ولواننا : سورۃ الانعام : آیت 124
وَ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕۘؔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾
تفسیر سرسید :
(مثل ماوتی رسل اللہ) کافروں کے اس قول پر کہ ” ہم ہرگز ایمان نہیں لانے کے جب تک ہم کو اس کے مثل نہ دیا جائے جیسا کہ اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے “ حسن اور ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے کافروں کی یہ مراد تھی کہ جب تک ہم کو ویسے ہی معجزے نہ دکھلائے جاویں جیسے کہ انبیائے سابقین نے دکھائے تھے اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے مگر امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ یہ قول ضعیف ہے قول قوی وہو ہے جو محققین نے کہا ہے ، یعنی کافر چاہتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خدا کی طرف سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جب تک ہمارے پاس بھی خدا کی طرف کوئی پیغام نہ آوے ہم ہرگز ایمان نہیں لانے کے اس کے جواب میں خدا نے فرمایا ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ یعنی خدا کی طرف سے پیغام آنا تو نبوت ہے ہر کسی کو نبوت نہیں مل سکتی بلکہ خدا خوب جانتا ہے کہ کس کو نبوت دے۔
(حیث یجعل رسالتہ) یہ بھی ایک دقیق مسئلہ ہے ہم نے جا بجا بیان کیا ہے کہ نبوت بطور ایک ایسے منصب کے نہیں ہے جیسے کہ کوئی بادشاہ کسی کو کوئی منصب دے دیتا ہے بلکہ نبوت ایک فطری امر ہے اور جس کی فطرت میں خدا نے ملکہ نبوت رکھا ہے وہی نبی ہوتا ہے اور اس بات کو ہم نہیں مانتے کہ سب انسان ایک سے ہوتے ہیں اور ان میں سے جس کو خدا چاہتا ہے نبی اور پیغمبر کردیتا ہے۔ یہ تحقیق کچھ ہماری پیدا کی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس باب میں قدیم سے علما کی دورائیں ہیں بعض علما کی یہ رائے ہے کہواعلم ان الناس اختلفوا فی ھذہ للسئۃ فقال بعضھم النفوس والا روح مقاویۃ فی تمام الماھیۃ فحصول النبوۃ قوالو سالۃ لبعضھا دون البعض تشریف من اللہ ولحان و تفضل ۔ وقال الاخرون بل النفوس البشریۃ مختلفۃ مجراھریا وما ھیا تھا فبعضھا خیرۃ ظاھرۃ من علایق الجسمانیات مشرقۃ بالا نور الحیۃ مستعلیۃ منورۃ و بعضھا خیۃ کدرۃ محبۃ للجسمانیات فالنفس مالم تکن من الیتم الاول لم تصلح لقبولا الوحی والرسالۃ ثم ان القسم الا وزیتع الاختلاف فیہ بالزیاواو متقصان ولمۃ والضعف الی مراتب لا نہایۃ لھا
سب انسان برابر ہیں ان میں سے اللہ جس کو چاہتا ہے درجہ نبوت دے دیتا ہے۔ اور بعض علما کی یہ رائے ہے کہ نبی ازروئے فطرت و خلقت کے نبی ہوتا ہے چنانچہ اسی آیت کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں یہ دونوں قول نقل کئے ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی اس مقام پر ان دونوں قولوں کی نقل کردیں وہ لکھتے ہیں کہ یہ بات جاننی چاہیے کہ اس مسئلہ میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے بعضوں نے کہا کہ نفوس اور اروح تمام ماہیت میں سب برابر ہیں پس نبوت اور رسالت کا ایک کو ملنا فلا جرم کانت مراتب الرسل مختلفۃ فئھم من حصلت لہ المعجزات القریۃ والتبع القلیل ومنھم من حصلت لہ معجزۃ واحدہ اوانثئتان وحصل لمرتبع عظیم ومنھم من کان مالرفق غالبا علیہ ومنھم من کان التشدید غالبا علیہ (تفسیر کبیر)
