واذاسمعوا : سورۃ المآئدہ : آیت 110
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ۟ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَکَہۡلًا ۚ وَ اِذۡ عَلَّمۡتُکَ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَالتَّوۡرٰىۃَ وَالۡاِنۡجِیۡلَ ۚ وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ وَتُبۡرِیٴُالۡاَکۡمَہَ وَالۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ کَفَفۡتُ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَنۡکَ اِذۡ جِئۡتَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۱۰﴾
تفسیر سرسید :
( اذقال اللہ) اس مقام سے خدا تعالیٰ نے ان واقعات میں سے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بچپن اور جوانی کے زمانہ میں گزرے تھے چند واقعات کا جن کا بیان سورة آل عمران میں بھی ہوچکا ہے بطور اپنے احسان اور اپنی نعمت کے بیان کرنا شروع کیا ہے بچپن کی حالت کو یا ددلایا ہے پھر نوعمری کے زمانہ کو یاد دلایا ہے پھر نبوت کے زمانہ کو یاد دلایا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طرح کا طرز کلام نہایت دلچسپ اور محبت سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک اعلیٰ درجہ کے شخص کو اس کے بچپن کی بھولی بھالی باتیں یاد دلائی جاتی ہیں اور پھر ان کمالوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کو اس نے حاصل کیا ہے۔ ان دونوں زمانوں کی باتیں مل کر نہایت دلچسپ اور پر اثر ہوجاتی ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی دونوں زمانوں کی باتوں کو یاد دلایا ہے اور یوں فرمایا ہے کہ تو اس بات کو یاد کر جب کہ میں نے روح القدس سے تیری مدد کی ۔ تو اس بات کو یاد کر جب کہ تونے بچپن میں گفتگو کی۔ تو اس بات کو یاد کر جب کہ میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت سکھائی۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتا تھا اور ان میں پھونکتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاوینگی۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا تھا۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مردے کو زندہ کرتا تھا۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ میں تجھ کو بنی اسرائیل سے بچایا۔ اس وقت کو یاد کر جب کہ میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور تجھ پر ایمان لاویں۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تجھ سے حواریوں نے آسمان پر سے رزق اترنے کی درخواست کی۔ تو اس وقت کو بھی یاد رکھ جب کہ میں تجھ کو اس شرک کی الزام سے جو تیری امت نے تجھ پر دھرا ہے بری کرونگا ۔ ان باتوں کے سوا سورة آل عمران میں ایک اور بات بھی بیان ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی (یعنی احکام) لے کر آیا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں تم کو بتلا دونگا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جن کو ہم ایک سلسلہ میں جمع کرکے ہر ایک کا اس ترتیب سے جدا جدا بیان کرینگے۔ اول تکلم فی المہد۔ دوم خلق طیر۔ سوم تائید روح القدس۔ چہارم تعلیم کتاب و حکمت۔ پنجم خدا کی نشانی کا لانا ۔ ششم حواریوں کے دل میں ایمان کا ڈالنا ۔ ہفتم اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا ہشتم موتے کو زندہ کرنا۔ نہم اخبار عن الغیب۔ دہم نزول مائدہ ۔ یازدہم بنی اسرائیل سے بچانا۔ دوازدہم ات حن المشرکین۔
اول۔ تکلم فی المہد
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں فرمایا ہے۔ ویکلم الناس فی المہد دکھلا۔ اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ تکلم الناس فی المھد دکھلا اور سورة مریم میں فرمایا ہے۔ فاشارت لیہ قالواکیف تکلم من کان فی المھد صبیاقال انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبی اء۔
ان آیتوں میں صرف لفظ مہد کا ہے جس پر بحث ہوسکتی ہے مگر مہد سے صرف صغر سنی کا زمانہ مراد ہے نہ وہ زمانہ جس میں کوئی بچہ بمقتضائے قانون قدرت کلام نہیں کرسکتا اس مضمون پر ہم ابھی سورة آل عمران میں بحث کرچکے ہیں۔
دوم۔ خلق طیر
یہ اس حالت کا ذکر ہے جب کہ حضرت عیسیٰ بچے تھے اور بچپن کے زمانہ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اس کی نسبت خدا نے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یوں فرمایا ہے کہ انی احلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر نانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ۔ اور سورة مائدہ میں یوں فرمایا ہے۔ واذتخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیھا فتکون طیرا باذنی۔
سورة آل عمران میں یہ مضمون حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے متکلم کے صیغوں میں بیان ہوا ہے اور سورة مائدہ میں خدا کی طرف سے مخاطب کے صیفوں میں۔ اگر سورة آل عمران میں اس آیت سے پہلے یہ آیت ہے کہ انی قد جئتکم ربۃ من ربکم ۔ اور اس کی نسبت ہم نے ثابت کیا ہے کہ وہ سوال کے جواب میں ہے اسی سیاق پر یہ آیت ہے اور سوال کے جواب میں واقع ہوئی ہے تقدیر کلام کی یہ ہے کہ کسی شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے دیکھ کر پوچھا کہ ۔ مانفعل ؟ قال مجیبا لہ بانی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر الخ، تاریخ سے بھی پایا جاتا ہے کہ جانوروں کی مورتیں بنانے کی نسبت لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال بھی کیا تھا جیسا کہ ہم آگے بیان کرینگے۔
اب اس پر بحث یہ ہے کہ کیا درحقیقت یہ کوئی معجزہ تھا اور کیا درحقیقت قرآن مجید سے ان مٹی کے جانوروں کا جاندار ہوجانا اور اڑنے لگنا ثابت ہوتا ہے ؟ تمام مفسرین اور علمائے اسلام کا جواب یہ ہے کہ ہاں۔ مگر ہمارا جواب ہے کہ نہیں۔ بشرطیکہ دل و دماغ کو ان خیالات سے جو قرآن مجید پر غور کرنے اور قرآن مجید کا مطلب سمجھنے سے پہلے عیسائیوں کی صحیح و غلط روایات کی تقلید سے بیٹھا لیے میں خالی کرکے نفس قرآن مجید پر بنظر تحقیق غور کیا جاوے۔
سورة آل عمران میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ” انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیر باذن اللہ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مٹی سے پرندوں کی مورتیں بناتا ہوں پھر ان میں پھوکونگا تاکہ وہ اللہ کے حکم سے پرند ہوجاویں۔ یہ بات حضرت عیسیٰ نے سوال کے جواب میں کہی تھی مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پھونکنے کے بعد درحقیقت وہ پرندوں کی مورتیں جو مٹی سے بناتے تھے جاندار ہوجاتی تھیں اور اڑنے بھی لگتی تھیں۔
