لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 3
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳﴾
تفسیر سرسید :
١ ؎ اذا اختلفوا فی الشیء لمن یکون اجالوا القاح واعطرہ من خرج لہ (شمس العلوم)
(حرمت علیکم) اس آیت میں جن چیزوں کو حرمت کا ذکر ہے ان میں سے مرے ہوئے جانور اور خون اور سور کے گوشت اور اس جانور کی حرمت کا بیان جو خدا کے سوا اور کسی کے نام پر مارا جاوے سورة بقر کی تفسیر میں گزرا (دیکھو تفسیر جلد اول صفحہ لغایت) اور ” مااھل لغیر اللہ “ ہی کے حکم میں ” وماذبح علی النصب و ان تستقموا بالا زلام “ بھی داخل ہے۔ بضب اور منعم دونوں ایک ہی چیز ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ صنعم میں کوئی صورت بنی ہوئی ہوتی ہے اور نصب میں کسی صورت کا بنا ہوا ہونا ضروری نہیں اکثربت پرستوں میں رواج ہے کہ ایک بن گھڑا پتھر کسی دیوتا کے نام پر نصب کردیتے ہیں اور اسی کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ اس میں کوئی صورت کھدی ہوئی نہیں ہوتی پس جو چیز غیر خدا کے نام پرستش کے لیے قائم کی جاوے خواہ وہ صورت وار ہو یا بےصورت جیسے کہ سید کا امتحان یا شہید کا استھان یا سیتلا کا استھان وہ سب نصیب میں داخل ہیں۔
” وما اھل لغیر اللہ بہ “ کے کہنے کے بعد ” وما ذبح علی انصب “ کہنے سے جو فرق ان دونوں میں ہے وہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مذبوح علیٰ النصب کی حرمت میں ذبح کے وقت ہلال لغیر اللہ مشروط نہیں ہے، ان کا وہ فعل ہی بروقت ذبح قائم مقام اھلال لغیر اللہ کیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگوں نے کعبہ کے گرد بن گھڑے پتھر کھڑے کرلیے تھے اور ان پر جانوروں کو چڑھایا کرتے تھے اور ذبح کرکے ان کا خون ان پتھروں کو لگا دیتے تھے جیسے کہ ٹھیک ہندوستان کے بت پرست بعض دیبیوں کے مندروں پر جانوروں کو چڑھا کر مارتے ہیں پس یہ ان کا فعل ہی قطعی ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ ذبح تقرباً لغیر اللہ تھا اور اس لیے اس کی حرمت کے لیے بروقت ذبح اھلال لغیر اللہ مشروط نہیں ہوا۔
” وان تستقسموا بالا زلام “ کی تفسیر میں ہمارے مفسرین نے ایسی تفسیریں لکھی ہیں جن میں کوئی بھی اس مقام کے مناسب نہیں معلوم ہوتی۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ جو جانور علیٰ النصب ذبح ہوتے تھے ان کی نسبت یہ قرار دینا کہ پوچاریوں میں سے کون نیوے ازلام کے ذریعہ سے ہوتا تھا جب ذبح علیٰ النصب کی حرمت بیان ہوئی تو اسی کے ساتھ جو فعل کہ اس کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو بھی بیان کیا ہے اس کو اس مقام پر فال لینے یا استعلام بالغیب سے کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ وہ کوئی علیحدہ حکم ہے بلکہ ماذبح علے النصب ہی کا بیان ہے اور فعل استقسام کا وہی مفعول ہے اور تقدیر کلام یوں ہے کہ حرمت علیکم ذبح علی النصب وان تسقسموھا بالازلام۔
اور موتوذۃ۔ اور سترذیۃ۔ اور نطیحۃ۔ اور ما اکل السبع۔ کی حرمت بھی ایسی ہی ہے جیسے کہ میتہ کی اور سیتہ کی حرمت کا بیان بھی سورة بقرہ میں ہوچکا ہے صرف ” منحنقۃ “ پر بحث ہونی چاہیے۔
خنق اور اختناق کے معنی حلق کے اس قدر گھٹنے کے ہیں جس سے جاندار مرجاوے اور وہ تین طرح پر ہوسکتا ہے۔ یا تو انسان جانور کا گلا گھوٹ ڈالے۔ یا شکار کرنے میں اس کے گلے میں اس طرح پھندا پڑجاوے کہ وہ گھٹ کر مرجاوے۔ یا کسی درخت کی ٹہنیوں میں گردن پھنس کر گلا گھٹ جاوے۔ چوپایہ جانور ان تینوں طرح میں سے جس طرح پر مرجاوے یا ماراجاوے حرام ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان تینوں حالتوں میں بسبب نہ خارج ہونے خون کے جو چوپاؤں میں کثرت سے ہوتا ہے اور جس کو دم سفوح کہتے ہیں اس کی موت، موت طبعی کے مشابہ ہوجاتی ہے، اور وہ بہت سی باتوں میں مثل سیتہ کے ہوجاتا ہے۔ جس کا بیان اوپر ہوچکا ۔ مگر بحث باقی رہتی ہے طیور منخنفۃ میں جن میں خون سیال نہایت کم ہے اور جس کا خارج ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کہ آیا جب انسان نے اپنے قصد و ارادہ سے ان کو گلا گھوٹ کر مارا ہو تو وہ بھی اس حکم حرمت میں داخل ہے یا نہیں۔
