• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 4 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 122

اِذۡ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا ۙ وَ اللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾

تفسیر سرسید :

( اذھمت طائفتان) پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ درحقیقت تمہارے دوست نہیں ہیں ان کو اپنا بھید مت بتلاؤ، وہ ظاہر میں دوست ہیں اور باطن میں دشمن، اس کی مثال میں اللہ تعالیٰ نے جنگ احد کے واقعہ کو یاد دلایا ۔ اس لڑائی میں عبداللہ ابن ابی یہودی بھی تین سو آدمی لے کر شامل تھا، وہ ظاہر میں مسلمانوں سے ملا ہوا تھا مگر دل میں نفاق رکھتا تھا، اور جس طرح پر لڑنا ٹھہرا تھا ان بھیدوں کی اس کو بھی خبر تھی، جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ معہ اپنے تین سو آدمیوں کے بھاگ نکلا۔ اس کو بھاگتا ہوا دیکھ کر بنو سلمہ جو بنی خزرح کے قبیلہ کے تھے اور بنو حارثہ جو اوس کے قبیلہ میں سے تھے اور یہ دونوں گروہ انصار میں سے اور سچے مسلمان تھے گھبرا گئے، اور انھوں نے بھی بھاگنے کا ارادہ کیا مگر پھر دل مضبوط کرکے قائم رہے، اور لڑائی میں ایسی بےترتیبی ہوگئی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دندان مبارک کو بھی صدمہ پہنچا، آخر کار بہزار خرابی پھر سب مسلمان یکجا ہوئے اور دلیری سے اور دشمنوں کو ہزیمت دی۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 123

وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۳﴾

تفسیر سرسید :

( ولقد نصرکم) احد کی لڑائی کی مثال تو خدا نے اس ضرر کے بتانے کی دی تھی جو غیر لوگوں کو بھید کی خبر کردینے سے ہوتا ہے، اب یہ دوسری مثال بدر کے واقع کی دی ہے جس میں کوئی غیر شخص لڑائی کے بھیدوں سے واقف نہ تھا، اور باوجودیکہ مسلمان نہایت کم اور کمزور تھے اور دشمن بہت زیادہ اور قوی اس پر بھی مسلمانوں نے فتح پائی۔
بڑا مسئلہ بحث طلب اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کے لیے اترنا ہے، میں اس بات کا بالکل منکر ہوں، مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کر یا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا ۔ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن مجید سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں ہے، مگر تمام مسلمانوں کا اعتقاد اس کے برخلاف ہے، وہ یقین کرتے ہیں کہ درحقیقت فرشتوں کارسالہ لڑنے کو اترا تھا، وہ نادانی سے یہ بھی کہتے ہیں کہ فرشتوں کا لڑائی کے لیے اترنا منصوص ہے اور اس سے انکار کرنا قرآن کا انکار کرنا ہے، مگر ان کا یہ خیال محض غلط ہے۔
مجھ کو فکر تھی کہ اور کسی مسلمان نے بھی اس سے انکار کیا ہے یا نہیں، تو مجھ کو ایک مسلمان ملا جس نے اس سے انکار کیا ہے، تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ابوبکر اصم اس سے سخت منکر تھے، انھوں نے اپنے انکار کی چار دلیلیں بیان کیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایک فرشتہ بھی تمام دنیا کے غارت کردینے کو کافی تھا پھر فرشتوں کی فوج بھیجنے سے کیا فائدہ تھا۔ دوسرے یہ کہ جو کفار کہ لڑے ان کو سب لوگ جانتے تھے اور جو صحابہ ان کے مقابل ہوئے ان کو بھی لوگ جانتے تھے پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفار کو فرشتوں نے مارا تھا۔ تیسرے یہ کہ اگر فرشتے لڑے تھے تو وہ لوگوں کو دکھائی دیتے تھے یا نہیں، اور اگر دکھائی دیتے تھے تو آدمیوں کی صورت میں دکھائی دیتے تھے یا اور کسی صورت میں، اگر آدمیوں کی صورت میں دکھائی دیتے تھے تو وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر میں شمار ہوتے تھے، اور اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لشکر تین ہزار یا اس سے زیادہ ہوگیا ہوگا، اور اتنا لشکر کسی نے بیان نہیں کیا، اور قرآن کے بھی برخلاف ہے کیونکہ دشمنوں کی آنکھوں میں تھوڑا لشکر دکھائی دیتا تھا، اور اگر اور کسی صورت پر دکھائی دیتے تو تمام لوگوں کے دل پر دہشت پڑجاتی، اور اگر وہ لوگوں کو دکھائی نہ دیتے تو کفار کو لوگ بغیر قتل کرنے والے کے قتل ہوتا ہوا دیکھتے، اور یہ واقعہ اعظم معجزات میں سے ہوتا، مگر اس طرح پر کفاروں کا مارا جانا وقوع میں نہیں آیا۔ چوتھے یہ کہ جو فرشتے آئے تھے ان کے اجسام کثیف تھے یا لطیف
اگر کثیف تھے تو ان کو سب لوگ دیکھتے حالانکہ ان کو کسی نے نہیں دیکھا، اور اگر ان کے اجسام ہوا کی طرح لطیف تھے تو گھوڑے پر سوار ہو کر نہیں آسکتے تھے۔
امام فخرالدین رازی نے ان شبہوں میں سے کسی کا جواب نہیں دیا اور ملانوں کی طرح یہ بات کہی کہ ایسے شبہے کرتا اس شخص کو لائق ہے جو قرآن اور نبوت کا منکر ہو، مگر جو شخص کہ قرآن اور نبوت کو مانتا ہے اس کو ایسے شبہے کرنے لائق نہیں، پس ابوبکر اصم کو لائق نہ تھا کہ ان باتوں کا انکار کرتا باوجود اس کے کہ نص قرآن سے ان کا ہونا پایا جاتا ہے اور ایسی حدیثوں میں جو تواتر کے قریب ہیں ان کا بیان ہے۔
امام صاحب نے اخیر بات تو یقینی غلط کہی ہے ، کیونکہ تواتر تو درکنار کسی صحیح اور قوی حدیث سے بھی ان باتوں کا ثبوت نہیں ہے، تمام ضعیف اور موضوع حدیثیں ہیں جن میں ایسی باتیں مذکور ہیں علمائے محققین ایسی حدیثوں پر اعتبار نہیں کرتے اور اصول حدیث سے بھی ان کی تقویت نہیں ہوتی۔ پہلی بات بھی امام صاحب کی صحیح نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید سے فی الواقع سپاہی بن کر فرشتوں کا اترنا پایا نہیں جاتا، بلکہ صرف وہ ایک بشارت تھی مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کرنے اور لڑائی میں ثابت قدم رہنے کی، جیسے کہ خود خدانی اس جگہ اور سورة انفال میں فرمایا ہے ” وما جعلہ اللہ الا بشری لکم ولتطمئن قلوبکم “ مگر اس سورة میں جنگ بدر کے واقعہ کا جس سے یہ آیت متعلق ہے بہت ہی تھوڑا بیان ہے، اور سورة انفال میں وہ واقعہ بالا ستیعاب بیان ہوا ہے اور اس میں ہزار فرشتوں کی مدد کا ذکر ہے، پس ہم اس کی زیادہ تفصیل اور فرشتوں کی امداد کی حقیقت اور تین ہزار پانچ ہزار اور ایک ہزار کے عدد کے کہنے کی وجہ خدا نے چاہا تو سورة انفال کی تفسیر میں بیان کرینگے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 154

ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغۡشٰی طَآئِفَۃً مِّنۡکُمۡ ۙ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ؕ یُخۡفُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ مَّا لَا یُبۡدُوۡنَ لَکَ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا ؕ قُلۡ لَّوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمۡ ۚ وَ لِیَبۡتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۱۵۴﴾

تفسیر سرسید :

(امنۃ نعاسا) یہ مضمون دو آیتوں میں آیا ہے ایک اسی آیت میں اور دوسرے سورة انفال کی آیت میں جہاں فرمایا ہے ” اذ یغشیکم النعاس امنۃ منہ “ پہلی آیت جنگ احد سے متعلق ہے اور دوسری جنگ بدر سے ۔ جنگ احد میں یہ امر پیش آیا تھا کہ لڑائی شروع ہونے پر مسلمانوں کی فتح اور دشمنوں کی شکست ہونی شروع ہوئی، مسلمانوں کا ایک گروہ تو بدستور لڑنے کی جگہ قائم رہا اور لڑا کیا مگر ایک گروہ نے لوٹ کے لالچ سے ان مقاموں کو جہاں وہ متعین تھے چھوڑ دیا اور لوٹ پر جاپڑے، دشمن اس بےترتیبی کو دیکھ کر پھر پڑے اور خوب مارا یہاں تک کہ فتح شکست ہوگئی اور وہ لوگ جو لوٹ کے لالچ میں پڑے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی وہ لوگ بےتحاشا بھاگ نکلے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ایک پتھر جا لگا جس سے دندان مبارک کو سخت صدمہ پہنچا اور آپ بھی ایک گڑھے میں گرپڑے مگر پھر سنبھل کر لوگوں کو پکارا اور اکٹھا کیا اور ان کے دلوں کو تقویت دی اور دشمنوں پر حملہ کیا وہ بھاگ نکلے اور اخیر کو مسلمانوں کو فتح ہوئی شکست کے بعد جو لوگوں کے دل کو تقویت اور دوبارہ حملہ کرنے کی جرات ہوئی اس کا ذکر خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ان لفظوں سے کیا ہے کہ ” ثم انزل علیکم من بعد الغم امنۃ نعاسا۔
دوسری آیت جو جنگ بدر سے متعلق ہے اس میں یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ مسلمان نہایت اقل قلیل تھے تین سو تک بھی ان کی تعداد نہ تھی اور ہتھیار بھی نہایت کم معددوے چنہ تھے ان کا دفعتہ مقابلہ دشمن کے گروہ کثیر سے جو بخوبی مسلح تھے ہوگیا مسلمانوں پر نہایت مایوسی اور دہشت طاری ہوئی دل چھوٹ گئے دشمنوں کی کثرت سے گھبرا گئے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے دلوں کو تقویت دلائی خدا کے بھروسہ پر لڑنے کو آمادہ کیا سب کے دل میں طمانیت اور جرات پیدا ہوئی دشمنوں سے مقابلہ کیا اور ایسی بہادری و دلیری سے مقابلہ کیا کہ دشمنوں کا دل چھوٹ گیا وہ بھاگ نکلے اور بہت سے مارے گئے ایک قلیل گروہ کو خدا نے جم غفیر پر فتح دی۔ اس پہلی ہراس و مایوسی اور دہشت کے بعد جو تقویت و طمانیت و جرات مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوئی اس کا ذکر خدا نے دوسری آیت میں ان لفظوں سے کیا ہے ” اذیغشیکم النعاس امنۃ منہ “۔
ان دونوں آیتوں میں جو نعاس کا لفظ ہے اس پر لوگوں نے روایتیں گھڑنی شروع کیں اور کہا کہ درحقیقت اس لڑائی میں وہ گروہ جس نے فتح حاصل کی اونگھ گئے تھے، ایک راوی نے ابوطلحہ کا قول نقل کیا کہ ہم ایسے اونگھ گئے تھے کہ ہمارے ہاتھ سے تلوار چھوٹ پڑتی تھی پھر ہم اس کو اٹھاتے تھے اور پھر اونگھ کے مارے چھوٹ پڑتی تھی، پھر ان بےاصل روایتوں پر علما نے طبع آزمانی شروع کی اور کہا کہ ایسے خوف کی حالت میں اونگھ کا آجانا ایک معجزہ تھا اور یہ معجزہ اس لیے ہوا تھا کہ مسلمانوں کا ایمان اور خدا کی قدرت پر یقین اور زیادہ بڑھ جاوے، اور نیند آجانے سے کسل وصنعف رفع ہوجاوے، اور جن لوگوں کو دشمن قتل کررہے تھے ان کا قتل ہونا نہ دیکھیں ، کیونکہ اگر وہ لوگ جو قتل ہونے سے بچ گئے اونگھ نہ جاتے اور اپنے عزیز و اقارب کو قتل ہوتے دیکھتے تو ان پر خوف و بزدلی چھا جاتی۔ اور جو لوگ باوجود اونگھ جانے کے قتل ہونے سے بچ گئے ان کو خدا کی حفاظت پر زیادہ یقین ہوگیا۔ یہ ایسے بیہودہ خیالات ہیں کہ جو کوئی ان کو پڑھتا ہے افسوس کرتا ہوگا۔
ہمارے علمائے مفسرین کی عادت ہے کہ ضعیف اور موضوع اور بےاصل روایتوں کو اپنی تفسیروں کا زیور سمجھتے ہیں اور کیسی ہی ضعیف و بےاصل روایت ان کے کان تک پہنچے قرآن مجید کے اصل مطلب پر غور کئے بغیر قرآن کی آیتوں کو توڑ مروڑ کر ان بےاصل روایتوں کے مطابق کرنا چاہتے ہیں، اسی اپنی عادت کے مطابق انھوں نے ان دونوں آیتوں کو بھی توڑا مروڑا ہے۔
