے نیک تھے تونے یہ کیسا عجیب یعنی بدمذہب لڑکا جنا ہے۔ حضرت مریم نے خود اس کا جواب نہیں دیا اور حضرت عیسیٰ کو اٹھا لائیں، اس وقت انھوں نے فرمایا کہ ” انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا “ اور ممکن ہے کہ یہ واقعہ اس کے بھی بعد ہوا ہو ، یعنی جب کہ حضرت یحییٰ شہید ہوچکے تھے اور حضرت عیسیٰ نے یہودیوں کو سمجھانا اور ان کی بدیوں کو وعظ میں برا کہنا شروع کیا تھا۔
غرض اس قدر تو جملہ علمائے مفسرین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ واقعہ ولادت کے زمانہ کے متصل واقع نہیں ہوا تھا اس کے بعد ہوا، کوئی مدت مابعد کے زمانہ کی چالیس دن اور کوئی قریب عمر مراہق یعنی بارہ برس کے قرار دیتا ہے، اور ہم باستدلال قرآن مجید زمانہ نبوت قرار دیتے ہیں۔
قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ نے ایسی عمر میں جس میں حسب فطرت انسانی کوئی بچہ کلام نہیں کرتا کلام کیا تھا۔ قرآن مجید کے یہ لفظ ہیں ” کیف تکلم من کان فی المھد صبیا “ اس میں لفظ ” کان “ کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے سے ہم کیونکر (لما اتیتکم یقول حین اعطیتکم ) (تفسیر ابن عباس)
کلام کریں جو مہد میں تھا یعنی کم عمر لڑکا ہماری گفتگو کے لائق نہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے کہ ہمارے محاورہ میں ایک بڑا شخص ایک کم عمر لڑکے کی نسبت کہے کہ ابھی ہونٹ پر سے تو اس کے دودھ بھی نہیں سوکھا کیا یہ ہم سے مباحثہ کے لائق ہے۔ ” کان “ کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ اس وقت وہ نہ مہد میں تھے نہ مہد کے لائق تھے، اور اس کے بعد کی آیت سے اس مراد کی اور بھی تائید ہوتی ہے۔ اور بالفرض حضرت عیسیٰ نے اگر عہد میں کلام بھی کیا ہو تو اس سے ان کے بن باپ کے پیدا ہونے پر کیونکر استدلال ہوسکتا ہے۔
یہودیوں کے اس قول سے بھی کہ ” یا مریم لقد جئت شیئا فریا یا اخت ہارون مکان ابوک امرسوء وما کان امک بغیا “ حضرت عیسیٰ کے بن باپ کے پیدا ہونے پر استدلال نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ اس زمانہ میں جب کہ یہودیوں نے حضرت مریم سے یہ بات کہی کوئی بھی حضرت مریم پر بدکاری کی تہمت نہیں کرتا تھا، ورنہ اس آیت میں اس قسم کی تہمت کا اشارہ ہے، فری، کے معنی بدیع و عجیب کے ہیں۔ اس لفظ سے غالباً یہودیوں نے مراد لی ہوگی ” شیئا عظیما منکرا “ مگر اس سے یہ بات کہ انھوں نے اس وقت حضرت عیسیٰ کی نسبت ناجائز مولود ہونے کی تہمت کی تھی لازم نہیں آتی، بلکہ قرینہ اس کے برخلاف ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ نے اس کے جواب میں اس تہمت سے بری ہونے کا کوئی لفظ بھی نہیں کہا، اگر اس وقت یہودیوں کی مراد اس سے تہمت بنسبت حضرت مریم کے اور ناجائز مولود ہونے کی نسبت حضرت عیسیٰ کے ہوتی تو ضرور حضرت عیسیٰ اپنے جواب میں اپنی اور اپنی ماں کی بریت اس تہمت سے ظاہر کرتے۔
صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کی تلقین سے جو خلاف عقائد یہود تھی علمائے یہود ناراض ہو کر حضرت مریم کے پاس آئے جس سے ان کی غرض یہ ہوگی کہ وہ حضرت عیسیٰ کو ان باتوں سے باز رکھیں، اور کہا کہ تیرا باپ اور تیری ماں تو بڑے نیک تھے تونے یہ کیسا عجیب بچہ جنا ہے جو تمام عقائد کے برخلاف باتیں کرتا ہے، حضرت مریم نے کہا کہ اسی سے ہی پوچھو، اس پر یہودیوں کہا کہ وہ کل کا بچہ ہمارے منہ لگنے کے لائق نہیں، اس پر حضرت مریم حضرت عیسیٰ کو اٹھا لائیں اور انھوں نے کہا کہ میں خدا کا نبی ہوں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جو فطرت انسانی کے موافق واقع ہوا اور اب بھی واقع ہوتا ہے۔ شوخ و شریر لڑکے کی ماں سے اس کی شکایت کی جاتی ہے، جو شوخی کہ اس نے کی ہو اس کی نسبت اس کی ماں کہتی ہے کہ اسی سے پوچھو، پس ان الفاظ سے جو قرآن مجید میں ہیں حضرت عیسیٰ کے بن باپ کے پیدا ہونے پر کسی طرح استدلال نہیں ہوسکتا۔ اٹھا لانے کا لفظ اس مقام پر مجازاً بولا گیا ہے، اس سے خواہ مخواہ گود میں اٹھا لانا لازم نہیں آتا۔