یہ بحث مسلمانوں کی نسبت کچھ زیادہ قابل بحث نہیں ہے اس لیے کہ مسلمانوں کی نسبت بغرض مخالفت طریقہ شرک کے ہر ایک جانور کو خواہ چرند ہو خواہ پرند خدا کے نام پر ذبح کرنے کا حکم ہے پس اس حکم حرمت میں جو اس آیت میں منخنقہ کی نسبت ہے پرند داخل ہوں یا نہ ہوں اگر کسی مسلمان نے اس کا گلا گھوٹ کر مار ڈالا ہو تو اس کا کھانا حرام ہوگا اس لیے کہ اس کو ذبح کرنے کا حکم تھا اور اس نے برخلاف اس حکم کے اس کو مارا ہے۔
جہاں تک بحث ہے نسبت اہل کتاب کے ہے کہ اگر اہل کتاب نے کسی پرند جانور کو گلا گھوٹ کر مار ڈالا ہو اور پرند کو اس طرح مار کر کھانا وہ اپنے مذہب میں جائز سمجھتے ہوں تو آیا مسلمان کو اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں۔
اس مسئلہ کے تصفیہ کے لیے تین امر کا بیان ضروری ہے۔ اول یہ کہ یہ آیت طیور منخنقہ کی حرمت پر نص قطعی ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ۔ اگر نص قطعی ہے تو یہ حرمت اس کی عین ذات سے علاقہ رکھتی ہے یا کسی امر خارجی سے۔ تیسرے یہ کہ ۔ کوئی امر ہو اس کی اگلی آیت نے جس میں ہمارے لیے طعام اہل کتاب کی حلت بیان ہوئی ہے طیور منخنقہ اہل کتاب کو حرمت سے مستثنیٰ کردیا ہے یا نہیں۔
امراول کا تعنیقہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ طیور منخنقہ کی حرمت پر نص صریح نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت میں چار لفظ ہیں۔ المنخنقہ۔ الموقوذہ۔ المتردیۃ۔ النطیحۃ۔ ان چاروں لفظوں میں حرف تاء فوقانی موجود ہے اور بموجب محاور ہ زبان عرب کے اس بات کا قرار دینا چاہیے کہ یہ ” قے “ کس قسم کی ہے اور جو کہ دوسری آیت قرآن مجید سے قسمم ” قے “ کا تعینجو ان کلموں میں ہے نہیں پایا جاتا اس لیے اجتہاد سے اس کا تعین کرنا پڑتا ہے ، پس اب یہ ’ دقے “ کس قسم کی قرار دیجاوے اور کسی جانور کی حرمت کا مسئلہ اس سے نکالا جاوے اس کی حرمت منصوص نہ ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ” قے “ اس قسم کی نہ ہو بلکہ دوسری قسم کی ہو اور اس قسم کے جانوروں کی حرمت پر حاوی نہ ہو۔
مثلاً ہم قرار دیتے ہیں کہ ان چاروں لفظوں میں تاء تانیث ہے جیسا کہ اکثر مفسروں نے بھی قرار دیا ہے پس اس حالت میں بموجب محاورہ زبان عرب کے ضروری ہے کہ یہ چاروں لفظ صفت ہوں کسی موصوف مخدوف مونث کی۔
اب ہم کو دوسرا اجتہاد کرنا پڑا کہ وہ موصوف مونث مخدوف کون ہے جس کو ہم قرار دیں بہرحال جس کو قرار دیں اس کی حرمت البتہ اس آیت سے نکلے گی مگر اس کی حرمت اجتہادی ہوگی نہ منصوصی، کیونکہ ہم نے دو باتوں کو یعنی قسم قے کو اور موصوف مخدوف کو نص قرآنی سے نہیں بلکہ صرف اپنے اجتہاد سے قائم کیا ہے۔ امام فخرالاسلام رازی فرماتے ہیں کہ یہاں موصوف مونث مخدوف (شاۃ) ہے کہ وہی اکثر کھانے میں آتی ہے اور باقی تمام جانوروں چرند و پرند کی حرمت کا اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔ قبول کرو کہ یہی اجتہاد صحیح ہے اس حالت میں پرند منخنقہ کی حرمت دو اجتہادوں اور ایک قیاس غیر منصوص العلۃ سے قرار پاویگی نہ نص قطعی سے۔
مگر امام صاحب نے ناحق شاۃ کو موصوف مونث مخدوف مانا ہے اگر وہ نفس کو موصوف مونث مخدوف مانتے تو تمام منخنقہ جانوروں کی حرمت آجاتی اور بکرے کی حرمت پر باقی جانوروں کے قیاس کی حاجت نہ رہتی اور تقدیر کلام یہ ہوتی کہ ” حرمت علیکم النفس المنخنقۃ الخ اب قبول کرو کہ یہی اجتہاد صحیح ہے تو بھی پرند جانوروں کی حرمت دو اجتہادوں مذکورہ باہ سے قرار پاویگی نہ نص قطعی سے۔
اب ہم اس قے کوتاہ تانیث نہیں قرار دیتے بلکہ تاء نقل و تحویل قرار دیتے ہیں جیسا کہ صاحب تفسیر بیضاوی نے قرار دیا ہے اور جو کہ یہ قے صفت کو اسم بنادیتی ہے اس لیے کسی موصوف مونث محذوف کی کی تلاش کی حاجت نہیں رہتی اور جس پر اطلاق منخنقہ اور مترویہ وغیرہ کا ہوگا اس کی حرمت اس آیت سے ثابت ہوگی مگر اس کی حرمت کا ثبوت ایک اجتہاد سے یعنی حرف تا کو تاء نقل قرار دینے سے ہوگا نہ نص صریح قطعی سے۔