پہلی آیت میں انھوں نے ” امنۃ نعاسا “ کو بدل و مبدل نہ قرار دیا ہے یعنی امنۃ کو مبدل ہنہ اور نعاسا کو بدل اور جو کہ بدل و مبدل منہ میں مقصود بدل ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے قرار دیا کہ خدا نے فی الحقیقت ممیند ہی کو مسلط کیا تھا۔ مگر اس مقام پر بدل کل تو صحیح نہیں ہوسکتا تمام سیاق قرآنی اس مقام پر اس طرح واقعہ ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے احسانوں کو یاد دلاتا ہے اور اپنے تئیں ان کا فاعل بیان کرتا ہے۔ اس آیت کے قبل بیان فرمایا ہے ” واذیعدکم اللہ “ پھر فرمایا ” اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم “ پھر اس آیت کے بعد فرمایا ” اذیوحی ربک “ پس مگر اذیغشکم النعاس کو بمعنی تنعسون لیا جاوے اور فعل متعدی کو بمعنی لازمی قرار دیا جاوے تو تمام سیاق قرآنی الٹ جاتا ہے بلکہ سلسلہ عطف و معطوف کا درست نہیں رہتا، ان تمام خرابیوں کا سبب یہ ہے کہ ان بےاصل روایتوں پر پہلے سے دل میں یقین بٹھا لیا ہے کہ درحقیقت لڑائی میں لوگ سو رہے تھے اور پھر اس کی مطابقت کرنے کو اس قدر تکلف کیا ہے۔
قرآن مجید کی دونوں آیتوں کے معنی نہایت صاف ہیں، کوئی شخص لڑائی میں نہ سویا تھا نہ اونگھا تھا، بلکہ ” امنۃ فعاسا “ سے کنایہ غایت امن اور کامل امن سے ہے۔ انسان اسی وقت سوتا ہے جب کہ اس کو پورا امن ہو اس لیے نعاسا سے غایت امن یا کمل امن کنایہ کیا گیا ہے پس پہلی آیت میں ” امنۃ “ موصوف ہے اور ” نعاسا “ اس کی صفت ہے، مصادر میں تانیث و تذکیر ضروری امر نہیں ہے پس تقدیر کلام کی یوں ہے کہ ” امنۃ کا منۃ النعاس “ یعنی نیند کا سا امن۔ جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شکست ہونے کے بعد لوگوں کا دل بڑھایا اور ہمت دلائی تو خدا نے ان کے دلوں پر کامل اور غایت درجہ کا امن اور تسلی و طمانیت ڈالی کہ وہ شکست کے بعد پھر لڑے اور دشمنوں پر فتح پائی۔
تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس آیت میں ” نعاس “ کے لفظ سے کنایہ غایت امن کا ہے، لیکن اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ بغیر کسی دلیل کے لفظ نعاس کے حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی لیے جاتے ہیں، مگر یہ اعتراض ان کا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس جگہ لفظ نعاس کو مجازی معنوں میں لینے کے لیے خود سورة انفال کی آیت دلیل موجود ہے جیسے کہ ہم بیان کرتے ہیں۔
اور جب کہ ہم نعاس کو امن کامل سے کنایہ کہتے ہیں تو اگر ” امنۃ نعاسا “ کو بدل و مبدل منہ ہے قرار دیں تو بھی کچھ ہرج نہیں ہے، کیونکہ امن کامل اور امن میں اتحاد ذاتی ہے اس صورت میں ” امنۃ نعاسا “ بدل کل ہوجاویگا جیسے کہ سورة انفال کی آیت میں ہے۔
جو معنی کہ مفسرین نے سورة انفال کی آیت کے لیے تھے ان کی غلطی اور بےترتیبی ہم نے اوپر بیان کردی ہے، اور وہ بےترتیبی اس لیے کی گئی تھی کہ جو غلط معنی سورة آل عمران کی آیت کے قرار دیئے تھے اسی کے مطابق سورة انفال کی آیت کے معنی ہوجاویں، لیکن جب ان تمام خیالات کو جو پہلے سے دل میں بٹھا لیے ہیں دور کردیا جاوے تو سورة انفال کی آیت کے معنی صاف ہوجاتے ہیں اور سورة آل عمران کی آیت کے معنی اس مطلب کے بالکل مطابق ہیں جو ہم نے بیان کیا ہے۔
سورة انفال کی آیت کے یہ لفظ ہیں ” اذیغشیکم النعاس امنۃ منہ “ یعنی جب کہ چھا دیا تم پر خدا نے اونگھ کو کہ وہ امن تھا خدا کی طرف سے۔ اس آیت میں ” نعاس “ کا لفظ مبدل منہ ہے اور ” امنۃ “ موصوف ہے اور ” منہ “ جار مجردر نازلۃ کے متعلق ہو کر صفت ہے موصوف کی اور موصوف صفت دونوں مل کر بدل ہیں مبدل منہ سے جیسے کہ آیت ” بالناصیۃ ناھیۃ کاذبۃ “ میں ہے۔ بدل و مبدل منہ میں مبدل منہ مقصود بالذات نہیں ہوتا بلکہ بدل مقصود بالذات ہوتا ہے، پس ظاہر ہے کہ نعاس مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ امن من اللہ مقصود بالغات ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ درحقیقت نعاس نازل نہیں ہوا تھا بلکہ امن نازل ہوا تھا اور نعاس کا لفظ صرف امن کامل سے کنایہ ہے۔ امن کامل سے امن من اللہ زیادہ تر افضل ہے اس لیے اس کا بدل ” امنۃ منہ “ لایا گیا ہے، یہ معنی ایسے صاف ہیں جن کو ہر شخص اونے غور کے بعد تسلیم کرسکتا ہے اور دونوں آیتوں میں بلا کسی تکلف کے مطابقت ظاہر ہوتی ہے اور پہلی آیت میں نعاس کے لفظ کو کنایہ غایت امن سے قرار دینے کو خود دوسری آیت بطور دلیل کے موجود ہے ، فافھم و تدبر۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 178