” فیکون “ پر جو (ف) سے وہ عاطفہ تو ہو نہیں سکتی کیونکہ اگر وہ عاطفہ ہو تو ” یکون طیرا “ ان کی خبر ہوئی اور اس کا عطف ” اخلق “ پر ہوگا اور ” یکون طیرا “ میں یکون صیغہ متکلم کا نہیں ہے اور نہ اس کلام میں کوئی ضمیر اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ اسم ان کی طرف راجع ہوسکے اس لیے ” یکون طیرا “ نحو کے قاعدہ کے مطابق یا یوں کہو کہ بموجب محاورہ زبان عرب کے کسی طبع ان کی خبر نہیں ہوسکتا اور ” فیکون “ کی (ف) عاملقہ قرار نہیں پاسکتی۔ اب ضرور ہے کہ وہ (ف) تفریع کی ہو اور پھونکنے میں اور ان مورتوں کے پرند ہوجانے میں کو کہ درحقیقت کوئی سبب حقیقی یا مجازی یا ذہنی یا خارجی نہ ہو مگر ممکن ہے کہ متکلم نے ان میں ایسا تعلق سمجھا ہو کہ اس کو متفرع اور متفرع الیہ کی صورت میں یا سبب اور مسبب کی صورت میں بیان کرے جہاں کلام مجازات کی بحث نحو کی کتابوں میں لکھی ہے اس میں صاف بیان کیا ہے کہ کلام مجازات سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ درحقیقت وہ ایک امر کو دوسرے امر کا حقیقی سبب کردیتے ہیں بلکہ متکلم اس طرح پر خیال کرتا ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پہلا امر دوسرے اور کا حقیقی یا خارجی یا ذہنی سبب ہو۔ مگر صف اس طرح کے بیان سے امر متفرع یا مسبب کا وقوع ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی اور دلیل سے نہ ثابت ہو کہ وہ امرفی الحقیقت وقوع بھی آیا تھا۔ اور جس قدر الفاظ قرآن مجید کے ہیں ان میں یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ پرندوں کی مٹی کی مورتیں درحقیقت جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ طفوائیت کے حالات بہت کم لکھے گئے ہیں چاروں انجیلیں جو اس زمانہ میں معتبر گنی جاتی ہیں ان میں زمانہ طفولیت کے کچھ بھی حالات نہیں ہیں یہ بات تو ممکن نہیں ہے کہ ان کے زمانہ طفولیت کے کچھ حالات ہوں ہی نہیں مگر کسی کو ان کے لکھنے پر رغبت ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انتقال کے بہت زمانہ بعد بعض قدیم عیسائی مورخوں نے ان کے حالات زمانہ طفولیت کے لکھنے پر کوشش کی ہے اور اس وقت ہم کو دو کتابیں انجیل طفولیت کے نام سے دستیاب ہوتی ہیں جن کو حال کے عیسائیوں نے نامعتمد کتابوں میں داخل کیا ہے بہرحال ان کتابوں کی روایتوں کو بھی بہت لوگ تسلیم کرتے تھے اور لوگوں میں مشہور تھیں ان دونوں کتابوں میں خلق طیر کا قصہ ان معمولی مبالغہ آمیز باتوں اور کر امتوں کے ساتھ جو ایسے بزرگوں کی تاریخ لکھنے میں خواہ مخواہ ملا دی جاتی ہیں لکھا ہوا ہے۔ یہ دونوں کتابیں انجیل اول طفولیت اور انجیل دوم ملفولیت کے نام سے مشہور ہیں۔
انجیل اول طفولیت دوسری صدی عیسوی نائکس کے ہاں جو عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے مروج اور سلم تھی اور ازمنہ مابعد میں یعنی اس کے اکثر بیانات پر اکثر مشہور عیسائی عالم یوسییس واتھانسیس و ایپی فیفیس وکرائی ساستم وغیرہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بیس ڈی کیسٹرڈ ایک انجیل طامسن کا ذکر کرتا ہے کہ ایشیاء وافریقہ کے اکثر گرجاؤں میں پڑھی جاتی تھی اور اسی پر لوگوں کے اعتقاد کا دارومدار تھا۔ فیبریشیس کے نزدیک وہ یہی انجیل ہے۔
انجیل دوم طفولیت اصل یونانی قلمی نسخہ سے ترجمہ کی گئی ہے جو کتب خانہ شاہ فرانس میں دستیاب ہوا تھا۔ یہ طامسن کی طرف منسوب ہے اور ابتداء انجیل مریم کے شامل خیال کی گئی ہے۔
انجیل اول میں یہ قصہ اس طرح پر لکھا ہے۔ اور جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر سات برس کی تھی وہ ایک روز اپنے ہم عمر رفیقوں کے ساتھ جو کھیل رہے تھے اور مٹی کی مختلف صورتیں یعنی گدھے بیل چڑیاں اور آور مورتیں بنا رہے تھے۔
ہر شخص اپنی کاریگری کی تعریف کرتا تھا اور اوروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔
تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لڑکوں سے کہا کہ میں ان مورتوں کو جو میں نے بنائی ہیں چلنے کا حکم دونگا۔
اور فی الفور وہ حرکت کرنے لگیں اور جب انھوں نے ان کو واپس آنے کا حکم دیا تو وہ واپس آئیں۔
انہوں نے پرندوں اور چڑیوں کی مورتیں بھی بنائی تھیں اور جب ان کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ اڑنے لگیں اور جب انھوں نے ان کو ٹھہر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھہر گئیں اور اگر وہ ان کو کھانا اور پانی دیتے تھے تو کھاتی پیتی تھیں۔
جب آخر کار لڑکے چلے گئے اور ان باتوں کو اپنے والدین سے بیان کیا تو ان کے والدین نے ان سے کہا کہ بچو آئندہ اس کی صحبت سے احتراز کرو کیونکہ وہ جادو گر ہے۔ اس سے بچو اور پرہیز کرو اور اب اس کے ساتھ کبھی نہ کھیلو۔
اور انجیل دوم میں اس طرح پر ہے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر پانچ برس کی تھی اور مینہ برس کر کھل گیا تھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عبرانی لڑکوں کے ساتھ ایک ندی کے کنارہ کھیل رہے تھے اور پانی کنارہ کے اوپر بہہ کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں ٹھہر رہا تھا۔
مگر اسی وقت پانی صاف اور استعمال کے لائق ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حکم سے جھیلوں کو صاف کردیا اور انھوں نے ان کا کہنا مانا تب انھوں نے ندی کے کنارہ پر سے کچھ نرم مٹی لی اور اس کی بارہ چڑیاں بنائیں اور ان کے ساتھ اور لڑکے بھی کھیل رہے تھے۔
مگر ایک یہودی نے ان کاموں کو دیکھ کر یعنی ان کا سبت کے دن چڑیوں کی مورتیں بنانا دیکھ کر بلا توقف ان کے باپ یوسف سے جاکر اطلاع کی اور کہا کہ دیکھ تیرا لڑکا ندی کے کنارہ کھیل رہا ہے اور مٹی لے کر اس کی بارہ چڑیاں بنائی ہیں اور سبت کے دن گناہ کررہا ہے۔
تب یوسف اس جگہ جہاں حضرت عیسیٰ تھے آیا اور ان کو دیکھا تب بلا کر کہا کیوں تم ایسی بات کرتے ہو جو سبت کے دن کرنا جائز نہیں ہے۔
تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں کی ہتیلیاں بجا کر چڑیوں کو بلایا اور کہا جاؤ اڑ جاؤ اور جب تک تم زندہ رہو مجھے یاد رکھو پس چڑیاں غل مچاتی ہوئی اڑ گئیں۔
یہودی اس کو دیکھ کر متعجب ہوئے اور چلے گئے اور اپنے ہاں کے بڑے بڑے آدمیوں سے جاکر وہ عجیب و غریب معجزہ بیان کیا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے سامنے ظہور میں آیا تھا۔