ہمارے نزدیک ان چاروں کلموں میں تاء تانیث ہے اور موصوف مونث بہیمہ ہے بمعنی مویشی یا چوپایہ یا چرند کے پس تقدیر آیت کی یہ ہے کہ حرمت علیکم المھیمۃ المنختقۃ والبھیمۃ الموقودۃ والبھیمۃ المترذیۃ والبھیمۃ النطیحۃ پس پرند اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔
خود قرآن مجید سے بوجوہات مفصلہ ذیل ثابت ہے کہ یہاں موصوف محذوف بہمیہ ہے۔
اول یہ کہ خود قرآن مجید میں اسی آیت کے قبل شروع سورة میں خدا نے فرمایا ” احلت علیکم بھیمۃ الا نعام الا ما یتلیٰ علیکم “ یعنی حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی مگر وہ جو آگے بتا دینگے پس اس کے بعد جو حرام جانور باشارہ صفت مونث بتائے وہ خود خدا کے فرمانے سے اسی استثنائے کی تفصیل ہیں جن کی نسبت فرمایا تھا ” الا مایتلیٰ علیکم “ اور کسی کی اور موصوف مونث محذوف بھی دہی بہیمہ ہے جس کی نسبت اوپر فرمایا تھا کہ احلت علیک ربھیمۃ الانعام پس خود خدا نے صاف بتادیا ہے کہ وہ موصوف مونث محذوف بہیمہ ہے نہ اور کوئی۔
دوسرے یہ کہ منجملہ صفات چہارگانہ کے جو اس آیت میں مذکور ہوئیں اخیر دو صفتوں۔ تردی۔ یعنی اوپر سے گر کر مرجانے اور فطح ۔ یعنی لڑنے میں سینگ کی چوٹ سے مرجانے کی صفت سوائے بہیمہ یعنی چرند کے پرند میں متحقق ہی نہیں ہوسکتی باقی رہا۔ وقذ یعنی لکڑی سے یا لٹھ سے یا اور کسی چیز سے مار ڈالنا اگرچہ یہ فعل پرند کی نسبت بھی ممکن ہے مگر جو لوگ اگلے زمانہ کی تاریخ سے اور جنگلی قوموں کے حالات سے اور خود عرب کے بیابان کے رہنے والوں کی عادت سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ صرف چوپائے جانوروں کا اس طرح پر شکار ہوتا تھا کہ ان کو گھیر کر لٹھوں سے مار ڈالتے تھے نہ پرند کا پس یہ صفت بھی درحقیقت حسب عادت عرب مختص بہایم سے ہے نہ پرند سے۔
اب بحث طلب رہا۔ خنق ۔ یعنی گلا گھوٹ کر مار ڈالنا۔ اگرچہ یہ فعل پرند کی نسبت بھی ممکن ہے مگر عرب میں چوپاؤں کا گلا گھوٹ کر مار ڈالنا مروج تھا جس کی حرمت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
امام فخر الدین رازی صاحب، تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ ” واعلم ان المنخنقۃ علے وجوہ منھا ان اھل الجاھلیۃ کانوا ینخنقون الشاۃ فاذاماتت اکلوھا ومنھلما ینخنق بحبل الصائد ومنھا ما یدخل راسھا بین عودین فی شجرۃ فتنختنق نت موت الخ “ پس اس بیان سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ جو احکام اس آیت میں مذکور ہیں وہ بہیمہ کی نسبت ہیں نہ پرند کی اور اس لیے اس آیت سے طیور منخنقہ کی حرمت منصوص نہیں ہے البتہ ممکن ہے کہ قیاسی ہو۔
اس تقریر پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر اس آیت میں اس استثنا کی تفصیل ہے جس کا ذکر ” الا ما یتلیٰ علیکم “ میں ہے تو یہ آیت من اولھا الی اخرھا بھیمۃ الانعام ہی سے متعلق ہوگی پھر کلمہ میتہ۔ والدم۔ وما احل لغیر اللہ ۔ وما اکل السبع ۔ وماذبح علی النصب۔ سے کیوں حرمت چرند و پرند کی لی جاتی ہے چاہیے کہ وہ بھی مخصوص بہ بھیمۃ الانعام ہو اور پرند اس میں داخل نہ ہوں۔
مگر یہ سوال صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ان تمام کلموں کا مفہوم عام ہے گو محل خاص ہو اس لیے یہ سبب اپنے مفہوم عام ہونے کے چرندو پرند دونوں کو شامل ہیں برخلاف منخنقہ۔ وموقودہ ومتردیہ۔ ونطیحہ کے کہ بسبب صفت ہونے ایک موصوف محذوف کے نہ ان کا مفہوم عام ہے اور نہ محل عام ہے اس لیے وہ سوائے جنس مستثنیٰ منہ کے اور کسی سے متعلق نہیں ہوسکتی۔
دوسرے امر کے تصفیہ کے وقت ہم فرضاً تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ آیت طیور منخنقہ کی حرمت پر نص قطعی ہے۔ گو یہ حرمت عین ذات طیور منخنقہ ماکول اللحم کی نہیں ہے بلکہ ایک فعل خارجی سے متعلق ہے اور جو حرمت کسی ماکول کی کسی امر خارجی سے ہوتی ہے تو وہ حرمت درحقیقت اس فعل سے علاقہ رکھتی ہے۔ نفس ماکول سے مگر جو کہ ماکول فعل اکل سے منفع نہیں ہوسکتا اس لیے مجازاً ماکول پر بھی اطلاق حرمت کیا جاتا ہے۔ کوئی چیز جس کو خدا نے پاک بنایا ہے جب تک کہ اس کی ذات میں تغیر واقع نہ ہو کسی خارجی فعل سے ناپاک نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی چیز جس کو خدا نے حرام بنایا ہے کسی فعل خارجی سے حلال نہیں ہوسکتی سور نہ خدا کے نام سے ذبح کرنے پر پاک ہوسکتا ہے نہ شیطان کے نام پر ذبح کرنے سے۔ غریب بکری نہ غیر اللہ ذبح کرنے سے ناپاک ہوسکتی ہے اور نہ علیٰ النصب ذبح کرنے سے البتہ انسان کے افعال سے حرمت و علت کا تعلق ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص نے کسی کے گیہوں چورا لیے تو اس چور کی وجہ سے وہ گیہوں فی نفسہ حرام نہیں ہوگئے کیونکہ ان کی ماہیت میں کسی کا تغیر نہیں آیا بلکہ ان کا کھانا اور ایک فعل ممنوع ہے۔ اسی طرح جب حلال جانور بغیر اللہ ی اعلیٰ النصب ذبح کیا جاوے تو ذات مذبوح میں کچھ حرمت نہیں لگ جاتی کیونکہ صبیا گوشت اس کا اس وقت تھا جب کہ وہ خدا کے نام سے ذبح کیا جاتا ویسا ہی اس کا گوشت اب بھی ہے جب کہ وہ بغیر اللہ یا علیٰ النصب ذبح کیا گیا ہے ، مگر یہ سبب شرک ہونے کی وہ فعل ممنوع ہوا ہے، اور بنظر محفوظی اس شرک کے اس کا کل بھی حرام کیا گیا ہے پس ایسی حالت میں حرمت حقیقۃً فعل اکل سے متعلق ہے اور مارکوں پر نجاناً ، اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
میتہ۔ اور بہایم منختقہ۔ وموتوذہ۔ ومتردیہ۔ ونطیحہ۔ اور ماکول السبح کا حال اس سے مختلف ہے کیونکہ بوجہ موت طبعی۔ یا عدم اخراج دم مسفوح جو حرام ہے۔ یا بسبب عدم علم کہ فی ای حال ماتت اس کے نفس ماہیت کا متغیر ہونا یقینی یا ظنی ہے، اور اس لیے وہ بذاتہ و بنفسہ حرام ہے۔ مگر طیور منخنقہ بفعل الانسان کا یہ حال نہیں ہے، اور یہ کہنا کہ یہ سب عدم اخراج دم ان کا حال بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ بہایم منخنقہ کا ایک محض مکابرہ و جدال ہے کیونکہ جو خون کو بہایم میں ہے مقداراً و ماہیتہ جس کے عدم اخراج سے تغیر نفس بہائم مذکور میں واقع ہوتا ہے کوئی سلیم العقل نہیں قبول کرسکتا کہ ویسا ہی طیور میں ہے اور اس کے عدم اخراج سے تغیر اس کی ذات میں واقع ہوتا ہے طیور و بہائم کا خون بالکل مختلف لاجزا و مختلف الترکیب سے، مچھلی میں اور دریائی جانوروں میں بھی خون ہے مگر وہ طیور سے بھی زیادہ مختلف الترکیب اور مختلف الاجزا ہے پس جو امر کہ بہایم میں ہے اس کا قیاس طیور پر صحیح نہیں ہے اور اس لیے حرمت طیور منخنقہ کی ان کی عین ذات سے متعلق نہیں ہے بلکہ بسبب ایک امر خارجی کے ہے جو خلاف حکم ذبح خلق سے واقع ہوا ہے اور جب کہ یہ فصل ایک مسلمان کے ہاتھ سے واقع ہو جو مامور بالذبح ہے تو گو اس طیر منخنقہ کے نفس و ذات سے حرمت متعلق نہ ہو مگر اس کا اکل یعنی فعل اکل حرام و ممنوع ہوگا۔
تیسرے امر کے تصفیہ کے لیے ہم ان دونوں امر سے قطع نظر کرتے ہیں اور جو فیصلہ ان کا قرار دیا جاوے اس کو تسلیم کرتے ہیں تو طیور منخنقہ کی حرمت عدم الذبح یا موت بالخنق قرار پاویگی۔ مگر اگلی آیت میں خدا تعالیٰ نے طعام اہل کتاب ہمارے لیے بلا کسی قیدوشرط کے حلال کردیا ہے۔ پس جس طرح کہ اہل کتاب موانق اپنے اپنے مذہب کے اس طعام کو جس کا عین ہمارے لیے حرام نہیں ہے اپنے لیے طیار کرتے ہیں ان کا کھانا ہمارے لیے جائز ہے اور اگلی آیت یعنی ” وطعام الذین اوتو الکتب حل لکم “ ان تمام احکام میں سے جو بنسبت ذبائح ہیں طعام اہل کتاب کو مستثنیٰ کردیتی ہے پس باوصف تسلیم کرنے تمام باتوں کے جو امرا دل و دوم سے علاقہ رکھتی ہیں طیور منخنقہ اہل کتاب کا کھانا حرام و ممنوع نہیں رہتا۔
یہ صرف میرا ہی اجتہاد نہیں ہے بلکہ بہت سے علمائے متقدمین و محدثین کا بھی یہی اجتہاد و مذہب ہے۔ ابوداؤد میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ جو آیت ہے کہ ” کلوا مما ذکراسم اللہ علیہ ولا تاکلوا ممالم یذکراسم اللہ علیہ “ اس سے طعام اہل کتاب مستثنیٰ ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم۔
شعبی۔ اور عطا۔ اور زہری۔ اور مکحول۔ کا جو علمائے متقدمین میں سے ہیں یہ مذہب ہے کہ اگر عیسائی حضرت مسیح کے نام پر جانور ذبح کریں تب بھی اس کا کھانا مسلمان کو جائز ہے۔
معیار میں حضرت امام محی الدین ابن عربی کا فتویٰ اور ابو عبداللہ العجار کا مذہب نقل کیا گیا ہے کہ اگر عیسائی مرغی کی گردن مروڑ کر توڑ ڈالے تو اس کا کھانا مسلمان کو درست ہے۔ احکام ١ ؎ طعام اہل کتاب کی نسبت میرا ایک جداگانہ رسالہ ہے جس کو زیادہ تفصیل دیکھنی ہو اس میں دیکھے۔
حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳﴾
تفسیر سرسید :
١ ؎ اذا اختلفوا فی الشیء لمن یکون اجالوا القاح واعطرہ من خرج لہ (شمس العلوم)
(حرمت علیکم) اس آیت میں جن چیزوں کو حرمت کا ذکر ہے ان میں سے مرے ہوئے جانور اور خون اور سور کے گوشت اور اس جانور کی حرمت کا بیان جو خدا کے سوا اور کسی کے نام پر مارا جاوے سورة بقر کی تفسیر میں گزرا (دیکھو تفسیر جلد اول صفحہ لغایت) اور ” مااھل لغیر اللہ “ ہی کے حکم میں ” وماذبح علی النصب و ان تستقموا بالا زلام “ بھی داخل ہے۔ بضب اور منعم دونوں ایک ہی چیز ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ صنعم میں کوئی صورت بنی ہوئی ہوتی ہے اور نصب میں کسی صورت کا بنا ہوا ہونا ضروری نہیں اکثربت پرستوں میں رواج ہے کہ ایک بن گھڑا پتھر کسی دیوتا کے نام پر نصب کردیتے ہیں اور اسی کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ اس میں کوئی صورت کھدی ہوئی نہیں ہوتی پس جو چیز غیر خدا کے نام پرستش کے لیے قائم کی جاوے خواہ وہ صورت وار ہو یا بےصورت جیسے کہ سید کا امتحان یا شہید کا استھان یا سیتلا کا استھان وہ سب نصیب میں داخل ہیں۔
” وما اھل لغیر اللہ بہ “ کے کہنے کے بعد ” وما ذبح علی انصب “ کہنے سے جو فرق ان دونوں میں ہے وہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مذبوح علیٰ النصب کی حرمت میں ذبح کے وقت ہلال لغیر اللہ مشروط نہیں ہے، ان کا وہ فعل ہی بروقت ذبح قائم مقام اھلال لغیر اللہ کیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگوں نے کعبہ کے گرد بن گھڑے پتھر کھڑے کرلیے تھے اور ان پر جانوروں کو چڑھایا کرتے تھے اور ذبح کرکے ان کا خون ان پتھروں کو لگا دیتے تھے جیسے کہ ٹھیک ہندوستان کے بت پرست بعض دیبیوں کے مندروں پر جانوروں کو چڑھا کر مارتے ہیں پس یہ ان کا فعل ہی قطعی ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ ذبح تقرباً لغیر اللہ تھا اور اس لیے اس کی حرمت کے لیے بروقت ذبح اھلال لغیر اللہ مشروط نہیں ہوا۔
” وان تستقسموا بالا زلام “ کی تفسیر میں ہمارے مفسرین نے ایسی تفسیریں لکھی ہیں جن میں کوئی بھی اس مقام کے مناسب نہیں معلوم ہوتی۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ جو جانور علیٰ النصب ذبح ہوتے تھے ان کی نسبت یہ قرار دینا کہ پوچاریوں میں سے کون نیوے ازلام کے ذریعہ سے ہوتا تھا جب ذبح علیٰ النصب کی حرمت بیان ہوئی تو اسی کے ساتھ جو فعل کہ اس کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو بھی بیان کیا ہے اس کو اس مقام پر فال لینے یا استعلام بالغیب سے کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ وہ کوئی علیحدہ حکم ہے بلکہ ماذبح علے النصب ہی کا بیان ہے اور فعل استقسام کا وہی مفعول ہے اور تقدیر کلام یوں ہے کہ حرمت علیکم ذبح علی النصب وان تسقسموھا بالازلام۔
اور موتوذۃ۔ اور سترذیۃ۔ اور نطیحۃ۔ اور ما اکل السبع۔ کی حرمت بھی ایسی ہی ہے جیسے کہ میتہ کی اور سیتہ کی حرمت کا بیان بھی سورة بقرہ میں ہوچکا ہے صرف ” منحنقۃ “ پر بحث ہونی چاہیے۔
خنق اور اختناق کے معنی حلق کے اس قدر گھٹنے کے ہیں جس سے جاندار مرجاوے اور وہ تین طرح پر ہوسکتا ہے۔ یا تو انسان جانور کا گلا گھوٹ ڈالے۔ یا شکار کرنے میں اس کے گلے میں اس طرح پھندا پڑجاوے کہ وہ گھٹ کر مرجاوے۔ یا کسی درخت کی ٹہنیوں میں گردن پھنس کر گلا گھٹ جاوے۔ چوپایہ جانور ان تینوں طرح میں سے جس طرح پر مرجاوے یا ماراجاوے حرام ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان تینوں حالتوں میں بسبب نہ خارج ہونے خون کے جو چوپاؤں میں کثرت سے ہوتا ہے اور جس کو دم سفوح کہتے ہیں اس کی موت، موت طبعی کے مشابہ ہوجاتی ہے، اور وہ بہت سی باتوں میں مثل سیتہ کے ہوجاتا ہے۔ جس کا بیان اوپر ہوچکا ۔ مگر بحث باقی رہتی ہے طیور منخنفۃ میں جن میں خون سیال نہایت کم ہے اور جس کا خارج ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کہ آیا جب انسان نے اپنے قصد و ارادہ سے ان کو گلا گھوٹ کر مارا ہو تو وہ بھی اس حکم حرمت میں داخل ہے یا نہیں۔