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ خَیۡرٌ لِّاَنۡفُسِہِمۡ ؕ اِنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۱۷۸﴾

تفسیر سرسید :

( ولا یحسبن الذین) اس آیت کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں مفسرین کے تمام طب و یایس اقوال نقل کئے ہیں، ان میں سے صرف قول بہم بلخی کا صحیح و درست ہے جس کو ہم اس آیت کی تفسیر میں کافی سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ” مرے ہوئے شخص کا جب دین کے لحاظ سے بہت بڑا درجہ ہو اور قیامت میں اس کو خوشی اور بزرگی اور سعادت نصیب ہونے والی ہو تو اس کی نسبت یہ کہنا کہ وہ زندہ ہے مرا نہیں صحیح ہے، جیسے کہ ایک جاہل کی نسبت جس سے نہ اس کی ذات کو نفع پہنچتا ہو نہ کسی دوسرے کو یہ کہنا صحیح ہے کہ وہ مردہ ہے زندہ نہیں ہے، اور جیسے کہ احمق آدمی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ گدھا ہے ، اور موذی آدمی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ درندہ ہے۔ کہتے ہیں کہ جب عبدالملک بن مروان زہری سے ملے اور ان کے تفقہ اور تحقیق کو جانا تو ان کے باپ کی نسبت جو مرچکے تھے کہا کہ وہ شخص نہیں مرا جس نے تجھ سا بیٹا چھوڑا، غرض کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ انسان جب کہ مرجاوے اور کوئی اچھا کام اور کوئی اچھی یادگاری چھوڑ جاوے تو اس کی نسبت بطریق مجاز کہا جاتا ہے کہ وہ مرا نہیں بلکہ زندہ ہے، اسی طرح اس آیت میں شہدا کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔
تمام الفاظ جو اس آیت میں آئے ہیں دو اسی مطلب پر دلالت کرتے ہیں جو اصم بلخی نے بیان کیا ہے، مثلاً اس آیت میں ہے کہ ” بل احیاء عندربھم “ یعنی بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے نزدیک، اس لفظ سے کہ اپنے پروردگار کے نزدیک زندہ ہیں ثابت ہوتا ہے کہ ان کی زندگی زندہ انسانوں کی سی زندگی نہیں ہے، اور نہ اس زندگی کو ابدا ان سے کچھ کچھ تعلق ہے۔ ” یرزقون فرحبن “ کے بعد آیا ہے ” بما اتاھم اللہ “ یعنی ان رزق دیا جانا اور خوش ہونا ان اشیاء یا اسباب سے نہیں ہے جس سے ایسے زندے جن کو تعلق ابدان سے ہوتا ہے رزق دیئے جاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، بلکہ ان کا رزق دیا جانا اور خوش ہونا اس چیز سے ہے جو خدا نے ان کو دی ہے۔ پھر آگے اس کا بیان کیا ہے کہ وہ چیز کیا ہے، وہ اللہ کا فضل ہے۔ پس معنی یہ ہوئے کہ وہ اللہ کے فضل اور کرم ورحمت سے رزق دیئے جاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں نہ مثل زندہ انسانوں کے اشیاء خوردنی و نوشیدنی سے۔
تفسیر کبیر میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ ” قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابیت عند ربی یضعنی و یقینی “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ایک رات خدا کے پاس مہمان رہا وہ مجھ کو کھلاتا تھا اور مجھ کو پلاتا تھا۔ اس پر امام رازی ارقام فرماتے ہیں کہ کچھ شک نہیں کہ اس کھانے اور پینے سے، معرفت و محبت الٰہی اور انوار عالم غیب سے اکتساب نور مراد ہے۔ ہم اس وقت نہ اس حدیث کی صحت وعدم صحت پر بحث کرتے ہیں، نہ اس کے معنوں پر بلکہ اس مقام پر اس کو صرف اس لیے نقل کیا ہے کہ علمائے اسلام نے متعدد جگہ طعام و شراب سے یعنی رزق سے وہ معنی مراد لیے ہیں جو ارواح سے متعلق ہوتے ہیں نہ ابدان سے۔ اب یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا چیز باقی رہتی ہے، جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ ” یرزقون فرحین من فضلہ “ اس کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ چیز باقی رہتی ہے جس کو روح کہتے ہیں۔ روح کی اور اس کی بقا کی اور اس کی فرحت والم کی بحث نہایت دقیق و طویل ہے ہم اس کو اس مقام میں مخلوط کردینا نہیں چاہتے، بلکہ اس بحث کو جہاں تک کہ ہماری سمجھ اور ہمارے خیال کی رسائی ہے، اور جہاں تک کہ قرآن مجید سے اس کو ہم مستنبط کرسکے ہیں اور جو ایک ایسی بحث ہے کہ انسان کی زندگی میں تجربہ میں نہیں آسکتی سورة بنی اسرائیل کی اس آیت کی تفسیر میں بیان کرینگے جس میں خدا نے فرمایا ہے ” قل الروح من امر ربی “
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 183

اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیۡنَاۤ اَلَّا نُؤۡمِنَ لِرَسُوۡلٍ حَتّٰی یَاۡتِیَنَا بِقُرۡبَانٍ تَاۡکُلُہُ النَّارُ ؕ قُلۡ قَدۡ جَآءَکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِیۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیۡ قُلۡتُمۡ فَلِمَ قَتَلۡتُمُوۡہُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۸۳﴾

تفسیر سرسید :