مگر جب تاریخانہ تحقیق کی نظر سے اس پر غور کیا جاتا ہے تو اصل بات صرف اس قدر تحقیق ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بچپنے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں مٹی کے جانور بناتے تھے، اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے موقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں کہ خدا ان میں جان ڈال دے گا وہ بھی کہتے ہوں گے مگر ان دونوں کتابوں کے لکھنے والوں نے اس کو کراماتی طور پر بیان کیا کہ فی الحقیقت ان میں جان پڑجاتی تھی۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امروقوعی نہ تھا بلکہ صف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا۔ علمائے اسلام ہمیشہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق اخذ کرنے کے مشاق تھے اور بلا تحقیق ان روایتوں کی تقلید کرتے تھے انھوں نے ان الفاظ کی اسی طرح تفسیر کی جس طرح غلط سلط عیسائیوں کی روایتوں میں مشہور تھی اور اس پر خیال نہیں کیا کہ خود قرآن مجید ان روایتوں کی غلطی کی تصحیح کرتا ہے۔
سورة مائدہ میں بھی یہی مضمون خدا تعالیٰ نے مخاطب کے صیفوں سے دوبارہ بیان فرمایا ہے۔ مگر اس مقام پر ایسی عمدگی سے سیاق کلام واقع ہوا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس قصہ کو بعض واقعات متحقق الوقوع کے ساتھ بیان کیا ہے اس پر بھی اس خاص قصہ کا وقوع کہ وہ مٹی کی مورتیں پرند ہوجاتی تھیں ثابت نہیں ہوتا۔ اس سورة میں خدا تعالیٰ نے تمام واقعات متحقق الوقوع کو ماضی کے صحیفوں سے بیان فرمایا ہے۔ جیسے کہ، اذا یدتک بروح القدس۔ اذ علمتک الکتاب والحکمۃ۔ اذکففت بنی اسرائیل عنک۔ ذاوحیت الی الحواریین۔ مگر مٹی کی مورتوں کے پرند ہوجانے کے قصہ کو مستقبل کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے جیسے کہ اذتخلق۔ فتنفخ۔ فتکون۔ اس سیاق کے بدلنے سے یہ نتیجہ ہے کہ جس مضارع کے صیغہ پر اذکا اثر پہنچے گا وہ تو امر متحقق الوقوع ہوجاویگا اور جس صیغہ تک اس کا اثرنہ پہنچے گا وہ امر غیر متحقق الوقوع رہے گا ۔ اس کلام میں اذکا اثر ” خلق “ اور ” تنفخ “ تک پہنچتا ہے اور ” تکون “ تک نہیں پہنچتا جیسا کہ ہم بیان کرینگے پس ان مٹی کی مورتوں کا جاندار ہوجانا غیر متحقق الوقوع باقی رہتا ہے یعنی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ ہر حقیقت وہ مٹی کی مورتیں جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔
اس آیت میں بھی ” فتکون “ پر کی (ف) عاطفہ نہیں ہوسکتی کیونکہ گروہ عاطفہ ہو تو اس کا عطف ” تخلق “ پر ہوگا اور معطوف حکم معطوف علیہ میں ہوتا ہے اور معطوف لمیہ کی جگہ قائم ہوسکتا ہے اور یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اگر معطوف علیہ کو حذف کردیا جاوے اور معطوف اس کی جگہ رکھ دیا جاوے تو کوئی خرابی اور نقص کلام میں نہ ہونے پاوے۔ اور اس مقام پر ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر معطوف علیہ کو حذب کرکے۔” فیکون طیرا “ اس کی جگہ رکھ دیں تو کلام اس طرح پر ہوجاتا ہے کہ ” اذکرنعمتی علیک اذ تکون طیرا “۔ اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے۔ اب ضرور ہے کہ یہ (ف) کے ذریعہ سے ” تنفخ “ متفرق علیہ اور تکون متفرع دونوں مل کر تخلق پر معطوف ہوں گے اور تقدیر کلام یوں ہوگی۔ اذکر نعمتی علیک اذ تنفخ فیھا فتکون طیرا۔ مگر اس صورت میں ” فتکون طیرا “ صرف ” تنفخ “ پر تفریع ہوگی اور ” اذ “ کا اثر جو مضارع پر آنے سے نسحقق زمانہ ماضی کا ہے یا اس امر کو متحقق الوقوع کردینے کا ہے۔ تکون تک نہیں پہنچتا کیونکہ وہ اثر اس وقت پہنچتا جب کہ ” فکون “ کی (ف) عاطفہ ہوتی اور اس کا عطف۔ تخلق پر جائز ہوتا ۔ اس صورت میں تکون کو محف تفریحی حالت اسی طرح باقی رہتی ہے جیسی کہ سورة آل عمران میں تھے اور اس لیے اس تفریع سے اس اور متفرع کا وقوع ثابت نہیں ہوتا۔
اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ بات تو ثابت ہوئے کہ حضرت عیسیٰ بچپن کی حالت میں مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے تھے اور پوچھنے والے سے کہتے تھے کہ میرے پھونکنے سے وہ پرند ہوجاوینگے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ پرند ہو بھی جاتی تھیں نہ قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے نہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کہنا ایسا ہی تھا جیسے کہ بچے اپنے کھیلنے میں بمقتضائے عمر اس قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں۔
سوم۔ تائید روح القدس
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة بقرہ میں فرمایا ہے ” وایدتاہ یروح القدس ، اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے اذ ایک تک بروح القدس۔ یہ آیتیں کچھ زیادہ تفسیر کی محتاج نہیں ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) موئد ب تائید روح القدس ہیں اگر بحث ہوسکتی ہے تو حقیقت روح القدس میں ہوسکتی ہے تمام علمائے اسلام اس کو ایک مخلوق جداگانہ خارج از خلقت انبیاء قرار دے کر اس کو بطور ایلچی کے خداو نبی میں واسطہ قرار دیتے ہیں اور جبرائیل اس کا نام بتاتے ہیں ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شے واحد یقین کرتے ہیں مگر اس کو خارج از خلقت انبیاء مخلوق جداگانہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء (علیہم السلام) کی خلقت یہی جو بلکہ نبوت ہے اور جو ذریعہ مبدء فیاض سے ان امور کے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں وہی روح القدس ہے اور وہی جبرئیل۔ اس کی نسبت ہم سورة بقرہ میں بہ تحت آیت ” و ان کنتم فی ریب مما نزل علے عبدنا کے پوری بحث کہہ چکے ہیں۔
چہارم۔ تعلیم کتاب و حکمت
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں فرمایا ہے ” ویعلمہ الکتاب وللملئکۃ والتوراۃ والاخیل ورسولا الی بنی اسرائیل “ اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ ” واذعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ ولا نجیل “ یہ دونوں مضمون واحد میں اور ان میں کچھ مشکلات نہیں ہیں کیونکہ بلاشبہ تمام انبیاء کو خدا تعالیٰ احکام و حکمت تلقین کرتا ہے اور کتاب پڑھاتا ہے اور ان کے طرح میں علم کا وہ خزانہ جمع کرتا ہے جس کو وہ تمام لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
پنجم۔ خدا کی نشانی کا لانا
اس امر کی نسبت سورة آل عمران میں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یوں فرمایا ہے۔ افی قدجئتکم بایۃ من ربکم۔ ہم اس بات کی تحقیق سورة بقرہ میں لکھ چکے ہیں ، دیکھو جلد اول کہ آیت اور آیات اور آیات بینات سے دخا تعالیٰ کے احکام مراد ہوتے ہیں جو انبیاء کہ وحی کئے جاتے ہیں پس اس مقام پر بھی ہم آیت کے لفظ کے یہی معنی قرار دیتے ہیں اور آیت سے جنس مراد لیتے ہیں نہ فرد۔ صاحب تفسیر کبیر نے بھی اس سے جنس ہی مراد لی ہے اور کہا ہے کہ ۔” المراد بالا یۃ الجنس لا الفرد “