یہ بحث مسلمانوں کی نسبت کچھ زیادہ قابل بحث نہیں ہے اس لیے کہ مسلمانوں کی نسبت بغرض مخالفت طریقہ شرک کے ہر ایک جانور کو خواہ چرند ہو خواہ پرند خدا کے نام پر ذبح کرنے کا حکم ہے پس اس حکم حرمت میں جو اس آیت میں منخنقہ کی نسبت ہے پرند داخل ہوں یا نہ ہوں اگر کسی مسلمان نے اس کا گلا گھوٹ کر مار ڈالا ہو تو اس کا کھانا حرام ہوگا اس لیے کہ اس کو ذبح کرنے کا حکم تھا اور اس نے برخلاف اس حکم کے اس کو مارا ہے۔
جہاں تک بحث ہے نسبت اہل کتاب کے ہے کہ اگر اہل کتاب نے کسی پرند جانور کو گلا گھوٹ کر مار ڈالا ہو اور پرند کو اس طرح مار کر کھانا وہ اپنے مذہب میں جائز سمجھتے ہوں تو آیا مسلمان کو اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں۔
اس مسئلہ کے تصفیہ کے لیے تین امر کا بیان ضروری ہے۔ اول یہ کہ یہ آیت طیور منخنقہ کی حرمت پر نص قطعی ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ۔ اگر نص قطعی ہے تو یہ حرمت اس کی عین ذات سے علاقہ رکھتی ہے یا کسی امر خارجی سے۔ تیسرے یہ کہ ۔ کوئی امر ہو اس کی اگلی آیت نے جس میں ہمارے لیے طعام اہل کتاب کی حلت بیان ہوئی ہے طیور منخنقہ اہل کتاب کو حرمت سے مستثنیٰ کردیا ہے یا نہیں۔
امراول کا تعنیقہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ طیور منخنقہ کی حرمت پر نص صریح نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت میں چار لفظ ہیں۔ المنخنقہ۔ الموقوذہ۔ المتردیۃ۔ النطیحۃ۔ ان چاروں لفظوں میں حرف تاء فوقانی موجود ہے اور بموجب محاور ہ زبان عرب کے اس بات کا قرار دینا چاہیے کہ یہ ” قے “ کس قسم کی ہے اور جو کہ دوسری آیت قرآن مجید سے قسمم ” قے “ کا تعینجو ان کلموں میں ہے نہیں پایا جاتا اس لیے اجتہاد سے اس کا تعین کرنا پڑتا ہے ، پس اب یہ ’ دقے “ کس قسم کی قرار دیجاوے اور کسی جانور کی حرمت کا مسئلہ اس سے نکالا جاوے اس کی حرمت منصوص نہ ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ” قے “ اس قسم کی نہ ہو بلکہ دوسری قسم کی ہو اور اس قسم کے جانوروں کی حرمت پر حاوی نہ ہو۔
مثلاً ہم قرار دیتے ہیں کہ ان چاروں لفظوں میں تاء تانیث ہے جیسا کہ اکثر مفسروں نے بھی قرار دیا ہے پس اس حالت میں بموجب محاورہ زبان عرب کے ضروری ہے کہ یہ چاروں لفظ صفت ہوں کسی موصوف مخدوف مونث کی۔
اب ہم کو دوسرا اجتہاد کرنا پڑا کہ وہ موصوف مونث مخدوف کون ہے جس کو ہم قرار دیں بہرحال جس کو قرار دیں اس کی حرمت البتہ اس آیت سے نکلے گی مگر اس کی حرمت اجتہادی ہوگی نہ منصوصی، کیونکہ ہم نے دو باتوں کو یعنی قسم قے کو اور موصوف مخدوف کو نص قرآنی سے نہیں بلکہ صرف اپنے اجتہاد سے قائم کیا ہے۔ امام فخرالاسلام رازی فرماتے ہیں کہ یہاں موصوف مونث مخدوف (شاۃ) ہے کہ وہی اکثر کھانے میں آتی ہے اور باقی تمام جانوروں چرند و پرند کی حرمت کا اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔ قبول کرو کہ یہی اجتہاد صحیح ہے اس حالت میں پرند منخنقہ کی حرمت دو اجتہادوں اور ایک قیاس غیر منصوص العلۃ سے قرار پاویگی نہ نص قطعی سے۔
مگر امام صاحب نے ناحق شاۃ کو موصوف مونث مخدوف مانا ہے اگر وہ نفس کو موصوف مونث مخدوف مانتے تو تمام منخنقہ جانوروں کی حرمت آجاتی اور بکرے کی حرمت پر باقی جانوروں کے قیاس کی حاجت نہ رہتی اور تقدیر کلام یہ ہوتی کہ ” حرمت علیکم النفس المنخنقۃ الخ اب قبول کرو کہ یہی اجتہاد صحیح ہے تو بھی پرند جانوروں کی حرمت دو اجتہادوں مذکورہ باہ سے قرار پاویگی نہ نص قطعی سے۔
اب ہم اس قے کوتاہ تانیث نہیں قرار دیتے بلکہ تاء نقل و تحویل قرار دیتے ہیں جیسا کہ صاحب تفسیر بیضاوی نے قرار دیا ہے اور جو کہ یہ قے صفت کو اسم بنادیتی ہے اس لیے کسی موصوف مونث محذوف کی کی تلاش کی حاجت نہیں رہتی اور جس پر اطلاق منخنقہ اور مترویہ وغیرہ کا ہوگا اس کی حرمت اس آیت سے ثابت ہوگی مگر اس کی حرمت کا ثبوت ایک اجتہاد سے یعنی حرف تا کو تاء نقل قرار دینے سے ہوگا نہ نص صریح قطعی سے۔
ہمارے نزدیک ان چاروں کلموں میں تاء تانیث ہے اور موصوف مونث بہیمہ ہے بمعنی مویشی یا چوپایہ یا چرند کے پس تقدیر آیت کی یہ ہے کہ حرمت علیکم المھیمۃ المنختقۃ والبھیمۃ الموقودۃ والبھیمۃ المترذیۃ والبھیمۃ النطیحۃ پس پرند اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔
خود قرآن مجید سے بوجوہات مفصلہ ذیل ثابت ہے کہ یہاں موصوف محذوف بہمیہ ہے۔
اول یہ کہ خود قرآن مجید میں اسی آیت کے قبل شروع سورة میں خدا نے فرمایا ” احلت علیکم بھیمۃ الا نعام الا ما یتلیٰ علیکم “ یعنی حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی مگر وہ جو آگے بتا دینگے پس اس کے بعد جو حرام جانور باشارہ صفت مونث بتائے وہ خود خدا کے فرمانے سے اسی استثنائے کی تفصیل ہیں جن کی نسبت فرمایا تھا ” الا مایتلیٰ علیکم “ اور کسی کی اور موصوف مونث محذوف بھی دہی بہیمہ ہے جس کی نسبت اوپر فرمایا تھا کہ احلت علیک ربھیمۃ الانعام پس خود خدا نے صاف بتادیا ہے کہ وہ موصوف مونث محذوف بہیمہ ہے نہ اور کوئی۔
دوسرے یہ کہ منجملہ صفات چہارگانہ کے جو اس آیت میں مذکور ہوئیں اخیر دو صفتوں۔ تردی۔ یعنی اوپر سے گر کر مرجانے اور فطح ۔ یعنی لڑنے میں سینگ کی چوٹ سے مرجانے کی صفت سوائے بہیمہ یعنی چرند کے پرند میں متحقق ہی نہیں ہوسکتی باقی رہا۔ وقذ یعنی لکڑی سے یا لٹھ سے یا اور کسی چیز سے مار ڈالنا اگرچہ یہ فعل پرند کی نسبت بھی ممکن ہے مگر جو لوگ اگلے زمانہ کی تاریخ سے اور جنگلی قوموں کے حالات سے اور خود عرب کے بیابان کے رہنے والوں کی عادت سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ صرف چوپائے جانوروں کا اس طرح پر شکار ہوتا تھا کہ ان کو گھیر کر لٹھوں سے مار ڈالتے تھے نہ پرند کا پس یہ صفت بھی درحقیقت حسب عادت عرب مختص بہایم سے ہے نہ پرند سے۔
اب بحث طلب رہا۔ خنق ۔ یعنی گلا گھوٹ کر مار ڈالنا۔ اگرچہ یہ فعل پرند کی نسبت بھی ممکن ہے مگر عرب میں چوپاؤں کا گلا گھوٹ کر مار ڈالنا مروج تھا جس کی حرمت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
امام فخر الدین رازی صاحب، تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ ” واعلم ان المنخنقۃ علے وجوہ منھا ان اھل الجاھلیۃ کانوا ینخنقون الشاۃ فاذاماتت اکلوھا ومنھلما ینخنق بحبل الصائد ومنھا ما یدخل راسھا بین عودین فی شجرۃ فتنختنق نت موت الخ “ پس اس بیان سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ جو احکام اس آیت میں مذکور ہیں وہ بہیمہ کی نسبت ہیں نہ پرند کی اور اس لیے اس آیت سے طیور منخنقہ کی حرمت منصوص نہیں ہے البتہ ممکن ہے کہ قیاسی ہو۔
اس تقریر پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر اس آیت میں اس استثنا کی تفصیل ہے جس کا ذکر ” الا ما یتلیٰ علیکم “ میں ہے تو یہ آیت من اولھا الی اخرھا بھیمۃ الانعام ہی سے متعلق ہوگی پھر کلمہ میتہ۔ والدم۔ وما احل لغیر اللہ ۔ وما اکل السبع ۔ وماذبح علی النصب۔ سے کیوں حرمت چرند و پرند کی لی جاتی ہے چاہیے کہ وہ بھی مخصوص بہ بھیمۃ الانعام ہو اور پرند اس میں داخل نہ ہوں۔
مگر یہ سوال صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ان تمام کلموں کا مفہوم عام ہے گو محل خاص ہو اس لیے یہ سبب اپنے مفہوم عام ہونے کے چرندو پرند دونوں کو شامل ہیں برخلاف منخنقہ۔ وموقودہ ومتردیہ۔ ونطیحہ کے کہ بسبب صفت ہونے ایک موصوف محذوف کے نہ ان کا مفہوم عام ہے اور نہ محل عام ہے اس لیے وہ سوائے جنس مستثنیٰ منہ کے اور کسی سے متعلق نہیں ہوسکتی۔
دوسرے امر کے تصفیہ کے وقت ہم فرضاً تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ آیت طیور منخنقہ کی حرمت پر نص قطعی ہے۔ گو یہ حرمت عین ذات طیور منخنقہ ماکول اللحم کی نہیں ہے بلکہ ایک فعل خارجی سے متعلق ہے اور جو حرمت کسی ماکول کی کسی امر خارجی سے ہوتی ہے تو وہ حرمت درحقیقت اس فعل سے علاقہ رکھتی ہے۔ نفس ماکول سے مگر جو کہ ماکول فعل اکل سے منفع نہیں ہوسکتا اس لیے مجازاً ماکول پر بھی اطلاق حرمت کیا جاتا ہے۔ کوئی چیز جس کو خدا نے پاک بنایا ہے جب تک کہ اس کی ذات میں تغیر واقع نہ ہو کسی خارجی فعل سے ناپاک نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی چیز جس کو خدا نے حرام بنایا ہے کسی فعل خارجی سے حلال نہیں ہوسکتی سور نہ خدا کے نام سے ذبح کرنے پر پاک ہوسکتا ہے نہ شیطان کے نام پر ذبح کرنے سے۔ غریب بکری نہ غیر اللہ ذبح کرنے سے ناپاک ہوسکتی ہے اور نہ علیٰ النصب ذبح کرنے سے البتہ انسان کے افعال سے حرمت و علت کا تعلق ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص نے کسی کے گیہوں چورا لیے تو اس چور کی وجہ سے وہ گیہوں فی نفسہ حرام نہیں ہوگئے کیونکہ ان کی ماہیت میں کسی کا تغیر نہیں آیا بلکہ ان کا کھانا اور ایک فعل ممنوع ہے۔ اسی طرح جب حلال جانور بغیر اللہ ی اعلیٰ النصب ذبح کیا جاوے تو ذات مذبوح میں کچھ حرمت نہیں لگ جاتی کیونکہ صبیا گوشت اس کا اس وقت تھا جب کہ وہ خدا کے نام سے ذبح کیا جاتا ویسا ہی اس کا گوشت اب بھی ہے جب کہ وہ بغیر اللہ یا علیٰ النصب ذبح کیا گیا ہے ، مگر یہ سبب شرک ہونے کی وہ فعل ممنوع ہوا ہے، اور بنظر محفوظی اس شرک کے اس کا کل بھی حرام کیا گیا ہے پس ایسی حالت میں حرمت حقیقۃً فعل اکل سے متعلق ہے اور مارکوں پر نجاناً ، اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
میتہ۔ اور بہایم منختقہ۔ وموتوذہ۔ ومتردیہ۔ ونطیحہ۔ اور ماکول السبح کا حال اس سے مختلف ہے کیونکہ بوجہ موت طبعی۔ یا عدم اخراج دم مسفوح جو حرام ہے۔ یا بسبب عدم علم کہ فی ای حال ماتت اس کے نفس ماہیت کا متغیر ہونا یقینی یا ظنی ہے، اور اس لیے وہ بذاتہ و بنفسہ حرام ہے۔ مگر طیور منخنقہ بفعل الانسان کا یہ حال نہیں ہے، اور یہ کہنا کہ یہ سب عدم اخراج دم ان کا حال بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ بہایم منخنقہ کا ایک محض مکابرہ و جدال ہے کیونکہ جو خون کو بہایم میں ہے مقداراً و ماہیتہ جس کے عدم اخراج سے تغیر نفس بہائم مذکور میں واقع ہوتا ہے کوئی سلیم العقل نہیں قبول کرسکتا کہ ویسا ہی طیور میں ہے اور اس کے عدم اخراج سے تغیر اس کی ذات میں واقع ہوتا ہے طیور و بہائم کا خون بالکل مختلف لاجزا و مختلف الترکیب سے، مچھلی میں اور دریائی جانوروں میں بھی خون ہے مگر وہ طیور سے بھی زیادہ مختلف الترکیب اور مختلف الاجزا ہے پس جو امر کہ بہایم میں ہے اس کا قیاس طیور پر صحیح نہیں ہے اور اس لیے حرمت طیور منخنقہ کی ان کی عین ذات سے متعلق نہیں ہے بلکہ بسبب ایک امر خارجی کے ہے جو خلاف حکم ذبح خلق سے واقع ہوا ہے اور جب کہ یہ فصل ایک مسلمان کے ہاتھ سے واقع ہو جو مامور بالذبح ہے تو گو اس طیر منخنقہ کے نفس و ذات سے حرمت متعلق نہ ہو مگر اس کا اکل یعنی فعل اکل حرام و ممنوع ہوگا۔
تیسرے امر کے تصفیہ کے لیے ہم ان دونوں امر سے قطع نظر کرتے ہیں اور جو فیصلہ ان کا قرار دیا جاوے اس کو تسلیم کرتے ہیں تو طیور منخنقہ کی حرمت عدم الذبح یا موت بالخنق قرار پاویگی۔ مگر اگلی آیت میں خدا تعالیٰ نے طعام اہل کتاب ہمارے لیے بلا کسی قیدوشرط کے حلال کردیا ہے۔ پس جس طرح کہ اہل کتاب موانق اپنے اپنے مذہب کے اس طعام کو جس کا عین ہمارے لیے حرام نہیں ہے اپنے لیے طیار کرتے ہیں ان کا کھانا ہمارے لیے جائز ہے اور اگلی آیت یعنی ” وطعام الذین اوتو الکتب حل لکم “ ان تمام احکام میں سے جو بنسبت ذبائح ہیں طعام اہل کتاب کو مستثنیٰ کردیتی ہے پس باوصف تسلیم کرنے تمام باتوں کے جو امرا دل و دوم سے علاقہ رکھتی ہیں طیور منخنقہ اہل کتاب کا کھانا حرام و ممنوع نہیں رہتا۔
یہ صرف میرا ہی اجتہاد نہیں ہے بلکہ بہت سے علمائے متقدمین و محدثین کا بھی یہی اجتہاد و مذہب ہے۔ ابوداؤد میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ جو آیت ہے کہ ” کلوا مما ذکراسم اللہ علیہ ولا تاکلوا ممالم یذکراسم اللہ علیہ “ اس سے طعام اہل کتاب مستثنیٰ ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم۔
شعبی۔ اور عطا۔ اور زہری۔ اور مکحول۔ کا جو علمائے متقدمین میں سے ہیں یہ مذہب ہے کہ اگر عیسائی حضرت مسیح کے نام پر جانور ذبح کریں تب بھی اس کا کھانا مسلمان کو جائز ہے۔
معیار میں حضرت امام محی الدین ابن عربی کا فتویٰ اور ابو عبداللہ العجار کا مذہب نقل کیا گیا ہے کہ اگر عیسائی مرغی کی گردن مروڑ کر توڑ ڈالے تو اس کا کھانا مسلمان کو درست ہے۔ احکام ١ ؎ طعام اہل کتاب کی نسبت میرا ایک جداگانہ رسالہ ہے جس کو زیادہ تفصیل دیکھنی ہو اس میں دیکھے۔