( ویاتینا بقربان تاکلہ النار) یہودی جس جانور کی قربانی بنظر تقرب الی اللہ یا بطور کفارہ گناہ کرتے تھے اس کو ذبح کرنے کے بعد آگ میں جلا دیتے تھے، توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم حضرت آدم اور حضرت نوح کے وقت سے چلی آتی تھی، تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بت پرست لوگوں میں اور یونانی بت پرستوں میں بھی یہ رسم تھی، مذہب اسلام اس قسم کی قربانیوں کے بالکل بر خلاف تھا۔ اس پر یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قسم کی قربانیوں کے بالکل برخلاف تھا۔ اس پر یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ توراۃ میں حکم ہے کہ کسی نبی پر جب تک کہ وہ ایسی قربانی نہ کرے جس کو آگ جلادے ایمان نہ لاؤ۔ خدا نے ان پر حجت الزامی قائم کی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے تمہارے پاس انبیاء صریح نشانیاں لے کر آئے اور جس طرح کہ تم کہتے ہو اسی طرح کی قربانی بھی انھوں نے کی، پھر تم نے کیوں ان کو مارڈالا اگر تم سچے ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ تمہارا یہ بیان کہ توراۃ میں ایسا حکم ہے اور تمہارا یہ کہنا کہ جو نبی ایسی قربانی کرے اس پر ایمان لاؤ گے یہ دونوں باتیں سچ نہیں ہیں۔
ہمارے علمائے مفسرین نے اس مقام پر بڑی غلطی کی ہے، انھوں نے یہودیوں کی بعض یہودہ روایتوں سے یہ سن لیا کہ جو قربانی آگ سے جلائی جاتی تھی اس کے جلانے کو آسمان پر سے ایک سفید آگ بغیر دھوئیں کے ایک سنسناہٹ کی ساتھ اترتی تھی، اور قربانی کئے ہوئے جانور کو جلا کر خاکستر کر جاتی تھی۔ انھوں نے سمجھا کہ ابنیائے بنی اسرائیل کا یہ معجزہ تھا اور یہودیوں نے یہی معجزہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلب کیا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ معجزہ تو نہیں دکھایا مگر اور دلیلوں سے ان کو ساکت کردیا۔ یہ خیال مفسرین کا محض غلط ہے، توراۃ میں کہیں یہ حکم نہیں ہے کہ جب تک کوئی نبی آگ سے جلنے والی قربانی نہ کرے اس پر ایمان مت لاؤ۔ اور نہ توراۃ میں کہیں اس بات کا ذکر ہے کہ قربانی کے جلانے کو آسمان پر سے آگ اترتی تھی۔
قربانی سو ختنی کا ذکر بہت جگہ توراۃ میں آیا ہے، حضرت موسیٰ نے اس کے قواعد مقرر کئے ہیں اور وہ سب قواعد (جن کو پڑھ کر تعجب ہوتا ہے) توراۃ سفر ادیان میں مندرج ہیں، ان سے ثابت ہے کہ قربانی سو ختنی کو کاہن آگ جلا کر اس میں جلا دیتا تھا، چنانچہ باب اول سفرلویان درس میں لکھا ہے کہ ” قربانی سوختنی راہ پوست کندہ آنراپارہ پارہ نماید و پسران ہارون کاہن آتش رابر مذبح بگذارند رہیزم سابالائے آتش بچنید “ اسی طرح اور بہت سے مقام ہیں جن میں ذکر ہے کہ کاہن آگ جلا کر اس میں قربانی سو ختنی کو جلاتے تھے نہ یہ کہ آسمان پر سے آگ اترتی تھی۔
انسان کے گناہوں کے کفارہ میں قربانی کرنا اور اقسان کے جرم کے سبب ایک جاندار کی جان مارنا اور یہ سمجھنا کہ انسان اس گناہ سے پاک ہوگیا ایک عجیب و غریب خیال ہے جو نہایت تاریکی اور جہالت کے زمانہ میں لوگوں کو پیدا ہوا تھا۔ عام جاہلوں کے خیال کا بقیہ ہر ایک زمانہ میں چلا آتا ہے، اور کیسا ہی بڑا مصلح ہو کچھ نہ کچھ اس کا دھبہ اس کے زمانہ میں بھی باقی رہتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) ایسے امور کی جو خدا کی وحدانیت اور ایمان کے برخلاف نہ تھے، اور ایسے امور کی جس نے تمام جاہلوں کے خیال میں کسی قسم کا خیال تقدس و تقرب الے اللہ پیدا ہوتا تھا (گو فی نفسہ وہ بےاصل ہی ہو) کچھ پروا نہ کرتے تھے اور اسی حال پر چھوڑ دیتے تھے، یہی سبب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قدیم رسم کو جاری رہنے دیا، لیکن نبی آخر الزمان کا یہ کام تھا کہ اس قسم کے خیالات کو بھی توڑ دے ۔ کسی قربانی کا حکم بطور انسانی گناہ کے کفارہ کے قرآن مجید میں نہیں آیا ہے، حج کی قربانیاں درحقیقت مذہبی قربانیاں نہیں ہیں، نہ ان کی فرضیت قرآن مجید سے یا نص صریح سے پائی جاتی ہے، یہی سبب ہے کہ ہمارے علمائے مجتہدین نے کتب فقہ میں کسی قربانی کو فرض نہیں قرار دیا ہے، زیادہ سے زیادہ جو کوشش کی ہے تو واجب لکھا ہے اور ہم کو اس میں بھی کلام ہے۔
اسلام نے کوئی قربانی بطور تقرب الے اللہ یا بطور کفارہ گناہ مقرر نہیں کی، یہودی سمجھتے تھے کہ بدون قربانی سو ختنی انسان پاک نہیں ہوسکتا، پھر وہ کیونکر ایسے نبی پر ایمان لاتے جس کے ہاں انسان کے گناہوں کے کفارہ کے لیے نہ قربانی تھی نہ قربانی سوختنی، وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم ایسے نبی پر ایمان لائے تو گناہوں سے کیونکر پاک ہوں گے ۔ مگر وہ نہ سمجھے کہ اسلام نے گناہوں سے پاک ہونے کے لیے کسی بےگناہ جانور کے مارنے کے بدلے خود گناہ گار کے دل کی قربانی مقرر کی ہے جس کو مذہبی اصطلاح میں توبہ و استغفار سے تعبیر کیا ہے، اور یہی قربانی حقیقت میں حقیقی قربانی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 3

وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ؕ﴿۳﴾

تفسیر سرسید :