مگر اس مقام کی تفسیر کرنے سے پیشتر ہم کو اس امر کا بیان کرنا چاہیے جو سورة آل عمران کی آیتوں کے ربط کی نسبت ہے۔ یہ آیت اور اس کے بعد کی آیتیں سورة آل عمران میں ان آیتوں کے بعد واقع ہوئی ہیں جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہونے کی بشارت ہے۔ وہ آیتیں رسولا الی بنی اسرائیل تک برابر مسلسل چلی آتی ہیں مگر اس کے بعد جو یہ آیت ہے۔ انی قد جئتکم بایۃ من ریکم۔ اس کا اور اس کے بعد کی آیتوں کا بشارت کی آیات سے جوڑ نہیں ملتا۔ علمائے مفسرین نے اس آیت کو اور نیز اس کے بعد کی آیتوں کو شامل آیات بشارت کے کیا ہے اور جوڑ ملانے کو لفظ قائلا محذوف مانا ہے یعنی رسولا الی بنی اسرائیل قائلا انی قد جئتکم بایۃ مرقال کے بعد ان مستوحہ آنا کسی قدر اعتراض کے لائق تھا اس لیے زجاج نے اس جگہ اوپر کی آیتوں سے جوڑ لگانے کو ویکلم الناس رسولا مقدر مانا ہے اور یہ معنی قرار دیئے ہیں ویکلم رسولا بانی قد جئتکم۔
مگر ہم کو مفسرین کے ان اقوال سے اختلاف ہے خود سیاق کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس قدر آیتیں بشارت سے متعلق تھیں وہ اس مقام پر ختم ہوگئیں جہاں فرمایا۔ ورسولا الیٰ بنی اسرائیل۔ اور وہ کلام منقطع ہوگیا اور ۔ انی قد جئتکم یایۃ۔ سے دوسرا کلام شروک ہوا اس لیے کہ بشارت کی آیتوں میں تمام صیغے مستقبل کے آنے ہیں جیسے۔ یکلم الناس ویعلم الکتاب۔ اور ان سب آیتوں میں حالات قبل ولادت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بیان ہوئے ہیں۔ اور اس کے بعد صیغے متکلم کے ہیں جیسے کہ ۔ انی قد جئتکم ۔ انی اخلق لکم۔ وابری الا لہ وانبئکم۔ اور ان میں وہ تمام حالات مذکور ہیں جو بعد ولادت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) واقع ہوئے ہیں پس ان پچھلی آیتوں کو آیات بشارت کے ساتھ شامل کردینا بالکل سیاق کلام کے برخلاف ہے۔
صاحب تفسیر ابن عباس نے بھی ان آیتوں کو بشارت کی آیتوں سے منقطع کیا ہے اور تقریر کلام کی یوں کی ہے۔ فلما جاء ھم قال انی قد جئتکم بایۃ۔ مگر اس تقریر میں وہی نقص باقی رہتا ہے کہ قال کے بعد ان مفتوحہ واقع ہوتا ہے۔
مگر ہم تقریر کلام کی اس طرح پر کرتے ہیں کہ ۔ فلما جاء ھم قال مجیبا لھم بانی قد جئتکم بایۃ۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں میں وعظ و نصیحت کرنے لگے، اور خدا کے احکام سنانے لگے تو ان کی قوم نے کہا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا انی قد جئتکم بایۃ من ربکم۔ یہ تقریر ہم نے اس لیے کی ہے کہ یہ مضمون۔ انی قد جئتکم ۔ بایۃ من وبکم۔ اور وہ مضموں جو سورة مریم میں ہے۔ قال انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا۔ بالکل متحد ہے اور یہ پچھلا مضمون جواب میں قوم کے سوال کے واقع ہوا ہے اور یہ قرینہ ہے کہ وہ پہلا مضمون بھی قوم کے جواب میں ہے۔
متیٰ کی انجیل میں لکھا ہے کہ جب حضرت مسیح معبد میں وعظ کررہے تھے تو سردار امام مشائخ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ تو کس حکم سے یہ کام کرتا ہے اور کس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ حاصل جواب مسیح یہ ہے کہ جس کے حکم سے یحینے غوطہ دینے والا کرتا تھا (متی باب درس - )
اب کسی اور تفسیر کی اس مقام پر ضرورت نہیں رہی کیونکہ جس قدر انبیاء (علیہم السلام) قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ان کے پاس احکام لاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بنی اسرائیل کی قوم پر مبعوث ہوئے تھے اور خدا کی طرف سے ان کے لیے احکام لاتے تھے۔
ششم۔ حواریوں کے دل میں ایمان کا ڈالنا
اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ واذا وحیث الی لحوارین ان امنوابی ربر سوتی قالوا امنا واشھد باننا مسمون۔ تمام انبیاء پر خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت اس کے حواریوں اور اصحابوں کا پیدا کردینا ہے۔ وہ اس کام میں مددگار ہوتے ہیں۔ رنج و تکلیف کی حالت میں ان سے تسلی ہوتی ہے۔ اسی سبب سے خدا نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حواریوں کا جو بدل و جان ان پر فدا تھے ایمان لانا یاد دلایا اور اپنی رحمت اور احسان کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنے کے لیے کہا کہ ہم نے حواریوں کو کہا کہ میرے رسول پر ایمان لے آؤ یعنی میں نے ہدایت کی اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ ایمان لانا خدا ہی کی ہدایت پر منحصر ہے۔
ہفتم۔ اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا
ہشتم۔ موتیٰ کو زندہ کرنا
اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے اس طرح فرمایا ہے کہ ۔ وابری الا کمہ والا برص واحی الموتی باذن اللہ ۔ اور سورة مائدہ میں یوں فرمایا ہے۔ وتبری الا کہ والابرص باذنی واذتخرج الموتی باذنی۔
علمائے اسلام کی عادت ہے کہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق بیان کرتے ہیں اس لیے انھوں نے ان آیتوں کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اندھوں کو آنکھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرتے تھے اور مردوں کو چلا دیتے تھے اور صرف تازہ مردوں ہی کو نہیں چلاتے تھے بلکہ ہزاروں برس کے پرانے مردوں کو بھی چلا دیتے تھے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سام ابن نوح کو ان کی قبر میں سے بلایا اور وہ زندہ ہو کر قبر میں سے نکل آئے اور اسی قسم کی اور بہت سی بہیودہ روایاتیں لکھی ہیں۔
انجیلوں میں بھی اس قسم کے بہت سے معجزے حضرت مسیح کی نسبت بیان ہوئے ہیں مگر نہایت تعجب ہے کہ خود انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب ان سے فروسیوں اور صدوقیوں نے آسمانی معجزہ طلب کیا تو انھوں نے معجزے کے ہونے سے انکار کیا دیکھو انجیل متیٰ باب درس ۔ باب درس ۔ انجیل مارک بابدرس ۔ انجیل لوک باب درس ) پھر کیونکر اس قدر معجزے حضرت مسیح کی انجیلوں میں مذکور ہیں اور وہ معجزے بھی اس قسم کے ہیں کہ سن کر تعجب آتا ہے۔ کہیں دیوانے آدمیوں میں سے دیو نکلتے ہیں اور سوروں کے کنہ میں گھس کر ان کو دریا میں ڈبوتے ہیں۔ کہیں گونگے آدمیوں سے گونگادیو نکلتا ہے۔