اور دوسرے کو نہ ملناخدا کی طرف سے شرف دینا اور احسان کرنا اور بزرگی دینا ہے۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ نقوش بشری اپنے جوہر اور اپنی ماہیت میں مختلف ہیں بعضے ان میں سے برگزیدہ اور علائق جسمانیات سے پاک اور انوار الٰہیہ سے روشن اور بلند درجہ پر منور ہوتے ہیں۔ اور بعضے ان میں سے خسیس اور گدلے جسمانیات سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں پس نفس جب تک کہ قسم اول سے نہ ہو وہ وحی، اور رسالت کے قبول کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر قسم اول میں زیادتی اور کمی اور قوت اور ضعف کے ان درجوں تک جن کی کچھ انتہا نہیں ہے اختلاف واقع ہوتا ہے اور اسی وجہ سے رسولوں کے درجے مختلف ہوتے ہیں پھر ان میں سے بعض ہیں جن کو معجزات قویہ حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہوتے ہیں جن کو ایک یا دو معجزے حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت سے ہوجاتے ہیں اور ان میں سے بعضوں پر نرمی غالب ہوتی ہے اور ان میں سے بعضوں پر تشدد غالب ہوتا ہے۔ گو اس تقریر میں ماہیت نفوس بشری میں تفرقہ کرنا شاید غلطی ہو خصوصا ان لوگوں کی رائے میں جو تمام نفوس حیوانی کی ماہیت کو متحد مانتے ہیں اور تفاوت مدارج کا اس کی صورت نوعیہ پر قرار دیتے ہیں جس سے وہ نقش متعلق ہے تاہم حاصل اس تقریر کا جو امام صاحب نے لکھی ہے یہی ہے کہ انبیاء میں ازروئے خلقت و پیدائش و فطرت کے ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے سبب سے وہ نبی ہوتے ہیں اس لیے خدا نے فرمایا کہ ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ غرضیکہ اس مطلب کو امام صاحب نے کسی تقریر سے بیان کیا ہو اور ہم نے کسی تقریر سے مطلب دونوں کا متحد ہوجاتا ہے اگر فرق رہتا ہے تو اس قدر رہتا ہے کہ ہمارے نزدیک جو ملکہ نبوت فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اپنے وقت حسین پر اسی طرح ظہور کرتا ہے جس طرح درخت میں سے پھول پھل اپنے وقت میں اس کے قوی ہوجانے کے بعد پیدا ہوتے ہیں جو بعثت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور امام صاحب کی تقریر کے مطابق باوصف فطرت کے موجود ہونے کے وہ فطرت رسالت دیئے جانے کی محتاج رہتی ہے اسی سبب سے ہم تو کہتے ہیں کہ البنی نبی فی بطن امہ اور امام صاحب یوں کہینگے کہ بعض الانسان قابل للنبوۃ فی بطن امہ اما ان یوتی اولا۔ شاہ ولی اللہ صاحب بھی تفہیمات میں اسی رائے کے موید معلوم ہوتے ہیں انھوں نے صاف لکھ دیا ہے کہ رائے کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے قرون اولیٰ کی نہیں ہے چنانچہ شاہ صاحب کا قول یہ ہے کہ : حقیقۃ النبوۃ ان یرید اللہ بعبادہ اصلا حا فیتدلی الیھم بوجودیشبہ الرجود العرضی قائم برجل زکی الفطرۃ تام الاخلاق نبتہ منہ اللطیفۃ الاسانیۃ لا یقال ذھب علماء اھل السنۃ الی ان النبوۃ محض فضل من اللہ تعالیٰ من غیر خصوصیتہ من العبد وانت ننبت لھم خصوصیۃ فی استعداد ھم لانا نقول ھذا قول نشاء بعد القرون المشھود لھا بالخیر فان مدلول الکتاب والسنۃ وما اجمع عطیہ الساف
نبوت کی یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اصلاح کا ارادہ کرے اور ان کی طرف ایک خاص توجہ اور عنایت مائل کرے (تدلی کے لغوی معنی ہیں ڈول کا کنوئیں میں لٹکانا) بسبب وجود کے جو قائم ہو ایک انسان کامل اور پاک طینت عمدہ خصلت میں جس کا لطیفہ انسانی بیدار اور خبردار ہو۔