(فان خفتم الا تقسطوا فی الیتمیٰ ) یتامی جمع الجمع ہے۔ یتیم کی اور یتیم اس کو کہتے ہیں جس کا باپ مرگیا ہو یعنی سرپرست سے تنہا رہ گیا ہو۔ یہ لفظ لڑکوں پر اور لڑکیوں پر اور جن عورتوں کا نکاح ہونے سے پہلے باپ مرگیا ہو اطلاق ہوتا ہے گو کہ وہ جوان ہوگئی ہوں۔ اس پر تفسیر کبیر میں مفصل بحث لکھی ہے مگر اس کا حاصل مطلب اسی قدر ہے جو ہم نے بیان کیا اس مقام پر ” یتامی “ سے صرف لڑکیاں اور بن بیاہی عورتیں جن کے باپ مرگئے ہیں مراد ہے۔
اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں یتیم لڑکیوں یا عورتوں کے حق میں ناانصافی کرنے کا امتناع ہے اس مقام پر بنظر مزید احتیاط یہ فرمایا ہے کہ اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے میں ان کے مال اور ان کے حقوق میں انصاف نہ کرو گے تو اور عورتوں سے نکاح کرو۔ اس سے غایت درجہ کی احتیاط یتیموں کے مال اور حقوق کی حفاظت کی پائی جاتی ہے۔
روی عن عروۃ انہ قال قلت لعایشۃ ما معنی قول اللہ وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فقالت یا این اختیھی الیتیمۃ تکون فی حجر ولیھا فیوغب فی مالھا وجمالھا الا انہ یریدان ینکھا باذنی من صدا قہا ثم اذا تزوج بھا عاملھا معاملۃ رویۃ لعلم بانہ لیس لھا من یذب عنھا ویدفع شرذلک والزوج عنہا فقال تعالیٰ وان خفتم ان تظموالیتامی عند نکاحھن فانکحوا من غیر ھن ما طاب لکم من النساء (تفسیر کبیر)
تفسیرکبیر میں عروہ سے ایک روایت لکھی ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ ان خفتم الا تقسطوافی الیتمیٰ اس کے کیا معنی ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ یتیم لڑکی اپنے ولی کی حفاظت میں ہوتی ہے اور روہ اس کے مال و جمال کی لالچ کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تھوڑے سے مہر پر اس سے نکاح کرلے اور پھر جب نکاح کرلیتا ہے تو بدسلوکی سے پیش آتا ہے اور اس کا کوئی ایسا سرپرست نہیں ہوتا کہ اس کی حمایت کرے اور اس کے خصم کی بدسلوکی سے اس کو بچاوے اس پر خدا نے فرمایا کہ اگر تم کو ڈر ہو کہ نکاح کرلینے سے یتیم لڑکیوں پر ظلم کرو گے تو اور عورتوں سے نکاح کرو۔
جو تفسیر آیت کی حضرت عائشہ نے فرمائی اور سیاق کلام بھی اسی پر دلالت کرتا ہے اس کے لحاظ سے تقدیر کلام یوں ہے کہ ” ان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فلا تنکحوھن وانکحوا من غیر ھن ما طاب لکم من النساء “ یعنی اگر تم کو ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرو گے تو ان سے نکاح مت کرو اور ان کے سوا اور عورتوں سے جو پسند ہوں نکاح کرو۔ فلا تنکحوھن گویا جزاے مخدوف ہے اور ” فانکحوا ما طاب لکم “ اس پر معطوف ہے، جزا کو مخدوف کرکے معطوف علیٰ الجزا کو اس کی جگہ فرمایا ہے اس میں ایک نہایت دقیق نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ” فلا تنکحوھن “ کو مخدوف نہ کیا جاتا تو یہ شبہ پیدا ہوتا کہ یتامیٰ سے ان کے اولیاء کا نکاح قطعاً ممنوع ہے حالانکہ امتناع صرف تصرف مال اور ان کے حقوق میں ناانصافی کرنے سے متعلق تھا۔
نکاح درحقیقت دو شخصوں میں ایک معاہدہ ہے مثل دیگر معاہدوں کے، مگر یہ ایک ایسا معاہدہ ہے کہ اس کے مثل کوئی دوسرا معاہدہ نہیں ہے، اور ایک ایسا معاہدہ ہے جو فطرت انسانی کا مقتضی ہے، اور اس سے بالتخصیص ایسے احکام بمقتضائے فترط انسانی متعلق ہیں جو دوسرے کسی معاہدہ سے متعلق نہیں ہیں، اور وہ احکام ایک نوع کے مذہبی احکام ہوگئے ہیں، اس لیے نکاح عام معاہدوں سے خاص ہو کر ایک مذہبی معاہدہ میں داخل ہوگیا ہے اور بلحاظ اس کی خصوصیات کے ٹھیک ٹھیک ایسا ہی ہونا لازم تھا۔
عورت بہ نسبت مرد کے اس معاہدہ کے نتائج کے لیے محل ہے، اس لیے وہ مجاز نہیں ہوسکتی کہ ایک سے معاہدہ کرنے کے بعد اور اس معاہدہ کے نسخ ہونے کے قبل دوسرے سے معاہدہ کرے، اسی وجہ سے اسلام نے بمقتضاے فطرت انسانی عورت کو ایک وقت میں تعدد ازواج کی اجازت نہیں دی، مگر مرد کی حالت اس کے برخلاف ہے۔ اور علاوہ اس کے مرد کے ساتھ اور اقسام کے ایسے تمدنی امور متعلق ہیں جو عموماً عورت سے متعلق نہیں ہیں، اس لیے وہ عدم جواز مرد سے بعینہ متعلق نہیں ہوسکتا تھا ۔ پس مرد کو کسی ایسی شرط کے ساتھ جو بجز خاص حالت کے اس کو بھی تعدد انرواج سے رد کے مجاز رکھنا بمقتضاے فطرت نہایت مناسب تھا، ان تمام دقایق کی رعایت مذہب اسلام نے اس عمدگی سے کی ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ اپنے فطرت کی طرف سے ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس کو نہایت بری طرح پر استعمال کیا ہے۔