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ۟ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَکَہۡلًا ۚ وَ اِذۡ عَلَّمۡتُکَ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَالتَّوۡرٰىۃَ وَالۡاِنۡجِیۡلَ ۚ وَ اِذۡ تَخۡلُقُ مِنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ بِاِذۡنِیۡ فَتَنۡفُخُ فِیۡہَا فَتَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِیۡ وَتُبۡرِیٴُالۡاَکۡمَہَ وَالۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ تُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِیۡ ۚ وَ اِذۡ کَفَفۡتُ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَنۡکَ اِذۡ جِئۡتَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۱۰﴾
تفسیر سرسید :
( اذقال اللہ) اس مقام سے خدا تعالیٰ نے ان واقعات میں سے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بچپن اور جوانی کے زمانہ میں گزرے تھے چند واقعات کا جن کا بیان سورة آل عمران میں بھی ہوچکا ہے بطور اپنے احسان اور اپنی نعمت کے بیان کرنا شروع کیا ہے بچپن کی حالت کو یا ددلایا ہے پھر نوعمری کے زمانہ کو یاد دلایا ہے پھر نبوت کے زمانہ کو یاد دلایا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طرح کا طرز کلام نہایت دلچسپ اور محبت سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک اعلیٰ درجہ کے شخص کو اس کے بچپن کی بھولی بھالی باتیں یاد دلائی جاتی ہیں اور پھر ان کمالوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کو اس نے حاصل کیا ہے۔ ان دونوں زمانوں کی باتیں مل کر نہایت دلچسپ اور پر اثر ہوجاتی ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی دونوں زمانوں کی باتوں کو یاد دلایا ہے اور یوں فرمایا ہے کہ تو اس بات کو یاد کر جب کہ میں نے روح القدس سے تیری مدد کی ۔ تو اس بات کو یاد کر جب کہ تونے بچپن میں گفتگو کی۔ تو اس بات کو یاد کر جب کہ میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت سکھائی۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتا تھا اور ان میں پھونکتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاوینگی۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا تھا۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مردے کو زندہ کرتا تھا۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ میں تجھ کو بنی اسرائیل سے بچایا۔ اس وقت کو یاد کر جب کہ میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور تجھ پر ایمان لاویں۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تجھ سے حواریوں نے آسمان پر سے رزق اترنے کی درخواست کی۔ تو اس وقت کو بھی یاد رکھ جب کہ میں تجھ کو اس شرک کی الزام سے جو تیری امت نے تجھ پر دھرا ہے بری کرونگا ۔ ان باتوں کے سوا سورة آل عمران میں ایک اور بات بھی بیان ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی (یعنی احکام) لے کر آیا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں تم کو بتلا دونگا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جن کو ہم ایک سلسلہ میں جمع کرکے ہر ایک کا اس ترتیب سے جدا جدا بیان کرینگے۔ اول تکلم فی المہد۔ دوم خلق طیر۔ سوم تائید روح القدس۔ چہارم تعلیم کتاب و حکمت۔ پنجم خدا کی نشانی کا لانا ۔ ششم حواریوں کے دل میں ایمان کا ڈالنا ۔ ہفتم اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا ہشتم موتے کو زندہ کرنا۔ نہم اخبار عن الغیب۔ دہم نزول مائدہ ۔ یازدہم بنی اسرائیل سے بچانا۔ دوازدہم ات حن المشرکین۔
اول۔ تکلم فی المہد
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں فرمایا ہے۔ ویکلم الناس فی المہد دکھلا۔ اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ تکلم الناس فی المھد دکھلا اور سورة مریم میں فرمایا ہے۔ فاشارت لیہ قالواکیف تکلم من کان فی المھد صبیاقال انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبی اء۔
ان آیتوں میں صرف لفظ مہد کا ہے جس پر بحث ہوسکتی ہے مگر مہد سے صرف صغر سنی کا زمانہ مراد ہے نہ وہ زمانہ جس میں کوئی بچہ بمقتضائے قانون قدرت کلام نہیں کرسکتا اس مضمون پر ہم ابھی سورة آل عمران میں بحث کرچکے ہیں۔
دوم۔ خلق طیر
یہ اس حالت کا ذکر ہے جب کہ حضرت عیسیٰ بچے تھے اور بچپن کے زمانہ میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اس کی نسبت خدا نے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یوں فرمایا ہے کہ انی احلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر نانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ۔ اور سورة مائدہ میں یوں فرمایا ہے۔ واذتخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیھا فتکون طیرا باذنی۔
سورة آل عمران میں یہ مضمون حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے متکلم کے صیغوں میں بیان ہوا ہے اور سورة مائدہ میں خدا کی طرف سے مخاطب کے صیفوں میں۔ اگر سورة آل عمران میں اس آیت سے پہلے یہ آیت ہے کہ انی قد جئتکم ربۃ من ربکم ۔ اور اس کی نسبت ہم نے ثابت کیا ہے کہ وہ سوال کے جواب میں ہے اسی سیاق پر یہ آیت ہے اور سوال کے جواب میں واقع ہوئی ہے تقدیر کلام کی یہ ہے کہ کسی شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے دیکھ کر پوچھا کہ ۔ مانفعل ؟ قال مجیبا لہ بانی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر الخ، تاریخ سے بھی پایا جاتا ہے کہ جانوروں کی مورتیں بنانے کی نسبت لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال بھی کیا تھا جیسا کہ ہم آگے بیان کرینگے۔
اب اس پر بحث یہ ہے کہ کیا درحقیقت یہ کوئی معجزہ تھا اور کیا درحقیقت قرآن مجید سے ان مٹی کے جانوروں کا جاندار ہوجانا اور اڑنے لگنا ثابت ہوتا ہے ؟ تمام مفسرین اور علمائے اسلام کا جواب یہ ہے کہ ہاں۔ مگر ہمارا جواب ہے کہ نہیں۔ بشرطیکہ دل و دماغ کو ان خیالات سے جو قرآن مجید پر غور کرنے اور قرآن مجید کا مطلب سمجھنے سے پہلے عیسائیوں کی صحیح و غلط روایات کی تقلید سے بیٹھا لیے میں خالی کرکے نفس قرآن مجید پر بنظر تحقیق غور کیا جاوے۔
سورة آل عمران میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ” انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیر باذن اللہ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مٹی سے پرندوں کی مورتیں بناتا ہوں پھر ان میں پھوکونگا تاکہ وہ اللہ کے حکم سے پرند ہوجاویں۔ یہ بات حضرت عیسیٰ نے سوال کے جواب میں کہی تھی مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پھونکنے کے بعد درحقیقت وہ پرندوں کی مورتیں جو مٹی سے بناتے تھے جاندار ہوجاتی تھیں اور اڑنے بھی لگتی تھیں۔
