• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 5 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 24

وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ۚ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ۚ وَ اُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ مُّحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ ؕ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا تَرٰضَیۡتُمۡ بِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡفَرِیۡضَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۲۴﴾

تفسیر سرسید :

( ان تبتغوا باموالکم) یہ آیت بھی منجملہ ان آیتوں کعے ہے جس کی تفسیر میں مجھ کو تمام مفسرین اور علمائے متقدمین سے اختلاف ہے۔ تمام مفسرین اس آیت کو آیت ستعہ کہتے ہیں یعنی اس آیت میں متعہ کے جائز ہونے کا حکم ہے۔ متعہ کے یہ معنی ہیں کہ ایک مرد ایک عورت سے وھی اے المتعۃ عبادۃ عن ان یستاجر الرجل للراء ۃ بمال معلوم الیٰ اجل معین فیجا معھا (تفسیر کبیر)
میعاد متعین کے لیے مثلاً ایک شب کے لیے بعوض مال معین کے مثلاً دس روپیہ کی اجرت ٹھہرالے اور اس سے اس میعاد تک مباشرت کرے، جیسا کہ اس زمانہ میں بےحیا عورتوں سے بےحیا مردوں کا عام دستور ہے۔
علماء کا اتفاق ہے کہ ابتدائے اسلام میں متعہ جائز تھا اور اس باب میں کہ وہ بدستور جائز ہے یا ممنوع یا منسوخ ہوگیا ہے اختلاف ہے، گروہ کثیر امتہ کا یہ قول ہے کہ اس آیت میں تو بلاشبہ جواز متعہ کا حکم ہے لیکن یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے، مگر جن آیتوں سے اس کے نسخ کا استدلال کرتے ہیں وہ استدلال میری دانست میں نہایت ضعیف ہے۔
اور گروہ قلیل امت کا یہ قول ہے کہ حکم جو ازمتعہ بدستور وغیرہ منسوخ ہے، ابن عباس سے اس میں مختلف روایتیں ہیں۔ ایک روایت تو جواز متعہ کی ہے بلا کسی قید کے۔ اور ایک روایت میں اس کا جواز بحالت اضطرار بیان ہوا ہے، جیسے کہ مردار و سور کا گوشت حالت اضطرار میں کھا لینا جائز ہے۔ اور ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ابن عباس نے تسلیم کیا کہ حکم جواز منسوخ ہوگیا ہے۔ عمران بن حصین اس کے جواز کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ جواز متعہ کی آیت قرآن میں موجود ہے اور اس کے بعد کوئی ایسی آیت سے جس سے حکم جواز متعہ منسوخ ہوا ہو نازل نہیں ہوئی۔ اور شیعہ حضرت علی مرتضیٰ سے جو از متعہ کی بہت سی روایتیں بیان کرتے ہیں، مگر اہل سنت و جماعت کے ہاں حضرت علی مرتضیٰ سے کوئی معتبر روایت جواز متعہ پر منقول نہیں ہے۔ محمد بن جریر الظہری نے اپنی تفسیر میں حضرت علی سے یہ روایت لکھی ہے کہ ” اگر عمر لوگوں کو متعہ کرنے سے منع نہ کرتے تو بجز کسی بدبخت کے کوئی زنا نہ کرتا “۔ اور محمد بن الحنیفہ سے جو حضرت علی کے بیٹے ہیں یہ روایت ہے کہ ” حضرت علی مرتضیٰ ابن عباس پاس گئے جو جواز متعہ کا فتویٰ دیتے تھے اور فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ سے منع کیا ہے “۔
میرے نزدیک علماء و مفسرین کا اس آیت سے حکم جواز متعہ پر استدلال کرنا محض غلط ہے، بلکہ اس آیت سے علانیہ متعہ کے امتناع کا حکم پایا جاتا ہے۔ تمام تاریخوں اور قدیم کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ ہر ایک قوم میں قدیم زمانہ سے اس قسم کی عورتیں تھیں جو یہی پیشہ کرتی تھیں، کہ لوگوں سے اجرت ٹھہراکر ان کو اپنے ساتھ مباشرت کرنے دیتی تھیں، جیسے کہ اس زمانہ میں بھی ایسی عورتیں پائی جاتی تھیں، جن کو بلحاظ ان کے حالات کے خانگیاں اور کسبیاں کہتے ہیں، یہودیوں میں فارسیوں میں بلکہ تمام قوموں میں اس قسم کی عورتیں تھیں، عرب میں بھی قبل اسلام اور ابتدائے اسلام میں اور شاید اس کے بعد بھی ایسی عورتوں کا وجود تھا، اور شاید اب بھی ہوں یا اس کی ظاہری صورت میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہو۔ یہ طریقہ اور یہ فعل صرف اس وجہ سے نکلا تھا کہ مردوں کو اپنی مستی جھاڑنے کا موقع ملے۔ تزوج میں اور اس طرح پر متعہ یعنی اجرت سے کام چلانے میں فی نفسہ کوئی فرق نہ تھا، اس لیے کہ مہر اور اجرت حقیقۃً ایک ہی سے ہے رضا و معاہدہ دونوں حالت میں ایک ہی حقیقت رکھتا ہے، متعہ میں میعاد کا معین ہوجانا اور تزوج میں تعین میعاد کا (اختیار زوج کے ہاتھ میں رہنا) یا میعاد کا معلوم ہونا مگر اس کی تعداد کا نامعلوم ہوتا کہ کب موت آئیگی حقیقت معاہدہ میں کوئی معتد بہ تبدل نہیں کرتا۔ پس ان دونوں میں جو حقیقتہً فرق تھا وہ یہی تھا کہ تزوج سے مقصود دراصل احصان یعنی پاکدامنی اور نیکی تھی، اور متعہ سے صرف مستی جھاڑنی ، کیونکہ اس سے اس کے مرتکب کو بجز سفح منی کے اور کوئی مقصود نہیں ہوتا۔ پس اسی کو خدا تعالیٰ نے منع کیا جہاں فرمایا کہ ” ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین “ یعنی تم بعوض اپنے مال کے آزاد عورتوں کو نکاح کرنے کے لیے تلاش کرو اور ان سے نکاح کرنا پاک دامنی رکھنے کی غرض سے ہو نہ مستی جھاڑنے کی غرض سے۔ مطلب آیت کا صرف محصنین کے لفظ پر ختم ہوگیا تھا۔ غیر مسافحین کا لفظ صرف اسی طریقہ متعہ کے منع کرنے کو کہا گیا ہے جو نہایت بےحیائی اور بداخلاقی سے رائج تھا ” انہ کان فاحشۃ و مقتا وساء سبیلا “ پس اس آیت سے متعہ کا امتناع پایا جاتا ہے نہ اس کا جواز جیسے کہ غلطی سے علمائے اسلام نے خیال کیا ہے۔
روی ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لما قدم مکۃ فی عمرتہ تزین نساء مکتہ فثکا اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طول اعزبۃ فقال استمتعوا من ھذا النساء (تفسیر کبیر)
باقی رہی روایتیں ، جن میں سے بعض سے بجز اس کے اور کچھ نہیں پایا جاتا کہ مکہ کی عورتیں بن سنور کر بیٹھتی تھیں جیسے اب بھی اس قسم کی عورتیں میلوں اور مجمعوں میں بناؤ سنگار کر کے بیٹھتی ہیں اور ان سے متعہ کرنے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی تھی، وہ سب روایتیں محض بےیہودہ ولغو ہیں۔ جس قدر حدیثیں جواز متعہ پر بیان ہوئی ہیں اور جس قدر کہ اس کی منسوخی یا بحالی کی نسبت منقول ہیں ان میں سے ایک بھی لائق التفات اور قابل تسلیم نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ متعہ پر جو بحث شروع ہونی ہے وہ اسی آیت کی بنا پر ہوئی ہے، کہ علماء و مفسرین نے غلطی سے سمجھا کہ اس آیت سے جواز متعہ نکلتا ہے۔ پھر ایک گروہ اس کا مخالف ہوا اس نے اس کی منسوخی ثابت کرنے پر توجہ کی، اور اس کی تائید پر ناسخ حدیثیں موجود ہوگئیں اور اس کے مویدین نے اس کے جواز کی حدیثیں پکڑ بلائیں، شیعہ کی پشت پناہ تو جناب علی مرتضیٰ ہیں ہی انھوں نے سچ جھوٹ جو چاہا اب للظلوم (علیہما السلام) پر تہمت دھردی۔ البتہ اگر اس آیت سے حکم امتناع متعہ تسلیم کیا جاوے جو اس زمانہ میں عرب میں مروج تھا تو وہ روایتیں جن میں بلا ذکر نسخ صرف حکم امتناع متعہ ہے تائید اس آیت کے قابل ترجیح یا لائق اعتماد متصور ہوسکے گی اور خیال ہوسکتا ہے کہ بعد نزول اس آیت کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو متعہ مروجہ کا امتناع کیا۔
جب کہ ہم روایات متعلق متعہ کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو ضرورۃً یہ لازم آتا ہے کہ ہم اس بات کو بھی کہ متعہ کی نسبت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواز کا حکم دیا اور ابن عباس اور عمران بن حصین نے یہ کہا اور علی مرتضیٰ نے یہ فرمایا تسلیم نہیں کرتے، اور جو تفسیر اس آیت کی ہم نے بیان کی اس کی نسبت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان بزرگوں کے اقوال کے برخلاف ہے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سوائے ہمارے تمام مفسرین و علمائے متقدمین آیت کے معنی الٹے سمجھے، مگر اس کہنے کی ہم کو کچھ پروا نہیں ہے۔ غرض کہ ہماری تحقیق یہ ہے کہ متعہ کا طریقہ اسلام نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ قدیم سے جاری تھا اسلام نے اس کو منع کیا گو کہ ابتدائے زمانہ اسلام میں بھی جاری رہا ہو۔ بہت سے رواج زمانہ جاہلیت کے ایسے تھے جو زمانہ ابتدائی اسلام میں رائج تھے بعد کو ممنوع ہوئے متعہ بھی اس میں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 47