ھوان الخصوصیۃ التی ترجع الی کثرہ المال وصباحۃ الوجد وغیر ذلک من حسنات التی یفتحز کیا العامۃ لادل لھا فی النوۃ وکان الکفار یقولون اما کان لنہ یجدر جلالی سالمۃ سوی یتیم ابی طالب لولا انزل القرآن علی رجل من القریتین عظیم فکشف اللہ تعالیٰ انشیبہ واشبع فی الردواما الصفات نباطنیۃ التی یتکم فیھا فلا شیہۃ ان الا بنیاء اتم الخلق یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ سب علمائے اسلامیہ کا یہ قول ہے کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے بندہ کی خصوصیت کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے اور اس تمہاری تقریر سے ان کے لیے ایک خصوصیت استعداد کی مثبت ہوتی ہے اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ قول بہت پیچھے بعداتقضائے قرون مشہور لہا بالخیر کے پیدا ہوا ہے فیھا واقواھم اخلاقا وازکاھم نفسا من نکرذلک لا یستحق ان یتکلم، لعبد لاعن سیرا لا نبیاء راسا الا تری ان ھو قل کیف قال وکذلک الانبیاء تبعث فی نسب قومھ وبالجملۃ فللرسالۃ رکنان دکن قابلیۃ عن الرسول ورکن تدل و تدبیر مس نفرسل (تفھمات)
کہ کتاب اللہ اور حدیث اور اجماع سلف سے یہ ثابت ہے کہ خصوصیت کثرۃ مال اور خوبی چہرہ کو (اور ایسی ہی اور صفات جن کو عام لوگ موجب فخر جانتے ہیں) نبوت میں کچھ دخل نہیں ہے کفاریہ کہا کرتے تھے کہ خدا کو اس ابوطالب کے یتیم کے سوا کوئی آدمی رسالت کے لیے نہ ملا کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دونوں شہروں کے کسی بڑے آدمی پر خدا تعالیٰ نے اس شبہ کو کھول دیا اور صاف طرح سے ان کے قول کو رد کردیا اور صفات باطنیہ جن میں ہم کلام کرتے ہیں وہ بلاشبہ انبیاء میں بہت زیادہ تھیں انبیاء سب خوبیوں کے پوری طرح سے جامع تھے ان کے اخلاق بہت اچھے تھے وہ نہایت پاک ذات تھے جو اس کا منکر ہے وہ کسی طرح اس لائق نہیں ہے کہ اس سے کلام کیا جاوے کہ وہ انبیاء کے خصائل اور خوبیوں سے بالکل دور ہے کیا نہیں معلوم ہے کہ ہرقل نے کہا تھا کہ انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں اپنی قوم کے عمدہ خاندان میں سے بھیجے جاتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ رسالت کے دو رکن ہیں ایک رکن استعداد اور قابلیت نبی کا اور دوسرا رکن توجہ اور عنایت اور تدبیر الٰہی کا۔
وَ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕۘؔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾
تفسیر سرسید :
(مثل ماوتی رسل اللہ) کافروں کے اس قول پر کہ ” ہم ہرگز ایمان نہیں لانے کے جب تک ہم کو اس کے مثل نہ دیا جائے جیسا کہ اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے “ حسن اور ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے کافروں کی یہ مراد تھی کہ جب تک ہم کو ویسے ہی معجزے نہ دکھلائے جاویں جیسے کہ انبیائے سابقین نے دکھائے تھے اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے مگر امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ یہ قول ضعیف ہے قول قوی وہو ہے جو محققین نے کہا ہے ، یعنی کافر چاہتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خدا کی طرف سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جب تک ہمارے پاس بھی خدا کی طرف کوئی پیغام نہ آوے ہم ہرگز ایمان نہیں لانے کے اس کے جواب میں خدا نے فرمایا ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ یعنی خدا کی طرف سے پیغام آنا تو نبوت ہے ہر کسی کو نبوت نہیں مل سکتی بلکہ خدا خوب جانتا ہے کہ کس کو نبوت دے۔
(حیث یجعل رسالتہ) یہ بھی ایک دقیق مسئلہ ہے ہم نے جا بجا بیان کیا ہے کہ نبوت بطور ایک ایسے منصب کے نہیں ہے جیسے کہ کوئی بادشاہ کسی کو کوئی منصب دے دیتا ہے بلکہ نبوت ایک فطری امر ہے اور جس کی فطرت میں خدا نے ملکہ نبوت رکھا ہے وہی نبی ہوتا ہے اور اس بات کو ہم نہیں مانتے کہ سب انسان ایک سے ہوتے ہیں اور ان میں سے جس کو خدا چاہتا ہے نبی اور پیغمبر کردیتا ہے۔ یہ تحقیق کچھ ہماری پیدا کی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس باب میں قدیم سے علما کی دورائیں ہیں بعض علما کی یہ رائے ہے کہواعلم ان الناس اختلفوا فی ھذہ للسئۃ فقال بعضھم النفوس والا روح مقاویۃ فی تمام الماھیۃ فحصول النبوۃ قوالو سالۃ لبعضھا دون البعض تشریف من اللہ ولحان و تفضل ۔ وقال الاخرون بل النفوس البشریۃ مختلفۃ مجراھریا وما ھیا تھا فبعضھا خیرۃ ظاھرۃ من علایق الجسمانیات مشرقۃ بالا نور الحیۃ مستعلیۃ منورۃ و بعضھا خیۃ کدرۃ محبۃ للجسمانیات فالنفس مالم تکن من الیتم الاول لم تصلح لقبولا الوحی والرسالۃ ثم ان القسم الا وزیتع الاختلاف فیہ بالزیاواو متقصان ولمۃ والضعف الی مراتب لا نہایۃ لھا
سب انسان برابر ہیں ان میں سے اللہ جس کو چاہتا ہے درجہ نبوت دے دیتا ہے۔ اور بعض علما کی یہ رائے ہے کہ نبی ازروئے فطرت و خلقت کے نبی ہوتا ہے چنانچہ اسی آیت کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں یہ دونوں قول نقل کئے ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی اس مقام پر ان دونوں قولوں کی نقل کردیں وہ لکھتے ہیں کہ یہ بات جاننی چاہیے کہ اس مسئلہ میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے بعضوں نے کہا کہ نفوس اور اروح تمام ماہیت میں سب برابر ہیں پس نبوت اور رسالت کا ایک کو ملنا فلا جرم کانت مراتب الرسل مختلفۃ فئھم من حصلت لہ المعجزات القریۃ والتبع القلیل ومنھم من حصلت لہ معجزۃ واحدہ اوانثئتان وحصل لمرتبع عظیم ومنھم من کان مالرفق غالبا علیہ ومنھم من کان التشدید غالبا علیہ (تفسیر کبیر)
اور دوسرے کو نہ ملناخدا کی طرف سے شرف دینا اور احسان کرنا اور بزرگی دینا ہے۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ نقوش بشری اپنے جوہر اور اپنی ماہیت میں مختلف ہیں بعضے ان میں سے برگزیدہ اور علائق جسمانیات سے پاک اور انوار الٰہیہ سے روشن اور بلند درجہ پر منور ہوتے ہیں۔ اور بعضے ان میں سے خسیس اور گدلے جسمانیات سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں پس نفس جب تک کہ قسم اول سے نہ ہو وہ وحی، اور رسالت کے قبول کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر قسم اول میں زیادتی اور کمی اور قوت اور ضعف کے ان درجوں تک جن کی کچھ انتہا نہیں ہے اختلاف واقع ہوتا ہے اور اسی وجہ سے رسولوں کے درجے مختلف ہوتے ہیں پھر ان میں سے بعض ہیں جن کو معجزات قویہ حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہوتے ہیں جن کو ایک یا دو معجزے حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت سے ہوجاتے ہیں اور ان میں سے بعضوں پر نرمی غالب ہوتی ہے اور ان میں سے بعضوں پر تشدد غالب ہوتا ہے۔ گو اس تقریر میں ماہیت نفوس بشری میں تفرقہ کرنا شاید غلطی ہو خصوصا ان لوگوں کی رائے میں جو تمام نفوس حیوانی کی ماہیت کو متحد مانتے ہیں اور تفاوت مدارج کا اس کی صورت نوعیہ پر قرار دیتے ہیں جس سے وہ نقش متعلق ہے تاہم حاصل اس تقریر کا جو امام صاحب نے لکھی ہے یہی ہے کہ انبیاء میں ازروئے خلقت و پیدائش و فطرت کے ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے سبب سے وہ نبی ہوتے ہیں اس لیے خدا نے فرمایا کہ ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ غرضیکہ اس مطلب کو امام صاحب نے کسی تقریر سے بیان کیا ہو اور ہم نے کسی تقریر سے مطلب دونوں کا متحد ہوجاتا ہے اگر فرق رہتا ہے تو اس قدر رہتا ہے کہ ہمارے نزدیک جو ملکہ نبوت فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اپنے وقت حسین پر اسی طرح ظہور کرتا ہے جس طرح درخت میں سے پھول پھل اپنے وقت میں اس کے قوی ہوجانے کے بعد پیدا ہوتے ہیں جو بعثت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور امام صاحب کی تقریر کے مطابق باوصف فطرت کے موجود ہونے کے وہ فطرت رسالت دیئے جانے کی محتاج رہتی ہے اسی سبب سے ہم تو کہتے ہیں کہ البنی نبی فی بطن امہ اور امام صاحب یوں کہینگے کہ بعض الانسان قابل للنبوۃ فی بطن امہ اما ان یوتی اولا۔ شاہ ولی اللہ صاحب بھی تفہیمات میں اسی رائے کے موید معلوم ہوتے ہیں انھوں نے صاف لکھ دیا ہے کہ رائے کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے قرون اولیٰ کی نہیں ہے چنانچہ شاہ صاحب کا قول یہ ہے کہ : حقیقۃ النبوۃ ان یرید اللہ بعبادہ اصلا حا فیتدلی الیھم بوجودیشبہ الرجود العرضی قائم برجل زکی الفطرۃ تام الاخلاق نبتہ منہ اللطیفۃ الاسانیۃ لا یقال ذھب علماء اھل السنۃ الی ان النبوۃ محض فضل من اللہ تعالیٰ من غیر خصوصیتہ من العبد وانت ننبت لھم خصوصیۃ فی استعداد ھم لانا نقول ھذا قول نشاء بعد القرون المشھود لھا بالخیر فان مدلول الکتاب والسنۃ وما اجمع عطیہ الساف
نبوت کی یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اصلاح کا ارادہ کرے اور ان کی طرف ایک خاص توجہ اور عنایت مائل کرے (تدلی کے لغوی معنی ہیں ڈول کا کنوئیں میں لٹکانا) بسبب وجود کے جو قائم ہو ایک انسان کامل اور پاک طینت عمدہ خصلت میں جس کا لطیفہ انسانی بیدار اور خبردار ہو۔
ھوان الخصوصیۃ التی ترجع الی کثرہ المال وصباحۃ الوجد وغیر ذلک من حسنات التی یفتحز کیا العامۃ لادل لھا فی النوۃ وکان الکفار یقولون اما کان لنہ یجدر جلالی سالمۃ سوی یتیم ابی طالب لولا انزل القرآن علی رجل من القریتین عظیم فکشف اللہ تعالیٰ انشیبہ واشبع فی الردواما الصفات نباطنیۃ التی یتکم فیھا فلا شیہۃ ان الا بنیاء اتم الخلق یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ سب علمائے اسلامیہ کا یہ قول ہے کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے بندہ کی خصوصیت کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے اور اس تمہاری تقریر سے ان کے لیے ایک خصوصیت استعداد کی مثبت ہوتی ہے اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ قول بہت پیچھے بعداتقضائے قرون مشہور لہا بالخیر کے پیدا ہوا ہے فیھا واقواھم اخلاقا وازکاھم نفسا من نکرذلک لا یستحق ان یتکلم، لعبد لاعن سیرا لا نبیاء راسا الا تری ان ھو قل کیف قال وکذلک الانبیاء تبعث فی نسب قومھ وبالجملۃ فللرسالۃ رکنان دکن قابلیۃ عن الرسول ورکن تدل و تدبیر مس نفرسل (تفھمات)
کہ کتاب اللہ اور حدیث اور اجماع سلف سے یہ ثابت ہے کہ خصوصیت کثرۃ مال اور خوبی چہرہ کو (اور ایسی ہی اور صفات جن کو عام لوگ موجب فخر جانتے ہیں) نبوت میں کچھ دخل نہیں ہے کفاریہ کہا کرتے تھے کہ خدا کو اس ابوطالب کے یتیم کے سوا کوئی آدمی رسالت کے لیے نہ ملا کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دونوں شہروں کے کسی بڑے آدمی پر خدا تعالیٰ نے اس شبہ کو کھول دیا اور صاف طرح سے ان کے قول کو رد کردیا اور صفات باطنیہ جن میں ہم کلام کرتے ہیں وہ بلاشبہ انبیاء میں بہت زیادہ تھیں انبیاء سب خوبیوں کے پوری طرح سے جامع تھے ان کے اخلاق بہت اچھے تھے وہ نہایت پاک ذات تھے جو اس کا منکر ہے وہ کسی طرح اس لائق نہیں ہے کہ اس سے کلام کیا جاوے کہ وہ انبیاء کے خصائل اور خوبیوں سے بالکل دور ہے کیا نہیں معلوم ہے کہ ہرقل نے کہا تھا کہ انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں اپنی قوم کے عمدہ خاندان میں سے بھیجے جاتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ رسالت کے دو رکن ہیں ایک رکن استعداد اور قابلیت نبی کا اور دوسرا رکن توجہ اور عنایت اور تدبیر الٰہی کا۔