” فیکون “ پر جو (ف) سے وہ عاطفہ تو ہو نہیں سکتی کیونکہ اگر وہ عاطفہ ہو تو ” یکون طیرا “ ان کی خبر ہوئی اور اس کا عطف ” اخلق “ پر ہوگا اور ” یکون طیرا “ میں یکون صیغہ متکلم کا نہیں ہے اور نہ اس کلام میں کوئی ضمیر اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ اسم ان کی طرف راجع ہوسکے اس لیے ” یکون طیرا “ نحو کے قاعدہ کے مطابق یا یوں کہو کہ بموجب محاورہ زبان عرب کے کسی طبع ان کی خبر نہیں ہوسکتا اور ” فیکون “ کی (ف) عاملقہ قرار نہیں پاسکتی۔ اب ضرور ہے کہ وہ (ف) تفریع کی ہو اور پھونکنے میں اور ان مورتوں کے پرند ہوجانے میں کو کہ درحقیقت کوئی سبب حقیقی یا مجازی یا ذہنی یا خارجی نہ ہو مگر ممکن ہے کہ متکلم نے ان میں ایسا تعلق سمجھا ہو کہ اس کو متفرع اور متفرع الیہ کی صورت میں یا سبب اور مسبب کی صورت میں بیان کرے جہاں کلام مجازات کی بحث نحو کی کتابوں میں لکھی ہے اس میں صاف بیان کیا ہے کہ کلام مجازات سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ درحقیقت وہ ایک امر کو دوسرے امر کا حقیقی سبب کردیتے ہیں بلکہ متکلم اس طرح پر خیال کرتا ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پہلا امر دوسرے اور کا حقیقی یا خارجی یا ذہنی سبب ہو۔ مگر صف اس طرح کے بیان سے امر متفرع یا مسبب کا وقوع ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی اور دلیل سے نہ ثابت ہو کہ وہ امرفی الحقیقت وقوع بھی آیا تھا۔ اور جس قدر الفاظ قرآن مجید کے ہیں ان میں یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ پرندوں کی مٹی کی مورتیں درحقیقت جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ طفوائیت کے حالات بہت کم لکھے گئے ہیں چاروں انجیلیں جو اس زمانہ میں معتبر گنی جاتی ہیں ان میں زمانہ طفولیت کے کچھ بھی حالات نہیں ہیں یہ بات تو ممکن نہیں ہے کہ ان کے زمانہ طفولیت کے کچھ حالات ہوں ہی نہیں مگر کسی کو ان کے لکھنے پر رغبت ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انتقال کے بہت زمانہ بعد بعض قدیم عیسائی مورخوں نے ان کے حالات زمانہ طفولیت کے لکھنے پر کوشش کی ہے اور اس وقت ہم کو دو کتابیں انجیل طفولیت کے نام سے دستیاب ہوتی ہیں جن کو حال کے عیسائیوں نے نامعتمد کتابوں میں داخل کیا ہے بہرحال ان کتابوں کی روایتوں کو بھی بہت لوگ تسلیم کرتے تھے اور لوگوں میں مشہور تھیں ان دونوں کتابوں میں خلق طیر کا قصہ ان معمولی مبالغہ آمیز باتوں اور کر امتوں کے ساتھ جو ایسے بزرگوں کی تاریخ لکھنے میں خواہ مخواہ ملا دی جاتی ہیں لکھا ہوا ہے۔ یہ دونوں کتابیں انجیل اول طفولیت اور انجیل دوم ملفولیت کے نام سے مشہور ہیں۔
انجیل اول طفولیت دوسری صدی عیسوی نائکس کے ہاں جو عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے مروج اور سلم تھی اور ازمنہ مابعد میں یعنی اس کے اکثر بیانات پر اکثر مشہور عیسائی عالم یوسییس واتھانسیس و ایپی فیفیس وکرائی ساستم وغیرہ اعتقاد رکھتے تھے کہ بیس ڈی کیسٹرڈ ایک انجیل طامسن کا ذکر کرتا ہے کہ ایشیاء وافریقہ کے اکثر گرجاؤں میں پڑھی جاتی تھی اور اسی پر لوگوں کے اعتقاد کا دارومدار تھا۔ فیبریشیس کے نزدیک وہ یہی انجیل ہے۔
انجیل دوم طفولیت اصل یونانی قلمی نسخہ سے ترجمہ کی گئی ہے جو کتب خانہ شاہ فرانس میں دستیاب ہوا تھا۔ یہ طامسن کی طرف منسوب ہے اور ابتداء انجیل مریم کے شامل خیال کی گئی ہے۔
انجیل اول میں یہ قصہ اس طرح پر لکھا ہے۔ اور جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر سات برس کی تھی وہ ایک روز اپنے ہم عمر رفیقوں کے ساتھ جو کھیل رہے تھے اور مٹی کی مختلف صورتیں یعنی گدھے بیل چڑیاں اور آور مورتیں بنا رہے تھے۔
ہر شخص اپنی کاریگری کی تعریف کرتا تھا اور اوروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔
تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لڑکوں سے کہا کہ میں ان مورتوں کو جو میں نے بنائی ہیں چلنے کا حکم دونگا۔
اور فی الفور وہ حرکت کرنے لگیں اور جب انھوں نے ان کو واپس آنے کا حکم دیا تو وہ واپس آئیں۔
انہوں نے پرندوں اور چڑیوں کی مورتیں بھی بنائی تھیں اور جب ان کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ اڑنے لگیں اور جب انھوں نے ان کو ٹھہر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھہر گئیں اور اگر وہ ان کو کھانا اور پانی دیتے تھے تو کھاتی پیتی تھیں۔
جب آخر کار لڑکے چلے گئے اور ان باتوں کو اپنے والدین سے بیان کیا تو ان کے والدین نے ان سے کہا کہ بچو آئندہ اس کی صحبت سے احتراز کرو کیونکہ وہ جادو گر ہے۔ اس سے بچو اور پرہیز کرو اور اب اس کے ساتھ کبھی نہ کھیلو۔
اور انجیل دوم میں اس طرح پر ہے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر پانچ برس کی تھی اور مینہ برس کر کھل گیا تھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عبرانی لڑکوں کے ساتھ ایک ندی کے کنارہ کھیل رہے تھے اور پانی کنارہ کے اوپر بہہ کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں ٹھہر رہا تھا۔
مگر اسی وقت پانی صاف اور استعمال کے لائق ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حکم سے جھیلوں کو صاف کردیا اور انھوں نے ان کا کہنا مانا تب انھوں نے ندی کے کنارہ پر سے کچھ نرم مٹی لی اور اس کی بارہ چڑیاں بنائیں اور ان کے ساتھ اور لڑکے بھی کھیل رہے تھے۔
مگر ایک یہودی نے ان کاموں کو دیکھ کر یعنی ان کا سبت کے دن چڑیوں کی مورتیں بنانا دیکھ کر بلا توقف ان کے باپ یوسف سے جاکر اطلاع کی اور کہا کہ دیکھ تیرا لڑکا ندی کے کنارہ کھیل رہا ہے اور مٹی لے کر اس کی بارہ چڑیاں بنائی ہیں اور سبت کے دن گناہ کررہا ہے۔
تب یوسف اس جگہ جہاں حضرت عیسیٰ تھے آیا اور ان کو دیکھا تب بلا کر کہا کیوں تم ایسی بات کرتے ہو جو سبت کے دن کرنا جائز نہیں ہے۔
تب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں کی ہتیلیاں بجا کر چڑیوں کو بلایا اور کہا جاؤ اڑ جاؤ اور جب تک تم زندہ رہو مجھے یاد رکھو پس چڑیاں غل مچاتی ہوئی اڑ گئیں۔
یہودی اس کو دیکھ کر متعجب ہوئے اور چلے گئے اور اپنے ہاں کے بڑے بڑے آدمیوں سے جاکر وہ عجیب و غریب معجزہ بیان کیا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کے سامنے ظہور میں آیا تھا۔