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰۤی اَدۡبَارِہَاۤ اَوۡ نَلۡعَنَہُمۡ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصۡحٰبَ السَّبۡتِ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا ﴿۴۷﴾

تفسیر سرسید :

(دیکھو تفسیر کو نو قردۃ خاسئین)
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 102

وَ اِذَا کُنۡتَ فِیۡہِمۡ فَاَقَمۡتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ مَّعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَہُمۡ ۟ فَاِذَا سَجَدُوۡا فَلۡیَکُوۡنُوۡا مِنۡ وَّرَآئِکُمۡ ۪ وَ لۡتَاۡتِ طَآئِفَۃٌ اُخۡرٰی لَمۡ یُصَلُّوۡا فَلۡیُصَلُّوۡا مَعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡا حِذۡرَہُمۡ وَ اَسۡلِحَتَہُمۡ ۚ وَدَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِکُمۡ وَ اَمۡتِعَتِکُمۡ فَیَمِیۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ مَّیۡلَۃً وَّاحِدَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ کَانَ بِکُمۡ اَذًی مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَکُمۡ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا ﴿۱۰۲﴾

تفسیر سرسید :

١ ؎ صف جنگ میں مقتدیوں کو اگر موقع نماز کا ہو تو صرف ایک رکعت نماز کی فرض ہے اور اگر اس کا بھی موقع نہ ہو تو صرف اشارہ ہی سے بلا لحاظ سمت قبلہ کافی ہے اور اگر اتنی بھی فرصت نہ ہو تو قضا کرنا جائز ہے۔
 
Top