سورة انبیاء میں حضرت مریم کی نسبت خدا نے فرمایا ہے ” والتی احصنت مرجھا فنفخنا فیھا من روحنا وجعلنا ماوا بنھا ایۃ للعالمین “ اس سے بھی حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اول تو کوئی مسلمان خدا کی روح کے مجسم ہونے پر اعتقاد نہیں کرسکتا ” احصنت فرجھا “ کے یہ معنی نہیں کہ احصنت فرجھا من کل رجل “ بلکہ یہ معنی ہیں کہ احصنت فرجھا من غیر وجھا۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” احصنت اے عن الفواحش لا نھا تذفت بالزنا “ اس کی نظیر خود قرآن میں موجود ہے تفسیر کبیر میں لکھا ” الحصان بالغتما لمرۃ الحفیفۃ فنعھا فرجہا من الفساد قال تعالیٰ و مریما جنت عمران التی احصنت فرجھا “ ہے کہ حصان کے معنی عفیفہ عورت کے ہیں اور اس کی مثال میں حضرت مریم کی نسبت جو لفظ ” احصنت فرجھہ کا آیا ہے وہی لکھا ہے پس صاف ظاہر ہے کہ اس لفظ سے حضرت مریم کا تہمت بد سے بری ہونا نکلتا ہے نہ حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا۔ محصنات کے معنی عفاف کے اور جگہ بھی قرآن میں آئے ہیں جیسے کہ ” محصنات غیر مسافحات “ محصنین غیر مسافحین “ اور شوہر دار عورت کے بھی آئے ہیں جیسے کہ ” والمحصنات من النساء “ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” یقال امرۃ محصنۃ اذا کانت ذات زوج “ پس حضرت مریم کی سنبت احصنت کا لفظ زیادہ تر صاحب زوج ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
نفخ روح حضرت عیسیٰ میں کچھ دلیل ان کے بن باپ ہونے کی نہیں ہوسکتی۔ تمام انسانوں کی نسبت خدا تعالیٰ نے نفخ روح کہا ہے ، جیسا کہ سورة تنزیل میں فرمایا ہے ” خلق الانسان من طین ثم جعل نسلہ من سلانہ من ماء مھین ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ “ پس جس طرح کہ اور تمام انسانوں میں اللہ اپنی روح نفخ کرتا ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ میں بھی کی تھی۔
سورة آل عمران میں ہے ” ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون “ اس آیت سے بھی حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وفد نجران جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور جو حضرت عیسیٰ ابن اللہ ہونے پر یہ دلیل لاتے تھے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں اس لیے خدا کے بیٹے ہیں اس دلیل کے رد کرنے کو یہ آیت ازل ہوئی۔ اگر یہ روایت صحیح مانی جاوے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا تسلیم کرلیا ہو کیونکہ یہ دلیل بطور دلیل الزامی کے ہے، دلیل الزامی میں اس سے بحث نہیں ہوتی کہ جو مقدر مخالف نے قائم کیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط، بلکہ اس کے مقابلہ میں ایک اور مقدمہ مسلمہ پیش کیا جاتا ہے جس سے مخالف کی دلیل باطل ہوجاتی ہے۔ پس اس مقام پر دلیل الزامی اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ اگر بالخصوص تم بوجہ بن باپ کے پیدا ہونے کے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو حضرت آدم کو جو بن ماں باپ کے پیدا ہوئے ہیں بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا ماننا چاہیے، اور جب کہ تم حضرت آدم کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے تو حضرت عیسیٰ کو صرف بن باپ کے پیدا ہونے سے کیوں خدا کا بیٹا مانتے ہو۔
معہذا اگر لفظ مثل سے حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میں مماثلت مراد ہے تو وہ مماثلت دونوں کی خلقت میں تو ہو نہیں سکتی ، کیونکہ حضرت آدم مٹی سے یا پانی سے پیدا ہوئے تھے، اور وہ تو مہینے نہ کسی عورت کے پیٹ میں رہے اور نہ مثل ایسے انسانوں کے جو نطفہ سے پیدا ہوتے ہیں ان کا حالت نطفہ سے جنین ہونے تک نشو و نما ہوا، برخلاف حضرت عیسیٰ کے پس حضرت عیسیٰ اور حضرت آدم کی پیدائش میں تو کسی طرح مماثلت نہیں ہوسکتی، اور اگر یہ کہا جاوے کہ صرف باپ نہ ہونے میں مماثلت ہے تو یہ بھی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ اول یہ بات ثابت ہونی چاہیے کہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے جب یہ بات ثابت ہوجاوے تو بن باپ پیدا ہونے میں مماثلت کا دعویٰ ہوسکتا ہے، حالانکہ ان کا بےباپ کے پیدا ہونا ابھی تک ثابت نہیں ہے۔ پس اگر مماثلت ہے تو یا تو نفخ روح میں ہے کہ حضرت آدم کی نسبت بھی کہا ہے کہ ” نفخت فیہ من روحی “ اور حضرت عیسیٰ کی نسبت کہا ہے ” فنفخنا فیہ من روحنا “ اور یا صرف مخلوق ہونے میں ہے کہ جس طرح آدم خدا کے بندے اور مخلوق تھے اسی طرح حضرت عیسیٰ بھی خدا کے بندے اور مخلوق ہیں اور اس کی تائید قرآن مجید سے ہوتی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” لم یستنفک المسیح ان یکون عبداللہ “ پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس آیت سے حضرت مسیح کے بن باپ پیدا ہونے پر استدلال کیا جاوے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر جگہ حضرت عیسیٰ کو ابن مریم کہا گیا ہے، اگر ان کا کوئی باپ ہوتا تو ان کی ابننیت باپ کی طرف منسوب کی جاتی نہ ماں کی طرف، مگر یہ دلیل نہایت بودی ہے ، کیونکہ جب قرآن نازل ہوا تو حضرت عیسیٰ یہود اور نصاریٰ دونوں میں ابن مریم کے لقب سے مشہور تھے، وہی مشہور لقب ان کا قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہے، اس سے ان کا بےباپ پیدا ہونا ثابت ہوتا۔