فطرت اصلی جب کہ اس میں کوئی اور عوارض داخل نہ ہوں تو اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ مرد کے لیے ایک ہی عورت ہونی چاہیے، مگر مرد کے جسے امور تمدن سے بہ نسبت عورت کے زیادہ تر تعلق ہے ایسے امور پیش آتے ہیں جن سے بعض اوقات اس کو اس اصلی قانون سے عدول کرنا پڑتا ہے ، اور حقیقت میں وہ عدول نہیں ہوتا بلکہ دوسرا قاعدہ قانون فطرت کا اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ قاعدہ قرار پاتا کہ جب تک ایک عورت سے قطع تعلق نہ ہوجائے تو دوسری عورت ممنوع رہے، تو اس میں ان عورت پر اکثر حالت میں نہایت بےرحمی کا برتاؤ جائز رکھا جاتا، اور اگر اس قطع تعلق کو اس کی موت پر یا کسی خاص فعل کے سرزد ہونے پر منحصر رکھا جاتا تو مرد کو بعض صورتوں میں منہیات پر رغبت دلانی ہوتی اور بعض صورتوں میں اس کی ضرورت تمدن کو روکنا ہوتا، پس مرد کو حالات خاص میں تعدد ازواج کا مجاز رکھنا فطرت انسانی کے مطابق عمدہ فوائد پر مبنی تھا۔
اگر ایک عورت ایسے امراض میں مبتلا ہوجاوے کہ اس کی حالت قابل رحم ہو مگر معاشرت کے قابل نہ رہے ، کوئی عورت عقیمہ ہو جس کے سبب مرد کی خواہش اولاد پوری نہ ہوسکتی ہو (اور جو ایک ایسا امر ہے کہ انبیاء بھی اس کی تمنا سے خالی نہ تھے) تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ ایک بےرحمانہ طریقہ اس سے قطع تعلق کا اختیار کئے بغیر دوسری عورت جائز نہ ہو، یا اس کی موت کی انتظار میں مرد کو ان امیدوں کے حاصل کرنے میں جو بلحاظ تمدن اس کے لیے ضروری ہیں روکا جاوے۔ یہ ایسے امور ہیں کہ بمقتضائے فطرت انسانی رک نہیں سکتے، اور جب روکے جاتے ہیں تو اس سے زیادہ خرابیوں میں مبتلا کرتے ہیں۔
ہاں تعدد ازواج کے جائز رکھنے کے ساتھ اس بات کی روک ضرور تھی کہ سوائے حالت ضرورت کے کہ وہ بھی بمقتضائے فطرت انسانی ہو اس جواز کو خواہش نفسانی کے پورا کرنے کا ذریعہ نہ بنادیا جاوے (جیسا کہ مسلمانوں نے بنایا ہے) پس اسلام نے نہایت خوبی اور بےانتہا عمدگی سے اس روک کو قائم کیا ہے، جہاں فرمایا ہے کہ ” فان خفتم الا تعدلوا نواحدۃ “ یعنی اگر تم کو ڈر ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی جورو چاہیے۔ لفظ ” ان خفتم “ زیادہ تر غور کے لائق ہے کیونکہ کوئی انسان ایسا نہیں ہے کہ جس کو کسی وقت اور حالت میں بھی خوف عدم عدل نہ ہو۔ پس قرآن کی رو سے تعدد ازواج کی اجازت اسی حالت میں پائی جاتی ہے جب کہ محل عدل بمقتضائے فطرت انسانی باقی نہ رہے، کیونکہ صحیح طور سے اسی وقت عدم خوف عدل صادق آسکتا ہے۔ ایسی حالت میں بھی اسلام نے تعدد ازواج کو بلکہ نفس نکاح کو بھی لازم نہیں کیا کیونکہ اس مقام پر ” فانکحوا “ صیغہ امر کا (جیسا کہ اور مفسر بھی تسلیم کرتے ہیں) وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ جواز کے لیے ہے۔
اس آیت میں جس لفظ پر بحث ہوسکتی ہے وہ لفظ ” عدل “ ہے علمائے اسلام نے عدل کو صرف رہنے میں باری باندھنے اور نان و نفقہ دینے میں مخصوص کیا ہے، اور میل قلبی یعنی محبت و نسبت ہوا میں اور اس امر میں جو خاص زوجیت سے متعلق ہے عدل کو متعلق نہیں کیا۔ انھوں نے ایک حدیث سے اس کا استنباط کیا ہے جس کے یہ لفظ ہیں ” ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کان یقسم بین نساہ فیعدل ویقول اللھم ھذا قسمی فیما، ملک فلا تلمنی فیما تملک ولا املک “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باری باندھتے تھے اپنی بیویوں میں اور عدل کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا یہ میری تقسیم ہے جس میں میں مالک ہوں پھر تو مجھ کو ملامت مت کر اس میں جس میں تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ہوں “ ترمذی نے لکھا ہے کہ بعض علما نے بیان کیا ہے کہ ان اخیر لفظوں سے محفت و مووت مراد ہے۔ اور لمعات میں اس امر کو بھی جو خاص زوجیت سے متعلق ہے اسی میں داخل کیا ہے۔
مگر ہم کو اس میں کلام ہے۔ اول تو اس حدیث کی صحت قابل بحث ہے اس حدیث کے دو سلسلے ہیں ایک حماد بن سلمہ سے اور ایک حماد بن زید اور آذر لوگوں سے، حماد بن سمہ نے اپنے سلسلہ کو حضرت عائشہ تک ملا دیا ہے اور حماد بن زید اور آذر لوگوں نے صرف ابی قلابہ تک چھوڑ دیا ہے یعنی ان کی حدیث مرسل ہے، ترمذی نے پہلے سلسلہ کو کافی اعتبار کے لائق نہیں سمجھا اور کہا کہ دوسرا سلسلہ یعنی حماد بن زید کا زیادہ صحیح ہے مگر جب کہ وہ خود مرسل ہے تو کافی اعتبار کے لائق نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ الفاظ ” فلا تلمنی فیما تملک ولا املک “ سے کسی امر کی طرف کنایہ ہے اس کو میل قلبی یعنی محبت و موانست پر مخصوص و متعین کرلینے اور بالتخصیص اس امر سے بھی متعلق کردینے کی جو خاص زوجیت سے متعلق ہے کوئی وجہ نہیں ہے، بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت و شان اور ان کی نیک ملینت و پاکیزگی طبیعت کے بالکل بر خلاف ہے، کیا یہ انبیاء کی شان سے ہے جو وہ یہ کہیں کہ اے خدا جس پر میرا دل آجاوے تو اس میں تو مجھ کو معاف کر، یا جس کے ساتھ میں وہ امر نہ کروں جو خاص زوجیت سے متعلق ہے تو تو مجھ کو ملامت مت کر۔ افسوس ہے کہ بعض دفعہ اکابر بھی قدر ومنزلت نفوس قدسیہ انبیاء کو بھول جاتے ہیں اور اپنے نفوس پر قیاس کرکے وہی خفیف و نازیبا باتیں جو ان کے نفوس میں ہیں نفوس قدسیہ انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں وشان الانبیاء اعلیٰ واجل وارفع مما یظنون۔