مگر جب تاریخانہ تحقیق کی نظر سے اس پر غور کیا جاتا ہے تو اصل بات صرف اس قدر تحقیق ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بچپنے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں مٹی کے جانور بناتے تھے، اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے موقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں کہ خدا ان میں جان ڈال دے گا وہ بھی کہتے ہوں گے مگر ان دونوں کتابوں کے لکھنے والوں نے اس کو کراماتی طور پر بیان کیا کہ فی الحقیقت ان میں جان پڑجاتی تھی۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امروقوعی نہ تھا بلکہ صف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا۔ علمائے اسلام ہمیشہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق اخذ کرنے کے مشاق تھے اور بلا تحقیق ان روایتوں کی تقلید کرتے تھے انھوں نے ان الفاظ کی اسی طرح تفسیر کی جس طرح غلط سلط عیسائیوں کی روایتوں میں مشہور تھی اور اس پر خیال نہیں کیا کہ خود قرآن مجید ان روایتوں کی غلطی کی تصحیح کرتا ہے۔
سورة مائدہ میں بھی یہی مضمون خدا تعالیٰ نے مخاطب کے صیفوں سے دوبارہ بیان فرمایا ہے۔ مگر اس مقام پر ایسی عمدگی سے سیاق کلام واقع ہوا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس قصہ کو بعض واقعات متحقق الوقوع کے ساتھ بیان کیا ہے اس پر بھی اس خاص قصہ کا وقوع کہ وہ مٹی کی مورتیں پرند ہوجاتی تھیں ثابت نہیں ہوتا۔ اس سورة میں خدا تعالیٰ نے تمام واقعات متحقق الوقوع کو ماضی کے صحیفوں سے بیان فرمایا ہے۔ جیسے کہ، اذا یدتک بروح القدس۔ اذ علمتک الکتاب والحکمۃ۔ اذکففت بنی اسرائیل عنک۔ ذاوحیت الی الحواریین۔ مگر مٹی کی مورتوں کے پرند ہوجانے کے قصہ کو مستقبل کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے جیسے کہ اذتخلق۔ فتنفخ۔ فتکون۔ اس سیاق کے بدلنے سے یہ نتیجہ ہے کہ جس مضارع کے صیغہ پر اذکا اثر پہنچے گا وہ تو امر متحقق الوقوع ہوجاویگا اور جس صیغہ تک اس کا اثرنہ پہنچے گا وہ امر غیر متحقق الوقوع رہے گا ۔ اس کلام میں اذکا اثر ” خلق “ اور ” تنفخ “ تک پہنچتا ہے اور ” تکون “ تک نہیں پہنچتا جیسا کہ ہم بیان کرینگے پس ان مٹی کی مورتوں کا جاندار ہوجانا غیر متحقق الوقوع باقی رہتا ہے یعنی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ ہر حقیقت وہ مٹی کی مورتیں جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔
اس آیت میں بھی ” فتکون “ پر کی (ف) عاطفہ نہیں ہوسکتی کیونکہ گروہ عاطفہ ہو تو اس کا عطف ” تخلق “ پر ہوگا اور معطوف حکم معطوف علیہ میں ہوتا ہے اور معطوف لمیہ کی جگہ قائم ہوسکتا ہے اور یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اگر معطوف علیہ کو حذف کردیا جاوے اور معطوف اس کی جگہ رکھ دیا جاوے تو کوئی خرابی اور نقص کلام میں نہ ہونے پاوے۔ اور اس مقام پر ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر معطوف علیہ کو حذب کرکے۔” فیکون طیرا “ اس کی جگہ رکھ دیں تو کلام اس طرح پر ہوجاتا ہے کہ ” اذکرنعمتی علیک اذ تکون طیرا “۔ اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے۔ اب ضرور ہے کہ یہ (ف) کے ذریعہ سے ” تنفخ “ متفرق علیہ اور تکون متفرع دونوں مل کر تخلق پر معطوف ہوں گے اور تقدیر کلام یوں ہوگی۔ اذکر نعمتی علیک اذ تنفخ فیھا فتکون طیرا۔ مگر اس صورت میں ” فتکون طیرا “ صرف ” تنفخ “ پر تفریع ہوگی اور ” اذ “ کا اثر جو مضارع پر آنے سے نسحقق زمانہ ماضی کا ہے یا اس امر کو متحقق الوقوع کردینے کا ہے۔ تکون تک نہیں پہنچتا کیونکہ وہ اثر اس وقت پہنچتا جب کہ ” فکون “ کی (ف) عاطفہ ہوتی اور اس کا عطف۔ تخلق پر جائز ہوتا ۔ اس صورت میں تکون کو محف تفریحی حالت اسی طرح باقی رہتی ہے جیسی کہ سورة آل عمران میں تھے اور اس لیے اس تفریع سے اس اور متفرع کا وقوع ثابت نہیں ہوتا۔
اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ بات تو ثابت ہوئے کہ حضرت عیسیٰ بچپن کی حالت میں مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے تھے اور پوچھنے والے سے کہتے تھے کہ میرے پھونکنے سے وہ پرند ہوجاوینگے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ پرند ہو بھی جاتی تھیں نہ قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے نہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کہنا ایسا ہی تھا جیسے کہ بچے اپنے کھیلنے میں بمقتضائے عمر اس قسم کی باتیں کیا کرتے ہیں۔
سوم۔ تائید روح القدس
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة بقرہ میں فرمایا ہے ” وایدتاہ یروح القدس ، اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے اذ ایک تک بروح القدس۔ یہ آیتیں کچھ زیادہ تفسیر کی محتاج نہیں ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) موئد ب تائید روح القدس ہیں اگر بحث ہوسکتی ہے تو حقیقت روح القدس میں ہوسکتی ہے تمام علمائے اسلام اس کو ایک مخلوق جداگانہ خارج از خلقت انبیاء قرار دے کر اس کو بطور ایلچی کے خداو نبی میں واسطہ قرار دیتے ہیں اور جبرائیل اس کا نام بتاتے ہیں ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شے واحد یقین کرتے ہیں مگر اس کو خارج از خلقت انبیاء مخلوق جداگانہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء (علیہم السلام) کی خلقت یہی جو بلکہ نبوت ہے اور جو ذریعہ مبدء فیاض سے ان امور کے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں وہی روح القدس ہے اور وہی جبرئیل۔ اس کی نسبت ہم سورة بقرہ میں بہ تحت آیت ” و ان کنتم فی ریب مما نزل علے عبدنا کے پوری بحث کہہ چکے ہیں۔
چہارم۔ تعلیم کتاب و حکمت
اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں فرمایا ہے ” ویعلمہ الکتاب وللملئکۃ والتوراۃ والاخیل ورسولا الی بنی اسرائیل “ اور سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ ” واذعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ ولا نجیل “ یہ دونوں مضمون واحد میں اور ان میں کچھ مشکلات نہیں ہیں کیونکہ بلاشبہ تمام انبیاء کو خدا تعالیٰ احکام و حکمت تلقین کرتا ہے اور کتاب پڑھاتا ہے اور ان کے طرح میں علم کا وہ خزانہ جمع کرتا ہے جس کو وہ تمام لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
پنجم۔ خدا کی نشانی کا لانا
اس امر کی نسبت سورة آل عمران میں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یوں فرمایا ہے۔ افی قدجئتکم بایۃ من ربکم۔ ہم اس بات کی تحقیق سورة بقرہ میں لکھ چکے ہیں ، دیکھو جلد اول کہ آیت اور آیات اور آیات بینات سے دخا تعالیٰ کے احکام مراد ہوتے ہیں جو انبیاء کہ وحی کئے جاتے ہیں پس اس مقام پر بھی ہم آیت کے لفظ کے یہی معنی قرار دیتے ہیں اور آیت سے جنس مراد لیتے ہیں نہ فرد۔ صاحب تفسیر کبیر نے بھی اس سے جنس ہی مراد لی ہے اور کہا ہے کہ ۔” المراد بالا یۃ الجنس لا الفرد “