اگر اس حدیث کو واقعی تصور کرلیا جاوے اور اس کے الفاظ بھی وہی تسلیم کئے جاویں جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے تھے ، جس کا یقیناً تسلیم کرلینا نہایت مشکل ہے، تو ممکن ہے کہ ان الفاظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہو جو قصاو قدر الٰہی سے واقع ہوتے ہیں اور جن میں انسان کا کچھ اختیار نہیں ہے، مثلاً امراض میں سے کسی کو کسی مرض کا لاحق ہوجانا یا ایک کا ذمی ولد اور ایک کالا ولد ہونا وغیر ذلک، نہ ان امور کی طرف جو خواہش نفسانی سے علاقہ رکھتے ہیں کیونکہ انبیاء کی قدرو منزلت کا اولیٰ درجہ ان کا خواہش نفسانی کے مطیع نہ ہونے کو یقین کرنا ہے۔
تیسرے یہ کہ باری کی اور نان و نفقہ کی تقسیم میں مساوات جس کو ایک حریص علیٰ ، الازواج کرسکتا ہے کوئی ایسا امر مشکل اور مہتم یا نشان نہ تھا جس کی نسبت لفظ ” فان خضتم “ استعمال ہوتا۔
یہ لفظ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے کوئی ایسا امر عظیم الشان مراد ہے جس کی بجاآوری بجز ان نفوس قدسیہ کے جو فی الحقیقت نفسانی خواہشوں کے مطیع نہیں ہیں یا اس حالت میں جب کہ بمقتضائے فطرت انسانی محل عدل باقی نہیں ہے اور کسی طرح پر ہو نہیں سکتی۔
چوتھے یہ کہ ۔ عدل کے لفظ میں میل قلبی کو داخل نہ سمجھنا ایک بڑی غلطی ہے۔ بلکہ جو تعلقات کہ باہم زن و شوہر کے ہیں ان میں میل قلبی سب سے معتدم امر ہے اور اس لیے لفظ عدل بدرجہ اولیٰ اسی امر مقدم سے متعلق ہوتا ہے اور وہ امر مقدم کسی طرح اس سے خارج نہیں رہ سکتا اور اس لیے حدیث مذکورہ بالا کے الفاظ ” لا تلمنی فیما تملک ولا املک “ سے میل قلبی کی طرف اشارہ سمجھنا سراسر غلطی ہے۔
ومن ایاتہ ان خلق لکم من انفسکم زوجاً لتسکنوا (١ ؎) الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ان فی ذلک لایات لقوم ینفکرون (سورة روم)
١ ؎: یقال سکن الیہ لسکون القلبی ویقال سکن عندہ للسکون الجسمانی (تفسیر کبیر)
خود خدا تعالیٰ نے موانست و محبت کو تعلقات زن وشوہر میں امر مقدم قرار دیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑا پیدا کیا تاکہ تم دلی میلان اس سے کرو اور تم دونوں میں محبت و پیار پیدا کیا “ جو امر کہ تعلقات زن و شوے سے مخصوص ہے وہ کیونکر لفظ عدل سے جو ایسے موقع پر بولا گیا ہے خارج رہ سکتا ہے۔
پانچویں یہ کہ جن کے پاس پہلے سے یعنی اس حکم کے آنے کے قبل سے متعدد جوروں تھیں ان کی نسبت حکم بیان کرتے وقت خود خدا نے عدل کو میل قلبی سے متعلق کیا ہے ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل (سورة نساء) یہاں فرمایا ہے کہہ ہرگز تم عمل نہ کرسکو گے عورتوں میں اور گو کہ تم کو حرص ہو پھر مت جھک پڑو (یعنی ایک پر) بالکل جھک پڑنا “ اس مقام پر فرمایا ہے کہ تم عدل نہیں کرسکنے کے، اگر عدل سے صرف مساوات تان ونفقہ و باری معین کرنے سے مراد ہوتی تو یہ بات ایسی نہ تھی جس کی نسبت کہا جاتا کہ تم ہرگز نہ کرسکو گے گو کہ اس کے کرنے کی حرص بھی کرو اس کے بعد میل قلبی کا ذکر فرمایا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ عدل میل قلبی کو شامل تھا، ممکن ہے کہ حدیث مذکورہ بالا اس آیت سے متعلق ہو۔
غرضیکہ قرآن مجید سے جو حکم پایا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک جورو ہونی چاہیے تعدد ازواج کی اجازت اسی وقت ہے کہ جب بمقتضائے فطرت انسانی و ضروریات تمدنی کے عقل و اخلاق و تمدن اس کی اجازت دے اور خوف عدم عدل باقی نہ رے۔
لفظ ” اوماملکت ایمانکم “ ان عورات سے متعلق ہے جو قبل اس کے نکاح میں آچکی ہوں یا بموجب رسم جاہلیت کے بطور ملک یمین لوگوں کے پاس ہوں مگر بعد کو مذہب اسلام نے اس رسم جاہلیت کو موقوف کردیا جہاں فرمایا کہ ” فامامنا بعد واما نداء “ پس اس کے بعد کوئی انسان کسی انسان کا ملک یمیین نہیں ہوسکتا۔ اس باب میں میرا مستقل رسالہ مسمیٰ ” بتبریۃ الاسلام عن شین الامۃ والغلام “ جس کسی کو مستوجب بحث دیکھنی ہو اس کو دیکھے اور میں اپنی اس تفسیر میں بھی مذکورہ بالا آیت کے تحت میں بالا جمال اس کا ذکر کرونگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لن تنالوالبر : سورۃ النسآء : آیت 11

یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۱﴾

تفسیر سرسید :

(١ ؎ : یعنی جب کہ کوئی شخص بلا وصیت مرگیا ہو یا کسی قدر کی وصیت کی ہو اور باقی متروکہ بلا وصیت ہو کیونکہ میری تحقیق میں ثلث مال پر وصیت محدود نہیں ہے۔ )
 
Top