مگر اس مقام کی تفسیر کرنے سے پیشتر ہم کو اس امر کا بیان کرنا چاہیے جو سورة آل عمران کی آیتوں کے ربط کی نسبت ہے۔ یہ آیت اور اس کے بعد کی آیتیں سورة آل عمران میں ان آیتوں کے بعد واقع ہوئی ہیں جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہونے کی بشارت ہے۔ وہ آیتیں رسولا الی بنی اسرائیل تک برابر مسلسل چلی آتی ہیں مگر اس کے بعد جو یہ آیت ہے۔ انی قد جئتکم بایۃ من ریکم۔ اس کا اور اس کے بعد کی آیتوں کا بشارت کی آیات سے جوڑ نہیں ملتا۔ علمائے مفسرین نے اس آیت کو اور نیز اس کے بعد کی آیتوں کو شامل آیات بشارت کے کیا ہے اور جوڑ ملانے کو لفظ قائلا محذوف مانا ہے یعنی رسولا الی بنی اسرائیل قائلا انی قد جئتکم بایۃ مرقال کے بعد ان مستوحہ آنا کسی قدر اعتراض کے لائق تھا اس لیے زجاج نے اس جگہ اوپر کی آیتوں سے جوڑ لگانے کو ویکلم الناس رسولا مقدر مانا ہے اور یہ معنی قرار دیئے ہیں ویکلم رسولا بانی قد جئتکم۔
مگر ہم کو مفسرین کے ان اقوال سے اختلاف ہے خود سیاق کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس قدر آیتیں بشارت سے متعلق تھیں وہ اس مقام پر ختم ہوگئیں جہاں فرمایا۔ ورسولا الیٰ بنی اسرائیل۔ اور وہ کلام منقطع ہوگیا اور ۔ انی قد جئتکم یایۃ۔ سے دوسرا کلام شروک ہوا اس لیے کہ بشارت کی آیتوں میں تمام صیغے مستقبل کے آنے ہیں جیسے۔ یکلم الناس ویعلم الکتاب۔ اور ان سب آیتوں میں حالات قبل ولادت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بیان ہوئے ہیں۔ اور اس کے بعد صیغے متکلم کے ہیں جیسے کہ ۔ انی قد جئتکم ۔ انی اخلق لکم۔ وابری الا لہ وانبئکم۔ اور ان میں وہ تمام حالات مذکور ہیں جو بعد ولادت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) واقع ہوئے ہیں پس ان پچھلی آیتوں کو آیات بشارت کے ساتھ شامل کردینا بالکل سیاق کلام کے برخلاف ہے۔
صاحب تفسیر ابن عباس نے بھی ان آیتوں کو بشارت کی آیتوں سے منقطع کیا ہے اور تقریر کلام کی یوں کی ہے۔ فلما جاء ھم قال انی قد جئتکم بایۃ۔ مگر اس تقریر میں وہی نقص باقی رہتا ہے کہ قال کے بعد ان مفتوحہ واقع ہوتا ہے۔
مگر ہم تقریر کلام کی اس طرح پر کرتے ہیں کہ ۔ فلما جاء ھم قال مجیبا لھم بانی قد جئتکم بایۃ۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں میں وعظ و نصیحت کرنے لگے، اور خدا کے احکام سنانے لگے تو ان کی قوم نے کہا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا انی قد جئتکم بایۃ من ربکم۔ یہ تقریر ہم نے اس لیے کی ہے کہ یہ مضمون۔ انی قد جئتکم ۔ بایۃ من وبکم۔ اور وہ مضموں جو سورة مریم میں ہے۔ قال انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا۔ بالکل متحد ہے اور یہ پچھلا مضمون جواب میں قوم کے سوال کے واقع ہوا ہے اور یہ قرینہ ہے کہ وہ پہلا مضمون بھی قوم کے جواب میں ہے۔
متیٰ کی انجیل میں لکھا ہے کہ جب حضرت مسیح معبد میں وعظ کررہے تھے تو سردار امام مشائخ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ تو کس حکم سے یہ کام کرتا ہے اور کس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ حاصل جواب مسیح یہ ہے کہ جس کے حکم سے یحینے غوطہ دینے والا کرتا تھا (متی باب درس - )
اب کسی اور تفسیر کی اس مقام پر ضرورت نہیں رہی کیونکہ جس قدر انبیاء (علیہم السلام) قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ان کے پاس احکام لاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی بنی اسرائیل کی قوم پر مبعوث ہوئے تھے اور خدا کی طرف سے ان کے لیے احکام لاتے تھے۔
ششم۔ حواریوں کے دل میں ایمان کا ڈالنا
اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورة مائدہ میں فرمایا ہے۔ واذا وحیث الی لحوارین ان امنوابی ربر سوتی قالوا امنا واشھد باننا مسمون۔ تمام انبیاء پر خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت اس کے حواریوں اور اصحابوں کا پیدا کردینا ہے۔ وہ اس کام میں مددگار ہوتے ہیں۔ رنج و تکلیف کی حالت میں ان سے تسلی ہوتی ہے۔ اسی سبب سے خدا نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حواریوں کا جو بدل و جان ان پر فدا تھے ایمان لانا یاد دلایا اور اپنی رحمت اور احسان کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنے کے لیے کہا کہ ہم نے حواریوں کو کہا کہ میرے رسول پر ایمان لے آؤ یعنی میں نے ہدایت کی اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ ایمان لانا خدا ہی کی ہدایت پر منحصر ہے۔
ہفتم۔ اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا
ہشتم۔ موتیٰ کو زندہ کرنا
اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے سورة آل عمران میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے اس طرح فرمایا ہے کہ ۔ وابری الا کمہ والا برص واحی الموتی باذن اللہ ۔ اور سورة مائدہ میں یوں فرمایا ہے۔ وتبری الا کہ والابرص باذنی واذتخرج الموتی باذنی۔
علمائے اسلام کی عادت ہے کہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق بیان کرتے ہیں اس لیے انھوں نے ان آیتوں کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اندھوں کو آنکھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرتے تھے اور مردوں کو چلا دیتے تھے اور صرف تازہ مردوں ہی کو نہیں چلاتے تھے بلکہ ہزاروں برس کے پرانے مردوں کو بھی چلا دیتے تھے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سام ابن نوح کو ان کی قبر میں سے بلایا اور وہ زندہ ہو کر قبر میں سے نکل آئے اور اسی قسم کی اور بہت سی بہیودہ روایاتیں لکھی ہیں۔
انجیلوں میں بھی اس قسم کے بہت سے معجزے حضرت مسیح کی نسبت بیان ہوئے ہیں مگر نہایت تعجب ہے کہ خود انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب ان سے فروسیوں اور صدوقیوں نے آسمانی معجزہ طلب کیا تو انھوں نے معجزے کے ہونے سے انکار کیا دیکھو انجیل متیٰ باب درس ۔ باب درس ۔ انجیل مارک بابدرس ۔ انجیل لوک باب درس ) پھر کیونکر اس قدر معجزے حضرت مسیح کی انجیلوں میں مذکور ہیں اور وہ معجزے بھی اس قسم کے ہیں کہ سن کر تعجب آتا ہے۔ کہیں دیوانے آدمیوں میں سے دیو نکلتے ہیں اور سوروں کے کنہ میں گھس کر ان کو دریا میں ڈبوتے ہیں۔ کہیں گونگے آدمیوں سے گونگادیو نکلتا ہے۔